فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 02 ═(عجیب خواب)═

 

 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مسلمان، وائسرائے موسیٰ اور دوسرے اراکین سلطنت خوب جانتے تھے کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک جس قدر رحم دل فیاض اور سخی ہے، اسی قدر یہ بھی چاہتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کے ہمسایہ بادشاہوں اور تاج داروں میں ناچاقی نہ ہو-تمام ممالک میں امن امان قائم رہے۔

جس زمانے میں بلاد مغرب کے وائسرائے موسیٰ بن نصیر تھے-اسی زمانے میں بلاد مشرق کے وائسرائے حجاج بن یوسف ثقفی تھے-یہ عراق میں رہنے والے تھے اور موسیٰ افریقہ میں-موسیٰ کو معلوم تھا کہ ہندوستان کے چند خود سر راجاؤں نے جزیرہ سراندیپ (لنکا) سے آنے والے مسلمانوں کو قید کرلیا ہے اور حجاج بن یوسف نے خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت لی ہے۔

موسیٰ کا خیال تھا کہ خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت دے دیں گے کہ وہاں مسلمان قید تھے مگر اندلس پر یورش کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ وہاں مسلمانوں کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ آپس میں عیسائیوں میں مناقشات تھے-تاہم انہیں کچھ امید ضرور تھی اور وہ اسی امید پر ہی انہوں نے تیاریاں شروع کر دیں تھیں۔

افریقہ سے اندلس جاتے ہوئے راستے میں سمندر کو بغیر جہازوں کے عبور کرنا ممکن نہیں تھا-بحیرہ روم نے افریقہ کو اندلس سے بالکل جدا کر دیا تھا اور مسلمانوں نے اس وقت سمندر میں جہاز رانی نہیں کی تھی مگر جب کہ اندلس پر چڑھائی کا ارادہ تھا تو یہ ضروری ہو گیا تھا کہ جہاز تیار کروائے جائیں تاکہ بحیرہ روم کو عبور کیا جا سکے۔

چنانچہ موسیٰ نے جہاز تیار کروانے شروع کروا دئیے تھے-یہ بات نہیں تھی کہ مسلمان جہاز چلانا یا بنانا نہیں جانتے تھے فقط اب تک ضرورت لاحق نہیں ہوئی تھی-چار جہاز تیار کئے جا رہے تھے جو کہ اس قدر بڑے تھے کہ ان میں سے ہر ایک میں دو ہزار آدمی اور اور ان کے کھانے پینے کا پندرہ بیس روز کا سامان با آسانی آ سکتاتھا-

جنگ پر جانے کی ہر مسلمان کی تمنا اور خواہش تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتنے آدمی بھیجے جائیں گے اور ان کا افسر کون ہو گا-البتہ جہاد کے شائقین نے ابھی سے جہاد پر جانے کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دیں تھیں-جو لوگ تجربہ کار تھے اور متعدد لڑائیوں میں لشکر کی قیادت کر چکے تھے انہوں نے افسری کے لیے کہنا اور کوشش کرنا شروع کر دیں تھیں.

عام لوگوں کا خیال تھا کہ موسیٰ اپنے بیٹے عبد العزیز کی سر کردگی میں یہ لشکر بھیجے گا-"لیکن موسیٰ چپ تھے اس لیے کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا-علاوہ ازیں جب سے مسلمانوں کو اندلس کے بادشاہ رازرق کی عشرت پسندانہ زندگی کے واقعات کے بارے میں معلوم ہوا تھا وہ سب اس سے بہت ناخوش تھے-اور چاہتے تھے کہ جلد از جلد اسے اس کی بدکاری اور بو الہوسی کی سزا دیں- مسلمان نہ خود بدکار تھے اور نہ دوسروں کو بدکار دیکھنا پسند کرتے تھے گویا وہ نیکو کاری کے ٹھیکیدار تھے-اور چاہتے تھے کہ ساری دنیا انہی کی طرح نیک رہے-"بدکاری اور بد امنی کا دنیا میں نام تک باقی نہ رہے-

ایک روز موسیٰ دیوان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت ان کے پاس کئی معزز اشخاص مثلاً علی بن ربیع طمی ، حیات بن تمیمی ، ابن عبداللہ ایوب اور عبد العزیز وغیرہ بیٹھے تھے-یہ تمام وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی وقت لشکر کی قیادت کر چکے تھے، نیز نہایت مشہور اور شجاع لوگ تھے-

