⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 38👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➑➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 مقوقس اس پر تکیہ کیے ہوئے تھا کہ صوبہ فیوم کے قبطی عیسائی مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور بغاوت کر دیں گے ،مجاہدین اسلام نے صرف اس صوبے پر ہی نہیں بلکہ اس سے ملحقہ دوسرے صوبے کے بھی دو بڑے شہر اپنی عمل داری میں شامل کر لئے تھے۔
یہ علاقے قبطی عیسائیوں کی اکثریت کے علاقے تھے مجاہدین اسلام کی تعداد اس قدر کم تھی کہ عمرو بن عاص نے بہت ہی تھوڑے مجاہدین کو ان مفتوحہ اور اتنے وسیع علاقوں میں چھوڑا تھا، ان مجاہدین کے ذمے ایک کام تو نظم و نسق صحیح رکھنا تھا ،اور امن وامان بھی قائم کرنا تھا، اگر قبطی بغاوت کر دیتے یعنی محصولات وغیرہ کی ادائیگی سے انکار کردیتے تو مجاہدین ان پر قابو نہیں پا سکتے تھے ،پھر کیا وجہ ہوئی کہ ان لوگوں نے بغاوت نہ کی؟،،،،،،،، ان کے اسقف اعظم بنیامین نے تو انہیں کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے سیلاب کو روکنا ہے اور رومی فوج کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
یہاں پر وہی عظیم نام سامنے آتا ہے،،،،،، اللہ،،،،،، یہ اللہ کا کرم تھا لیکن اللہ ایسا معجزہ نما کرم صرف ان پر کیا کرتا ہے جو اپنے دین اپنے ایمان اور اللہ کی راہ میں اپنے عزیز کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں، اور جن کے دلوں میں بنی نوع انسان کی محبت ہوتی ہے۔ یہ قلعے فتح ہوئے تھے ،اور رومی فوج آخری سپاہی تک بھاگ گئی تھی تو شہریوں میں بھگدڑ اور افراتفری کا بپا ہونا ایک قدرتی امر تھا لوگ جانتے تھے کہ فاتحین مفتوحہ لوگوں پر رحم نہیں کیا کرتے، لوٹ مار ہوتی ہے قتل و غارت ہوتی ہے، اور جواں سال عورتوں کو فاتحین اپنی ملکیت سمجھ لیتے ہیں، لیکن مسلمان فاتحین نے وہاں کے لوگوں کوحیران کردیا ،کتنی دلچسپ بات ہے کہ مجاہدین کے ساتھ ان کی مستورات بھی تھیں، ان مستورات نے وہ مہم سر کی جو بڑے بڑے لشکر بھی ذرا مشکل سے سر کیا کرتے ہیں۔
ان مستورات نے مفتوحہ بستیوں میں جا جا کر وہاں کی عورتوں اور ان کے آدمیوں کو یقین دلایا کہ وہ بھاگیں نہیں اور اس طرح گھروں میں بیٹھے رہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجاہدین نے کسی گھر کی طرف دیکھا تک نہیں سوائے اس کے کہ اعلان کرتے پھرے کے کسی شخص کو بلا وجہ پریشان نہیں کیا جائے گا، اور عورتیں اپنے معمول کے مطابق باہر جائیں آئیں اور فاتحین کو اپنے بھائی اور محافظ سمجھیں۔
تاریخ دان ابن الحکم اور تغری نے "النجوم الزاہرہ " میں لکھا ہے کہ مقوقس کی توقعات کے خلاف صوبہ فیوم کے لوگوں نے مسلمانوں کے احکام کی خلاف ورزی کے بجائے انھیں دل و جان سے قبول کرلیا ،اور ان میں ان کے اپنے ہی بزرگوں کی یہ آواز پھیلتی چلی گئی کہ آخر فتح اہل اسلام کی ہی ہونی تھی ،اس فاتح کو قبول کر لو ۔ قبطیوں کی طرف سے یہ آواز بھی سنائی دی کہ ہرقل کی درندگی آج سے ختم ہے اور اب امن و امان کا دور شروع ہو گیا ہے۔
توپھر یہ سب کیا تھا؟،،،،،،، وہ یہ تھا کہ مجاہدین کو لوگوں کے مال و اموال اور سونے چاندی اور انکی حسین لڑکیوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی ،انہوں نے اپنی مستورات کو ساتھ لے کر لوگوں کے دل فتح کرلئے تھے، انہوں نے حقوق العباد کو سامنے رکھا کیونکہ یہ حکم  الٰہی تھا۔
خطرہ ان مصری بدوؤں کی طرف سے تھا جو مجاہدین اسلام کے لشکر میں شامل ہوئے تھے، لیکن انہوں نے بھی کسی شہری کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہ کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مال غنیمت کا پورا پورا حصہ مل جاتا تھا، اور انھیں ذہن نشین کرا دیا گیا تھا کہ مال وہی اچھا جو حلال کا ہو
، یہ بدو پسماندہ ذہن کے لوگ تھے اور توہم پرست بھی، انھیں بات سمجھانے کے لئے بتایا گیا کہ جو شخص لوٹ مار کرتا ہے اور کسی کی لڑکی پر ہاتھ اٹھاتا ہے وہ میدان جنگ میں مارا جاتا ہے، اور اس کی لاش چیل کوّے اور گیدڑ کھاتے ہیں، انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ہرقل جیسا فرعون بادشاہ مصر میں آنے سے کیوں ڈرتا ہے اور اسے کیوں شکست ہو رہی ہے صرف اس لئے کہ وہ نہتّے اور کمزور لوگوں پر ظلم وستم توڑتا تھا،،،،،،،، یہ ایسی دلیل تھی جو بدوؤں کے دلوں میں بیٹھ گئی۔
اب وہاں صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ رومی فوج کے دلوں میں مجاہدین اسلام کی دہشت اتر گئی تھی اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں مجاہدین کی محبت اور ان کا خلوص ایمان گھر کر گیا تھا، وہ تو جیسے مسلمانوں کے پیار اور ان کی شفقت کے اسیر ہوگئے تھے۔ اب سپہ سالار عمرو بن عاص کا ہدف قلعہ بابلیون تھا ،جسے انہوں نے محاصرے میں لے لیا تھا لیکن اس قلعے کو سر کرنا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا، اس لئے نہیں کہ مجاہدین کی تعداد بہت تھوڑی تھی بلکہ قلعہ بلا شک و شبہ نا قابل تسخیر تھا۔
عمرو بن عاص اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ قلعہ سر کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا ، پھر بھی انہوں نے محاصرہ کر لیا جس کی وجہ انھوں نے اپنے سالاروں کو یہ بتائ کہ محاصرہ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر جو فوج ہے اسے پریشانی میں مبتلا رکھا جائے، دوسری وجہ یہ کہ رومی یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان اس قلعے کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں، مطلب یہ کہ عمروبن عاص دشمن کے سر پر سوار رہنا چاہتے تھے۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس قلعے کی مضبوطی کو تھوڑا سا بیان کر دیا جائے، آج بھی قدیم مصر میں گھوم پھر کر دیکھیں تو قلعہ بابلیون کی چند دیواریں اور دو برجیاں کھڑی نظر آتی ہیں، ان کھنڈرات کے اندر چلے جائیں اور دھیان اللہ کی طرف کر لیں اور پھر ان مجاہدین کو تصور میں لائیں جن کے دور میں یہ قلعہ ایک بہت بڑا چیلنج بن کر شان و شوکت سے کھڑا تھا، اور ان مجاہدین نے کفر کے اس چیلنج کو اللہ کا نام لے کر قبول کر لیا تھا۔
اس تصور سے آپ کو سرگوشیاں سے سنائی دیں گی یوں جیسے ان مجاہدین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائیوں کی روحیں سرگوشیوں میں داستان جہاد سنا رہی ہوں۔
روحوں کی سرگوشیاں وہی سن سکتا ہے جس کی اپنی روح بیدار ہو اور اس روح میں اللہ کا وجود رچا بسا ہوا ہو، آج تو وہاں یہ عالم ہے کہ فرعون تو نہیں ہیں لیکن آج کے حکمرانوں میں فرعونیت زندہ وہ بیدار ہے، اللہ کا نام لینے والوں اور جہاد کی باتیں کرنے والوں کو عسکریت پسند مسلمان یا بنیاد پرست کہہ کر قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے، اور بعض کو تو قتل ہی کر دیتے ہیں، ویسے نام کو یہ اسلامی ملک ہے اور اس پر جو حکمران ہیں وہ بھی مسلمان ہیں مگر ان کے دلوں میں اللہ کی نہیں اسرائیل کی خوشنودی غالب ہے۔
بابلیون کا قلعہ جب چودہ صدیاں پہلے اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑا تھا تو اس کی دیواریں اتنی بلند اور برجیاں اتنی مضبوط تھی کہ ان تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا اس کی دیواریں ساٹھ قدم اونچی اور اٹھارہ قدم چوڑی تھیں، یہ دیواریں ایسی ٹھوس تھیں کہ ان میں شگاف ڈالا ہی نہیں جاسکتا تھا ۔
ان دیواروں کے اوپر جو برجیاں تھی وہ مضبوطی کے علاوہ بلند بھی تھی ان کے ساتھ زینے لگے ہوئے تھے اور ان کے اوپر چڑھ کر دیکھو تو دور دور تک علاقہ نظر آتا تھا دریائے نیل کا نظارہ تو دیکھنے والوں کو مسحور کردیتا تھا۔
قلعے کے ایک پہلو سے نیل گزرتا تھا ۔ جیسے اس طرف کی دیوار دریا میں کھڑی ہو، صدر دروازہ دریا کی طرف کھلتا تھا اور یہ دروازہ لوہے کا بنا ہوا تھا یا اس پر لوہے کی چادریں ڈالی گئی تھیں، اس طرف کشتیوں کا ایک بیڑا ہر وقت تیار رہتا تھا، وہاں سے بالکل سامنے نیل بہت چوڑا ہو کر دور دور تک پھیل جاتا تھا، پھیلاؤ کی وجہ سے دریا کے عین وسط میں ایک وسیع خطہ خشکی کا رہ گیا تھا ،جہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اس قلعے کا نام روضہ تھا ،اس قلعے میں فوج ہر وقت موجود اور تیار رہتی تھی، بوقت ضرورت یہ فوج کشتیوں میں بیٹھ کر فورا بابلیون میں پہنچ جاتی تھی اور محاصرہ کرنے والے اس کمک کو روک بھی نہیں سکتے تھے، اور آخر ناکام رہتے تھے۔
قلعہ بابلیون میں اتنے زیادہ کنوئیں موجود تھے کہ پانی کی قلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، دیوار کے باہر سے کھیت اور پھلوں کے باغات شروع ہو جاتے تھے جو قلعے کے ارد گرد تھے ان کی وجہ سے قلعے میں خوراک کی بھی قلت پیدا نہیں ہوتی تھی۔ قلعے کو اور زیادہ مستحکم اور ناقابل تسخیر بنانے کے لئے کھیتوں اور باغات کے ارد گرد ایک بڑی چوڑی اور گہری خندق کھودی ہوئی تھی، جس میں دریا کا پانی آتا رہتا تھا ، دریا کی طرف والے دروازے کے علاوہ ایک اور بڑا دروازہ تھا ،وہاں رسوں اور زنجیروں کی مدد سے ایسا انتظام کیا گیا تھا کہ اپنی فوجوں کو خندق سے گزارنے کے لئے ایک پل تھا جسے بوقت ضرورت خندق پر ڈال دیا جاتا تھا گزرنے کے بعد یہ پل اٹھا دیا جاتا اور دشمن کے لیے خندق عبور کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔
بابلیون کے اندر اپنے جو جاسوس گئے ہوئے تھے وہ محاصرے سے پہلے نکل آئے تھے انہوں نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا تھا کی قلعے کے اندر بہت ہی زیادہ فوج موجود ہے اور دریا کے جزیرے والے قلعے میں بھی فوج کی کمی نہیں یہ ساری فوج میدان جنگ سے اس حالت میں بھاگی تھی کہ اس پر خوفزدگی طاری تھی لیکن فوج اتنی زیادہ تھی کہ ہجوم کی صورت میں، اور قلعے کی دیواروں کی پناہ میں دفاعی جنگ لڑ سکتی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین اسلام نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا۔
چند دنوں بعد مقوقس کو اطلاع دی گئی کہ جہاز کے کپتان کو پکڑ کر لے آئے ہیں ،مقوقس نے اسی وقت کپتان کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔
زندہ رہنے کا ارادہ ہے تو سچ بول دو۔۔۔ مقوقس نے کپتان سے کہا۔۔۔ تم ایک لڑکی اور دو آدمیوں کو اسکندریہ سے بزنطیہ لے گئے تھے اور انھیں ہرقل کے سامنے پیش کیا تھا ،ان آدمیوں کو تم نے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کیوں ڈالی تھیں۔
کپتان گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر دیکھنے لگا اور یوں پتہ چلتا تھا جیسے اس کی زبان گنگ ہو گئی ہو، اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا، جو اس کے لئے جرم کا ثبوت تھا۔
میں تمہیں قتل نہیں کرواؤں گا ۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ تمہارے اتنے بڑے جہاز کو آگ لگوا دوں گا اور تمہارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر کھلا چھوڑ دوں گا اور پھر بھیک مانگتے پھرنا۔
کپتان جان گیا کہ ساری بات کھل گئی ہے اسے یہ احساس بھی تھا کہ وہ کسی معمولی سے حاکم کے سامنے نہیں بلکہ اس ملک کے فرمانروا کے سامنے کھڑا ہے جو اسے کھڑے کھڑے قتل کروا سکتا ہے، وہ مقوقس کے پاؤں پر گر پڑا اور ماتھا رگڑنے لگا اس نے ساری بات سنا ڈالی اور کہا کہ یہ اس نے ایک تو انعام کے لالچ سے کیا اور دوسری وجہ یہ کہ وہ ہرقل کے مداحوں میں سے تھا۔
مقوقس صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ ہرقل کو پتہ چل چکا ہے یا نہیں کہ اس نے ہرقل کے قتل کا انتظام کیا تھا، یہ اسے اس کپتان سے پتہ چلا ۔
مقوقس اور جرنیل تھیوڈور جو اس وقت اس کے پاس بیٹھے تھے حیران ہونے لگے کہ ہرقل نے اس کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں کی، کپتان کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہرقل نے اس کی غیر حاضری میں کیا سوچا اور کیا کہا تھا۔
کپتان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے مقوقس نے اسے باہر بھیج دیا اور تھیوڈور کے ساتھ صلح مشورہ کرنے لگا اس نے کہا کہ اس شخص نے سچ بولا ہے اس لئے اس کی جان بخشی کردی جائے۔
نہیں،،،،،، تھیوڈور نے کہا۔۔۔۔ اسے آزاد کردیا تو یہ سب سے پہلا کام یہ کرے گا کہ بزنطیہ جا کر ہرقل کو بتائے گا کہ ہم نے اس سے اندر کی بات معلوم کر لی ہے ،اس کے بعد ہرقل ہمارے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا،،،،،،،،،،، اس کپتان کا زندہ رہنا ہمارے لئے ٹھیک نہیں۔
مقوقس نے حکم دے دیا کہ اس کپتان کو جلاد کے حوالے کردیاجائے باہر سے کپتان کی آہ و بکا سنائی دینے لگی جو دور ہی دور ہٹتی گئی اور جلاد کے ہاں جا کر بالکل خاموش ہو گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محاصرے کے دوران ایک جاسوس مجاہد جو ابھی قلعہ بابلیون کے اندر ہی تھا باہر نکل آیا یہ اس کا ایک کارنامہ تھا جو اس نے کر دکھایا تھا ،وہ بابلیون میں کسی مخصوص بھیس میں تھا وہاں سے وہ کشتی میں دریا کے پار قلعہ روضہ تک چلا گیا ،وہ شہر کے چند آدمیوں کے ساتھ گیا تھا غالبا سرکاری طور پر قلعہ روضہ کے جزیرے میں کوئی کام تھا جس کے لیے اس مجاہد نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔
رات کے وقت یہ مجاہد چوری چھپے وہاں سے نکلا اور دریا میں اتر گیا ان دنوں دریا میں طغیانی کے آثار پائے جاتے تھے ویسے بھی وہاں سے دریا خاصہ چوڑا تھا جسے تیر کر پار کرنا کسی کسی کا ہی کام ہو سکتا تھا ،اس جاسوس نے دریا پار کر لیا اور پھر کنارے کنارے پر چلتا وہاں تک چلا گیا جہاں لشکر مجاہدین کا محاصرہ تھا ،اس لشکر میں پہنچ کر وہ گر پڑا تھا اور کچھ دیر بعد اس کے ہوش و حواس ٹھکانے آئے تھے۔
اس نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ خبر دی کہ قلعے کے اندر کتنی زیادہ فوج ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ مقوقس نے اس ساری فوج کو اکٹھا کرکے خطاب کیا ہے۔
مقوقس نے اپنے اس خطاب میں اپنی فوج سے کہا تھا کہ دریا میں طغیانی شروع ہو چکی ہے اور ایک یا ڈیڑھ مہینے تک دریا میں اتنی طغیانی آجائے گی کہ اس میں کوئی اترنے کی جرات نہیں کرے گا ۔اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ دریا کی طرف سے قلعہ بالکل محفوظ ہوجائے گا، باقی اطراف خندق پانی سے اتنی بھری رہے گی کہ عرب کے یہ مسلمان اسے پار نہیں کر سکیں گے۔
مقوقس نے یہ بھی کہا کہ طغیانی مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہے گی اور پھر اترنے لگے گی ایک مہینے تک دریا کا بہاؤ معمول پر آجائے گا اور پھر اسکندریہ سے کمک آ جائے گی۔
نیل اسکندریہ کی طرف بہتا تھا وہاں سے کمک دریائی راستے سے ہی آسانی سے اور کم وقت میں آ سکتی تھی لیکن طغیانی کی صورت میں کشتیاں الٹے رخ چلانا بہت ہی مشکل اور دقت طلب تھا۔ مقوقس نے کہا کہ اتنا عرصہ گزر جانے تک مسلمانوں کا حوصلہ پست ہو چکا ہوگا اور انہیں آسانی سے پسپا کیا جا سکے گا۔
جاسوس مجاہد نے یہ بھی بتایا کہ مقوقس نے اپنی فوج کو انعام کا لالچ بھی دیا ہے، یہ تنخواہ دار فوج تھی مقوقس نے فوجیوں سے وعدہ کیا کہ مسلمانوں کو پسپا کردیا گیا تو ہر فوجی کو تین مہینوں کی دگنی تنخواہ دی جائے گی، اور جو فوجی زیادہ بہادری دکھائیں گے انہیں انعام واکرام سے مالا مال کر دیا جائے گا۔
جاسوس نے اپنی رائے یہ دی کہ رومی فوج کی تعداد تو بہت زیادہ ہے لیکن اس فوج کا حوصلہ اتنا مضبوط نظر نہیں آتا جتنا ہونا چاہیے، اس نے مزید یہ بتایا کہ جو فوجی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے اور بھاگ گئے تھے وہ تو مسلمانوں کا نام سنتے ہی چپ ہو جاتے ہیں، رومی فوجیوں کی یہ کیفیت تاریخ میں بھی صاف الفاظ میں آئی ہے وہ اپنی بزدلی اور کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لئے مجاہدین اسلام کے متعلق بڑی دہشت ناک باتیں سناتے تھے، ان میں سے بعض کی باتوں سے یوں ظاہر ہوتا تھا جیسے عرب کے یہ مسلمان جنات یا بھوت پریت ہوں۔
جاسوس مجاہد کی اس خبر کا جہاں تک تعلق تھا کہ نیل میں طغیانی آ رہی ہے سپہ سالار عمرو بن عاص کے لیے کوئی نئی خبر نہیں تھی، پھر بھی کچھ باتیں انہیں معلوم ہو گئیں۔ عمرو بن عاص جانتے تھے کہ طغیانی کا موسم شروع ہوگیا ہے اور دریا چڑھنے لگا ہے۔ مقوقس نے کہا تھا کہ اتنے مہینوں کے انتظار سے مسلمان مایوس ہو جائیں گے لیکن عمرو بن عاص نے اپنے زاویہ نگاہ سے بات کی انہوں نے محاصرے میں گھوم پھر کر جگہ جگہ مجاہدین سے خطاب کیا۔
انہوں نے مجاہدین کو دریائے نیل اور اس کی طغیانی کے متعلق وہی بات بتائی جو جاسوس نے مقوقس کی زبانی سنائی تھی ۔
عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ کہ اتنا عرصہ قلعے والوں کو کہیں سے بھی مدد نہیں ملےگی اس دوران اس قلعے کے اندر کی فوج کو پریشان کئے رکھیں گے اس کے بعد قلعے پر باقاعدہ یلغار کی جائے گی۔
دین اسلام کے علمبردارو !،،،،،عمرو بن عاص نے اس موقع پر یہ تاریخی الفاظ کہے یہ خندق اس سےزیادہ چوڑی اور زیادہ گہری ہوتی تو بھی تمہارا راستہ نہیں روک سکتی تھی، رومی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا یہ قلعہ اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی سر نہیں کرسکتا۔ اسلام کے شیدائیوں!،،،،،، دنیا کا کوئی قلعہ تمہارے ایمان اور جذبہ جہاد سے زیادہ مضبوط نہیں۔
اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھو کہ کوشش تم کرو گے میں اس کا ثمر دوں گا میری راہ میں حرکت تم کرو برکت میں دوں گا۔
قلعہ بابلیون میں تھیوڈور کے علاوہ ایک مشہور جرنیل اور بھی تھا جس کا نام عربی مؤرخین نے اعیرج لکھا ہے، لیکن بٹلر نے کہا ہے کہ یہ نام دراصل جارج ہے، اور بگڑ کر اعیرج بنا ہے،،،،،، نیل چڑھتا جا رہا تھا قلعے کے اردگرد والی خندق پانی سے لبریز کر دی گئی تھی ،قلعے کی دیواروں سے مجاہدین پر منجیقوں سے پھینکے ہوئے پتھر آنے لگے۔
اس سنگ باری کے جواب میں مجاہدین نے بھی منجیقوں و سے قلعے پر پتھر پھینکنے شروع کر دیئے مجاہدین نے تیر دور تک پہنچانے کے لیے بڑی کمانیں بھی تیار کر لی تھیں۔
ان کمانوں کے تیرانداز خندق کے کنارے تک چلے گئے اور وہاں سے دیواروں کے اوپر رومیوں پر تیر پھینکنے لگے۔
نیل میں طغیانی بڑھتی گئی اور ادھر ایک دوسرے پر تیر اور پتھر پھینکے جاتے رہے شب و روز گزرتے چلے جا رہے تھے۔
قلعے کی دیواروں سے آنے والے پتھر تو مجاہدین کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے لیکن مجاہدین کی منجیقوں سے نکلے ہوئے پتھر شہر کے اندر گرتے تھے، انہوں نے شہر میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا ہر گھر پر یہ خوف طاری تھا کہ ابھی پتھر ان کی چھت پر گرے گا اور چھت گر پڑے گی۔ رومی فوج کا حوصلہ پہلے ہی متزلزل تھا پتھراؤ سے حوصلہ اور زیادہ کمزور ہونے لگا۔
ڈیڑھ پونے دو مہینے گزر گئے اور نیل میں طغیانی کے آثار ختم ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ماہ اکتوبر 6400 عیسوی کے پہلے ہفتے کی بات ہے کہ مقوقس نے اپنی فوج اور بابلیون کے شہریوں کے حوصلے اور جذبے کا جائزہ لیا تو اسے کچھ ایسا شک ہونے لگا کہ مسلمانوں نے اگر اپنے مخصوص انداز سے قلعے پر ہلّہ بول دیا تو عین ممکن ہے کہ یہ فوج مقابلے میں ٹھہر نہ سکے اور شہر کے لوگوں میں ایسی افراتفری اور نفسانفسی پیدا ہو جائے، جو اپنی فوج کے لیے رکاوٹ بن جائے، اس کے علاوہ مقوقس کی شروع ہی سے یہ خواہش اور کوشش تھی کہ عرب کے ان مسلمانوں کو کسی طرح قائل کیا جائے کہ وہ کچھ لے لیں اور مصر سے واپس چلے جائیں اب ایک بار پھر اس کے دماغ میں یہی بات آگئی۔
مقوقس نے ایک خفیہ اجلاس بلایا جس میں جرنیل تھیوڈور اور جرنیل جارج شامل تھے اور اس کے علاوہ مقوقس کے صرف دو مشیر شامل کیے گئے۔
میری بات تحمل سے سنو اور مجھے مشورہ دو ۔۔۔۔مقوقس نے کہا ۔۔۔اپنی فوج کو بھی تم نے دیکھ لیا ہے اور شہر کے لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو ہم کمک کی امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن یہ سوچو کہ ہمارے پاس فوج کی کمی نہیں ، کمک صرف اس صورت میں ہمارے کام آسکتی ہے کہ یہ کمک مسلمانوں پر عقب سے حملہ کرے، جو ممکن نہیں نیل کے دونوں کناروں پر مسلمانوں کا قبضہ ہے،،،،،،
عرب کے یہ مسلمان جب خندق عبور کرنے پر آگئے تو عبور کر ہی لیں گے کیا تم ابھی ان کے جذبے اور ہمت و استقلال سے واقف نہیں ہوئے؟
یہ بھی دیکھ لو کہ یہ مسلمان کتنی جلدی مصر کے اندر کتنی دور تک پہنچ گئے ہیں میں بغیر لڑے محاصرہ اٹھانا چاہتا ہوں کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم ایک بار پھر ان عربوں سے صلح سمجھوتہ کی بات کریں اور کہیں کہ جو کچھ مانگتے ہو لے لو اور مصر سے نکل جاؤ۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مقوقس نے اپنے دلائل ایسے پر اثر انداز سے دیئے کہ اجلاس کے چاروں شرکاء نے اس کی تائید کی اور کہا کہ اس تجویز پر عمل درآمد فوراً ہو جائے تو اچھا ہے۔
میں صرف ایک مشورہ دوں گا۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔یہ اجلاس اور یہ ساری کاروائی سختی سے خفیہ رکھی جائے ،فوج کو تو اس کا علم ہی نہیں ہونا چاہیے ورنہ فوج صلح سمجھوتے کی آس لگا کر ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھے گی۔
جرنیل جارج نے یہ مشورہ دیا کہ مقوقس خود اس کارروائی کی قیادت کرے اور ذاتی طور پر اس کوشش میں شامل ہو،،،،،، مقوقس نے یہ مشورہ قبول کر لیا۔
اس اجلاس کو خفیہ تو رکھا گیا لیکن تاریخ سے خفیہ نہ رکھا جا سکا بہت سے مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے ان کے حوالے سے بات کی تاریخ دانوں نے یہ واقعہ پوری تفصیل سے لکھا ہے،،،،،، اسی اجلاس میں ایک مراسلہ بنام سپہ سالار عمرو بن عاص لکھا گیا جو مقوقس کی طرف سے تھا۔
اگلی رات کی تاریکی میں مقوقس ان دونوں جرنیلوں اور دونوں مشیروں کو ساتھ لے کر قلعے سے نکلا کشتی میں بیٹھا اور نیل کے وسط میں جزیرے تک پہنچ گیا جہاں قلعہ روضہ تھا ۔ اس قلعے میں ایک بڑا گرجا تھا جس کا پادری بھی موجود تھا آدھی رات کے وقت پادری کو جگایا گیا ظاہر ہے پادری بہت گھبرایا ہو گا کہ اس وقت فرمانروائے مصر اپنے جرنیلوں کے ساتھ کیوں آیا ہے؟
مقوقس نے پادری کو یہ مراسلہ دیا اور کہا کہ وہ صبح کشتی میں بیٹھے اور مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس چلا جائے اور اپنے ساتھ اپنے اعتماد کے تین چار آدمی لے جائے لیکن یہ ساری کارروائی خفیہ رکھنی ہے یعنی کسی کو پتہ نہ چلے کہ مقوقس نے مسلمانوں کے سپہ سالار کو پیغام بھیجا ہے۔
تاریخ میں مقوقس کے اس مراسلے کے الفاظ آتے ہیں لیکن اس میں درخواست نہیں بلکہ دھمکی کا تاثر ہے ۔
مراسلہ یوں تھا۔
تم ہمارے ملک میں یوں آ گھسے ہو جیسے یہ تمہارا ملک ہو یا جیسے اس ملک کا کا کوئی حکمران ہی نہ ہو، اور یہاں کے لوگ بھیڑ بکریاں ہو، تم نے ہم پر جنگ ٹھونسی ہے اور دونوں طرف جو خون خرابہ ہوا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو ،اور یہ بہت بڑا جرم ہے ،ہمارے ملک میں تمہارا قیام طویل ہو گیا ہے جو ہماری برداشت سے باہر ہے، ہماری فوج کے مقابلے میں تم مٹھی بھر بھی نہیں ہو، میں خود چاہتا تھا کہ تم نیل تک پہنچ جاؤ اب میں تمہیں موقع دیتا ہوں کہ یہیں سے واپس چلے جاؤ ورنہ تمہارا ایک بھی آدمی زندہ واپس نہیں جا سکے گا،،،،،،،،
تم سمجھتے ہو کہ فتح پر فتح حاصل کرتے آ رہے ہو لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ ان فتوحات نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے، اور تم یہ سمجھنے کے قابل بھی نہیں رہے کہ اس وقت تم کہاں اور کس صورت حال میں بیٹھے ہو، دریائے نیل نے تمہیں گھیرے میں لے رکھا ہے، سمجھ جاؤ کے نیل بھی تمہارا دشمن ہے، پیشتر اس کے کہ تمہارا یہ چھوٹا سا لشکر میری اتنی بڑی فوج کے قدموں تلے روندا جائے میں تمہیں ایک موقع دیتا ہوں اپنا کوئی ایلچی یا وفد میرے پاس بھیجو ، جو میرے ساتھ صلح سمجھوتہ کی بات کر سکے ہو سکتا ہے کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ یہ خون خرابہ ختم ہوجائے، اور تم تباہی سے بچ جاؤ میں اب بھی کہتا ہوں کہ تم واپس چلے جاؤ اور جتنا معاوضہ مانگو گے میں دونگا تمہارے ایلچی یا وفد کا انتظار کروں گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مقوقس کو توقع تھی کہ اس کا بھیجا ہوا پادریوں کا وفد شام سے پہلے پہلے جواب لے کر واپس آجائے گا ،وہ کسی لمبے سفر پر نہیں گئے تھے دریا کی چوڑائی جتنا فاصلہ تھا، وفد کو دوسرے کنارے تک جانا تھا لیکن وفد اس رات واپس نہ آیا اگلا دن اگلی رات اور اس سے اگلا دن بھی گزر گیا تب مقوقس نے کہا کہ مسلمانوں نے وفد کو قید کر لیا ہے یا قتل کردیا ہے۔
دو دنوں بعد وفد واپس آ گیا ،مقوقس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ دو دن وہاں کیا کرتے رہے ہیں؟
انہوں نے ہمیں پورے احترام سے روکے رکھا تھا ۔۔۔۔بڑے پادری نے کہا ۔۔۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے ہمیں صرف اس لئے روکا تھا کہ ہم اپنی آنکھوں مسلمانوں کا حوصلہ اور عزم کی پختگی دیکھ لیں، ہم اپنی دلچسپی کی خاطر لشکر کو دیکھتے رہے کہ ان کا رہن سہن اور دیگر عادات و حرکات کیسی ہیں ہم سب نے مسلمانوں کو اتنے قریب سے پہلی بار دیکھا ہے۔
مقوقس نے مزید بات سننے سے پہلے کہا کہ اسے بتایا جائے کہ سپہ سالار نے کیا جواب دیا ہے۔۔۔۔ بڑے پادری نے سپہ سالار عمروبن عاص کا تحریری پیغام مقوقس کے ہاتھ میں دے دیا۔
عمرو بن عاص نے لکھا تھا میں پہلے بھی ایک بار فرمانروائے مصر کو بتا چکا ہوں کہ ہم ان شرائط پر صلح کی پیشکش قبول کر سکتے ہیں چونکہ یہ شرائط میری نہیں بلکہ میرے دین اسلام کی ہیں، اس لیے میں ان میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں کرسکتا ایک بار پھر بتا دیتا ہوں کہ صرف تین صورتیں ہیں کوئی سی بھی قبول کر لو صلح سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ اسلام قبول کر لو پھر تم ہمارے بھائی ہو گے۔ تمہارے اور ہمارے حقوق یکساں ہوجائیں گے۔ اگر یہ قبول نہیں تو دوسری صورت یہ ہے کہ ہماری اطاعت قبول کرو اور ہمارا مقرر کیا ہوا جزیہ ادا کرو ، تیسری صورت یہ کہ ہم جنگ بندی نہیں کریں گے بلکہ لڑیں گے اور ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ اللہ کرے گا سب سے اچھا فیصلہ کرنے ولا اللہ ہی ہے جس کا پیغام ہم تمہارے لئے لائے ہیں۔
مقوقس نے عمرو بن عاص کا یہ جواب سب کی موجودگی میں پڑھ کر سنایا اس کے چہرے پر مایوسی اور حیرت کا ملا جلا تاثر آگیا۔
کیا تم سب سمجھے نہیں۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ یہ اس شخص کا جواب ہے جو صلح پر بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتا ،ذرا دیکھو اس شخص نے کس لہجے میں خط لکھا ہے یہ ایک ایسے فاتح کا خط ہے جو ہم پر اپنا حکم چلا رہا ہے، عربوں کی اس قوم کا غرور دیکھو دولت اور زرو جواہرات کی پیشکش کو یہ لوگ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔
مقوقس نے وفد کے ارکان کی طرف دیکھا اور کچھ دیر بعد پوچھا کہ وہ دو دن مسلمانوں میں رہے ہیں انہوں نے مسلمانوں کو کیسا پایا ہے؟،،،، کیا وہ ایسی ہی رعونت سے باتیں کرتے ہیں؟
نہیں فرمانروائے مصر!،،،،، وفد کے سربراہ بڑے پادری نے کہا ۔۔۔میں نے مسلمانوں کو ایک اجتماع کی صورت میں پہلی بار دیکھا ہے، میں کہتا ہوں کہ میں نے ایک ایسی قوم کو دیکھا ہے جو زندگی سے زیادہ موت کو ،اور غرور سے زیادہ عجزوانکساری کو عزیز رکھتی ہے، ان کی حرکات ،عادات ،اور گفتار میں رعونت کا نام و نشان نہیں ملتا۔
ان میں شاید کوئی ایک بھی ایسا نہ ہو جسے اس دنیا سے اور زمین سے دلچسپی ہو، وہ اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور بیٹھتے زمین پر ہیں، ان میں حاکم، ماتحت، سالار ،اور سپاہی ،میں کوئی تمیز نہیں ہوتی ایک جیسا کھاتے ہیں اور پھر مل کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں،،،،،
میں نے پہلی بار مسلمانوں کو اجتماعی طور پر عبادت کرتے دیکھا ہے اسے وہ نماز کہتے ہیں۔
سپہ سالار امامت کرتا ہے اور باقی سب اس کے پیچھے صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے پہلے سب وضو کرتے ہیں اور اپنے آپ کو پاک کر کے نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، پھر جس طرح امام کرتا ہے باقی سب اسی طرح کرتے ہیں رکوع میں اکٹھے جاتے ہیں، سجدے میں اکٹھے جاتے ہیں ،اور اکٹھے اٹھتے ہیں، میں ان کے اس نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا ہوں، سالار سپاہیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ سالار سب سے آگے والی صف میں کھڑے ہوں۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو آج تک تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔
مقوقس تو پہلے ہی مسلمانوں سے کسی حد تک متاثر تھا اس نے جب بڑے پادری کی زبان سے مسلمانوں کی یہ اوصاف سنیں تو وہ گہری سوچ میں کھو گیا کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور سب کی طرف باری باری دیکھا ۔
وہ آخر مصر کا بادشاہ تھا سب پر سناٹا طاری ہوگیا تھا
۔کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ مقوقس کیا حکم صادر کرے گا اس نے جب بات کی تو سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
قسم ہے اس خدا کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔۔۔ مقوقس نے بے اختیار کہا۔۔۔ یہ مسلمان کسی پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلانے کا عزم کرلیں تو ہلاسکتے ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ ان کا مقابلہ جنگ میں کوئی نہیں کرسکتا ۔ان میں وہ اوصاف ہیں جو ہم میں نہیں اس حقیقت پر غور کرو میرے بھائیوں ان سے صلح سمجھوتا کرنے کا یہی وقت ہے جب وہ نیل کے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں، چند دنوں تک وہ اس خطرے سے نکل جائیں گے پھر ان سے صلح ناممکن ہوجائے گی وہ صلح پر آمادہ ہی نہیں ہونگے۔
سب نے دیکھ لیا کہ مقوقس صلح پر ہی بات کرتا ہے۔ وہ آخر فرمانروائے مصر تھا اگر وہ کوئی ارادہ ظاہر کر رہا تھا تو حاضرین میں کوئی جرات نہیں کرسکتا تھا کہ اس کے خلاف بولے ۔ مقوقس نے ان سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے اب تو اس نے بات ہی صاف کردی کہ وہ صلح کی ایک آخری کوشش کرنا چاہتا ہے۔
ابھی گنجائش ہے ۔۔۔حاضرین میں سے کسی نے کہا ۔۔۔آپ نے مسلمانوں کے سپہ سالار کو لکھا تھا کہ اپنے کچھ آدمی بات چیت کے لئے بھیجے لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ سپہ سالار کو ایک اور پیغام بھیجا جائے کہ وہ اپنے نمائندے بات چیت کے لیے بھیجے؟
سب نے اس مشورے کی تائید کی اور مقوقس نے اسی وقت سپہ سالار عمرو بن عاص کے نام پیغام لکھوایا کہ آپ نے اپنے نمائندوں کا وفد نہیں بھیجا نہ کوئی جواب دیا ہے، آخری فیصلے پر پہنچنے کے لئے آپ اپنا وفد فوراً بھیجیں، میں بے تابی سے منتظر رہوں گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مقوقس کا یہ پیغام ایک عام سے قسم کے ایلچی کے ہاتھ عمرو بن عاص تک پہنچا ،انہوں نے ایلچی کو جواب کے انتظار میں باہر بٹھا دیا اور اپنے سالاروں کو بلایا انہیں مقوقس کا پیغام پڑھ کر سنایا۔
پہلے اس پر غور کرو کہ یہ شخص صلح ہی کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔میرا ایک خیال تو یہ ہے کہ مقوقس نے دیکھ لیا ہے کہ اس کی فوج حوصلے اور جذبے کے لحاظ سے لڑنے کے قابل نہیں رہی، دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ صلح کی گفتگو کا دھوکہ دے کر وقت حاصل کر رہا ہے اور وقت حاصل کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس دوران اسے کمک پہنچ جائے گی ، مجھے مشورہ دو کہ میں اپنا وفد اس کے پاس بھیجوں یا صاف انکار کر دوں ؟،،،میں کوئی ایک بھی شرط نرم نہیں کرسکتا یہ میرے بس سے باہر ہے۔
وقت اور مہلت ہمیں بھی درکار ہے۔۔۔ ایک سالار نے کہا۔۔۔ نیل کی طغیانی تو اتر گئی ہے لیکن پانی جو دریا سے باہر آ گیا تھا یہ ابھی واپس نہیں گیا اور ہم پانی کے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں، ہمیں اس پانی کے واپس جانے یا خشک ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا، ورنہ لڑائی کی صورت میں ہم اس زمین پر نہیں لڑ سکیں گے۔
اس پر غور کریں سپہ سالار !،،،،ایک اور سالار نے کہا ۔۔۔یہ بھی تو اللہ کا حکم ہے کہ دشمن صلح کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اسے پورا موقع دو، اور صلح قبول کرو بشرطیکہ تمہارا دشمن تمہاری شرائط قبول کرتا ہے۔
