👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟛 𝟟⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛  𝟟⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کچھ دیر بعد دربان نے اندر آکر شمس الدین کو اطلاع دی کہ باہر فلاں کمانڈر کھڑا ہے شمس الدین باہر گیا ایک کمانڈر گھبرایا ہوا کھڑا تھا اس نے رپورٹ دی انطانون نام کے جس محافظ کو دیوار پھلانگتے پکڑا گیا تھا وہ فرار ہوگیا ہے کیا وہ دو سپاہی مرگئے تھے جن کے حوالے میں انہیں کرکے آیا تھا؟
شمس الدین نے گرج کر پوچھا معلوم ہوتا ہے یہ اکیلے انطانون کا نہیں ایک سے زیادہ آدمیوں کا کام ہے کمانڈر نے بتایا دونوں سپاہی وہاں بے ہوش پڑے ہیں ان کے سروں پر ضربوں کے نشان ہیں
شمس الدین نے موقعہ واردات پر جاکر دیکھا دونوں سپاہی ہوش میں آچکے تھے انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں کھڑے تھے اندھیرے میں پیچھے سے ان کے سروں پر کسی نے ایک ایک ضرب لگائی اور وہ بے ہوش ہوگئے شمس الدین نے بھاگ دوڑ شروع کردی اس وقت ایک عورت جس نے سر سے پاؤں تک برقعے کی طرز کا سیاہ ریشمی لبادہ لے رکھا تھا اور اس میں سے اس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں گمشتگین کی رہائش گاہ کے بڑے دروازے سے نکلی اور جانے کہاں چلی گئی اس رات مہمانوں کا آنا جانا تو جاری تھا دربان اور محافظوں نے یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ یہ کون ہے جو مستور ہوکر جارہی ہے
آدھی رات کے بعد جب مہمان رخصت ہوئے تو قلعے کا دروازہ کھول دیا گیا گھوڑے اور بگھیاں گزرنے لگیں انہی میں ایک گھوڑ سوار گزرا جس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا اس کے ساتھ دوسرے گھوڑے پر وہی مستور عورت تھی جو گمشتگین کے گھر سے اکیلی نکلی تھی یہ انتظام شمس الدین اور شادبخت نے کیا تھا اس نے ان دو سپاہیوں کو ایک جگہ بتا کر کہا کہ انطانون کو وہاں لے جا کر میرا انتظار کریں اس نے اپنے باڈی گارڈ سے کہا تھا کہ وہ انطانون کو آزاد کرائیں اور اس کے گھر میں چھپا دیں پہلے بتایا جاچکا ہے کہ شمس الدین اور شادبخت کے باڈی گارڈ دواردلی اور دو ملازم سلطان صلاح الدین ایوبی کے کمانڈو جاسوس تھے انہوں نے بروقت حرکت کی اور انطانون کو چھڑا کر لے گئے ادھر سے فاطمہ بھی کامیابی سے نکل گئی اور شمس الدین کے گھر پہنچ گئی وہاں انتظامات مکمل تھے جب مہمان نکلے تو انہیں گھوڑے دے کر وہاں سے نکال دیا گیا یہ رات تو رقص اور شراب کی مدہوشی میں گزر گئی اگلی صبح صلیبی کی لاش دیکھی گئی اور گمشتگین کو یہ اطلاع بھی ملی کہ اس کا ایک محافظ اور اس کے حرم کی ایک لڑکی لاپتہ ہے اس نے یہ حکم دے دیا کہ جن دو سپاہیوں کی حراست سے انطانون بھاگا ہے ان دونوں کو عمر بھر کے لیے قید خانے میں ڈال دیا جائے انطانون اور فاطمہ کا فرار سب کو بھول ہی گیا کیونکہ گمشتگین کے صلیبی دوستوں نے اپنے ایک کمانڈر کے قتل پر اودھم بپا کردیا تھا انہیں دراصل اپنے کمانڈر کے مارے جانے پر اتنا افسوس نہیں تھا جتنا انہوں نے غل غپاڑہ مچایا تھا وہ دراصل گمشتگین کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرکے اس سے کچھ اور مراعات لینا چاہتے تھے اور یہ شہ دینا چاہتے تھے کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردے صلیبی جانتے تھے کہ مسلمانوں کے حرموں میں ایسے ڈرامے کھیلے ہی جاتے رہتے ہیں جن میں لڑکیاں اغواء بھی ہوتی ہیں از خود بھی غائب ہوتی ہیں اور وہاں پر اسرار قتل بھی ہوتے ہیں لیکن وہ گمشتگین کو مجبور کردینا چاہتے تھے کہ سر ان کے قدموں میں رکھ دے جن سے مدد مانگی جاتی ہے وہ اپنی ہر شرط منواتے اور غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں صلیبیوں کی تو نیت ہی کچھ اور تھی
یہ صورتحال چھپائی نہ جاسکی حلب تک اس کی خبر پہنچ گئی وہاں کے درباری امراء جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑ رہے تھے گمشتگین کو بھی اپنا اتحادی بنانا چاہتے تھے انہوں نے الملک الصالح کی طرف سے گمشتگین کی طرف ایک ایلچی بھیجا اس کے ساتھ رواج کے مطابق بیش قیمت تحائف تھے ان تحائف میں دو جوان لڑکیاں بھی تھیں گمشتگین آرام کررہا تھا ایلچی اور لڑکیوں کو شمس الدین کے پاس لے گئے کیونکہ گمشتگین کے بعد وہی سالار تھا جو سرکاری امور کی دیکھ بھال کرتا تھا اپنے گھر میں لڑکیوں کو الگ بٹھا کر اس نے ایلچی سے پوچھا کہ وہ کیا پیغام لایا ہے اس نے جو طویل پیغام دیا وہ مختصراً یوں تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے حلب کا محاصرہ کیا تو ریمانڈ صلیبی فوج لے کر آیا تھا جس سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے محاصرہ اٹھا دیا مگر ریمانڈ بغیر لڑے فوج واپس لے گیا صلیبی آئندہ بھی ہمیں دھوکہ دیں گے ہم اگر الگ الگ ہوکر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑیں گے تو ہم سب شکست کھائیں گے ہمیں متحد ہوجانا چاہیے تاکہ صلاح الدین ایوبی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرسکیں
اس پیغام کے ساتھ متحدہ محاذ بنانے کا ایک منصوبہ تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ الرستان کی پہاڑیوں کی برف پگھل رہی ہے جاسوسوں نے بتایا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سپاہی بلندیوں پر نہیں رہ سکتے کیونکہ وہاں پگھلتی برف کا پانی ان کے لیے رکاوٹ پیدا کرتا ہے ہمارے لیے یہ موقع اچھا ہے ہم سب اپنی فوجوں کو اکٹھا کرلیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کو گھیرے میں لے کر اسے شکست دے سکتے ہیں اس منصوبے میں یہ بھی تھا کہ صلیبی حکمران ریجنالڈ کو اپنے ساتھ ملایا جاسکتا ہے اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ (گمشتگین) اسے اپنا منصوبہ بتائیں اور اسے اپنا معاہدہ یاد دلائیں جس کے تحت اسے جنگی قید سے رہا کیا گیا تھا
شمس الدین نے یہ پیغام شادبخت کو سنایا دونوں بھائیوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور سوچنے لگے کہ یہ پیغام گمشتگین تک نہ پہنچنے پائے وہ دونوں اس کوشش میں تھے کہ گمشتگین اکیلا سلطان صلاح الدین ایوبی سے لڑے کیونکہ اس طرح اس کی شکست کا امکان تھا انہیں معلوم تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس فوج تھوڑی ہے اس سے وہ اکیلے اکیلے غدار حکمران کو آسانی سے ختم کرسکتا تھا یہ دونوں بھائی اپنی اصلیت کو چھپانے کے لیے پوری پوری احتیاط کرتے تھے مگر اس موقع پر ان پر جذبات کا غلبہ ہوگیا جذبات کو مشتعل ان لڑکیوں نے کیا وہ اس طرح کہ انہوں نے لڑکیوں سے ان کا مذہب پوچھا انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں عمر کے لحاظ سے وہ نوجوان تھیں شمس الدین اور شادبخت نے افسوس سا محسوس کیا کہ ایک تو مسلمانوں نے اپنے آپ میں یہ کمزوری پیدا کرلی ہے کہ خوبصورت لڑکی کے عوض اپنا ایمان تک الگ پھینک دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جن مسلمان لڑکیوں کو شریف گھرانوں میں آباد ہونا ہوتا ہے انہیں لالچی والدین امراء کے حرموں میں دے دیتے ہیں
