راجہ داہر اور محمد بن قاسم

 


🌷 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌷

ا҉҉ٓ҉҉ي҉҉ٔ҉҉ی҉҉ ҉҉ٹ҉҉ی҉҉ ҉҉د҉҉ر҉҉س҉҉گ҉҉ا҉҉ہ҉҉ ҉҉ک҉҉م҉҉ی҉҉و҉҉ن҉҉ٹ҉҉ی҉҉

🌼👈آپ کے مسائل اور ان کا حل👉🌼

🕌👈 *راجہ داہر اور محمد بن قاسم*  👉🕌

کیا رہنمائی فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس بارے میں کہ آج کل سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ہندو راجہ داہر سادات اور اہل بیت کا محافظ تھا جبکہ محمد بن قاسم ایک ڈاکو اور لٹیرا تھا جو دراصل سندھ میں سادات کو تاراج کرنے کی نیت سے آیا تھا۔
المستفتی : *ابو ہریرہ ایم ایس روپڑیؔ*، مقام اسلام آباد

💡👈الجواب حامدا و مصلیا 👉💡

اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ جس میں عالمگیر سطح پر مسلمانوں کی روشن تاریخ مسخ کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں اگر  صرف برصغیر کی حد تک کی بھی  اس حقیقت  کو تحریر کی شکل دی  جائے تو بھی بیسیوں کتابیں رقم کرنے کے بعد بھی یہ حقیقت پوری طرح  رقم نہ ہو ،  چہ جائیکہ چند سطریں لکھ کر اس کا جواب دینے کی کوشش کی جائے  لیکن چوں کہ سائل نے سوال کیا ہے  تو قلت وقت   اور خرابی طبیعت کے باوجود  بھی سائل کے سوال کا جواب قرض کی طرح واجب خیال کرتا ہوں ۔
 حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر آخری انسان تک جتنے بھی انسان  اللہ تعالی کے احکامات پر چلنے والے ہیں اور ہوں گے  اللہ تعالی نے  ان  کی فقط ایک پہچان بتائی  ہے اور وہ ہے "مسلمان ہونا" اس کے علاوہ باقی پہچان تو تعارف کی حد تک قابل قبول ہے مگر اس سے اوپر اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
 یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا اور لوگوں کو پہلے انبیاء علیہم السلام کی طرح ایک دین کی طرف بلایا تو اس وقت بھی ان کی فقط ایک ہی پہچان بتائی گئی تھی اور وہ پہچان تھی  صرف "مسلمان ہونا" اس  بات پر اس وقت کے برگزیدہ ہستیوں یعنی حضرات  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حقیقتاً عمل بھی کرکے دکھایا جس پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید اور احادیث کی کتابوں میں موجود واقعات  گواہ بھی ہیں۔
 حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنی یہی پہچان قائم دائم رکھی تھی انھوں نے دین کی جتنی بھی خدمت کی تھی فقط ایک مسلمان کی حیثیت سے کی تھی اس کے علاوہ انھوں نے نہ تو  کوئی حیثیت  بنا رکھی تھی اور نہ ہی بتارکھی تھی ۔
مسلمانوں کے دشمنوں کی صف میں موجود ایک طبقہ یعنی یہود جو ازل سے عیاری اور مکاری میں مشہور ہے اس کے ساتھ ساتھ اس طبقے کی ایک نمبر  اسلام دشمنی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس طبقے نے جہاں اور مواقع پر اپنی دشمنی دکھائی ہے وہیں پر اس طبقے نے مسلمانوں کی ایک پہچان (یعنی فقط مسلمان ہونا) والی خوبی پر بھی وار کرنے کی کوششیں کیں ہیں  اور مسلمانوں کے اندر پراپگینڈا کے ذریعے ایک ایسی کمزوری کا ڈرامہ رچانا شروع کیا ہے جس کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں تھی  مگر چوں کہ پراپگینڈا تو پراپگینڈا ہوتا ہےیہ  بے اصل ہونے کے باوجود بھی اپنا وجود کسی نہ کسی درجے میں  قائم کرلیتا ہے تو  اس وقت بھی یہی ہوا ۔
 چناں چہ اس پراپگینڈا کی وجہ سے اس وقت بھی کچھ لوگ لاعلمی کی وجہ سے اس کا شکار ہوگئے تھے   کہ فلاں  فلاں موقع پر جو  جو معاملات ہوئے تھے وہ  نہ تو دین تھا  اور نہ دین کی خدمت تھی  بلکہ  اس کی وجہ اسلام سے قبل کا وہ تعصب تھا جو فلاں قوم  کا فلاں قوم کے لیے تھا  اور حقیقت میں یہ  چیز یعنی تعصب بھی دیگر خرافات کی طرح دریا برد  کردی گئی تھی  جس پر قرآن پاک اور احادیث  کی کتابوں میں موجود ایسے بےشمار واقعات گواہ ہیں کہ جن کی روشنی میں یہ بات بہت اچھے سے واضح ہوتی ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے نزدیک قومیت کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ چناں چہ غزوہ بدر کے موقع پر قیدیوں کے بارے میں  جب حضرت عمر  رضی اللہ عنہ سے رائے معلوم کی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا  کہ فلاں آدمی جو میرا قریبی رشتہ دار ہے، وہ میرے حوالہ کر دیں کہ میں اس کی گردن اڑادوں اور عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ کر دیں کہ وہ عقیل کی گردن اڑا دیں اور فلاں آدمی جو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کے حوالہ کر دیں  کہ  حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ان کی گردن اڑا دیں تاکہ اللہ جل شانہ کے سامنے یہ چیز واضح ہوجائے  ( کہ ان کے حکم کے مقابلے میں ) ہمارے دلوں میں مشرک(رشتہ داروں ) کے لیے   کسی قسم کی  کوئی نرمی نہیں ہے۔
 تو یہ تھی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک قومی تعصب کی حیثیت یعنی جب اللہ تعالی کے حکم کے مقابلے میں اپنا آیا تو اس کی رعایت نہ رکھتے ہوئے فقط اعلائے کلمۃ اللہ کا نعرہ بلند کیا  ایسے میں اگر کوئی خرافاتی یہ کہے کہ فلاں فلاں موقع پر جو جو معاملات ہوئے تھے وہ فقط قومیتی تعصب کی وجہ سے ہوئے تھے سوائے پراپگینڈا کے اور کچھ کہلانے کاحق دار نہیں ۔
آج کل ایک مربتہ پھر  اسی  پراپگینڈا کی بہتی گنگا میں ہاتھ  دھونے ہونے  والے  پراپگینڈا بریگیڈیئر کے ساتھ  اب مقامی   اندھے قوم پرست اور دیسی لبرلز بھی شامل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے  اب  الزامات کا دائرہ صرف محمد بن قاسم رح  تک محدود نہیں  رہا بلکہ اس طبقے کے الزامات کا شکار اور بھی مسلمان فاتحین ہیں  جنھوں نے  برصغیر میں باہر سے آکر جنگیں لڑی ہیں۔ لہذا قوم پرستوں اور دیسی لبرلز کے اس قبیل کے اعتراضات پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ محمد بن قاسم رح پر سادات کے خلاف جنگ کا الزام فقط ایک آڑ ہے  نہ تو یہ حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم رح نے سادات کے خلاف جنگ کی تھی اور  نہ ان قوم پرستوں اور دیسی لبرلز کو  سادات سے کچھ  محبت  ہے  بلکہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود راجہ داہر کی یہ  اولاد فقط اپنے لیے ایک محفوظ آڑ چاہتے ہیں تاکہ اس کا سہارا لےکر محمد بن قاسم رح  اور ان جیسے دیگر ان  مسلمان فاتحین پر بھونک سکے ۔جنھوں نے  راجہ داہر اور ان جیسے کافروں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓
مجیب :✍  مفتی محمد افضل  عفی عنہ  
⌛❪🕌🕋🕌❫⌛


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی