6جون 1949ء کو مورو ضلع نواب شاہ کے ایک مذہبی گھرانے میں نمودار ہونے والا آفتاب اپنی روشن وتابناک کرنوں سے عالم اسلام بالخصوص اسلامیان پاکستان کو منور کرنے کے بعد 23اور 24جون 2005ء کی درمیانی شب کراچی میں غروب ہوگیا۔
حافظ جان محمد کے ہونہار صاحبزادے نے فقط آٹھ برس کی عمر میں والد محترم سے قرآن مجید حفظ کیا۔ اس کے بعد فارسی ادب کی ابتدائی کتابوں کی تعلیم اپنے برادر بزرگ حضرت مولانا عبدالشکور مدظلہ سے حاصل کی، ساتھ ہی 1969ء میں اسلامیہ ہائی اسکول سکھر سے میٹرک اور 1971ء میں اسلامیہ کالج سکھر سے انٹر کا امتحان سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا۔
گریجویشن کے بعد آپ کی زندگی کا رخ عصری تعلیم سے دینی تعلیم کی طرف ہوگیا، جس کا سبب یہ بناکہ آپ نے تبلیغ دین کی غرض سے تبلیغی جماعت کے ساتھ چارماہ لگائے۔ اسی دوران مبلغ اسلام الحاج عبدالوہاب صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں اپنی دوربیں نگاہوں سے نواب شاہ کے اس عصری تعلیم یافتہ نوجوان کے مخفی جوہر بھانپ لئے اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ اب دینی تعلیم حاصل کریں۔ چنانچہ آپ نے مدرسہ عربیہ رائے ونڈ (لاہور) میں داخلہ لیا اور درجہ سادسہ تک تعلیم وہیں رہ کر حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے یادگار مشائخ حضرت مولانا عبدالحنان تاجکی ثم مدنی کے پاس جامعہ حنفیہ انوریہ اوکاڑہ چلے گئے اور ان کی خدمت میں رہ کر موقوف علیہ کی کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔ پھر 1976ء میں آپ عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن تشریف لائے اور اکابر علمائے کرام جن میں محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا محمد ادریس کا ندھلوی، مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا فضل محمد سواتی، مولانا معاذالرحمن، مولانا محمد بدیع الزماں اور مولانا سید مصباح اﷲ شاہ رحمہم اﷲ جیسے جبالِ علم وعمل شامل تھے ان سے کتب حدیث کا درس لے کر سندفراغت حاصل کی۔ آپ نے اپنے اساتذہ کرام بالخصوص حضرت مولانا محمد یوسف بنوری اور حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہمااﷲ کے مشورے اور ان کی مستجاب دعاؤں سے ٹنڈوآدم کے تبلیغی مرکز میں تدریس کے ذریعے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ دارالافتا قائم کرکے حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی کی نگرانی میں مسائل کے جواب لکھنے شروع کردئیے۔ ان فتاوٰی جات کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ آپ کی علمی پیاس نے آپ کو تدریس کے منصب سے اٹھا کر الجامعة المدینة المنورہ (مدینہ یونیورسٹی) پہنچا دیا اور 1981ء سے 1985ء تک وہاں رہ کر علوم تفسیر وقرأ ت کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ آپ اصلاح وتزکیہ کے مراحل وطن عزیز ہی میں رہ کر طے کرچکے تھے، آپ چونکہ مستند وماہرِ فن علمائے کرام سے حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرچکے تھے اور ایسے علمائے کرام کی صحبت سے فیضیاب ہوچکے تھے، جن کو فقہ حنفی پر نہ صرف یدِطولیٰ اور مکمل دسترس حاصل تھی بلکہ انہیں دلائل کی روشنی میں اس پر شرح صدر بھی تھا کہ درحقیقت فقہ حنفی ہی اقرب الی الکتاب والسنة ہے اس لئے وہاں کے تقلید بیزار ماحول سے بھی آپ متاثر نہ ہوئے بلکہ وہاںوکیل احناف مشہور ہوئے۔
حضرت مفتی صاحب کو مالکِ لم یزل نے خطابت کا ملکہ ابتدا سے ہی ودیعت کررکھا تھا، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف ترقی ہوتی گئی بلکہ سوزدروں اور فکر باطن کی وجہ سے اس کی اثر پذیری میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا۔ آپ کا بیان مختصر خطبے اور دھیمے انداز سے شروع ہوتا تھا، پھر آہستہ آہستہ اس میں جذبات کا عنصر شامل ہوتا چلا جاتا تھا اور آپ انتہائی سادگی اور بے باکی سے حق بات دل میں جاگزیں کر دیتے تھے۔ آپ کا والہانہ انداز سامعین میں عمل کی تحریک پیدا کرتا تھا۔ آپ اپنے بیان کو برمحل اردو، عربی اشعار، آیات قرآنیہ، احادیث طیبہ اور ضرب الامثال وواقعات سے مزین کرتے تھے۔ آپ کو اﷲ تعالیٰ نے موضوع کے اندر رہ کر اظہار و بیانِ مافی الضمیر کا خصوصی ملکہ عطا فرما رکھا تھا۔ آپ سامعین کی علمی استعداد اور موقع کی مناسبت سے بیان فرمایا کرتے تھے۔ جب آپ بولنے کے لئے کھڑے ہوتے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ الفاظ ومطالب آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ برجستہ گوئی آپ کا خاص وصف تھا۔ عملی طور پر مناظر ہونے کی وجہ سے ہر فورم پر آپ اپنے زور استدلال اور قوت دلائل سے چھا جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حکومتی اجلاسوں، مقتدر دینی حلقوں کی میٹنگوں اور عوامی اجتماعات کے آپ فاتح سمجھے جاتے تھے۔ مفتی صاحب تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر کے میدان کے بھی شناور تھے۔ آپ کو ضخیم کتابوں کی تصنیف کا اگرچہ موقع نہ مل سکا تاہم آپ نے مختصر اور عام فہم زبان میں دورحاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے والے، حق کو قرآن وسنت کی روشنی میں روز روشن کی طرح عیاں اور کفرو باطل، رفض وزندقہ، تقلید بیزاری، اسلام کی غلط تعبیر وتصویر پیش کرنے والے افراد اور ان کے اعوان وانصار کے درو دیوار پر صاعقہ آسمانی بن کر گرنے والے، غلط عقائد ونظریات، اقوال وافکار سے متاثر ومسموم ذہنوں کی صفائی کرنے والے، فتنہ جدت وجدیدیت، روشن خیالی وروشن دماغی کی جڑ کو بنیاد سے اکھاڑنے اور الحادوزندقہ کے بلند وبالا محلات کو سطح زمین پر لانے والے پُراثر، دلچسپ ودل گیر، آسان وسہل اور عام فہم بیشمار مضامین لکھے ہیں اس کے علاوہ مختلف کتابچے بھی تحریر فرمائے، جن میں قربانی فلسفہ واحکام، استخارہ، روزہ فلسفہ واحکام، منتخب چہل حدیث، عقدانامل وغیرہ شامل ہیں۔ آپ نے روزنامہ اسلام کی فرمائش پر رمضان المبارک میں روزانہ ایک سپارے کا خلاصہ بھی تحریر فرمایا جو انتہائی مقبول ہوا۔ جو ''خلاصة القرآن'' کے نام سے زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔ ان مختصر اور انتہائی مفید کتابچوں کے علاوہ مختلف اخبارات ورسائل میں کالم اور مضامین لکھے۔
مفسر، مدرس، واعظ، مقرر وخطیب اور قلم کار وادیب… مفتی صاحب میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آپ نے مختلف دینی مدارس میں تدریس وافتا کے فرائض انجام دئیے ۔ آپ نوسال سے جامعہ بنوریہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس دوران کتب حدیث کے اسباق کے علاوہ مختلف اوقات میں تخصص فی الفقہ اور تخصص فی التفسیر کے شعبے بھی آپ کی نگرانی میں رہے۔ طالبات کو تخصص کی تعلیم دینے کا آغاز بھی آپ کی زیرنگرانی ہوا۔ گوناگوں مصروفیات کے باوجود آپ اسباق میں کسی قسم کا ناغہ نہ کرتے تھے۔ دورئہ حدیث کی درسگاہ میں آپ تفہیم حدیث کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہن سازی بھی کیا کرتے تھے۔ اس مقصدکے لئے اکابر اسلاف کے کارنامے اور واقعات اور اپنے مشاہدات وتثرات بڑے دلنشیں انداز میں سناکر طلبہ میں ذوقِ جہدو عمل پیدا کرتے تھے۔ آپ علما، طلبہ اور عوام میں یکساں مقبول تھے۔ آپ کے اخلاق ایسے تھے کہ پہلی ہی ملاقات میں ملنے والا ہرشخص آپ سے گھل مل جاتا اور آپ کا گرویدہ بن جاتا۔ طلبہ بلا جھجھک آپ سے علمی، عملی اور ذاتی نوعیت کے مسائل کے سلسلے میں مشورہ لیا کرتے تھے۔ آپ کو خوابوں کی تعبیر بتانے کا بھی خاص ملکہ حاصل تھا۔
ملک میں فرقہ واریت کے نام سے فسادات کی تازہ لہر اٹھنے کے نتیجے میں حکومت نے دونوں متحارب فریقوں کو ایک ساتھ بٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اہلِ سنت کی نمائندگی کرنے والوں میں حجة الاسلام علامہ علی شیر حیدری، مولانا محمداحمد لدھیانوی، مولانا مسعودالرحمن عثمانی کے علاوہ حضرت شہید بھی شامل تھے۔ اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں ملت اسلامیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ نے اس حوالے سے مفید اور قابل عمل تجاویز بھی دی تھیں اور امید کی جارہی تھی کہ اگر ان پر عمل کرلیا گیا تو یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل ہوجائے گا مگر ظالموں کو یہ گوارا نہ ہوا۔ حضرت مفتی صاحب باطل نظریات کا علمی تعاقب مثبت اور مؤثر انداز میں کیا کرتے تھے۔ مصلحت پسندی اور کتمان حق کو جرم عظیم تصور کرتے اور اس کو مہلک اور زہر ہلاہل قرار دیتے تھے۔ آپ بلاشبہ تبلیغ وجہاد کا حسین مرقع تھے۔ اہل حق کے باہمی اختلافات کو نقصاندہ سمجھتے اور اس کے تصفیے کے سلسلے میں ساعی رہتے تھے۔
علم وعمل کا کم کم ہی ملتا ہے امتزاج
اس امتزاج کو وہ نبھا کر چلے گئے
گفتار کا نہ غازی کہے کوئی اب انہیں
کردار سے وہ اپنے بتا کر چلے گئے
مفتی صاحب نے ایک کامیاب اور بھرپور زندگی بسر کی، وہ جب حیات تھے تب بھی کامیاب تھے اور جام شہادت نوش کرنے کے بعد بھی کامیاب ہیں۔ دمِ رخصت ان کے چہرئہ انور پر پھیلنے والی مسکراہٹ کی بہار بتا رہی تھی کہ قاتلو! تم ناکام ونامراد ہوگئے اور میں لیلائے شہادت کو گلے لگائے، حیاتِ جاوداں کا جام نوش کرکے کامیاب ٹھہرا۔ میرے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی میں تمام گناہوں سے پاک… رشک ملائک بن گیا اور تم خونِ ناحق کے بوجھ تلے دب کر تحت الثریٰ اور اسفل السافلین میں جاپہنچے۔ میری آواز پر تم پہرے نہیں بٹھا سکتے… میں ''درس قرآن'' ،''پیغام شہید'' اور اپنی آڈیو کیسٹوں، اپنی فکرو سوچ اور زندہ جاوید نظریات کے ساتھ زندہ ہوں۔ میں اب بھی بول رہا ہوں… کفرو باطل کے محلات پر میری فلک شگاف صداؤں سے زلزلہ برپا ہے اور رہے گا۔
فضا مہیب سہی مرحلے کٹھن ہی سہی!
ہم اپنے خون سے ہزاروں دئیے جلائیں گے
تحریر: مولانا جہان یعقوب صدیقی