ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی : پانچواں حصہ


 ☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ☷☲☰


مسٹر رضا کی حیا کا حال تو سن چکے، اب ہماری بے حیائی کی داستان سنیئے۔ میری صرف و نحو بہت کمزور تھی، اور کمزور کیوں نہ ہوتی، شروع کیے ہوئے کے دن ہوئے تھے۔ اعراب میں ہمیشہ غلطی کرتا تھا۔ نثر کو تو سنبھال لیتا تھا مگر نظم میں دقت پڑتی تھی۔ شعر خود بھی کہتا تھا، دوسروں کے ہزاروں شعر یاد تھے اس لیے شعر کو تقطیع سے گرنے نہ دیتا تھا۔ میاں دانی کی حالت اس کے بالکل بر عکس تھی، وہ اعراب کی غلطی نہ کرتے تھے مگر شعر کو نثر کر دیتے تھے۔ سکتے تو کیا جھٹکے پڑ جاتے تھے۔ مولوی صاحب ہم دونوں کے پڑھنے سے بہت جز بز ہوتے تھے۔ 

ایک دن یہ ہوا کہ میرے پڑھنے کی باری تھی۔ میں نے ایک شعر پڑھا، معلوم نہیں کہاں کے اعراب کہاں لگا گیا۔ مولوی صاحب نے کہا، کیا پڑھا؟ میں سمجھا کہ اعراب میں کہیں غلطی ضرور ہوئی۔ تمام اعراب بدل کر شعر موزوں کر دیا۔ انہوں نے پھر بڑے زور سے ’’ہوں‘‘ کی۔ ہم نے پھر اعراب بدل دیے۔ اس سے ان کو غصہ آ گیا، دانی! تم تو پڑھو۔ انہوں نے شعر کا گلا ہی گھونٹ دیا، خاصے بھلے چنگے شعر کو نثر بنا دیا۔ اب کیا تھا مولوی صاحب کا پارا ایک سو دس ڈگری پر چڑھ گیا۔ کتاب اٹھا کر جو پھینکی تو کمرے سے گزر دالان میں ہوتی ہوئی صحن میں پہنچی اور نہایت غصیلی آواز میں کہا، نکل جاؤ بھی میرے گھر سے نکل جاؤ۔ نہ تم مجھ سے پڑھے کے قابل ہو اور نہ میں تمہارے پڑھانے کے لائق۔ 

دانی نے میری طرف دیکھا، میں نے دانی کی طرف دیکھا۔ انہوں نے آنکھوں آنکھوں میں کہا، چلو۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں جواب دیا، ہرگز نہیں۔ انہوں نے اٹھنے کا ارادہ کیا، میں نے ان کا زانو دبایا۔ مولوی صاحب کی یہ حالت تھی کی شیر کی طرح بپھر رہے تھے۔ 

آخر جب دیکھا کہ یہ لونڈے ٹس سے مس نہیں ہوتے تو کہنے لگے کہ اب جاتے ہو یا نہیں! میں نے کہا، مولوی صاحب جب تک کوئی دھکے دے کر نہ نکالے گا، اس وقت تک تو ہم جاتے نہیں اور جائیں گے تو ابھی پھر آجائیں گے۔ مولوی صاحب نے جو یہ بے حیائی دیکھی تو ذرا نرم ہوئے، کہنے لگے، اچھا نہیں جاتے ہو تو نہ جاؤ مگر میں ایک حرف تم کو نہ پڑھاؤں گا۔ میں نے کہا، نہ پڑھائیے، مگر بغیر پڑھے ہم یہاں سے ٹلے ہیں نہ ٹلیں گے۔ 

کہنے لگے، بیٹا! اس وقت میری طبیعت خراب ہو گئی ہے، اب چلے جاؤ کل آ جانا۔ دانی نے سچ جانا۔ میں سمجھا کہ اس وقت اٹھے اور مولوی صاحب ہاتھ سے گئے۔ دانی اٹھ کھڑے ہوئے، میں نے پکڑ کر ان کو بٹھا لیا۔ مولوی صاحب یہ تماشا دیکھتے رہے۔ میں نے کہا، مولوی صاحب پڑھیں گے تو آج پڑھیں گے اور آج پڑھیں گے تو اس وقت پڑھیں گے۔ پڑھانا ہے تو پڑھائیے ورنہ ہم کو یہاں سے نہ جانا ہے نہ جائیں گے۔ 

آخر کار ہم جیتے اور مولوی صاحب ہارے، کہنے لگے، خدا محفوظ رکھے! تم جیسے شاگرد بھی کسی کے نہ ہوں گے۔ شاگرد کیا ہوئے، استاد کے استاد ہو گئے۔ اچھا بھئی میں ہارا، میں ہارا۔ اچھا خدا کے لئے کتاب اٹھا لاؤ اور سبق پڑھ کر میرا پنڈ چھوڑو۔ دیکھئے کون سا دن ہوتا ہے کہ میرا تم سے چھٹکارا ہوتا ہے۔ میں جا کر صحن میں سے کتاب اٹھا لایا اور مولوی صاحب جیسے تھے ویسے کے ویسے ہو گئے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر اس دن تم چلے جاتے تو میرے گھر میں گھسنا نصیب نہ ہوتا۔ میں تمہارے شوق کو آزماتا تھا، مگر تم نے مجھے ہی آزما ڈالا۔ خدا ایسے شاگرد سب کو نصیب کرے۔ یہ بے حیائی نہیں، میاں یہ شوق ہے! علم کا جس کو چسکا ہوتا ہے وہ بری بھلی سب ہی کچھ سنتا ہے۔ بد شوق بھاگ نکلتے ہیں اور شوقین استاد کو دبا لیتے ہیں۔ 

پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ ہم میں سے کسی نے کتاب میں سے ایک شعر پڑھا اور مولوی صاحب نے کتاب الٹ کر میز پر رکھ دی۔ پہلے دانی کی طرف متوجہ ہوئے اور صرف و نحو کے نکات پر بحث شروع ہوئی۔ اس بحث میں مجھے بارہ پتھر باہر سمجھ لیا جاتا تھا۔ کبھی میں نے دخل بھی دیا تو مولوی صاحب نے فرمایا، مہربانی کر کے اس بارے میں اپنے دماغ پر زور ڈالنے کی تکلیف گوارا نہ فرمائیے۔ اس کے بعد معنی بیان کئے، نکات بتائے اور پھر اسی مضمون کے شعر اور مقولوں کا سلسلہ چھڑا۔ اب میاں دانی خارج از بحث ہو گئے۔ اول تو مجھے یوں ہی ہزاروں شعر یاد تھے، دوسرے خاص طور پر تیار ہو کر جاتا تھا، مولوی صاحب اگر ایک شعر پڑھتے تو میں دو پڑھنے کو تیار ہو جاتا۔ جب فریقین اپنا ہندوستانی گولہ بارود ختم کر چکتے تو یورپ اور انگلستان کے شعرا اور فلسفیوں کے مقولوں کا نمبر آتا، اس میں دانی بھی شریک ہو جاتے۔ اگر کوئی قصہ طلب شعر ہوا، اور اسی قسم کا کوئی ماجرا مولوی صاحب پر گزرا تھا تو اس قصے کے ساتھ اپنا قصہ بھی ضرور بیان کر دیتے۔ غرض ایک شعر کی تصریح میں آدھ آدھ گھنٹا گزر جاتا مگر اس کے بعد جو وہ شعر ذہن نشین ہوتا تو اس کا محو ہونا مشکل تھا۔ چنانچہ اب تک مجھے اکثر شعر یاد ہیں۔ 

اگر کوئی رزمیہ قصیدہ ہوا تو اس سلسلے میں اکثر غدر کے حالات بیان کرتے اور جو کچھ شرفائے دہلی پر اس طوفان بے تمیزی میں گزری تھی اس کی داستان نہایت دردناک الفاظ میں سناتے۔ اکثر کہا کرتے، میاں! بچارا بہادر شاہ مجبور تھا۔ کسی اور پر بھی اگر یہی مصیبت نازل ہوتی تو وہ بھی اسی طرح ان بد معاش تلنگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا۔ یہ لوگ کوئی بادشاہ کو فائدہ پہنچانے تھوڑی آئے تھے۔ ان کا مقصد توشہر لوٹنا تھا وہ پورا ہوا اور انہوں نے دہلی کو کھک کر دیا۔ ایک روز میں دریبے میں جا رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک فون کی فوج تلنگوں کی آ رہی ہے۔ میں بھی دبک کر گلاب گندھی کی دکان کے سامنے کھڑاہو گیا۔ آگے آگے بینڈ والے تھے مگر وہ ایسا اندھا دھند ڈھول ٹھونک رہے تھے کہ خدا کی پناہ، پیچھے کوئی پچاس ساٹھ سوار تھے مگر ان کی عجیب کیفیت تھی۔ 

گھوڑے کیا تھے، دھوبی کے گدھے معلوم ہوتے تھے۔ بیچ میں سوار تھے مگر گٹھریوں کی کثرت سے جسم کا کچھ تھوڑا ہی حصہ دکھائی دیتا تھا۔ یہ گٹھریاں کیا تھیں۔ دہلی کی لوٹ۔ جس بھلے آدمی کو کھاتا پیتا دیکھا اس کے کپڑے تک اتروا لیے۔ جس روپے پیسے والے کو دیکھا اس کے گھر پر جا کر ڈھئی دے دی اور کہا، چل ہمارے ساتھ قلعے کو، تو انگریزوں سے ملا ہوا ہے۔ جب تک کچھ رکھوا نہ لیا، اس کا پنڈ نہ چھوڑا۔ اگر دہلی کےچاروں طرف انگریز فوج کا محاصرہ نہ ہوتا تو شریف لوگ کبھی کے دہلی سے نکل گئے ہوتے۔ 

غرض خدائی فوج داروں کا یہ لشکر غل مچاتا، دین دین کے نعرے مارتا میرے سامنے سے گزرا۔ اس جم غفیر کے بیچوں بیچ دولہا میاں تھے۔ یہ کون تھے عالی جناب بہادر خاں صاحب سپہ سالار۔ لباس سے بجائے سپہ سالار کے دولہا معلوم ہوئے تھے۔ جڑاؤ زیور میں لدے ہوئے تھے۔ پہنتے وقت شاید یہ بھی معلوم کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کی گئی تھی کہ کون سا مردانہ زیور ہے اور کان سا زنانہ۔ صافے پر بجائے طرے کے، سرا سری لگائی تھی۔ جیسے خود زیور سے آراستہ تھے اسی طرح ان کا گھوڑا بھی زیور سے لدا ہوا تھا۔ ماش کے آٹے کی طرح اینٹھے جاتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا نعوذ باللہ خدا کی خدائی اب ان کے ہی ہاتھ میں آ گئی ہے۔ 

گلاب گندھی نے جوان لٹیروں کو آتے دیکھا، چپکے سے دکان بند کر دی اور اندر دروازوں سے بیٹھا جھانکتا رہا۔ خدا معلوم کیا تفاق ہوا کہ بہادر خاں کا گھوڑا عین اس کی دکان کے سامنے آکر رکا۔ بہادر خاں نے ادھر ادھر گردن پھیری، پوچھا، یہ کس کی دکان ہے؟ ان کے ایڈی کانگ نے عرض کی کہ گلاب گندھی کی۔ فرمایا۔ اس بد معاش کو خبر نہیں تھی کہ ما بدولت ادھر سے گزر رہے ہیں؟ دکان بند کر نے کے کیا معنی، ابھی کھلواؤ۔ خبر نہیں کہ اس حکم قضا شیم کا بچارے لالا جی پر اندر کیا اثر ہوا، ہم نے تو یہ دیکھا کہ ایک سپاہی نے تلوار کا دستہ کواڑ پر مار کر کہا دروازہ کھولو، اور جس طرح ’’سم سم کھل جا‘‘ کے الفاظ سے علی بابا کے قصے میں چوروں کے خزانے کا دروازہ کھلتا تھا اسی طرح اس حکم محکم سے گلاب گندھی کی دکان کھل گئی، بجنسہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تماشے کا پردہ اٹھ گیا۔ 

