آنکھیں تھیں کہ ساون بھادوں کی صورت برس رہی تھیں اور بہت برسیں ...جب بادل برس لیے ، دل کچھ ٹہرا تو امیر المومنین بولے :
"عمیر مجھے معاف کر دینا ، میں بے بس سا ہو گیا تھا "
...........
عمیر حمص کے گورنر تھے ، حمص سوریہ کی سرسبز شاداب زمین کا جھومر ، مال و دولت جہاں سیلاب کی مانند تھے کہ بہتے چلے آتے ، گورنر کی شان کیسی ہو گی ؟ کیسا ٹھاٹھ ہو گا -
اک روز گورنر عمیر رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین کا خط ملا کہ "مدینے پہنچو "
عمر کہ جن کے رعب سے شیطان بھاگ اٹھے ، انسان کی کیا مجال ... گورنر صاحب نے خط پڑھا تو لمحوں میں مدینے کو چل دئیے - بنا وقت ضائع کیے نہ کوئی تیاری نہ اہتمام -----
سیدنا عمر خلیفہ المسمین مسجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھے ہیں - ایک تھکا ہارا ، درماندہ شخص مسجد میں داخل ہوا ، ننگے پاؤں ، جسم گرد و غبار سے اٹا ہوا ، ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا ....اور ہاں ایک رسی بھی کندھے سے لٹک رہی تھی کہ جس کے ساتھ کچھ برتن بندھے ہووے -
سیدنا عمر نے دیکھا تو خوش ہو کے آگے بڑھے :
" عمیر آ گئے ہو ! آؤ ، آؤ .........تم پر سلامتی ہو ،آؤ ، آؤ "
حال پوچھا ، اور حیرت سے پوچھا کہ :
"خط ملا یا خود سے چلے آئے "
"امیر آپ کا خط ملا ، تبھی تو آیا ہوں ، اسباب اٹھایا اور چل دیا "
"اسباب ؟" حیرت کچھ سیدنا عمر کے چہرے پر در آئی :
"کون سا سامان ، دکھائی تو یوں دیتا ہے سیدھے آ رہے ہو سامان کہاں ہے ؟"
" سامان ؟
یہ رہا میرا سامان ، یہ میرا ڈنڈا ہے اس سے اپنا دفاع کر لیتا ہوں اور ، تھک جاؤں تو ٹیک لگا لیتا ہوں ، یہ میرا توشہ دان ہے ، یہ پانی کا کٹورا ہے ، ان میں کوئی شے بھی فالتو تو نہیں ، ضروری ہی تو ہیں "
آنسو تھے کہ سیدنا عمر کے چہرے پر یوں برسے کہ جیسے آسمان سے ساون ... آنکھیں بہتے بہتے مسجد کے پہلو میں واقع دو قبروں کی طرف ہو گئی ...ادھر چہرہ پھیر کے رونے لگے اور کہنے لگے :
"اے اللہ اس سے پہلے کہ میرا من بدل جائے ، میں عیاشی میں مبتلا ہو جاؤں ، مجھے اپنے ان رفیقوں سے ملا دے ، اللہ مجھے نبی کریم اور ابو بکر کے سامنے رسوا نہ کرنا ...اللہ رسوا نہ کرنا "
سیدنا عمر کا چہرہ مبارک اپنے ساتھیوں یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قبور کی طرف تھا -
آنسو تھمے تو عمیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ :
:کیا کرتے رہے ، کیسے گزرتی ہے ، کچھ مال بھی لے کے آئے ہو یا خالی دامن ، خالی جیب ......"
"جو اکٹھا کرتا تھا ، تقسیم کر دیتا تھا ...ہاں امیر ایک درہم بھی نہ بچا ، ہوتا تو بخدا آپ کے پاس لے اتا "
سیدنا عمر کی آنکھیں تھیں کہ اپنے گورنر کی " رپورٹ " سن کر بار بار بھیگ رہی تھیں -
"اچھا اب تم واپس جاؤ "
"کچھ دن اپنے گھر والوں سے رہ سکتا ہوں ؟" سوال لبوں پر آیا تو امیر پھر سے تڑپ اٹھے ...
"ہاں ہاں کیوں نہیں "
عمیر اپنے گھر کو چلے گئے ....امیر المومنین نے ایک دوسرے ساتھی کو بلایا ...یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے - پیوند تو آپ کی قمیص کا بھی مستقل حصہ ہوتے لیکن ایسی غربت ، ایسی سادگی ایسا افلاس یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ حمص سے شاداب علاقے کا امیر اور یوں بے سروسامان -
" یہ درہم کی تھیلی ہے ، عمیر کے گھر جاؤ ، مہمان بن کے تین دن ساتھ رہو ، جو دیکھو بتاؤ اور یہ درہم آتے ہووے اسے دے آنا "
حبیب ، عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاں چلے گئے - تین دن رہے ،،،،،،،، جو کی سوکھی روٹی اور معمولی سا اس کے اوپر زیتون کا تیل ..حبیب کو بھی یہی ملتا رہا سو صبر شکر کر کے کھاتے رہے ..نہ مال کا نشان نہ دولت کے آثار ، غربت اور محض غربت ..... تیسرے دن درہم کی تھیلی ان کو دی :
"امیر المومنین نے دی تھی "
..عمیر کہ مسکرا اٹھتے ہیں " میرا حال دیکھنے آئے تھے ؟"
"جی ہاں امیر نے کجھے ایسا ہی کرنے کو بھیجا تھا " حبیب نے سر جھکا کے ہولے سے کہا -
عمیر رضی اللہ عنہ نے تھیلی تھامی ، تمام سکے نکالے ، ایک کے بعد ایک غریب ہمسائے کو بھیجنا شروع کر دیے ...ہاں گورنر تھے نا ، اپنے آبائی علاقے کے دورے پر آئے تھے ، کیسے نا مال لٹاتے ...سو کچھ ہی دیر میں "لکھ لٹ " نے سب لٹا دیا - تمام درہم ختم ہو گئے
کچھ ہی دن میں گورنر واپس جا رہا تھا ، اپنی راجدھانی حمص کو .....
اسی حال میں کہ پاؤں میں جوتے نہ تھے ، ہاتھ میں ایک موٹا سا " سونٹا " کندھے پر ایک رسی کہ جس کے ساتھ کچھ برتن۔۔۔۔۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشت خاک جگر ساغر میں ہے خون حسرت مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں
منقول ۔۔۔۔۔
زمرے
تاریخی واقعات