تیرگی چاند کو انعام وفا دیتی ہے
رات بھر ڈوبتے سورج کو صدا دیتی ہے
میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو
خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے
کوئی سایہ تو ملا دھوپ کے زندانی کو
میری وحشت تری چاہت کو دعا دیتی ہے
کتنی صدیوں کے دریچے میں ہے بس ایک وجود
زندگی سانس کو تلوار بنا دیتی ہے
قفس رنگ میں دن رات وہی پیاس کا درد
آگہی بھی مجھے جینے کی سزا دیتی ہے
شاعر: شمیم حنفی