غزوۂ بدر میں شرکت کے متمنّی جانثارانِ اسلام، عاشقانِ رسولؐ ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ اُن میں انصار بھی ہیں اور مہاجرین بھی۔ بوڑھے ہیں، تو جوان بھی۔ سب کے دِل جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار ہیں۔ سب کفر اور اسلام کے درمیان ہونے والی پہلی جنگ میں حصّہ لینے کے لیے بےقرار اور بے تاب ہیں۔ امام الانبیاءؐ، تاج دارِ مدینہؐ، سرکارِ دو جہاںؐ، حضور رسالت مآب ﷺ محاذ پر جانے والے صحابہؓ کا چنائو فرما رہے ہیں۔ بوڑھوں، بیماروں اور پندرہ سال سے کم عُمر بچّوں کو محاذ پر جانے کی اجازت نہیں۔ ابھی آپؐ کچھ صحابہؓ کو منتخب کر کے آگے بڑھے ہی تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ ایک بچّہ اپنا سَر بلند کیے، گردن اکڑائے، پنجوں کے بَل کھڑا ہو کر خود کو لمبے قد کا ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، لیکن پھر بھی اُس کی تلوار، اُس کے قد سے بلند ہے۔ اللہ کے رسول،ؐ بچّے کی اس ادا پر مُسکرا اٹھے، اُس کے سَر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’بیٹے ،تم ابھی چھوٹے ہو۔‘‘ بچّہ یہ سُن کر عاجزانہ انداز میں گویا ہوا’’ یارسول اللہؐ! مَیں اور میرے ماں، باپ آپؐ پر قربان۔ مجھے اللہ اور اُس کے رسولؐ کے دشمنوں سے جنگ کرنے کا موقع عنایت فرما دیجیے۔‘‘ آپؐ نے بچّے کے جذبۂ جہاد کی تعریف فرماتے ہوئے اُسے پیار سے گھر جانے کی ہدایت کی۔ اداس اور مغموم بچّہ، بادلِ نہ خواستہ قطار سے نکل کر مایوسی کے عالم میں گھر کی طرف چل دیا۔ بچّے کی ماں اُن شمعِ حق کے پروانوں میں اپنے بیٹے کی شمولیت کی آرزو لیے قریب ہی کھڑی ہے۔ بیٹے کو مغموم کیفیت میں قطار سے نکلتا دیکھا، تو خود بھی افسردہ ہو گئی۔ ماں اور بیٹے ناکام اور مایوس گھر واپس لَوٹ گئے۔ صاحب زادے کی عُمر بہ مشکل تیرہ سال ہے، لیکن اسلام کے لیے مر مِٹنے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی بے قابو موجوں کی طرح، دل و دماغ میں مدّ وجزر پیدا کر رہا ہے۔ اب وہ دن، رات اُن راہوں کی تلاش میں ہے کہ جن پر چل کر صحبتِ رسولؐ اور قربتِ مصطفیؐ حاصل ہو جائے۔ جہاں خوش نودیٔ رسولؐ مقصدِ حیات ہو اور محبوبِ خداؐ کا محبوب بن جانامنزلِ مُراد ہو، تو بارگاہِ خداوندی ایسے نوجوانوں کو نئی راہیں دِکھا دیتی ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ایک دن والدہ سے گویا ہوئے’’امّاں حضور! مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اللہ کے کلام کا حافظ، قاری اور عالم بنوں گا۔‘‘ ماں نے اُن کے فیصلے کو پسند کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی اور پھر ماں کی حوصلہ افزائی نے ارادوں کو جِلا بخشی، بس پھر کیا تھا، آتشِ شوق نے جذبوں کو جُنوں میں بدل دیا۔ دن، رات اسی کام میں مصروف ہو گئے، جہاں سے کوئی سورۃ یا آیت ملتی، اُسے یاد کرتے اور بہتر سے بہتر انداز میں اُس کی قرأت کرتے۔ اللہ نے ذہانت و فطانت اور قوّتِ حافظہ خُوب عطا فرمائی تھی، ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ بہت سی آیات اور سورتیں ازبر کر لیں اور خُوب صورت انداز سے قرأت کا فن بھی سیکھ لیا۔
کاتبِ وحی
ایک دن والدہ، نوار بنتِ مالک، اُنہیں لے کر بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہوئیں’’یارسول اللہؐ! یہ زید ہے۔ یہ قرآنِ کریم کی سترہ سورتیں یاد کر چُکا ہے اور اُن کی تلاوت اُسی انداز میں کرتا ہے، جس انداز میں آپؐ پر اُتاری گئی ہیں۔ نیز، اِس کی تحریر بھی بہت عمدہ ہے اور لکھنا پڑھنا بھی جانتا ہے۔‘‘ آنحضرتؐ نے جب اُن سے قرآنِ کریم سُنا، تو یوں لگا کہ لبوں سے پھول برس رہے ہوں اور لفظوں کی صُورت میں خوش نُما، رنگ برنگے پھولوں کی کلیاں فضا کو مشک وعنّبر سے معطّر کر رہی ہوں۔ قرأت کی رُوح پرور آواز نے جیسے سماں باندھ دیا تھا۔ قرآنی الفاظ کا اُتار چڑھائو، عمدہ تجوید اور خُوب صورت انداز نے اہلِ مجلس کو مسحور کر دیا۔ ہونٹوں سے نکلے جملے یوں جھلملا رہے تھے، جیسے آسمان پر ستاروں کی کہکشاں۔ ایک طرف زیدؓ کی قرأت سامعین کی سماعتوں میں رَس گھول رہی تھی، تو دوسری طرف، سرکارِ دو عالمؐ نے اس بچّے کے لیے ایک بڑا فیصلہ کر لیا تھا۔ آپؐ، زید ؓکی کارکردگی سے بہت خوش ہوئے، اُنہیں اپنی مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دی اور اس کے ساتھ ہی اُنہیں’’ کاتبِ وحی‘‘ کے عظیم منصب پر فائز فرما دیا۔
پیدائش اور قبولِ اسلام
حضرت زید بن ثابتؓ ہجرتِ نبویؐ سے 11 سال پہلے مدینہ منورہ (یثرب) میں پیدا ہوئے۔ آپ ؓکے والد، ثابت بن ضحاک ہجرت سے 5 سال پہلے جنگِ بعاث میں مارے گئے تھے، اُس وقت حضرت زیدؓ کی عُمر چھے برس تھی۔ آپؓ کی پرورش والدہ، نوار بنتِ مالک نے کی۔ نبوّت کے بارہویں سال، (621عیسوی) میں رسول اللہﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو اسلام کا پہلا سفیر بنا کر یثرب بھیجا، تو اُن کی کوششوں سے دیگر افراد کے ساتھ، حضرت زیدؓ اور اُن کی والدہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
شجرۂ نسب
آپؓ کا شجرۂ نسب یوں ہے۔ زید بن ثابت بن ضحاک بن زید بن لوزان بن عُمرو بن عبد بن عوف بن غنم بن مالک بن نجار۔ سیرت کی کُتب میں آپؓ کی تین کُنیتیں ابو سعید، ابو خارجہ اور ابو عبدالرحمٰن تحریر ہیں۔
بارگاہِ رسالت ؐ میں مقام
حضرت زیدؓ اپنے قوّتِ حافظہ، علم و دانش، فضل و کمال، فہم و فراست، ذہانت و فطانت، شیریں کلامی اور عشقِ قرآنی کی بہ دولت چھوٹی عُمر ہی میں بارگاہِ رسالت کے مقرّبینِ خاص میں شمار ہونے لگے تھے۔ آنحضرتؐ سے آپؓ کی قربت کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات آپؐ ازراہِ شفقت و محبّت اپنا زانوئے مبارک اُن کی ران پر رکھ دیتے۔ ایسے ہی ایک موقعے پر وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ’’ رسول اللہ ؐ کا زانوئے مبارک اتنا بھاری محسوس ہوا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہیں میری ران ہی نہ ٹوٹ جائے، لیکن وحی کے نزول کے بعد یہ کیفیت ختم ہو گئی۔‘‘
مختلف زبانوں پرعبور
ایک دن سرکارِ دو جہاںؐ، حضور رسالتِ مآب ﷺ نے فرمایا’’ اے زیدؓ! تم میرے لیے عبرانی (یہود کی زبان) سیکھ لو۔‘‘ اللہ کے رسولؐ کے حکم پر تو جان بھی حاضر ہے، خوش ہوتے ہوئے جواب دیا’’ یا رسول اللہؐ! بہت جلد سیکھ لوں گا۔‘‘ ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ایک دن بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہو کر عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ؐ ! مَیں نے عبرانی پر عبور حاصل کر لیا ہے۔‘‘ حضورﷺ نے مسرّت کا اظہار فرماتے ہوئے دعائوں سے نوازا۔ پھر حضورﷺکو جب بھی ضرورت ہوتی، یہودیوں سے عبرانی میں خط و کتابت فرماتے۔ آنحضرت ؐ کے حکم پر آپؓ نے سریانی، فارسی، رومی، قبطی اور حبشی زبانیں بھی سیکھیں اور ایک وقت وہ آیا کہ رسول اللہؐ کے لیے یہ نوجوان، ترجمانِ توریت اور انجیل کے عالم بن گئے۔ کتابتِ وحی کے ساتھ، غیر مُلکی سلاطین اور سربراہان کے ساتھ خط و کتابت کے فرائض بھی حضرت زیدؓ ہی انجام دیتے تھے۔ آپؓ نے عہدِ رسالتؐ ہی میں قرآنِ پاک حفظ کر لیا تھا۔