دروازے کے بیچوں بیچ لالا جی کانپتے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ کچھ بولنا چاہتے تھے مگر زبان یاری نہ دیتی تھی۔ اس وقت بہادر خاں کچھ خوش خوش تھے، شاید کسی موٹی اسامی کو مار کر آئے ہوں گے۔ کہنے لگے، تمہاری دکان سے بادشاہ کے ہاں عطر جاتا ہے؟ لالا جی نے بڑے زور سے گردن کو ٹوٹی ہوئی گڑیا کی طرح جھٹکا دیا۔ حکم ہوا کہ جو عطر بہتر سے بہتر ہو، وہ حاضر کرو۔ وہ لڑ کھڑاتے ہوئے اندر گئے اور دو کنٹر عطر سے بھرے ہوئے حاضر کئے۔ معلوم نہیں بیس روپے تولے کا عطر تھا یا تیس روپے تولے کا۔ بہادر خاں نے دونوں کنٹر لیے، کاگ نکالنے کی تکلیف کون گوارا کرتا۔ ایک کی گردن دوسرے سے ٹکرا دی، دونوں گردنیں کھٹ سے ٹوٹ گئیں۔ عطر سونگھا، کچھ پسند آیا، ایک کنٹر گھوڑےکی ایال پر الٹ دیا او ر دوسرا دم پر۔ کنٹر پھینک حکم دیا گیا۔۔۔ فارورڈ۔۔۔ اور اس طرح بچارے گلاب گندھی کا سیکڑوں روپے کا نقصان کر کے یہ ہندوستان کو آزادی دلانے والے چل دیے۔ ادھر اس خدائی فوج دار کا جانا ادھر ہم لونڈوں کا تالیاں بجانا، بچارے لالا جی نے کھسیانے ہو کر دکان بند کردی۔ 

بھئی غدر کے طوفان بے تمیزی میں نقصان تو جو ہونا تھا وہ ہوا، مگر کالج کی دور بین توڑ کر جو نقصان اس بے سری فوج نے ملک کو پہنچایا اس کی تلافی نا ممکن ہے۔ کالج میں پرنسپل صاحب کے کمرے کے اوپر ایک بڑی زبر دست دور بین نصب تھی۔ پرنسپل صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ دور بین کالج کے ایک بڑے دلدادہ انگریز نے کالج کی نذر کی ہے۔ اس کا سامنے کا شیشہ بڑی دقت سے تیار ہوا تھا۔ اس انگریز کے خاندان والوں نے برسوں میں اسے گھس کر پتلا اور اتنا پتلا کیا تھا کہ کاغذ سے بھی باریک ہو گیا تھا۔ غرض کہ یہ دوربین کالج کا سرمایہ ناز تھی۔ دور سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوٹھے پر ایک بڑی توپ لگی ہوئی ہے۔ غدر کے زمانے میں کسی بد معاش کی اس پر بھی نظر پڑ گئی۔ اس نے جا کر فوج میں اڑا دیا کہ انگریزوں نے راتوں رات کشمیری دروازے سے آ کر کالج کے اوپر توپ لگا دی ہے اور اب تھوڑی دیر میں قلعہ اڑا دیں گے۔ 

یہ سننا تھا کہ ساری فوج کالج پر چڑھ آئی، سیڑھیاں لگا سیکڑوں سپاہی چھت پر پہنچ گئے۔ کندہ نا تراش نے بندوق کا کندا سامنے کے شیشے پر مارا۔ چھن سے شیشے کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور ایک خاندان کی پچاس ساٹھ برس کی محنت خاک میں مل گئی۔ ان نابکاروں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ دور بین کی دور بین اٹھا نیچے پھینک دی اور چند ہی منٹ کے اندر دین دین کے نعروں میں اس یادگار سلف کا ان نا خلفوں کے ہاتھوں خاتمہ بالخیر ہو گیا۔ 

