فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 05 ═(پہلی فتح)═
🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت امامن اور اسمٰعیل عیسائیوں کے خیموں کی طرف چلے تھے اس وقت جنگ زور شور سے ہو رہی تھی-ہر طرف تلواریں اٹھتی اور جھکتی نظر آ رہی تھیں-خون کی پهوہاریں برس رہی تھیں سر کٹ کر گیندوں کی طرح سے اچھل رہے تھے اور زمین گر رہے تھے-اس وقت مسلمان اور عیسائی دونوں اپنی اپنی ہستیوں کو بھولے ہوئے تھے اور نہایت جوش نیز بڑے غیظ و غضب سے بھرے ہوئے لڑ رہے تھے-عیسائیوں کو یقین تھا کہ وہ مسلمانوں کو یا تو مار ڈالیں گے یا پسپا کر دیں گے مگر اس سے پہلے ان کا کبھی مسلمانوں سے مقابلہ نہ ہوا تھا بلکہ مقابلہ تو درکنار انہوں نے کبھی ان کو دیکھا تک نہ تھا-اس سے پہلے وہ یہ سمجھ رہے تھے، بلکہ مار رہے تھے، جو عیسائی ان تلواروں کی زد میں آ جاتا ہے تها -وہ بہت جدوجہد کرنے کے باوجود بھی نہ بچتا موت اسے آ دباتی تھی-عیسائیوں کو اپنی کیفیت دیکھ دیکھ کر بہت طیش آ رہا تھا-وہ جوش و غیظ میں آ کر گھوڑوں کو ایڑیں لگا لگا کر جھپٹ جھپٹ کر حملے کر رہے تھے-ان کی بے پناہ تلواریں اٹھتی تھیں اور بجلی کی طرح کوندتے ہوئے مسلمانوں کے سروں پر جھکتی تھیں لیکن مجاہدین نہایت اطمینان اور بڑی تجربہ کاری سے ان کو اپنی ڈھالوں پر روک لیتے تھے اور ان کے حملے کو روکتے ہی خود بھی حملہ کر دیتے تھے-ان کا ہر حملہ ایسا جان لیوا ہوتا تھا کہ دس بیس عیسائیوں کو آن کی آن میں ختم کر دیتا تھا-چونکہ محاذ جنگ دور تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے دور تک تلواروں کا کھیت آگا ہوا معلوم ہوتا تھا-جنگ دوپہر سے پہلے شروع ہوئی تھی اور اب دوپہر کو ڈھلے ہوئے کافی وقت ہو گیا تھا-جنگ ہنوز پورے زور و شور سے ہو رہی تھی-سرفروش بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے مسلمان جس جوش و جرات سے لڑ رہے تھے اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہیہ چاہتے ہیں کہ جنگ ظہر کا وقت قضا ہونے سے پہلے ہیختم ہو جائے مگر عیسائی بھی کچھ موم کے بنے ہوئے نہ تھے وہ بھی نہایت دلیری اور بہادری سے لڑ رہے تھے-مغیث الرومی دائیں طرف والے دستے کو سنبھالے تھے اور کمال جوش سے لڑ رہے تھے-انہوں نے اس قدر عیسائیوں کو قتل کر ڈالا تھا کہ انہیں شمار ہی نہ کر سکے تھے اور اب بھی وہ تھکے نہیں تھے-برابر اسی شد و مد سے حملے کر رہے تھے اور دشمنوں کوہمہ تن مصروف نظر آ رہے تھے-ان کی خون آشام تلوار جس طرف جھکتی تھی اور جس کے سر پر پڑتی تھی اسے قتل کئے بغیر نہ چھوڑتی تھی وہ ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسری ہاتھ تلوار لئے بڑی جان بازی سے لڑ رہے تھے عیسائی ان کو غصہ بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کسی طرح سے انہیں مار ڈالیں مگر ان کے پاس جانے کی جرات نہ پڑتی تھی اور جو قسمت کا مارا ان کے پاس پہنچ بھی جاتا تو وہ قتل ہو کر گر پڑا تھا-عیسائیوں پر ان کا رعب طاری ہو گیا تھا اور ان سے بچنے کے لیے ادھر ادھر دبنے لگے تھے مگر وہ انہیں بچنے بھی نہ دیتے تھے خود ہی جھپٹ کر اور جست کر کے حملہ کرتے تھے -طارق لشکر کے درمیان میں تھے وہ بھی بھوکے شیروں کی طرح سے غنیم پر جا پڑتے تھے-یہاں تدمیر بھی موجود تھا اور وہ بڑے جوش و خروش سے لڑ رہا تھا اسے لڑتے ہوئے دیکھ کر عیسائی پوری قوت سے لڑ رہے تھے____
طارق اس وقت اپنی ہستی کو بھولے ہوئے تھے نیز لڑائی میں کچھ ایسے مصروف تھے کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کوئی مسلمان ہے بھی یا اکیلے لڑ رہے ہیں-
اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوا کہ وہ تنہا ہو جاتے اور انہوں نے تنہا ہی حملہ کر کے دشمنوں کی صفوں کو الٹ دیا بیسویں عیسائیوں کو مار ڈالا اور دسیوں گھوڑوں کو مجروح کیا-
عیسائی ان کو اس طرح سے لڑتے دیکھ کر تعجب کر رہے تھے-
وہ نہیں جانتے تھے کہ طارق کسی شیر کی اولاد ہے اور کس قدر ان میں جوش و خروش اور قوت ہے-"
وہ جب کسی پر حملہ کرتے اس کی ڈھال کو پھاڑ کر سر دو پھانکیں کر کے حلق سے سینے تک چیر دیتے تھے-
ایک مرتبہ انہوں نے عیسائیوں کے غول پر حملہ کر دیا-
قریب پچاس ساٹھ عیسائی تھے انہوں نے پہلے ہی حملے میں دو کو مار ڈالا اور دوسرے میں بھی ایک کو ختم کر دیا-
عیسائیوں کو یہ دیکھ کر بڑا غصہ آیا چونکہ طارق تنہا تھے اس لیے عیسائیوں کا حوصلہ بڑھ گیا اور انہوں نے طارق کو نرغے میں لے کر چاروں طرف سے تلواروں کا مینہ برسا دیا اگرچہ طارق بری طرح سے گھر چکے تھے مگر وہ گھبرائے نہیں نہ ہی بے اوسان ہوئے بلکہ نہایت استقلال اور ہمت سے ڈٹے رہے
وہ جس طرح جست لگا کر جاتے اور جس پر حملہ کرتے اسے قتل کئے بغیر نہ چھوڑتے تھے انہوں نے تھوڑی دیر میں دس پندرہ آدمیوں کو مار ڈالا-
یہ دیکھ کر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور ان سے بچ بچا کر لڑنے لگے لیکن وہ کب بچنے دیتے تھے-
وہ اور بھی تیزی سے جھپٹ جھپٹ کر حملے کرنے لگے-
چونکہ ابھی تک گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی اور ہر شخص مصروف پیکار تھا اس لیے کسی کو بھی طارق کے حال سے آگاہی نہ تھی لہذا کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا مگر اللہ نے ان کو کچھ ایسی قوت عطا فرمائی تھی کہ ان کو مدد کی ضرورت پیش نہ آئی اور انہوں نے آدھے عیسائیوں کو تو مار ڈالا اور آدھے ڈر کر ادھر ادھر دبک گئے-
انہیں اس معرکہ میں اتنی محنت و مشقت کرنا پڑی کہ جب عیسائی ان کے سامنے سے ہٹے تو وہ پسینے میں نہا رہے تھے-
سارے چہرے پر پسینے کے قطرے اس طرح سے بہہ رہے تھے کہ جیسے کہ انہوں نے وضو کیا ہو اور وضو کر کے منہ پوچھنے کی نوبت نہ آئی ہو-
وہ کھڑے ہو کر سستاتے لگے-
اس وقت ان کے ہاتھ بھی شل ہو چکے تھے کھڑے کھڑے ان کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھ گئی-
انہوں نے دیکھا کہ آفتاب مغرب کی جانب جھک گیا ہے اور ظہر کا وقت تنگ ہو رہا ہے چونکہ ہر مسلمان مصروف پیکار تھا اور عیسائی و مسلمان مخلوط ہو رہے تھے اس لیے یہ ناگریز ہو گیا تھا کہ نصف لشکر کو پیچھے ہٹا کر نماز شروع کر دی جائے-"
یہ دیکھ کر طارق نے آہ بھرتے ہوئے کہا-"
آہ-"
آج ظہر کی نماز قضا ہو رہی ہے-"
انہوں نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا اللہ مسلمانوں کی مدد کر دیکھ تیری عبادت کرنے والے آج ظہر کی نماز بھی نہیں پڑھ سکے ہیں-"
چند لمحے سستانے کے بعد وہ پھر سے جنگ کے لیے تیار ہو گئے انہوں نے بلند آواز فرمایا:
مسلمانوں یہ کیا کم ہمتی ہے لڑائی کو کیوں طول دے رہے ہو؟ "
کیوں نہیں کوشش کر کے دشمنوں کو ختم کر ڈالتے؟ "
یہ کہتے ہی انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ہر شخص نے ہر جگہ نئے جوش و جذبے سے حملہ کر دیا-
خود طارق بھی دشمنوں پر جا ٹوٹے اور لڑائی شروع ہو گئی عیسائی بھی شور و غل مچا رہے تھے مگر مسلمانوں کے نعرہ کی آواز میں ان کا غل جذب ہو کر رہ گیا تھا-
طارق نے دور ہی سے دیکھ لیا تھا کہ تدمیر اپنے ساتھیوں کو جوش دلا کر لڑائی کو برانگیختہ کر رہا تھا انہوں نے ان لوگوں پر حملہ کر دیا جو ان کے سامنے تھے اور نہایت صفائی سے سپاہیوں کو مار کر تدمیر کے پاس جانے کا راستہ صاف کر دیا-
تدمیر دور ہی سے کھڑا ان کی لڑائی کی کیفیت دیکھ چکا تھا-"
اسے خود بھی حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی اب جبکہ طارق خودہی اس کے سامنے آ گئے تو اسے مجبوراً مقابلہ پر آنا پڑا-"
اس نے فوراً حملہ کیا-
طارق کی تلوار نے ڈھال کو پھاڑ ڈالا تدمیر گھبرا گیا اس نے اپنی ڈھال طارق کے سر پر دے ماری-
طارق نے جلدی سے اس کی ڈھال کے وار کو روکا اور دوسرا حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تدمیر سمجھ گیا کہ اگر وہ زرا سی دیر بھی وہاں رکا تو اس کی موت یقینی ہے-
لہذا اس نے جلدی سے گھوڑا لوٹایا اور نہایت تیزی سے ڈورا کچھ دیر تک طارق نے اس کا پیچھا کیا مگر وہ گھوڑے پر تھا اور یہ پیدل اس لیے وہ دور نکل گیا مجبور ہو کر یہ لوٹے اور لڑنے والے عیسائیوں پر ٹوٹ پڑے-
عیسائیوں نے تدمیر کو بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا-
ان کی ہمتیں ٹوٹ گئی تھیں حوصلے پست ہو گئے اور وہ بد حواس ہو کر نہایت تیزی سے بڑے بے اوسان ہو کر بھاگے-
مجاہدین اسلام نے ڈور کر ان کا تعاقب کیا اور جہاں تک بھی ان کا بس چلا اور موقع ملا انہیں مارتے کاٹتے ان کے پیچھے لگے چلے گئے؛ لیکن جب عیسائی دور نکل گئے تب طارق نے بلند آواز کہا-"
مسلمانوں واپس لوٹ آو ابھی وقت ہے کہ ہم ظہر کی نماز پڑھ لیں-"
اس آواز کو سنتے ہی جس جس مسلمان نے سنا اس نے پکار کر دوسروں کو اس سے آگاہ کر دیا اس طرح سے تمام مسلمانوں نے سن لیا اور سب واپس لوٹ آئے انہوں نے میدان جنگ میں ایک طرف جا کر نماز کی تیاری شروع کر دی-
وضو کیا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