علی بن ربیع طمی نے دریافت کیا-"آپ نے اس مہم کی افسری کے لیے بھی کوئی شخص تجویز کر لیا ہے؟مو سی نے جواب دیا ہاں-"کر لیا ہے ممکن ہے کہ اس کا نام سن کر آپ سب بھی اس کی تائید کریں گے-

عبد العزیز : حضرت میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے-
موسیٰ:خواب؟  کیا خواب دیکھا ہے تم نے؟

ابھی عبد العزیز نے اپنا خواب بیان کرنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ کونٹ جولین اور اشببلیا کا راہب دونوں آ گئے-یہ دونوں قیروان ہی میں مقیم تھے اور اکثر موسیٰ کے پاس آتے رہتے تھے-علیک سلیک کے بعد وہ بیٹھ گئے تب موسیٰ نے عبد العزیز سے کہا-ہاں بیٹا تم اپنا خواب بیان کرو-

عبد العزیز:میں نے دیکھا کہ میں بحری سفر کر رہا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے آدمی ہیں-ہم سب ایک سر سبز پہاڑ پر جا کر اترے اور پہاڑ کو عبور کر کے بہشت زار میدانوں کو طے کرنے لگے-اس کے نواح میں ہزاروں لاکھوں چڑیاں تھیں جو ہمیں دیکھتے ہی اڑ جاتی تھیں-کبھی کبھی وہ ہمیں چونچیں بھی مارتی تھیں مگر جب ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ اڑ جاتیں تھیں- میدانوں کے بعد ہم نے آبادیاں بھی دیکھیں، وہ نہایت خوبصورت اور خوش نما تھیں-ایک جگہ ہم جب پہنچے تو ہمارے سامنے ایک چوڑا دریا آ گیا-اس دریا پر ایک اونچا پل باندھا تھا جو نہایت شاندار اور مضبوط اور خوبصورت تھا-اس کے دروازے جن سے دریا بہہ رہا تھا، محرابدار اور اونچے اونچے تھے-میں نے آج تک کسی پل کے اتنے اونچے دروازے نہیں دیکھے!ہم نے پل کے ذریعہ سے دریا کو عبور کیا اور خوش نما وادی میں جا اترے-اس وادی میں بہت سے کھنڈر تھے اور ان کھنڈرات میں ایک پتھر کا بہت اونچا بت نصب تھا اتنا اونچا کہ اس کے نیچے کھڑے ہونے سے اس کا سر نظر نہیں آتا تھا-ہم سب اس بت کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ اس کی پشت کی طرف سے چند عورتیں آئیں-سب نہایت خوبصورت تھیں اور ریشمی پوشاکیں نیز سونےکے ایسے زیورات جن میں جواہرات جڑے ہوئے تھے پہنے ہوئے تھیں لیکن ان کے درمیان جو عورت تھی وہ ان سب سے زیادہ حسین اور خوبرو تھی نیز اس کی پوشاک بھی ان سب سے زیادہ بیش قیمت اور بھڑک دار تھی-اس کے زیورات آبدار موتیوں اور جواہرات کے تھے مگر وہ ایک طوق پہنے ہوئے تھی جس میں لعل و یاقوت جڑے ہوئے تھے-اس کی چمک سے اس عورت کے رخسار دمک رہے تھے اور اس کا چہرہ چاند سے زیادہ جگمگا رہا تھا-اس عورت نے میری طرف دیکھا اور کچھ اشارہ کیا-میں اس کے پیچھے چل دیا-جب ہم سنگی بت سے ذرا فاصلے پر پہنچ گئے تو وہ عورت اور اس کے ساتھ والیاں سب ہنسیں اور میں چونک پڑا-چونکتے ہی میری آنکھ کھل گئی-
موسی، راہب، کونٹ جولین نیز تمام لوگ خاموش بیٹھے حیرت بھری نظروں سے عبد العزیز کو دیکھ رہے تھے، وہ سب اس کو دیکھ اور اس کا خواب سن رہے تھے-
جب وہ خاموش ہوا تو موسیٰ نے کہا! عجیب خواب دیکھا ہے تم نے-
جولین :  ہاں عجیب خواب ہے ذرا ایک بات تو بتائیں عبد العزیز؟
جولین : کیا آپ کبھی اندلس گئے ہیں؟
عبد العزیز:کبھی نہیں گیا-
موسی:آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟
جولین:اس لیے کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اندلس کی سر زمین کے متعلق ہے-
موسی:کیا وہاں کے پہاڑ اور میدان سر سبز ہیں؟
