╏╠═🕌═[𝍖🕋𝍖 درسِ قرآن 𝍖🕋𝍖] 🌹 🌹 🌹
سورہ النسآء آیت نمبر 127
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ فِی النِّسَآءِ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِیۡہِنَّ ۙ وَ مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ فِیۡ یَتٰمَی النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَاتُؤۡ تُوۡنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَ تَرۡغَبُوۡنَ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الۡوِلۡدَانِ ۙ وَ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلۡیَتٰمٰی بِالۡقِسۡطِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہٖ عَلِیۡمًا ﴿۱۲۷﴾
ترجمہ:
اور (اے پیغمبر) لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں شریعت کا حکم پوچھتے ہیں۔ (٧٤) کہہ دو کہ اللہ تم کو ان کے بارے میں حکم بتاتا ہے، اور اس کتاب (یعنی قرآن) کی جو آیتیں جو تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں وہ بھی ان یتیم عورتوں کے بارے میں (شرعی حکم بتاتی ہیں) جن کو تم ان کا مقرر شدہ حق نہیں دیتے، اور ان سے نکاح کرنا بھی چاہتے ہو (٧٥) نیز کمزور بچوں کے بارے میں بھی (حکم بتاتی ہیں) اور یہ تاکید کرتی ہیں کہ تم یتیموں کی خاطر انصاف قائم کرو۔ اور تم جو بھلائی کا کام کرو گے، اللہ کو اس کا پورا پورا علم ہے۔
تفسیر:
74: تشریح : اسلام سے پہلے عورتوں کو معاشرے میں ایک کمتر مخلوق سمجھا جاتا تھا اور ان کے معاشرتی اور معاشی حقوق نہ ہونے کے برابر تھے، جب اسلام نے عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی اور عورتوں کو بھی میراث میں حصہ دار قرار دیا تو یہ بات عربوں کے معاشرے میں اتنی اچن بھی تھی کہ بعض لوگ یہ سمجھتے رہے کہ عورتوں کو جو حقوق دئے گئے ہیں وہ شاید عارضی نوعیت کے ہیں اور کسی وقت منسوخ ہوجائیں گے، جب ان کی منسوخی کا حکم نہیں آیا تو ایسے حضرات نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ واضح کردیا گیا کہ یہ احکام عارضی نہیں ہمیشہ کے لئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کا حکم دیا ہے اور قرآن کریم کی جو آیات پہلے نازل ہوئی ہیں ان میں بہت سے احکام آچکے ہیں، اس کے ساتھ مرد و عورت کے باہمی تعلقات کے بارے میں کچھ مزید احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں۔ 75: یہ اس ہدایت کی طرف اشارہ ہے جو سورة نساء کی آیت نمبر : ٣ میں گزری ہے، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ (رض) نے اس ہدایت کا پس منظر یہ بتایا ہے کہ بعض اوقات ایک یتیم لڑکی اپنے چچا کے بیٹے کی سرپرستی میں ہوتی تھی، وہ خوبصورت بھی ہوتی اور اس کے باپ کا چھوڑا ہوا مال بھی اچھا خاصا ہوتا تھا، اس صورت میں اس کا چچازاد یہ چاہتا تھا کہ اس کے بالغ ہونے پر وہ خود اس سے نکاح کرلے ؛ تاکہ اس کا مال اسی کے تصرف میں رہے ؛ لیکن نکاح میں وہ اس کو اتنا مہر نہیں دیتا تھا، جتنا اس جیسی لڑکی کو دینا چاہیے، دوسری طرف اگر لڑکی زیادہ خوبصورت نہ ہوتی تو اس کے مال کے لالچ میں اس سے نکاح تو کرلیتا تھا ؛ لیکن نہ صرف یہ کہ اس کا مہر کم رکھتا تھا ؛ بلکہ اس کے ساتھ ایک محبوب بیوی جیسا سلوک بھی نہیں کرتا تھا۔
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی
لائک کریں اور سبسکرائب کریں اور اپنے احباب کو بھی دعوت دیں، بٹن دباکے۔