بغداد کے بازار میں ایک حلوائی صبح صبح اپنی دکان سجا رہا تھا کہ ایک فقیر آنکلا تو دکاندار نے کہا کہ باباجی آؤ بیٹھو۔۔۔۔۔
فقیر بیٹھ گیا تو حلوائی نے گرم گرم دودھ فقیر کو پیش کیا.فقیر نے دودھ پی کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس حلوائی کو شکریہ کہہ کرفقیرچل پڑا۔۔۔۔۔
بازار میں ایک فاحشہ اپنے دوست کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھ کر موسم کا لطف لے رہی تھی،ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی،بازار میں کیچڑ تھا، فقیر اپنی موج میں بازار سے گزررہا تھا کہ فقیر کے چلنے سے ایک چھینٹا اڑا اورفاحشہ کے لباس پر گر گیا۔ جب یہ منظر فاحشہ عورت کے دوست نے دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا،وہ اٹھا اور فقیر کے منہ پرتھپڑ مارا اور کہا کہ فقیر بنے پھرتے ہو، چلنے پھرنے کی تمیز نہیں؟۔۔۔۔۔
فقیر نے ہنس کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا۔۔۔۔۔
مالک تو بھی بڑا بے نیاز ہے،کہیں سے دودھ پلواتا ہے اور کہیں سے تھپڑ مرواتا ہے.یہ کہہ کر فقیر آگے چل پڑا۔۔۔۔۔
فاحشہ چھت پر گئی تو اس کا پاؤں پھسلا اور زمین پر سر کے بل گرگئی، اس کو ایسی شدید چوٹ لگی کہ موقع پر ہی فوت ہوگئی ۔۔۔۔۔
شور مچ گیا کہ فقیر نے آسمان کی طرف منہ کر کے بدعا دی تھی، جس کی وجہ سے یہ قیمتی جان چلی گئی۔۔۔۔۔
فقیر ابھی بازار کے دوسرے کونے تک نہیں پہنچ پائے تھے کہ لوگوں نے فقیر کو پکڑ لیا اور کہا کہ بڑے فقیر بنے پھرتے ہو،حوصلہ بھی نہیں رکھتے ہو۔۔۔۔۔
فقیرنے کہا کہ کیا ہوا میاں؟ لوگوں نے کہا کہ تم نے بددعا دی اور عورت کی جان چلی گئی۔۔۔۔۔
فقیرنے کہا کہ واللہ میں نے تو کوئی بددعا نہیں دی تو لوگوں نے ضد کی اور کہا کہ نہیں تیری بددعا کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔۔
جب لوگوں نے ضد کی تو فقیر نے کہا کہ اصل بات پوچھتے ہو تو میں نے کوئی بددعا نہیں کی، یہ یاروں یاروں کی لڑائی ہے۔۔۔۔۔
لوگوں نے کہا کہ وہ کیا؟ فقیر نے کہا کہ جب میں گزر رہا تھا اور میرے پاؤں سے چھینٹا اڑا اور اس عورت کے لباس پر پڑا تو اس کے یار کو غصہ آیا، اس نے مجھے مارا تو پھر میرے یار کو بھی غصہ آگیا۔۔۔۔۔
زمرے
تاریخی واقعات