از _ اے ایم
5 فروری 2016
الکمونیا کے قدیم ترین جنگلات میں جہاں زہریلے حشرات العرض کے سوا کسی ذی روح کا تصور بھی محال ہے وہاں شدید سردی اور دھند میں کھجل سائیں اپنے مخصوص حلیے میں (صرف میلی کچیلی دھوتی اور گلے میں قدیم موتیوں کی مالائیں پہنے) دنیا و مافیہا سے بے خبر آلتی پالتی مارے اکڑوں بیٹھا ہوا ایک چِلّے میں غرق تھا.. اچانک ایک خوفناک گہرے سیاہ رنگ کا بچھو گھاس میں سے نمودار ہوا اور رینگتا ہوا باباسائیں کے پاؤں سے ہوتا ہوا پورے بدن کے پھیرے لیکر انہیں کوئی مسجم پتھر سمجھ کر واپس گھاس میں گم ہوگیا..
آج بابا سائیں کو چلے میں بیٹھے ہوئے پورے چالیس دن گزر چکے تھے آج کی رات ان کے چلے کے چالیسویں اور آخری رات تھی.. باباسائیں یہ چِلّہ حال ہی میں چھوڑ جانے والی محبوبہ کو واپس حاصل کرنے کے لیے کاٹ رہے تھے.. مگر آخری تین چار دنوں سے انہیں شدید رکاوٹیں پیش آرہی تھی ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت ہر حال اس کا چلہ ختم کروانا چاہتی ہے مگر ساری زندگی انہوں نے اتنے چلے کاٹے کہ اب ایسی نادیدہ قوتیں بھی ان کے عمل کے آگے بے بس نظر آتی تھیں.. رات کے دو بج چکے تھے صرف ایک گھنٹہ باقی تھا جوں جوں چلہ ختم ہونے کا وقت قریب آرہا تھا اس خاموش اور پراسرار ماحول کی بے چینی شدید بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی تھی درخت ہوائیں حشرات العرض ہرچیز پوری طرح سے بے چین دکھائی رہی تھی.. بظاہر کھجل سائیں کی آنکھیں بند تھیں مگر اس کے بیرک اور گیان کی بدولت ہزاروں میل دور تک کا تمام تر منظر اسے صاف دکھائی دے رہا تھا.. نادیدہ قوتوں کو جب ہر طرح سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو آخری حربے کے طور پر اس کی محبوبہ کی بہترین سہیلی کو نیند کے عالم میں کھجل سائیں کے عین سامنے لادیا گیا.. چلہ ختم ہونے میں کچھ لمحے باقی تھے.. اضطراب بڑھتا جارہا تھا.. نادیدہ قوت نے بہترین چال چلی تھی.. کھجل سائیں کی محبوبہ کی یہ بہترین سہیلی بیحد خوبصورت اور نخرے والی تھی جس پر کھجل سائیں کی پہلے دن سے ہی نظر تھی.. نادیدہ قوت نے اس کی سب سے بڑی کمزوری کو استعمال کیا.. اور محبوبہ کی سہیلی کے دماغ کو قابو کرتے ہوئے اسے کھجل سائیں کے سامنے لاکھڑا کردیا.. اس کی آنکھوں میں کھجل سائیں کے لیے بے پناہ محبت اور تڑپ جھلک رہی تھی جو کہ سراسر نادیدہ قوت کی طرف سے پیداکردہ تھی..
جوں جوں آخری لمحہ قریب آرہا تھا تجسس بڑھتا چلا جارہا تھا .. نادیدہ قوت اگر محبوبہ کی سہیلی کی شبیہہ بناتی تو یقیناً کھجل سائیں کے بیرک اسے بتا دیتے مگر اصلی کو سامنے لاکھڑا کردینے کی چال بہت زبردست تھی.. آخری لمحہ آنے کو تھا کہ محبوبہ کی سہیلی نے اظہارِ محبت کردیا جس پر کھجل سائیں کا صبر ٹوٹ گیا...
اس نے آنکھیں کھول دیں اور چلہ ٹوٹ گیا..
اچانک فضا میں ایک غیرانسانی چیختی چلاتی آواز میں قہقہہ بلند ہوا اور پھٹے ہوئے لفظوں میں وہی آواز کھجل سائیں کی.سماعت سے ٹکرائی..
ہاہاہا.. تمہارا چِلہّ ٹوٹ گیا..
مورکھ... اتنے دنوں کی بھوک پیاس محنت اور اپنوں سے دوری کے نتیجے میں صرف ناکامی تیرے حصے میں آئی..ہاہاہا
یہ فقرہ سنتے ہی کھجل سائیں نے منہ ہی منہ میں کوئی منتر پڑھ کر خود پر اور اس سہیلی پر پھونکا پھر بلند آواز میں اسی نادیدہ قوت سے مخاطب ہوا..
"ہاہاہا... جیت تمہاری نہیں.. میری ہوئی.... میں اُس بے وفا کے لیے نہیں بلکہ اسکی اسی سہیلی کو حاصل کرنے کے لیے یہ چلہ کاٹ رہا تھا"
ماحول کو پھر سے سانپ سونگھ چکا تھا اور کھجل سائیں ایک منتر پڑھ کر سہیلی سمیت دھویں میں تحلیل ہوچکا تھا..