تم کہاں کی رہنے والی ہو اور ان لوگوں کے ہاتھ کس طرح لگی ہو؟
شادبخت نے پوچھا تمہارے باپ زندہ ہیں؟ 
بھائی نہیں ہیں؟
لڑکیوں نے انہیں جو جواب دیا اس سے دونوں بھائیوں کے جذبات بھڑک اٹھے جن علاقوں پر صلیبی قابض تھے وہاں کے مسلمانوں کا جینا حرام ہورہا تھا کسی مسلمان کی عزت محفوظ نہیں تھی پہلے بھی سنایا جاچکا ہے کہ وہاں کے مسلمان باشندے قافلوں کی صورت میں نقل مکانی کرتے تھے ان کے ساتھ تاجر بھی چل پڑتے تھے اس طرح ہر قافلے کے ساتھ لڑکیاں بھی ہوتی تھیں اور مال ودولت بھی صلیبیوں نے قافلوں کو لوٹنے کا انتظام بھی کررکھا تھا یہ تو یورپی مؤرخوں نے بھی لکھا ہے کہ بعض صلیبی حکمران جو مشرق وسطیٰ میں کسی نہ کسی علاقے پر قابض تھے ان قافلوں کو اپنی فوج کے ہاتھوں لٹواتے تھے لوٹنے والے کمسن لڑکیوں جانوروں اور مال ودولت کو اڑا لے جاتے تھے لڑکیوں کو وہ منڈی میں نیلام کرتے یا مسلمان امراء کے ہاتھ فروخت کرتے تھے ان میں کچھ لڑکیاں صلیبی اپنے لیے رکھ لیتے اور انہیں جاسوسی اور اخلاقی تخریب کاری کے لیے تیار کرتے تھے انہیں مسلمانوں کے علاقوں میں استعمال کیا جاتا تھا
ان دونوں لڑکیوں کو قافلے سے چھینا گیا تھا اس وقت دونوں تیرہ چودہ سال کی تھیں وہ فلسطین کے کسی مقبوضہ علاقے سے اپنے کنبوں کے ساتھ کسی محفوظ علاقے کو جارہی تھیں یہ بہت بڑا قافلہ تھا جس پر صلیبی ڈاکوؤں نے رات کے وقت حملہ کیا اور بہت سی لڑکیوں کو اٹھا لے گئے یہ دونوں چونکہ غیرمعمولی طور پر خوبصورت تھیں اس لیے انہیں الگ کرکے ان کی خصوصی پرورش اور تربیت شروع کردی گئی ان پر غیر انسانی تشدد کیا گیا پھر ان کے ساتھ ایسا اچھا سلوک ہونے لگا جیسے وہ شہزادیاں ہوں انہیں فی الواقع شہزادیاں بنایا گیا شراب پلائی گئی اور نہایت خوبی سے ان کے ذہنوں کو صلیبیوں نے اپنے رنگ میں ڈھال لیا چار پانچ سال بعد جب سلطان نورالدین زنگی فوت ہوگیا تو صلیبیوں کی طرف سے ان دونوں لڑکیوں کو تحفے کے طور پر دمشق بھیجا گیا انہیں صلیبیوں کا ایک مسلمان ایلچی ساتھ لایا تھا یہ صلیبیوں کی خیرسگالی کا تحفہ تھا وہ الملک الصالح اور اس کے امراء کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف اور اپنے حق میں کرنا چاہتے تھے ان لڑکیوں نے بتایا ہمارے ذہنوں سے مذہب اور کردار نکال دیا گیا تھا ہم خوبصورت کھلونے بن گئی تھیں لیکن ہمیں جب دمشق بھیجا گیا تو ہمارے ذہنوں میں اپنا مذہب اور کردار بیدار ہوگیا ہمارے خون میں جو اسلامی اثرات تھے وہ امڈ کر ہماری روحوں پر چھاگئے ہمیں اپنے ماں باپ اور بہن بھائی تو نہیں مل سکتے تھے ہم نے ان مسلمان حاکموں اور بادشاہوں کو اپنے باپ اور بھائی سمجھ لیا لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی ہمیں بیٹی اور بہن نہیں سمجھا صلیبیوں کے ہاتھوں بے آبرو ہوکر ہمیں اتنا دکھ نہیں ہوا تھا جتنا مسلمان بھائیوں کے پاس آکر ہوا کیونکہ صلیبیوں سے ہمیں ایسے ہی سلوک کی توقع تھی ہم نے ہر اس مسلمان حاکم کے پاؤں پکڑے جن کے حوالے ہمیں کیا گیا ہاتھ جوڑے اسلام خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے دئیے کہ ہم ان کی بیٹیاں ہیں مظلوم ہیں ان کی عزت ہیں مگر ان کی آنکھوں میں شراب اور شیطان نے صلیب اور ستارے میں کوئی فرق نہیں رہنے دیا تھا ہمارے اندر انتقام کا جذبہ بیدار ہوگیا جب سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق میں آیا تو ہم بہت خوش ہوئیں صلیبیوں کے علاقوں میں مسلمان سلطان صلاح الدین ایوبی کی راہ دیکھ رہے ہیں اسے وہ امام مہدی بھی کہتے ہیں وہ دمشق میں آیا تو ہم نے تہیہ کرلیا کہ اس کے پاس چلی جائیں گی اور اسے کہیں گی کہ ہمیں اپنی فوج میں رکھ لے اور کوئی سا کام ہمیں دے دیں مگر ہمیں وہاں سے زبردستی بھگا کر حلب لے آئے اب انہوں نے ہمیں آپ کے پاس بھیج دیا ہے ہم آپ سے بھی توقع نہیں رکھتیں کہ آپ ہمیں بیٹیاں سمجھیں گے ہم اتنا ضرور کہیں گی کہ ہماری عصمت تو ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہے اسلام ہاتھ سے نہ جائے ہم صلیبیوں کے ہاں رہیں تو وہاں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی اور اسلام کے خلاف منصوبے بنتے دیکھے مسلمانوں کے پاس رہیں تو وہاں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہی باتیں سنیں آپ ہمیں آزمائیں ہم نے سنا ہے کہ صلیبی لڑکیاں یہاں جاسوسی کے لیے آتی ہیں آپ ہمیں اسلام کے دفاع اور فروغ کے لیے اور صلیبیوں کی شکست کے لیے کچھ کرنے کا موقع دیں
ان لڑکیوں کی یہ روائیداد ایسی تھی جس نے شمس الدین اور شادبخت کو شدید جذباتی جھٹکا دیا انہوں نے لڑکیوں سے کہا کہ انہیں اب کسی عیش پرست حکمران کے حوالے نہیں کیا جائے گا
وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ باڈی گارڈ نے اندر آکر انہیں اطلاع دی کہ قاضی صاحب آئے ہیں دونوں بھائی ملاقات والے کمرے میں چلے گئے وہاں حران کا قاضی ابن الخاشب ابوالفضل بیٹھا تھا وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا اس نے کہا سنا ہے حلب سے ایلچی آیا ہے اور پیغام کے ساتھ تحفے بھی لایا ہے ہاں شادبخت نے کہا قلعہ دار سوئے ہوئے ہیں میں نے ایلچی کو اپنے پاس روک لیا ہے میں وہ دو تحفے دیکھنے آیا ہوں ابن الخاشب نے آنکھ مار کر کہا ان کی ایک جھلک دکھا دو دونوں بھائی جانتے تھے کہ یہ قاضی کس قماش کا انسان ہے وہ گمشتگین پر چھایا ہوا تھا شمس الدین نے دونوں لڑکیوں کو اس کمرے میں بلایا قاضی نے انہیں دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹنے لگیں اس کے منہ سے حیرت زدہ سرگوشی نکلی آفرین ایسا حسن؟
شمس الدین نے لڑکیوں کو دوسرے کمرے میں بھیج دیا قاضی نے کہا انہیں میرے حوالے کردو میں خود قلعہ دار کے سامنے لے جاؤں گا اس کی آنکھوں سے شیطان جھانک راہ تھا آپ قاضی ہیں شمس الدین نے اسے کہا قوم کی نظروں میں آپ کا مقام گمشتگین سے زیادہ بلند ہے آپ کے ہاتھ میں عدل اور انصاف ہے
قاضی نے قہقہہ لگایا اور کہا تم فوجی احمق ہوتے ہو تم شہری امور کو نہیں سمجھ سکتے وہ قاضی مرگئے ہیں جن کے ہاتھ میں اللہ کا قانون اور عدل وانصاف ہوا کرتا تھا وہ اپنے حکمران سے نہیں خدا سے ڈرا کرتے تھے بلکہ حکمران بھی ان کے ڈر سے کسی کے ساتھ بے انصافی نہیں کرتے تھے اب حکمران اسے قاضی بناتے ہیں جو ان کی بے انصافیوں کو جائز قرار دے اور جو قانون کو نہیں حکمرانوں کو خوش رکھیں میں اپنے خدا کا نہیں اپنے حکمران کا قاضی ہوں اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کفار تمہارے دلوں پر قابض ہوگئے ہیں شادبخت نے کہا ایمان فروش حکمران کا قاضی بھی ایمان فروش ہوتا ہے تم جیسے قاضیوں اور منصفوں نے امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں تک پہنچا دیا ہے جہاں ہمارے امراء اور حکمران اپنی ہی بیٹیوں کی عصمتوں سے کھیل رہے ہیں یہ آپ کی مسلمان بچیاں ہیں جنہیں آپ اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں
قاضی پر شیطان کا اتنا غلبہ تھا کہ اس نے شمس الدین اور شادبخت کی باتوں کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کی اور ہنس کر کہا ہندی مسلمان مردہ دل ہوتے ہیں تم ہندوستان سے یہاں کیوں چلے آئے تھے؟
غور سے سنو میرے دوست شمس الدین نے کہا میں تمہاری عزت صرف اس لیے کرتا رہا کہ تم قاضی ہو ورنہ تمہاری اصلیت اتنی سی ہے کہ تم میرے ماتحت کمانڈر تھے تم نے خوشامد اور چاپلوسی سے یہ مقام حاصل کرلیا ہے میں تمہاری غیرت کو بیدار کرنے کے لیے تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم ہندوستان سے کیوں آئے تھے چھ سو سال گزرے محمد بن قاسم نام کا ایک نوجوان جرنیل ایک لڑکی کی پکار اور فریاد پر اس سرزمین سے جاکر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا تم جانتے ہو ہندوستان کتنی دور ہے تم اندازہ کرسکتے ہو کہ اس لڑکے نے فوج کسی طرح وہاں پہنچائی ہوگی تم خود فوجی ہو اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ اس نے مرکز سے اتنی دور جاکر رسد اور کمک کے بغیر جنگ کس طرح لڑی ہوگی جذبات سے نکل کر اس کے عملی پہلو پر غور کرو اس نے ایسی مشکلات میں فتح حاصل کی جن میں شکست کے امکانات زیادہ تھے اس نے صرف فتح ہی حاصل نہیں کی ہندوستانیوں کے دلوں پر قبضہ کیا اور کسی ظلم وتشدد کے بغیر اس کفرستان میں اسلام پھیلایا پھر وہ نہ رہا جنہوں نے اتنی دور جاکر ایک لڑکی کی عصمت کا انتقام لیا اور اسلام کا نور پھیلایا تھا دنیا سے اٹھ گئے اور وہ ملک ان بادشاہوں کے ہاتھ آیا جو مجاہدین کے قافلے میں تھے ہی نہیں انہیں وہ ملک مفت مل گیا انہوں نے وہاں وہی حرکتیں شروع کردیں جو آج یہاں ہورہی ہیں ہندو اسی طرح مسلمانوں پر غالب آتے گئے جس طرح یہاں صلیبی غالب آرہے ہیں سلطنت اسلامیہ سکڑنے لگی اور جب ہم جوان ہوئے تو اس سلطنت کی جڑیں بھی خشک ہوچکی تھیں جسے محمد بن قاسم اور اس کے غازیوں نے خون سے سینچا تھا مسلمان حکمرانوں نے عرب سے رشتہ توڑ لیا ہم دونوں بھائی جن کے خاندان کو عسکری روایات سے پہچانا جاتا تھا وہاں سے مایوس ہوکر یہاں آگئے ہم ہندی مسلمانوں کے ایلچی بن کر آئے تھے ٹوٹے ہوئے رشتے جوڑنے آئے تھے
سلطان نورالدین زنگی سے ملے تو اس نے بتایا کہ وہ ہندوستان کا رخ کس طرح کرسکتا ہے عرب کی سرزمین غداروں سے بھری پڑی ہے زنگی مرحوم دور کے کسی محاذ پر اس لیے نہیں جاتا تھا کہ اس کی غیرحاضری میں ادھر بغاوت ہوجائے گی جس سے صلیبی فائدہ اٹھائیں گے ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کے کردار پر غالب آگیا اور یہاں صلیبی غالب آگیا زنگی نے ہمیں اپنی فوج میں رکھ لیا اور جب گمشتگین سیف الدین اور عزالدین وغیرہ نے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ گٹھ جوڑ شروع کردیا تو سلطان زنگی مرحوم نے ہم دونوں کو گمشتگین کی فوج میں اس مقصد کے لیے بھیج دیا کہ ہم اس پر نظر رکھیں کہ اس کی خفیہ سرگرمیاں کیا ہیں
یعنی تم دونوں جاسوس ہو قاضی ابن الخاشب نے طنزیہ کہا میری بات سمجھنے کی کوشش کرو شمس الدین نے کہا تم دیکھ رہے ہو کہ ہمارے مسلمان امراء اس مرد مجاہد کے خلاف لڑ رہے ہیں جو اسلام کو صلیب کے عزائم سے محفوظ کرنا چاہتا ہے آج کا ایلچی بہت خطرناک پیغام لایا ہے اس نے پیغام سنا کر کہا گمشتگین پر تمہارا اثر ہے تم اسے روک سکتے ہو تم اگر ہمارا ساتھ دو تو آؤ گمشتگین کو اس پر قائل کریں کہ وہ غداروں کے ساتھ اتحاد کرنے کے بجائے سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ مل جائے ورنہ اسے ایسی شکست ہوگی جو اسے ساری عمر قید خانے میں بند رکھے گی اس سے پہلے میں تم دونوں کو قیدخانے میں بند کرواتا ہوں ابن الخاشب نے کہا دونوں لڑکیاں میرے حوالے کردو وہ اٹھ کر اس کمرے کی طرف جانے لگا جس میں لڑکیاں تھیں شادبخت نے اسے بازو سے پکڑ کر پیچھے کیا اس نے شادبخت کو دھکا دیا شادبخت نے اسے منہ پر اتنی زور سے گھونسہ مارا کہ وہ پیچھے کو گرا شمس الدین وہاں کھڑا تھا اس نے اپنا ایک پاؤں اس کی شہ رگ پر رکھ کر دبایا اور ایسا دبایا کہ تڑپ کر بے حس ہوگیا دیکھا وہ مرچکا تھا ان بھائیوں کا ارادہ قتل کا تھا یا نہیں وہ مرگیا انہوں نے سوچا کہ اب پکڑے تو جانا ہی ہے انہوں نے اپنے دونوں اردلیوں کو تلواریں اور تیروکمان دے کر دوسرے گھوڑوں پر سوار ہونے کو کہا وہ اور شادبخت ان کے ساتھ گئے اور قلعے کا دروازہ کھلوا کر ان چاروں کو بھاگ جانے کو کہا انہیں انہوں نے یہ ہدایت دی تھی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج تک پہنچ جائیں انہوں نے ان اردلیوں کو تفصیل سے بتا دیا تھا کہ گمشتگین کا منصوبہ کیا ہے چاروں گھوڑے باہر نکلتے ہی سرپٹ دوڑ پڑے دونوں بھائیوں کو بھی نکل جانا چاہیے تھا معلوم نہیں کیا سوچ کر وہ واپس آئے گمشتگین جاگ کر آچکا تھا اس نے ایلچی کو دیکھا تو اس نے پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے اس نے بتا دیا مگر وہاں لڑکیاں نہیں تھیں جو وہ تحفے کے طور پر لایا تھا شمس الدین اور شادبخت نے کہا کہ لڑکیاں جاچکی ہیں کیونکہ مسلمان تھیں ہم نے انہیں وہاں بھیج دیا ہے جہاں ان کی عزت محفوظ رہے گی انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ قاضی کی لاش اندر پڑی ہے گمشتگین نے لاش دیکھی ایلچی دوسرے کمرے میں ان دونوں بھائیوں کی وہ باتیں سن رہا تھا جو وہ قاضی ابن الخاشب سے کررہے تھے گمشتگین جل اٹھا اس نے سالار شمس الدین اور سالار شادبخت علی کو قید خانے میں ڈال دیا حران کے قلعے سے دوچار گھوڑ سوار سرپٹ گھوڑے دوڑاتے نہایت قیمتی راز سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے لے جارہے تھے اور اس وقت الرستان کی پہاڑیوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی حسن بن عبداللہ سے پوچھ رہا تھا کہ ان دونوں بھائیوں کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی؟

سالار شمس الدین اور سالار شادبخت کو جب قاضی ابن الخاشب کے قتل اور تحفے کے طور پر آئی ہوئی دو لڑکیوں کو قلعے سے بھگا دینے کے جرم میں قید خانے میں ڈالا جارہا تھا اس وقت ایسا ہی ایک ایلچی جو اس قلعے میں آیا تھا موصل میں غازی سیف الدین کے پاس پہنچا غازی سیف الدین خلافت کے تحت موصل اور اس کے گردونواح کے علاقے کا گورنر مقرر کیا گیا لیکن نورالدین زنگی کی وفات کے بعد اس نے اپنے آپ کو والئی موصل کہلانا شروع کردیا تھا وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خاندان کا ہی فرد تھا مگر کردار اور ذہنیت کے لحاظ سے سلطان ایوبی کے الٹ تھا موصل اسلامی سلطنت کا حصہ تھا مگر سیف الدین وہاں کا آزاد حکمران بن گیا تھا اور سلطان ایوبی کے مخالفانہ محاذ میں شامل ہوگیا تھا اس کا بھائی عزالدین تجربہ کار جرنیل تھا فوج کی اعلیٰ کمانڈ اسی کے پاس تھی سیف الدین چونکہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا اس لیے اس کی عادات بادشاہوں جیسی تھیں اس نے حرم میں ملک ملک کی لڑکیاں اور ناچنے والیاں بھر رکھی تھیں اس کا دوسرا شوق پرندے رکھنے کا تھا جس طرح اس نے حرم میں ایک سے ایک خوبصورت لڑکی رکھی ہوئی تھی اسی طرح اس نے رنگ برنگے پرندے بھی پنجروں میں بند کررکھے تھے اس کی ذاتی دلچسپیاں حرم اور پرندوں کے ساتھ تھیں
اسے اپنے بھائی عزالدین کی عسکری اہلیت پر اعتماد تھا اور اسے توقع تھی کہ وہ سلطان ایوبی کو شکست دے کر اپنی ریاست الگ بنائے رکھے گا اس مقصد کے لیے اس نے حران کے قعہ دار گمشتگین کی طرح اور نام نہاد سلطان الملک الصالح کی طرح اپنے پاس صلیبی مشیر رکھے ہوئے تھے جنہوں نے اسے امید دلا رکھی تھی کہ سلطان ایوبی کے خلاف جنگ کی صورت میں صلیبی اسے جنگی مدد دیں گے اس طرح سلطان ایوبی کے لیے صورت یہ پیدا ہوگئی تھی کہ مسلمانوں کی تین فوجیں اس کے خلاف لڑنے کو تیار اور پابرکاب تھیں ایک حلب میں دوسری حران میں اور تیسری موصل میں یہ تو بڑے بڑے مسلمان حکمران اور امراء تھے چھوٹے چھوٹے شیخ اور چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں کے نواب جن کی تعداد کا علم نہیں ان تین بڑے حکمرانوں کے حامی ممد اور معاون تھے انہوں نے ان تینوں کو فوجی اور مالی مدد دینے کا وعدہ کررکھا تھا اور مدد دے بھی رہے تھے انہیں کہا گیا تھا کہ اگر سلطان ایوبی چھا گیا تو جس طرح اس نے شام اور مصر کا الحاق کرکے ایک سلطنت بنا لی ہے اسی طرح وہ ہر ایک مسلمان ریاست کو اپنی سلطنت میں مدغم کرکے سب کو غلام بنا لے گا وہ بظاہر متحد تھے لیکن اندر سے پھٹے ہوئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک دوسرے سے کمزور رہیں ان کی حالت چھوٹی بڑی مچھلیوں کی مانند تھی ہر چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی سے خائف تھی اور خواہشمند کہ وہ بھی بڑی مچھلی بن جائے سلطان ایوبی اپنے انٹیلی جنس کے نظام کے ذریعے اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے مخالفین میں نفاق ہے تاہم وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا وہ ہر لمحہ اس حقیقت کو سامنے رکھتا تھا کہ تین بڑی فوجیں اس کے خلاف محاذ آرا ہیں فوج آخر فوج ہوتی ہے بھیڑ بکریوں کا ریوڑ نہیں ہوتی اسے یہ احساس بھی تھا کہ تینوں افواج کے کمانڈر اور جوان مسلمان ہیں اور فن سپاہ گری اور شجاعت جو مسلمان کے حصے میں آئی ہے وہ خدا نے کسی اور قوم کو عطا نہیں کی صلیبی چار پانچ گنا طاقتور لشکر لے کر آئے تو مسلمان سپاہ نے قلیل تعداد میں انہیں شکست دی اور ان احوال وکوائف میں بھی شکست دی کہ صلیبیوں کا اسلحہ برتر تھا اور فوجیں زرہ پوش تھیں گھوڑوں کی پیشانیاں اور پچھلے حصے بھی زرہ پوش تھے
سلطان ایوبی نے حلب کا محاصرہ کرکے دیکھ لیا تھا یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان فوج مسلمان فوج کے مقابلے میں آئی تھی حلب کی مسلمان فوج اور وہاں کے شہریوں نے جس بے جگری سے حلب کا دفاع کیا تھا اس سے سلطان ایوبی کے پاؤں اکھڑنے لگے تھے وہ اس معرکے کو ذہن سے اتار نہیں سکتا تھا سلطان ایوبی پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں پر فوج کشی کررہا ہے یہ الزام عائد کرنے والے اسی عباسی خلافت کے حامی تھے جسے اس نے مصر میں معزول کیا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ مسلمان حکمران اور امراء سلطان ایوبی کے اس عزم کے راستے میں آگئے تھے کہ وہ فلسطین کو آزاد کرائے گا اسے یہ خیال چین نہیں لینے دیتا تھا کہ قبلۂ اول پر کفار کا قبضہ ہے اور وہ یہودیوں کے عزائم سے بھی بے خبر نہ تھا وہ جانتا تھا کہ یہودی یہ دعویٰ لیے پھرتے ہیں کہ فلسطین ان کا وطن ہے اور قبلۂ اول مسلمانوں کی نہیں یہودیوں کی عبادت گاہ ہے یہودی فوج لے کر سامنے نہیں آ رہے تھے وہ صلیبیوں کو مالی امداد دے رہے تھے اور انہوں نے جو سب سے زیادہ خطرناک مدد صلیبیوں کو دے رکھی تھی وہ غیر معمولی طور پر خوبصورت جوان اور نہایت ہوشیار اور چالاک لڑکیوں کی صورت میں تھی ان لڑکیوں کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کی کردار کشی کے لیے بھی سلطان ایوبی کو یہ حقیقت اور زیادہ پریشان کرتی تھی کہ صلیبی فوجیں بھی موجود ہیں جن کے اعلیٰ کمانڈر اور حکمران اس کے مسلمان مخالفین کو شہ دے رہے ہیں ان حالات میں سلطان ایوبی چوکنا تھا وہ اپنی فوج کو نہایت اچھے طریقے سے ڈیپلائے کیے ہوئے تھا اور اس نے انٹیلی جنس کے نظام کو دشمنوں کے علاقے میں بھیج رکھا تھا اس کا جو جنگی پلان تھا اس میں اس نے زیادہ تر بھروسہ چھاپہ مار (کمانڈو) ٹولیوں اور جاسوسوں پر کیا تھا
موصل میں بھی حلب کا ایلچی پہنچا الملک الصالح اور اس کے درباری امراء نے والئی موصل کے لیے پیغام کے ساتھ جو تحفے تھے ان میں اسی طرح کی دو لڑکیاں تھیں جس طرح حران کے قلعہ دار گمشتگین کو بھیجی گئی تھیں حران میں تو دو ہندوستانی جرنیلوں شمس الدین اور شادبخت نے ان لڑکیوں کو فرار کرا دیا قاضی کو قتل کیا اور قید خانے میں بند ہوگئے تھے لیکن موصل میں جو لڑکیاں گئیں انہیں وہاں کے والی سیف الدین نے بسرو چشم قبول کیا اس کے حرم میں یہ نہایت دل نشیں اضافہ تھا حلب کے ایلچی نے وہی پیغام دیا جو گمشتگین کو دیا تھا وہ یہ تھا کہ صلیبی حلب والوں کو مدد کے معاملے میں دھوکہ دے چکے ہیں اس لیے ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے اور ان کی دوستی سے ہمیں دستبردار بھی نہیں ہونا چاہیے ان کی مدد حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم آپس میں متحد ہوکر سلطان ایوبی پر حملہ کردیں وہ الرستان کے سلسلۂ کوہ میں قرونِ حماة (حماة کے سینگ) کے مقام پر خیمہ زن ہے ہم حملہ کریں گے تو صلیبی اس پر عقب سے حملہ کردیں گے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس پیغام میں ایک پلان بھی تھا جس میں کچھ اس قسم کی وضاحت کی گئی تھی کہ وہاں برف پگھل رہی ہے جاسوسوں کی اطلاعات کے مطابق سلطان ایوبی کی مورچہ بندیاں برف کے بہتے پانی کی وجہ سے تہس نہس ہوگئی ہیں ہم تین فوجوں سے اسے انہیں وادیوں میں محاصرے میں لے کر آسانی سے شکست دے سکتے ہیں پیغام میں کہا گیا تھا کہ گمشتگین کو بھی پیغام بھیجا گیا ہے امید ہے کہ وہ متحدہ محاذ میں اپنی فوج کو شامل کردے گا آپ (سیف الدین) بھی مزید وقت ضائع کیے بغیر اپنی فوج کو مشترکہ کمان میں لے آئیں تاکہ صلاح الدین ایوبی کو فیصلہ کن شکست دی جائے
سیف الدین نے پیغام ملتے ہی اپنے بھائی عزالدین کو دو سینئر جرنیلوں کو اور موصل کے ایک نامی گرامی خطیب ابن الخدوم ککبوری کو بلایا سب آگئے تو اس نے ایلچی کا یہ پیغام سب کو سنا کر کہا آپ سب میرے اس فیصلے اور ارادے سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ میں صلاح الدین ایوبی کی اطاعت قبول نہیں کروں گا میری رگوں میں بھی وہی خون ہے جو اس کی رگوں میں ہے آپ لوگ مجھے یہ مشورہ دیں کہ میں فوری طور پر اپنی فوج مشترکہ کمان میں دے دوں یا نہیں میرا ارادہ یہ ہے کہ ہماری فوج ظاہری طور پر مشترکہ کمان میں رہے لیکن آپ لوگ اسے الگ تھلگ لڑائیں تاکہ جو علاقہ ہماری فوج فتح کرے اس کا مالک میرے سوا اور کوئی نہ بن سکے
ایک سالار نے کہا آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس سے بہتر اور کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا آپ کے ارادے اتنے بلند ہیں جو کسی اور کے نہیں ہوسکتے صلاح الدین ایوبی صلیبیوں اور سوڈانیوں کو شکست دے سکتا ہے ہمیں نہیں دوسرے سالار نے کہا آپ اپنی فوج متحدہ محاذ میں شامل کردیں لیکن کمان اپنے ہاتھ میں رکھیں ہم اپنی فوج کو اس طرح لڑائیں گے کہ ہماری کامیابیاں حلب اور حران کی فوج سے الگ تھلگ نظر آئیں گی ہم آپ کے حکم پر جانیں قربان کردیں گے شہنشاہ موصل پہلے سالار نے کہا ہم آپ کو سلطنت اسلامیہ کا شہنشاہ بنائیں گے جس کے خواب صلاح الدین ایوبی دیکھ رہا ہے صلاح الدین ایوبی کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھوں گا دوسرے نے کہا اس کی فوج الرستان کی وادیوں سے زندہ نہیں نکل سکے گی آپ فوری طور پر کوچ کا حکم دیں فوج تیار ہے دونوں سالار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنی وفاداری اور ایثار کا اظہار کررہے تھے عزالدین خاموش بیٹھا اپنی باری کا انتظار کررہا تھا اور خطیب الن المخدوم کبھی ان سالاروں کو اور کبھی سیف الدین کو دیکھتا اور سر جھکا لیتا تھا عزالدین تمہارا کیا خیال ہے؟
سیف الدین نے اپنے بھائی سے پوچھا مجھے آپ کے اس فیصلے سے اتفاق ہے کہ ہمیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنا ہے عزالدین نے کہا لیکن ہمارے سالاروں کو اس قسم کی جذباتی باتیں زیب نہیں دیتیں جیسی ان دونوں نے کی ہیں صرف یہ کہہ دینے سے کہ ایوبی صلیبیوں اور سوڈانیوں کو شکست دے سکتا ہے ہمیں نہیں ایوبی کو شکست نہیں دی جاسکتی میں یہ کہوں گا کہ جس نے کم تعداد میں صلیبیوں کی کئی گنا زیادہ فوج کو شکست دی ہے وہ آپ کو بھی شکست دے سکتا ہے جس نے صحرائی فوج برفانی وادیوں میں لڑا کر چار قلعے فتح کرلیے اور ریمانڈ کی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کیا ہے وہ برف پگھل جانے کے بعد زیادہ اچھی طرح لڑے گا ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے دشمن کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے آپ یہ سوچیں کہ وہ حالات کیسے ہیں جن میں آپ کو لڑنا ہے اس میدان کی بات کریں جہاں آپ لڑیں گے اور اس دشمن کی فوج کی بات کریں جو آپ کے مقابل ہیں
عزالدین نے سلطان ایوبی کی فوج کی خوبیاں بیان کیں پھر سلطان ایوبی کے لڑنے کے طریقے بیان کیے اور جس میدان میں لڑائی متوقع تھی اس کے کوائف پر روشنی ڈال کر کہا برف پگھل رہی ہے اور بہار کی بارشیں اس سال تاخیر سے برس رہی ہیں صلاح الدین ایوبی کی فوج خیموں میں ہے لیکن گھوڑوں کو خیموں میں نہیں رکھا جاسکتا اس وقت اس کی فوج کے جانور درختوں کے نیچے یا کھوہوں اور غاروں میں رہتے ہیں گھوڑے اور اونٹ اس حالت میں زیادہ دیر تندرست نہیں رہ سکتے یہ توقع بھی رکھنی چاہیے کہ ایوبی کے سپاہی پہاڑی علاقے سے اکتا چکے ہوں گے یہ بھی پیش نظر رکھ لیں کہ ہم نے اپنی فوج حلب اور حران کی فوج سے ملا دی تو ایوبی محاصرے میں لیا جاسکے گا لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ مسلمان سپاہی جب مسلمان سپاہی کے آمنے سامنے آئے گا تو اسلام کا ابدی رشتہ انہیں گتھم گتھا کرنے کے بجائے انہیں بغل گیر بھی کرسکتا ہے تلواریں جو وہ ایک دوسرے کے خلاف نکالیں گے جھک بھی سکتی ہیں اور خون بہائے بغیر نیاموں میں واپس جاسکتی ہیں
عزالدین سیف الدین نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تم صرف فوجی ہو، تم صرف خون تلوار اور نیام کی باتیں سوچ سکتے ہو۔ یہ چالیں مجھ سے سیکھو کہ مسلمان سپاہی کے خلاف کس طرح لڑایا جاسکتا ہے پرسوں ماہ رمضان شروع ہورہا ہے صلاح الدین ایوبی نماز روزے کا جس قدر خود پابند ہے اتنی ہی پابندی اپنی فوج سے کراتا ہے اس کی تمام فوج روزے سے ہوگی ہم اپنی فوج سے کہہ دیں گے کہ جنگ میں روزے کی کوئی پابندی نہیں محترم خطیب تمہارے پاس بیٹھے ہیں میں ان کی جانب سے اعلان کرا دوں گا کہ جنگ میں روزے معاف ہیں ہم حملہ دوپہر کے بعد کریں گے علی الصبح حملہ کیا تو ایوبی کے سپاہی تروتازہ ہوں گے دوپہر کے بعد ہمارے سپاہیوں کے پیٹ میں کھانا ہوگا اور صلاح الدین ایوبی کے سپاہی بھوکے اور پیاسے ہوں گے میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ فیصلہ غلط تو نہیں کہ ہمیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنا ہے آپ کا یہ فیصلہ برحق ہے ایک سالار نے کہا آپ کے فیصلے کو ہم عملی شکل دے کر ثابت کریں گے کہ یہ فیصلہ ہر لحاظ سے صحیح ہے دوسرے سالار نے کہا آپ کے فیصلے کے خلاف میں نے کوئی بات نہیں کی عزالدین نے کہا ایک مشورہ اور دوں گا مجھے آپ محفوظہ میں رکھیں اگر ضرورت پڑی تو میں بعد میں حملہ کروں گا پہلے تصادم کی کمان آپ اپنے ہاتھ میں رکھیں ایسا ہی ہوگا سیف الدین نے کہا فوج کو دو حصوں میں تقسیم کرلو اور فوری تیاری کا حکم دے دو محفوظہ میں جو حصہ رکھنا چاہتے ہو اسے اپنے پاس رکھو وہاں خطیب ابن المخدوم بھی موجود تھا سیف الدین نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا قابل صد احترام خطیب آپ نے کئی بار قرآن سے فال نکال کر مجھے خطروں سے آگاہ کیا ہے آپ نے میری کامیابی اور سلامتی کے وظیفے کیے اور خدا کے حضور میرے لیے دعا بھی کی ہے آپ کو معلوم ہے کہ آپ سے بڑھ کر میں کسی کو برگزیدہ نہیں سمجھتا اگر کسی انسان کے آگے سجدے کی اجازت ہوتی تو میں آپ کے آگے سجدہ کرتا اب ایسی مہم پر جارہا ہوں جس کی کامیابی مخدوش ہے میں ایک طاقت ور دشمن کے مقابلے میں جارہا ہوں جنگ میں فتح ہوتی ہے یا شکست مجھے قرآن سے فال نکال کر بتائیے کہ میری قسمت میں فتح لکھی ہے یا شکست امیرمحترم خطیب اٹھ کھڑا ہوا کہنے لگا یہ صحیح ہے کہ آپ نے کئی بار مجھ سے قرآن میں سے فال نکلوائی ہے سلطان نورالدین زنگی مرحوم ومغفور کی زندگی میں آپ ڈاکوؤں کے بہت بڑے گروہ کے تعاقب میں گئے تھے تو میں نے قرآن میں سے فال نکال کر آپ کو کامیابی کا مژدہ سنایا اور آپ کامیاب لوٹے تھے صلیبیوں کے خلاف آپ جب بھی گئے میں نے فال نکالی اور آپ کو خطروں سے خبردار کیا اور کامیابی کی خبر دی اللہ کا شکر کہ میری نکالی ہوئی ہر فال صحیح نکلی مگر خطیب نے پہلے عزالدین کی طرف پھر دونوں سالاروں کو دیکھا اور کہا مگر موصل کے امیر اب بغیر فال نکالے میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ جس مہم پر آپ فوج لے جارہے ہیں اس میں کامیاب لوٹیں گے یا ناکام جلدی بتائیے میرے محترم استاد سیف الدین نے بیتاب ہوکر کہا آپ کو ایسی بری شکست ہوگی جس میں آپ وقت پر نہ بھاگے تو آپ ہلاک ہوجائیں گے خطیب نے کہا اس مہم پر نہ خود جائیں نہ اپنے بھائی کو بھیجیں نہ اپنی فوج کو بھیجیں سیف الدین کے چہرے کا رنگ بدل گیا یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ گھبرایا ہے یا ڈرا ہوا ہے عزالدین اور سالاروں پر بھی خاموشی طاری ہوگئی خطیب سیف الدین پر نظریں گاڑے ہوئے تھا آپ نے قرآن تو کھولا نہیں سیف الدین نے کہا قرآن کے بغیر آپ نے فال کیسے نکالی؟ 
میں کیسے مان لوں کہ آپ نے مجھے جو بری خبر سنائی ہے وہ صحیح ہے؟
سنو موصل کے امیر خطیب ابن المخدوم نے کہا میں آج آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن سے جو فالیں نکال کر میں آپ کو کامیابی کے مژدے سناتا رہا ان کا قرآن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا قرآن کسی جادوگر کی لکھی ہوئی کتاب نہیں قرآن صرف یہ فال بتاتا ہے کہ جو اس مقدس کتاب میں احکامات خاوندی تحریر ہیں ان پر جو عمل نہیں کرے گا وہ ناکام اور نامراد رہے گا اس سے پہلے آپ صلیب کے پرستاروں کے خلاف لڑنے گئے تو آپ کے کہنے پر میں نے قرآن کی فال آپ کو بتائی کہ آپ کامیاب لوٹیں گے اس کے بعد آپ جس مہم پر گئے میں نے آپ کو کامیابی کا مژدہ سنایا اور کہا کہ یہ قرآن کی فال ہے ہر فال نیک تھی جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کی ہر مہم اور ہر کام خدا کے حکم کے عین مطابق تھا مگر یہ مہم جس پر آپ جارہے ہیں خدائی احکام کی صریح خلاف ورزی ہے آپ کفار کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں ان سے مدد مانگ کر رسول مقبولﷺ کی ناموس پر فدا ہونے والوں کے خلاف لڑنے جارہے ہیں
آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی رسول ﷺ کی ناموس پر فدا ہونے آیا ہے؟
سیف الدین نے بھڑک کر کہا میں کہتا ہوں، وہ ایک وسیع سلطنت کی سلطانی کا خواب دیکھ کر آیا ہے۔ ہم اس کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیں گے اسے موت یہاں لے آئی ہے اسے موت کے حوالے کرکے ہم صلیب کے پرستاروں کو ختم کریں گے آپ مجھے کھوکھلے لفظوں کا فریب دے سکتے ہیں خدا کو نہیں خطیب نے کہا خدا وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہم سب نے اپنے اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے فتح اس کی ہے جس نے اپنے نفس پر فتح پالی میں آج آخری پیشنگوئی کررہا ہوں شکست آپ کا مقدر ہوچکی ہے اگر آپ اسلام کے پرچم تلے چلے جائیں اور اللہ کی راہ میں قتال اور جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں تو آپ کے مقدر کا لکھا ٹل سکتا ہے
محترم خطیب! عزالدین بول پڑا آپ اپنے مذہب اور اپنی مسجد سے سروکار رکھیں جنگی امور اور سلطنتوں کے معاملات کو آپ نہیں سمجھ سکتے آپ ہمارا دل اور ہمارا جذبہ توڑنے کی کوشش نہ کریں ہم ان عناصر سے مالا مال ہیں جن سے جنگ جیتی جاسکتی ہے
اگر آپ جنگ کو مذہب اور مسجد سے الگ کرکے لڑیں گے تو نہ آپ کا دل ساتھ دے گا نہ جذبہ خطیب نے کہا آپ نے صحیح فرمایا کہ میں جنگی امور سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جنگ صرف ہتھیاروں اور گھوڑوں سے نہیں جیتی جاسکتی ہے اور جنگ اس عسکری قابلیت سے بھی نہیں جیتی جاسکتی جس پر آپ کو ناز ہے اور جس کے بھروسے پر آپ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ایک عنصر اور بھی ہے جو فتح کو شکست میں بدل دیا کرتا ہے
سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے کہا جس قوم کا حکمران خوشامد پسند ہوجائے وہ اپنے ساتھ قوم اور ملک کو بھی لے ڈوبتا ہے وہ حکومت کے امور خوشامدیوں اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں کے حوالے کردے تو وہ ایک آزاد اور خود دار قوم کو بھوکی ننگی اور غلام رعایا میں بدل دیتے ہیں اور جب یہ حکمران فوج کی کمان خوشامدی سالاروں کو دے دیتے ہیں تو ملک کو دشمن کھا جاتا ہے خوشامدی سالار اپنے ماتحتوں سے خوشامد کرواتے ہیں پھر ان کا مقصد قوم اور ملک کے لیے لڑنا نہیں بلکہ حکمران کی خوشنودی حاصل کرنا بن جاتا ہے میں نے آپ کے اس دربار میں دیکھا ہے کہ دونوں سالاروں نے آپ کی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور ایسی جذباتی باتیں کیں ہیں جو جنگجو نہیں کیا کرتے دونوں نے آپ کے فیصلے اور ارادے کی تعریف تو کردی ہے لیکن آپ کو خطروں سے خبردار نہیں کیا انہوں نے آپ کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ صلیبی تم سب کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں مسجد اقصیٰ پر کفار کا قبضہ ہے لہٰذا ان حالات میں بہتر یہ ہوگا کہ آپ، گمشتگین اور حلب کے امراء وغیرہ صلاح الدین ایوبی کے پاس جائیں اور اگر آپ ہی سچے ہیں تو اسے جھوٹا اور سلطنت کا لالچی ثابت کریں
مگر آپ کے سالاروں نے آپ کو ایسا کوئی مشورہ نہیں دیا آپ کے سالاروں نے آپ کو یہ بھی نہیں بتایا کہ صلاح الدین ایوبی نے الرستان کے پہاڑی علاقے کو اڈہ بنا کر اپنے دستے دور دور تک اس طرح پھیلا دئیے ہیں کہ آپ اسے محاصرے میں لینے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ آپ اس کے چھاپہ ماروں سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن آپ کے سالاروں نے آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہ پہلو آپ کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے کہ ایوبی کے جاسوس اور چھاپہ مار آپ کے سینے سے راز نکال کر لے جاسکتے ہیں اور آپ کے حرم کی لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاسکتے ہیں آپ کی فوج یہاں سے کوچ کرے گی تو صلاح الدین ایوبی کو آپ کی فوج کی رفتار تعداد اور کوچ کی سمت کا علم ہوجائے گا
سلطان موصل! ایک سالار نے غصے میں آکر کہا کیا ہم اپنی توہین برداشت کرتے رہیں؟ 
مسجد میں دن رات بیٹھ کر اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرنے والا ہمارا استاد بننے کی جسارت کررہا ہے یہ آپ کے فیصلے کی مخالفت کرکے ہمارے سامنے آپ کی توہین کررہا ہے
مجھے سن لینے دو سیف الدین نے کہا میں محترم خطیب کو ابھی تک احترام کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہوں بولیے محترم خطیب! عزالدین نے طنزیہ کہا اس کے بعد آپ کو یہ بتانا ہوگا کہ آپ کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں ہمارے ساتھ یا صلاح الدین ایوبی کے ساتھ میری وفاداریاں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہیں خطیب نے عزالدین سے کہا میں آپ کی تعریف اتنی سی کروں گا کہ آپ نے اپنے بھائی کو دوچار باتیں تو حقیقت کے رنگ میں بتائی ہیں باقی آپ نے بھی دماغ اور آنکھیں بند کرکے بات کی ہے عماد الدین بھی تو آپ کا بھائی ہے کبھی سوچا آپ نے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کا دوست کیوں ہے اور آپ کی حمایت کے لیے کیوں نہیں آتا؟
آپ ہمارے خاندانی معاملات میں دخل نہ دیں عزالدین نے کہا آپ دراصل ہم پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہے اور ہم سب کو اس کے آگے سجدے کرنے چاہئیں آپ کو صرف یہ کہا گیا تھا کہ قرآن سے فال نکال کر بتائیں کہ ہماری یہ مہم کامیاب رہے گی یا ناکام قرآن اپنا حکم صادر کرچکا ہے خطیب نے آواز میں جوش پیدا کرتے ہوئے کہا اب میں آپ کے سامنے حقیقت پوری طرح بے نقاب کرتا ہوں صلاح الدین ایوبی خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر نہیں وہ ایک طوفان ہے ایک سیلاب ہے جو کفر کو گھاس کی سوکھی ہوئی پتیوں کی طرح بہا لے جانے کے لیے دمشق سے اٹھا ہے آپ سب درخت سے ٹوٹ کر گری ہوئی ٹہنیاں ہیں آپ کے پتے مرجھا رہے ہیں جو جھڑ کر اس طوفان کے ساتھ غائب ہوجائیں گے۔ ایوبی نے آپ پر چڑھائی نہیں کی آپ اس کے راستے میں آگئے ہیں۔ آپ کا حشر وہی ہوگا جو سیلاب کے راستے میں آنے والوں کا ہوتا ہے
خطیب! سیف الدین نے گرج کر کہا میرے دل سے اپنا احترام نہ نکالو تم سیف الدین خطیب نے بارعب آواز میں کہا تم زمین کے اس ذرا سے خطے کے بادشاہ ہو ڈرو اس کی ذات سے جو دونوں جہان کا بادشاہ ہے میرا احترام نہ کرو، میرے منہ پر تھوک دو مگر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے سے نہ ہٹو تم پر بادشاہی کا نشہ طاری ہے ان بے وقار سالاروں نے تمہاری حکومت کے عہدیداروں نے تمہیں خوش رکھنے کے لیے تمہیں بادشاہ بنا ڈالا ہے تم نہیں سمجھتے کہ یہ محض خوشامد ہے اور تم بادشاہ نہیں ہو۔ تم نہیں جانتے کہ یہ بے وقار خوشامدی تمہارے دشمن ہیں اپنی قوم کے اور اپنے ملک کے دشمن ہیں۔ تم پر زوال آئے گا تو یہ تمہیں پہچاننے سے بھی انکار کردیں گے اور اس کے پاپوش چاٹیں گے جو تمہاری گدی پر بیٹھے گا مجھے غصے سے نہ دیکھ سیف الدین اپنا گھر دوزخ میں نہ بنا تاریخ سے عبرت حاصل کر ان غلاموں کی ذہنیت والوں نے ایک سے ایک جابر بادشاہ کو گدا کیا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہوتا رہے گا افسوس اس پر ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت بھی اس تباہی کے راستے پر چل پڑی ہے تیرے جیسے بادشاہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاریخ کی نظروں سے اوجھل کرکے ہی دم لیں گے
لے جاؤ اسے یہاں سے سیف الدین غصے سے کانپتی آواز میں گرجا اسے وہاں بند کردو جہاں سے اس کی آواز میرے کانوں تک نہ پہنچ سکے
ایک سالار کے پکارنے پر دو باڈی گارڈ اندر آئے انہیں حکم دیا گیا کہ خطیب کو قید خانے میں لے جائیں اسے جب دونوں بازوؤں سے پکڑ کر لے جارہے تھے تو سیف الدین کو اس کی آوازیں سنائی دیتی رہیں بادشاہی کا لالچ مذہب سے بیگانہ کرتا ہے خوشامد پسند حکمران ملک اور قوم کو بیچ کھاتا ہے کافر کی دوستی دشمنی سے بھی زیادہ خطرناک ہے فلسطین ہمارا ہے فلسطین میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے تمہیں کافر اس لیے آپس میں لڑا رہا ہے کہ فلسطین پر اس کا قبضہ رہے آپس میں لڑتے رہو گے تو قبلۂ اول تم پر لعنت بھیجتا رہے گا
خطیب المخدوم کو گھسیٹ کر لے جارہے تھے اور وہ بلند آواز سے بولتا جارہا تھا بہت سے فوجی باہر نکل آئے اور آن کی آن میں یہ خبر تمام تر موصل میں پھیل گئ خطیب المخدوم پاگل ہوگیا ہے خطیب کو قید خانے میں بند کردیا گیا ہے یہ آوازیں شہر میں گھومتے پھرتے خطیب کے گھر کے دروازے میں داخل ہوگئیں اس گھر میں خطیب کی نوجوان بیٹی تھی اس گھر میں یہی دو افراد تھے یہ لڑکی اور اس کا باپ خطیب خطیب کی یہ واحد اولاد تھی اس کی بیوی عرصہ گزرا مرگئی تھی خطیب نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔ وہ اس بیٹی کے سہارے جی رہا تھا اور بیٹی اس کی خاطر زندہ تھی
بہت سی عورتیں اس کے گھر میں چلی گئیں یہ گھر سب کے لیے بڑا قابل احترام تھا کیونکہ یہ خطیب کا گھر تھا عورتوں نے لڑکی سے پوچھا کہ اس کے باپ کو اچانک کیا ہوگیا ہے؟ 
کیا واقعی وہ پاگل ہوگیا ہے؟
ایسا ہونا ہی تھا لڑکی نے کہا ایسا ہونا ہی تھا اس کے انداز میں ٹھہراؤ سا تھا افسوس اور گھبراہٹ نہیں تھی اس کے بعد اس کے پاس جو بھی عورت آئی لڑکی نے یہی کہا ایسا ہونا ہی تھا
موصل میں خطیب کو قید خانے میں ڈال دیا گیا حران میں دو سالاروں شمس الدین اور شادبخت کو گمشتگین نے قید خانے میں ڈال دیا تھا گمشتگین کو پہلی بار پتہ چلا کہ اس کے یہ دونوں سالار دراصل صلاح الدین ایوبی کے آدمی ہیں اور جاسوس ہیں ان دونوں کو قید خانے میں ڈال کر گمشتگین رات کے وقت قید خانے میں گیا شمس الدین اور شادبخت کو ان کی کال کوٹھریوں سے نکلوا کر انہیں اس جگہ لے گیا جہاں قیدیوں سے راز اگلوانے کے لیے کئی ایک وحشیانہ طریقے اختیار کیے جاتے تھے وہاں دو آدمی اس طرح لٹکے ہوئے تھے کہ چھت کے ساتھ بندھی ہوئی رسیوں سے ان کی کلائیاں بندھی ہوئی تھیں ان کے پاؤں زمین سے کوئی دوفٹ اوپر تھے اور ٹخنوں کے ساتھ کم وبیش دس دس سیر وزن کے لوہے کے ٹھوس گولے بندھے ہوئے تھے موسم سرد ہونے کے باوجود ان کے جسموں سے پسینہ اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے ان پر پانی انڈیلا گیا ہو ان کے بازو کندھوں سے الگ ہوئے جارہے تھے وہاں خون کی بدبو تھی اور گلی سڑی لاشوں کا تعفن بھی انہیں دیکھ لو گمشتگین نے دونوں بھائیوں سے کہا اس قید خانے میں آنے تک تم میری فوجوں کے مالک تھے شہزادے تھے اب تم بے کار جذبات میں الجھ کر اس دوزخ میں آگئے ہو تم غدار ہو تم میری آستین میں سانپوں کی طرح پلتے رہے ہو میں تمہیں اب بھی بخش دینے کے لیے تیار ہوں مجھے صرف یہ بتا دو کہ جن لڑکیوں کو تم نے یہاں سے بھگایا اور جو دو آدمی ان کے ساتھ گئے ہیں وہ کہاں گئے ہیں اور یہاں سے کیا کیا راز لے کر گئے ہیں شمس الدین اور شاد بخت مسکرا دئیے اور خاموش رہے گمشتگین نے کہا وہ صلاح الدین ایوبی کے پاس گئے ہیں کیا یہ جھوٹ ہے؟
دونوں نے کوئی جواب نہ دیا گمشتگین نے کہا ان دونوں کو دیکھ لو یہ تو جوان ہیں اس لیے ابھی برداشت کررہے ہیں۔ تم دونوں کو میں نے ان کی طرح لٹکا کر پاؤں کے ساتھ وزن باندھ دیا تو تم تھوڑی سی دیر میں اپنا سینہ کھول کر میرے سامنے رکھ دو گے اس کے بغیر ہی مجھے سب کچھ بتا دو وہ کوئی راز نہیں لے گئے شمس الدین نے کہا یہاں کوئی راز نہیں تمہارے متعلق سلطان ایوبی اچھی طرح جانتا ہے کہ تم صلیبیوں کی مدد سے اس کے خلاف لڑنے کی تیاری میں ہو ایوبی پوری تیاری کرکے تمہاری سرکوبی کے لیے آیا ہے یہاں سے کوئی کیا راز لے جائے گا راز صرف یہ فاش ہوا ہے کہ ہم دونوں بھائی تمہاری فوج کے سالار تھے تم ہمیں معتمد سمجھتے رہے لیکن ہم دراصل سلطان ایوبی کے آدمی ہیں میں دوسرا راز بھی تمہیں بتا دیتا ہوں شمس الدین کے بھائی شادبخت نے کہا یہ اتفاق ایسا ہوگیا ہے کہ دو مسلمان لڑکیاں تمہارے پاس تحفے کے طور پر آگئیں ہمیں پتہ چل گیا کہ وہ مظلوم ہیں اور مسلمان ہیں تمہارا بنایا ہوا قاضی ابو الخاشب تم سے پہلے ان لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا ہم نے لڑکیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھ کر بھگا دیا اور ابو الخاشب نے ہمارے لیے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ ہم نے اسے قتل کردیا اور تمہیں پتہ چل گیا تم نے ہمیں قید کردیا اگر ہم قید نہ ہوتے تو ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جب تم سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہمیں بھیجو گے تو ہم پوری فوج کو سلطان ایوبی کے گھیرے میں لے جا کر ہتھیار ڈال دیں گے۔ ہماری یہ آرزو پوری نہ ہوسکی ہم پھر بھی کامیاب ہیں شمس الدین نے کہا تم ہمیں سزائے موت دے دو ہمیں چھت سے لٹکا کر ہمارے پاؤں کے ساتھ بیس بیس سیر وزن باندھ دو ہمارے بازو کندھوں سے الگ کردو ہمیں اذیت کا کچھ احساس نہیں ہوگا اللہ کی راہ پر چلنے والوں کے لیے تیر پھول بن جاتے ہیں جسم فنا ہوجاتے ہیں روحیں نہیں مرا کرتیں اللہ کی راہ میں قربان ہونے والوں کی روحیں اللہ کو عزیز ہوتی ہیں مجھے وعظ نہ سناؤ گمشتگین نے کہا مجھے وہ راز بتاؤ غدارو جو تم نے صلاح الدین ایوبی کو بھیجا ہے
تم ہمیں غدار کہتے ہو؟
شمس الدین نے کہا یہی راز ہے جسے تم چھپانا چاہتے ہو کہ غدار کون ہے۔ تم یہ راز آنے والی نسلوں سے اور تاریخ سے بھی نہیں چھپا سکو گے کہ تم غدار ہو تاریخ پکار پکار کر کہے گی کہ صلاح الدین ایوبی فلسطین کو صلیبیوں سے آزاد کرانے کے لیے نکلا تھا مگر گمشتگین نام کا ایک مسلمان قلعہ دار اس کے راستے میں حائل ہوگیا تھا تم اگر اتنے پکے مسلمان ہوتے تو ہندوستان ہندوؤں کے حوالے کرکے نورالدین زنگی کے پاس نہ بھاگے آتے گمشتگین نے طنزیہ کہا تم غلام ملک سے آئے ہو ہندوستان کو ہم نے ہندوؤں کے حوالے نہیں کیا تھا شادبخت نے جواب دیا وہاں بھی تم جیسے مسلمان موجود تھے جنہوں نے ہندوؤں سے دوستی کی اور تمہاری طرح اپنی ذاتی بادشاہی کے خواب دیکھے۔ بادشاہی کا نشہ انہیں لے بیٹھا اور ہندو سارے ملک پر ہاتھ صاف کرگیا اگر ملک کی قسمت سالاروں کے ہاتھ میں ہوتی تو آج ہندوستان عرب کی سرزمین کے ساتھ ملا ہوا ہوتا مگر وہاں کی فوج کو بادشاہوں نے اپنا غلام بنا لیا تھا میں تمہیں دو دن اور سوچنے کا موقع دیتا ہوں گمشتگین نے کہا اگر میرے سوالوں کے جواب مجھے دے دو گے تو ہو سکتا ہے تمہیں اس جہنم سے نکال کر تمہارے گھروں میں تمہیں نظر بند کردوں اگر مجھے مایوس کرو گے تو میں تمہیں سزائے موت نہیں دوں گا انہی کال کوٹھڑیوں میں پڑے گلتے سڑتے رہو گے سوچ لو اور وہ حکم دے کر انہیں کوٹھڑیوں میں بند کردیا جائے چلا گیا گمشتگین نے اپنے قلعے میں صلیبی مشیر رکھے ہوئے تھے اس نے ان پر واضح کردیا کہ ان کا ایک ساتھی جو قتل ہوگیا ہے وہ کسی سازش کا شکار نہیں ہوا، بلکہ وہ حرم کی ایک لڑکی کے ہاتھوں قتل ہوا ہے گمشتگین نے انہیں یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے دو سالاروں کو قاضی کے قتل اور غداری کے جرم میں قید خانے میں ڈال دیا ہے اس نے ان سے مشورہ لیا کہ وہ فوری طور پر سلطان ایوبی کے خلاف فوج بھیجنا چاہتا ہے مجھے معلوم نہیں کہ ان دونوں سالاروں نے کیسے کیسے راز صلاح الدین ایوبی کو بھیج دئیے ہیں گمشتگین نے کہا پیشتر اس کے کہ وہ ان رازوں سے فائدہ اٹھائے ہمیں حملہ کردینا چاہیے اس صورت میں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہوگی صلیبی مشیروں نے مدد کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ اپنے ایک آدمی کو آج ہی رات صلیبیوں کے کیمپ کو روانہ کردیتے ہیں اسی رات ایک صلیبی روانہ ہوگیا موصل میں خطیب المخدوم قید خانے کی ایک کوٹھری میں بند تھا اور اس کی نوجوان بیٹی جس کا نام صاعقہ تھا گھر میں اکیلی بیٹھی تھی دن بھر عورتیں اس کے پاس جاتی رہی تھیں اور صاعقہ سب سے یہی کہتی رہتی تھی ایسا ہی ہونا تھا عورتوں نے غور نہیں کیا تھا کہ اس سے اس کا کیا مطلب ہے دو جوان لڑکیوں نے اس کے ان الفاظ اور انداز کو نظر انداز نہ کیا انہیں کچھ شک ہوا رات جب صاعقہ گھر میں اکیلی تھی یہ دونوں لڑکیاں اس کے گھر میں داخل ہوئیں صاعقہ انہیں اچھی طرح نہیں جانتی تھی تم سارا دن یہ کیوں کہتی رہی ہو کہ ایسا ہونا ہی تھا؟
ایک لڑکی نے پوچھا خدا کو ایسے ہی منظور تھا صاعقہ نے جواب دیا اس کے سوا میں اور کیا کہہ سکتی ہوں
کچھ دیر خاموشی طاری رہی آخر دوسری لڑکی نے کہا اگر اس سے تمہارا مطلب کچھ اور ہے تو صاف بتا دو ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ مدد کرسکیں خدا کے سوا میری کوئی مدد نہیں کرسکتا صاعقہ نے کہا میرے والد محترم نے کوئی اخلاقی جرم نہیں کیا انہوں نے امیر موصل کو کوئی کھری بات کہہ دی ہوگی وہ ہمیشہ حق بات کہا کرتے ہیں اسی لیے میں کہتی ہوں کہ ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ وہ خوشامد کرنے والے انسان نہیں یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے کیا کہا اور کیا کیا ہے دوسری لڑکی نے کہا ہم یہ کہنا چاہتی ہیں کہ انہوں نے صلاح الدین ایوبی کی حمایت میں کوئی بات کہہ دو ہوگی یہ تو تم ہی بتا سکتی ہو کہ وہ موصل کے والی کے حامی تھے یا صلاح الدین ایوبی کے تم جسے سچا سمجھتی ہو وہ اسی کے حامی تھے صاعقہ نے مسکرا کر پوچھا تم کس کی حامی ہو؟
صلاح الدین ایوبی کی دونوں لڑکیوں نے جواب دیا وہ بھی ایوبی کے حامی تھے صاعقہ نے جواب دیا سیف الدین کو پتہ چل گیا ہوگا وہ زبانی حمایت کرتے تھے یا عملاً بھی؟
ایک لڑکی نے پوچھا کیا تم جاسوسی کرنے آئی ہو؟
صاعقہ بھڑک کر بولی کیا موصل کا نوجوان خون بھی کفار کا حامی ہوگیا ہے؟
ہاں ایک لڑکی نے جواب دیا ہم دونوں جاسوسی کرنے آئی ہیں اور تمہیں یہ یقین دلانے آئی ہیں کہ موصل کا نوجوان خون کفار کا حامی نہیں بلکہ کفار کے پاؤں تلے سے عرب کی زمین نکالنے کے لیے بیتاب ہے اور اس عزم پر عمل کرکے دکھانے کو ابل رہا ہے تم ہماری ذہانت کا اندازہ اس سے کرو کہ تمہارے ان الفاظ کو کہ ایسا ہونا ہی تھا ہمارے سوا کوئی بھی نہیں سمجھ سکا ہم سمجھ گئی تھیں کہ تمہارے والد محترم سلطان ایوبی کے حامی ہوں گے اور ان کی سرگرمیوں کا علم والئی موصل کو ہوگیا ہوگا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی