☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ☷☲☰
✍️: مرزا فرحت اللہ بیگ
مجھ کو مولوی صاحب کے طرز تحریر پر کوئی رائے ظاہر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اول تو میرے لئے ابتدا ہی میں ’’خطائے بزرگاں گرفتن، خطا است‘‘ کی سب سے بڑی ٹھوکر ہے۔ دوسرے میری قابلیت محدود کی سرحد سے گزر کر مفقود کی سرحد میں آ گئی ہے، لیکن باوجود موانعات کے، میں نے مولوی صاحب کے سامنے یہی کہا، اب بھی کہتا ہوں اور ہمیشہ کہوں گا کہ محاوروں کے استعمال کا شوق مولوی صاحب کو حد سے زیادہ تھا۔ تحریر میں ہویا تقریر میں وہ محاوروں کی ٹھونسم ٹھانس سے عبارت کو بے لطف کر دیتے تھے، اور بعض وقت ایسے محاورے کا استعمال کر جاتے تھے جو بے موقع ہی نہیں اکثر غلط ہوتے تھے۔
خدا معلوم انہوں نےمحاوروں کی کوئی فرہنگ تیار کر رکھی تھی یا کیا! ایسے ایسے محاورے ان کی زبان اور قلم سے نکل جاتے تھے جو نہ کبھی دیکھے نہ سنے۔ ان کی عبارت کی روانی اور بے ساختگی کا جواب دوسری جگہ ملنا مشکل ہے، مگر چلتے چلتے راستے میں عربی الفاظ کے روڑے ہی نہیں بچھاتے تھے بلکہ پہاڑ رکھ دیتے تھے۔ غرض یہ تھی کہ لوگ یہ جان لیں کہ میں دہلی والا ہی نہیں ہوں مولوی بھی ہوں۔ بہر حال ان کی تحریر کا ایک خاص رنگ ہے اور اس کی نقل اتارنا مشکل اور بہت مشکل ہے۔
ترجمہ کرنے کا انہیں خاص ملکہ تھا، وجہ یہ تھی کہ کئی زبانوں پر حاوی تھے۔ اگرایک زبان کے لفظ سے مطلب ادا نہ ہوا تو دوسری زبان کا لفظ وہاں رکھ دیا۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ 1903 کے دربار تاج پوشی پر جو انگریزی کتاب لکھی گئی تھی اس کا ترجمہ مولوی صاحب کے سپرد ہوا۔ ایک روز جو ہم پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ خوبصور ت سی جلد کی ایک بڑی موٹی کتاب مولوی صاحب کی میز پر رکھی ہے۔ ہم نے اجازت لے کر کتاب اٹھائی اور اول سے آخر ساری تصویریں دیکھ ڈالیں۔ اول تو مولوی صاحب بیٹھے دیکھتے رہے، پھر کہنے لگے، بیٹا! یوں سر سری نظر سے کیا دیکھتے ہو، گھر لے جاؤ اچھی طرح پڑھو، مگر دیکھو خراب نہ کرنا۔ ہم دونوں نے دل میں سوچا کہ خدا معلوم کیا بھید ہے جو مولوی صاحب بغیر مانگے اپنی کتاب دے رہے ہیں۔
خوش خوش کتاب بغل میں مار گھر آئے۔ دو ایک روز میں پڑھ ڈالی، ایک آدھ تصویر بھی غائب کر دی۔ چوتھے روز کتاب لے جا مولوی صاحب کے حوالے کی۔ پوچھا، کہو پسند آئی؟ ہم نے کہا، مولوی صاحب! خوب کتاب ہے۔ کہنے لگے۔ اچھی کتاب ہے تو ترجمہ کر ڈالو، ہم نے کورا جواب دے دیا۔ کہا، دیکھو، سنو اس کتاب کا ترجمہ مجھے کرنا ہے، تم سے ترجمہ کراؤں گا، صحیح میں کر دوں گا۔ اب مجھ میں اتنا دم نہیں کہ اتنی بڑی کتاب کا ترجمہ کر سکوں۔ اگر اب کے انکار کیا تو کل سے گھر میں گھسنے نہ دوں گا۔ یہ کہتے کہتے کتاب کی جلد توڑ، دس صفحے میرے اور دس میاں دانی کےحوالے کر دیے۔ ساتھ ہی میاں رحیم بخش کو آواز دی۔ وہ آئے، ان کو حکم دیا کہ ایک ایک دستہ بادامی کاغذ کا ان دونوں کو دے دو۔ ’’قہر درویش بر جان دروش‘‘ کی صورت تھی۔ جس طرح پہلے خوشی خوشی پوری کتاب لے گئے تھے اسی طرح منہ بنائے ہوئے ان پلندوں کو بغل میں مارا۔
گھر آکر بے کار کے کام کی طرح ترجمہ کیا۔ دوسرے روز جا کر پڑھنے کے لیے کتاب اٹھائی، پوچھا، ترجمہ لائے؟ ہم نے دبی ہوئی آواز میں کہا، لائے۔ کہا، پہلے وہ پڑھو۔ ہم پڑھتے جاتے اور مولوی صاحب اصل کتاب دیکھ کر اس کی درستی کرتے جاتے۔ اب اگر میں یا دانی کہیں کہ یہ ترجمہ ہمارا ہے تو یقین مانئے کہ دونوں جھوٹے ہیں۔
مولوی صاحب کی اصلاح نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور ہم نے سمجھ لیا کہ اس علم میں بھی مولوی صاحب سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد سے ہماری مولوی صاحب سے بڑی جنگ ہوئی، کیونکہ بندہ خدا نے ہم دونوں غریبوں کا اس میں ذرا بھی ذکر نہیں کیا مگر کچھ پروا نہیں۔ اس کا بدلا ہم اب لیے لیتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ کہے دیتے ہیں کہ اس کتاب میں تھوڑے بہت لفظ ہم دونوں کے بھی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اگر اصلاح شدہ مسودوں کو دیکھا جائے تو کاٹ چھانٹ کی وجہ سے ہمارے لفظوں کا تلاش کرنا سر میں لیکھیں دیکھنے سے کم مشکل نہ ہوگا۔
ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مولوی صاحب چونکہ کئی زبانوں پر حاوی تھے اس لیے ان کو کہیں نہ کہیں سے مناسب لفظ ادائے مطلب کے لیےضرور مل جاتا تھا۔ مثلاً اسی جشن تاج پوشی کی کتاب میں ایک جگہ لفظ Stallion آیا۔ ڈکشنری میں جو دیکھا تو اس کے معنی ’’سیاہ بڑا جنگی گھوڑا‘‘ نکلے، یاروں نے ترجمے میں وہی لفظ ٹھونک دیے۔ جب مولوی صاحب نے یہ الفاظ سنے تو بہت ہنسے، کہنے لگے، واہ بیٹا واہ! کیوں نہ ہو دہلی والے ہو، خالص اردو لکھی ہے، بندہ خدا ’’شبدیز‘‘ لکھ دو، چلو چھٹی ہوئی۔ اب کوئی صاحب اس سے بہتر لفظ بتا دیں تو میں جانوں۔ ان کے ترجمے میں خوبی یہ ہوتی تھی کہ لفظ کی جگہ لفظ بٹھاتے تھے لیکن وہ لفظ ایسا ہوتا تھا کہ وہاں نگینہ بن جاتا تھا۔
’’تعزیرات ہند‘‘ کا ترجمہ اٹھا کر دیکھو، وہی لفظ پر لفظ ہے معنی بھی پورے دیتا ہےاور اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا۔ سیکڑوں کتابوں کے ترجمے ہوئے۔ دوسری اشاعت میں کچھ اور تیسری میں کچھ کے کچھ ہو گئے۔ لیکن ’’تعزیرات ہند‘‘ کا ترجمہ جوں کا توں ہے۔ ایک لفظ ادھر سے ادھر نہیں ہوا۔
کہا کرتے تھے کہ’’تعزیرات ہند‘‘ کا ترجمہ بھی میرا ایک کارنامہ ہے۔ اس کتاب کے ترجمے کا کام تین آدمیوں کے سپرد ہوا تھا، ان میں ایک مولوی عظمت اللہ صاحب تھے۔ اس کی اصلاح ڈائرکٹر صاحب کے ذمے تھی اور ہم ڈائرکٹر صاحب کے رشتے دار تھے۔ روزانہ ایک دو دفعات کا ترجمہ آتا، ہم ڈائرکٹر صاحب کو سناتے۔ وہ بڑا غل مچاتے کہ یہ لفظ خلاف محاورہ ہے، اس لفظ سے مفہوم ادا نہیں ہوتا یہ لفظ اپنی طرف سے بڑھا دیا گیا ہے۔ غرض دو تین دفعات کہیں تین چار گھنٹے میں پاس ہوتیں۔ مجھے بڑا تاؤ آتا تھا کہ ترجمہ کرے کوئی، یہ باتیں سنے کوئی مگر بھئی یہ ضرور کہوں گا کہ وہ بھلا آدمی جو بات کہتا تھا، باون تولے پاو رتی کی کہتا تھا۔ جو اعتراض کرتا تھا وہ اٹھائے نہ اٹھتا تھا۔ میاں! پرانے زمانے کے انگریز غضب کی اردو سمجھتے تھے۔ گو اچھی اردو لکھ نہ سکیں مگر ترجمے کی وہ وہ غلطیاں نکالتے تھے کہ تم جیسے دہلی والوں کے کان پکڑوا دیں۔
میں بھی ترجمہ دیکھتا تو واقعی کچھ اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا تھا۔ میں نے دل میں کہا نذیر احمد! تو بھی خم ٹھونک کر میدان میں کیوں نہیں آ جاتا۔ اردو جانتا ہے، فارسی جانتا ہے، عربی جانتا ہے کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بھی سمجھتا ہے۔ ان لوگوں سے اچھا نہیں تو کم سے کم ایسا ترجمہ تو تو بھی کر لے گا۔ یہ سوچ، سوا روپے کی رائل ڈکشنری بازار سے خرید لایا، رات کو لمپ جلا کر کپڑے اتار، لنگوٹ باندھ، ترجمے پر پل پڑا۔ جن دفعات کا ترجمہ دوسرے روز پیش ہونے والا تھا ان کا خود ترجمہ کر ڈالا۔ دوسرے دن ترجمہ جیب میں ڈال، دفتر پہنچا۔ ڈائرکٹر صاحب آئے، مجھے بلایا اور ان لوگوں کے ترجمے کو سن کر وہی گڑ بڑ شروع کی۔ خدا خدا کر کے یہ مشکل آسان ہوئی۔ میں نے کہا کہ کم ترین بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔
کہا، اچھا کہو۔ میں نے جیب میں سے کاغذ نکالا۔ وہ سمجھے عرضی ہے، لینے کو ہاتھ بڑھایا۔ میں نے کہا، عرضی نہیں، آج کی دفعات کا ترجمہ میں نے کیا ہے۔ ڈائریکٹر صاحب یہ سن کر اچھل پڑے، کہنے لگے، تم نے! تم نے ترجمہ کیا ہے! تم کو تو انگریزی نہیں آتی، پھر ترجمہ کیسے کیا؟ میں نے کہا رائل ڈکشنری سے۔ انہوں نے ہنس کر کہا، ’’تعزیرات ہند‘‘ کا ترجمہ رائل ڈکشنری سے نہیں ہوا کرتا۔ میں نے کہا، سن تو لیجئے۔ کہا، اچھا سناؤ۔ میں نے جو پڑھا تو صاحب بہادر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کہنے لگے، یہ ترجمہ تم نے رائل ڈکشنری سے کیا ہے؟ میں نے کہا، ہاں۔ کہنے لگے، کل شروع کی چار دفعات کا ترجمہ کر کے لاؤ۔ میں دوسرے دن لے کر گیا۔ بہت پسند کیا ور کہا تم نے پہلے ہی کیوں نہ کہا کہ میں ترجمہ کر سکتا ہوں، جو میرا اتنا وقت ضائع کرایا۔ جاؤ تم بھی ان ترجمہ کرنے والوں میں شریک ہوجاؤ۔ اس دن سے ہم بھی پانچوں سواروں میں مل گئے اور یہی ہماری ترقی کا زینہ تھا۔
اب رہے ہماری تصنیفات پر انعام، وہ تو اللہ میاں نے چھپر پھاڑ کر دیے ہیں۔ اگر کوئی کہتا بھی کہ ’’مرآۃ العروس‘‘ پر تم کو انعام ملے گا تو میں اس کو دیوانہ سمجھتا۔ اصل یہ ہے کہ یہ کتاب میں نے اپنی لڑکی کے لئے لکھی تھی وہی پڑھا کرتی تھی۔ میاں بشیر کو ’’چند پند‘‘ لکھ کر دی تھی۔ میں اس زمانے میں تعلیمات کا انسپکٹر تھا۔ دورے پر نکلے تھے، بال بچے ساتھ تھے۔ ایک جگہ ٹھہرے تھے۔ مستر کیمپ سن ڈائرکٹر تعلیمات کا ڈیرا بھی قریب میں آ لگا۔ شام کا وقت تھا، میاں بشیر اپنی ٹٹوانی پر سوار ہو کر ہوا خوری کو نکلے۔ ادھر سے ڈائرکٹر صاحب آ رہے تھے۔ میاں بشیر نے جھک کر سلام کیا۔
صاحب ٹھہر گئے، پوچھا، میاں تمہارا کیا نام ہے؟ انہوں نے نام بتایا۔ پھر پوچھا، تمہارے والد کون ہیں؟ میرا نام بتایا۔ پھر پوچھا، کہو میاں کیا پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا، ’’چند پند۔‘‘ ڈائرکٹر صاحب سمجھے تھے کہ اردو کی پہلی یا دوسری کہے گا۔ ’’چند پند‘‘ کا نام سن کر پریشان ہوئے، کیونکہ اس عجیب و غریب نام سے ان کے کان نا آشنا تھے، کہا، ہمیں اپنی کتاب دکھاؤ گے؟ بشیر نے کہا، جی ہاں، ابھی لاتا ہوں۔ ہماری آپا کی بھی کتاب دیکھئے گا۔ انہوں نے کہا، اس کتاب کا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا، ’’مرآۃ العروس۔‘‘ یہ دوسرا نیا نام تھا۔ صاحب نے کہا، ہاں وہ بھی لاؤ۔
میاں بشیر ٹٹوانی سے کود بھاگتے ہوئے ڈیرے میں آئے، اپنا جزدان کھول ’’چند پند‘‘ نکالی۔ اس کے بعد اپنی بہن کے جزدان پر قبضہ کیا۔ اس نے جودیکھا کہ بشیر جزدان ٹٹول رہا ہے، تو دوڑی ہوئی گئی۔ اتنے میں بشیر ’’مرآۃ العروس‘‘ لےکر بھاگا، یہ اس کے پیچھے بھاگی۔ دونوں میں بڑی دھینگا مشتی ہوئی، خوب رونا پیٹنا ہوا۔ بشیر بہن کو دھکا دے، کتاب لے، یہ جا وہ جا۔ بہن صاحبہ نے دل کا بخار آنسو بہا کر نکالا۔ میاں بشیر نے دونوں کتابیں لے جا صاحب کے حوالے کیں۔ انہوں نے الٹ پلٹ کر کچھ پڑھا اور بشیر سے کہا، ہم یہ کتابیں لے جائیں؟ کل بھجوا دیں گے۔ انہوں نے کہا، لے جائیے کل ہم کو چھٹی رہے گی۔
میں جو ڈیرے میں آیا تو کیا دیکھا ہوں کہ قیامت مچ رہی ہے۔ لڑکی نے رو رو کر آنکھیں لال کر لی ہیں، میاں بشیر ڈرے سہمے ڈیرے کے ایک کونے میں دبکے بیٹھے ہیں۔ میرا اندر قدم رکھنا تھا کہ فریاد کی صدا بلند ہوئی۔ صاحب زادی نے رو رو کر اس طرح واقعہ بیان کیا جس طرح کسی عزیز کے مرنے کا کوئی بین کرتا ہے۔ میں نے بشیر کو بلایا۔ وہ ڈرے کہ کہیں ٹھکائی نہ ہو جائے، پہلے ہی بسورنا شروع کیا۔ وہ دبے جاتے تھے اور بہن شیر ہوئی جاتی تھی۔ آخر بڑی مشکل سے اتنا معلوم ہوا کہ ایک انگریز دونوں کتابیں لے کر چلا گیا۔ میں نے جا کر سائیس سے پوچھا کہ وہ انگریز کون تھا؟ تو معلوم ہوا کہ سامنے جو ڈیرے پڑے ہیں، ان میں وہ اترے ہیں۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ بھلا ڈائرکٹر صاحب کو بچوں کی کتابوں سے کیا کام! خیر لڑکی کو دلاسا دیا کہ میں لا دوں گا، نہیں تو دوسری لکھ دوں گا، اس نے کہا میں لوں گی تو وہی کتاب لوں گی۔ بڑی مشکل سے اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔
اب فکر ہوا کہ صاحب سے پوچھوں تو کیونکر پوچھوں! سمجھ ہی میں نہیں آتا تھا کہ صاحب کا مطلب اس طرح بچوں کی کتابیں منگانے سے کیا ہو سکتا ہے! غرض اسی شش و پنج میں صبح ہو گئی۔ کوئی سات بجے ہوں گے کی صاحب کا چپراسی آیا اور کہا کہ صاحب سلام بولتے ہیں۔
وہاں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب بیٹھے’مرآۃ العروس‘ پڑھ رہے ہیں۔ سلام کر کے کرسی پر بیٹھ گیا۔ صاحب نے کہا، مولوی صاحب! آپ نے ایسی مفید اور دلچسپ کتابیں لکھیں اور طبع نہ کرائیں! اگر کل آپ کا لڑکا مجھ کو نہ ملتا تو شاید کوئی بھی ان کتابوں کو نہ دیکھتا اور چند ہی روز میں بچوں کے ہاتھوں یہ کتابیں پھٹ پھٹا کر برابر ہو جاتیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ’’مرآۃ العروس‘‘ کو سرکار میں پیش کر دوں۔ آج کل گورنمنٹ ایسی کتابوں کی تلاش میں ہے جو لڑکیوں کے نصاب تعلیم میں داخل ہو سکیں۔ میں نے کہا، آپ کو اختیار ہے یہ کہہ کر میں چلا آیا۔
صاحب نے وہ کتاب گورنمنٹ میں پیش کردی۔ وہاں سے انعام ملا، یہاں شیر کے منہ کو خون لگ گیا، اوپر تلے کئی کتابیں گھسیٹ ڈالیں۔ جو کتاب لکھی، اس پر انعام ملا۔ جو لکھا گیا پسند کیا گیا۔ غرض ہم مصنف بھی بن گئے اور ساتھ ہی ڈپٹی کلکٹر بھی ہو گئے مگر بھئی بات یہ ہے کہ انسان کا جتنا عہدہ بڑھتا جاتا ہے اسی طرح اس کی فرصت کا وقت بھی گھٹتا جاتا ہے۔ یہی مصیبت ہم پر پڑی۔ ادھر کام کی زیادتی، ادھر سر سید کی فرمائشوں کی بھر مار، آج یہاں لکچر دیا، کل وہاں دیا، تصنیف کا سلسلہ ہی ٹوٹ گیا۔
خدا خدا کر کے بڑھاپے میں فرصت ملی تو قرآن شریف حفظ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ شوق ہوا کہ اس کا ترجمہ بھی کر ڈالو، لوگوں کو بھی مفید ہوگا اور شاید تمہاری نجات کا بھی ذریعہ ہو جائے گا۔ غرض جتنی محنت ممکن تھی، اتنی محنت کی۔ اسی ترجمے کے سلسلے میں ’الحقوق و الفرائض‘ کا مواد بھی جمع کر لیا۔ کلام مجید کی دعاؤں کو بھی ایک جگہ اکٹھا کر لیا۔ غرض ایک پنتھ اور کئی کاج ہو گئے۔ مگر بھئی سچ کہنا کہ کیسا ترجمہ کیا ہے؟ میں خاموش رہا، مگر دانی نے کہا کہ مولوی صاحب! ہم کو اس ترجمے کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مولوی صاحب نے کہا، ہیں میاں دانی! یہ کیا کہا؟ تم نے ابھی تک میرا ترجمہ نہیں دیکھا؟ بھئی غضب کیا۔ ارے میاں رحیم بخش! ذرا ادھر تو آنا، وہ جو سنہری جلد کی حمائل شریف ہے وہ میاں دانی کو دے دو۔ بیٹا! ذرا اس کو غور سے پڑھو، دیکھو تو میں نے اس بڑھاپے میں کیا محنت کی ہے۔ غرض حمائل شریف میاں دانی کے قبضے میں آ گئی۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ آپ کی یاد گار رہے گی۔ جب ہم اٹھ کر چلنے لگے تو مولوی صاحب نے دانی سے کہا، ارے بھئی۔ ایک بات تو کہنی بھول گیا، اس حمائل شریف کا ہدیہ ساڑھے پانچ روپے ہے، کل ضرور لیتے آنا۔ بچارے کا شکریہ اکارت گیا اور دوسرے روز پورے ساڑھے پانچ روپے مولوی صاحب نے دھرا لیے۔
مولوی صاحب نے اس عاجز پر بھی رقمی حملے کیے لیکن یہ ذرا ٹیڑھا مقابلہ تھا۔ ایک چھوڑ کئی کتابیں مولوی صاحب سے اینٹھیں، کبھی ایک پیسا نہ دیا۔ یہ نہیں کہ خدا نخواستہ وعدہ کرتا اور رقم نہ دیتا، میں اس وقت تک کتاب لیتا ہی نہ تھا جب تک مولوی صاحب خود نہ فرما دیتے کہ اچھا بھئی تو یوں ہی لے جا مگر میرا پیچھا چھوڑ۔ میری ترکیب یہ تھی کہ پہلے کتاب پر قبضہ کرتا، مولوی صاحب قیمت مانگتے، میں حجت کرتا، وہ جواب دیتے، میں اس کاجواب دیتا، غرض بہت کچھ جھک جھک کے بعد تھک کر کہتے کہ جاؤ میں نے قیمت معاف کی، آئندہ میری کسی کتاب کو ہاتھ لگایا تو اچھا نہیں ہوگا، مگر خدا غریق رحمت کرے! ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب مجھ کو دے دیتے تھے اور جان جان کر جھگڑتے تھے۔ ریویو کے لیے جو کتابیں آتیں، وہ تو ہمارے باپ دادا کا مال تھیں۔ وہ پورا ریویو لکھنے بھی نہ پاتے کہ کتاب کے صفحہ اول پر میرا نام درج ہو کر شہادت دستاویزی اور ثبوت قبضہ کی شکل اختیار کر لیتا۔ اس وقت بھی میرے پاس اس زمانے کی بعض کتابیں موجود ہیں۔ معلوم نہیں کہ میاں دانی کو جو حمائل شریف عطا ہوئی تھی وہ ان کے پاس رہی یا نہیں۔
𑁔𑁔★ جاری ہے ۔ ۔ ۔ ★𑁔𑁔