⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 35👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➎➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مسلمانوں کے دو چار جاسوس پہلے ہی اس شہر میں موجود تھے لشکر ابھی شہر کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ یہ جاسوس شہر سے نکل آئے کیونکہ محاصرے کی صورت میں دروازے بند ہوجانے کی وجہ سے وہ باہر نہیں آ سکتے تھے۔ انھیں سپہ سالار کو ضروری اطلاعات کی معلومات دینی تھی ،عمرو بن عاص کو بتایا کہ شہر میں رسد اور پانی کی کمی ہے اور یہ دونوں چیزیں باہر سے اندر جاتی ہیں ۔
عمرو بن عاص کے لیے یہ اطلاع بڑی ہی اہم تھی انہوں نے رسد کے راستے بند کردیئے اور پانی بھی روک لیا۔
عمرو بن عاص کو پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ جب ام دنین کو محاصرے میں لیں گے تو بابلیون سے فوج نکل کر محاصرے پر حملہ کرے گی، عمرو بن عاص کے ساتھ لشکر پہلے ہی کم تھا جو محاصرے کے لیے بھی کافی نہیں تھا ۔ لیکن اسی کم لشکر میں سے انہیں ایسا انتظام بھی کرنا تھا کہ عقب سے حملہ آئے تو اس کا مقابلہ کیا جا سکے اس طرح انہیں محاصرہ کر کے دونوں طرف نظر رکھنی پڑی۔
تقریباً تمام مستند مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ہر وقت توقع تھی کہ مقوقس بابلیون سے کچھ دستے نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرے گا۔ لیکن وجہ معلوم نہیں ہوسکی کہ اس نے یہ کاروائی کیوں نہ کی ۔ بابلیون ام دنین کے جنوب میں چند میل دور تھا تاریخ میں صحیح فاصلہ نہیں لکھا غالبا دس اور پندرہ میل کے درمیان تھا۔
مشہور غیر مسلم مورخ ایلفریڈ بٹلر نے لکھا ہے کہ بابلیون سے مقوقس نے فوج نہیں نکالی تھی جس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس کے پیش نظر اطربون کا انجام تھا۔ اطربون نے بلبیس کے محاصرے کے دوران عقب سے جا کر مسلمانوں پر حملے کیے تھے لیکن مارا گیا، مقوقس کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کھلے میدان میں شکست نہیں دی جاسکتی اسے اپنی فوج کے مورال کا بھی اندازہ تھا۔ تاریخ میں آیا ہے کہ رومی فوج اسی پر حیران رہ گئی تھی کہ مسلمانوں نے اتنی تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی ام دنین کو آ کر محاصرے میں لے لیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ام دنین میں جو رومی فوج تھی اس نے وہی مخصوص انداز اختیار کیا جو فرما اور بلبیس کے دفاع میں دیکھا گیا تھا وہ یہ کہ دو تین دنوں کے وقفے سے شہر کے دو تین دروازے کھلتے رومی فوج کے کچھ دستے باہر آتے اور محاصرے پر حملہ کرتے لیکن جم کر لڑنے کی بجائے واپس چلے جاتے اور شہر کے دروازے پھر بند ہو جاتے تھے۔
عمرو بن عاص نے یہاں یہ طریقہ اختیار کیا کہ تمام لشکر سے کہا کہ جب اندر سے فوج نکلے تو آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ نہ کیا جائے، یا یہ کہ جم کر مقابلہ نہ کیا جائے ،اور زیادہ تیراندازی کی جائے دراصل عمرو بن عاص اپنی نفری کو بچانے کی کوشش میں تھے وہ بہت بڑے خطرے میں کود تو آئے تھے لیکن انہوں نے اپنا دماغ حاضر رکھا ہوا تھا اور پوری احتیاط اور جنگی تدبیر سے کام لے رہے تھے ان کا تیر اندازی والا طریقہ خاصا کامیاب رہا اندر سے دستے باہر آتے تو تیرانداز مجاہدین پیچھے ہٹتے ہوئے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیتے اس طرح ہر بار رومی اپنے کئی ایک سوار باہر ہی پھینک کر واپس چلے جاتے تھے۔
ایسے تین چار حملے ہی اندر سے آئے ہوں گے کہ ایک عربی گھوڑسوار آیا اور اس نے عمرو بن عاص کو اطلاع دی کہ کمک کا کچھ حصہ ایک دو دنوں تک پہنچ رہا ہے عمرو بن عاص نے یہ خبر تمام لشکر کو سنا دی کہ کمک آ رہی ہے۔ یہ سن کر مجاہدین کے لشکر میں نئے حوصلے اور تروتازگی کی لہر دوڑ گئی۔
معروف مصری تاریخ داں محمد حسنین ہیکل نے مختلف مؤرخوں کے حوالوں سے کمک کے متعلق جو تفصیلات لکھی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کے پوری چارہزار کی کمک اکھٹی نہیں پہنچی تھی یہ دو حصوں میں آئی تھی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کمک کے دونوں حصوں میں کچھ زیادہ ہی فاصلہ تھا دوسرا حصہ بہت دنوں بعد پہنچا تھا۔ یہ پتا نہیں چلتا کہ دونوں حصوں کی الگ الگ نفری کیا تھی ساری کمک کی نفری چار ہزار تھی یہ کمک تقریبا ساری گھوڑ سوار تھی۔
دو تین دنوں بعد کمک کا پہلا حصہ پہنچ گیا شہر کی دیواروں پر کھڑے رومی فوجیوں نے جب کمک کو آتے دیکھا تو ان پر مایوسی اور مرونی چھا گئی ان پر یہ اثر ہوا کہ انھوں نے باہر نکل کر حملوں کا سلسلہ بہت ہی کم کردیا۔ ان حملوں میں وہ پہلے ہی مسلمان تیر اندازوں سے خاصہ جانی نقصان اٹھا چکے تھے اور ان کے بہت سے گھوڑے مجاہدین کے ہاتھ لگ گئے تھے۔
محاصرے کو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا محاصرے کی صورت میں اندر سے کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی کہ رسد اور پانی کی کیفیت کیا ہے ۔ یہ عمرو بن عاص کا اندازہ تھا کہ اب تک شہر میں اور فوج کے لیے رسد اور پانی کی خاصی کمی واقع ہو چکی ہو گی اور یہ رومیوں کے لئے بڑا تلخ اور پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہوگا۔
ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے کہا کہ بیک وقت قلعے پر ہلہ بول دیا جائے اور دروازے توڑنے کی کوشش کی جائے ظاہر ہے کہ ایسا خطرناک اور دلیرانہ اقدام اندھا دھند نہیں کیا جاتا تھا تیر اندازوں کو اتنے فاصلے پر جانے کو کہا گیا جہاں سے وہ دیواروں پر کھڑے رومی فوجیوں کو تیروں کی زد میں لے سکتے تھے۔ بابلیون سے فوج کے آنے کا خطرہ بھی تھا اس کی قبل از وقت اطلاع دینے کا یہ اہتمام کیا گیا کہ اپنے جاسوس بابلیون کے راستے پر بھیج دیئے گئے کہ جونہی ادھر سے دستہ آئے فوراً اطلاع دی جائے۔ اس کے علاوہ عمرو بن عاص نے تین چار چھاپہ مار ٹولیاں بھی بھیج دیں ان ٹولیوں کو گھات میں بٹھانا تھا اور اس صورت میں کے بابلیوں سے فوج آرہی ہے اس پر دائیں بائیں سے حملے کرکے نقصان پہنچانا تھا۔
ان تین چھاپہ مار ٹولیوں میں حدید، فہد ،مسعود، اور نومسلم فاروق خاص طور پر شامل تھے۔ یہ سب چھاپہ مارنے اور شب خون مارنے کا خصوصی تجربہ رکھتے تھے۔
اللہ کے نام لیواؤں کو اللہ کی مدد حاصل تھی ادھر عمرو بن عاص نے قلعے پر ہلہ بولنے کا حکم دیا ادھر شہر کے دو تین دروازے کھلے اور رومی فوج روکے ہوئے سیلاب کی طرح حملہ کرنے کو باہر نکلنے لگی، تمام فوج ایک ہی بار تو باہر نہیں نکل سکتی تھی دروازوں میں سے دو دو تین تین گھوڑے نکل رہے تھے عمرو بن عاص نے اپنی اسکیم کے مطابق پورے لشکر کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔
تاریخوں میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اس حملے میں عمرو بن عاص سب سے آگے تھے
رومی سوار جو باہر آ چکے تھے وہ شہر کی دیوار اور مجاہدین کے تیزوتند سیلاب کی طرح بڑھتے ہوئے ریلے کے درمیان کچلے گئے، اور جو رومی ابھی باہر نکل رہے تھے وہ دروازوں میں سے ہی واپس اندر جانے لگے۔ مجاہدین نے انھیں دروازے بند کرنے کی مہلت نہ دی اور ان کے پیچھے شہر میں داخل ہوگئے لیکن وہ یقینی موت کے خطرے میں چلے گئے تھے۔ کیونکہ ان کی تعداد کم تھی تمام مجاہدین اکٹھے اندر نہیں جا سکتے تھے۔
تیر اندازوں نے اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں اور دیواروں کے اوپر کھڑے رومی فوجیوں پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص خود صدر دروازے پر جا پہنچے اور کلھاڑی لے کر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے دروازے پر ضرب لگائی ،کسی مجاہد نے انکے ہاتھوں سے کلہاڑا لے لیا اور مجاہدین نے دیکھتے ہی دیکھتے دروازہ توڑ ڈالا۔
اس موقع پر وہ دہشت کام آئی جو رومی فوج پر پہلے ہی طاری تھی اب مجاہدین نے جو دلیرانہ ہلّہ بولا تھا اس سے اس دہشت میں اضافہ ہو گیا ،اور شہر میں بھگدڑ مچ گئی شہریوں میں افراتفری کا بپا ہو جانا قابل فہم تھا ،فوجیوں میں بھی بھاگ نکلنے کی کیفیت پیدا ہوگئی رومی فوج میں یہ پہلے ہی مشہور ہوچکا تھا کہ مسلمانوں میں کوئی ایسی پراسرار طاقت ہے کہ وہ کتنے ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں، کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کو زیر کر لیتے ہیں اب یہ فوجی مسلمانوں کی بے جگری اور بے خوفی کو دیکھ رہے تھے۔
اگر رومی فوجی ہمت اور حوصلہ ہارنے کی بجائے دروازوں کے سامنے قدم جما کر کھڑے ہو جاتے تو وہ اندر آتے ہوئے مجاہدین کو دروازوں میں ہی کاٹ دیتے لیکن وہ ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھے تھے۔ عمرو بن عاص نے حکم دیا کہ کسی شہری مرد اور عورت پر ہاتھ نہیں اٹھانا اور کسی فوجی کو زندہ نہیں رہنے دینا۔ سپہ سالار نے ایسے الفاظ کہے تو نہیں تھے لیکن ان کا مطلب صاف تھا کہ وہ کوئی قیدی نہیں لیں گے سب کو ختم کر دیا جائے ۔ خاصا وقت رومیوں کا قتل عام جاری رہا۔
قلعہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا تھا ۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد کئی رومی باہر نکلے یا ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے گئے ۔ان پر عمرو بن عاص کو رحم آگیا اور حکم دیا کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے۔
عمرو بن عاص نے دیوار پر جاکر ان مجاہدین کو دیکھا جنہیں باہر اس مقصد کے لئے چھوڑ آئے تھے کہ بابلیون کی طرف سے رومی فوج آجائے تو اسے باہر ہی روک لیں,,,,,,,, باہر خیر و عافیت تھی کوئی رومی دستہ حملے کے لئے نہیں آیا تھا۔
بٹلر نے چند عربی مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ یہ حملہ خود مجاہدین کے لئے اتنا خطرناک تھا کہ اسے خودکش حملہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا خطرناک بھی ایسا کہ بعض مجاہدین آگے بڑھنے سے گھبرانے لگے ان کے انداز اور رویے میں کوتاہی اور گریز صاف نظر آرہا تھا۔ بٹلر لکھتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو مجاہدین پر جبر کرنا پڑا اور سارے لشکر میں گھوم پھر کر غصے کی حالت میں حکم دیا کے آگے بڑھو ایک مجاہد نے کہا کہ ہم لوہے کے بنے ہوئے نہیں عمرو بن عاص نے اس مجاہد کو بڑے ہی سخت الفاظ کہے۔
تاریخ دان محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسی کسی روایت کا اشارہ نہیں ملتا ہو سکتا ہے کسی اور جنگ میں ایسا ہوا ہو ،ام دنین کی لڑائی میں ایسا بالکل نہیں ہوا البتہ یہ بات ضرور ہوئی تھی کہ کچھ صحابہ کرام بھی اس لشکر میں شامل تھے عمرو بن عاص کو پوری طرح احساس تھا کہ وہ اپنے لشکر کو یقینی ہلاکت میں جھونک رہے ہیں انہوں نے صحابہ کرام سے یہ الفاظ کہے آپ میرے ساتھ ہیں تو اللہ آپ کے طفیل ہمیں فتح عطا فرمائے گا۔
صحابہ اکرام نے یہ الفاظ سنے تو وہ عمرو بن عاص کے ساتھ سب سے آگے اس حملے کے لئے پورے جوش و خروش سے بڑھے ۔ انہیں دیکھ کر پورے لشکر میں نیا ہی جوش پیدا ہو گیا اور یہ اسی جوش کا اثر تھا کہ ام دنین جیسا مستحکم قلعہ جس میں فوج کوئی تھوڑی نہیں تھی مٹھی بھر مجاہدین نے فتح کر لیا ۔ اس وقت مقوقس بابلیون میں تھا تاریخ حیران ہے کہ ام دنین میں اسکی فوج کا قتل عام ہو رہا تھا اور وہ بابلیون میں اتنی زیادہ فوج لے کر بیٹھا رہا حالانکہ اس کی دفاعی اسکیم یہی تھی کہ ام دنین پر حملہ ہوا تو وہ بابلیون سے فوج لے کر اس حملے کو ناکام بنا دے گا۔
ام دنین سے بھاگے ہوئے کچھ رومی بابلیون پہنچے اور انھوں نے مقوقس کو بتایا کہ ام دنین میں کیا ہوا ہے؟ ،،،،،،
ایک تو ام دنین پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تھا اور دوسرا صدمہ یہ کہ وہاں جو فوج تھی اس کی اکثریت کٹ مری ہے ،اور وہی فوجی بچے تھے جو کہیں چھپ گئے تھے اور اب وہ جنگی قیدی ہیں اس کا مطلب یہ تھا کہ رومی فوج کی اتنی زیادہ نفری ختم ہی ہو گئی تھی۔
تاریخ میں آیا ہے کہ جب مقوقس کو یہ اطلاع پہنچی تو اس پر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ منہ کچھ زیادہ کھل گیا اور آنکھیں ٹھہر سی گئیں جیسے اسے توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان ام دنین کو فتح کرلیں گے اس کا دماغ تو شاید سوچنے سے ہی معذور ہو گیا اگر وہ حوصلہ قائم رکھتا اور ٹھنڈے دل سے سوچتا تو اسکے پاس اتنی فوج تھی کہ وہ فوراً جاکر ام دنین کو محاصرے میں لے لیتا ،قلعہ فتح ہوتا یا نہ ہوتا اسے یہ فائدہ ضرور ملتا کہ مسلمان ام دنین میں ہی قید ہو کر بیٹھے رہتے۔
ام دنین سے کچھ اور فوجی اور شہری بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے بابلیون پہنچے تو انہوں نے وہاں کی فوج کو مجاہدین اسلام کی بے خوفی کی ایسی باتیں سنائیں جنہوں نے سب کو حیرت زدہ او دہشت زدہ بھی کردیا فوجی خوفزدہ تو یہ سن کر ہوئے کے مسلمانوں نے رومی فوج کا کوئی ایک بھی افسر اور سپاہی زندہ نہیں رہنے دیا تھا۔ وہاں سے بھاگ کر آنے والے بعض فوجیوں نے یہ الفاظ کہے کہ مسلمان جنوں اور بھوتوں کی طرح قلعے میں داخل ہوئے تھے انہیں انسانوں کے روپ میں دیکھ کر بھی کوئی رومی یقین سے نہیں کہتا تھا کہ یہ انسان ہے,,,,,,,,,, آج کے علمی نفسیات کی زبان میں یوں کہنا چاہیے کہ مجاہدین اسلام نے رومی فوج پر نفسیاتی فتح پائی تھی اور ایسی فتح ایمان والے اور اپنے اللہ پر یقین رکھنے والے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
مقوقس ابھی ام دنین کا صدمہ برداشت کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک جاسوس نے یہ خبر سنائی کے مسلمان دریائے نیل پارکر کے احرام کے علاقے میں سے آگے کو گزر گئے ہیں,,,,,,,,,, یہ سارا علاقہ لق و دق صحرا تھا ۔ مقوقس کو پہلی حیرت تو اس پر ہوئی کہ ان مسلمانوں نے دریا کس طرح عبور کرلیا ہے پھر وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ یہ جا کہاں رہے ہیں ؟
تاریخی تحریروں کے مطابق اس وقت مقوقس کے ساتھ اطربون کے بعد نامور جرنیل تھیوڈور تھا ویسے بھی یہ جرنیل مقوقس کا منظور نظر تھا۔ یہ دونوں اس مسئلہ پر بات کرنے لگے کہ مسلمانوں کا اگلا ہدف کیا ہے۔
کیا مسلمان اسکندریہ پر حملہ کرنے جارہے ہیں دونوں نے اس سوال پر بحث مباحثہ کیا اور اس رائے پر متفق ہوئے کہ مسلمانوں کا یہ سپہ سالار ایسی خطرناک حماقت نہیں کرے گا۔ اس وقت تک مقوقس اور تھیوڈور عمرو بن عاص کے لڑنے کا انداز اور ان کی جنگی پالیسیوں اور چالوں کو سمجھ گئے تھے۔ انھوں نے اسی وقت جاسوس دوڑا دیے کہ وہ جا کر دیکھیں کہ مسلمانوں کا رخ کس طرف ہے۔
جلد ہی پتہ چل گیا کہ مسلمانوں کا رخ فیوم کی طرف ہے حقیقت بھی یہی تھی کہ عمرو بن عاص کا اگلا ہدف فیوم تھا ۔ فیوم ایک بڑی بستی بھی تھی اور اس علاقے کو فیوم ہی کہتے تھے وہ تھا تو صحرا لیکن اناج اور مویشیوں کی وہاں کوئی کمی نہیں تھی۔
عمرو بن عاص کو اپنے لشکر کے لیے رسد اور گوشت کی ضرورت تھی۔
مسلمانوں کا نیل کو عبور کر جانا مقوقس کے لیے باعث حیرت تھا یہ مسلمانوں کی مستعدی اور چابکدستی کی ایک واضح مثال تھی انہوں نے فتح کیا تو دو یا تین دن شہر کا نظام بحال کرنے میں گزارا اور لشکر کو ذرا سا بھی سستانے نہ دیا ۔ ام دنین ایک دریائی گھاٹ تھی جسے بعض نے پتن لکھا ہے ،اور بعض مؤرخوں نے بندرگاہ کہا ہے۔
اس بندرگاہ پر بہت سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے بادبانی جہاز کھڑے تھے اور چھوٹی بڑی کشتیوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ ام دنین کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی جب عمرو بن عاص نے مجاھدین کا ایک چھوٹا سا دستہ بندرگاہ پر بھیج دیا تھا کہ وہاں سے کوئی جہاز اور کوئی کشتی نکل نہ جائے ،اور ان کے ملاح وہاں موجود رہیں۔ اس طرح انہوں نے کشتیوں اور جہازوں کے پورے بیڑے پر قبضہ کر لیا تھا۔
دو ہی دنوں بعد لشکر کو آرام کی مہلت دیئے بغیر عمرو بن عاص نے مکمل خاموشی سے رات کے وقت کشتیوں اور جہازوں میں سوار کیا اور نیل پار کر لیا جہاز اور کشتیاں اسی کنارے پر لنگر انداز رہیں ۔ ادھر جاسوسوں نے مقوقس کو صحیح خبر دے دی کہ مسلمان فیوم کے علاقے میں جا رہے ہیں۔
مقوقس نے یہ دفاعی انتظام کیا کہ کچھ دستے اس علاقے میں بھیج دیے وہ صحرا ہموار یا میدانی قسم کا نہیں تھا اس میں گہرے اور وسیع نشیب بھی تھے ۔ٹیلے اور گھاٹیاں بھی تھیں اور اس طرح چھپنے کا بہترین قدرتی انتظام تھا کہ چھاپہ مار بڑی آسانی سے گھات لگا سکتے تھے۔
مقوقس نے اپنے دستے بھیج تو دیے لیکن انہیں سختی سے کہا کہ مسلمانوں کے آمنے سامنے صحرا میں نہ آنا، کیوں کے صحرا کی لڑائی میں مسلمانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی ۔ مقوقس کے الفاظ یہ تھے کہ عرب کے مسلمان ریگستان کی پیداوار ہیں اور جہاں کہیں یہ کسی ریگستان میں چلے جاتے ہیں وہاں ان کی جسمانی اور روحانی قوت پوری طرح بیدار ہوجاتی ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین کے لشکر کے ساتھ مصری بدو بھی تھے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ جب مجاہدین کے لشکر میں آئے تھے تو ان سے یہ کام لیا گیا تھا کہ بستیوں کی طرف چلے جائیں اور چھاپے اور شب خون مارکر اناج اور مویشی اکٹھا کریں اور وہ لشکر کے لئے لائیں۔
ان بدوؤں نے بڑی خوش اسلوبی اور بڑی کامیابی سے یہ کام کیا تھا انہوں نے لشکر کے لئے اور اپنے لیے خوراک کی کوئی کمی نہیں رہنے دی تھی اس کے بعد انہوں نے لڑنے کے علاوہ اپنا یہ فرض کئی بار ادا کیا اور لشکر کی ضرورت پوری کرتے رہے۔
عمرو بن عاص جب فیوم کے علاقے میں گئے اس وقت بھی لشکر کو رسد کی ضرورت تھی بدو اس کام میں مہارت حاصل کر چکے تھے اس لئے سپہ سالار نے یہ کام انہی کو سونپا،،،،، بدو ٹولیوں میں بٹ کر صحرائی بستیوں کی طرف چلے گئے یہ بستیاں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور وہاں جا کر صحرا ختم ہو جاتا تھا اور زمین زرخیز تھی وہاں گھروں میں اناج بھی تھا اور بھیڑ بکریاں اور مویشی بھی افراط سے تھے۔
بدو اب بستیوں پر چھاپے یا شبخون نہیں مارتے تھے۔ بلکہ اب کوشش کرتے تھے کہ ان کے ہاتھوں کوئی قتل یا زخمی نہ ہو وہاں جاکر اعلان کردیتے کہ لشکر کے لئے اناج اور مویشیوں کی ضرورت ہے اگر لوگ خود ہی یہ چیزیں مہیا نہیں کریں گے تو گھر گھر کی تلاشی لے کر آخری دانہ بھی اٹھا لیا جائے گا اور کوئی ایک بھی مویشی پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔
بدو ان لوگوں کو یقین بھی دلاتے تھے کہ یہ مسلمانوں کا لشکر ہے جیسے ہی اسے فتح حاصل ہوگی اور مصر کی حکومت انکے ہاتھ آگئی تو وہ ان دیہاتوں کی کایا پلٹ دیں گے ہر کسی کو پورے حقوق ملیں گے اور یہ مسلمان رومی بادشاہوں کی طرح بادشاہ نہیں کسی کا حق چھینتے نہیں بدو یہ بھی کہتے تھے کہ مسلمان ایک ایک دانے اور ایک ایک جانور کی قیمت ادا کریں گے۔
دیکھتے ہی دیکھتے بدؤوں نے اناج اور دیگر اشیائے خوردنوش کے انبار لگا دیے اور بھیڑ بکریاں اور مویشی اس قدر اکٹھے کر لیے جو بہت دنوں کے لئے کافی تھے۔
ان بدوؤں سے ایک فائدہ تو یہ پہنچا کہ وہ خوراک اکٹھی کرنے کے ماہر ہو گئے تھے اور پھر لڑتے بھی تھے اب انہیں باقاعدہ ترتیب اور تنظیم میں لڑنا آگیا تھا فیوم کے علاقے میں جاکر ان بدوؤں سے ایک فائدہ اور حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ جس علاقے سے یہ بدو خوراک اور مویشی لا رہے تھے اس علاقے میں بھی انہی جیسے مصری بدبو بھی رہتے تھے کیونکہ یہ ایک ہی نسل کے تھے اس لئے یہ ایک دوسرے کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے تھے۔
بدوؤں کی ایک چھاپہ مار ٹولی کسی بستی میں گئی تو وہاں کچھ بدو رہتے تھے انہوں نے ان بدوؤں سے پوچھا کہ وہ کیوں یہ ڈاکہ زنی کررہے ہیں لشکر والے بدوؤں نے انہیں تفصیل سے بتایا کہ وہ ڈاکو نہیں بلکہ عرب کے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور یہ مسلمان مصر کو فتح کرلیں گے۔
چونکہ تم بھی ہم جیسے بدو ہو اس لئے ہم تمہیں خبردار کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
فیوم کے بدوؤں کے ایک آدمی نے انہیں کہا۔۔۔۔ اس بستی میں تو تم آگئے ہو اس سے آگے نہ جانا آگے رومی فوج آگئی ہے جس کی تعداد کچھ زیادہ ہے تمہاری یہ چند آدمی کی ٹولی ایک ہی ہلّے میں رگڑی جائے گی۔
عمرو بن عاص کے لشکر کے بدوؤں نے ان بدوؤں سے پوری تفصیل معلوم کرلی کہ رومی فوج یہاں سے کتنی دور ہے اور وہ آگے بڑھ رہی ہے یا اس کا انداز کیا ہے،،،،، یہ معلومات لے کر ان بدوؤں نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا۔
عمرو بن عاص رومی فوج کی آمد سے بالکل ہی بے خبر تھے اس علاقے میں انھوں نے اپنا کوئی ایک بھی جاسوس نہیں بھیجا تھا کیوں کہ انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ رومی فوج اس طرف آئے گی اب انہیں فوج کی اطلاع ملی تو انہوں نے لشکر کو وہیں سے واپسی کا حکم دے دیا وہ اس رومی فوج سے ٹکر لینا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ بے مقصد لڑائی ہوتی یہی طاقت عمرو بن عاص کسی قلعہ بند شہر پر استعمال کرنا زیادہ بہتر اور سودمند سمجھتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ مجاہدین کا لشکر ایک جگہ عارضی پڑاؤ کیے ہوئے تھا جو ضروری سمجھا گیا ۔
دو تین بدو اس پڑاؤ کے قریب سے گزرے انہوں نے مجاہدین کے لشکر کے ساتھ بدو دیکھے تو وہ بھی رک گئے لشکر والے بدو انہیں مہمان کے طور پر پڑاؤ میں لے آئے اور ان کی کچھ خاطر مدارت کی۔
ان بدوؤں نے بھی پوچھا کہ یہ لشکر کس کا ہے اور وہ یعنی بدو اس کے ساتھ کیوں ہیں؟ لشکر والوں نے انہیں وہی تفصیل سنا دی جو وہ پہلے ایک بستی میں بدوؤں کو سنا چکے تھے.
ایک بار غور سے سن لو ۔۔۔۔ایک بدو مہمان نے کہا۔۔۔۔ رومی فوج کا ایک زیادہ نفری والا دستہ تمہاری طرف آرہا ہے ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ سیدھا نہیں آ رہا بلکہ صحرا کی گہرائیوں میں چھپتا چھپاتا اور لمبے چوڑے ٹیلوں کی اوٹ سے پیچھے پیچھے آرہا ہے تاکہ تمہارے لشکر پر بے خبری میں حملہ کر سکے۔
لشکر کے بدو ان بدو مہمانوں کو ایک سالار کے پاس لے گئے جس نے ان بدوؤں سے رومی فوج کے اس دستے کے متعلق تفصیلات معلوم کیں انہوں نے یہاں تک بتا دیا کہ اس دستے کے ساتھ ایک جرنیل ہے جس کا نام حناّ ہے اور وہ علاقے کا مشہور جرنیل ہے اور لوگ اس سے بہت ڈرتے ہیں۔ سالار نے یہ اطلاع پوری تفصیل سے سپہ سالار عمرو بن عاص تک پہنچائی، عمرو بن عاص نے اسی وقت لشکر کو واپسی کے لئے کوچ کا حکم دیا لیکن لشکر کا ایک دستہ الگ کر لیا اسے ایک سالار کی قیادت میں دے کر کچھ خصوصی ہدایات دیں، باقی لشکر واپسی کو روانہ ہوگیا اور یہ الگ کیا ہوا دستہ اس طرف چلا گیا جس طرف بدوؤں نے بتایا تھا کہ رومی دستہ چھپ چھپ کر آرہا ہے۔
اس مسلمان دستے نے ایک خاص چھپنے والی جگہ جاکر گھات لگائی سارا دستہ ایک ہی جگہ اکٹھا نہ رہا بلکہ تین چار حصوں میں بٹ کر ٹیلوں اور گہری نشیبوں میں چھپ گیا ۔
رومی دستہ جس کی نفری مسلمانوں کے دستے سے دگنی تھی اس طرف آ رہا تھا اور اس سے بے خبر کہ وہ ایک گھات میں آ رہا ہے۔
سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے رومی دستہ گھات میں آ گیا اور اس پر ہر طرف سے قیامت ٹوٹ پڑی پیشتر اس کے کہ رومی جرنیل حناّ سمجھ پاتا کہ یہ کیا ہوا ہے وہ مارا جاچکا تھا اس کے دستے کا کوئی ایک بھی فرد مجاہدین نے زندہ نہ چھوڑا وہ جو مجاہدین پر بے خبری میں شب خون مارنا چاہتے تھے مجاہدین کی گھات میں آکر مارے گئے اور فرعون کے صحرا کی ریت ان کا خون چوسنے لگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کسی قریبی بستی کے مکینوں نے بابلیون جاکر مقوقس کو اطلاع دی کہ اس کا بھیجا ہوا دستہ مارا گیا ہے اور جرنیل حنّا بھی زندہ نہیں رہا ۔مقوقس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اور اسے معلوم تھا کہ ہرقل حنّا کی موت کو مشکل سے ہی برداشت کرے گا۔ کیونکہ حنّا بھی اطربون جیسا ہی قابل اور تجربہ کار جرنیل تھا ۔
مقوقس کو یہ بھی معلوم تھا کہ جب ہرقل کو بزنطیہ حنّا کی موت کی اطلاع ملی تو وہ پہلا سوال یہ کرے گا کہ اس کے جواب میں کیا کارروائی کی گئی تھی۔
ہرقل کے عتاب سے بچنے کے لیے مقوقس نے مجاہدین کے لشکر پر جوابی حملہ کرنے کے لئے اچھی خاصی فوج بھیج دی، فوج جب اس مقام تک پہنچی جہاں حنّا اور اس کا دستہ مارا گیا تھا تو دیکھا کہ مسلمانوں کا لشکر دور نکل گیا تھا اور نیل کے کنارے پر جا پہنچا تھا۔
تاریخ میں اس رومی جرنیل کا نام نہیں ملتا جو اس رومی فوج کا کمانڈر تھا اس نے دیکھا کہ مسلمان دور نکل گئے ہیں تو وہ اپنی فوج کو وہیں سے واپس لے گیا۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ رومی مسلمانوں سے صحرا میں لڑنے سے ڈرتے تھے ان کے سامنے شام کا تجربہ تھا یہ جرنیل اسی ڈر سے اپنی فوج واپس لے گیا تھا لیکن مقوقس کو یہ جواز پیش کیا کہ مسلمان اسے دیکھتے ہی بھاگ اٹھے تھے اور نیل تک جاپہنچے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ حقیقت یہ تھی کہ یہ جرنیل اور باقی فوجی بھی بہت خوش تھے کہ صحرا میں مسلمانوں سے ٹکر نہ ہوئی اور وہ زندہ واپس آ گئے ہیں۔
مستند مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اصل واقعہ یہ تھا کہ عمرو بن عاص وہاں لڑنا ہی نہیں چاہتے تھے اور ذرا سا بھی وقت ضائع کئے بغیر نیل کے مشرقی کنارے پر ام دنین تک جا پہنچنے کی فکر میں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ایک قاصد نے انھیں صحرا میں آ کر اطلاع دی تھی کہ کمک کا باقی حصہ بھی پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ کمک ام دنین نہیں پہنچی بلکہ ایک اور مقام ہیلو بولیس کے مقام پر خیمہ زن ہو گئی ہے۔
عمرو بن عاص یہ سوچ کر بڑی تیزی سے کمک تک پہنچنے کی کوشش میں تھے کہ ایسا نہ ہو کے کمک ان کے پیچھے فیوم کے علاقے تک پہنچنے کے لئے دریا عبور کرنے کی کوشش کرے۔ اور مقوقس بابلیون سے فوج بھیج کر اس پر حملہ کر دے مقوقس کی کوشش یہی ہونی چاہیے تھی کہ کمک لشکر تک نہ پہنچ سکے عمرو بن عاص دور اندیش اور باریک بین سپہ سالار تھے پیشتر اس کے کہ کمک ان کی طرف روانہ ہوتی وہ کمک تک پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ رومی کمک پر حملہ کردیتے تو صورتحال بڑی ہی مخدوش ہو جاتی۔
بحری جہاز اور کشتیاں نیل کے مغربی کنارے پر موجود تھیں عمرو بن عاص نے لشکر کو ان پر سوار کیا اور پورا لشکر خیر و عافیت سے دریا پار کر گیا عمرو بن عاص ام دنین جانے کی بجائے ہیلو بولیس جا پہنچے اور کمک سے مل گئے، اس کے سپہ سالار زبیر بن عوّام رضی اللہ تعالی عنہ تھے جن کا تفصیلی ذکر پہلے آچکا ہے۔
وہ مؤرخین جو جنگی امور کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے اپنی تحریروں میں حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ مقوقس نے بابلیون میں اتنی زیادہ فوج رکھی ہوئی تھی لیکن نہایت اچھے موقعے ملنے کے باوجود اس فوج کو استعمال نہ کیا معروف غیر مسلم تاریخ داں ایلفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے دو مرتبہ نیل عبور کیا ایک بار ام دنین سے فیوم کی طرف گئے، اور دوسری بار اس طرف سے واپس مشرقی کنارے پر آئے، یہ موقع تھا کہ مقوقس دریا میں اس لشکر پر حملہ کر دیتا اس کی فوج دریا کے دونوں کناروں پر کھڑی ہو کر تیر اور برچھیاں پھینکتی تو مسلمانوں کے لشکر کے لئے بڑی ہی مہلک مشکل پیدا ہوجاتی۔
بٹلر نے آگے چل کر لکھا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر دریا پار کرکے فیوم کے صحرا میں چلا گیا تھا اس وقت ام دنین میں مسلمانوں کی نفری بہت ہی تھوڑی تھی ۔ مقوقس اس وقت ام دنین کو محاصرے میں لے کر ہلہ بول دیتا تو وہ ام دنین پر دوبارہ قبضہ کرسکتا تھا۔
بٹلر نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی کمک آئی اور بابلیون میں اس کی خبر تک نہ پہنچی۔ خبر ضرور پہنچی ہوگی لیکن مقوقس اور جرنیل تھیوڈور نے کمک پر حملہ نہ کیا اور یہ موقع ضائع کردیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ رومی فوج بابلیون شہر کی دیواروں کے اندر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی اور وہیں دبکی رہنا چاہتی تھی ، جب کہ مسلمانوں کے حوصلے اور زیادہ بڑھ گئے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کمک تک پہنچے وہاں قدیم عمارات کے کھنڈر تھے ۔عمرو بن عاص نے وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ سے مل کر اگلے اقدام کے متعلق سوچنے لگے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ ہرقل کو جب اطلاع پہنچی کہ اس کا منظور نظر جرنیل حنّا مارا گیا ہے تو اسے اتنا صدمہ ہوا کہ اس کے آنسو پھوٹ پڑے اس نے حکم بھیجا کہ حنّا کی لاش اس کے پاس بزنطیہ بھیجی جائے۔ یہ حکم مقوقس تک پہنچا تو اس نے تابوت سے لاش نکلوا کر اسے حنوط کیا اور بزنطیہ روانہ کردی۔
ہرقل نے جب حنّا کی لاش دیکھی تو اس نے بلند اور غصیلی آواز میں عہد کیا کہ میں مصر کو مسلمانوں سے بچانے کے لئے اپنی تمام تر جنگی طاقت استعمال کروں گا اور مسلمانوں کو نیست و نابود کر کے دم لونگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہیلو بولیس کے جن کھنڈرات میں عمرو بن عاص مدینہ سے آئی ہوئی کمک سے جا ملے تھے وہ کھنڈرات کا ہی شہر تھا کوئی ایک بھی مقام صحیح و سلامت کھڑا نظر نہیں آتا تھا وہاں صحرائی لومڑیوں سانپ بچھوؤں اور چمگادڑوں کا بسیرا تھا۔ کھنڈرات بتاتے تھے کہ یہ عالیشان عمارتوں اور پرسکوں مکانوں کا شہر ہوا کرتا تھا ۔ اس شہر کا شمار مصر کے چند ایک عظیم شہروں میں ہوتا تھا۔
ہیلو بولیس یونانی لفظ ہے اس شہر کا یہ نام کسی قدیم دور میں یونانیوں نے رکھا تھا۔ اس کے بعد مصر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بادشاہ کی جھولی میں گرتا چلا آیا اور ان فاتحین میں سے کسی نے ہیلو بولیس کا نام عین الشمس رکھ دیا جو آگے چل کر عین شمس بن گیا ۔اب اس شہر میں کوئی آبادی نہیں تھی صدیوں بعد جن انسانوں نے ان ہیبت ناک کھنڈرات میں جا ڈیرے ڈالے وہ عرب کے مجاہدین تھے۔ اور ان کے ساتھ مصری بدو تھے انھیں بھی وہاں عارضی قیام کرنا تھا ۔
پہلی رات جب لشکر گہری نیند سویا ہوا تھا تو گشتی پہرے پر پھرنے والے ایک مجاہد نے ایک کھنڈر سے ہلکی ہلکی روشنی آتی دیکھی۔ اسے معلوم تھا کہ اپنا کوئی مجاہد اندر نہیں ہوگا ،ہوتا بھی تو آدھی رات کے وقت روشنی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
جنگ کے دوران سب سے زیادہ خطرہ دشمن کے جاسوسوں کا ہوتا تھا جاسوس ان کسانوں کے روپ میں اور کچھ اپاہیج فقیروں کے روپ میں بھی لشکر کے کیمپ میں آ جاتے اور جو دیکھنا ہوتا وہ دیکھ لیا کرتے تھے، اسی شک کی بنا پر اس مجاہد نے اندر جا کر دیکھنا ضروری سمجھا۔
صحرا کی شفّاف چاندنی میں کھنڈر کچھ زیادہ ہی ہیبت ناک لگ رہا تھا مجاہد سنتری نے ہر طرف گھوم پھر کر اندر جانے کا ایک راستہ دیکھ لیا یہ غلام گردش سی تھی جو اوپر سے ڈھکی ہوئی تھی اس لئے اندر تاریکی تھی۔ مجاہد آہستہ آہستہ اندر گیا تو اسے محسوس ہونے لگا جیسے چھت میں کوئی انسان بیٹھے بیٹھے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے ہو، یہ بد روحیں ہو سکتی تھیں، ایک خوف سا تھا جو مجاہد کے دل پر چھا گیا لیکن مجاہدین اسلام کی فتح مندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ خوف پر چھا جایا کرتے تھے۔ وہ آگے بڑھتا گیا اس کی رہنمائی بڑی ہی مدھم سی روشنی کر رہی تھی جو اندر سے آرہی تھی۔
کسی ایسی چیز سے مجاہد کو ٹھوکر لگی کہ اچانک تیز ہوا آندھی سی آ گئی اتنی بلند اور ہیبت ناک پھڑپھڑاہٹ سنائی دی کہ مجاہد دیوار کے ساتھ لگا اب وہ خوف پر قابو نہ پا سکا یہ آندھیاں طوفان نہیں ہوسکتا تھا یہ یقینا بدروحیں تھی جنہوں نے یہ دھماکہ خیر طوفانی آوازیں پیدا کی تھیں مجاہد نے ہوا کے جھونکے بھی محسوس کیے اس نے باہر کی طرف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ یہ تو بڑے پروں والے چمگادڑ ہیں جو چھت اور دیواروں کے ساتھ چپکے ہوئے تھے اور یہ ان کا مسکن ہے۔ ان کے پروں نے اتنی ہوا دی کے مجاہد اسے طوفانی ہوا کے تھپیڑے سمجھتا رہا۔
وہ اٹھا اور جھکا جھکا آگے بڑھا اس نے اندر کی روشنی کا بھید معلوم کرنے کو اپنا فرض سمجھ لیا تھا۔ ایک جگہ سے چھت گری ہوئی تھی اور وہاں سے چاندنی کی کرنیں اندر آرہی تھی لیکن اور آگے سے جو روشنی آرہی تھی وہ چاندنی کی سفیدی میں گڈمڈ نہیں ہوسکتی تھی ۔ مجاہد گری چھت کے ملبے پر چڑھا اور جب آگے گیا تو ایک دروازہ نظر آیا جس کے کواڑ نہیں تھے۔ مجاہد اس دروازے میں داخل ہوا تو یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جس کی دیواریں بتا رہی تھی کہ یہ کبھی شاہانہ عمارت ہوا کرتی تھی اور یہاں کسی بادشاہ نے عمر گزاری ہے۔
کمرہ زرد پیلی روشنی میں ٹھیک طرح نظر آ رہا تھا ایک کونے میں کوئی شخص ہاتھ جوڑے بیٹھا کچھ بڑبڑا رہا تھا اس کے سامنے چھوٹی سی مشعل جل رہی تھی اس کے قریب کچھ سامان جو روزمرہ کی زندگی کے لیئے ضروری تھا پڑا تھا۔ اس شخص کے کپڑے میلے سے رنگ کے تھے ۔اور وہ سر سے ننگا تھا اس کے دودھ جیسے سفید بال کندھوں پر آ گئے تھے ۔اور سر کی چوٹی پر کوئی بال نہیں تھا چوٹی ہتھیلی کی طرح صاف تھی۔ مجاہد دبے پاؤں چلتا اس کے قریب جا پہنچا۔ اس شخص نے آہستہ آہستہ سر مجاہد کی طرف گھمایا اور سر سے اشارہ کیا کہ وہ بیٹھ جائے۔
مجھے معلوم تھا تم آؤ گے۔۔۔ اس بوڑھے نے بڑھاپے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میں عرب کے ان مہمانوں کے انتظار میں تھا تم آ گئے تمہیں آنا ہی تھا۔
پہلے یہ بتا میرے بزرگ محترم!،،،، مجاہد نے پوچھا ۔۔۔کیا تو زندہ ہے یا جو اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں ان میں سے کسی کی روح ہے ؟ میں تجھے بدروح نہیں روح کہہ رہا ہوں اور وہ پاک ہوتی ہے اور تیرا چہرہ بتا رہا ہے کہ تیرا وجود بدی سے پاک ہے۔
ابھی زندہ ہوں ۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ بڑی مدت بعد میری زبان حرکت میں آئی ہے میں کسی سے نہیں بولتا کوئی میرے ساتھ بات نہیں کرتا۔
کیا یہاں کوئی اور آیا کرتا ہے ؟،،،،،مجاہد نے پوچھا۔
ہاں!،،،،، بوڑھے نے رعشہ گیر آواز میں جواب دیا ۔۔۔۔یہاں سے تھوڑی تھوڑی دور دو گاؤں ہیں وہاں سے تیسرے چوتھے روز ایک دو آدمی آتے ہیں اور کچھ کھانے پینے کے لئے دے جاتے ہیں۔
اے بزرگ!،،،،،، مجاھد نے کہا۔۔۔۔ تو ان کے پاس ہی کیوں نہیں چلا جاتا یہاں اکیلے پڑا کیا کر رہا ہے؟
عبادت !،،،،،،بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ خاک و خون کی دنیا سے تعلق توڑ کر یہاں بیٹھا ہوں بہت آئے سب رخصت ہو گئے اب تیرا لشکر آیا ہے ۔
کیا میرا لشکر بھی رخصت ہو جائے گا ؟،،،،مجاہد نے پوچھا۔
نہیں !،،،،بوڑھے نے کہا۔۔۔۔ تیرا لشکر رخصت ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ انہیں رخصت کرنے کے لئے آیا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو انسانوں کا بادشاہ سمجھ لیا تھا فرعون خدا بن گئے تھے، کہاں ہیں وہ سب رخصت ہو گئے۔
کمرے میں ہلکی ہلکی چڑ چڑ اور دھیمی دھیمی پھڑپھڑاہٹ سنائی دینے لگی مجاہد نے اوپر اور ہر طرف دیکھا چمگادڑ واپس آکر چھتوں میں بیٹھ رہے تھے ۔کچھ آواز غلام گردش سے بھی آ رہی تھی فضا بڑی ہی پراسرار تھی اور بار بار یہی خیال آتا تھا کہ یہاں مرے ہوئے لوگوں کی روحیں رہتی ہیں۔ مجاہد سفید ریش ضعیف العمر سے کوئی اور بات کرنے ہی والا تھا کہ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور خوف کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی وہ اس لئے کہ اسے سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک سیاہ کالا سانپ رینگتا نظر آیا جس کا رخ ان کی طرف نہیں بلکہ دوسری طرف تھا۔
وہ دیکھو سانپ ۔۔۔ مجاہد نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
میں ہر روز دیکھتا ہوں۔۔۔ بوڑھے نے لاتعلق سے لہجے میں کہا۔۔۔ ہم اکٹھے رہتے ہیں سانپ صرف اس انسان کو ڈستا ہے جو انسان خود سانپ بن جاتا ہے۔ یہاں ایک ہی نہیں تین چار سانپ رہتے ہیں میں نے ان پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میں انسان ہوں اور انسان کسی کو ڈسا نہیں کرتے۔ ہر انسان اپنے وجود میں سانپ کا زہر لیے پھرتا ہے۔ پیار کر پیار ملے گا۔ اب بتا تیرے لشکر کا سردار کہاں ہے؟
کیا تو اس سے ملنا چاہے گا؟،،،،، مجاہد نے پوچھا اور کچھ سوچ کر کہا۔۔۔ تجھے اس سے ملنا ہی ہوگا ہمارے لشکر کا سردار نہیں سپہ سالار ہوتا ہے میرا یہ فرض ہے کہ میں تجھے اپنے سپہ سالار کے پاس لے جاؤں ، ہمارا لشکر یہاں قیام کیے ہوئے ہے ہم کسی پر شک تو نہیں کیا کرتے لیکن شک رفع کر لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ میں تجھ جیسے بزرگ پر بھی شک نہیں کروں گا لیکن بظاہر بے ضرر اور بے کار سے آدمی دراصل دشمن کی آنکھ اور کان ہوا کرتی ہیں کیا تو میرے سپہ سالار کے پاس جائے گا؟؟؟؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی