تحریر : آئی ٹی درسگاہ دار الافتاء گروپ
تحقیق و تالیف : مفتی محمد افضل عفی عنہ
(Red heifer) :سرخ بچھیا
۔۔۔۔۔
"سرخ بچھیا" کی حقیقت کیا ہے ، اس کا ذکر کون سی کتاب میں آیا ہے اور کیا اس کی پیدائش کے ساتھ دنیا کے خاتمے کی کی گنتی شروع ہوچکی ہے ؟ "سرخ بچھیا" جسے لےکر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے اسے جاننے سے پہلے بطور تمہید اجمالی طور پر یہود اور نصاری کے ہاں موجود کتب کا چند سطری تعارف ملاحظہ فرمائیں۔
(1)عہد نامہ قدیم ، (2) عہد نامہ جدید ، (3) بائبل
۔۔۔۔۔۔
عہدنامہ قدیم: ایک مسیحی اصطلاح ہے جو بائبل کے ایک بڑے حصہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے، اس میں یہود کی تمام کتابیں بشمول تورات یعنی شروع کی پانچ کتابیں شامل ہیں۔
کیتھولک وغیرہ کے نزدیک عہدنامہ قدیم 46 کتابوں پر مشتمل ہے ۔ جب کہ پروٹسٹنٹ اور یہود کے نزدیک اس مجموعہ میں محض 39 کتابیں ہیں، یہود نے اس مجموعہ میں صرف ان کتابوں کو شامل کیا ہے جو عبرانی زبان میں مدون ہوئے تھے، اس کے علاوہ یونانی زبان میں ترتیب پانے والی دیگر کتابیں ان کے نزدیک مذہبی وقانونی استناد کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
عہد نامہ جدید یہ بھی مسیحی اصطلاح ہے جن میں مسیحی مذہبی کتب کا مجموعہ جیسے کہ اناجیل اربعہ، رسولوں کے اعمال، حواریوں کے خطوط اور مکاشفہ شامل ہیں ان کی کل تعداد موجودہ نسخہ میں 27 ہے۔ کچھ دیگر مسیحی فرقوں کے نسخوں میں کتب کی تعداد ان سے الگ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
بائبل :-
عہدنامہ قدیم جسے پرانا عہدنامہ یا عہد عتیق بھی کہا جاتا ہے یہ
یہودی کتب ہیں اور یہ بائبل کا پہلا حصہ ہے۔ اور چوں کہ یہ یہودی مذہبی کتب ہیں تو یہود تو انھیں لازمی مانتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ عسائی بھی انھیں تسلیم کرتے ہیں
عہدنامہ جدید جسے نیا عیدنامہ یا عہد جدید بھی کہا جاتا ہے یہ عسائی کتب ہیں یہ بائبل کا دوسرا حصہ ہے اور بائبل کا یہ حصہ عسائی مذہبی کتب ہونے کی وجہ سے فقط عسائیوں کا ہاں مسلم ہے۔
۔۔۔۔۔۔
چند سطری تعارف کے بعد اب آتے ہیں کہ "سرخ بچھیا" کا ذکر کون سی کتاب میں ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟
بائبل کے پہلے حصے یعنی عہدنامہ قدیم /عہد عتیق/ پرانا عہدنامہ کی مشہور کتاب "تورات"جس کا لفظی معنٰی ہے قانون
اس میں پانچ کتابیں شامل ہیں:-
(1)پیدائش (2) خروج (3) احبار(4) گنتی (5) استثناء۔
پھر ان میں چوتھے نمبر کی کتاب "گنتی" میں باب 19 اور آیت 1سے لے کر 10 تک رقم ہے ۔
(1)اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ۔
۔۔۔۔
(2)شرع کے جس آئین کا حکم خداوند نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ تو بنی اسرائیل سے کہہ کہ وہ تیرے پاس ایک بے داغ اور بے عیب سرخ رنگ کی بچھیا لائیں جس پر کبھی جوا نہ رکھا گیا ہو۔
۔۔۔۔۔
(3)اور تم اسے لے کر الیعزر کاہن کو دینا اور وہ اسے لے کر لشکر گاہ کےباہر لے جائے اور کوئی اسے اس کے سامنے ذبح کردے۔
۔۔۔۔۔
(4) یہ آیت کتاب میں خالی ہے۔
۔۔۔۔۔
(5) اورالیعزر کاہن اپنی انگلی سے اس کا کچھ خون لے کر اسے خیمہ اجتماع کے آگے کی طرف سات بار چھڑکے پھر کوئی اس کی آنکھوں کے سامنے اس گائے کو جلا دے یعنی اس چمڑا اور گوشت اور خون اور گوبر اس سب کو جلا ئے
۔۔۔۔۔
(6)پھر کاہن دیودار کی لکڑی اور زوفا اور سرخ کپڑا لے کر اس آگ میں جس میں گائے جلتی ہو ڈال دے۔
۔۔۔۔
(7)تب کاہن اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اس کے بعد وہ لشکر گاہ کے اندر آئے پھر بھی کاہن شام تک ناپاک رہےگا۔
۔۔۔۔
(8)اور جو اس گائے کو جلائے وہ بھی اپنے کپڑے پانی سے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اور وہ بھی شام تک ناپاک رہے گا۔
۔۔۔۔۔
(9)اور کوئی پاک شخص اس گائے کی راکھ کو بٹورے اور اسے لشکر گاہ کے باہر کسی پاک جگہ میں دھر دے یہ بنی اسرائیل کے لیے ناپاکی دور کرنے کے لیے رکھی ہے کیونکہ یہ خطا کی قربانی ہے۔
۔۔۔۔۔
(10)اور جو اس گائے کی راکھ کو بٹورے وہ شخص بھی اپنے کپڑے دھوئے اور وہ بھی شام تک ناپاک رہے گا اور یہ بنی اسرائیل کے لیے اور ان پردیسیوں کے جو ان میں بودوباش کرتے ہیں ایک دائمی آئین ہوگا۔
۔۔۔۔
تو یہ ہے وہ کتاب اور وہ قصہ جس کے متعلق بحث ہورہی ہے اب اس کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں ۔
یاد رہے کہ صیہونیت کا عقیدہ ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا پر صیہونیت کی حکومت کا تصور اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا ، جب تک ہیکل سلیمانی کی از سر نو تعمیر نہیں ہوگی اور جب تک ہیکل سلیمانی کی تعمیر نہیں ہوگی اُس وقت تک یہودی مسیحا یعنی دجال دنیا میں نہیں آئے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ صیہونیت عروج میں آنے کے بعد اب تک ہیکل سلیمانی کی تعمیر کیوں نہیں کرسکی ؟
تو تو اس کی دو وجوہات تھیں :- نمبر ایک وجہ یہ تھی کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے صہیونیوں کو گناہوں سے پاک کرنے والی قربانی شرط ہے اور وہ اس طرح ہے کہ قربانی کے لیے ایک ایسی سرخ بچھیا چاہیے جس کا ایک بال بھی کسی اور رنگ کا نہ ہو حتیٰ کہ بھورا بھی نہ ہو۔
نمبر دو اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی جس مقام پر تعمیر کیا جائے گا وہ وہی مقام ہے جہاں پر اس وقت مسجد اقصٰی موجود ہے آسان لفظوں میں ہیکل سلیمانی کا مطلب مسجد اقصیٰ کی شہادت ہے اور پھر یہ بھی وجہ ہے اگر مسجد اقصیٰ محض مسلمانوں کا مقدس مقام ہوتا تو صہیونی شاید اسے اب تک شہید کرچکے ہوتے لیکن یہ مقام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کا بھی مقدس ترین مقام ہے، یہی وجہ ہے کہ صہیونی اسے شہید کرنے لیے پوری طرح سے ماحول بنارہے ہیں ۔
اب جب کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیےقائم کردہ خصوصی ادارے دی ٹیمپل انسٹیٹیوٹ کی جانب سے کچھ عرصہ پہلے یہ اعلان بھی آچکا ہے کہ ’مکمل طور پر سرخ بچھیا کی پیدائش اسرائیل میں ہوچکی ہے اور جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے لیے ماحول بھی بن چکا ہے تو ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے اسرائیل ایسا کر گزرے ۔ البتہ یہ بات بھی ہے کہ سرخ بچھیا کی پیدائش پچھلے سال ہوئی تھی اس لیے اگر کسی حادثے وغیرہ کا شکار نہیں ہوتی ہے تو اس کی قربانی دو سال کی عمر میں ہی دی جاسکتی ہے اس سے پہلے نہیں اور اب تک اس کی عمر دو سال نہیں ہوئے ہیں ۔
یہاں پر اس کی بھی وضاحت کردوں کہ میں نے چوں کہ (پاکستان بائبل کارسپانڈنس سکول) سے بائبل کا کورس کیا ہے تو میرے مطالعے میں یہ بات نہیں آئی ہے کہ سرخ رنگ کی بچھیا کی پیدائش عجوبہ ہے اور اس کی پیدائش کے ساتھ ہی دنیا کے اختتام کی گنتی شروع ہوگئی ہے اور کائنات اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے ایسی کوئی بات نہیں کیوں کہ اس سے پہلے بھی یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ سلام کے زمانے تک نو (9) دفعہ اس رنگ کی بچھیا کی قربانی دی ہے اور اس سے پہلے بھی اس قبیل کے حالات پیدا ہوئے تھے اور ایسی پیشن گوئیاں بھی دی جاچکی ہیں ۔