باہمی صلاح و مشورے کے بعد عمرو بن عاص نے دس افراد کا ایک وفد مقوقس کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے منتخب کیا اس کی قیادت ایک صحابی عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کی، جو زبیر بن العوام کی قیادت میں آئے ہوئے کمک کے ایک حصے کے سالار تھے، ان کا رنگ سیاہ تھا جسم گھٹا ہوا لیکن اوپر بڑھنے کی بجائے چوڑائی میں تھا، اور قد دراز نہیں تھا۔
عمرو بن عاص نے مقوقس کے پیغام کا جواب دے کر اس کے ایلچی کو رخصت کر دیا۔
جواب یہ تھا کہ ان کا ایک وفد آ رہا ہے ۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے اس وفد کے تمام ارکان کو بلایا اور عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دی کہ وہ کیا گفتگو کریں، اور پھر انہیں وہی تین شرطیں بتائیں جو پہلے مقوقس کو پیش کر چکے تھے۔
سپہ سالار نے عبادہ بن صامت کو بڑا سخت حکم دیا کہ ان شرائط میں ذرا سی بھی نرمی نہیں کرنی۔
اگلے روز یہ وفد مقوقس کے پاس پہنچ گیا مقوقس کے اپنے مشیر اور جرنیل اس کے ساتھ تھے ، بات عبادہ بن صامت نے شروع کی لیکن مقوقس نے انہیں حقارت سے دیکھا اور یہ تاثر دیا جیسے وہ خفا ہو۔
‏اس سیاہ کالے آدمی کو میرے سامنے کیوں لایا گیا ہے۔۔۔ مقوقس نے حقارت آمیز لہجے میں کہا ۔۔۔ہٹاؤ اسے میرے آگے سے اور کوئی اور آدمی بات کرے۔
عبادہ بن صامت کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی، وفد کے ایک آدمی نے کہا کہ انھیں سپہ سالار نے وفد کا قائد بنا کر بھیجا ہے لہذا یہی بات کریں گے اور ہم سب کو ان پر پورا پورا اعتماد ہے۔
مقوقس نے ابھی اس بات پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا کہ وفد کے تمام ارکان بیک وقت بولنے لگے، وہ کہہ رہے تھے کہ عبادہ بن صامت ان کے قائد ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی اور نہیں بولے گا، مقوقس نے جب پورے کے پورے وفد کا یہ ردعمل دیکھا تو اس نے ہونٹ سی لیے۔
مقوقس کا اپنا ہم مذہب تاریخ دان بٹلر لکھتا ہے کہ مقوقس اس قسم کی اوچھی بات کرنے والا آدمی نہیں تھا، لیکن اس نے بڑی ہی اوچھی بات کہہ دی جس کا مطلب یہ ہو سکتا تھا کہ وہ مسلمان کے اس نمائندہ وفد میں اختلاف پیدا کرنا چاہتا تھا، شاید یہ بھی دیکھنا چاہتا ہو کہ مسلمانوں میں نظم و نسق کس حد تک ہے اور یہ لوگ اپنے سپہ سالار کے حکم کے سوفیصد پابند رہتے ہیں یا نہیں، اس نے اشارہ کیا کہ وہ بات کرے۔
فرماں روائے مصر!،،،،، عبادہ بن صامت نے بات شروع کی۔۔۔۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کے احکام کے پابند، اسلام کسی کے چہرے کا رنگ اور لباس دیکھ کر اسے برتری یا کمتری قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا ،اس دنیا کے لہو و لعب کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہماری روحانی دلچسپی آخرت کے ساتھ ہے ،اور دنیا میں ہمارا فریضہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، کوئی لالچ اور خزانوں کے پہاڑ بھی ہمیں اس راستے سے نہیں ہٹا سکتے,,,,,,,,, آپ نے ہمیں بلایا ہے ،ہم آپ کے پاس بھیجے گئے ہیں پہلے اپنا مدعا بیان کریں۔
میں اپنا مدعا تمہارے سپہ سالار کو لکھ چکا ہوں ۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ تمہیں بھی بتادیتا ہوں اور تمہارا یہ فرض ہے کہ اپنے سپہ سالار کے ذہن میں میری یہ بات بٹھا دینا,,,,,,,,, تم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کے روم کی یہی فوج ہے جسے تم ہر میدان میں شکست دیتے چلے آرہے ہو، ہمارے پاس اس قلعے میں روم کی اتنی زیادہ اور اتنی طاقتور فوج موجود ہے، اور اتنی زیادہ فوج آرہی ہے جسے تم تصور میں بھی نہیں لا سکتے,,,,,,
تم تعداد میں بہت ہی تھوڑے ہو اس کے علاوہ میں جانتا ہوں کہ تمہیں کس قسم کی پریشانیوں کا سامنا ہے کچھ دن گزرے تو تم اپنے لشکر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہو گے، میں جو بار بار تمھیں تمہاری کمزوریوں کا احساس دلا رہا ہوں یہ صرف اس لئے دلا رہا ہوں کہ مجھے تمہارے اس ذرا سے لشکر پر رحم آ رہا ہے، تمہارا یہ لشکر میری فوج کے ہاتھوں کٹ مرے گا تو مجھے بہت افسوس ہوگا کیونکہ میں اسے گناہ سمجھتا ہوں میں اس وقت خوش ہونگا جب تم میرے ساتھ صلح کر لو گے۔
میں تمھارے لشکر کے ہر سپاہی کو دو دینار، اور سالار کو سو دینار، اور خلیفہ کو ایک ہزار دینار پیش کرتا ہوں، یہ مجھ سے وصول کر لو اور واپس چلے جاؤ، رومی فوج کے قہر اور غضب سے ڈرو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی