تقاضا ہو چکی ہے اور تمنا ہو رہا ہے
کہ سیدھا چاہتا ہوں اور الٹا ہو رہا ہے
یہ تصویریں صداؤں میں ڈھلی جاتی ہیں کیوں کر
کہ آنکھیں بند ہیں لیکن تماشا ہو رہا ہے
کہیں ڈھلتی ہے شام اور پھوٹتی ہے روشنی سی
کہیں پو پھٹ رہی ہے اور اندھیرا ہو رہا ہے
پس موج ہوا بارش کا بستر سا بچھانے
سر بام نوا بادل کا ٹکڑا ہو رہا ہے
جسے دروازہ کہتے تھے وہی دیوار نکلی
جسے ہم دل سمجھتے تھے وہ دنیا ہو رہا ہے
قدم رکھے ہیں اس پایاب میں ہم نے تو جب سے
یہ دریا اور گہرا اور گہرا ہو رہا ہے
خرابی ہو رہی ہے تو فقط مجھ میں ہی ساری
مرے چاروں طرف تو خوب اچھا ہو رہا ہے
کہاں تک ہو سکا کار محبت کیا بتائیں
تمہارے سامنے ہے کام جتنا ہو رہا ہے
گزرتے جا رہے تھے ہم ظفرؔ لمحہ بہ لمحہ
سمجھتے تھے کہ اب اپنا گزارہ ہو رہا ہے
شاعر: ظفر اقبال