جولین:جی ہاں حقیقت میں اندلس بہشت کا نمونہ ہے-قدرت نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب اندلس کو بخش دی ہیں-وہ پھلوں کی بہتات اور آسمان کے صاف رہنے کے لحاظ سے ملک شام ہے-آب و ہوا کی عمدگی کے خیال سے یمن یا عرب کا نخلستان ہے-میوں کی کثرت کی وجہ سے اور تازگی کے اعتبار سے حجاز ہےزرخیزی اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کے انداز سے ہندوستان ہے-بیش قیمت کانوں کے باعث کیٹے ہے-نیز سمندر کے ساحلوں کی خوش قطع اور فائدہ رسانی کے میں عدن ہے-
موسی:آپ نے تو اس کی بڑی تعریف کر ڈالی ہے-
جولین:وہ ملک ہی تعریف کے قابل ہے مگر آپ کے صاحبزادے نے جو خواب دیکھا ہے، اس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے-
موسیٰ:کیوں؟ 
جولین: اس لیے کہ انہوں نے کبھی اندلس نہیں دیکھا مگر خواب میں اندلس پہنچ گئے جس بت کا انہوں نے بتایا ہے وہ مریڈا کے کھنڈرات میں ہے نہایت مشہور ہے-اس کا نام" گلیشا" ہے دنیا بھر میں اتنا بڑا اور اچھا بت کہیں نہیں ہے-
موسی: اور وہ عورت؟
جولین: جس عورت کو انہوں نے خواب میں دیکھا وہ شاہ رازرق کی بیوی نائلہ ہے-اس کا طوق دنیا بھر میں بے نظیر ہے اور وہ حسین بھی ایسی ہے کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے سارے اندلس میں وہ طوق والی حسینہ کے نام سے مشہور ہے-
موسی: تعجب ہے میرے بیٹے خواب میں اندلس ہو آئے ہیں-
عبد العزیز: کیا آپ مجھے بیداری میں اندلس جانے کی اجازت دیں گے؟
موسی: نہیں میں نے اس مہم کے لیے اور ہی بہادر کو منتخب کر لیا ہے-
عبد العزیز  نے مایوسی سے کہا اور وہ کون ہے؟
موسی: جب دربار خلافت سے اجازت آ جائے گی تو اس وقت تمہیں اور سب مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا-
اس وقت ایک خادم نے آ کر اطلاع دی حضور قاصد دمشق سے واپس آ گیا ہے سب یہ خبر سن کر خوش ہو گئے-موسیٰ نے کہا جلدی سے اسے اندر بلاو-خادم واپس چلا گیا اور سب بے چینی سے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے-
جب قاصد کے آنے میں زرا دیر ہوئی تو ان لوگوں میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں-
جولین : کیا آپ کے خیال میں اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے لشکر کشی کی اجازت دے دی ہو گی؟
موسی: میں صحیح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ایک مہم ہندوستان پر بھیجی جا رہی ہے اور وہ اشد ضروری ہے-
جولین: کیوں؟
موسی: اس لئے کہ سندھ کے مغرور و متکبر راجہ نے چند مسلمانوں کو قید کر لیا ہے-انہیں چھڑانے کے لیے ہندوستان پر لشکر کشی ضروری ہوگئی ہے-
جولین: آپ مسلمانوں میں بڑا اتفاق ہے و اتحاد ہے-
موسی: کیوں نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے(کل مومن اخواۃ)تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں- جب ایک بھائی پر مصیبت آئے یا اسے تکلیف ہو تو دوسرا بھائی اس سے متاثر نہ ہو گا؟  اور اگر مسلمان کسی مسلمان کو تکلیف اور پریشانی میں دیکھے اور اس کی مدد نہیں کرے  تو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم دونوں ناخوش ہوتے ہیں-یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی ہر ممکن امدادکرنے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں یگانگت اور بھائی چارہ ہے-
جولین: ٹھیک فرما رہے ہیں آپ جو محبت جو خلوص اور جو پیار مسلمانوں میں ہے وہ تمام دنیا میں کہیں بھی کسی قوم میں نہیں۔
اتنے میں قاصد اندر آ گیا-اس نے بلند آواز میں کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ-
موسیٰ نے و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا-وہ ایک طرف بیٹھ گیا-
