☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ☷☲☰
جرمنی کے مشہور فلسفی کانٹ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کاا س قدر پابند تھا کہ لوگ اس کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں ٹھیک کر لیتے تھے۔ بعض یورپ پرست اس کی پابندی اوقات کو یورپ والوں کا ہی حصہ خیال کریں تو خیال کریں، میں تو یہ کہتا ہوں کہ صرف دہلی میں میں نے تین ایسے شخص دیکھے ہیں جو آندھی آئے، مینہ آئے، روزانہ چھے بجے ٹاؤن ہال کی لائبریری میں آتے تھے۔ ادھر انہوں نے لائبریری کے دروازے میں قدم رکھا، ادھر گھنٹا گھر نے ٹن ٹن چھے بجائے۔ لطف یہ ہے کہ ان میں سے ایک مشرق میں رہتا تھا تو دوسرا مغرب میں۔ یہ تین شخص کون تھے، ایک منشی ذکاء اللہ صاحب، دوسرے رائے بہادر پیارے لال صاحب اور تیسرے مولوی صاحب۔
ایک چیلوں کے کوچے سے آتا تھا، دوسرا دریبے سے اور تیسرا کھاری باولی سے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک نے آ کر دوسرے کا انتظار کیا ہو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک نہ آتا تو ایک ہی نتیجہ نکل سکتا تھا کہ نہ آنے والا ایسا بیمار ہے کہ چلنا دشوار ہے اور یہ نتیجہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا او رکانوں سے سنا ہے کہ اگر کسی شخص کو ان تینوں میں سے کسی سے ملنا ہوتا اور چھے بجے سے ذرا پہلے لائبریری کے کسی ملازم سے جا کر دریافت کرتا تو یہی جواب ملتا کہ اب آتے ہی ہوں گے، چھے میں دو ہی منٹ تو رہ گئے ہیں۔
دوسرے دو صاحبوں کا ٹائم ٹیبل تو مجھے معلوم نہیں البتہ مولوی صاحب کی مصروفیتوں کا حال لکھتا ہوں۔ ان کے اس نظام اوقات میں گرمی اور جاڑے کے لحاظ سے کچھ کچھ تغیر ہو جاتا تھا۔ وہ ہمیشہ بہت سویرے اٹھنے کے عادی تھے۔ گرمیوں میں اٹھتے ہی نہاتے اور ضروریات سے فارغ ہو کر نماز پڑھتے۔ ان کی صبح کی اور عصر کی نماز کبھی ناغہ نہ ہوتی تھی، باقی کا حال اللہ کو معلوم ہے نہ میں نے دریافت کیا اور نہ مجھ سے کسی نے کہا۔ صبح کی نماز پڑھ کر کچھ تلاوت کرتے۔ ادھر ذرا دن چڑھا ادھر مولویوں کی جماعت اور خود مولوی صاحب کا ناشتا داخل ہوا۔ اس جماعت میں بخارا، کابل سرحد وغیرہ کے لوگ تھے۔
ان کی تعداد کوئی 15، 16 تھی۔ محنت ایسی کرتے تھے کہ دوسرا کرے تو مرجائے، لیکن ٹھوٹھ ایسے تھے کہ مولوی صاحب بھی زچ ہو جاتے تھے۔ خوش مذاقی تو انہیں چھوکر نہیں گئی تھی۔ خود مذاق کرنا تو کجا، دوسرے کا مذاق بھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ متانت اور ادب کا یہ حال تھا کہ آنکھ اٹھا کر صاحب کو دیکھنا سوء ادبی سمجھتے تھے۔ اب ان کے وہ عمامے اونچے اونچے، یہ یہ لمبی ڈاڑھیاں دیکھو اور مولوی صاحب کی حالت کا اندازہ کرو، بچارے ناشتا کرتے جاتے تھے اور اپنا فرض اتارتے جاتے تھے۔ عالم تھے، دوسروں کو عالم بناتے تھے، لیکن کہا کرتے تھے کہ ان فتح پوری کے ملانوں کو پڑھا کر میرا دل بیٹھ جاتا ہے۔ کیا کہوں ’’میں ہوں ہنسوڑ اور تو ہے مقطع، میرا تیرا میل نہیں‘‘ کا نقشہ ہے۔
یہ جماعت اٹھی اور مولوی رحیم بخش صاحب آ نازل ہوئے۔ کاغذوں کا مٹھا بغل میں، ہاتھ میں پنسل، کان میں قلم۔ ادھر فتح پوری کی جماعت نے کمرے سے قدم نکالا، ادھر انہوں نے کمرے میں قدم رکھا۔ اب سلسلہ تصنیف و تالیف شروع ہوا۔ چونکہ آخر میں مولوی صاحب کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا تھا اس لئے لکھوانے کا کام اکثر انہیں سے لیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے کلام مجید اور حمائل شریف کی کاپیوں کی صحت کی جاتی۔ اس کے بعد مطبع کا حساب دیکھا جاتا اور پھر جدید تصنیفات کا سلسلہ شروع ہوتا۔ یہ کام سمیٹتے سمیٹتے ساڑھے گیارہ، پونے بارہ بج جاتے۔ رحیم بخش صاحب کےاٹھتے ہی کھانا آتا۔ کھانا کھایا پلنگ پر لیٹ گئے۔ ادھر ڈیڑھ بجا اور ادھر ہم دونوں داخل ہوئے۔ ہمارا قدم رکھنا تھا کہ مولوی صاحب اٹھ بیٹھے، سارھے تین بجے تک ہم سے سر مغزنی کرتے رہے۔ اگر کوئی دلچسپ بحث یا قصہ چھڑ گیا تو چار بج گئے۔
چار بجے اور مولوی صاحب غسل خانے میں گئے۔ نہائے دھوئے، کپڑے پہن نکل کھڑے ہوئے۔ پہلے شمس العارفین کی دکان پر ٹھہرے۔ یہاں بھی ان کا حساب کتاب تھا۔ وہاں کا کھاتا دیکھا، جو کچھ لینا دینا تھا، لیا دیا اور سیدھے ٹاؤن ہال کی لائبریری میں پہنچ گئے۔ سات بجے تک وہاں ٹھہرے، جس کو ملنا ہوا، وہ وہاں مل لیا۔ سات بجے وہاں سے اٹھ کر سراج الدین صاحب کی دکان پر آئے۔ یہاں بھی حساب کتاب کیا، عبد الرحمان کو پڑھایا۔ گھنٹا بھر یہاں ٹھہر کر مکان پہنچ گئے۔ کھانا کھایا، کچھ لکھا پڑا اور دس بجے سو رہے۔ جاڑے میں پروگرام میں یہ تبدیلی ہو جاتی تھی کہ پہلے صبح ہی صبح ہم پہنچتے تھے، اس کے بعد مولویوں کی جماعت آتی تھی۔ رحیم بخش صاحب کا نمبر سہ پہر میں آتا تھا۔
خوش خوراک تھے اور مزے لے لے کر کھانا کھاتے تھے۔ ناشتے میں دو نیم برشت انڈے ضرور ہوتے تھے۔ میوے کا بڑا شوق تھا۔ ناشتے اور کھانے کے ساتھ میوے کا ہونا لازم تھا۔ پڑھاتے جاتے تھے، مگر مجھ کو ایک حسرت رہ گئی کہ کبھی شریک طعام نہ ہو سکا۔ خیر ان پٹھانوں کی جماعت کی تو کیا صلا کرتے۔ ان کے لئے تو مولوی صاحب کا ناشتہ، اونٹ کے منہ میں زیرہ ہو جاتا، البتہ ہم دونوں کی صلا نہ کرنا غضب تھا۔ کہتے بھی جاتے تھے، بھئی کیا مزے کا خربوزہ ہے! میاں، کیا مزے کا آم ہے! مگر بندہ خدا نے کبھی یہ نہ کہا کہ بیٹا ذرا چکھ کر تو دیکھو یہ کیسا ہے۔ میں نے تو تہیہ کر لیا تھا (میاں دانی اب انکار کریں تو کریں، لیکن ان کا بھی یہی ارادہ تھا) کہ مولوی صاحب اگر جھوٹے منہ بھی شریک ہونے کو کہیں، تو ہم سچ مچ شریک ہو جائیں۔
مولوی صاحب کو مسلمانوں میں تجارت پھیلانے کا شوق تھا اور اس غرض کے حاصل کرنے میں ان کو مالی مدد دینے میں کبھی انکار نہ ہوتا تھا۔ بے دریغ روپیہ دیتے تھے اور اکثر بڑی بڑی رقمیں ڈبو بیٹھتے تھے۔ کہا کرتے تھے، ’’میاں! میں سچ کہتا ہوں کہ اس تجارت کے شوق میں تین لاکھ روپے کھو بیٹھا ہوں۔ پھر بھی جوکچھ مجھے بعض کھرے دکان داروں سے فائدہ پہنچا ہے اس نے میرے نقصان کی تلافی ہی نہیں کردی بلکہ کچھ نفع ہی پہنچا دیا۔ بیٹا! تم بھی تجارت کرو، روپیہ میں دیتا ہوں۔ نوکری کی کھکھیڑ اٹھاؤ گے، تو مزا معلوم ہوگا۔‘‘
جس طرح روپیہ دل کھول کر دیتے تھے اسی طرح حساب بھی بڑی سختی سے لیتے تھے۔ گرمی ہو یا جاڑا، دھوپ ہو یا مینہ، قرض داروں کے ہاں ان کا روزانہ چکر نہیں چھوٹتا تھا۔ گئے اور جاتے ہی پہلے غلق پر قبضہ کیا، اس کے بعد کھاتا دیکھا، کِروی دیکھی۔ سامان دیکھ کر بکری کا اندازہ کیا، روپیہ جیب میں ڈالا، سلام علیکم وعلیکم السلام کیا اور چل دیے۔
دوسرے دوکاندار کے پاس پہنچے اور وہاں بھی وہی پہلا سبق دہرایا۔ کوڑی کوڑی کا حساب دیکھتے، اعتراضوں کی بوچھاڑ سے پریشان کرتے اور کہتے جاتے، ’’بھئی، حساب جو جو، بخشش سو سو۔‘‘ فقرے کے پہلے جزو سے تو بچاروں کو روزانہ واسطہ پڑتا، لیکن دوسرے جزو کا دیکھنا کبھی کسی کو نصیب نہ ہوا۔ یہ ضرور ہے کہ اگر واقعی بازار کے مندا ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کے کسی قرض دار کا نقصان ہو جاتا یا دیوالیہ نکل جاتا، تو پھر اس قرضے کا ذکر زبان پر نہ لاتے۔
ان کو خیال تھا کہ دہلی کے پنجابی تجارت کو خوب سمجھتے ہیں، ان کو دل کھول کر روپیہ دیتے تھے اور اکثر انہیں کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک صاحب جن کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں، مولوی صاحب کے پاس آئے۔ تجارت کا ذکر چھیڑا اور مولوی صاحب کو ولایتی جوتوں کے فائدے کے وہ سبز باغ دکھائے کہ تیسرے ہی روز بلا کسی طمانیت کے، گیارہ ہزار روپے کا چک مولوی صاحب نے ان کے نام لکھ دیا۔ بڑے ٹھاٹھ سے سنہری مسجد کے قریب دکان کھولی گئی۔ مولوی صاحب جاتے، گھڑی دو گھڑی وہاں بیٹھتے، دکاندار صاحب کی لچھے دار باتیں سنتے، چلتے وقت کچھ روپے جیب میں ڈالنے کو مل جاتے، اس لئے خوش خوش بغیر حساب کتاب کئے گھر آ جاتے۔ یہی ٹھوکر تھی جس نے مولوی صاحب کو چوکنا کر دیا ور وہ بغیر حساب کتاب دیکھے، روپے کو ہاتھ لگانا گناہ سمجھتے تھے۔
قصہ مختصر، اصل میں سے دو ڈھائی ہزار روپیہ مولوی صاحب کو تھما، اس نے دیوالیہ نکال دیا۔ قرقی ہوئی، مال نیلام چڑھا اوراس میرے یار نے کل سامان دوسروں کے ذریعے خود خرید لیا۔ مولوی صاحب کو اس چال کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اس کے بعد آیا، بہت رویا، بہت ٹسوے بہائے۔ مولوی صاحب سمجھے بچارے کو بڑا رنج ہوا۔ کہا، جاؤ بھئی جاؤ، تجارت میں یہی ہوتا ہے، یا اس پار یا اس پار۔ چلو گئی گزری بات ہوئی۔
ایک روز خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے کہ یہ چاوڑی میں جا رہے تھے، کچھ جھٹپٹا ہوا تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دکاندار صاحب خوب پیے ہوئے، عطر میں بسے، پھولوں کا کنٹھا گلے میں ڈالے، ایک رنڈی کا ہاتھ پکڑے، کوٹھے سے اترے اور آکر ایک کھلی گاڑی میں سوار ہوئے۔ مولوی صاحب نے جو یہ رنگ دیکھا و وہیں ٹھٹک گئے۔ اتنے میں انہوں نے بھی مولوی صاحب کو دیکھا، بہت مسکرا کر سلام کیا، رنڈی نے چپکے چپکے کچھ دریافت کیا، تو ایک قہقہہ لگایا اور اونچی آواز میں کہا، ’’یہ سب کچھ مولوی صاحب ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔‘‘ مولوی صاحب کے آگ لگ گئی۔ دوسرے ہی دن نالش ٹھونک دی اور آخر ٹھکانے لگا کر دم لیا۔ لوگوں نے سفارشیں بھی کیں، انہوں نے خود بھی آ کر بہت کچھ توبہ تلا کی لیکن یہ نہ ماننا تھا نہ مانے اور آخر جب اس کو کھک کر دیا، اس وقت ان کو چین آیا۔
دین لین سب کچھ کرتے تھے مگر حساب کتاب صرف دوسروں کی کتابوں یا ان کے دل میں تھا، کچھ تھوڑا بہت، لوگوں کے کہنے سننے سے متفرق پرچوں پر لکھ بھی لیا تھا لیکن اتنے بڑے بیوپار کے لئے جیسا دفتر چاہئے، وہ انہوں نے نہ رکھنا تھا نہ رکھا۔ سود لینا وہ جائز سمجھتے تھے۔ اگر کوئی حجت کرتا تو مارے تاویلوں کے اس کا ناطقہ بند کر دیتے۔ ایک تو حافظ دوسرے عالم، تیسرے لسان، بھلا ان سے کون اور آ سکتا تھا۔ اور تو اور خود مجھ سے سود لینے کو تیار ہو گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم پر متفرق قرضے تھے، خیال آیا کہ ایک جگہ سے قرض لے کر سب کو ادا کر دیا جائے۔ قرضہ کس سے لیا جائے یہ ذرا ٹیڑھا سوال تھا۔ ہر پھر کر مولوی صاحب ہی پر نظر جاتی تھی۔ آخر ایک دن جی کڑا کر کے میں نے مولوی صاحب سے سوال کر ہی دیا۔ کہنے لگے، کتنا روپیہ چاہئے؟ میں نے کہا، بارہ ہزار۔ بولے، ضمانت؟ میں نے کہا، چوڑی والوں والا مکان۔ پوچھا، کتنی مالیت کا ہے؟ میں نے کہا، کوئی ساٹھ ستر ہزار روپے کا۔ فرمایا، کل قبالہ لیتے آنا۔ میں نے دل میں سوچا، چلو چھٹی ہوئی، بڑی جلدی معاملہ پٹ گیا۔
دوسرے دن قبالہ لے کر پہنچا۔ پڑھ کر کہا، ٹھیک ہے، مگر بیٹا سود کیا دوگے؟ میں نے کہا، مولوی صاحب آپ اور سود؟ کہنے لگے، کیوں، اس میں کیا ہرج ہے؟ میں نہ دوں گا تو کسی ساہوکار سے لوگے، اس کو خوشی سے سود دوگے۔ ارے میاں! مجھے کچھ فائدہ پہنچاؤ گے تو دین دنیا دونوں میں بھلا ہوگا۔ آخر میں تمہارا استاد ہوں یا نہیں! میرا بھی کچھ حق تم پر ہے یا نہیں؟ جاؤ شاباش بیٹا! اپنے چچا سے جا کر تصفیہ کر آؤ، کل ہی چک بنگال بنک کے نام لکھے دیتا ہوں۔ میں نے کہا، مولوی صاحب! لوگ کیا کہیں گے کہ مولوی ہو کر سود لیتے ہیں، اور لیتے ہیں کس سے، اپنے شاگردوں سے۔ کہنے لگے، اس کی پروا نہ کرو۔ جب مجھ پر کفر کا فتویٰ لگ چکا ہے تو اب مجھے ڈر ہی کیا رہا، جاؤ تمہارے ساتھ یہ رعایت کرتا ہوں کہ اوروں سے روپیہ سیکڑا لیتا ہوں، تم سے چودہ آنے لوں گا۔
میں نے آ کرگھر میں ذکر کیا۔۔۔ ہم کو دوسری جگہ سے آٹھ آنے سیکڑے پر روپیہ مل گیا، اس لئے یہ معاملہ یوں کا یوں ہی رہ گیا۔
لیجئے، یہ قصہ تو سنا چکا، اب اصل کہانی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور مولوی صاحب کی ابتدائی تعلیم کے واقعات جو ان کی زبانی سنے تھے، بیان کرتا ہوں۔
ایک روز مولوی صاحب معلقات پڑھا رہے تھے، عمر بن کلثوم کا قصیدہ تھا، جب اس شعر پر پہنچے،
ابا ہند فلا تعجل علینا
وانظرنا نخبرک الیقینا
تو بہت ہنسے، کتاب رکھ دی اور ہنستے ہنستے لوٹ گئے۔ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ الہی یہ کیا ماجرا ہے! شعر میں تو کوئی ہنسی کی بات نہیں پھر مولوی صاحب کو یہ کیا مرض اٹھا ہے۔ آخر جب ہنسنے کا ذرا زور کم ہوا، تو وجہ دریافت کی۔ مولوی صاحب پھر ہنسنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد سنبھل کر بولے، میاں! بعض شعر قصہ طلب ہوتے ہیں۔ یہ شعر میری زندگی کے قصے کا آغاز ہے۔ اچھا لو، سناتا ہوں مگر پہلے تمہید سن لو۔
بھئی ہم بہت غریب لوگ تھے، نہ کھانے کو روٹی نہ پہننے کو کپڑا۔ تعلیم کا شوق تھا اس لیے پھرتا پھراتا پنجابیوں کے کٹرے کے مسجد میں ٹھہر گیا۔ یہاں کے مولوی صاحب بڑے عالم تھے، ان سے پڑھتا اور توکل پر گزارا کرتا۔ مولوی صاحب کے دو چار شاگرد اور بھی تھے، انہیں بھی پڑھاتے تھے، مجھے بھی پڑھاتے۔ دن رات پڑھنے کے سوا کچھ کام نہ تھا۔ تھوڑے دنوں میں کلام مجید پڑھ کر میں نے ادب پڑھنا شروع کیا۔ چار پانچ برس میں معلقات پڑھنے لگا۔ گو عمر میری بارہ سال کی تھی، مگر قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے نو دس برس کامعلوم ہوتا تھا۔
پڑھنے کے علاوہ میراکام روٹیاں سمیٹنا بھی تھا۔ صبح ہوئی اور میں چھڑی ہاتھ میں لے کر گھر گھر روٹیاں جمع کرنے لگا۔ کسی نے رات کی بچی ہوئی دال ہی دے دی، کسی نے قیمے کی لگدی ہی رکھ دی، کسی نے دو تین سوکھی روٹیوں ہی پر ٹرخایا، غرض رنگ برنگ کا کھانا جمع ہو جاتا۔ مسجد کے پاس ہی عبد الخالق صاحب کا مکان تھا، اچھے کھاتے پیتے آدمی تھے۔ انہیں کے بیٹے ڈپٹی عبد الحامد صاحب ہیں جو سامنے والے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے ہاں میرا قدم رکھنا مشکل تھا۔ ادھر میں نے دروازے میں قدم رکھا، ادھر ان کی لڑکی نے ٹانگ لی۔ جب تک سیر دو سیر مسالا مجھ سے نہ پسوا لیتی، نہ گھر سے نکلنے دیتی، نہ روٹی کا ٹکڑا دیتی۔ خدا جانے کہاں سے محلے بھر کا مسالا اٹھا لاتی تھی۔ پیستے پیستے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے تھے۔ جہاں میں نے ہاتھ روکا، اس نے بٹا انگلیوں پر مارا، بہ خدا جان سی نکل جاتی تھی۔ میں نے مولوی صاحب سے کئی دفعہ شکایت بھی کی مگر انہوں نے ڈال دیا۔ خبر نہیں مجھ سے کیا دشمنی تھی، چلتے چلتے تاکید کر دیا کرتے تھے کہ عبد الخالق صاحب کے مکان میں ضرور جانا۔
✍️: مرزا فرحت اللہ بیگ
𑁔𑁔★ جاری ہے ۔ ۔ ۔ ★𑁔𑁔