☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ☷☲☰
میں نے کہا، میاں دانی کچھ دنوں چل کر دیکھو، شاید مولوی صاحب کو رحم آ جائے مگر ان کو آخر تک رحم نہ آنا تھا، نہ آیا۔ لطف یہ ہے کہ جاڑوں میں صبح ساڑھے چھے بجے سے تعلیم کا وقت مقرر ہوا، لیکن ایمان کی بات ہے کہ مولوی صاحب ہی کی ہمت تھی جو وہ ہمارے پڑھانے کو تیار ہو گئے، بے چاروں کا ایک منٹ خالی نہ تھا اور انہوں نے جو وقت ہم کو دیا تھا، وہ اپنے آرام کے وقت میں سے کاٹ کر دیا تھا۔
تقریباً دو برس تک ہم ان سے پڑھتے رہے، نہ ہم نے کبھی گرمی یا سردی کی شکایت کی اور نہ کبھی وقت بدلنے کا لفظ زبان پر لائے۔ نہ ان دو سال میں ایک دن ناغہ کیا۔
یہاں تک کہ مولوی صاحب بھی ہمیشہ کہتے تھے کہ بیٹا، جب تم دونوں آتے ہو میرا دل خوش ہو جاتا ہے، کیوں کہ میں تم میں طالب علمی کی بو پاتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ تعلیم کس کو کہتے اور علم کیوں کر حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح ہم نے پڑھا ہے کچھ ہمارا ہی دل جانتا ہے۔ اس زمانے کے لونڈوں پر اگر ایسی بپتا پڑے تو گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں، مگر (میری طرف دیکھ کر) استاد! تم سے مجھے کچھ توقع نہیں، تم صرف بی اے پاس کرنے کی فکر میں ہو۔ دانی کو شوق ہے، یہ عربی میں ترقی کرے گا، مگر تم کورے کے کورے ہی رہو گے اور انشاء اللہ پانچ چھے ہی برس میں میری ساری محنت اکارت کر دوگے۔ خدا کے فضل سے ان کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔
اس سے پہلے کہ مولوی صاحب کی ابتدائی تعلیم کا ذکر کروں، میں مولوی صاحب کی شکل و صورت، مکان کی حالت، ان کے رہنے سہنے کے طریقے اور ان کے مشاغل کا نقشہ کھینچ دینا مناسب خیال کرتا ہوں، تاکہ مولوی صاحب کے کیرکٹر کا صحیح اندازہ ہو سکے، لیکن سینو میٹو گرام کا یہ فلم چڑھانے سے قبل میں اپنے طرز بیان کے متعلق معافی مانگ لیتا ہوں، کیوں کہ میری شوخی بعض جگہ حد تجاوز سے بڑھ جائے گی، لیکن آپ تمام قارئین کرام کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر مولوی صاحب خود اپنی سوانح عمری لکھتے تو اسی رنگ میں لکھتے اور اگر آپ ان کی صحبت میں رہے ہوتے، تو آپ کو بھی ان کے حالات لکھتے وقت میری ہی طرح معافی مانگنی پڑتی، ورنہ آپ کی تحریر، بجائے مولوی نذیر احمد صاحب کی سوانح عمری کے، کسی ٹھوٹھ ملا کے بے لطف واقعات کا ایک مجموعہ ہو جاتی۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ اس وقت بھی لکھتے لکھتے پنسل ہاتھ سے رکھ دیتا ہوں اور ایک عالم بے خودی مجھ پر چھا جاتا ہے۔
مولوی صاحب کی کوئی بات نہ تھی جس میں خوش مذاقی کا پہلو نہ ہو۔ کوئی قصہ نہ تھا جس میں ظرافت کوٹ کوٹ کر نہ بھری ہو۔ کوئی طرز بیان نہ تھا جو ہنساتے ہنساتے نہ لٹا دے۔ وہ دوسروں کو ہنساتے تھے اور چاہتے تھے کہ دوسرے اپنی باتوں سے ان کو ہنسائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم (اور خاص کر میں) مولوی صاحب کے سامنے بہت شوخ ہو گئے تھے، لیکن وہ طرح ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ کہا کرتے تھے کہ مجھے مقطع اور مسمسے شاگردوں سے نفرت ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی صاحب یہ توقع رکھیں کہ میں مولوی صاحب کے حالات، متانت کا پہلو اختیار کر کے لکھوں، تو میں اس کا صرف یہی جواب دوں گا کہ ’’ہائے کم بخت! تونے پی ہی نہیں۔‘‘
لیجئے، اب مولوی صاحب کا حلیہ سنیئے۔۔۔ رنگ سانولا مگر روکھا، قد خاصا اونچا تھا، مگر چوڑان نے لمبان کو دبا دیا تھا۔ دہرا بدن، گدرا ہی نہیں بلکہ مٹاپے کی طرف کسی قدر مائل۔ فرماتے تھے کہ بچپن میں ورزش کا شوق تھا۔ ورزش چھوڑ دینے سے بدن جس طرح مرمروں کا تھیلا ہو جاتا ہے، بس یہی کیفیت تھی۔ بھاری دن کی وجہ سے چونکہ قد ٹھنگنا معلوم ہونے لگا تھا س لیے اس کا تکملہ اونچی ترکی ٹوپی سے کر دیا جاتا تھا۔ کمر کا پھیر ضرورت سے زیادہ تھا۔ توند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ گھر میں ازاربند باندھنا بھی بے ضرورت ہی نہیں، تکلیف دہ سمجھا جاتا تھاا ور محض ایک گرہ کو کافی خیال کیا گیا تھا۔ گرمیوں میں تہمد ( تہ بند) باندھتے تھے، اس کے پلو اڑسنے کی بجائے ادھر ادھر ڈال لیتے تھے۔ مگر اٹھتے وقت بہت احتیاط کرتے تھے۔ اول تو قطب بنے بیٹھے رہتے تھے اگر اٹھنا ہوتو پہلے اندازہ کرتے تھے کہ فی الحال اٹھنے کو ملتوی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ضرورت نے بہت مجبور کیا تو ازار بند کی گرہ یا تہمد کے کونوں کو اڑسنے کا دباؤ توند پر ڈالتے تھے۔
سر بہت بڑا تھا مگر بڑی حد تک اس کی صفائی کا انتظام قدرت نے اپنے اختیار میں رکھا تھا۔ جو تھوڑے رہے سہے بال تھے وہ اکثر نہایت احتیاط سے صاف کرا دیے جاتے تھے، ورنہ بالوں کی یہ کگر سفید مقیش کی صورت میں ٹوپی کے کناروں پر جھالر کا نمونہ ہو جاتی تھی۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی، ذرا اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ بھنویں گھنی اور آنکھوں کے اوپر سایہ افگن تھیں۔ آنکھوں میں غضب کی چمک تھی۔ وہ چمک نہیں جو غصے کے وقت نمودار ہوتی ہے، بلکہ یہ وہ چمک تھی جس میں شوخی اور ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اگر میں اس کو مسکراتی ہوئی آنکھیں کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔
کلہ جبڑا بڑا زبر دست پایا تھا۔ چونکہ دہانہ بھی بڑا تھا اور پیٹ کے محیط نے سانس کے لیے گنجائش بڑھا دی تھی، اس لئے نہایت اونچی آواز میں بغیر سانس کھینچے بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ آواز میں گرج تھی مگر لوچ کے ساتھ، کوئی دور سے جو سنے تو یہ سمجھے کہ مولوی صاحب کسی کو ڈانٹ رہے ہیں۔ لیکن پاس بیٹھنے والا ہنسی کے مارے لوٹ رہا ہو۔ جوش میں آکر جب آواز بلند کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ترم بج رہا ہے، اسی لیے بڑے بڑے جلسوں پر چھا جاتے تھے اور پاس اور دور بیٹھنے والے دونوں کو ایک ایک حرف صاف صاف سنائی دیتا تھا۔
ناک کسی قدر چھوٹی تھی اور نتھنے بھاری، ایسی ناک کو گنواروں کی اصطلاح میں ’’گاجر‘‘ اور دلی والوں کی بول چال میں ’’پھلکی‘‘ کہا جاتا ہے۔ گو متانت چھو کر نہیں گئی تھی لیکن جسم کے بوجھ نے رفتار میں خود بہ خود متانت پیدا کر دی تھی۔ ڈاڑھی بہت چھدری تھی۔ ایک ایک بال بہ آسانی گنا جا سکتا تھا۔ کلے تو کبھی قینچی کے منت کش نہ ہوئے۔ البتہ ٹھوڑی پر کا حصہ کبھی کبھی ہموار کرا لیا جاتا تھا۔ ڈاڑھی کی وضع، قدرت نے خود فرنچ فیشن بنا دی تھی۔ بالوں میں ٹھوڑی اس طرح دکھائی دیتی تھی جیسے ایکس ریز (X- Rays) ڈالنے سے کسی بکس کے اندر کی چیز۔ ٹھوڑی چوڑی اور ان کے ارادے کے پکے ہونے کا اظہار کرتی تھی۔ گردن چھوٹی مگر موٹی تھی۔ لیجئے یہ ہیں، مولوی نذیر احمد خاں صاحب۔
اب رہی لباس کی بحث تو اس کا بھی حال سن لیجئے۔ جنہوں نے ان کو شالی رومال باندھے، کشمیری جبہ یا ایل ایل ڈی کا گون پہنے دیکھا ہے انہون نے عالی جناب شمس العلماء مولوی حافظ ڈاکٹر نذیر احمد خاں صاحب ایل ایل ڈی مدظلہ العالی کو دیکھا ہے، مولوی نذیر احمد صاحب کو نہیں دیکھا۔ ان کے گھر کے اور باہر کے لباس میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اگر ان کو روزانہ باہر نکلنے کا شوق نہ ہوتا تو لباس کی مدہی ان کے اخراجات کی فہرست سے نکل جاتی۔ جب شام کو گھر سے نکلتے تو عموماً ترکی ٹوپی یا چھوٹا سفید صافہ باندھ کر نکلتے تھے۔ گرمیوں میں نہایت صاف شفاف سفید اچکن اور سفید کرتا پائجامہ ہوتا اور جاڑوں میں کشمیرے کی ا چکن یا کشمیری کام کا جبہ۔
چونکہ سراج الدین صاحب سے لین دین تھا س لئے لال نری کا سلیم شاہی جوتا زیادہ استعمال کرتے تھے۔ پھر بھی وقت بے وقت کے لیےدو انگریزی جوڑے لگا رکھے تھے جن پر میری یاد میں پالش ہونے کی کبھی نوبت نہ آئی۔ یہاں تک کہ دونوں سوکھ کر کھڑنک ہو گئے تھے۔ انہی کا پاؤں تھا کہ ان چینیوں کے سے سخت جوتوں کی برداشت کرتا تھا۔ جرابوں سے انہیں ہمیشہ نفرت تھی۔ گو دربار میں جانے کے لیے دو ایک جوڑیاں پاس رہتی تھیں۔
یہ تو پبلک کے مولوی صاحب ہوئے، اب ہمارے مولوی صاحب کو دیکھئے۔ آئیے میرے ساتھ چوڑی والوں سے چلئے۔ چوڑی والوں سے نکل کر چاوڑی میں آئیے۔ الٹے ہاتھ کو مڑ کر قاضی حوض پر سے ہوتے ہوئے، سر کی والوں پر سے گزر کر لال کنویں پہنچئے۔ آگے بڑھیئے تو بڑیوں کا کٹرا ہے، وہاں سے آگے چل کر نئے بانس میں آئیے۔ یہ سیدھا راستہ کھاری باولی کو نکل گیا ہے۔ نکڑ سے ذرا ادھر ہی دائیں ہاتھ کو ایک گلی مڑی ہے۔ یہ بتاشے والوں کی گلی ہے۔ بتاشے بنتے ہوئے ہم نے سب سے پہلے یہیں دیکھے۔ یہاں اچار، چٹنیوں والوں کی بیسیوں دکانیں ہیں، انہی دکانوں کے بیچ میں سے ایک گلی سیدھے ہاتھ کو مڑی ہے، تھوڑی ہی دور جا کر بائیں طرف ایک پتلی سی گلی اس میں سے کٹ گئی ہے، اس گلی میں پہلا ہی مکان مولوی صاحب کا ہے۔
مکان دو منزلہ ہے اور نیا بنا ہوا ہے۔ صفائی کی یہ حالت ہے کہ تنکا پڑا ہوا نظر نہیں آتا۔ دروازے کے باہر دونوں پہلوؤں میں دو سنگیں چوکیاں ہیں۔ دروازے کو عبور کرنے کے بعد صحن میں آتے ہیں، صحن کسی قدر چھوٹا ہے۔ سیدھی طرف دفتر ہے جہاں اکثر دو تین آدمی بیٹھے ہوئے کلام مجید پر حنا کیا کرتے ہیں۔ اس کے مقابل بائیں طرف باورچی خانہ ہے، چولہے بنے ہوئے ہیں، آگ جل رہی ہے مگر برتن اور ہنڈیاں وغیرہ جو باورچی خانے کا جزو لاینفک ہیں، سرے سے ندارد ہیں۔ آگ صرف حقے کے لیے سلگائی جاتی ہے، کھانا دوسرے گھر سے پک کر آتا ہے۔ دروازے کے بالکل سامنے اکہرا دالان ہے او راندر ایک لمبا کمرا۔ گرمی کا موسم ہے اور مولوی صاحب ایک چھوٹی سی میز کے سامنے بیٹھے کچھ لکھ رہے ہیں۔ کمرے کے دو دروازے بند ہیں، ایک کھلا ہے۔ باہر ایک بڑھیا پھونس چماری بیٹھی پنکھے کی رسی کھینچ رہی ہے۔
ہاں تو میں کیا تصویر دکھانا چاہتا تھا؟ مولوی صاحب کا لباس، مگر خدا کے فضل سے ان کے جسم پر کوئی لباس ہی نہیں ہے جس کا تذکرہ کیا جائے۔ نہ کرتا ہے نہ ٹوپی نہ پائجامہ، ایک چھوٹی سی تہمد برائے نام کمر سے بندھی ہوئی ہے۔ بندھی ہوئی نہیں ہے محض لپٹی ہوئی ہے لیکن گرہ کے جنجال سے بے نیاز ہے۔ کمرے میں نہایت اجلی چاندنی کا فرش ہے۔ ایک طرف پلنگ بچھا ہواہے کبھی اس پر چادر ہے کبھی نہیں ہے۔ سرہانے تکیہ رکھا ہے۔ مگر اس کی رنگت کا بیان احاطہ تحریر سے باہر ہے۔ البتہ جس گاؤ تکیے سے مولوی صاحب لگے بیٹھے ہیں وہ بہت صاف ہے۔ قالین بھی عمدہ اور قیمتی ہے۔ اگر مولوی صاحب کی حالت دیکھ کر آپ سوال کر بیٹھیں کہ ’’مولانا! ایں چہ کار است کہ کردہ ای؟‘‘ تو انشاء اللہ یہی جواب ملے گا کہ ’’محتسب را درون خانہ چہ کار۔‘‘
جاڑوں میں مکان کے اوپر کے حصے میں رہتے تھے۔ چلئے وہاں کا بھی رنگ دکھا دوں۔ صدر دروازے سے ملا ہوا ہوا زینہ ہے۔ اور سیڑھیوں کے ختم ہونے پر غسل خانہ اور بیت الخلا ہے۔ اس کے بعد ایک دروازہ آتا ہے۔ دروازے سے گزر کر چھت پر آتے ہیں۔ سامنے ہی ایک کمرا ہے اوراس کے دونوں جانب کوٹھریاں۔ غسل خانے کے بالکل مقابل دوسری طرف ایک چھوٹا سا کمرہ ہے۔ آخر آخر میں مولوی صاحب یہیں رہا کرتے تھے۔ جس زمانے میں ہم پڑھتے تھے تو ان کی نشست سامنے والے بڑے کمرے میں تھی۔ یہاں بھی چاندنی کا فرش ہے، اس پر قالین، پیچھے گاؤ تکیہ۔ سامنے ایک چھوٹی نیچی میز، پہلو میں حقہ۔ اس کی حقیقت کما حقہ بیان کرنا مشکل ہے۔
مولوی صاحب کو حقے کا بہت شوق تھا مگر تمباکو ایسا کڑوا پیتے تھے کہ اس کے دھویں کی کڑواہٹ بیٹھنے والوں کے حلق میں پھندا ڈال دیتی تھی۔ فرشی قیمتی تھی مگر چلم پیسے کی دو والی اور نیچہ تو خدا کی پناہ! اس کے تیار ہونے کی تاریخ لوگوں کے دلوں سے مدت کی محو ہو چکی تھی۔ ایک آدھ دفعہ ایک صاحب نے نیچا بدلنے کا ارادہ بھی کیا مگر مولوی صاحب نے نیچے کو جورو کا مترادف قرار دے کر ایسا سخت فقرہ کسا کہ بے چارے ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔
خیر جاڑے کا موسم ہے۔ مولوی صاحب بیٹھے حقہ پی رہے ہیں اور پڑھا رہے ہیں۔ سر پر کنٹوپ ہے، مگر بڑا دقیانوسی کبھی کانوں کو ڈھکے ہوئے اور ڈوریاں نیچے لٹکتی ہوئیں، کبھی اس کے دونوں پاکھے اوپر کی طرف سیدھے کھڑے ہو کر لاٹ پادری کی ٹوپی کا نمونہ بن جاتے اور ڈوریاں طرے کا کام دیتیں۔ کبھی پاکھوں کو سر پر اوپر تلے ڈوریوں سے کس دیا جاتا اور اس طرح کنٹوپ، فلٹ کیپ کی شکل اختیار کر لیتا۔ جسم پر روئی کی مرزئی، مگر ایسی پرانی کہ اس کی روئی کی گرمی مدت سے مائل بہ سردی ہو چکی ہے۔ اوپر صندلی رنگ کا ڈھسا پڑا ہوا۔ لیجئے دیکھا آپ نے ہمارے مولوی صاحب کو!
چار بجے اور مولوی صاحب نے آواز دی! پانی تیار ہے؟ جواب ملا، جی ہاں۔ مولوی صاحب غسل خانے میں گئے، کپڑے بدل (یا یوں کہو کہ جون بدل) باہر نکل آئے اور چلے ٹاؤن ہال کو۔ اب یہ ہمارے مولوی صاحب نہیں رہے، آپ کے مولوی صاحب ہو گئے۔
گھر میں اس لباس سے استغنا کے کئی باعث تھے۔ اول تو یہ بات تھی کہ ان کواپنے کاموں ہی سے فرصت نہ تھی، پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے میں ان کا سارا دن گزر جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ بہت کم لوگوں سےمکان پر ملتے تھے۔ جس کو ملنا ہوتا تھا شام کو ٹاؤن ہال کی لائبریری میں ان سے جا کر مل آتا تھا۔ جو لوگ مکان پر آتے تھے، وہ یا تو ان کے شاگرد ہوتے تھے یا خود صاحب کمال اور ظاہر ہے کہ ایسے صحاب کمال لوگ ظاہری حالت کو نہیں دیکھتے، یہ دیکھتے ہیں کہ مولوی صاحب ہیں کتنے پانی میں۔ لباس سے اس بے اعتنائی کی تیسری وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گھر کو اپنا گھر سمجھتے تھے کسی دوسرے کا دولت خانہ نہیں جانتے تھے۔ ان کو جس طرح آرام ملتا اسی طرح رہتے۔ جی چاہتا پہنتے، نہ جی چاہتا نہ پہنتے، البتہ جب باہر جاتے تو ’کھائے من بھاتا، پہنے جگ بھاتا‘‘ پر عمل کرتے۔ اصل عالم تو گھر پر تھے۔ باہر نکل کر ظاہری عالم بھی بن جاتے۔
سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ گھر میں کوئی عورت نہ تھی جو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتی، یا کم سے کم ان کا کنٹوپ، مرزئی یا سرہانے کے تکیے کا غلاف تو بدل دیا کرتی۔ گھر میں تھا کون، ایک مولوی صاحب، دوسرا ایک کانڑا ٹٹو، بدھو نفر، ان کا نوکر خدا بخش۔ وہ بھی ایسابے پروا کہ خدا کی پناہ! ظالم نے بہرا بن کر کام سے اور اپنا پیچھا چھڑا لیا تھا۔ مولوی صاحب کی آواز جس سے مردے قبر میں چونک پڑیں، اس کو کبھی نہ سنائی دی اور جب تک کسی نے جا کر اس کا شانہ نہ ہلایا، اس نے ہمیشہ سنی کو ان سنی کر دیا۔
البتہ حقے کے معاملے میں بڑا تیز تھا۔ یا تو اس کو یہ خیال تھا کہ حقے بغیر مولوی صاحب کے ہاں گزارا ہونا مشکل ہے، یا یہ وجہ تھی کہ تمباکو زیادہ صرف کرنے میں اس کو دو ایک پیسے روز مل جاتے تھے۔ غرض یہ حال تھا کہ حقہ پورا سلگا بھی نہیں کہ وہ چلم اٹھا کر چلا۔ مولوی صاحب ’’ہاں ہاں‘‘ کرتے ہی رہے، اس نے جا چلم الٹ دی، دوسرا سلفہ رکھ، آگ بھر، چلم حقے پر لا کر رکھ دی۔ توا گرم، حقہ بھڑک گیا۔ میاں نوکر صاحب کو پھر بلا کر توا ٹھنڈا کرنے اور چلم بھروانے کی ضرورت پیش آئی۔ غرض سارے دن ان کا یہی کام تھا اور وہ اس میں خوش اور بہت مگن تھے۔
✍️: مرزا فرحت اللہ بیگ
𑁔𑁔★ جاری ہے ۔ ۔ ۔ ★𑁔𑁔