☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ☷☲☰
بہر حال مارا دھاڑی روز وہاں جانا پڑتا اور روز یہی مصیبت جھیلنی پڑتی۔ تم سمجھے بھی کہ یہ لڑکی کون تھی؟ میاں! یہ لڑکی وہ تھی جو بعد میں ہماری بیگم صاحبہ ہوئیں۔ جب سوچتا ہوں تو پچھلا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔ اکثر ہم دونوں پہلی باتوں کو یاد کر کے خوب ہنستے تھے۔ خدا غریق رحمت کرے۔ جیسی بچپن میں شریر تھیں، ویسی ہی جوانی میں غریب ہو گئیں۔ ان کے مرنے کے بعد ہماری تو زندگی کا مزا جاتا رہا۔ بھئی دیکھنا، میں نے کیسے مزے کی تاریخ کہی ہے! اس کے بعد انہوں نے عربی کے چار پانچ اشعار کا قطعہ سنایا، مادہ تاریخ لہا غفر تھا۔ میں نے بڑی زور سے ’اوں ہوں‘ کی۔ بگڑ کر میری طرف دیکھا اور کہا، آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے؟ میں نے عرض کی، جی نہیں، لیکن اس قطعے کو سن کر مجھے دبیر کی ایک رباعی یاد آ گئی، کیا خوب لکھی ہے، فرماتے ہیں،
ہم شان ِنجف نہ عرش ِانور ٹھہرا
میزاں میں یہ بھاری، وہ سبک تر ٹھہرا
اس پلے میں تھا نجف اور اس پلے میں عرش
پہنچا وہ فلک پر، یہ زمین پر ٹھہرا
بڑے غور سے سنتے رہے، پھر کہنے لگے، یہ تو بے معنی ہے۔ نجف کی جگہ دنیا کی جس چیز کو رکھ دو، اس سے یہ رباعی متعلق ہو جائے گی اور وہ عرش سے بھاری ثابت ہوگی۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے قطعے کو اس سال میں مرنے والی جس عورت سے متعلق کر دو، متعلق ہو جائے گا۔ اس تاریخ میں خوبی ہی کیا ہے۔ اول تو ایسی عام تاریخیں کچھ قابل تعریف نہیں ہوتیں۔ دوسرے سر سید کی تاریخ انتقال غفر لہ پر آپ نے صرف الف کا اضافہ کر کے اس کا پنا مال کر لیا ہے۔ مسکرا کر کہنے لگے، اچھا بھئی تو ہی سچا سہی، اب اس جھگڑے کو چھوڑ و اور میری اصل کہانی کو لو۔
ہاں تو فرصت کے وقت ہم دہلی کی گلیوں کا چکر لگاتے، کبھی کبھی کشمیری دروازے کی طرف بھی نکل جاتے۔ ایک روز جو کشمیری دروازے کی طرف گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ دہلی کالج میں بڑا ہجوم ہے۔ کالج وہاں تھا جہاں اب گورنمنٹ اسکول ہے۔ میں بھی بھیڑ میں گھس گیا۔ معلوم ہوا کہ لڑکوں کا امتحان لینے مفتی صدر الدین صاحب آئے ہوئے ہیں۔ ہم نے کہا، چلو، ہم بھی دیکھیں۔ بر آمدے میں پہنچا، قد چھوٹا تھا، لوگوں کی ٹانگوں میں سے ہوتا ہوا، گھس گھسا کر کمرے کے دروازے تک پہنچ ہی گیا۔ دیکھا کہ کمرے کے بیچ میں میز بچھی ہے، اس کے سامنے کرسی پر مفتی صاحب بیٹھے ہیں۔ ایک ایک لڑکا آتا ہے، اس سے سوال کرتے ہیں اور سامنے کاغذ پر کچھ لکھتے جاتے ہیں۔ میز کے دوسرے پہلو کی کرسی پر ایک انگریز بیٹھا ہے، یہ مدرسے کے پرنسپل صاحب تھے۔
تماشے میں محو تھا کہ صاحب کسی کام کے لئے اٹھے، چپراسیوں نے رستہ صاف کرنا شروع کیا۔ جو لوگ دروازہ روکے کھڑے تھے، وہ کسی طرح پیچھے نہ ہٹتے تھے، چپراسی زبر دستی ڈھکیل رہے تھے۔ غرض اس دھکا پیل میں میرا قلیہ ہو گیا۔ دروازے کے سامنے سنگ مرمر کا فرش تھا، اس پر میرا پاؤں رپٹا اور دھم سے گرا۔ اتنی دیر میں پرنسپل صاحب بھی دروازے تک آ گئے تھے۔ انہوں نے جو مجھے گرتے دیکھا، تو دوڑ کر میری طرف بڑھے، مجھے اٹھایا، پوچھتے رہے کہ کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ ان کی شفقت آمیز باتیں اب تک میرے دل پر کالنقش فی الحجر ہیں۔
باتوں باتوں ہی میں پوچھا، میاں صاحب زادے کیا پڑھتے ہو؟ میں نے کہا، معلقات۔ ان کو بڑا تعجب ہوا۔ پھر پوچھا، میں نے پھر وہی جواب دیا۔ میری عمر پوچھی۔ میں نے کہا مجھے کیا معلوم۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ بجائے اپنے کام کو جانے کے، سیدھا مجھ کو مفتی صاحب کے پاس لے گئے اور کہنے لگے، مفتی صاحب! یہ لڑکا کہتا ہے میں معلقات پڑھتا ہوں، ذرا دیکھئے تو سہی، سچ کہتا ہے یا یوں ہی باتیں بناتا ہے۔ مفتی صاحب نے کہا، تو کیا پڑھتا ہے؟ میں نے کہا، معلقات۔ کہنے لگے، کہاں پڑھتا ہے؟ میں نے کہا، پنجابیوں کے کٹرے کی مسجد میں۔ پھر کہا معلقات دوں، پڑھے گا؟ میں نے کہا لائیے۔ انہوں نے میز پر سے کتاب اٹھائی، میرے ہاتھ میں دی اور کہا یہاں سے پڑھ۔ جس شعر پر انہوں نے انگلی رکھی تھی، وہ یہی شعر تھا،
ابا ہند فلا تعجل علینا
وانظر نا نخبرک الیقینا
میں نے پڑھا، معنی بیان کئے۔ انہوں نے ترکیب پوچھی، وہ بیان کی۔ میاں دانی! تمہاری طرح میں نے شعر نہیں پڑھا تھا۔ اور میاں فرحت! تمہاری طرح ترکیب نہیں کی تھی (مولوی صاحب کا یہ اشارہ ہماری کمزوریوں کی طرف تھا، اس کا ذکر آئندہ آئے گا۔) مفتی صاحب بہت چکرائے، پوچھنے لگے، تجھ کو کون پڑھاتا ہے؟ میں نے کہا، مسجد کے مولوی صاحب۔ کہا، مدرسے میں پڑھے گا؟ میں نے کہا ضرور پڑھوں گا۔ مفتی صاحب نے قلم اٹھایا، کاغذ پر چند سطریں لکھیں اور پرنسپل صاحب کو دے کرکہا، اس کو پریسیڈنٹ صاحب کے پاس پیش کر دینا۔ ہم وہاں سے نکل کر اپنے گھر آئے، مولوی صاحب سے کچھ نہ کہا۔
کوئی سات آٹھ روز کے بعد کالج کا چپراسی مولوی صاحب کے پاس آ، ایک کاغذ دے گیا، اس میں لکھا تھا کہ نذیر احمد کو کالج میں داخل کرنے کی اجازت ہو گئی ہے، کل سے آپ اس کو کالج میں آنے کی ہدایت کر دیجئے، اس کا وظیفہ بھی ہو گیا ہے۔ چپراسی تو یہ حکم دے چلتا بنا، مولوی صاحب نے مجھ کو بلایا، خط دکھایا، پوچھا، یہ کیا معاملہ ہے؟ میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ جب ذرا سختی کی، تو تمام واقعہ بیان کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور دوسرے روز لے جا میرا ہاتھ پرنسپل صاحب کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس زمانے میں سید احمد خاں فارسی کی جماعت میں، منشی ذکاء اللہ حساب کی جماعت میں اور پیارے لال انگریزی کی جماعت میں پڑھتے تھے۔ میں عربی کی جماعت میں شریک ہوا۔ ایک تو شوق، دوسرے پڑھانے والے ہوشیار، تیسرے ایک مضمون اور وہ بھی ایسا جس کا مجھے بچپن سے شوق تھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں اپنی جماعت والوں میں سب کو دبا لیا۔ اب جب کبھی یہ شعر پڑھتا ہوں، تو پہلا زمانہ یادآ جاتا ہےاور میں بے اختیار ہنسنے لگتا ہوں۔ یہ کہتے ہی انہوں نے لہک لہک کر یہ شعر،
ابا ہند فلا تعجل علینا
وانظرنا نخبرک الیقینا
پڑھنا اور ہنسنا شروع کیا۔
میں نے کہا، مولوی صاحب! آپ کی جماعت کہاں بیٹھی تھی؟ کہنے لگے، پرنسپل صاحب کے کمرے کے بازو میں جو چھوٹا کمرا ہے، اس میں ہماری جماعت تھی۔ دوسرے پہلو میں جو کمرا ہے اس میں فارسی کی جماعت۔ دانی نے کہا، مولوی صاحب! آپ کے اختیاری مضمون کیا تھے۔ مولوی صاحب ہنسے اور کہا، میاں دانی! ہم پڑھتے تھے، آج کل کے طالب علموں کی طرح چوتڑوں سے گھاس نہیں کاٹتے تھے (مولوی صاحب اس فقرے کا اکثر استعمال کیا کرتے تھے، معلوم نہیں کہاں کا محاورہ ہے) ارے بھئی! ایک ہی مضمون کی تکمیل کرنا دشوار ہے۔ آج کل پڑھاتے نہیں لادتے ہیں۔ آج پڑھا کل بھولے، تمہاری تعلیم ایسی دیوار ہے جس میں گارے کا بھی ردا ہے، ٹھیکریاں بھی گھسیڑ دی گئی ہیں، مٹی بھی ہے، پتھر بھی ہے، کہیں چونا اور اینٹ بھی ہے۔ ایک دھکا دیا اور اڑا اڑا دھم گری۔ ہم کو اس زمانے میں ایک مضمون پڑھاتے تھے مگر اس میں کامل کر دیتے تے۔ پڑھانے والے بھی ایرے غیرے پچکلیان نہیں ہوتے تھے۔ ایسے ایسے کو چھانٹا جاتا تھا جن کے سامنے آج کل کے عالم، محض کاٹھ کے الو ہیں۔ اچھا بھئی اچھا، آگے چلو۔
بانا نورد الرايات بیضا
و نصدر ہن حمرا قد روینا
میں نے کہا، مولوی صاحب پہلے شعر کے معنی تو رہ ہی گئے۔ کہنے لگے، اتنا بڑا قصہ سنا دیا ور اس کے بعد بھی اس شعر کے معنی کی ضرورت ہے۔ پس اس کے یہی معنی ہیں کہ تحقیق ایک ملا کا بیٹا ڈاکٹر، ڈپٹی، شمس العلماء، ایل ایل ڈی ہو گیا ساتھ آسانی کے، بیچ اسی دلی کے، بہ وجہ شعر کے۔
مولوی صاحب کی تعلیم کا حال سن چکے، ہم ہماری تعلیم کا حال سنیئے اور قصے کو سراج الدین صاحب کی دکان کے واقعے کے دوسرے روز سے لیجئے۔
میں اور میاں دانی ساڑھے گیارہ بجے مدرسے سے ا ٓئے۔ کھانا وانا کھایا، سبق کا مطالعہ کیا اور ایک بجے نکل کھڑے ہوئے۔ مکان کا پتا پوچھتے پچھاتے ڈیڑھ میں پانچ منٹ تھے کہ مولوی صاحب کے دروازے پر جا دھمکے۔ دروازے کی ایک چوکی پر میں اور دوسری پر میاں دانی ڈٹ گئے۔ سامنے ہی کمرا تھا۔ بی چماری رسی ہاتھ میں لیے اونگھ رہی تھیں۔ کبھی کبھی رسی کو ایک آدھ جھٹکا دے دیتی تھیں۔ کمرے کے اندرمولوی صاحب تھے، لیکن دروازہ بند تھا، ا س لئے دکھائی نہ دیتے تھے۔ اب یہ خیال ہوا کہ یہ مولوی صاحب ہی کا مکان ہے یا کسی دوسرے کا۔ اندر زنانہ تو نہیں ہے! غرض اس شش و پنج میں تھے کہ مولوی صاحب کے کمرے کے گھنٹے نے ٹن سے ڈیڑھ بجایا۔ ہم دونوں اٹھے اور دبے پاؤں چوروں کی طرح اندر داخل ہوئے۔
گھر میں سناٹا تھا۔ بی چماری نے سر بھی اٹھا کر نہ دیکھا کہ کون جا رہا ہے۔ کمرے کا ایک دروازہ کھلا تھا اس میں گردن ڈال کر جھانکا۔ چونکہ روشنی سے اندھیرے میں آئے تھے اس لئے کچھ دکھائی نہ دیا۔ اندر سے کسی نے ڈانٹ کر کہا، کون ہے؟ اس آواز کو پہچان کر ہم تو سنبھل گئے مگر بی چماری اچھل پڑیں اور بے اختیار ان کے منہ سے گنبد کی آواز کی طرح نکلا، کون ہے؟ میں نے کہا، میں اور دانی۔ مولوی صاحب نے کہا، آؤ بیٹا اندر آؤ۔ مولوی صاحب فوراً پلنگ پر اٹھ بیٹھے اور تہمد کو سنبھالتے ہوئے نیچے اتر آئے۔ پوچھا، کیا پڑھتے ہو؟ ہم نے کتاب پیش کی۔ تھوڑی دیر تک الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، اس کے بعد کہا، بھئی ایک کتاب میرے لئے بھی لیتے آنا۔ ہم نے اپنی ایک کتاب ان کو دے دی اور دوسری دونوں نے مل کر کام نکالا۔ کب پڑھایا اور کس طرح پڑھایا، اس کا میں آئندہ ذکر کروں گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب پڑھ کر اٹھے تو سب کچھ یاد تھا، مگر دماغ پر کسی قسم کا بار نہ تھا۔ خوشی خوشی گھر آئے، چلو اللہ دے اور بندہ لے۔
ہم نے بھی کالج میں مولوی صاحب کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ یہاں تک کہ یہ آواز ہندو کالج کے طلبہ کے کان تک پہنچی۔ وہاں کے ایک طالب علم مسٹر رضا کے دل میں گدگدی اٹھی، وہ آئے، ہم سے ملے اور کہا، بھئی میں بھی تمہارے ساتھ چلوں، مولوی صاحب انکار تو نہ کریں گے؟ ہم نے کہا، بھائی چلو اور ضرور چلو، مولوی صاحب کا کیا بگڑتا ہے، دو کو نہ پڑھایا تین کو پڑھایا۔ انہوں نے کہا، نہیں، پہلے مولوی صاحب سے پوچھ لو، ہم نے کہا، یار چلو بھی، اگر انہوں نے کچھ کہا، تو ہمارا ذمہ۔ وہ راضی نہ ہوئے اور یہی کہا کہ پہلے پوچھ لو۔
اس عرصے میں ہماری ہمت مولوی صاحب کے سامنے بہت بڑھ گئی تھی۔ دوسرے دن جاتے ہی رضا کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا، لیتے کیوں نہ آئے۔ ہم نے کہا، وہ ذرا شرمیلے ہیں، بغیر اجازت آنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا، طالب علم شرمیلا ہوا اور ڈوبا۔ خیر کل ضرور ساتھ لانا، ذرا ان کا بھی رنگ دیکھ لوں۔ شام کو واپسی کے وقت جاتے جاتے فراش خانے میں ہم نے رضا کومولوی صاحب کا اجازت نامہ پہنچا دیا اور کہہ دیاکہ بھئی پورے ڈیڑھ بجے پہنچ جانا ورنہ اندر گھسنا نہ ملے گا۔
دوسرے دن جو ہم پہنچے تو وہ پہلے ہی سے دروازے پر ڈھئی دیے بیٹھے تھے۔ ٹھیک ڈیڑھ بجے ہم اندر داخل ہوئے۔ مولوی صاحب ہم کو دیکھتے ہی پلنگ پر اٹھ بیٹھے اور کہا، لاؤ کتاب۔ ہم نے کتاب طاق پر سے اتار ان کے ہاتھ میں دی اور وہ کتاب لیتے لیتے نیچے آ بیٹھے اور کہا، اچھا، یہ ہیں میاں رضا! بے چارے رضا نے گردن جھکا کر کہا، جی ہاں۔ مولوی صاحب نے کہا، اچھا بھئی شروع کرو۔
ہمارے پڑھنے کا یہ طریقہ تھا کہ ایک روز میں پڑھتا تھا، دوسرے روز میاں دانی۔ اب اس کو ہماری شرارت کہو یا محض اتفاق۔ ہم دونوں چپکے بیٹھے رہے۔ جب اس خاموشی نے طول کھینچا تو مولوی صاحب نے کہا، ارے بھئی، آج تم پڑھتے کیوں نہیں؟ کیا منہ میں گھنگنیاں بھر کر آئے ہو۔ اچھا میاں رضا! تم ہی شروع کرو۔ رضا نے صفحہ پوچھا اور پڑھنا شروع کیا، اگر اعراب کی غلطیاں مجھ سے کم کیں، تو نظم کو نثر میاں دانی سے زیادہ بنا دیا۔ ایک آدھ شعر تک تو مولوی صاحب چپکے سنتے رہے، اس کے بعد کہنے لگے، بھئی واہ! ہم کو بھی عجب نمونے کے شاگرد ملے ہیں۔ میاں رضا! اگر ہم تم کو ایک نیک صلاح دیں، تو مانو گے؟ رضا نے نہایت شرمیلی آواز میں گردن جھکا کر کہا! بہ سرو چشم۔
مولوی صاحب نے کہا دیکھو، اپنے وعدے سے پھر نہ جانا! انہوں نے کہا، جی نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا، اچھا تو میری صلاح یہ ہے کہ کل سے تم میرے ہاں نہ آنا۔ یہ سن کر وہ بچارے کچھ پژمردہ سے ہو گئے۔ مولوی صاحب نے کہا، بھئی رضا! میں یہ نہیں کہتا کہ میرے ہاں آنا ہی چھوڑ دو، میں تم کو بھی ضرور پڑھاؤں گا، مگر تم دس پندرہ روز شام کے وقت کالی جان کے ہاں تعلیم میں ہو آیا کرو۔ اتنے دنوں کے آنے جانے میں تمہارے کانوں کو نظم اور نثر کا فرق معلوم ہونے لگے گا۔ بھئی مجھ سے تو شعروں کے گلے پر چھری پھیرتے دیکھا نہیں جاتا۔ بچارے متنبی کو کیا خبر تھی کہ بتاشوں کی گلی میں نذیر احمد کے کمرے میں اس کے اشعار مولوی رضا صاحب اس طرح حلال کریں گے۔ بچارے رضا کے سر پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ خدا خدا کر کے سبق ختم ہوا اور ہم سب رخصت ہوئے۔ راستے میں ہم نے ان کو بہت بنایا، دوسرے روز سے وہ ایسے غائب ہوئے کہ پھر شکل نہ دکھائی۔
✍️: مرزا فرحت اللہ بیگ
𑁔𑁔★ جاری ہے ۔ ۔ ۔ ★𑁔𑁔