فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 04 ═(اندلس کی پہلی جنگ)═
🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ لشکر تدمیر کا تھا خیموں میں دور تک چهولداریاں تھیں اور ان کے پیچھے گھوڑے بندھے ہوئے تھے-جن حیران کن متعجب نظروں سے وہ مسلمانوں کو دیکھ رہےتھے اس سے صاف پتہ لگ رہا تھا کہ وہ انتہائی متعجب ہوئے ہیں-"تدمیر جوان تھا اور نہایت چالاک تجربہ کار اور بہادر اس نے فوراً ہی اپنے لشکر کو مسلح ہو کر مجاہدین اسلام سے مقابلے کے لیے نکلنے کا حکم دیا-اندلس کےعیسائیوں نے اس سے پہلے کسی مسلمان کو نہیں دیکھاتھا اس لیے انہوں رہ رہ کر حیرت ہو رہی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ گئے ہیں لیکن جب تدمیر نےانہیں مقابلے کا حکم دیا تو وہ فوراً اپنے خیموں میں گھسےاور تیار ہو کر اپنے گھوڑوں پر سوار ہو میدان جنگ میں نکلنے لگے-'طارق نے فوراً ہی فوج کو صف بستہ شروع کر دیا ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے وہ پیدل تھے نیز گھوڑا تو گھوڑا مجاہدین اسلام کے پاس ہتھیار بھی پورے نہیں تھے زرہ بگتروں کا تو جواب ہی کیا-اکثر لوگوں کے پاس نیزے اور تلواریں کچھ لوگوں کے پاس خالی تیر کمان اور کچھ خالی جڑی لاٹھیاں تھیں.طارق نے انہیں اس طرح صف بستہ کیا کہ اگلی صف میں ہرچار آدمی ایسے تھے جن کے پاس تلواریں اور نیزے تھے بیچ میں ایک کمان والے کو کھڑا کر دیا اور دوسری اور تیسری صفوں میں صرف تلوار اور نیزے والے تھے اور پانچویں صف میں تیر انداز کھڑے کئے ان کے پیچھے لاٹھیوں والے صف بستہ کئے جس وقت انہوں نے اس ترتیب سے شیران اسلام کی صف بندی کی تو اس وقت تدمیر بھی اپنے لشکر کو صف بستہ کر چکا تھا-اس کے تمام سپاہی لوہے کی زرہ بکتر پہنے گھوڑوں پر سوار بڑی شان و شوکت سے کھڑے ہوئے تھے انکے تیور بتا رہے تھے کہ وہ بےسروساماں مجاہدین کو حقیر اور ناتواں سمجھ رہے ہیں-تدمیر اپنے لشکر کی صفوں سے باہر نکلا اور چند قدم آگےبڑھا کر بلند آواز میں پوچھنے لگا اے لوگوں کیا تم بتا سکتے ہو کہ تم کون ہو؟ "چونکہ تدمیر نے اپنی زبان میں بات کی تھی اس لیے کوئی مسلمان اس کی بات کو نہ سمجھ سکا چنانچہ طارقنے امامن کو بلا کر دریافت کیا تم اسے جانتے ہو یہ کون ہے؟ "جی ہاں یہ تدمیر ہے عیسائی لشکر کا سپہ سالار ہے.طارق: اس سے دریافت کرو کہ یہ کیا کہتا ہے طارق امامن کے ساتھ بڑھ کر صفوں سے باہر نکلا-تدمیر نے امامن کو دیکھا تو غضب میں آ کر کہا آو شیطانیہودی تو بھی ان کے ساتھ ہے-تیری اس نازیبا حرکت سے پتہ چلا ہے کہ تم یہودی لوگ انسے ملے ہوئے ہو تم ہی انہیں کہیں سے پکڑ کر ہمارے مقابلے کے لیے لائے ہو-امامن نے اطمینان و سنجیدگی سے جواب دیا ہم نہیں لائے بلکہ تمہاری قوم ہی انہیں تم پر حملہ کرنے کے لیے لائی ہے-"تدمیر نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا کون ہے وہ بد بخت؟ "امامن: کونٹ جولین اور سیوطا کا گورنر-امامن کو تمام واقعات معلوم ہو چکے تھے کیونکہ وہ یہودی تجارت کی غرض سے حجاز جاتے رہتے تھے:::::::::
یہودی_حجاز جاتے رہتے ہیں اس لیے عربی زبان سے بھی خوب اچھی طرح واقف تھے-
کونٹ جولین کا نام سن کر تدمیر چونک پڑا وہ کچھ سوچنے لگا-
کچھ وقفہ کے بعد اس نے کہا-"
یہودی کتے تو مجھے فریب دیتا ہے-
اس لشکر کے ساتھ تو تو ہے اور تو ہی انہیں کہیں سے چڑھا لایا ہے-
اب تک تیری قوم نے ہماری حکومت میں نہایت آرام اور بے فکری سے رہ کر خوب دولت کمائی مگر اب_____اس دشمنی کے صلے میں ایک یہودی کو بھی اندلس کی سر زمین میں زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا-
تمہاری ساری دولت نیز تمہاری قوم کی تمام لڑکیوں کو تم سے چھین کر ملک بدر کر دیا جائے گا-"
امامن نے زرا طیش بھرے انداز میں کہا-"
او مغرور انسان اگر تمہارے بس کی بات ہوئی تو تم ضرور کرو گے لیکن یاد رکھو کہ اللہ مظلوموں کا حامی ہے اور اس نے ان نیک دل اور اللہ ترس لوگوں کو ستم زدوں کی امداد کے لیے اس ملک میں بھیجا ہے-"
تدمیر نے حقارت سے قہقہہ لگا کر لوٹتے ہوئے کہا-"
اب تم دیکھنا اپنے حمایتیوں کا بھی انجام-"
امامن نے اسے روکتے ہوئے کہا-"
تدمیر ایک بات بتاؤ-"
تدمیر نے اس کی طرف گھومتے ہوئے کہا کیا؟
امامن نے غم زدہ لہجہ میں دریافت کیا-"
میری بیٹی کہاں ہے؟ "
تدمیر نے رعونیت و خشونت کے انداز میں جواب دیا-"
وہ میرے خاص خیمے میں موجود ہے-
ہم نے اب تک اس کی عزت کی ہے اور اسے آرام سے رکھا ہے مگر اب اس کی انتہائی ذلت کی جائے گی اسے سخت تکلیفیں دی جائیں گی-"
امامن: ہاں اگر تم زندہ رہے تو-"
تدمیر لوٹ گیا اس نے کوئی جواب نہیں دیا-
طارق چونکہ اس کی زبان نہیں سمجھ رہے تھے اس لیے انہیں الجھن ہو رہی تھی اور وہ باتیں معلوم کرنے کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا-
جب تدمیر لوٹ گیا تب طارق نے امامن سے پوچھا-"
کیا گفتگو ہوئی ہے تمہارے درمیان؟ "
امامن نے تمام گفتگو سنا دی-
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
طارق نے کہا-"
وہ مغرور ہے اسے اپنے لشکر اور لشکر کے سازو سامان پر غرور ہے لیکن نہیں جانتا کہ مسلمانوں کا حامی اللہ ہے اور اللہ ہر مغرور و متکبر کو سزا دیتا ہے ان شاءالله وہ اپنی آنکھوں سے اپنا انجام دیکھ لے گا-"
امامن: حضور سب سے زیادہ مسرت کی بات یہ ہے کہ بلقیس بھی اس کے پاس ہی ہے، شاید اللہ اسے آزاد کرا دے
طارق: دعا مانگو اس میں سب کچھ قدرت ہے! !!!!
اس وقت عیسائی لشکر میں طبل جنگ بجا-
طارق نے سمجھ لیا کہ اب مسیحی لشکر حملہ کرنا چاہتا ہے-
اس نے کہا-"
مسلمانوں دشمن تم کو پیس ڈالنے کے لیے حملہ کر رہا ہے-
یہ پہلی مہم ہے ہے اگر تم نے استقلال اور دلیری سے جنگ کر کے اس میں کامیابی حاصل کر لی تو تمہاری دھاک تمام اندلس میں بیٹھ جائے گی-
خوب سوچ لو کہ تمہارے سامنے غنیم ہے اور پیچھے سمندر بھاگنے یا بھاگ کر جان بچانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے-
لڑو اور موت کی لڑائی لڑو قومی روایات کو زندہ اور قرار رکھنے کے لیے لڑو اور غنیم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈال دو اور اس سارے میدان کو ان کی لاشوں سے بھر دو-"
اس مختصر تقریر کے سننے سے مسلمانوں میں جوش و غضب کا دریا امڈ آیا-
وہ مارنے پر تیار ہو گئے-
عیسائی لشکر کے جهتے مسلمانوں کی طرف بڑھ رہے تھے-
نہایت ضبط و انتظام کے ساتھ-
ان کا خیال تھا کہ وہ گھوڑوں کے سموں سے مسلمانوں کو روند ڈالیں گے-
مسلمان بھی ان کے آنے سے شان سے ایسا ہی سمجھ رہے تھے مگر ان پر بالکل بھی ہراس طاری نہ تھا-
وہ نہایت استقلال اور اطمینان سے کھڑے انہیں بڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے-
جب وہ زیادہ قریب آ گئے تب طارق نے رک رک کر تین نعرے لگائے-
تیسرے نعرے کے باوجود مسلمانوں نے مل کر اللہ اکبر کا پر زور نعرہ لگایا-
اس نعرہ کی پر ہیبت آواز تمام میدان میں گونج گئی-
عیسائی حیران اور خوف زدہ ہو گئے مگر وہ رکے نہیں بلکہ برابر بڑھتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کے قریب پہنچ کر حملہ آور ہوئے-
انہوں نے نہایت شدت سے حملہ کیا، اپنے پورے زور و قوت کے ساتھ مسلمانوں نے سد سکندری کی طرح ایک جگہ ہی قائم رہ کر ان کا مقابلہ کیا-
عیسائیوں نے تلواروں سے حملہ کیا-ان کی آبدار تلواریں سورج کی چمکتی ہوئی شعاعوں میں جگمگا رہی تھیں-
عیسائی مسلمانوں پر تلواروں سے حملے کر رہے تھے اور مسلمانوں نیزوں سے-
فریقین جوش و طیش میں بھرے ہوئے تھے نہایت زور و قوت سے حملے کر رہے تھے-
ان کے نیزے قہر آلود سرعت سے اپنے کام میں مشغول تھے-
وہ زیادہ تر گھوڑوں کو نیزوں سے نشانہ بنا رہے تھے جس گھوڑے کے نیزہ لگتا تھا وہ گھبرا کر کھڑا ہو جاتا تھا اور جھرجھری لے کر سوار کو نیچے ڈال دیتا تھا جو سوار ایک دفعہ نیچے گر جاتا تھا اسے پھر اٹھنا نصیب نہ ہوتا تھا-
اول تو گھوڑوں کے سم ہی کچل ڈالتے تھے اور اگر کوئی سخت جان آٹھ کر کھڑا ہونے لگتا تھا تو مسلمانوں کے نیزے اسے چھید چھید کر گرا دیتے تھے-
مسلمانوں نے عیسائیوں کی پہلی صف کا قریب قریب خاتمہ کر ہی ڈالا اور اب دوسری صف پر حملہ
: کر کے اسے بھی الٹنے کی کوشش کرنے لگے-
عیسائی انہیں روند ڈالنا یا قتل کر دینا چاہتے تھے-
وہ غضب ناک ہو ہو کر حملے کر رہے تھے مگر ان کے بنائے کچھ نہیں بنتا تھا-
وہ برہم ہو گئیں-
مسلمان عیسائیوں میں اور عیسائی مسلمانوں میں گھس گئے نیز جو جہاں پہنچ گیا وہیں لڑنے لگا-
اس وقت نہایت خون ریز جنگ شروع ہو گئی تھی-
اب مسلمانوں نے بھی تلواریں کھینچ لی تھیں اور نہایت جوش و خروش سے حملے شروع کر دئیے تھے-
خون آلود تلواریں دور دور تک آٹھ آٹھ کر جھک رہی تھیں-
خون کے فوارے ابل رہے تھے-
ہاتھ پیر سر اور ڈهر کٹ کٹ کر گر رہے تھے-
مجروح چلا رہے تھے گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور عیسائی غل مچا رہے رہے تھے-
ان کی آوازوں نے اس قدر شور پیدا کر دیا تھا کہ کان پڑی آواز تک سنائی دیتی تھی، چونکہ عیسائی شیران اسلام کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے اس لیے وہ تمام خیموں سے باہر نکل آئے تھے اور سب کے سب مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے-
گویا خیمے بالکل خالی رہ گئے تھے-
امامن ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا-
وہ بلقیس کو چھڑانے کے لیے عیسائیوں کی نظروں سے بچتا ہوا خیموں کی طرف چلاگیا۔
جب وہ میدان جنگ کے آخری کنارے پر پہنچا تو اسے ایک مسلمان کھڑا ہوا ملا جو اپنے کپڑے نچوڑ رہا تھا-
ان کا نام اسماعیل تھا انہوں نے اتنے عیسائیوں کو قتل کیاتھا کہ ان کے دامن تک خون میں تر ہو رہے تھے-
اسماعیل نوجوان اور شیر دل بہادر امامن ان کے قریب پہنچا-
اس نے کہا-بہادر نوجوان کیا تم میری مدد کرو گے؟
اسماعیل نے کہا-ضرور !مگر ابھی جنگ جاری ہے ذرا ٹھہر جاؤ میں ان ناقصوں کو اچھی طرح سے قتل کر لوں-
امامن: مگر میری مدد کا موقع یہی ہے!
اسماعیل: کیا مدد چاہتے ہو تم؟
امامن: میری لڑکی تدمیر کے خیمے میں ہے جسے وہ زبردستی مجھ سے چھین کر لے گیا ہے،میں اسے آزاد کرانا چاہتا ہوں-
اسمٰعیل: ابھی زرا صبر و تحمل سے کام لو جنگ ختم کر لینے دو!
امامن نے عاجزی سے کہا:یہی موقع ہے اللہ کے لیے میری مدد کرو تمہاری اولاد نہیں ہے اس لیے تم باپ کی محبت کا حال نہیں جانتے!
دونوں چلے مگر ذرا تیزی سے قدم بڑھا کر-
وہ عیسائیوں کے خیموں میں پہنچ گئے پھر اس خیمے پر پہنچے جو سب سے زیادہ شاندار تھا-
دونوں خیمہ کے اندر گھس گئے انہوں نے دیکھا کہ بلقیس ریشم کے مضبوط ڈوروں سے بندھی ہوئی ایک کوچ پر پڑی تھی-
امامن اسے دیکھتے ہی دوڑا اس نے کہا-"آہ میری بیٹی! "بلقیس نے اٹھنے کا ارادہ کیا مگر وہ ایسی بری طرح جکڑی ہوئی تھی نہ اٹھ سکی۔
اس نے کہا-"ابا ! ا للہ کا شکر ہے-
امامن جاتے ہی اس کے اوپر جھک گیا اور محبت پدری سے بے خود ہو کر اس کی پیشانی چومنے لگا-
بلقیس حقیقت میں حسین تھی- اس کے چہرہ سے حسن کے انوار نکل رہے تھے-آنکھیں بڑی بڑی اور غضب کی رسیلی تھیں-چہرہ گول عارض گلاب کی پتیوں کی طرح سے سرخ و سفید تھے وہ حسن و جمال کی بے نظیر تصویر تھی-
اسمٰعیل اسے دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے-
بلقیس نے کہا-ابا مجھے کھول دو بندشوں سے بڑی تکلیف ہو رہی ہے-
امامن کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا جس سے کہ آپ کے بند کاٹ ڈالتا-اس نے اسمٰعیل کی جانب دیکھا۔
اسمٰعیل رشک حور بلقیس کے نظارہ میں محو تھے! !
امامن نے کہا-"رحم دل نوجوان اس کی بندش دور کر دو-
اسمٰعیل چونکے وہ بڑھے اور تلوار سے ڈوریں کاٹنا شروع کر دیں۔
بلقیس نے اب تک اسمٰعیل کو نہیں دیکھا تھا-
جونہی اِس کی نظر اِن پر پڑی تو وہ حیرت ومحبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی-
اسمٰعیل کے دل پراس کی اس ادائے دل ربائی کا اور بھی اثر ہونے لگا وہ اس کے شکریہ کا جواب تک نہیں دے سکا-
امامن نے کہا اب یہاں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں ہے لہٰذا آئیے اور جلدی سے نکل چلیں-
بلقیس نے کہا ہاں چلئے ابا جان-
اب یہ تینوں چلے اور خیمے سے باہر نکلے باہر نکلتے ہی انہیں تدمیر اور پچاس ساٹھ عیسائی باہر کھڑے ملے-
تدمیر نے انہیں دیکھتے ہی کہا-"اچھا تو تم اس پیکر جمال کو لے جانا چاہ رہے ہو؟
"یہ تینوں اتنے عیسائیوں کو دیکھ کر ٹهٹهکے اور ایک دوسرےکو دیکھنے لگے-
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