کل اک فیملی کی دعوت تھی تین جوان بچوں کی بیوہ بوڑھی ماں اپنے بیٹوں سے ملنے وزٹ ویزا پے تین ماہ کے لئے آسٹریلیا آئی تو بہو نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ساس کو گھر سے نکال دیا اور ساتھ کھڑا اس کا شوہر ، جو اس بوڑھی خاتون کا سب سے بڑا بیٹا تھا ، اک لفظ بھی بول نہ سکا ۔
میری اس بوڑھی خاتون سے گھر سے متصل اک پارک میں اچانک ملاقات ہوئی جب وہ اک بینچ پے اکیلی بیٹھی رو رہی تھیں اور میں شام کی واک کے لئے وہاں گیا ۔۔۔۔
اپنی بیوگی میں تینوں بیٹوں کو پال پوس کر بڑا کیا باہر بھیجنے کے لئے اپنی زمین اور یہاں تک کہ اپنا گھر اپنی چھت بھی بیچ دی کہ بیٹے کچھ بن جائیں ۔۔۔۔
بیٹے یہاں آ کر عشق میں مبتلا ہوئے سب نے اپنی اپنی پسند کی شادی کر لی اور ماں اکیلی ان کی راہ تکتی رہی ۔۔۔۔
دل نے بہت ستایا تو اپنے شوہر کی پنشن سے ڈالی کمیٹی نکلنے پے ٹکٹ لیا اور بیٹوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اک بیٹے نے ویزا نکالا لیکن گھر جاتے ہی ہنگامہ ہو گیا ۔۔۔
میں نے پوری فیملی کو ان کی بیگمات سمیت دعوت پے مدعو کیا خوب آو بھگت کی تمام بہووں کی ساس سے خلش خاصی واضح تھی ۔۔۔۔
باتوں باتوں میں اک بہو نے فرمایا بھائی صاحب !آپ طارق جمیل کا بیان سن لیں ساس کی خدمت کرنا میرا نہیں ان کے بیٹے کا فرض ہے ۔۔۔۔
میں نے عرض کیا بات فرض کی تو ہے ہی نہیں یہ عمل کفایہ ہے آپ کرو گے تو کوئی آپ کا بھی کر دے گا آپ کی ساس چند ماہ ہی رہ سکتی ہیں تو کیوں نہ اچھے سے رخصت کریں ۔۔۔۔
کہنے لگی یہ تو ان کے بیٹوں کو سوچنا چاہیے آپ بتائیں آپ کیا کرتے میں نے عرض کیا پاکستان میں ماں کی خدمت اور ساتھ رہنے والی اک لڑکی ڈھونڈتا اور اس کو ماں کے ساتھ رکھتا ۔ ۔۔۔
کہنے لگی کس حیثیت سے؟ میرا جواب تلخ تھا میں نے کہا بھابی یہاں جو آدمی پانچ چھ ہزار ڈالر خرچ کر بیوی رکھے اور ماں نہ رکھ سکے اس سے بہتر ہے پاکستان میں بندہ ہزار ڈالر بیوی کو بطور سیلری دے دے کہ صرف ماں کا خیال رکھو ۔۔۔۔
پھر خاموشی ہو گئی ، بھلا ہو طارق جمیل کا ، ماں باپ رول دئیے۔۔۔۔
منقول ۔ ۔ ۔ ۔