غدر کے ہزاروں واقعات مولوی صاحب سے سنے ہیں لیکن اکثر تو ایسے ہیں کہ ان کا زمانہ موجودہ میں دہرانا خطرناک ہے۔ اور بعض ایسے ہیں کہ وہ پوری طرح یاد نہیں رہے۔ ہم بی اے میں پڑھتے تھے کہ کیمبرج سے غدر کے متعلق ایک جواب مضمون پر انعام مقرر ہوا۔ ا س مضمون کے لیے شرط یہ قائم کی گئی تھی کہ کوئی واقعہ تاریخی کتاب سے نہ لیا جائے، جو کچھ لکھا جائے شہر کے بڈھے بڑھیوں سے دریافت کر کے لکھا جائے۔ میں نے یہی مضمون لکھا تھا اور مجھ کو یہ انعام ملا۔ میں نے اس مضمون میں ایک باب مولوی صاحب کے بیان کردہ قصوں کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ میں کرید کرید کر مولوی صاحب سے اس مضمون کے لیے واقعا ت دریافت کیا کرتا اور وہ خوشی خوشی بتاتے۔ اب وہ مضمون دریا برد نہیں تو دریا پار ضرور ہو گیا۔ مسودہ نہ رکھا ا ور نہ رکھنے کی عادت ہے، اس لئے اب اس کا ذکر کرنا ہی فضول ہے۔ 

ہمارے پڑھنے کا طریقہ تو سن چکے، اب مولویوں کی جماعت کا حال سن لیجئے۔ اس جماعت میں تمام کے تمام سرحد پار ہی کے لوگ تھے۔ لمبے لمبے کرتے، بڑی بڑی آستینیں، ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو تھان کی شلواریں، ’’شملہ بہ مقدار علم‘‘ کے لحاظ سے کئی کئی سیر کے پگڑ، لمبی لمبی داڑھیاں، غرض معلوم ہوتا تھا کہ افغانستان کا کوئی قطعہ اٹھا کر بتاشوں کی گلی میں رکھ دیا ہے۔ محنت کی یہ حالت تھی کہ رات رات بھر کتاب دیکھتے۔ ٹھوٹھ ایسے کہ باوجود اس محنت کے کورے کے کورے رہتے۔ 

مولوی صاحب ہمیشہ ہم سے ان کی موٹی عقل کی تعریف کیا کرتے اور کہتے، بھئی، میں ان ملانوں سے عاجز آ گیا ہوں، اپنا بھی وقت ضائع کرتے ہیں اور میرا بھی۔ جواب اس لئے نہیں دے دیتا کہ دل شکنی ہوگی، مگر کیا کروں، اللہ میاں نے ان کو ادب کے سمجھنے کا دماغ ہی نہیں دیا ہے۔ ہزار سمجھاتا ہوں، ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتا۔ بھلا ان کو حماسہ یا متنبی پڑھنے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ فوج میں نوکر ہو جائیں، محنت مزدوری کریں یا ہینگ کا تو بڑا گلے میں ڈال کر بیچتے پھریں۔ ہم کہتے، مولوی صاحب! آپ بھی غضب کرتے ہیں۔ رگڑ سے پتھر بھی گھس جاتا ہے۔ آخر متنبی نے ایسے کون سے شعر کہے ہیں جو غور کرنے سے سمجھ میں نہ آئیں۔ 

ایک روز فرمانے لگے، لو، آج تم ٹھہر جاؤ اور ان مولویوں کا رنگ بھی دیکھ لو، مگر دیکھو، کہیں ہنس نہ دینا، ورنہ چھرا ہی بھونک دیں گے۔ اس روز ہم کو بھی چھٹی تھی۔ ہم پڑھ کر فارغ ہو ئے تھے کہ یہ جماعت آ گئی۔ یہ لوگ مولوی صاحب کو گھیر کر بیٹھ گئے اور ہم اٹھ کر ایک کونے میں جا بیٹھے۔ اس روز مقامات حریری کا سبق تھا۔ کتابیں کھولی گئی اور ایک صاحب نےبڑی گرجتی ہوئی آواز میں اعوذ باللہ سے سبق شروع کیا۔ زید بن حارث کے سفر کا حال تھا اور رات کے وقت سفر کرنے کو فی آناء اللیل سے ادا کیا تھا۔ ان بھلے آدمیوں نے قاموس دیکھ کر مطالعہ کیا تھا۔ اس میں شامت اعمال سے ’’اناء‘‘ کے معنی مٹکے کے بھی ہیں۔ اللہ دے اور بندہ لے، انہوں نے یہاں مٹکا پھنسا دیا اور نہایت متانت سے ’فی آناء اللیل‘ کے معنی’’رات کے مٹکے میں سفر کیا‘‘ سے کر دیے۔ 

مولوی صاحب نے فرمایا، ’’اناء‘‘ کے دوسرے معنی بھی توہیں۔ پڑھنے والے صاحب نے کہا، جی ہاں کئی معنی ہیں، لیکن اس مقام پر’ مٹکا‘ہی زیاہ چسپاں ہوتا ہے۔ ہم کو ہنسی آئی، مولوی صاحب نے مسکرا کر، ان لوگوں نے نہایت برے برے دیدوں سے ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے سوچا، بھائی یہاں ہمارا ٹھکانا نہیں، یہاں سے کھسک جانا ہی مناسب ہے، کہیں کوئی اٹھ کر گلا نہ گھونٹ دے۔ ہم نے اجازت چاہی۔ مولوی صاحب کہتے ہی رہے کہ بیٹھو، ذرا اور کچھ سن جاؤ، ہم نے کہا، مولوی صاحب! ہم کو کام ہے، کسی اور دن دیکھا جائے گا۔ یہ کہہ جوتیاں پہن سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ کوٹھے سے اتر جو ہنسنا شروع کیا تو گھر پہنچتے پہنچتے بڑی مشکل سے ہنسی رکی۔ اب جب کبھی خیال آتا ہے تو اس جماعت کا نقشہ آنکھوں کے نیچے پھر جاتا ہے۔ اور رات کے مٹکے میں سفر کرنے کا فقرہ ہنساتا نہیں مسکراہٹ ضرور پیدا کردیتا ہے۔ 

مولوی صاحب کو اپنے ترجمے پر ناز تھا اور اکثر اس کا ذکر فخریہ لہجے میں کیا کرتے تھے۔ اردو ادب میں ان کی جن تصنیفات نے دھوم مچا دی ہے وہ ان کے نزدیک بہت معمولی چیزیں تھیں۔ وہ کہا کرتے تھے میری تمام عمر کا اصلی سرمایہ کلام مجید کا ترجمہ ہے۔ اس میں مجھے جتنی محنت اٹھانی پڑی ہے اس کا اندازہ کچھ میں ہی کر سکتا ہوں۔ ایک ایک لفظ کے ترجمے میں میرا سارا سارا دن صرف ہو گیا ہے۔ میاں! سچ کہنا کیسا محاورے کی جگہ محاورہ بٹھایا ہے۔ ہم نے کہا، مولوی صاحب! بٹھایا نہیں ٹھونسا ہے۔ جہاں یہ فقرہ کہا اور مولوی صاحب اچھل پڑے۔ بڑے خفا ہوتے اور کہتے۔ کل کے لونڈو! میرے محاوروں کو غلط بتاتے ہو! میاں میری اردو کا سکہ تمام ہندوستان پر بیٹھا ہوا ہے خود لکھو گے تو چیں بول جاؤ گے۔ 

محاوروں کی بھرمار کے متعلق اکثر مجھ سے ان کا جھگڑا ہوا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ کہا کرتا تھا، مولوی صاحب! آپ نے محاوروں کی کوئی فہرست تیار کر لی ہے اور کسی نہ کسی محاورے کو آپ کسی نہ کسی جگہ پھنسا دینا چاہتے ہیں، خواہ اس کی گنجائش وہاں ہو یا نہ ہو۔ جناب والا! اہل زبان کو یہ دکھانے کی ضرورت نہیں کہ وہ محاوروں پر حاوی ہے۔ یہ صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم باہر والے نہیں، دہلی والے ہیں۔ تھوڑی دیر تو حجت کرتے، اس کے بعد کہتے، اچھا بھئی! تم ہی دہلی والے سہی۔ ہم تو اسی طرح لکھیں گے جس طرح اب تک لکھا ہے۔ تم ہم کو دہلی والوں کی فہرست سے نکال دو، مگر میاں! اپنا ہی نقصان کرو گے۔ 

✍️: مرزا فرحت اللہ بیگ
𑁔𑁔★ جاری ہے ۔ ۔ ۔ ★𑁔𑁔 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی