میری زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس پر یہ اصرار ہو کہ میں اسے ضرور یاد رکھوں۔ مجھے اپنے بارے میں یہ خوش فہمی بھی ہے کہ کسی اور کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا ہوگا جس کا تعلق مجھ سے رہا ہو اور وہ اسے بھول نہ گیا ہو۔ نہ بھلائے جانے والے واقعات عام طورپر یا تو توبۃالنصوح قسم کے ہوتے ہیں یا تعزیرات ہند کے۔ بقول شخصے ’’یعنی گویا کہ‘‘ ترقی پسند ہوتے ہوئے میری زندگی کے اوراق میں اس طرح کے ’سال کا بہترین افسانہ‘ یا ’بہترین نظم‘ نہیں ملتی۔ میں تو اس درجہ بدنصیب سر پھرا ہوں کہ لکھتے وقت یہ بھی بھول جاتاہوں کہ ادب میں صرف ’اشتراکیت‘ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ اس کا سبب کیا ہے، مجھے بالکل نہیں معلوم، مجھے اس کی فکر بھی نہیں کہ معلوم کروں۔ اگر آپ اس کے درپے ہیں کہ کوئی نہ کوئی وجہ دریافت کرلیں تو پھر صبر کیجیے اور اس وقت کا انتظار کیجیے، جب میں عزیزوں اور دوستوں سے زیادہ خوش حال اور نیک نام ہوجاؤں یا مجھ پر غبن یااغوا کا مقدمہ دائر ہوجائے۔ اس وقت آپ میرے عزیزوں یا دوستوں ہی سے میرے بارے میں ایسے واقعات سن لیں گے جو مجھ پر گزرے ہوں یا نہیں، آپ خود ان کو کبھی نہ بھلائیں گے۔
لیکن اربابِ ریڈیو نے مجھے اس پر مامور کیا ہے کہ آپ کو کوئی واقعہ سناؤں ضرور، اور میں سناؤں گا بھی ضرور۔ آپ نے گاؤں کی یہ روایت یا کہاوت تو سنی ہوگی کہ ’’نائی کا نوشہ ججمانوں کو سلام کرتا پھرے۔‘‘ اس روایت پر جو اصول بنایاگیا ہے وہ البتہ ایسا ہے جو کبھی نہ بھلایا جاسکے یعنی حق تمامتر ججمانوں کا اور ذمہ داری تمام تر نائی کے نوشوں کی۔ ایک دفعہ پھر ’’یعنی گویاکہ‘‘ لکھیں ہم، ترقی پسند آپ! یہ اصول ہماری سوسائٹی اور زندگی پر کتنا لاگو ہے، میں نے لاگو کا لفظ ان دوستوں کے احترام میں استعمال کیا ہے جو عدالت یا کونسل میں بحث ومباحثہ میں حصہ لیتے ہیں، ان معنوں میں ہرگز استعمال نہیں کیا جن معنوں میں دلی کی میونسپلٹی نے حال ہی میں لاگو جانوروں کے بارے میں اشتہار دیا ہے کہ جو شخص ان کو مارڈالے اس کو انعام ملے گا۔ میں اس غرض سے دلی آیا بھی نہیں ہوں۔ البتہ مجھے انعام لینے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ خواہ انعام کی رقم آدھی ہی کیوں نہ کردی جائے۔ میرا یہ کارنامہ کیا کم ہوگا کہ میں کسی لاگو جانور کاشکار نہ ہوا! تو واقعہ ہے۔۔۔
زیادہ دونوں کی بات ہیں ہے۔ میں حاضر، غائب، متکلم کی حیثیت سے آپ سے گفتگو کرنے دلّی آرہا تھا۔ جس ڈبّے میں مجھے جگہ ملی وہ خلافِ توقع اتنابھرا ہوا نہ تھا جتنا کہ ریلوے والے چاہتے تھے۔ یہ بات بھی میں بھول نہیں سکتا لیکن اس اعتبار سے ڈبہ بھرپور تھا کہ اس میں ہرجنس، ہرعمر اورہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک بوڑھا کسان بھی گرتا پڑتا داخل ہوا۔ زندگی میں اس طرح کے بڈھے کم دیکھے گئے ہیں، بڑی چوڑی چکلی ہڈی، بہت لمبا قد لیکن اس طورپر جھکا ہوا جیسے بڑھاپے میں قد سنبھلتا نہ تھا اس لیے جھک گیا تھا۔ جسم پر کچھ ایسا گوشت نہ تھا لیکن اس کی شکل اور نوعیت کچھ اس طرح کی تھی کہ اس کے دیکھنے سے اس کے چھولینے کا احساس ہوتا تھا جیسے گوشت اورچمڑے کے بجائے مصنوعی اور مرکب ربر وغیرہ قسم کی کوئی چیز منڈھ دی گئی ہو۔ سخت ناہموار موسم پروف ہی نہیں، رگڑ پروف بھی۔ ہتھیلی اور اس سے متصل انگلیوں کی سطح ایسی ہوگئی تھی کہ جیسے کچھوے کی پیٹھ کی ہڈی کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کی پچے کاری کردی گئی ہو۔ میرے دل میں کچھ وہم سا پیدا ہوا جیسے یہ آدمی نہ تھا۔ کھیت، کھاد، ہل، بیل، مرض، قحط، فاقہ، سردی، گرمی، بارش سب نبٹنے اور اپنی جیسی کرگزرنے کی ایک ہندوستانی علامت سامنے آگئی ہو۔
ڈبے میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے اس کی پذیرائی اس طورپر نہ کی ہو جیسے کوئی معذور، مریل، خارشی کتا آگیا ہو۔ نوجوانوں نے مارڈالنے کی دھمکی دی۔ عورتوں نے بیٹی بیٹے مرجانے کے کوسنے دیے۔ بوڑھوں نے یہ دیکھ کر کہ نووارد بڈھا ان سے پہلے مرجائے گا اپنوں کو جوانوں میں شمار کرلیا اور ماں بہن کی گالی دینی شروع کردی۔ بے دردی اور اپنی اپنی بڑائی بگھارنے اور بکھاننے کا ایسا بھونچال آیا کہ میں نے محسوس کیا کہ تعجب نہیں کہ ڈبہّ بغیر انجن کا چلنے لگے گا۔ نووارد کی نظر ایک دوسرے بڈھے پرپڑی جو شاید اس قسم کے سلوک سے دوچار ہوکر ایک گوشے میں سہما سمٹا اپنے ہی بستر پر جو فرش پڑاہوا تھا، دونوں یکجا ہوگئے آنے والا اپنی لٹھیا کے سہارے فرش پر اکڑوں بیٹھ گیا اور سر کو اپنے دونوں گھٹنوں میں اس طور سے ڈال لیا کہ دور سے کوئی اچٹتی ہوئی نظر ڈالے تو چونک پڑے کہ یہ کیسا شخص تھا جس کے کندھوں پر سر نہ تھا۔ شور اور ہنگامہ کم نہ ہوا تھاکہ گاڑی پلیٹ فارم سے سرکنے لگی۔ ایک کلکٹر صاحب نازل ہوگئے۔ ڈبّے میں کچھ ایسے لوگ تھے جن کے پاس ٹکٹ نہ تھے۔ صرف قیمتی سگریٹ کیس، فاونٹن پن، گھڑی اور سونے کے بٹن تھے۔ ٹکٹ کلکٹر کو کسی نے سگریٹ پیش کیا، کسی نے دو بڑے بڑے انناس دیے، کسی نے اپنی ساتھی خاتون کا یوں تعارف کرایاکہ وہ بی اے پاس تھیں اورفلم میں کام کرتی تھیں۔ سب کو نجات مل گئی، بڈھا پکڑاگیا اور وہ سب جو ٹکٹ نہ لینے کے مواخذہ سے نجات پاچکے تھے، ٹکٹ کلکٹر کی حمایت میں بڈھے کو برا بھلا کہنے لگے اور وہی قصے پھر سے شروع ہوگئے۔ یعنی پھبتی، پھکڑ، گالی گلوج اور معلوم نہیں کیا کیا۔
بڈھا بھوچکا تھا اور برابر کہے جارہا تھا کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ وہ بڑی مصیبت اور تکلیف میں تھا۔ کسی کے پاؤں پکڑ لیتا، کسی کی دہائی دیتا۔ اس کی بیوہ لڑکی کا اکیلا نوعمر ناسمجھ لڑکا گھر سے خفا ہوکر دلی بھاگ گیا تھا۔ بغیر کچھ کھائے پیئے یا لیے، جس کے فراق میں ماں پاگل ہورہی تھی اور گھر کے مویشیوں کے گلے میں بانہیں ڈال ڈال کر روتی تھی، جس طرح بڈھا ہم سب کے پاؤں میں سر ڈال کر منتیں کرتا اور روتا تھا۔ گاؤں والے کہتے تھے کہ ماں پر آسیب ہے۔ بڈھا بے اختیار ہوہوکر کہتا تھا، حجور سچ مانوں میری بہو پاگل نہیں ہے، اس پر آسیب نہیں ہے، وہ تو میری خدمت کرتی تھی، ڈھور، ڈنگر کی دیکھ بھال کرتی ہے، کھیتی باڑی کابوجھ اٹھاتے ہوئے گھر کاسارا دھندا کرتی ہے۔ اس پر سونے کے بٹن نے فرمایا، ارے بڈھے تو کیا جانے وہ اور کیا کیا دھندا کرتی ہے۔ بڈھا بلبلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر رونے لگا۔ بولا، ’’سرکار مائی باپ ہو۔ یہ نہ کہو میری بہو ہیرا ہے۔ دس سال سے بیوہ ہے، سارے گاؤں میں مان دان ہے۔‘‘
ٹکٹ کلکٹر نے ایک موٹی سی گالی دی اور بولا، ’’ٹکٹ کے دام لا، بڑا بہو والا بنا ہے۔‘‘ بڈھا پھر گڑگڑانے لگا۔ اس پر کسی صاحب نے، جن کا لباس میلا، فاونٹن پن امریکن اور شکل بنجاروں جیسی تھی اور پتے پر سے انگلی سے چاٹ چاٹ کر دہی بڑے ختم کیے تھے، سنی ہوئی انگلی سے بالوں کو خلال کرتے ہوئے فرمایا، کیوں رے بڈھے! منھ پر آنکھ نہ تھی کہ ہمارے ڈبے میں گھس آیا۔ شریفوں میں کبھی تیرے پُرکھا بھی بیٹھے تھے۔ بڈھا گھگھیا کر بولا، ’’بابو! سراپھوں ہی کو دیکھ کر چلا آیا، سراپھ دیالو ہوتے ہیں۔ تمہارے چرنوں میں سکھ اور چھایا ہے، تھرڈکلاس میں گیاتھا۔ ایک نے ڈھکیل دیا گرپڑا۔ بہونے بچے کے لیے ایک نئی ٹوپی اور کچھ سوکھی جلیبی دی تھی جوانگوچھا میں بندھی تھی کہ لونڈا بھوکا ہوگا، دے دینا۔ ٹوپی پہن کر جلیبی کھائے گا تو خوشی کے مارے چلاآئیگا۔ ہڑبڑ میں نہ جانے کس نے انگوچھیا ہتھیالی۔‘‘
ٹکٹ کلکٹر نے سگریٹ کاآخری ٹکڑاکھڑکی کے باہر پھینکا اور فیصلہ کن انداز سے کھڑے ہوکر فیصلہ دیا۔ بڈھا تو یوں نہ مانے گا، اچھا کھڑا ہوجا اور جامہ تلاشی دے ورنہ لے چلتا ہوں ڈپٹی صاحب ہاں، جو پاس کے ڈبے میں موجود ہیں اور ایسوں کو جیل خانے بھیج دیتی ہیں۔ بڈھا جلد تلاشی کے لیے اس خوشی اور مستعدی سے تیار ہوگیا جیسے بے زری اور ناکسی نے بڑے آڑے وقت میں بڑے سچے دوست یا بڑے کاری اسلحہ کا کام کیاتھا۔ اب دوسرے بڈھے سے نہ رہا گیا۔ اس نے کہا، ’’ بابو صاحب بڈھے نے برا کیا جو اس ڈبے میں چلا آیا اور ٹکٹ نہیں خریدا لیکن اس کو سزا بھی کافی مل چکی ہے۔ اب ماردھاڑ ختم کردیجئے، بڈھا بڑا دکھی معلوم ہوتاہے۔‘‘
ٹکٹ کلکٹر کا نزلہ اب دوسرے بڈھے پر گرا۔ فرمایا، ’’ آپ ہوتے کون ہیں؟ ہم کو تو اپنا فرض اداکرناہے۔‘‘ بڈھے نے جواب دیا، ’’آپ فرض ادا کرتے ہیں، بڑا اچھاکام کرتے ہیں لیکن فرض اداکرنا تو ۲۴ گھنٹے کاکاروبار ہوتا ہے۔ کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ چند منٹ پہلے بھی اس ڈبے میں اپنا فرض ادا کرتےتھے۔ بڈھے کی جامہ تلاشی کیوں لیتے ہیں۔ آپ کو جس چیز کی تلاش ہے وہ اس کے پاس تو کیا اس کی نسل میں بھی کبھی نہ تھی۔ اس کے ہاں تو صرف وہ بہو ملے گی جس کا ایک دھندا اپنے لڑکے کو کھودینا اور اپنے سوکھے مویشیوں کے گلے سے لپٹ کر تسکین پانے کی کوشش کرنا ہے۔ ممکن ہے وہ دھندا بھی ہو جوہمارے ان ساتھی دوست کومعلوم ہے جو ایک لاچار بڈھے کی غم نصیب بہو کا دھندا خود اپنے بے ٹکٹ سفر کرنے سے زیادہ بہتر طریقہ پر سمجھتے ہیں۔ کتنی بے عقل بہو ہے کہ بچے کے غم میں مویشیوں کے گلے سے لپٹ کر روتی ہے اور ہمارے دوست کے گلے سے لپٹ کر رقص کرتی ہے۔‘‘
ٹکٹ کلکٹر نے کہا، ’’یہ دیہاتی بڑی حرفوں کے بنے ہوتے ہیں اور دام رکھ کر بے ٹکٹ سفر کرتے ہیں، پکڑے جاتے ہیں تو روپیٹ کر چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔‘‘ بڈھے نے جواب دیا، ’’ لیکن آپ کو اس کا بھی تجربہ ہوگا کہ بعض دیہاتی ایسے نہیں ہوتے۔‘‘ فرمایا، ’’آپ رہنے دیجیے میں تو اس کے حلق سے دام نکال لوں گا۔‘‘
طوفان تھم سا گیا۔ گاڑی کی رفتار معمول سے زیادہ بڑھتی ہوئی معلوم ہوئی۔ ٹکٹ کلکٹر اٹھ کر اس حلقے میں جا بیٹھے جہاں جوان عورت، سونے کے بٹن اور قیمتی سگریٹ تھے۔ ایک سگریٹ اور سیاسی مسائل پر سستے جذبات کااظہار کرنے لگے۔ دوسری طرف نکمے بڈھے نے کسان کو ٹکٹ کے دام دیے۔ وہ شکریے میں کچھ اور رونے پیٹنے پر آمادہ ہوا تو نکمے نے بڑے اصرار اور کسی قدر سختی سے روک دیا۔ کلکٹر صاحب پھر سے تشریف لائے اوربے ٹکٹ بڈھے سے مواخذہ شروع کردیا۔ بڈھے نے کرایہ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ ٹکٹ کلکٹر متحیر رہ گیا لیکن فوراً سمجھ گیاکہ واقعہ کیا تھا۔ دوسرے بڈھے سے بولا، ’’آپ نے روپے کیوں دیے؟ آپ کا نقصان کیوں؟ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ بڈھے کو یہ معلوم ہو کہ بے ٹکٹ سفر کرنا معاف کیا جاسکتا ہے۔ دوچار روپے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
ٹکٹ کلکٹر کچھ دیر تک خیال میں کھویا رہا۔ بے خبری ہی میں اس نے اپنا سگریٹ نکالا اور سلگار کر پینے لگا۔ ابھی نصف بھی ختم نہیں ہوا تھاکہ سگریٹ کو فرش پر ڈال دیا اور جوتے سے مَسَل دیا اور دیر تک مسلتارہا۔ اس کا خیال کہیں اور تھا۔ دور بہت دور۔ قریب کی جھاڑیاں، تار کے کھمبے، درخت، مویشی، پانی کے گڈھے، آسمان کی وسعتیں، افق کا نیم دائرہ، تیزی سے گذرتی اور چکر کاٹتی معلوم ہونے لگیں۔ ٹکٹ کلکٹر اٹھ کھڑاہوا جیسے وہ یا تو ڈبے کی زنجیر کھینچ لے گا یا خود کھڑکی باہر جست کرجائے گا۔ اس نے دونوں انناس ہاتھ میں اٹھائے اور لے جاکر اس کے مالک کے پاس رکھ دیے اور بولا، ’’ان کو واپس لیجیے اور ٹکٹ کے دام لائیے۔‘‘ ٹکٹ کلکٹر کے ارادے میں ایسی قطعیت اور اس کے تیور کا کچھ اندازہ تھا کہ مسافر نے پرس کھول کرٹکٹ کے دام گِن دیے۔ دوسروں نے بھی بغیر کسی تمہید یا تامل کے دام دے دیے۔ ٹکٹ کلکٹر نے سب کو رسید دی۔ ان سے فارغ ہوکر وہ جوان عورت سے مخاطب ہوا اور بولا، ’’شریمتی جی! میں آپ سے روپے نہ لوں گا۔ یہ لیجئے رسید حاضر ہے۔ عورت تیار نہ ہوئی اور ردو قدح شروع ہوگئی۔‘‘
گاڑی دلّی کے اسٹیشن پر آکر رکی۔ میں بھی اتر پڑا۔ اب دیکھتا ہوں کہ ایک طرف بڈھا کسان دوسرے بڈھے کے پیچھے پیچھے روتا دعائیں دیتا چلا جارہا ہے۔ دوسری طرف جوان عورت ٹکٹ کلکٹر کے تعاقب میں چلی جارہی ہے اور میں آپ کی خدمت میں باتیں بنانے حاضر ہوگیا۔
تحریر: رشید احمد صدیقی