موسیٰ نے دریافت کیا-"کہو اعلی حضرت خلیفہ المسلمین بخیریت ہیں؟
قاصد: جی ہاں اللہ کے فضل و کرم سے۔
موسیٰ: اور دوسرے حکومت کے اکابرین ملت-
قاصد: سب خیریت سے ہیں اور سب نے سلام کہا ہے-
موسیٰ: و علیکم السلام اور عام مسلمان؟
قاصد: وہ بھی اچھی طرح ہیں مگر ادنی مسلمانوں سے لے کر اعلی تک حتی کہ خلیفہ بھی ان مسلمانوں کی وجہ سے جنہیں ہندوستان کے مغرور راجہ داہر نے قید کر لیا ہے سخت پریشان اور بے قرار ہیں اور سب کی نگاہیں اس مہم پر لگی ہوئی ہیں جو کہ وہاں بھیجی جا رہی ہے-
موسیٰ: اچھا میری عرض داشت کا جواب ملا؟
قاصد: جی ہاں-
موسیٰ: لاو !
قاصد نے خلیفہ کا مراسلہ نکال کر پیش کیا-
موسیٰ نے لے کر اول اسے چوما اور پھر کهول کر پڑھا لکھا تھا:::
منجانب ولید بن عبدالملک خلیفہ المسلمین از دمشق بجانب موسیٰ بن نصیر وائسرائے بلاد مغرب::::
السلام علیکم و رحمۃ بعد از حمد و صلوٰۃ کے قلمی ہے کہ اسلام اور مسلمان دنیا سے فسق و فجور بدکاری بد امنی کو دور کرنے آئے ہیں اگرچہ ہندوستان کی مہم در پیش ہے مگر اس مہم کی وجہ سے کونٹ جولین کی مدد سے باز نہیں رہ سکتے-وہ مظلوم ہیں اور مظلوم کی حمایت کرنا مسلمان کا اولین فرض ہے-ہم اس مہم کا کلی اختیار تم کو دیتے ہیں تم نہایت ہوشیاری سے اسے شروع کرو-یہاں تجربہ کار لوگوں کو اندلس بھیجو اور کسی ایسے افسر کا انتخاب کرو جو اس مہم کے لیے مناسب اور موزوں ہو-اول اول زیادہ لشکر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے-تھوڑا سا لشکر بھیجو ضرورت لاحق ہو تو کچھ اور لشکر بھیج دینا-فقط والسلام و رحمۃ اللہ.
اس شاہی مراسلہ کو پڑھ کر اتنی مسرت موسیٰ کو نہ ہوئی ہو گی جتنی یہ سن کر کونٹ جولین اور راہب کو ہوئی-
راہب:کہئے اب تو دربار خلافت سے بھی اجازت مل گئی ہے اب کیا ارادہ ہے آپ کا؟
موسیٰ: مجھے صرف اسی کا انتظار تھا خلیفہ نے میری عرض داشت منظور کر لی ہے اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے پرسوں جمعہ کی نماز کے بعد ان شاءالله لشکر روانہ ہو جائے گا۔۔۔راہب اور کونٹ جولین دونوں آداب کر کے اٹھ کر چلےگئے۔ 
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
موسیٰ نے اسی روز سات ہزار آزمودہ کار اور شیر دل نوجوانوں کا انتخاب کر کے انہیں تیاری کا حکم دیا-اندلس کی مہم پر جانے کے لیے ہزاروں آدمی تیار بیٹھے تھے-سب کا خیال تھا کہ کم سے کم پندرہ بیس ہزار لشکر تو بھیجا ہی جائے گا مگر ان کی حیرت اور مایوسی کی کوئی حد نہ رہی، جب انہوں نے دیکھا کہ صرف سات ہزارلشکر بھیجا جانا منظور ہوا ہے جو منتخب ہو گئے انہوں نے خوش ہو کر تیاریاں شروع کر دیں اور منتخب نہ ہوئے وہ ان کی خدمت کرنے لگے-
صرف ایک ہی دن درمیان میں تھا-آنکھ جھپکتے ہی وہ بھی گزر گیا اور جمعہ کا وہ روز سعید آ گیا جب اندلس پر جانے والا لشکر روانہ ہونے والا تھا-
حسب معمول مسلمان غسل کر کے اور نئے کپڑے پہن کر مسجد کی طرف جانے لگے-نماز کے وقت سے بہت پہلے مسجد پُر ہو گئی-
وقت پر اذان ہوئی نماز ہوئی اور سنتوں وغیرہ سے فارغ ہو کر موسیٰ منبرپر آئے-انہیں دیکھتے ہی سب لوگ اس قدر خاموش ہو گئے کہ سانس لینے کی آواز صاف طور پر سنائی دینے لگی۔
موسیٰ:مسلمانو !قابل تعریف وہی ذات ہے جس نے یہ دنیا بنائی ہےجسے ہم دیکھتے ہیں ، اور وہ عالم جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے،بنائے ہیں-
وہ خالق کل ہے اور قادر مطلق! نہ اسے نیند آتی ہے نہ تهکان محسوس ہوتی ہے، وہ اکیلا ہے، اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے-وہ ہمیشہ سے ہے اس وقت سے جب کوئی بھی نہ تھا اسی نے سب کچھ بنایا اور وہ ہمیشہ رہے گا، یعنی اس وقت بھی جب کہ تمام عالم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے-
زمین پهٹ جائے گی اور آسمان ٹکرے ٹکڑے ہو جائے گا-سیاروں کا وجود باقی نہ رہے گا وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم مسلمان اس کی عبادت کرتے ہیں-
یاد رکھو دنیا میں صرف مسلمان ہی توحید کے حامل اور مبلغ ہیں اور اب قیامت تک توحید مسلمانوں ہی میں رہے گی-چونکہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اس لیے یہی شریعت یہی قرآن شریف اور یہی مذہب توحید کا علمبردار رہے گا-
گزشتہ کتابوں یعنی توریت انجیل اور زبور وغیرہ میں بھی تحریفیں ہوتی رہیں-انسان ان میں ردو بدل کرتے رہے-قرآن مجید میں ایک نقطہ اور زیر زبر اور پیش کا بھی فرق نہیں آ سکے گا-یہ اس لیے کہ اللہ نے خود اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے-اللہ رب العزت قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے( بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں )۔ خیال کرو !اللہ سے زیادہ حفاظت کرنے والا کون ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس میں ایک نقطے کا فرق نہیں آیا اور نہ آئندہ آ سکتا ہے-
اس کے بعد قابل تعریف باعث تخلیق عالم فخر بنی آدم احمد مجتبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی ہے.آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہزاروں صعوبتیں، لاکھوں تکلیفیں برداشت کیں اور دنیا کے سامنے بے ڈهڑک ہو کر اللہ کا پیغام پہنچا دیا-ہمیں فخر ہے کہ ہم اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ہیں جو اللہ کا لاڈلا ہے-فرشتوں کا حبیب ہے، دنیا والوں کا پیارا ہے-ان پر درود سلام ایک بار نہیں ہزار بار نہیں لاکھوں بار ان گنت درود سلام-
اسلام کے بہادر فرزندو !دربار خلافت پر کونٹ جولین فریادی بن کر آئے ہیں-اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے ان کی فریاد سن کر ان کی مدد کرنے کا وعدہ کر لیا ہے اور آج لشکر روانہ ہونے والا ہے جو اندلس سے بدکاری عیش پرستی بد امنی اور انسان پرستی مٹا دے گا-دعا کرو کہ پروردگار عالم مجاہدین کو فتح عطا فرمائے-"تمام مسلمانوں نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خلوص اور سچے دل سے دعا مانگی-
موسی ٰ:غالباً سب لوگوں کو اس بات کے معلوم کرنے کا اشتیاق ہو گا کہ اندلس جانے والے لشکر پر افسر یا سپہ سالار کس کو مقرر کیا جائے گا-میرے پاس سینکڑوں درخواستیں تحریری اور زبانی آئی ہیں-ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے یہ اعزاز حاصل ہو-اس میں میرا بیٹا عبد العزیز بھی ہے لیکن میں نے ایسے افسر کا انتخاب کیا ہے جو اس مہم کے لیے ہر طرح سے موزوں اور مناسب ہے-وہ ایک بربری غلام ہے لیکن میں نے اسے آزاد کر دیا ہے-اس کا نام طارق ہے۔
طارق بربر کا رہنے والا تھا- جب مسلمانوں نے بربر پر لشکر کشی کی تو وہ اپنے ملک کی حفاظت میں نہایت شجاعت و بسالت سے لڑا اور لڑتے لڑتے گرفتار ہو گیا،چونکہ جو لوگ لڑائی میں گرفتار ہوتے ہیں وہ غلام بنا لئے جاتے ہیں، اس لیے طارق بھی غلام بن گیا اور موسی کے پاس رہنے لگا،مسلمانوں کی ہم نشینی نے اسے مسلمان ہونے پر برانگنختہ کر دیا اور وہ مسلمان ہو گیا۔ موسی نے اسے فورا آزاد کر کے مراکش کا گورنر بنا دیا-