دانائی اور حکمت پر مبنی فیصلہ
رحمتِ دو جہاںؐ، شہنشاہِ کون و مکاںؐ، حضور رسالتِ مآب ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد خلیفۃ المسلمین کے انتخاب کے معاملے پر مختلف آراء سامنے آ رہی تھیں۔ اسی سلسلے میں سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار مشاورت کے لیے جمع ہوئے۔ سیّدنا فاروقِ اعظمؓ کو اس کی خبر ملی، تو وہ حضرت صدیقِ اکبرؓ کو لے کر وہاں پہنچے تاکہ اس معاملے کو اچھے طریقے سے حل کرلیا جائے۔ یہاں کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ انصار، مہاجرین سے زیادہ ہیں، لہٰذا خلیفہ انصار میں سے ہونا چاہیے۔ ایک صحابی، سعد بن عبادہؓ نے تجویز دی کہ دو امیر مقرّر کر لیے جائیں یعنی انصار کا امیر الگ ہو اور مہاجرین کا الگ۔ حضرت زید بن ثابتؓ خاموشی سے صُورتِ حال کا جائزہ لے رہے تھے۔ مدینے کے انصار میں آپؓ کی رسول اللہﷺ سے قربت اور علمی قابلیت کی بناء پر بڑا احترام تھا۔ سو، کچھ انصار نے آپؓ کی رائے جاننا چاہی۔ آپؓ اٹھے، اللہ کی حمد و ثنا کے بعد بڑے پُرعزم اور پُرجوش انداز میں مجمعے سے مخاطب ہوئے’’ اے مدینے کے لوگو! کیا تم بھول گئے کہ اللہ کے رسولؐ مہاجر تھے اور خلیفۃ الرسولؐ بننے کا حق بھی مہاجرین ہی کا ہے۔ جس طرح ہم رسول اللہؐ کے انصار تھے، اسی طرح ہم مہاجر خلیفہ کے بھی انصار رہیں گے۔‘‘ اس ایمان افروز تقریر کے بعد حضرت زیدؓ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ حضرت زید بن ثابتؓ کا خطاب، انصارِ مدینہ کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام انصار صحابہؓ نے سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔یوں یہ معاملہ انتہائی خُوش اسلوبی سے حل ہوگیا۔
تدوینِ قرآن کا اہم فریضہ
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد، نبوّت کے جھوٹے دعوے دار، مسیلمہ کذّاب کی سرکوبی کے لیے حضرت عکرمہؓ بن ابو جہل کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، لیکن اُنھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کو اس شکست کا علم ہوا، تو آپؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو فوج کا امیر بنا کر روانہ کیا۔ مسیلمہ کذّاب کی سرکوبی کی اس مہم میں حضرت زید بن ثابتؓ بھی شریک تھے۔ حضرت خالدؓ بن ولید کے ساتھ تیرہ ہزار مجاہدین کی فوج تھی اور آپؓ ابھی یمامہ کے مرکزی دروازے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ مسیلمہ نے اپنے قبیلے’’ ربیعہ‘‘ کے چالیس ہزار جنگ جوؤں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ یہ ایک انتہائی خون ریز جنگ تھی، جس میں مجاہدین کے ہاتھوں مسیلمہ کذّاب سمیت سترہ ہزار سے زاید مرتدین مارے گئے، لیکن اس جنگ میں ایک ہزار سے زاید مسلمان بھی شہید ہوئے، جن میں سات سو کے قریب حفّاظ اور قراء شامل تھے۔ حفّاظ اور قراء کا اتنی بڑی تعداد میں شہید ہونا انتہائی اہم معاملہ تھا، چناں چہ سیّدنا فاروقِ اعظمؓ نے خلیفۃ الرسولؐ، حضرت صدیقِ اکبرؓ کو مشورہ دیا کہ قرآنِ کریم کو کتابی صُورت میں جمع کر لیا جائے۔ حضرت صدیقِ اکبرؓ نے یہ اہم اور حسّاس ذمّے داری، حضرت زید بن ثابتؓ کو سونپی۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ’’ شروع میں تو مجھے یہ کام کرنے میں تامل رہا، لیکن پھر اللہ کی رضا سے مَیں نے صحابہ ؓکی ایک جماعت کے ساتھ مل کر قرآنِ کریم کے تمام اجزا، جو مختلف صحابہ کرامؓ اور اُمّ المومنین، حضرت حفصہؓ کے پاس تھے، جمع کیے۔ یہ چمڑے کے ٹکڑوں، جانوروں کی چوڑی ہڈیوں، درختوں کی چھال وغیرہ پر لکھے ہوئے تھے۔‘‘ حضرت زید بن ثابتؓ کو اس عظیم کام میں تقریباً ساٹھ صحابۂ کرامؓ پر مشتمل ٹیم کی معاونت حاصل تھی۔ خلیفۂ سوئم، حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اس نسخے کی پانچ نقلیں بنوا کر مکّہ معظّمہ، مدینہ منورہ، کوفہ، شام اور بصرہ میں رکھوائیں۔ قرآنِ کریم کے ان نسخوں کی نقول تیار کرنے کا کام بھی حضرت زید بن ثابتؓ ہی کی زیرِ نگرانی سرانجام پایا۔
خلفائے راشدین کی نظر میں حضرت زیدؓ کا مقام و مرتبہ
حضرت ابو بکر صدیقؓ جب خلیفہ بنے، تو آپؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو منصبِ کتابت پر فائز رکھا اور اُنھیں اپنی مجلسِ شوریٰ کا رُکن بھی بنایا۔ امیرالمومنین، سیّدنا عُمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں نہ صرف اُنھیں شعبۂ کتابت کے امیر کے منصب پر بحال رکھا، بلکہ مدینہ منورہ کا قاضی بھی مقرّر کیا۔ حضرت عُمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے’’ اہلِ مدینہ زیدؓ کے(علم کے) محتاج ہیں، کیوں کہ جو شئے زیدؓ کے پاس ہے، وہ کسی اور کے پاس نہیں۔‘‘ ایک موقعے پر حضرت فاروقِ اعظمؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا’’ لوگو! کسی کو قرآن اور فرائض کے بارے میں کچھ دریافت کرنا ہو، تو وہ زید بن ثابتؓ سے دریافت کرے۔‘‘ حضرت فاروقِ اعظمؓ کی شہادت کے بعد، حضرت عثمان غنیؓ نے اُنہیں سابقہ عُہدوں پر بحال رکھا، بلکہ 31؍ہجری میں اُنھیں بیت المال کا بھی امیر مقرّر کردیا۔ حضرت عُمرؓ اور حضرت عثمان غنیؓ جب بھی مدینہ منورہ سے باہر جاتے، تو اپنا جانشین انہی کو مقرّر کرتے۔ گو کہ حضرت زیدؓ نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علیؓ کا ساتھ نہیں دیا تھا، لیکن اس کے باوجود، سیّدنا علی المرتضیٰؓ، حضرت زید بن ثابتؓ کے عزّت و احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔
فرمانِ نبوی ؐ
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زیدؓ کی علمی قابلیت کو سراہتے ہوئے فرمایا’’میری امّت میں علمِ فرائض(علمِ میراث) کے جاننے والے زید بن ثابتؓ ہیں۔‘‘
وصال
کاتبِ وحی، عاشقِ رسولؐ، منبعِ علم و فضل، قرآنِ کریم، توریت اور انجیل کے حافظ، کئی زبانوں کے ماہر، ترجمانِ رسولؐ، چاروں خلفائے راشدین کے پیارے، حضرت زید بن ثابتؓ 45ہجری میں 56سال کی عُمر میں اللہ کے محبوب ؐکے شہر، مدینہ منورہ میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپؓ کی وفات کی خبر پر مدینہ منورہ سوگ میں ڈوب گیا۔ مسلمان غم سے نڈھال تھے اور پورا شہر جنازے میں اُمڈ آیا۔ حضرت ابنِ عباسؓ نے تدفین کے بعد غم زدہ لہجے میں فرمایا’’ دیکھو لوگو! علم کو جب جانا ہوتا ہے، تو اس طرح جاتا ہے۔ آج علم کا بہت بڑا ذخیرہ مٹّی تلے دفن ہوگیا۔‘‘حضرت ابوہریرہؓ کو جب انتقال کی خبر ملی، تو اُن کی زبان سے بے اختیار نکلا’’ افسوس کہ آج امّت کا بہت بڑا عالم اپنے ربّ سے جاملا۔‘‘ بارگاہِ رسالتؐ کے شاعر، حضرت حسّان بن ثابتؓ نے اپنے غم کا اظہار اس شعر میں کیا’’ حسّان اور اس کے بیٹے کے بعد ایسے اشعار کون پڑھ سکے گا اور قرآن کا مطلب ومفہوم زیدؓ کے بعد کون بیان کر سکے گا۔‘‘