🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
╏╠══[══قسط نمبر 01 ═(آغاز)══] 💦
سورج کی کرنیں دن بھر سفر کرنے کے بعد تھک کر سمٹنے لگی تھی اور شام کے سائے اپنے پر پھیلانے لگے تھے ۔
شمعیں جلنے لگی تھی اور پرندے دن بھر اڑنے اور دانہ چگنے کے بعد اپنے اپنے مسکن کی طرف لوٹ رہے تھے۔
شام کے اس پہر دو سائے طنجہ شہر کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
ان کے قدم کبھی تیزی اور کبھی آہستہ آہستہ آٹھ رہے تھے۔
شکل سے یہ دونوں راہب لگتے تھے ۔
چلتے چلتے یہ لوگ طنجہ شہر جانے والے راستے پر پہنچ گے ۔
وہاں ان کی ملاقات چوکی پر موجود سپاہیوں سے ہوئی ، ان دونوں نے سپاہیوں کو سلام کیا اور کہا کہ وہ والی طنجہ طارق بن زیاد سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔
سپاہیوں نے ملاقات کی وجہ پوچھی جو ان راہبوں نے بتا دی ،ان میں سے ایک سپاہی ان لوگوں کے ساتھ ہو لیا ۔اور وہ شہر کی طرف روانہ ہو گئے ۔
مغرب کا وقت تھا جب یہ لوگ شہر پہنچ گے اور شہر کی جامع مسجد کے باہر جا کر کھڑے ہو گئے ۔
تھوڑی دیر کے بعد مسجد سے طارق بن زیاد اور ظریف بن مالک نماز پڑھ کر باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک سپاہی کے ساتھ دو راہب کھڑے ہیں ۔
انہوں نے سلام کیا تو سپاہی نے کہا کہ یہ دونوں راہب آپ سے ملناچاہتے تھے ۔تو میں ان کو اپنے ساتھ یہاں لے آیا۔
طارق بن زیاد نے راہبوں کو ملاقات کی وجہ پوچھی ۔
ان میں سے ایک راہب جس کا نام کونٹ جولین تھا نے کہا کہ ہم الویرا کے علاقہ سے آئے ہیں اور وہ علاقہ آپ کی عملداری میں آتا ہے۔
ہمارے چرچ کی راہبہ جس کا نام لوسیہ ہے کو ہسپانیہ ایک شخص اٹھا کر لے گیا ہے اور وہ طاقتور خاندان سے تعلق رکھتا ہے ہم شکایت لے کر وہاں کے حاکم کے پاس گئے ۔مگر اس نے ہماری فریاد نہیں سنی اس کے بعد ہم آپ کے پاس آئے ہیں ۔
طارق : اب اپ لوگ کیا چاہتے ہو ؟
راہب :ہماری راہبہ کو ہمیں واپس دلوایا جائے ۔
طارق بن زیاد نے راہب کی روداد سنی ۔اور ظریف بن مالک سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے ۔
دونوں یہ فیصلہ کیا کہ ان کو موسی بن نصیر کے پاس بھیج دیا جائے ۔اور وہاں سے جو فرمان جاری ہوگا ہم لوگ اس پر عمل کریں گے ۔
چناچہ دونوں راہبوں کو موسی بن نصیر کے پاس بھیج دیا گیا اور ساتھ ان کی ساری روداد لکھ کر بھی بھیج دی گئی ۔
موسی کے پاس پہنچ کر انہوں نے طارق کا لکھا ہوا مراسلہ پیش کیا ۔موسی نے مراسلہ کھول کر پڑھا اورراہبوں سے ہم کلام ہوا۔
موسیٰ: کیا حاکم وقت کو اس وحشیانہ واقعہ کی اطلاع نہیں ہوئی؟
راہب :سب کو خبر ہے اور سب کو ہی نہایت رنج وقلق ہے۔
موسیٰ: پهر ایسے ابو الہوس اور بدکار بادشاہ کو معزول یا قتل کیوں نہیں کر دیتے؟
راہب: اس لیے کہ سب اس سے ڈرتے ہیں!
موسیٰ: اچھا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟
جولین: صرف یہ کہ آپ اس ظالم سے میرا انتقام لیں، آپ ایک مظلوم کی حمایت میں تلوار بلند کر رہے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا معقول وجہ ہو گی۔
موسیٰ: یہ تمہارا آپس کا مسئلہ ہے خود ہی طے کر لو!
جولین: اگر ہم طے کر سکتے ہوتے تو آپ کا دروازہ کیوں کھٹکھٹاتے!
راہب: مسلمانوں کا قول ہے کہ وہ دنیا میں امن قائم کرنا اور مظلوموں کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
موسیٰ:بے شک!
راہب: جو بے عزتی جولین کی کی گئی ہے اس سے کیا وہ مظلوم نہیں سمجھے جاتے؟
موسیٰ:بےشک
راہب: اور رازرق؟
موسیٰ:وہ ظالم ہے۔
راہب : پهر کیا آپ کا یہ فرض نہیں ہو جاتا کہ مظلوم کی حمایت کریں اور ظالم کو کیفرکردار تک پہنچائیں؟
موسی: بےشک میرا یہ فرض ہو جاتا ہے۔
راہب: تو اللہ کے لیے آپ مظلوم کی حمایت کیجئے اور ظالم کو سزا دیجئے، میں شرافت ، تہذیب اور انسانیت کے نام پر آپ سے اپیل کرتا ہوں۔
جولین: اگر آپ نے ہماری امداد نہ کی اور میں اس بدکار و جفاکار سے اپنا انتقام نہ لے سکا تو میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قسم کھاتا ہوں کہ سمندر میں ڈوب کر مروں گا اور میرا خون آپ کی گردن پر ہو گا۔
موسیٰ یہ سن کر گھبرا گئے اور انہوں نے جلدی سے کہا "میں ان شاءالله تمہاری مدد کروں گا لیکن!"
راہب:لیکن کیا؟
موسیٰ:میں محض ایک وائسرائے ہوں، خلیفہ کا ماتحت میں خود مختار نہیں ہوں، اگر تم پسند کرو تو میں تمام واقعات لکھ کر خلیفۂ وقت کے حضور میں ارسال کر کے ان سے لشکر کشی کی اجازت حاصل کر لوں۔
راہب:نہایت مناسب رائے ہے آپ کی۔
موسی:اچھا تو میں ابھی لکھتا ہوں، موسی نے اسی وقت ایک عرض داشت لکھی اور اپنے ایک متمد آدمی کو دے کر خلیفہ کی خدمت میں ارسال کر دی۔
کونٹ جولین اور راہب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اجازت لے کر رخصت ہو گئے-ان کے جاتے ہی موسیٰ اور عبد العزیز اُٹھ کر چلے گئے-ان کے جاتے ہی وہاں موجود لوگ ٹولیوں کی صورت میں روانہ ہوگئے۔
❖❀~ جاری ہے ~❀❖