دنیا کی کوئی قوم بھی ایسے ایثار ایسی مساوات کا مظاہرہ نہیں کرتی کہ ادنیٰ درجہ کے شخص کو جو اچھوت تھا مسلمان ہوتے ہی جلیل القدر عہدہ دے دیا گیا ہو-ہندوستان میں تو اچھوتوں کی یہ حالت زار ہے کہ مجال نہیں وہ کسی مندر شوالہ اور دهارمک عمارت میں چلے جائیں۔

یہ سات ہزار کا لشکر جس کا سپہ سالار طارق بن زیاد تھا ، طارق کے دست راست طریف بن مالک اور مغیث کی سر کردگی میں روانہ ہوا اور ساحل سمندر کے کنارے واقع ایک شہر جس کا نام سبتہ تھا پہنچ گیا۔
 وہاں پر امیر بحر عبداللہ اپنے بہری بیڑے کے ساتھ اس لشکر کے انتظارمیں کھڑا تھا ۔کاونٹ جولین لشکر کو دوسرے کنارہ تک پنچانے کے لیے ساتھ ہو لیا۔سبتہ شہر کا حاکم ایک عیسائی تھا جو کہ مسلمانوں کی عملداری میں تھا۔ لشکر سبتہ پہنچ کر بہری بیڑے میں سوار ہوا ۔اور ہسپانیہ کیطرف روانہ ہوا۔
دوسرے کنارے پر پہنچ کر سمندر میں جہاں تک بہری بیڑا جا سکتا تھا چلا گیا ۔جب طارق بن زیاد نے دیکھا کہ آگے بڑھنا نا ممکن ہو گیا تو لنگر ڈال دیئے گئے اور جہاز معمولی جھٹکے کے ساتھ رک گئے-کشتیاں نکال نکال کر سمندر میں ڈال دی گئیں اور سب سے پہلے ان میں سامان بار کیا جانے لگا-جولین نے کہا ہم آپ کی رہنمائی کے لیے یہاں تک آئے ہیں اب ہم رخصت ہونا چاہتے ہیں-
طارق: اب آپ کہاں جائیے گا؟
جولین: سیوطا-
طارق: بہت اچھا لیکن ہاں ایک بات-
جولین: جی فرمائیے!
طارق: ہم اس ملک کے راستوں سے بالکل نا واقف ہیں اگر کوئی رہبر مل جاتا تو اچھا ہوتا! !!!
جولین: افسوس ہے کہ ایسا کوئی آدمی میرے علم میں نہیں ہے-
طارق: خیر اللہ مالک ہے-
جولین: ان پہاڑوں سے گزر کر آپ کھلے ہوئے میدان میں پہنچیں گے، سیدھے راستے بڑھتے چلے جائیے-اندلس کے دارالسلطنت ٹولیڈو (طلیطلہ) میں پہنچ جائیں گے-کسی رہبر کی ضرورت نہیں ہے-
طارق:اللہ خود ہی سبیل نکال دے گا-
جولین: ایک بات اور سن لیجیے-
طارق: کہیے؟ 
جولین: جزیرہ سبز سے جو راستہ اندلس کو گیا ہے وہاں شاہ رازرک کامشہورا سپہ سالار تدمیر کچھ لشکر لے کر ٹھہرا ہوا ہے-زرا ہوشیار رہنے گا کہیں وہ آپ کو غافل پا کر حملہ نہ کر دے-
طارق: کیا وہ سرحد کی حفاظت پر مامور ہے؟ 
جولین: نہیں بلکہ وہ اتفاق سے اس طرف آیا ہوا ہے-
طارق: اس کا لشکر کتنا ہے؟ 
جولین: مجھے صحیح تعداد تو معلوم نہیں ہے-
طارق: اور تعداد معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے-جب اس ملک میں آ گئے ہیں تو پھر جتنی مرضی تعداد میں لشکر آ جائے مقابلہ پر موت یا فتح دونوں میں ایک حاصل کرنا ہے-
جولین: اللہ آپ کو فتح دے، میرے سینے میں جو آگ بھڑک رہی ہے وہ اسی وقت بجھ سکتی ہے جب آپ فتح یاب ہوں اور وہ وسیہ کا رازرک مار ڈالا جائے-
طارق: اطمینان رکھئیے اللہ ہر ظالم کو سزا دیتا ہے-
جولین: مجھے بھی یہی توقع ہے میری بیٹی بے عزتی کے غم میں گھل گهل کر مر رہی ہے-
طارق: اسے تسلی دیجئے! !!!
جولین: آپ کے لشکر کا حال جان کر اسے خود ہی تسلی ہو جائے گی"-اچھا اب رخصت ہونا چاہتا ہوں-
طارق: اللہ حافظ-
جولین: دیکھئے تدمیر ایک چالاک اور تجربہ کار آدمی ہے اس سے ہوشیار رہیے گا-
طارق: ہمارا تو اللہ پاک پر بھروسہ ہے اور وہی ہمارا معاون و مددگار ہے-
جولین: خدا آپ کی مدد کرے-
وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر اپنے جہاز پر چلا گیا-اس عرصے میں تمام سامان کشتیوں کے ذریعے ساحل پر پہنچا دیا گیا تھا اب شیر دل سپاہی ساحل پر جا رہے تھے جب تمام لشکر ساحل پر پہنچ گیا، تب طارق اور مغیث الرومی بھی کشتی پر بیٹھ کر کنارے پر جا پہنچے-
یہاں پہنچتے ہی طارق نے کہا-"مسلمانوں اللہ وحدہ لا شریک بلند و بالا کی مہربانی سے ہم اندلس کے سر سبز ساحل پر پہنچ گئے ہیں-"تم خوب جانتے ہو کہ مسلمانوں کی مدد اللہ کرتا ہے اور ان شاءالله ہم اس کی مدد سے پورے اندلس پر قابض ہو جائیں گے-
رات جب میں سو رہا تھا تو سرکار دو عالم فخر مدینہ سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم خواب میں تشریف لائے اور مجھے اندلس کی فتح کی بشارت دی-جیسا کہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں ایسا ہی فتح اندلس پر بھی یقین ہو گیا ہے مگر میں کسی پر جبر نہیں کرنا چاہتا-سوچ لو کہ یہ مہم معمولی نہیں ہے، اس ملک کے چپہ چپہ پر ٹڈی دل عیسائی بکھرے ہوئے ہیں-ہم راستوں سے نا واقف ہیں پیدل ہیں اور بے سروسامان ہیں، نیز تعداد میں بھی بہت کم ہیں ہم کو زیادہ محنت مشقت کرنا پڑے گی-اس لیے میں ان کو جو واپس جانا چاہتے ہیں خوشی سے واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں شوق سے واپس چلے جائیں بتائیں کتنے لوگ واپس جانا چاہتے ہیں؟ "تمام مسلمان چپ رہے ایک بھی نہ بولا سب خاموش رہے طارق نے کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی واپس نہیں جانا چاہتا؟ "ہر طرف سے آوازیں آئیں-"ہرگز نہیں، ہم میں سے ایک بھی واپس نہیں جائے گا-"طارق: پھر سوچ لیجیے-"سب نے کہا خوب سوچ لیا ہے ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کی آرزو شہادت کے کے سوا کیا ہو سکتی ہے!طارق: یہی بات ہو سکتی ہے-اچها! جب آپ میں سے کوئی بھی واپس نہیں جانا چاہتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جہاز بے کار ہیں-
ایک شخص: ہاں بالکل بے کار ہیں-
طارق: پھر بے کار کیوں رہنے دیا جائے؟
مغیث:  کیا ارادہ ہے آپ کا؟
طارق: میں ان جہازوں کو آگ لگوانا چاہتا ہوں-سب نے کہا ہاں جب یہ بے کار ہیں تو ضرور انہیں جلوا دیجئے-
طارق: اچھا تو تم جہازوں اور کشتیوں کو جلا دو-
کئی آدمی بڑھے اور انہوں نے کشتیاں، جہازوں میں ڈال کر جہازوں کو آگ لگا دی گئی اور تمام مسلمان ساحل پر کھڑے ہو کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھنے لگے-
ممکن ہے کہ موجودہ دور کے لوگ کہیں کہ طارق نے غلطی کی کہ انہوں نے ان کے جہازوں کو جن کے ذریعے سے واپس جانا ممکن تھا  جلوا دیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس کاروائی سے مسلمانوں کے دلوں میں جوش و امنگ کا دریا امڈ آیا تھا اور ہر مجاہد نے تہیہ کر لیا کہ وہ شہید ہو جائے گا یا فتح حاصل کرے گا-واپسی کا خیال تک دل میں نہیں آنے دے گا-
مسلمان جزیرہ و خضر پر پانچویں رجب 93ہجری سہ شنبہ کے روز پہنچے تھے-تھوڑے ہی عرصے میں تمام جہاز جل کر سمندر کی تہہ میں بیٹھ گئے-
طارق :مسلمانو!تمہاری واپسی کا اب کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا ہے-اب صرف دو ہی باتیں ہیں یا تو شہید ہو جاو یا ملک فتح کرو-
طارق چو بر کنارہ اندلس سفینہ سوختگفتند کار توبہ نکاہ خرد خطا استدوریم سبب زروئے شریعت کجا ردا استخندید و دست خویش بہ شمشیرِ بدو گفتہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست(اقبالؔ)
سب نے کہا ان شاءالله ہم اندلس فتح کر کے ہی رہیں گے-
طارق: جب انسان کسی نیک کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی مدد کرتی ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے-سب نے کہا ان شاءالله! !!!!طارق: اچھا اللہ کا نام لے کر بڑہو-فتح اللہ کی طرف سے ہے اور وہ قریب ہے،سب نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا-اس پُر ہیبت نعرہ سے تمام پہاڑ اور ساحل سارا گونج اٹھا، اگرچہ اس جگہ کا نام لائنزراک یا قلعہ الاسد تھا مگر جب سے طارق اس جگہ آئے اس وقت سے اس کا نام جبل الطارق مشہور ہو گیا اور آج بھی دنیا اسے جبل طارق کے نام سے پکارتی ہے-
اب یہ لوگ آگے بڑھے اور پہاڑ کو طے کرنے لگے-تمام پہاڑ نہایت سر سبز و شاداب تھے-طرح طرح کے چھوٹے بڑے درخت قسم قسم کے خوش رنگاور خوشبو دار پھلوں کے پودے اور نئی نئی وضع کی گھاس تھی جس کی طرف بھی نظر جاتی تھی، گلپوش اور سبزہ زار چٹانیں نظر آتی تھیں-اس جاذب نظر اور فرحت افزا پہاڑ کو عبور کر کے یہ لوگ دوسری طرف اس کے دامن میں اترے لگے-
ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ ایک شخص زرد رنگ کا ریشمی جبہ پہنے ملا وہ کچھ پریشان و مضطرب اور بے قرار تھا-
طارق نے اسے دیکھا-انہوں نے مغیث الرومی سے کہا-یہ شخص عیسائی نہیں معلوم ہوتا-
مغیث: میرا بھی یہی خیال ہے-
طارق: اسے بلوائیں اور دریافت کریں کون کون ہے اور یہاں کیوں پھر رہا ہے-
مغیث:بہتر ہے-انہوں نے ایک سپاہی کو اسے بلانے کے لیے بھیجا-سپاہی گیا اور اسے بلا لایا-اس نے آتے ہی طارق کو سلام کیا-
طارق :تم تنہا یہاں کیا کر رہے ہو؟ "اس نے کہا میں آپ کی تلاش میں تھا"-طارق نے حیران ہو کر پوچھا ہماری تلاش میں؟ 
وہی شخص :جی ہاں!
طارق: گویا تمہیں ہمارے آنے کی توقع تھی؟
وہی شخص: مجھے بتایا گیا تھا! !!
طارق: کس نے بتایا تھا؟
وہی شخص:میں سب کچھ عرض کرتا ہوں-میں مظلوم ہوں ظالم عیسائیوں کا ستایا ہوا ہوں کیا آپ میری داستان سنیں گے؟
طارق: ضرور سنوں  گا ہم مظلوموں کے حامی ہیں-
وہی شخص: آپ میری داد رسی کریں گے؟ 
طارق: ان شاءالله ، اچھا تم اپنی داستان سناو۔
وہی شخص: بہتر ہے-
طارق اور مغیث الرومی کھڑے ہوئے ہمہ تن متوجہ ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔۔
 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی