🕌👈بیوی کا انتقال کی صورت میں شوہر سے رشتہ ختم ہونے کی بحث👉🕌


 🌷 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌷


ا҉҉ٓ҉҉ي҉҉ٔ҉҉ی҉҉ ҉҉ٹ҉҉ی҉҉ ҉҉د҉҉ر҉҉س҉҉گ҉҉ا҉҉ہ҉҉ ҉҉ک҉҉م҉҉ی҉҉و҉҉ن҉҉ٹ҉҉ی҉҉
آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی 
🌼👈سلسلہ: آپ کے مسائل اور انکا حل👉🌼


🕌👈بیوی کا انتقال کی صورت میں شوہر سے رشتہ ختم ہونے کی بحث👉🕌

السلام علیکم ! حضرت مفتی صاحب ! جیسا کہ فتویٰ دیا جاتا ہے کہ فوتگی کی صورت میں میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے اور شوہر بیوی کو غسل نہیں دے سکتا جبکہ بیوی بوجہ عدت اور بقدر ضرورت شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ فوت ہونے کی صورت میں نکاح ختم ہونے کی دلیل قرآن و حدیث سے ہے یا کہ علماء کے فتاویٰ جات کے تحت۔ 
بینوا و توجروا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔المستفتی ، تنویر ، اسلام آباد

💡👈الجواب حامدا و مصلیا 👉💡

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!  اولا یہ ذہن نشین کرلیں کہ کتاب و سنت کے آثار کے بغیر صرف علماء مجتہدین  کے فتاوی کی بنیاد پرکوئی حکم  قائم نہیں کیا جاتا بلکہ ہر حکم کی دلیل کسی نہ کسی درجے میں  کتاب و سنت ضرور ہوتی ہے اور یہ اختلاف کسی مسئلے میں کتاب و سنت سے مفہوم  ایک سے زاید صورتوں میں ہوتا ہے  چناں چہ ایک مجتہد کے نزدیک ایک صورت ثابت اوراس کی دلیلیں زیادہ قوی ہوتی ہیں تو دوسرے مجتہد  کے نزدیک دوسری صورت ثابت اور اس کی دلیلیں زیادہ قوی ہوتی ہیں  ۔ 
اب یہ سوال کہ جب بیوی فوت ہوجائے توخاوند سے اس کا رشتہ ختم ہونے پر  قرآن و سنت سے اس کی کیا دلیللیں ہیں؟ یاد رہے کہ جیسا کہ ما قبل میں رقم کیا گیا کہ کسی مسئلے میں کتاب و سنت سے جب ایک سے زیادہ صورتیں مفہوم ہوتی ہوں تو پھر ان میں بعض کے نزدیک ایک صورت ثابت اور بعض کے نزدیک دوسری صورت  ثابت ہوتی ہے  تو یہ مسئلہ  بھی ان مباحث میں سےہے جس میں اختلاف ہے وہ حضرات جن کےنزدیک شوہر اپنی بیوی کی میت کو غسل دے سکتا ہے ۔ ان کے پاس اس پردو دلیلیں ہیں:-
پہلی دلیل :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورﷺ بقیع سے تشریف لائے، تو مجھے درد سر میں مبتلا پایا، میں شدت درد سے کہہ رہی تھی: ”ہائے میرا سر“
حضورﷺ نے فرمایا: نہیں عائشہ ! میں کہتا ہوں" میرا سر" (مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کی طبیعت ناساز تھی اور یہ واقعہ حضور ﷺ کی زندگی کے انتہائی آخری ایام میں ہوا تھا، اور اس کے فوراً بعد حضور ﷺ کو مرض الموت لاحق ہوگیا تھا۔ پھرحضورﷺ نے فرمایا: اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوگئی تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا، کیوں کہ میں ہی تم کو غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا اور جنازہ پڑھ کر دفن کروں گا۔(1)
دوسری دلیل : حضرت ام جعفر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (تمام جنتی عورتوں کی سردار خاتون جنت )حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا : کہ اے اسماء !  جب میں وصال کرجاؤں تو تم اور علی (رضی اللہ عنہما) مجھے غسل دینا ۔سو ان کو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے غسل دیا ۔(2)
جب کہ ہماری طرف سے  پہلی دلیل کے  یہ  جوابات ہیں :-
(!) یہ واقعہ صحیح بخاری میں ذکر ہےلیکن اس میں غسل کا ذکر نہیں ہے چناں چہ  جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کہ ہائے رے سر! تو اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر ایسا میری زندگی میں ہوگیا (یعنی تمہارا انتقال ہو گیا) تو میں تمہارے لیے استغفار اور دعا کروں گا۔  (3) 
(!!) جب کہ دیگر کتب میں اس کی سند کی صحت اور اسے  دلیل بنانے پر علماء نے  کلام کیا ہے ۔یعنی یہ ضعیف ہے (4)
(!!!)اگر ضعیف ہونے کے باوجود بھی اسے دلیل مانا جائے تو بھی اسے حضور ﷺ کی خصوصیت  سے تعبیر کیا جائے گا کیوں کہ حضورﷺ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے نکاح میں آنے کے بعد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن دنیا و آخرت میں آپ کی زوجات ہیں حتی کہ آپ ﷺ کا دنیا سے پردہ فرمانے کے باوجود بھی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن  آپ ﷺ کی بیویاں رہی ہیں۔   چناں چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک سبز ریشمی کپڑے میں میری تصویر لپیٹ کر حضورﷺ کے پاس لائے اور کہا: یہ دنیا و آخرت میں آپ کی بیوی ہیں۔(5)
 اوردنیا و آخرت میں آپ ﷺ کی بیوی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ غسل کی بات کرسکتے تھے ۔ 
(!!!!) اسے انتظام غسل سے تعبیر کیا جائے گا یعنی حضور ﷺ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ میں تجہیز وتکفین کا بندوبست کروں گا ۔ اسے انتظام غسل سے تعبیر کرنے کی بھی کچھ وجوہات ہیں :
نمبر ایک :حضور ﷺ عام عادت مبارکہ  یہ تھی کہ آپ ﷺ  میت کو غسل نہیں دیتے تھے ۔ نمبر دو : آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے تو انتظام غسل بھی آپ کے حصے میں آنی تھی ۔ لہذا اسے انتظام غسل پر محمول کیا جائے گا۔
اور دوسری دلیل کے یہ جوابات ہیں :
(!) اس کی  سند کی صحت اور اسے  لائق حجت بنانے پر علماء نے کلام کیا ہے ۔ یعنی یہ روایت ضعیف ہے۔(6)
(!!) اس حوالے سے روایتیں مختلف ہیں :
٭اول روایت : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا تھا۔(7)
٭٭دوم روایت : یہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے مل کر غسل دیا تھا۔(7)
٭٭٭سوم روایت  : جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا آخری وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ ہدایت کی کہ وہ ان کے لیے غسل کا پانی رکھیں ! پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے غسل فرمایا ، طہارت حاصل کی ، انھوں نے اپنے کفن کے کپڑے منگوائے ، وہ لائے گئے جو موٹے کپڑے کے بنے ہوئے تھے ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انھیں پہن لیا ، پھر انھوں نے خوشبو لگائی ، پھر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ کو یہ ہدایت کی کہ جب ان کا انتقال ہوجائے تو ان سے کپڑا نہ ہٹایا جائے اور وہ جن کپڑوں میں ہیں انھی کپڑوں میں انھیں کفن میں رکھا  جائے ۔(9)
اب پہلی بات یہ ہے کہ جب روایات اس سلسلے میں متعارض ہیں تو اس واقعے پر کسی شرعی مسئلے کی بنیاد رکھنا صحیح نہیں ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ  تسلیم بھی کیا جائے  کہ  حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا ہے پھر  بھی یہ روایت بمعنی امر شائع ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں امیر (حاکم)نے یہ کام کیا، فلاں بادشاہ نے فلاں قوم سے جنگ کی حالاں کہ نہ امیر وہ کام خود اپنے ہاتھ سے کرتا ہے اور نہ بادشاہ کسی قوم سے  خودجنگ کرتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ  امیر یا بادشاہ نے ان کاموں کے کرنے  کا حکم دیا، تو اسی طرح  حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت اسماء، حضرت سلمی اور ام ایمن رضی اللہ عنہن کو حضرت سیدہ کائنات کے جسد پاکی کے لیے غسل دینے کا حکم ارشاد فرمایا ۔
(!!!)یہ کہ اسے حضرت سیدناعلی کرم اﷲ وجہہ الکریم کے لیے خصوصیت سے تعبیر کیا جائے گا ور اس خصوصیت پر دلیل یہ روایت ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو غسل دیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس پر اشکال کیا، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضورﷺ نے مجھے فرمایا تھا: کہ (اے علی!) فاطمہ رضی اللہ عنہا دنیا میں بھی تمہاری بیوی ہیں اور آخرت میں بھی تمہاری بیوی ہیں۔(10)
یہ بالکل ویسی دلیل ہے جیسی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ماقبل میں گزری ہے جس میں نکاح کا باقی رہنا ثابت ہو رہا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اشکال اور حضرت علی رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ  کا اپنی بیوی کو غسل دینا یہ آپ کی خصوصیت ہے، عام رواج اس وقت یہ نہیں تھا۔
(!!!!) اسے   انتظام غسل  سے تعبیر کیا جائے گا یعنی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے جسد پاکی کو ان کی وصیت کے مطابق حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا نے غسل دیا اور  حضرت سلمیٰ ام رافع  اور حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی ان کے غسل میں شریک تھیں(بیھقی، رد المحتار، اسد الغابہ) اور حضرت علی رضی اللہ نے ان کے ساتھ انتظام وانصرام مثلاً سامان، پانی وغیرہ میں تعاون کیا تھا،۔
ہمارے نزدیک شوہر بیوی کی میت کو غسل نہیں دے سکتا اس کی دلیلیں یہ ہیں : -
پہلی دلیل: قائلین کی دو دلیلوں کے  وہ جوابات جو ہم نے ماقبل میں ذکر کیے ہیں جن کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان ضعیف روایات کی بنیاد پر کسی مسئلے کی بنیاد رکھنا جب کہ دوسری جانب کی دلیلیں زیادہ مضبوط ہوں درست نہیں ۔ اور اگر ضعف کے ساتھ ساتھ پھر بھی بطور دلیل مانا جائے تو بھی اسے حضور ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے انتظام غسل  پر محمول کیا جائے گایا ان کی خصوصیات سے تعبیر کیا جائے گا جو احادیث سے بھی ثابت ہے جس کے بعد عام امت کا قیاس ان دلائل پر روا نہیں ۔
دوسری دلیل : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اشکال ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک اصل مذہب یہی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی میت کو غسل نہیں دے سکتا ۔اگر یہ چیز درست ہوتی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود کبھی بھی اشکال نہ فرماتے(11)
تیسری دلیل: اس موقف کی تیسری دلیل جو اصول کے درجے میں ہے وہ یہ ہے کہ جب بیوی فوت ہو جاتی ہے تو خاوند سے اس کا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے اور نکاح کے اثرات بھی نہیں ہوتے ۔
نکاح کا اثر وفات کے بعد عدت کا لازم ہونا ہے اور بیوی کے فوت ہونے کی صورت میں خاوند پر کوئی عدت نہیں ۔
بیوی کی وفات پر نکاح ٹوٹ جانے  کی ایک دلیل یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی ایک وقت  میں چار بیویاں ہوں تو وہ شخص  اس وقت تک ایک اور نکاح نہیں کرسکتا جب تک  چار کا عدد ایک وقت میں موجود ہو لیکن جیسے ہی چار بیویوں میں سے کوئی ایک فوت ہوجائے تو یہ شخص کسی بھی وقت ایک اور نکاح کرکے چار کا عدد دوبارہ  بھی پورا کرسکتا ہے ۔
اسی قبیل کی ایک  دوسری دلیل یہ ہےکہ بیوی جب تک نکاح میں ہے اس کی بہن سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر بیوی فوت ہو جائے تو وفات کے فوراً بعد اس کی بہن سے نکاح ہو سکتا ہے۔ چنانچہ امام عبد الرزاق الصنعانی رحمہ اللہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  فرماتےہیں: ہمارا موقف یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو غسل نہیں دے سکتا کیوں کہ بیوی کی وفات کے بعد (نکاح ٹوٹ جاتا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ) یہ شوہر جس وقت چاہے اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہے۔(12)
خلاصہ کلام:بیوی کے فوت ہونے کے بعد جب نکاح کا ٹوٹ جانا ثابت ہوگیا تو وہ شخص جس کی بیوی فوت ہوگئی ہے اب اس کی حیثیت فوت ہونے والی بیوی کے لیے ایک اجنبی کی سی ہوگئی ہے۔ جس طرح اجنبی آدمی اس عورت کو نہ چھو سکتا ہے اور نہ ہی غسل دے سکتا ہے اسی طرح یہ خاوند بھی اس عورت کو نہ چھو سکتا ہے اور نہ ہی غسل دے سکتا ہے۔

💡📚حوالہ جات 📚💡

(1) عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَقِيعِ، فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي، وَأَنَا أَقُولُ وَا رَأْسَاهُ، فَقَالَ:" بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي، فَقُمْتُ عَلَيْكِ فَغَسَّلْتُكِ، وَكَفَّنْتُكِ، وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ، وَدَفَنْتُكِ"
(سُنَن اِبنِ مَاجَہ كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ:مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَغُسْلِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا) رقم الحدیث 1465
(2) عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: " يَا أَسْمَاءُ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَاغْسِلِينِي أَنْتِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ". فَغَسَّلَهَا عَلِيٌّ، وَأَسْمَاءُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا "
(السُنَن الکُبری البَیھَقِی کِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الرَّجُلِ يُغَسِّلُ امْرَأَتَهُ إِذَا مَاتَتْ) رقم الحدیث 6660
(3)قَالَتْ عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ". 
(صَحِیحُ البُخَارِي كتِاَبُ المرضى بَابُ مَا رُخِّصَ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَقُولَ إِنِّي وَجِعٌ، أَوْ وَارَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِي الْوَجَعُ) رقم الحدیث 5666 
(4) قُلتُ فِی سَنَدِہ مُحَمد بن اِسحَاق تَکَلمُوا فِیہ
(اَلجَوهَر النَقِي عَلي الُسنَن البَيهَقِي کِتِابُ الجَنَائِز بِابُ مَا یَغسِلُ الرَجُل امرَاتہ)
(5) عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.
(سُنَن تِرمِذِي كتِاَبُ المَنَاقِبِ عَن رَسُولِ اللهِ بَابُ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِىَ الله عَنهَا) رقم الحدیث 3880
(6) وفی اسنادہ من یحتاج الی کشف حالہ ثم الحدیث مشکل ففی الصحیح ان علیا دفنہا لیلا ولم یعلم ابا بکر ، فکیف یمکن ان یغسلہا زوجہ اسماء وھو لایعلم 
(اَلجَوهَر النَقِي عَلي الُسنَن البَيهَقِي کِتِابُ الجَنَائِز بِابُ مَا یَغسِلُ الرَجُل امرَاتہ)
(7) عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ قَالَتْ: «لَمَّا مَاتَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا غَسَّلَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
(معرِفَةُ السُنَنِ وَالآثارِكِتَابُ الجَنَائِزِ غسلُ المَرأةِ زَوجَهَا وَالزَوج امرأته ) رقم الحدیث 7361
(8) عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: " يَا أَسْمَاءُ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَاغْسِلِينِي أَنْتِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ". فَغَسَّلَهَا عَلِيٌّ، وَأَسْمَاءُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا "
(السُنَن الکُبری البَیھَقِی کِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الرَّجُلِ يُغَسِّلُ امْرَأَتَهُ إِذَا مَاتَتْ) رقم الحدیث 6660
(9) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ لَمَّا حَضَرَتْهَا الْوَفَاةُ أَمَرَتْ عَلِيًّا فَوَضَعَ لَهَا غُسْلًا فَاغْتَسَلَتْ وَتَطَهَّرَتْ وَدَعَتْ ثِيَابَ أَكْفَانِهَا فَأُتِيَتْ بِثِيَابٍ غِلَاظٍ فَلَبِسَتْهَا وَمَسَّتْ مِنَ الْحَنُوطِ ثُمَّ أَمَرَتْ عَلِيًّا أَنْ لَا تُكْشَفَ إِذَا قَضَتْ، وَأَنْ تُدْرَجَ كَمَا هِيَ فِي ثِيَابِهَا "
(مُصَنف عَبدُالرَزَاق كَتَابُ الجَناَئِزِ  بَابُ المرأة تَغسِلُ الرَجُل)رقم الحدیث 6126
(10) أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - لَمَّا اعْتَرَضَ عَلَيْهِ بِذَلِكَ أَجَابَهُ بِقَوْلِهِ: أَمَا عَلِمْت أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ فَاطِمَةَ زَوْجَتُك فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.
(كِتَابُ حَاشِيةِ اِبن عَابِدَين  رَدُ المُحتَار ط الحلبي كِتَابُ الصَلَاة بَابُ صَلاةِ الجَنَازَة)
(11)ایضا
(12) قَالَ الثَّوْرِيُّ: وَنَقُولُ نَحْنُ: «لَا يُغَسِّلُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ؛ لِأَنَّهَا لَوْ شَاءَ تَزَوَّجَ أُخْتَهَا حِينَ مَاتَتْ
(مُصَنف عَبدُالرَزَاق كَتَابُ الجَناَئِزِ  بَابُ المرأة تَغسِلُ الرَجُل) 
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓
مجیب :✍  مفتی محمد افضل  عفی عنہ  
⌛❪🕌🕋🕌❫⌛

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی