اللہ تعالیٰ اس کی روح کو نہ شرمائے، بے حد گندہ آدمی تھا میراجی۔ بہت بُو اس کے جسم سے اڑتی رہتی تھی۔ شاید یہ ان لوگوں میں سے تھا جنہیں یا تو دائی نہلاتی ہے یا چار بھائی۔ مگر اس غلیظ پیکر میں کس قدر لطیف روح تھی! روح اسے اڑاکر اعلیٰ علیین میں پہنچانا چاہتی تھی مگر جسم اسے اسفل السافلین کی طرف کھینچے لیے جاتا تھا۔ میراجی کی ترکیب اسی اجتماع ضدین سے ہوئی تھی۔
جب میں نے انہیں کوئی تیس سال اُدھر ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور کے دفتر میں پہلی دفعہ دیکھا تو معاً مجھے خیال ہوا کہ یہ شخص پاگل ہے، گرمی ایسی پڑ رہی تھی کہ چیل انڈا چھوڑے اورمیراجی تھے کہ اوور کوٹ پہنے آرام سے اپنی کرسی پر ’’اردو میں‘‘ بیٹھے ہوئے تھے، جیسے فرش پر ڈیڑھ زانو بیٹھے ہیں۔سر پر پپٹو کی کھرل نما ٹوپی دھری تھی۔ اس کے نیچے بے ترتیب گھنے کالے بال تھے جو بڑھ کر کاکلیں بن گئے تھے۔ سرکو جنبش دیتے تو شانوں پر کالے ناگ لہرانے لگتے۔ رنگ گیہواں تھا۔ کھلی پیشانی، روشن آنکھیں جن میں ربودگی کھلتی رہتی تھی، کتارا سی ناک، ترشی ہوئی مونچھیں، پتلے پتلے ہونٹ، داڑھی گھٹی ہوئی مگر کئی دن کی باسی۔ ایک ایک دو دو لفظ بولتے تھے، وہ بھی کھرج میں۔
’’مولانا صلاح الدین احمد ہیں؟‘‘
’’نہیں ہیں۔‘‘
’’کہاں گئے ہیں؟‘‘
’’باہر۔‘‘
’’کب تک آئیں گے؟‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘
’’میراجی ہیں؟‘‘
’’جی فرمائیے۔‘‘
’’آپ ہی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے سوال کیا، ’’آپ شاہد احمد دہلوی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’تشریف رکھیے۔‘‘
’’آپ نے کیسے پہچانا؟‘‘
’’تصویر دیکھی تھی۔‘‘
معلوم ہوتا تھا کہ بات کرنی نہیں چاہتے۔ الفاظ اگل رہے ہیں۔
اس عجیب و غریب شخص کو دیکھنے کے بعد اس کے حالات معلوم کرنے کا شوق ہوا۔ بعض گندی چیزوں میں بھی کشش ہوتی ہے۔ میراجی میں بھی وہی کشش تھی جو بعض مزبلوں میں ہوتی ہے۔
میراجی کے والد برج انسپکٹر تھے۔ غریبا مئوگزر کرتے تھے۔ نہایت پابند شرع اور پانچوں وقت کے نمازی تھے۔ ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد اپنی زندگی انجمن حمایت الاسلام کی خدمت کرنے میں گزاردی۔ ان کے تین لڑکے تھے۔
ثنا ءاللہ۔۔۔ ثانی
انعام اللہ۔۔۔ نامی
اور اکرام اللہ۔۔۔ کامی
ماں باپ نے اپنی حیثیت کے مطابق انہیں پالا پوسا، مگر ان میں سے ایک نے بھی اسکول کی چند جماعتوں سے آگے پڑھ کر نہیں دیا۔ تینوں لڑکوں میں بڑے ثناء اللہ ثانی تھے جو آگے چل کر ’’میراجی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے، اولیا کے گھر کیا بھوت پیدا نہیں ہوتے؟
مُزنگ کی طرف میراجی کا تھا۔ اسکول سے طبیعت اچاٹ ہوجانے کے بعد انہوں نے چاہا تو یہ تھا کہ کہیں سے مفت کی بہت سی دولت ہاتھ لگ جائے مگر کوڑی بھی نہیں ملی۔ پیسے والوں کو دیکھ کر کلستے تھے۔ ان کا تو کچھ بگاڑ نہ سکے ہاں اپنی سیرت بگڑتی چلی گئی۔ عنفوان شباب میں ایک بہت بُری عادت نے جڑ پکڑ لی جس نے ان کی ساری زندگی کو نفسیاتی الجھنوں کا ڈھیر بنادیا۔ ان کا جسم انہیں نیچے کی طرف کھینچ رہا تھا اور روح اوپر کی طرف۔لہٰذا وہ اپنے جسم کو اپنی بری عادت سے تسکین پہنچاتے رہے اور روح کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے کتابیں پڑھنے لگے۔ مگر کتابیں جو انہوں نے اپنے مطالعہ کے لیے انتخاب کیں ان میں ہندو ضمیات کو فوقیت دی۔ اس کے بعد فرائڈ اور ہیوی لاک ایلس کی CASE HISTORIES کو مزے لے لے کر پڑھا۔
ان سے فارغ ہونے کے بعد دنیا کے بڑے شاعروں کا کلام دیکھا، ان کی سوانح عمریاں پڑھیں۔ ایڈگرایلن پو اور بودلیئران پر چھاگئے اور میراجی نے اپنی زندگی کو ان کے قالبوں میں ڈھالنے کی کوشش کی مگر ادھ کچرے رہے اور نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھولا۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ یہ سب کے سب میراجی کی شاعری پر چھاگئے۔ چنانچہ اس کی ابتدائی شاعری کو منظوم CASE HISTORIES ہی کہاجاسکتا ہے۔ جنسی بے راہ روی کی مثالوں نے میراجی کی شخصیت میں راہ پائی اور وہ خود ایک نفسیاتی نمونہ، ایک CASE بن گئے۔
اسی زمانے میں انہیں شراب کی لت لگی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر کچھ بھی نہ کرسکتے تھے۔ گھٹتے رہے اور غم بھلانے کے لیے شراب پیتے رہے۔ اچھی شراب بھی کہاں نصیب ہوتی تھی؟ ٹھرا یا بیئر۔اس سے دماغ بھڑک اٹھتا تو عجیب و غریب حرکتیں کرتے۔انہی کے پڑوس میں ایک پڑھے لکھے ثقہ شاعر بھی رہتے تھے مگر یہ صاحب اس قدر بے نیاز قسم کے آدمی تھے کہ محلے کے کسی شخص سے واقف نہیں تھے۔ صبح اپنی نوکری پر چلے جاتے اور رات کو کسی وقت آکر پڑ رہتے، جو رو نہ جاتااللہ میاں سے ناتہ۔ چھڑادم، تندور بازی اللہ راضی۔ کتابیں پڑھنے کاشوق تھا۔ گھر آکر کسی کتاب میں غرق ہوجاتے۔ پڑھتے پڑھتے سوجاتے اور صبح اٹھ کر پھر گھر سے نکل جاتے۔ چھ سال انہیں میراجی کے پڑوس میں رہتے ہو گئے اور بیسیوں دفعہ میرا جی کو دیکھا بھی مگر یہ نہ جانا کہ یہی وہ میراجی ہیں جو رسالوں میں چھپا کرتے ہیں اور اس پرچہ کے نائب مدیر بھی ہیں جس میں خود میرا کلام شائع ہوتا ہے۔
اور ایک دن یہ ہوا کہ رات ڈھلے میراجی جھومتے جھامتے آئے اور ان کے گھر کے سامنے والے مکان کا دروازہ انہوں نے پیٹ ڈالااور نہایت بے تکلفی سے اس ثقہ کنوارے کے گھر میں درآئے اور اندر سے کنڈی لگالی۔
بچارے نے گھبراکر پوچھا، ’’آپ؟‘‘
جواب ملا، ’’جی میرا نام میراجی ہے۔‘‘
’’فرمائیے، اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’میں آج بیئر کی اٹھارہ بوتلیں پی کرآیا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر فرش پر اٹھارہ کی اٹھارہ بوتلیں اگل دیں۔
’’آپ ہی نے سامنے والے گھر کا دروازہ پیٹا تھا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس میں ایک بڑی ’چبڑ‘ عورت رہتی ہے۔‘‘
اتنے میں سارے محلے کو اس عورت نے چیخ چیخ کر سر پر اٹھالیا۔ محلے والے گھبراکر گلی میں نکل آئے۔ ’’کون تھا، کون تھا؟‘‘ کون بتاتا کہ کون تھا۔
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔
اس عجوبہ پہلی ملاقات کے بعد ثقہ کنوارے اور میراجی میں دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا۔ اس مضمون کے بیشتر واقعات کے راوی میراجی کے یہی دوست ہیں۔
میراجی کے جسم میں عقل اور دل کی لڑائی ہوتی رہتی تھی۔ میراجی کے من میں یہ سماگئی تھی کہ عقل سے کام لینے میں ہمیشہ نقصان ہوتا ہے، لہٰذا وہ شراب پی پی کر عقل کو کند کیا کرتے تھے۔ میراجی دل کو وہی درجہ دیتے تھے جو علامہ اقبال عشق کو دیتے تھے،
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
مگر ان کی بری عادت نے ان کا دل بھی وا ہی کردیا تھا اور میراجی کچھ عجیب ہی سی چیز بن کے رہ گئے تھے۔ مزاج میں شاہی اور روح میں درویشی تھی۔ نام نہاد اونچے درجے کے لوگوں کی سرپرستی قبول نہیں کرسکتے تھے۔ ان بڑوں کو وہ بہت چھوٹا سمجھتے تھے اور چھوٹوں کے لیے ان کی جان بھی حاضر تھی۔ احمد شاہ بخاری پطرسؔ نے انہیں آل انڈیا ریڈیو میں تھپکنا چاہا تھا تو میرا جی MY FOOT کہہ کر وہاں سے چلے آئے تھے۔ میراجی نے اپنے اوپر تنگی ترشی کرکے پانچ سو روپے جمع کیے تھے، جمع اس لیے کیے تھے کہ اپنی ماں کو بھیجیں۔ مگر ایک تانگے والے کو دے دیے کیونکہ اسے اپنی شادی کے لیے روپے کی ضرورت تھی۔
میراجی روپے پیسے کے معاملے میں بہت غیرمحتاط تھے۔ روپے کو انہوں نے کبھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ جب ان کے پاس روپیہ ہوتا تو دونوں ہاتھوں سے لٹادیتے اور کوڑی کفن کو نہ لگا رکھتے۔ ایک دفعہ ان کے ایک دم سازنے انہیں بہت رات گئے ایک اندھیرے بازار میں بے ہوش پڑے دیکھا۔ تانگے والے کی مدد سے انہیں اٹھاکر تانگے میں ڈالا اور ان کے گھر انہیں پہنچایا۔ میراجی کی جیب میں چارسو روپے تھے۔ انہوں نے نکال کر اپنے پاس رکھ لیے۔ میراجی کو ہو ش میں آنے کے بعد بھی روپے کا خیال نہیں آیا۔ بہت دنوں کے بعد ان صاحب نے ان کے روپے انہیں واپس دیے تو انہیں یاد بھی نہیں تھا کہ کبھی ان کی جیب میں چار سو روپے بھی تھے۔
میراجی کو طرح طرح کے غم رہتے تھے۔ جب وہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں نائب مدیر تھے تو انہیں تنخواہ تیس روپے ملتی تھی۔ اسی میں وہ شراب بھی پیتے اور اپنے چھوٹے موٹے خرچ بھی پورے کرتے، ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ اس تنگ دستی سے افسردہ رہتے تھے۔ آدمی حساس تھے۔ بھائیوں کی تعلیم کے لیے بے قرار رہتے تھے مگر ان کے لیے کوئی وسیلہ نہ نکال سکتے تھے۔ اپنی ماں پر انہیں بڑا ترس آتا تھا۔ ان کی ماں ان کے باپ کی دوسری بیوی تھیں۔ عمروں میں تفاوت کچھ زیادہ ہی تھا۔ میراجی سمجھتے تھے کہ ماں کی جوانی بوڑھے باپ کے ساتھ اکارت گئی۔ باپ کو وہ ظالم اور ماں کو مظلوم سمجھتے تھے۔ مگر باپ کے ساتھ کوئی گستاخی انہوں نے کبھی نہیں کی۔ بلکہ باپ سے انہیں محبت ہی تھی، جبھی تو انہیں جب پونہ میں اپنے اندھے باپ کے مرنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے مسجد میں جاکر ممبر کے پاس پیشاب کیا اور کہا، ’’تونے میرے باپ کو مار دیا، اس لیے میں تیرے گھر میں پیشاب کرتا ہوں۔‘‘
شراب لاہورہی میں بہت بڑھ گئی تھی۔ بعض دفعہ بوتل ہی سے منہ لگاکر پی جاتے تھے۔ اس امُ الخبائث نے ان کے اخلاق کو بڑی حدتک تباہ کردیا تھا۔ مدہوش ہونے کے بعد وہ لاہور کے گلی کوچوں میں بھیک مانگتے اور کھٹے سنترے کھاتے۔ دلّی میں راتوں کو اکثر وہ بیہوش پڑے پائے گئے۔ اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتا کہ پینے کے بعد انہیں رونا لگ جاتااور دھاڑیں مار کر رونے لگتے۔ راہ گیروں کے ٹھٹھ لگ جاتے تو ان کے ساتھ کوئی بات بناکر رفع شر کرتے۔ ایک دفعہ ایک کو کہنا پڑا کہ بچارے کی ماں مرگئی ہے۔ ایک دفعہ نئی چاوڑی میں انہوں نے رونا شروع کیا اور نظموں کے مجموعے کاپورامسودہ اچھال دیا۔ ساری سڑک پراس کے ورق پھیل گئے، ان کے دوست انہیں چنتے پھرے۔ کچھ ہوا میں اڑ گئے مگر شاباش ہے ان کے دوستوں کو، ان کی ہر کڑوی کسیلی جھیل جاتے، بلکہ ان سے خوب اچھی طرح پٹ بھی لیتے۔ کیونکہ میراجی مدہوشی کے عالم میں ’’آملیٹ‘‘ بنایا کرتے تھے۔ پیٹنے کو وہ ’’آملیٹ بنانا‘‘ کہا کرتے تھے۔
ایک رات کو آملیٹ بنانے کے سلسلے میں خود ان کا آملیٹ بن گیا۔ ہوا یہ کہ ایک ہم پیالہ سے انہوں نے وقتاً فوقتاً قرض لے کر بہت بڑھالیا۔ جب اس نے تقاضہ کیا تو انہوں نے اس کا آملیٹ بنانا چاہا۔ وہ ہوش میں تھا، یہ مدہوش تھے۔ یہ واقعہ آل انڈیا ریڈیو کے ایک اسٹوڈیو کا ہے۔ رات کو میراجی پی پلاکر اسٹوڈیو ہی میں سو گئے تھے۔ ان کے قرض خواہ نے انہیں بے قابو دیکھ کر ان کی خوب کندی کی۔ بدبخت نے منہ ہی منہ پر مارا تھا۔سارا منہ نیلا کانچ ہوگیا تھا اور جابجا کھرونچیں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے جب انہیں صبح دیکھا تو پوچھا، ’’یہ کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’مجھے کسی نے مارا ہے۔‘‘
کیوں مارا، کس نے مارا؟ یہ نہیں معلوم۔ ان کے نہ پینے والے دوستوں نے بتایا کہ میراجی نے خود اپنے آپ کو مارا ہے۔ یہ بھی ایک نفسیاتی بیماری ہوتی ہے۔ مگر اصل واقعہ یہی تھا کہ ان کے قرض خواہ دوست نے انہیں اس بے دردی سے ماراتھا۔مگر میراجی اس کانام اس لیے نہیں بتاتے تھے کہ ساری بات کھل جاتی اوریہ بھی بتانا پڑتا کہ اسٹوڈیو میں سورہے تھے کہ یہ سانحہ پیش آیا۔ اسٹوڈیو میں سونا جرم تھا اوراس کی پاداش میں نوکری جاتی رہتی۔
میراجی کا پورا نام محمدثناء اللہ ڈار تھا۔ مگر ایک بنگالی لڑکی کے عشق میں مبتلاہوکر انہوں نے میراسین کے نام پر اپنا نام میراجی رکھ لیا تھا۔ میراجی کے ایک ہم جماعت کا مکان کنارڈ کالج، لاہور سے ملا ہوا تھا۔ صرف ایک دیوار بیچ میں تھی۔ میراجی اور ان کے چند اور ہم جماعت اس گھر میں جمع ہوتے۔ پیتے پلاتے اور دیوار میں ایک سوراخ کرکے اس میں سے کالج کی لڑکیوں کو تکاکرتے۔ انہی لڑکیوں میں میرا سین بھی تھی جس پر میراجی لوٹ ہوگئے۔ اکثر یہ بھی کرتے کہ جب وہ لڑکی کالج سے اپنے گھر جاتی تو میرا جی کچھ فاصلے سے اس کے پیچھے لگے رہتے، یہاں تک کہ اسے گھر پہنچا دیتے۔جب تک وہ لڑکی لاہور میں رہی، ان کا یہی معمول رہا۔ صرف ایک دفعہ بڑی ہمت کرکے انہوں نے اس سے کہا، ’’مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ اس نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا مگر منہ سے کچھ نہ کہا۔ نہ خوش ہوئی نہ ناراض۔ خاموش اپنے گھر چلی گئی۔ بس یہ تھا میرا جی کاپہلا اورآخری عشق۔
میراجی کے پاس میراسین کی ایک تصویر خدا جانے کہاں سے آگئی تھی۔اسے وہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ جب انہیں میراسین کی یاد بہت ستاتی تو اس تصویر کوسامنے رکھ کر دیکھتے رہتے، پھر فرش پر زور زور سے اپنا سر پٹختے۔ یہاں تک کہ بے حال ہوجاتے۔
اس افلاطونی عشق کے بعد میراجی نے اپنی ساری عمر میں پہلا اورآخری جنسی معاملہ کیا۔ لاہور کی ہیرا منڈی میں کسی کے یہاں پہنچ گئے۔ اس نے انہیں اپنی یاد دلانے کے لیے آتشک کا تحفہ دیا۔ یہ تحفہ میراجی کے پاس آخری دم تک رہا۔ میراجی ہومیوپیتھی بھی جانتے تھے۔ اپنا علاج خود کرتے رہتے تھے اور دوائیں کھاتے رہتے تھے۔ اس واقعہ کی یادگار ان کی ایک نظم ’’۱۴/مئی ۱۹۳۳ء کی رات‘‘ ہے جو کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے،
جو دھن تھا پاس وہ دور ہوا
مٹی میں ملا، کچھ بھی نہ رہا
اور یہ واقعہ بھی ہے کہ اس سانحہ کے بعد میراجی جنسی لحاظ سے کھکھ ہوگئے تھے اور ان کی لاشعوری الجھنیں اور بھی زیادہ ہوگئی تھیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جب جاپان کی جیت ہونے لگی تو آل انڈیا ریڈیو کے اسٹاف میں معتد بہ اضافہ کیا گیا۔ پطرس ڈائرکٹر جنرل تھے۔انہوں نے لاہور سے تقریباً سارے ہی ادیب دلّی ریڈیو میں بلالیے تھے۔ چراغ حسن حسرتؔ، سعادت حسن منٹوؔ، اوپندر ناتھ اشک، راجندر سنگھ بیدی اور افضل اقبال، ن۔م۔راشد، محمود نظامی اور انصار ناصری پہلے ہی سے سروس میں موجود تھے۔ بعد میں اختر حسین رائے پوری بھی شامل ہوگئے تھے۔ سالکؔ صاحب نہیں آئے تھے، وہ لاہور ہی سے خبروں پر پانچ منٹ کاتبصرہ نشر کرنے لگے تھے، تاثیرؔ اور فیضیؔ کسی فوجی محکمے میں ملازم ہوکر دلّی آگئے تھے، یوں لاہور کی ساری رونق دلّی میں سمٹ آئی تھی۔
محمود نظامی نے کچھ دنوں بعد ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر میراجی کو بلوالیا تھا۔ مگر میراجی اب دیکھنے میں وہ میراجی نہیں تھے، وہ کاکلیں جنہیں میراسین کے بالوں کی یاد میں انہوں نے پرورش کیا تھا، اب کٹ چکی تھیں۔ ان کا کلوں کے پیچھے انہوں نے دوستوں کی پھبتیوں کو ہنس ہنس کر گوارہ کیا تھا۔ محلے کے بچے بہنیں دیکھ کر ’’بڈھی میم، بڈھی میم‘‘ کی رٹ لگایا کرتے تھے اور میراجی مسکرا مسکراکر اپنی مٹھی میں کاکلوں کو لے کر بچوں کو دکھایا کرتے تھے۔ اب ایسی غائب ہوئی تھیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ان کی جگہ انگریزی بالوں نے لے لی تھی۔ لنڈا بازارکے اوورکوٹ کے بدلے اب وہ اچھاخاصہ سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ مونچھیں بھی کسی قدر کم ہوگئی تھیں اور میراجی خاصے مردِ معقول دکھائی دینے لگے تھے۔
دلّی میں کئی سال تک میراجی سے میرا ربط رہا۔ انہیں بہت قریب سے دیکھا مگر میں ان سے دور ہی رہا۔ ان کے معمولات کی پذیرائی میرے لیے ناممکن تھی۔ انہیں اپنے ہم مشرب احباب کا حلقہ دلّی میں مل گیا تھا جو روزانہ بعد مغرب سستی شراب پیتے اور اکثر نئی چاوڑی کے چکر کاٹا کرتے۔ دن کے وقت میراجی بھلے آدمی بنے رہتے تھے۔ معقول گفتگو کرتے تھے مگر مختصر۔ کبھی کسی کی برائی ان سے نہیں سنی۔ تعریف بھی نہیں سنی۔ جتنی پیچیدہ نظم لکھتے تھے اتنی ہی صاف نثر لکھتے تھے۔ ’’ادبی دنیا‘‘ میں انہوں نے دنیا کے بعض بڑے شاعروں پر اچھے تنقیدی مضامین لکھے تھے۔ دلّی آجانے کے کچھ عرصے بعد ساقی میں مستقلاً علمی اور ادبی باتیں لکھنے لگے تھے۔ آخر آخر میں منجملہ اپنی شاعری کے مجموعوں کے انہی مضامین کا ایک منتخب مجموعہ ’’بازگشت‘‘ کے نام سے مرتب کرکے دیا تھا، جو ساقی بک ڈپو کے دوسرے مسودات کے ساتھ دلّی بُرد ہوگیا۔
میراجی بھی خواجہ حسن نظامی کی طرح اس بات کے قائل تھے کہ جب تک کوئی مخصوص وضع اختیار نہ کی جائے، یا کوئی نرالی دھج نہ بنائی جائے، لوگ کسی کی طرف توجہ نہیں کرتے، بلکہ آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔ لاہور کا لبادہ اور کاکلوں کا وبال اب اترچکاتھا اور میراجی عام آدمیوں کاسا لباس پہننے لگے تھے، لہٰذا لوگوں نے انہیں دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ لاہور میں جب محلے کے بچے انہیں دیکھ کر ’’بڈھی میم بڈھی میم‘‘ کے نعرے نہ لگاتے تو میراجی رک کر اپنے بال مٹھی میں پکڑ کر دور سے بچوں کو دکھاتے اور اشارے سے انہیں بلاتے اور بچے جمع ہوکر ’’بڈھی میم، بڈھی میم‘‘ کے نعرے لگانے لگتے۔ یہ میراجی کی کمزوری تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ لوگ انہیں دیکھیں۔ دلّی آئے تو ع:
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا
یہ کس مپرسی انہیں بھلاکیسے گواراہ ہوتی؟ لہٰذا انہوں نے نیبو کے برابر ایک لوہے کا گولہ ہاتھ میں رکھنا شروع کردیا۔ لوگ ادبداکر پوچھتے کہ یہ کیا ہے تو میراجی مسکراکر رہ جاتے۔ جو نمود کی ہڑک اور بڑھی تو ایک کے بدلے دو گولے ہاتھ میں رکھنے لگے۔ پھر ان گولوں پر سگریٹ کی پنی بھی چڑھانے لگے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی جیب میں ایک سادھوؤں کی مالااور ایک سنکھ بھی پڑا رہتا تھا۔ کبھی کبھی ان کی نمائش بھی کیا کرتے تھے۔منٹو میراجی کی ان چیزوں کو ’’فراڈ‘‘ کہاکرتا تھا۔
نمود حاصل کرنے کے لیے میراجی یہ بھی کرتے تھے کہ کرسی پرجوتوں سمیت اکڑوں بیٹھ جاتے تھے۔ دعوتوں میں سالن میں زردہ یا کھیر ملالیا کرتے۔ یہ تماشاتو چندبار میرے گھر پر ہوا اور احباب نے اس کی خوب ہنسی اڑائی مگر میراجی ناراض ہونے کے بدلے خوش ہوتے تھے اور مسکراتے تھے۔اورایک دفعہ میراجی محمودنظامی کے ساتھ فلم کمپنیوں کے سلسلے میں بمبئی گئے تو اس زمانے کی مشہور فلم اسٹار دیوکارانی نے ان دونوں کو کھانے پر بلایا۔ میراجی نے وہاں بھی حسب عادت یہی STUNT دکھایا۔ جوتوں سمیت کرسی پر اکڑوں بیٹھے اور سلونا اورمیٹھا ملاکر کھانے لگے۔ دیوکارانی بگڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور منہ پھلاکر کمرے سے باہر چلی گئی۔ محمود نظامی نے میراجی سے کہا، ’’آپ نے یہاں بھی وہی حرکت کی؟‘‘ میراجی نے کہا، ’’جی ہاں۔ میں اپنا کشمیری ہونا نہیں بھول سکتا۔‘‘ دیوکارانی پھر واپس نہیں آئی۔ ع
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
۴۴ء کے بعد میراجی کی وضع قطع او رمعمولات میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن ان کی شاعری میں سے جنسی گندگی کا عنصر نکل گیا تھا اور اس کی جگہ ایک طرح کی روحانی پاکیزگی آچلی تھی۔ ان کے کلام کی گنجلک اشاریت بھی ختم ہوگئی تھی اور شعر بہت صاف کہنے لگے تھے، انہوں نے ’’میراجی کی نظمیں‘‘ کے بعد اپنی نئی نظموں کا ایک ضخیم مجموعہ مرتب کرکے مجھے دیا تھا۔ اس کی کتابت بھی ہوچکی تھی کہ دلّی میں ہنگامہ ہوگیا اور مجموعہ نہ چھپ سکا۔ اس زمانے کی شاعری کا انداز کچھ ایسا تھا،
گرتے پربت کو کوئی روکے تو شاید روکے
گرتے دریا کو کوئی روکے تو شاید روکے
گرتے آنسو کو کوئی روک نہیں سکتا ہے
آل انڈیا ریڈیو چھوڑنے کے بعد میراجی بمبئی چلے گئے تھے۔ وہاں ان کاارادہ فلم کمپنیوں میں کام کرنے کا تھا۔ ان سے پہلے منٹو، اشک، کرشن چندر، اخترالایمان، مہندر ناتھ، شہزاد لکھنوی، راجہ مہدی علی خاں، اور ریڈیو کے کئی کام کرنے والے بھی بمبئی جاچکے تھے۔ بمبئی جانے کے بعد میراجی کی شراب اور بڑھ گئی تھی اور وہ اکثر بیکار اور بیمار رہنے لگے۔ اس بُرے وقت میں مہندر ناتھ اور اخترالایمان نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ میراجی شراب کے لیے ایک ایک سے قرض مانگتے پھرتے تھے، مگر قرض لینے میں بھی اپنی یہ ادا بنارکھی تھی کہ دس روپے سے زیادہ کسی سے طلب نہیں کرتے تھے۔ اگر کہیں سے روپے کمالیتے تو قرض اداکردیتے ورنہ صاف کہہ دیتے کہ میرے پاس دینے کو نہیں ہے۔ پیسہ ان کے پاس نہیں رہتا تھا۔
ان کے ایک قدردان دوست جو انہی کے ساتھ دلّی میں رہتے تھے، مگر ان کے معمولات میں شریک نہیں ہوتے تھے، اپنی پوری تنخواہ لاکر ان کے ہاتھ میں دے دیا کرتے تھے۔ میراجی نے ان سے کہہ دیا تھا کہ میں تمہاری شادی کے لیے روپیہ تمہاری تنخواہ میں سے جمع کرتا رہوں گا۔ میراجی کی رگ رگ سے واقف ہونے کے باوجود ان صاحب نے میراجی پر بھروسہ کیا۔ اتنا نہ سمجھے کہ عاشق کے دل میں صبر اور چھلنی میں پانی بھلا کب ٹھہرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب ان کی شادی کا وقت آیا تو میراجی نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ میرے پاس نہیں ہے، شادی ملتوی نہیں ہوسکتی تھی، لہٰذا اس غریب نے قرض وام کرکے شادی کی اور کفا جفا کرکے قرض اتارتا رہا۔ مگر دوست ہو تو ایسا ہو کہ اتنا بڑا زخم کھایا اورآنکھ پر میل تک نہ آیا۔
مرنے سے چھ مہینے پہلے میراجی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ موت قریب آچکی ہے۔ ہوا یہ کہ ایک معقول جگہ نہایت قیمتی قالین پران کا پیشاب نکل گیا۔ اس کی اس قدر شرمندگی ہوئی کہ اسی وقت شراب ترک کرنے کا عہد کرلیا۔ لوہے کے گولے کھڑکی میں سے باہر پھینک دیے اور سمجھنے لگے میں پاگل ہو رہا ہوں اور یہ پاگل پن ہی تھا کہ انہوں نے یک لخت شراب چھوڑدی۔ اس سے ان کی حالت اور زیادہ خراب ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے کہا، ’’تم شراب کم کرتے چلے جاؤ، ایک دم مت چھوڑدو۔‘‘ مگر میراجی نے ان کامشورہ نہیں مانا۔ شراب کو سچ مچ اپنے اوپر حرام کرلیا۔ قلب کی حرکت میں فرق آگیا۔ جگر اور معدے نے جواب دے دیا۔ پانی تک نہ پہنچتا تھا۔ اخترالایمان نے انہیں سرکاری ہسپتال میں داخل کرادیا۔ مگر میراجی کا مرض لاعلاج ہوچکا تھا۔ سانس پورے کرتے رہے اور ہسپتال ہی میں دم دے دیا۔
پچھلے دنوں میں پنڈی گیا تھا تو میراجی کے عزیز دوست یوسف ظفر صاحب نے ایک عجیب واقعہ سنایا۔ وہ اس سال حج کو گئے تھے۔ فرماتے تھے کہ میں مدینہ منورہ میں حضور کی جالیوں سے کچھ فاصلے پر بیٹھا مراقبہ میں غرق تھا اور جو جو مجھے یاد آتا رہا، میں اس کے لیے دعا کرتا رہا، یہاں تک کہ کوئی نام باقی نہ رہا۔ مجھ پر عجیب سرور کا عالم طاری تھا۔ قلب گزار ہوگیا تھا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بندھی ہوئی تھیں کہ یکایک میراجی میرے سامنے آکھڑے ہوئے اور بولے، ’’مجھے بھول گئے، میرے لیے تم نے دعا نہیں کی!‘‘ میں نے اسی وقت میراجی کے لیے بھی دعا کی۔
وہ سامنے کھڑے رہے۔ دعا ختم کرکے جو دیکھتا ہوں، نہ میراجی ہیں نہ کوئی اور۔ بس میں تھا اور میرے سامنے حضور کی جالیاں تھیں۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ اس قدر گندہ اور ناپاک شخص بھلاایسی پاکیزہ اور مقدس جگہ کیسے آگیا؟ دنوں میں اس واقعہ پر غور کرتارہا۔ پھر ایک دم سے ایک دن میراجی سے اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی۔ یہ اس رات کا واقعہ ہے جب وہ بیئر کی اٹھارہ بوتلیں پی کر میرے گھر میں آدھی رات کو درّانہ چلے آئے تھے اور اٹھارہ کی اٹھارہ بیئر کی بوتلیں انہوں نے میرے کمرے کے فرش پر اگل دی تھیں۔ میں نے ان سے ان کانام پوچھا تھاتو انہوں نے اپنانام میراجی بتایا تھا۔ اور جب میں نے ان سے ان کااصلی نام دریافت کیا تو انہوں نے اپنی تیوری پر بل ڈال کر کہا تھا، ’’میرا اصلی نام محمد ثناء اللہ ڈار ہے۔‘‘ اس نام میں ’’محمد‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے کہ اپنے گندے منہ سے اس پاک لفظ کو ادا کرے۔ کڑی سے کڑی مل گئی تھی او رمیری چٹیک دور ہوگئی تھی، مجھے یقین ہے کہ محمد ﷺ کے اس والہانہ احترام کے صلہ میں میراجی کی بخشش ہوگئی ہوگی اور حضور کی اس بے اندازہ محبت کے طفیل میراجی کے سارے گناہ معاف ہوگئے ہوں گے۔‘‘ اتنا کہہ کر میراجی کے یہ پرانے دوست آبدیدہ ہوگئے، اور میں نے کہا،
خاکسارانِ جہاں رابہ حقارت منگر
تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد