🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ زرد پوش اڈهیر عمر کا آدمی تھا-خوش رنگ اور بیش قیمت پوشاک پہنے تھا-اس کے گلے میں جواہرات کا نہایت قیمتی ہار پڑا تھا-اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہا میں ایک بد بخت یہودی ہوں-میرا نام امامن ہے-قرطبہ کا رہنے والا ہوں جواہرات کی تجارت کرتا ہوں میں عرصہ سے یہاں مقیم ہوں اور تمام ملک میں میری ساکھ ہے،عزت ہے-اللہ کی دی ہوئی دولت بھی کافی ہے مگر اس ملک کا قانون نرالا ہے-کوئی آئین نہیں ہے کوئی ضابطہ نہیں ہے-حکام جس کے پاس دولت دیکھتے ہیں لوٹ لیتے ہیں جس کی بیوی حسین یا لڑکی دیکھتے ہیں تو اسے چھین لیتے ہیں-"طارق نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا شاید تمہاری دولت چھین لی گئی ہے-"امامن: جی نہیں دولت چھین لیتے تو مجھے اتنا رنج نہ ہوتا-طارق: تو کیا بیوی لے اڑا ہے؟ "امامن: عرصہ ہو گیا میری بیوی کو فوت ہوئے-طارق: اچھا تو پھر بیٹی کو چھین لیا ہے؟ "امامن نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا-"جی ہاں میری مرحومہ بیوی کی نشانی میری نور نظر میرے دلکا چین میرے کلیجے کے ٹکڑے کو چھین لیا ہے-"یہ کہتے ہوئے امان کا دل بھر آیا، آنکھوں میں آنسو چھلک آئے-طارق مغیث اور دوسرے لوگوں کو بڑا افسوس ہوا-طارق نے کہا"-امامن غم نہ کر-ان شاءالله تمہاری بیٹی کو واپس لا کر تمہارے دل کو ٹھنڈا کیا جائے گا"-امامن: مجھے آپ کی ذات سے یہی امید ہے-طارق: کون لے گیا ہے آپ کی بیٹی کو؟امامن: حضور جب سے رازرک اس ملک کا بادشاہ بنا ہے تب سے لوگوں کے جذبات جان و مال اور آبرو خطرہ میں پڑ گئےہیں-وہ اس درجہ سیہ کار ہے کہ اس نے ان لڑکیوں کی بھی آبرو ریزی کرنا شروع کر دی ہے جو بادشاہ بیگم کے پاس تہزیب و تربیت حاصل کرنے کے لیے آتی ہیں-ایک لڑکی فلورنڈا کو جو کونٹ جولین کی بیٹی ہے ہوس کاری کی بھینٹ چڑھا گیا ہے-طارق: ہم کو معلوم ہے! !!!!امامن: اس نے ملک میں کچھ عورتیں اور لوگ چھوڑ دئیے ہیں وہ جس عورت یا لڑکی کو حسین دیکھتے ہیں لالچ دے کر اور ڈرا دھمکا کر لے جاتے ہیں-"طارق: رازرک کی عمر کیا ہے؟ "امامن: بڈھا ہے حضور بڑھاپے میں خبیث کو سیہ کاری کی سوجھی ہے-طارق: لیکن لوگ اسے سمجھاتے کیوں نہیں-امامن: حضور ہم یہودیوں کی حالت قابل رحم ہے سب سے زیادہ ہم تیر ستم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں دولت ہماری لوٹی جا رہی ہے عزت ہماری پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے-طارق: مگر وہ تباہی اور بربادی کے ساتھ کھیل رہا ہے-امامن: اللہ کرے کہ وہ کہیں جلد غارت ہو-طارق: اللہ کی گرفت سخت ہے وہ ہر بدکار قوم کو تباہ کر دیتا ہے-امامن: ہم یہودیوں کا بھی یہی ایمان ہے-طارق: تم نے یہ نہیں بتایا کہ تمہاری لڑکی کو کون لے گیا ہے-امامن: شاہ رازرک کا ایک معتمد خاص لے گیا ہے، میں اس کا نام نہیں جانتا-طارق: کیا بہکا کر لے گیا ہے-امامن: نہیں حضور میرے سامنے اور میرے آدمیوں کی موجودگی میں زبردستی لے گیا-آہ جس وقت اسے لے جایا جا رہا تھا، وہ رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی، اس کی معصومانہ نگاہیںکہہ رہی تھیں کہ اس کی امداد کروں اور اسے ان درندوں سے بچاوں-"امامن کا دل بھر آیا-آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے نیز اس کا گلا رندھ گیا-طارق نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:غم نہ کر امامن! !دیکھو جب انسان زیادہ غمگین زیادہ پریشان اور زیادہ متفکر رہتا ہے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا اور تم کو اپنی لڑکی کورہائی دلانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے-اپنے دل میں جوش انتقام پیدا کرو اور ظالموں سے انتقام لو"-امامن: ضرور لوں گا. انتقام لینے کے لیے تو میں نے اسی وقت قسم کھائی تھی جب وہ وحشی میری قرتہ العین کو کو میری آنکھوں کے سامنے لے گئے تھے-طارق: مجھے افسوس ہے کہ میں تمہاری دل گداز داستان سننے کی فرمائش کر کے تمہارے دل کو دکھانے کا باعث بنا-"امامن:اگرچہ اس روح فرسا داستان کو سناتے ہوئے مجھ پر غم و اندوہ کا غلبہ تھا مگر اس سے میرے غم کا کچھ بار بھی ہلکا ہو جاتا ہے اور میرے محترم آپ کو تو میں خود اپنی درد انگیز داستان سنانا چاہتا تھا تا کہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ عیسائی کیا بن گئے ہیں-طارق: جب تو تم سناؤ اگرچہ تمہاری داستاں سن کر ہمارےجسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں....
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
امامن :جو انسان انسانیت رکھتے ہیں ضرور ان پر اثر ہوتا ہے____ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جب بھیڑیوں نے میری بیٹی نے میری بیٹی کو پکڑا اس نے میری طرف دیکھا تو میں ضبط نہ کر سکا اور پارہ دل کو چھڑانے کو آگے بڑھا، مگر ان میں سے دو خونخوار انسانوں نے مجھے پکڑ اس زور دھکا دیا کہ میں گر پڑا اور گرتے وقت میرا سر دروازہ کے سنگی بازو سے ٹکرایا اور میں بے ہوش ہو گیا___طارق نے دانت پیستے ہوئے کہا" بے درد انسان"-امامن: آہ انہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے-وہ بھیڑیے ہیں بهیڑیئے بے رحم و سفاک اور خونخوار-طارق: اللہ انہیں غارت کرے انہیں سزا دے گا.امامن:ہزاروں ستم زدہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں کوس رہے ہیں! !!!طارق: اچھا جب تم ہوش آئے__؟امامن: جب میں ہوش میں آیا وہ اسے لے جا چکے تھے اور چونکہ میں بے ہوش ہوگیا تھا اور کوئی ان کو روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا، اس لیے انہوں نے میری ساری دولت بھی لوٹ لی اور چلے گئے مگر___مجھے دولت کی پرواہ نہیں جو کچھ بھی میرے پاس تھا سب لے جاتے ہیں مگر میری بچی کو چھوڑ جاتے مگر وہ دولت بھی لے گئے اور میرے دل کے ٹکڑے کو بھی لے گئے، مجھ پر اس واقعہ ایسا اثر ہوا کہ میں نیم پاگل ہو گیا-ایک کمرے سے دوسرے میں دوسرے تیسرے میں بھاگا پھرنے لگا-دیر تک میری یہی حالت رہی یہاں تک کہ رات ہو گئی اور تهک کر چور ہو گیانیند تو کیا آتی شاید ضعف طاری ہو گیا تھا یا پھر صدمہ کا اثر بھی باقی تھا جس کے سبب مجھے غشآ گیا-اسی عالم میں میں نے ایک سفید پوش بزرگ کو دیکھا جو کہ مجھے تسلی دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر تیری بیٹی محفوظ ہے اور اسے چھڑانے والے بھی آ گئے ہیں-جزیرہ خضر میں جا! !!!!وہ تجھے وہاں ملیں گے-میں نے دریافت کیا-حضور میں انہیں کیسے پہنچانوں گا؟ ؟"انہوں نے جواب دیا -"ان کی سفید اور سادہ پوشاک اور چوڑے چوڑے دامنوں سے پہچاننا-وہ سب عمامے باندھے ہوں گے ان کو دنیا مسلمان کے نامسے پکارتی ہے"-سب کو اس سے یہ سن کر کمال کا تعجب ہوا لیکن تعجب کے ساتھ ساتھ ان سب کو اس بات کا بھی یقین ہو گیا کہ وہ ان شاءالله اندلس کی موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دیں گے-"امامن نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہا"-میں فورا اٹھ کھڑا ہوا صبح ہو گئی تھی میں نے مکان بند کیا اور آپ کی تلاش یہاں چلا آیا اللہ کا شکر ہے کہ آپ مل گئے-"طارق:اور یہ واقعہ کب کا ہے؟ "امامن: ایک مہینے کا ذکر ہے حضور-طارق:تمہاری لڑکی کا نام کیا ہے؟امن:بلقیس ہے حضور-طارق:مگر یہودیوں میں تو ایسا نام نہیں رکھا جاتا-امامن:حضور یہ بات بہت مشہور ہے کہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیوی نہایت حسین و جمیل تھی-میری بیٹی بھی بہت حسین ہے اس لیے اس کا نام بلقیس رکھا تھا-طارق: اچھا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ وہ بلقیس کو کہا لے کر گئے ہیں؟ "امامن:حضور اتفاق سے ایک عیسائی مل گیا تھا اور وہ ان سپاہیوں میں سے تھا جو کہ اسے پکڑ کر لے گئے تھے-اس سے میں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ بلقیس تدمیر کے لشکر میں ہے-طارق: اور تدمیر کہاں ہے؟ "امامن: قریب ہی ہے شاید یہاں سے چار پانچ میل ہو گا-
"طارق: پھر تو یہ مناسب ہو گا کہ ہم آج یہیں ٹھہریں اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کر دیں-"امامن: حضور چونکہ میرے دل میں آتش انتقام بھڑک رہی ہے اس لیے میں تو یہی کہوں گا کہ اسی وقت ان بھیڑیوں پر حملہ کر دیں لیکن صحیح رائے یہی ہے کہ آج یہاں قیام کیجئے اور صبح ہوتے ہی حملہ کر دیجئے-مغیث الرومی اور دوسرے افسروں نے بھی یہی مشورہ یہی دیا-چنانچہ اسی جگہ رات بسر کرنے کے ارادے سے اسی جگہ لشکر مقیم ہو گیا اور چونکہ مسلمان خیمے نہیں لائے تھے نہ گھوڑے اس لیے کھلے آسمان تلے ہی سایہ رات بسر کرنے کی ٹھان لی-رات کو انہوں نے کھانا تیار کر کے کھایا-امامن کو کھلایا اور عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے صبحبیدار ہوئے-ضروریات سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وضو کیا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی گئی-جب وہ نماز پڑھتے تھے تو امامن ان کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ان کی خدا ترسی کا اس کے دل پر گہرا اثر ہوا تھا-اس نے ایک ہی شب ان کے ساتھ رہ کر دیکھ لیا تھا کہ یہ لوگ فضول تکلفات اور بے ہودہ باتوں سے کوسوں دور ہیں-ان کا مشغلہ اللہ کی عبادت ہے خوش اخلاق ایسے ہیں کہ اس نے آج سے پہلے ایسے خوش خلق لوگ نہ دیکھے تھے-نماز پڑھتے ہی ہر مجاہد نے اپنا اپنا بستر اور تھوڑی تھوڑی رسد باندھ کر اپنی اپنی کمر سے لگائی اور نہایت اطمینان سے صف در صف کھڑے ہو کر روانہ ہو گئے-اگرچہ طارق لشکر کے سپہ سالار تھے اور ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا مگر وہ اپنا بستر کمر سے باندھے ہوئے تھا اور طارق اپنا-یہ مساوات دیکھ کر امامن کے دل پر گہرا اثر پڑا-اسلامی لشکر نہایت اطمینان اور استقلال سے چل پڑا یہ مساوات دیکھ کر امامن کے دل پر گہرا اثر پڑا-اسلامی لشکر نہایت اطمینان اور استقلال سے چل پڑا اور اب ان کا ہر قدم جزیرہ سبز سے آگے بڑھنے لگا تھا- مسلمان خوب جانتے تھے اس جزیرہ کے اختتام پر تدمیر سے مقابلہ ہو گا-انہیں اس مقابلہ کی بڑی مسرت تھی اور فرط انبساط سے قدم بڑھائے چلے جا رہے تھے-ابھی آفتاب نصف النهار کے قریب بھی نہیں پہنچا تھاکہ جزیرہ سبز سے باہر نکل آئے-انہوں نے کچھ ہی دور جا کر عیسائی لشکر کو دیکھا جو خیموں میں پڑا سو رہا تھا-انہیں مطلق خبر نہیں تھی کہ ان کی موت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے-مسلمانوں نے اس میدان میں جاتے ہی اللہ اکبر کے غلغلہ کا پر ذور نعرہ لگایا-عیسائیوں نے اس نعرے کی آواز کو سنا اور گھبراتے ہوئے خیموں سے باہر آئے اور حیرت سے لشکر اسلام کو دیکھنے لگے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔۔