🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➋➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوسی کی ضرورت محسوس کی تو آپ کو رضاکار ڈھونڈنے پڑے یہ بھی بڑا ہی پرخطر کام تھا اس کے لئے بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر دشمن کی بستیوں میں گئے اور صحیح خبریں لے آئے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے زبیر بن العوام میرا حواری ہے۔
اس سے زیادہ عظیم اور مقدس خراج تحسین اور کیا ہوسکتا ہے۔ فتح مکہ کے دن مجاہدین کے لشکر میں تین علم تھے جن میں سے ایک زبیر بن العوّام رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ، اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ، بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ سے خصوصی عقیدت اور محبت رکھتے تھے ،ان میں کچھ ایسے اوصاف تھے کہ کوئی ایک بار ان سے متعارف ہو جاتا تو ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا ،اور جس لشکر کی قیادت انہیں دی جاتی وہ لشکر ان کے اشاروں پر جان قربان کرتا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے زبیر بن العوام کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ مصر کے لیے کمک تیار کریں۔ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ پہلے ہی بے تاب تھے کہ انہیں جہاد کی کوئی ذمہ داری سونپی جائے، انہوں نے اسی روز سے کام کی ابتدا کردی یہ کام ایک یا دو دنوں میں ہونے والا نہیں تھا ،زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے دن رات ایک کر دیا اور لوگوں کو اکٹھا کرنے لگے یہ بتانا ممکن نہیں کہ انہوں نے کمک کتنے دنوں میں اکٹھا کر لیا، البتہ یہ بالکل واضح ہے کہ وہ جو کمک انھوں نے تیار کی اس کی تعداد چار ہزار تھی۔
یہ کمک حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پیش کی گئ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس چار ہزار نفری کے ایک ایک مجاہد کو دیکھا اور پھر اسے چار حصوں میں تقسیم کیا پھر ہر حصّے کا الگ سالار مقرر کیا، ہر سالار کے ماتحت ایک ایک ہزار مجاہدین تھے، ان میں ایک تھے زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، دوسرے عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ، تیسرے تھے مقداد بن اسود سلمی رضی اللہ عنہ، اور چوتھے تے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ، ان چاروں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری زبیر بن العوام کو دی گئی۔
کمک کی تعداد کے متعلق تاریخ میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے ۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ کمک کی تعداد بارہ ہزار تھی، وہ تاریخ لکھنے والے مؤرخوں نے جن میں بٹلر بھی شامل ہے صحیح بات لکھی ہے اور بتایا ہے کہ یہ غلط فہمیاں کیوں کر پیدا ہوئیں۔
یہ غلط فہمی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اس کمک کے ساتھ جو تحریری پیغام عمرو بن عاص کو بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔
میں تمہارے لئے چار ہزار مجاہدین بھیج رہا ہوں ایک ایک ہزار مجاہدین پر ایک ایک سالار مقرر کر دیا ہے، یہ سالار جنگ لڑنے اور لڑانے کی اتنی مہارت اور اتنا جذبہ رکھتے ہیں کہ یوں سمجھو کہ ایک ایک سالار ایک ایک ہزار مجاہدین کے برابر ہے ،تم یوں سمجھ لو کہ میں تمہیں بارہ ہزار سرفروش مجاہدین بھیج رہا ہوں ،اور مجھے پوری امید ہے کہ بارہ ہزار جاں باز دشمن سے مغلوب نہیں ہوسکتے دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔
اس تحریر سے کچھ تاریخ نویس یہ سمجھ بیٹھے کہ کمک کی تعداد بارہ ہزار تھی ، صحیح تعداد چار ہزار تھی، صحیح طور پر نہیں لکھا جاسکتا کہ یہ کمک کتنے دنوں بعد عمرو بن عاص تک پہنچی، وہ تو تیز رفتار قاصد تھے جو حیران کن رفتار سے اتنا زیادہ فاصلہ چار پانچ دنوں میں طے کر لیا کرتے تھے، یہ پورا لشکر تھا جو اتنی تیز رفتاری سے سفر نہیں کرسکتا تھا ۔
جب یہ کمک نماز فجر کے بعد مدینہ سے روانہ ہوئی تو امیرالمومنین رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، اور تقریباً تمام بزرگ صحابہ کرام اس کمک کے ساتھ مدینے سے دور تک گئے اور پھر ایک جگہ رک کر مجاہدین کو الوداع کہا، سب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے مدینہ کی منڈیروں پر عورتیں دامن پھیلائے کھڑی مجاہدین کے لیے دعائیں کر رہیں تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آخر ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے کمک کا انتظار کیے بغیر لشکر کو بلبیس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیدیا۔ کوچ فجر کی نماز کے بعد ہوا تھا اور یہ فروری 640 عیسوی کا پہلا ہفتہ تھا۔
ایک روز پہلے عمرو بن عاص نے ایک پیغام مدینہ امیرالمومنین کی طرف بھیج دیا تھا جس میں انہوں نے ایک تو بلبیس کی طرف پیش قدمی کی اطلاع لکھی اور دیگر امور کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ کمک کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے،،،، ہم اس پیغام کا ذکر پہلے کر چکے ہیں۔
عمرو بن عاص نے ایک روز پہلے لشکر سے خطاب کیا تھا اس سے پہلے بھی ایک بار انہوں نے لشکر سے خطاب کیا اور بتایا تھا کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے لیے مصر کتنا اہم ہے۔ مصر کو انہوں نے پیغمبروں کی سرزمین کہا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جس راستے پر وہ مصر فتح کرنے جارہے ہیں یہ پیغمبروں کا راستہ ہے ۔اس راستے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ،اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام، جا چکے ہیں اس راستے سے حضرت عیسی علیہ السلام، اور حضرت موسی علیہ السلام بھی گئے تھے۔ اب عمرو بن عاص نے جو لشکر سے خطاب کیا اس میں انہوں نے کہا کہ ہم جس شہر بلبیس کو فتح کرنے جا رہے ہیں وہ فرما سے زیادہ اہم اور قیمتی شہر ہے۔ اور رومی یہ شہر ہم سے بچانے کے لیے بے دریغ جانوں کی قربانیاں دیں گے لیکن اللہ کا حکم ہے کہ ہم یہ شہر ہر قیمت پر فتح کریں۔
انہوں نے لشکر کو جذباتی الفاظ سے بھڑکایا نہیں اور انہیں سبز باغ نہیں دکھائے نہ ایسا تاثر دیا کہ رومی بلبیس کو پلیٹ پر رکھ کر انہیں پیش کر دیں گے، انہوں نے حقیقت بیان کی اور جن دشواریوں کا سامنا تھا وہ من و عن بیان کر دی، انہوں نے بتایا کہ اپنی تعداد بہت تھوڑی ہے اور دشمن کی جنگی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ عریش اور فرما ہمارے لئے صرف اس لئے آسان تھی کہ رومی ہمیں دھوکہ دے کر مصر میں کچھ اور آگے لانا چاہتے تھے، ہم اور آگے آگئے ہیں اور مزید آگے جا رہے ہیں یوں سمجھ لو کہ بلبیس ایک پھندہ ہے جس میں رومی ہمیں پھنسا کر ہمیشہ کے لئے بیکار کر دینا چاہتے ہیں۔
مت بھولو کہ تمہارا براہ راست تعلق اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ ہے، سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ تم اللہ کے حکم سے اللہ کے راستے پر جا رہے ہو یہ ہمارا ایمان ہے، اور ہمارا دشمن ہمیں شکست دے کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان غلط ہے، اور یہ کسی انسان نے خود ہی گھڑ لیا ہے، ہمیں کفار پر ثابت کرنا ہے کہ ہم دین الہی کے پیروکار ہیں۔ اور اپنے ساتھ یہی دین لائے ہیں جو ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ اور اس کے ساتھ اللہ کا یہ حکم کہ یہ دین اللہ کے ہر بندے تک پہنچانا ہمارا فرض ہے ،اس فرض کی ادائیگی کے لئے ہمیں سمندروں کا سینہ چیرنا ہے پہاڑوں کے جگر چاک کرنے ہیں اور دشت و جبل کو اپنے قدموں تلے روندنا ہے۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے لشکر کو تمام حقائق سے آگاہ کیا اور انہیں ٹھوس قسم کی ہدایات دیں، انھوں نے لشکر کو پیش قدمی کے دوران جس طرح تقسیم کیا اور جس ترتیب سے لشکر کو پیش قدمی کرنی تھی وہ سب لشکر کو بتایا اور اچھی طرح ذہن نشین کرایا کہ یہ تقسیم اور یہ ترتیب کیوں کی گئی ہے۔
پیش قدمی کے دوران لشکر کی تقسیم اور ترتیب یہ تھی کہ سب سے آگے ہر اول دستہ تھا اور اس دستے سے بہت آگے چند ایک مجاہدین مقامی کسانوں اور محنت کشوں کے بھیس میں بکھرے ہوئے جارہے تھے ۔
وہ جاسوس تھے اور دیکھ بھال کرتے جا رہے تھے کچھ دستہ ہراول سے دور پیچھے تھے ان کے دائیں اور بائیں خاصے فاصلے پر ایک دستہ جا رہا تھا اور ایک دو دستے عقب میں آرہے تھے ،مطلب یہ کہ لشکر ایک مسلح قافلے کی صورت میں نہیں جا رہا تھا۔
یہ ترتیب یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو اچھی طرح معلوم تھا کہ رومی جرنیل انہیں اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں وہ کسی بھی وقت لشکر پر پیش قدمی کے دوران بہت زیادہ نفری سے دائیں اور بائیں سے یا عقب سے حملہ کر سکتے ہیں۔ جاسوسوں نے سپہ سالار کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ رومی مجاہدین کے لشکر کو پہلے آگے لا کر اور پھر گھیرے میں لے کر مارنا چاہتے ہیں۔
عمرو بن عاص روایتی لڑائیاں لڑنے والے سپہ سالار نہیں تھے وہ دشمن کی شاطرانہ چالوں کو سمجھتے تھے اور ایسی ہی چال چلنے کی مہارت رکھتے تھے ،دشمن کی نیت کو اوران چالوں کا توڑنے کو جو ابھی دشمن کے ذہن میں ہوتی تھی۔ عمرو بن عاص نے جاسوسی کا اتنا کارگر نظام قائم کردیا تھا کہ ان کے جاسوس تو جیسے دشمن کے پیٹ میں اتر کر خبر لے آتے تھے۔
یہ مسافت بڑی طویل تھی اور دشوار گذار بھی دشوار گزار اس لئے کہ اس علاقے میں آ کر دریائے نیل کئی ایک شاخوں میں تقسیم ہو جاتا تھا ، بعض نہریں تو زیادہ چوڑی نہیں تھی اور یہ عام نہروں جیسی ہی تھی، لیکن بعض شاخیں دریاؤں جیسی تھی پانی کی افراط کی وجہ سے علاقے میں دلدل تھی اور درختوں کی بہتات تھی اور کچھ علاقہ پہاڑی اور غیر ہموار بھی تھا نیل کی ان شاخوں کو عبور کرنا بھی ایک مسئلہ تھا سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ تو یہ تھا کہ رومی فوج کسی بھی علاقے میں انھیں گھیرے میں لے سکتے تھے۔
تاریخ کے مطابق راستے میں ایک بڑا ہی قدیم قصبہ آیا جس کا نام مجدل ہوا کرتا تھا ۔ اس قصبے میں جاکر دیکھا رومی فوج کا کوئی ایک سپاہی بھی نظر نہ آیا عمرو بن عاص نے اس قصبے کے قریب پڑاؤ کیا اور قصبے کے سرکردہ افراد کو بلا کر پوری تفتیش کی کہ یہاں کبھی رومی فوج کی کچھ نفری رہی ہے یا نہیں، اور رومیوں نے شہر کے لوگوں کو کوئی فوجی اور جنگی نوعیت کی بات بتائی ہے یا نہیں۔
معلوم ہوا کہ اس قصبے میں کبھی فوج نہیں آئی اور کبھی انہیں فوج کی طرف سے کوئی ہدایت یا کوئی حکم دیا بھی نہیں گیا۔
ان سرکردہ افراد نے عمرو بن عاص کو یقین دلایا کہ وہ رومی فوج کے ساتھ تعاون سے انکار کی جرات تو نہیں کر سکتے لیکن تعاون سے گریز ضرور کریں گے۔
عمرو بن عاص نے انہیں کہا کہ قصبے کا کوئی آدمی قصبے سے باہر نہ جائے اور کوئی آدمی بلبیس کی طرف جاتا نظر آیا تو دور سے اسے تیر کا نشانہ بنا لیا جائے گا۔ عمرو بن عاص کا مطلب یہ تھا کہ رومیوں کو قبل از وقت اطلاع نہ پہنچ سکے کہ اسلامی لشکر آ رہا ہے اور اس کا رخ کس طرف ہے۔
عمرو بن عاص نے ان سرکردہ افراد سے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو یقین دلا دیں کہ اب اس شہر کو اور اپنے آپ کو مسلمانوں کی عملداری میں سمجھیں اور انہیں بتائیں کہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی پوری پوری ذمہ داری مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور اس لشکر کا کوئی ایک بھی فرد کسی گھر میں داخل نہیں ہوگا۔
تاریخ میں عمرو بن عاص کے لشکر کی اس پیش قدمی کا پورا راستہ بتایا گیا ہے جو دیکھو تو احساس ہوتا ہے کہ وہ مجاہدین صحیح معنوں میں اللہ کے سرفروش تھے۔ وہ تو اتنی تھوڑی تعداد میں بڑے ہی طاقتور دشمن کے گھر میں داخل ہو چکے تھے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو دشمن کی تلواروں سے کٹتے دیکھا تھا ،لیکن ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے چہرے پر گھبراہٹ یا خوف کا ذرا سا بھی تاثر ہو۔
مجدل سے بہت دور جا کر ایک اور بستی آئی جو ابھی بلبیس شہر سے دور ہے اور اس کا نام قنترہ ہے۔ ہراول سے بہت آگے آنے جانے والے جاسوس بہت پہلے اس بستی تک پہنچ گئے اور ان میں سے ایک واپس آیا اور ہر اول دستے کو بتایا کہ اس شہر جیسی بستی میں رومی فوج کی کچھ تعداد موجود ہے جو اتنی تھوڑی نہیں کے بھاگ جائے گی۔
ہراول دستے کے سالار نے سپہ سالار کو اطلاع بھجوا دی اور خود اپنے دستے کو ساتھ لے کر بستی کو گھیرے میں لینے کے لئے چلا گیا۔
عمرو بن عاص کو اطلاع پہنچی تو انہوں نے درمیان والے دستوں میں سے ایک دستہ آگے بھیج دیا یہ کوئی قلعہ بند شہر نہیں تھا۔
رومی فوج شہر سے باہر آگئی ، مجاہدین ان پر حملہ آور ہوئے اور رومی فوجی کچھ تو کٹ مرے اور باقی بستی کے اندر چلے گئے۔ مجاہدین نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور سب کو ختم کردیا تاریخ میں اسے معمولی سی مزاحمت لکھا گیا ہے۔ لیکن ہم اسے معمولی مزاحمت نہیں کہیں گے کیونکہ عمرو بن عاص نے کمک کے بغیر وہاں تک جا کر بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا ،لشکر کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور وہ یوں سمجھیں کہ ایک شیر کے جبڑوں میں چلے گئے تھے۔ بزرگ صحابہ اکرام اسی لئے امیرالمومنین سے کہتے تھے کہ عمرو بن عاص کو مصر پر لشکر کشی کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ یقینی ہلاکت کا خطرہ بھی مول لے لیا کرتے ہیں۔
عمرو بن عاص اس مقام تک پہنچ گئے تھے بلکہ آگے نکل گئے تھے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہ تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسے سپہ سالار تھے جو خطرہ مول لے لیا کرتے تھے، لیکن ہر پہلو پر غور کرلیتے اور ایک خطرے کے اندر چھپے ہوئے خطروں کو بھانپ اور ناپ تول لیا کرتے تھے ۔ اب وہ جو بلبیس کی طرف جا رہے تھے تو ان کی نظر صرف بلبیس پر یا ان کے ذہن میں بلبیس کا محاصرہ ہی نہیں تھا ،بلکہ انہوں نے اور بھی بہت کچھ سوچ لیا تھا جو اپنے ماتحت سالاروں کو کچھ پہلے بتا دیا تھا ،اور باقی اب بتایا۔
آگے کی بجائے اپنی نظریں پیچھے زیادہ رکھنا عمرو بن عاص نے بلبیس کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے اپنے سالاروں سے کہا تھا رومی اتنے بھی کم عقل نہیں کہ ایک شہر میں محصور ہو کر ہی لڑتے رہیں گے۔ وہ عقب سے یقینا حملہ کریں گے ۔ مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ بلبیس کے اندر کی فوج ہمارا مقابلہ اس طرح نہیں کرے گی جس طرح فرما میں کیا تھا۔
ایسی ہی کچھ اور ہدایات دے کر عمرو بن عاص نے پیش قدمی کا حکم دیدیا اور اسی شام بلبیس تک جاپہنچے، اور رات ہی رات شہر کو محاصرے میں لے لیا ۔ عمرو بن عاص جب شہر کے اردگرد محاصرے کو دیکھ رہے تھے تو وہ ہر سالار عہدے دار اور ہر کمانڈر سے یہ کہتے گئے کہ یہ مت بھولنا کے اب تمہارا مقابلہ روم کے بڑے ہی چالاک اور شاطر جرنیل اطربون سے ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص کو جاسوسوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اطربون بلبیس میں موجود نہیں،
وہاں دو جرنیل تھے جن میں ایک نوشی کا باپ تھا جو فرما سے شکست کھا کر بھاگا تھا ،عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ اب اور زیادہ چوکنّے رہیں۔
اس وقت مصر کا فرمانروا مقوقس اور اطربون کسی اور مقام پر تھے جس کا تاریخ میں نام نہیں آیا۔ یورپی مورخ الفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ جب مقوقس اور اطربون کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں نے بلبیس کا محاصرہ کر لیا ہے تو دونوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے اس وقت اتفاق سے وہ اکٹھے بیٹھے اسی پلان پر باتیں کر رہے تھے۔ جو انہوں نے مسلمانوں کو گھیر کر مارنے کے لئے تیار کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دونوں کو توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان اتنی تیزی سے ایسا دشوار گزار اور لمبا راستہ طے کر لیں گے۔
ہم ابھی تیار نہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ ہمیں کوئی ایسی چال چلنی پڑے گی کہ وقت حاصل کریں اور مسلمانوں کو بلبیس کے باہر ہی الجھائے رکھیں۔
ہم بالکل تیار ہیں۔۔۔۔ اطربون نے کہا ۔۔۔ہم اب یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ مسلمان بلبیس پر بھی قابض ہو جائیں میں اب انہیں مزید مہلت دینے کے حق میں نہیں۔
عریش اور فرما کے بعد میں انہیں بلبیس کسی قیمت پر نہیں لینے دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔لیکن ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو اسی نتیجے پر پہنچو گے کہ ہمیں کچھ وقت حاصل کرنا پڑے گا۔
تاریخ کے مطابق ان کے درمیان جتنی بھی گفتگو ہوئی اس میں یہ تاثر بڑا ہی واضح تھا کہ ان میں اختلاف رائے ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی جھکنا نہیں چاہتا مقوقس کی حیثیت اطربون سے اونچی تھی مقوقس مصر کا فرمانروا، اور اطربون ایک جرنیل تھا۔
آخر مقوقس کی مانی گئی اس نے یہ تجویز پیش کی کہ پادریوں کا ایک وفد مسلمانوں کے سپہ سالار کی طرف بھیجا جائے جو یہ مذاکرات کرے کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں اور بتائیں کہ وہ کن شرائط پر مصر سے نکلیں گے۔
اطربون نے کہا کہ وہ اگر یہ شرط پیش کر بیٹھے کہ انہوں نے مصر کا جو علاقہ فتح کر لیا ہے وہ اپنی عملداری میں رکھیں گے، اور اس سے آگے پیش قدمی نہیں کریں گے تو کیا ہم مان لیں گے، اطربون نے یہ بھی کہا کہ مسلمان یہ شرط بھی پیش کرسکتے ھیں کہ بلبیس انہیں دے دیا جائے۔
میں انہیں مصر کی ایک بالشت زمین بھی نہیں دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ میں انہیں ایک چکر میں ڈالنا چاہتا ہوں مجھے پادریوں کا وفد ان کے پاس بھیج لینے دو تم فوج تیار کرو ،اور اطربون ان بدبخت قبطی عیسائیوں کو مت بھولو میں ان کے اسقف اعظم بنیامین کو بھی اپنے جال میں لانے کی سوچ رہا ہوں۔
آخر ان دونوں میں طے یہ پایا تھے پادریوں کا وفد مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس بھیجا جائے اسی وقت چار یا غالباً چھے بزرگ پادریوں کی طرف آدمی دوڑا دیے گئے کہ وہ فوراً مقوقس کے پاس پہنچیں۔
ہرقل کی سرکاری عیسائیت کا اسقف اعظم قیرس تھا ۔اگر پادریوں کا ہی وفد بھیجنا تھا تو اس میں قیرس کی شمولیت لازم تھی لیکن قیرس کو نہ بلایا گیا تاریخ میں ایسے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ ہرقل اور قیرس میں کچھ اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ اس وقت قیرس اسکندریہ میں تھا ہرقل ابھی تک بزنطنیہ میں بیٹھا حکم بھیج رہا تھا جو مقوقس اور اطربون کے لیے محض بے کار اور بے بنیاد تھے۔
مقوقس کے متعلق ہم ایک بات دہرانہ چاہیں گے یہ بات پوری تفصیل سے اس داستان میں پیش کی گئی ہے۔ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقوقس کو قبول اسلام کے لئے ایک پیغام بھیجا تھا جو حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ لے کر گئے تھے، مقوقس نے اس پیغام کا جواب خلاف توقع نہایت احترام سے دیا تھا اس نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو باتیں کی تھیں ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے، اس نے پیشن گوئی کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد مسلمان مصر کے میدان پر قابض ہو جائیں گے۔
یہاں یہ واقعہ دہرانہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مقوقس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو نوخیز لڑکیاں تحفے کے طور پر بھیجی تھی، ان میں سے ایک حضرت ماریہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قبطیوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک روا رکھنا کیونکہ ان کے ساتھ تمہاری رشتہ داری بن گئی ہے۔
محاصرے کا ساتواں آٹھواں روز تھا سپہ سالار عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی کہ مصری پادریوں کا ایک وفد ان سے ملنے آیا ہے۔ عمرو بن عاص نے وفد کو اسی وقت خیمے میں بلوایا اور احترام سے وفد کا استقبال کیا چونکہ یہ وفد مذہبی پیشواؤں کا تھا اس لئے مذہب کے حوالے سے بات کی اور امن و امان اور بنی نوع انسان سے محبت کرنے کے موضوع پر وعظ دے ڈالا۔
عمرو بن عاص نے یہ وعظ تحمل اور بردباری سے سنا اور کہا کہ ان کا اپنا مذہب یہی تعلیم دیتا ہے لیکن وہ بتائیں کہ ان کے آنے کا مقصد کیا ہے۔ پادری نے وہ بات کہی جو مقوقس نے اسے بتائی تھی یعنی یہ کہ مسلمان یہیں سے واپس اپنے ملک میں چلے جائیں اور اگر ان کی کوئی شرط ہے تو وہ بتائیں۔
میری اپنی کوئی ذاتی شرط نہیں۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ہم اپنے مذہب کے اصولوں کے پابند ہیں اس لئے میں وہ شرط پیش کروں گا جو اسلام نے ہمیں بتائی ہے,,,,,,, اسلامی اصول یہ ہے کہ میں آپ کو اور آپ کے حکمرانوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں جتنے بھی لوگ اسلام قبول کرلیں گے ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہے گا، وہ ہماری قوم کے افراد ہوں گے اسلام نے بنی نوع انسان میں مساوات قائم رکھنے کا حکم دیا ہے، اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا اور لوگ رعایا نہیں کہلاتے، آپ کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا ،لیکن ان سے ہم جزیہ وصول کریں گے ان کے ساتھ بھی ہمارا سلوک اور رویہ ویسا ہی ہوگا جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے، اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کے بھی مال و اموال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہوں گے اور ان کی تمام ضروریات ہم پوری کریں گے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ وفد نے یہ شرط قبول نہ کی اور عمرو بن عاص کو قائل کرنے لگے کہ وہ خونریزی یہیں روک دیں اور واپس چلے جائیں ، مقوقس کے کہنے کے مطابق پادریوں نے کچھ زروجواہرات کی پیشکش بھی کی لیکن عمرو بن عاص نے کہا کہ اسلام کے جذبہ جہاد میں ہوس ملک گیری نہیں ہوتی نہ ہی شاہی خزانوں کے ہاتھ آنے کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔
عمرو بن عاص جانتے تھے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی بھی قیمت پر وہ مقوقس کی یہ شرط نہیں مان سکتے تھے کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں۔ عمرو بن عاص نے از راہ مذاق پادریوں کے وفد سے کہا کہ ان کے مصریوں کے ساتھ رشتے داری بھی ہے اس لئے مصر پر عربوں کا خاصا حق ہے۔
پادری سمجھ گئے کہ اس مسلمان سپہ سالار کا اشارہ کس طرف ہے۔ اشارہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر گئے تھے تو مصر کے بادشاہ نے انھیں ایک لڑکی پیش کی تھی ابراہیم علیہ السلام نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی اور اس کا نام ہاجرہ رکھا تھا ۔ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تھے پھر اس رشتے کا اشارہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی تھا ذکر ہو چکا ہے کہ مقوقس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو لڑکیوں کا تحفہ بھیجا تھا جن میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بنی۔
ہم یہ رشتے داری نہیں بھول سکتے۔۔۔ وفد کے بڑے پادری نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔لیکن اس قسم کے رشتے داری کو صرف کوئی پیغمبر ہی زندہ کرسکتا ہے۔
کیا ہم ایک دوسرے کا وقت ضائع نہیں کر رہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہماری بات چیت یہاں پر ختم ہوتی ہے کہ ہم کسی بھی شرط پر مصر سے واپس نہیں جائیں گے، مسلمان جانے کے لیے نہیں آئے ایک پیغام لائے ہیں جو انہیں قبول ہے تو ٹھیک ورنہ اس کا فیصلہ میدان جنگ میں ہوگا۔
عمرو بن عاص نے اس سے آگے کوئی اور بات سننے یا کہنے سے انکار کردیا ۔
مقوقس نے اس وفد سے کہا تھا کہ وہ کچھ وقت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ پوری فوج کو تیاری کرکے مسلمانوں کو گھیرا جائے۔
ہمیں کچھ وقت دیں ۔۔۔وفد کے لیڈر نے کہا۔۔۔ میں فرمانروائے مصر کے ساتھ بات کر لوں اور پھر آپ کو جواب دینے آؤں گا۔
یہ بھی سوچ لینا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ مجھے دھوکا نہیں دے سکو گے میں صرف تین دن کی مہلت دیتا ہوں مجھے اسلام کی شرط کے مطابق جواب نہ ملا تو وہ خونریزی ہو گی جسے آپ روکنا چاہتے ہیں۔
تاریخ میں آیا ہے کہ اس گفت و شنید کے بعد پادریوں نے مہلت میں اضافے کی درخواست کی وہ زیادہ دنوں کی مہلت چاہتے تھے لیکن عمرو بن عاص نے تین کے بجائے مہلت پانچ دن کردی ،پادری پھر آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔
پادریوں کا وفد واپس مقوقس سے جا کر ملا اور اسے بتایا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کے ساتھ کیا مذاکرات ہوئے ہیں مقوقس بہت زیادہ دنوں کی مہلت کی توقع رکھتا تھا لیکن پادریوں نے اسے بتایا کہ سپہ سالار پانچ دنوں سے زیادہ مہلت دینے پر راضی نہیں ہوا ،تو مقوقس گہری سوچ میں کھو گیا۔
میرے لیے پانچ دن بہت ہیں۔۔۔۔ اطربون نے بڑی جوشیلی آواز میں کہا۔۔۔ میں ان پانچ دنوں میں اچھی خاصی فوج تیار کر لونگا اور مسلمانوں پر حملہ کروں گا میں ضمانت دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو پسپا کرکے ہی دم لونگا،
بلبیس کے محصور لوگوں کے متعلق ایک اطلاع مقوقس کو پہنچی۔ وہ یہ تھی کہ اندر لوگ بہت پریشان ہیں ان کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتا کر لیا جائے۔
بلبیس میں وہ لوگ بھی تھے جو عریش اور فرما سے بھاگ کر یہاں پہنچے تھے، انہوں نے دیکھا تھا کہ مسلمانوں نے ان کی فوج کو کس طرح کاٹا اور بھگایا تھا ،ایک طرف تو ان لوگوں پر مسلمانوں کی دہشت طاری تھی اور اس کے ساتھ ہی عریش اور فرما سے آئے ہوئے لوگ بلبیس کے لوگوں کو بتاتے تھے کہ اپنی فوج کو لڑنے نہ دیں اور اگر فوج لڑتی ہے تو اس کے ساتھ تعاون نہ کریں، وہ اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ مسلمان شہریوں کے لئے ذرا سی بھی پریشانی پیدا نہیں کرتے بلکہ ان کے جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن شہری اگر اپنی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں اور انھیں جانی نقصان پہنچائیں تو پھر مسلمانوں کی شرائط بڑی سخت ہوتی ہے۔
مقوقس نے دو پادریوں کو یہ کہہ کر بلبیس بھیجا کہ وہ اندر جاکر لوگوں کو بتائیں کہ وہ ڈریں نہیں اور ان کے امن و امان کی ضمانت فرمانروائے مصر اپنے ذمے لیتا ہے ،اور یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مار بھگائے گا ۔ پادری گئے اور سپہ سالار عمرو بن عاص سے ملے اور شہر کے اندر جانے کی اجازت چاہی۔
عمرو بن عاص نے ان سے پوچھا کہ اندر جانے سے ان کا مقصد کیا ہے پادریوں نے یہ جھوٹ بولا کہ وہ لوگوں کو قائل کرنے جارہے ہیں کہ اسلام قبول کرلیں تو وہ عافیت سے رہیں گے۔ عمرو بن عاص نے انہیں اجازت دے دی دونوں پادری شہر کے بڑے دروازے تک گئے اور ان کے لیے دروازہ ذرا سا کھلا دونوں اندر گئے اور دروازہ بند ہو گیا۔
پادریوں کو توقع تھی کہ وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو لوگ اپنی فوج کے شانہ بشانہ شہر کے دفاع میں لڑیں گے لیکن انہوں نے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے یہ بات شروع ہی کی تھی کہ لوگوں نے شوروغل بپا کردیا کہ مسلمانوں کا مقابلہ نہ کیا جائے ۔ بعض آوازیں ایسی بھی آئیں جن میں رومی فوج کے خلاف طنز اور ناپسندیدگی تھی، یہ آوازیں کہتی تھی کہ اپنی فوج نے مسلمانوں کو روکا ہی کہاں ہے؟،،،،،،، یہ فوج پورا ملک شام مسلمانوں کو دے آئی ہے اور اب مسلمانوں نے اس فوج کو لہولہان کر کے اس سے مصر کے دو قلعے لے لیے ہیں۔
پادریوں نے لوگوں کو یہ ذہن نشین کرانے کی بہت کوشش کی کہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی شہر چھوٹا یا بڑا بغیر لڑے دشمن کے حوالے کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی فوج کو لڑنے کا موقع دیں اور اس فوج کی پشت پناہی کریں تاکہ مسلمانوں کو مار بھگایا جائے۔ لیکن لوگوں کا شوروغل روکا نہ جاسکا۔ اور یہ بات طے شدہ سمجھ لی گئی کہ شہر کے لوگ اپنی فوج کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں۔
پادریوں نے واپس جاکر جب مقوقس اور اطربون کو بتایا کہ بلبیس میں شہر کے لوگوں کا ردعمل اور ان کا مطالبہ کیا ہے تو اطربون بھڑک اٹھا اس نے کہا کہ وہ اپنی فوج کو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔مقوقس نے پھر اطربون کو روکا اور کہا کہ کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی مسلمانوں کو واپس جانے پر آمادہ کر لیا جائے گا ۔اطربون خاموش رہا لیکن اس کی خاموشی بتاتی تھی کہ وہ کچھ اور سوچ رہا ہے۔
اطربون تاریخ کا ایک نامور جرنیل تھا اس نے مقوقس سے حکم لیے بغیر اور اسے بتائے بغیر بارہ ہزار نفری کی فوج تیار کرلی اور ایک روز بلبیس کی طرف کوچ کر گیا ۔مقوقس کو پتہ چلا لیکن اس نے اطربون کو روکنے کی جرات نہ کی بلبیس وہاں سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک صبح فجر کی اذان دی جا چکی تھی اور مجاہدین کا لشکر نماز کی تیاری کررہا تھا کہ ہزاروں دوڑتے گھوڑوں کا طوفان آگیا ، یہ اطربون کی بارہ ہزار گھوڑ سواروں کی فوج تھی جو مجاہدین پر عقب سے حملے کے لئے آ گئی تھی، اطربون نے وقت بڑا اچھا دیکھا تھا اسے معلوم تھا کہ اس وقت مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوگئے ہونگے یا نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے اس نے ٹھیک سوچا تھا کہ مسلمان حملہ روکنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور جتنی دیر میں وہ تیار ہوتے ہیں اتنی دیر میں اس کے بارہ ہزار گھوڑسوار ان پر غالب آجائیں گے اور انہیں ان کے ہی خون میں ڈبو دیں گے۔
اطربون نے مجاہدین کو بے خبری میں آ لینے میں کوئی کسر چھوڑی تو نہیں تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں اور دیگر ذمہ دار افراد کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ عقب سے یا پہلوؤں سے ان پر حملہ ضرور ہوگا اور وہ ہر وقت چوکنّے اور تیار رہیں۔ اطربون کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مجاہدین کو خاص طور پر حکم دیا گیا تھا کہ نماز کے وقت اپنی تلواریں، برچھیاں، کمانیں، اور تیرکش اپنے ساتھ رکھا کریں اور گھوڑے ہر وقت تیار رہیں۔ عمرو بن عاص وہ سپہ سالار تھے جو ایسا لگتا تھا جیسے ہوا میں دشمن کی بو پا لیتے ہیں اور اس بو سے دشمن کے ارادے بھانپ لیتے ہیں۔
بدوؤں کو ملا کر مجاہدین کی تعداد پانچ ہزار سے ذرا ہی زیادہ تھی ،فرما میں مجاہدین کی شہادت کچھ زیادہ ہی ہوئی تھی اور شدید زخمیوں کی بھی کمی نہ تھی جو بلبیس میں لڑنے کے قابل نہیں تھے، اور بدو ناتجربے کاری کی وجہ سے خاصی تعداد میں مارے گئے تھے ،اتنے جانی نقصان کے بعد بدوؤں کا حوصلہ ٹوٹ جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ان کے حوصلے میں پہلے سے زیادہ تازگی اور غضب پیدا ہوگیا ،فرما کے مال غنیمت میں سے ہر بدو کو اتنا حصہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کے خلوص اور فیاضی کے متعلق ان کے دلوں میں ذرا سا بھی شک نہیں رہا تھا۔
عمرو بن عاص نے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ دشمن کی تعداد کتنی ہے اور اس میں سوار کتنے اور پیادہ کتنی ہیں، انہوں نے یہ محسوس کر لیا کہ رومیوں کی یہ ساری فوج گھوڑ سوار ہے اس اچانک حملے کے لئے عمرو بن عاص نے پہلے ہی ہدایات دے رکھی تھی، اور یہ بھی بتا رکھا تھا کہ حملے کی صورت میں لشکر کی ترتیب کیا ہوگی اور کونسے دستے محفوظ ہیں جو (ریزرو) میں ہونگے اب وہ اچانک حملہ آ گیا تھا جو مجاہدین کے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔ ہر کوئی پلک جھپکتے اپنے اپنے ہتھیار سے مسلح ہو گیا اور گھوڑوں کی پیٹھوں پر جا چڑھے اور اس ترتیب میں ہو گئے جو انہیں پہلے ہی بتا دی گئی تھی۔ سالاروں کو اس معاملے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہ آئی۔
عمرو بن عاص نے ایک بندوبست اور بھی کررکھا تھا انہیں یہ توقع تھی کہ عقب سے حملہ ہوا تو ہوسکتا ہے شہر کے اندر سے بھی فوج باہر آجائے اور اس صورت میں مجاہدین کا لشکر گھیرے میں آ جائے اور پھر بڑی مشکل پیدا ہوجائے گی، عمرو بن عاص نے ریزرو دستے کو یہ ہدایت پہلی ہی دے دی تھی کہ ایسی صورت پیدا ہو گئی تو آدھی ریزرو فورس فوراً شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرے ،عمرو بن عاص کو یہ توقع تھی کہ لشکر کی کچھ ہی تعداد شہر میں چلی گی تو اندر ایسی بد امنی اور افرا تفری پیدا ہوجائے گی کہ رومی لڑنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
اطربون کی بارہ ہزار سوار فوج مجاہدین پر جب آن پڑی تو وہ دیکھ نہ سکا کہ مجاہدین کی خاصی تعداد دائیں اور بائیں کی طرف نکل گئی ہے، ابھی سحر کی تاریکی تھی معرکہ تو بڑا گھمسان کا تھا اور نظر یہی آتا تھا کہ اتنی زیادہ فوج مجاہدین کو کاٹ پھینکے گی لیکن اطربون گھوڑ سواروں پر دائیں اور بائیں پہلو سے بیک وقت حملے ہوگئے اس طرح رومیوں کے حملے کی جو شدت تھی وہ وہیں ختم ہوگئی، اور سواروں کو جان کے لالے پڑ گئے
تعداد کے تناسب کو دیکھا جاتا تو شکست مجاہدین کے حصے میں آتی تھی، لیکن جو جذبہ مجاہدین میں تھا وہ رومیوں میں کم ہی دیکھنے میں آتا تھا ،مجاہدین کو احساس تھا کہ انہیں تعداد کی کمی جذبے اور حوصلے کے استحکام سے پوری کرنی ہے اور پھر یہ اعتقاد کے اللہ ان کے ساتھ ہے۔
عمرو بن عاص دیکھتے رہے کہ ابھی شہر کے دروازے کھلیں گے اور اندر کی فوج باہر آئے گی یا ہوسکتا ہے اطربون کی فوج اندر جانا چاہیے لیکن کوئی دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔
عمرو بن عاص اور دیگر سالاروں نے صورتحال کو اپنے قابو میں کر لیا اور قدم جمالیے۔ مجاہدین کے نعروں میں ایسا جوش و خروش تھا جو رومی سواروں پر بری طرح اثر انداز ہو رہا تھا دن آدھا بھی نہیں گزرا تھا کہ رومی پیچھے ہٹنے لگے عمرو بن عاص نے فوراً اپنے ماتحت سالاروں کو پیغام بھیجا کہ پیچھے ہٹتے ہوئے رومیوں کے تعاقب میں نہ جائیں ،کچھ دیر بعد اطربون کی یہ فوج لاشوں کی اچھی خاصی تعداد اور زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور مجاہدین کو پھر ترتیب میں کر لیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