👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟟 𝟞⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟟  𝟞⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس اطلاع سے شک ہوا کہ حلب والوں کو اس کی آمد کی اطلاع مل گئی ہے اور وہ انہیں بے خبری میں نہیں لے سکے گا اس نے دیکھ بھال کے لیے اس مقام سے دور کے علاقے میں اپنے آدمی بھیجے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ دریا کسی اور جگہ سے عبور کیا جاسکتا ہے یا نہیں اس کے ساتھ ہی اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نشیب میں دشمن کی فوج کو دھوکہ دے کہ حملہ اور پیش قدمی اسی طرح سے ہوگی اس نے اسی رات چھاپہ مار روانہ کردئیے اس کا اپنا ہیڈکوارٹر وہاں سے پانچ چھ میل دور تھا دریا کے کنارے دشمن کی جو فوج تھی وہ بھی اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ اتنی یخ راتوں کو حملہ نہیں ہوسکتا نصف شب کے قریب سپاہی خیموں میں دبکے پڑے تھے کمانڈر بے خبر سو رہے تھے صرف سنتری جاگ رہے تھے ایک سنتری سردی میں ٹھٹھرا کھڑا تھا پیچھے سے کسی نے اس کی گردن دبوچ لی کسی اور نے اسے اٹھایا یہ سلطان ایوبی کے دو چھاپہ مار تھے وہ سنتری کو اٹھا کر لے آئے اور اس سے پوچھا کہ گھوڑے کہاں بندھے ہوئے ہیں اس کے سینے پر دو تلواروں کی نوکیں رکھی ہوئی تھیں سنتری کو معلوم تھا کہ یہ سلطان کے سپاہی ہیں اس نے ان سے التجا کی کہ میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں یہ بادشاہوں کے جھگڑے ہیں ہم ایک دوسرے کا خون کیوں بہائیں اس نے بتایا کہ گھوڑے ایک جگہ نہیں بندھے ہوئے چونکہ فوج تیاری کی حالت میں ہے اس لیے گھوڑے سواروں کے خیمے کے ساتھ دو دو تین تین کرکے بندھے ہوئے ہیں چھاپہ مار اسے اس کے کیمپ کے قریب لے گئے اور پوچھا دستوں کے کمانڈر کہاں ہیں اس نے اندازہ کرکے ان خیموں کی سمتیں بتا دیں
اسے ساتھ ہی پیچھے لے آئے اور اسے کہا کہ یہاں کھڑے رہو اور تماشہ دیکھو وہاں چھوٹے سائز کی ایک منجنیق رکھی تھی اس میں چھاپہ ماروں نے ایک ہانڈی سی رکھی چار آدمیوں نے اسے پیچھے کھینچا اور چھوڑ دیا ہانڈی غلیلے کی طرح اڑ گئی دوسری ہانڈی کسی اور طرف پھینکی گئی پھر دو اور پھینکی گئیں یہ سب دشمن کے کیمپ میں گریں سنتریوں نے کون ہے کون ہے کی صدائیں لگائیں کہیں سے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر آئے جو زمین پر لگے ہانڈیاں وہیں گر کر ٹوٹی تھیں ان کے اندر سے سیال مادہ نکل کر بکھر گیا تھا تیروں کے فلیتوں نے اسے آگ لگا دی دو خیموں کو بھی آگ لگ گئی زمین شعلے اگل رہی تھی کیمپ میں بھگدڑ مچ گئی گھوڑے رسیاں تڑانے لگے سپاہی اٹھ کر ادھر ادھر دوڑے تو چھاپہ ماروں نے تیر برسانے شروع کردئیے یہ خیمہ گاہ ایک میل سے زیادہ لمبے چوڑے علاقے میں تھی پیشتر اس کے کمانڈر جوابی کارروائی کرتے چھاپہ مار تباہی مچا کر غائب ہوچکے تھے
صحرا بھی نیم تاریک تھی کیمپ کی حالت خاصی بری تھی آگ نے بھی نقصان کیا تھا لیکن چھاپہ ماروں کے تیروں سے اور بدکے ہوئے گھوڑوں تلے آکر بہت سے سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے تھے سحر تک انہیں اٹھاتے اور سنبھالتے رہے اچانک ایک طرف سے کسی نے چلا کرکہا ہوشیار ہوشیار ایک بار پھر قیامت آگئی مگر اب کے چھاپہ مار نہیں تھے یہ سلطان ایوبی کے ایک دستے کا باقاعدہ حملہ تھا دشمن اس جگہ ہر لمحہ تیاری کی حالت میں رہتا تھا لیکن رات کو چھاپہ مار اس کی حالت ایسی بدل آئے تھے کہ تیاری ختم ہوگئی تھی دشمن کے سپاہیوں نے جم کر لڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کے پاؤں جم نہ سکے سلطان ایوبی ان کا دم خم پہلے ہی ختم کرا چکا تھا پھر بھی دونوں فریقوں کا خاصا نقصان ہوا دشمن کے سپاہی پسپا ہونے لگے کمانڈروں نے انہیں بہت للکارا مگر دوسری طرف کی للکار ان کے لڑنے کے جذبے کو تباہ کررہی تھی سلطان ایوبی کے سپاہی ان پر چلا رہے تھے تم کافروں کے دوست ہو خدا ہمارے ساتھ ہے اپنا حشر دیکھو تم پر خدا کا قہر نازل ہورہا ہے
سلطان ایوبی نے اپنی فوج کے نہایت معمولی سے سپاہی کے ذہن میں بھی اتار دیا تھا کہ تم حق پر ہو اور کفار کے دوست مرتد ہیں اس کے مقابلے میں خلیفہ کی فوج کے پاس ایسا کوئی مقصد اور کوئی نعرہ نہیں تھا
دشمن کے سپاہی بکھر گئے بہت سے پسپا ہوکر دریا پار کرگئے اور کچھ ادھر ادھر وادیوں اور نشیبی جگہوں میں جا چھپے سلطان ایوبی نے حملہ آور دستے کے کمانڈر کو حکم دے رکھا تھا کہ دشمن کی پسپائی کی صورت میں اپنا کوئی دستہ جیش یا کوئی سپاہی دریا پار نہ کرے اس نے اس کیمپ پر حملہ کرکے دراصل دشمن کو دھوکہ دیا تھا وہ تعاقب نہیں کرنا چاہتا تھا وہ آگے کے تفصیلی جائزے اور مشاہدے کے بغیر کبھی پیش قدمی نہیں کرتا تھا وہ دریا کہیں دور سے پار کرنا چاہتا تھا لیکن دشمن نے یہیں سے اسے راستہ دے دیا تو اس نے یہیں سے دریا پار کرنے کا فیصلہ کرلیا وہ خود آگے گیا اس کے سپاہی ادھر ادھر چھپے ہوئے دشمن کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کررہے تھے ہتھیار ڈالنے والوں کی تعداد زیادہ تھی اس نے ایک بلند چٹان پر جا کر میدان جنگ کامنظر دیکھا تو خوشی کے بجائے اس کے چہرے پر اداسی چھاگئی سلطان ایوبی نے اپنے پاس کھڑے نائبین سے کہا دونوں طرف کس کا خون بہہ گیا ہے؟
مسلمان کا یہ ہے اسلام کے زوال کی نشانی اگر مسلمان ہوش میں نہ آئے تو کفار انہیں اسی طرح لڑا لڑا کر ختم کردیں گے میرے رفیقو! مجھے کوئی یقین دلا دے کہ میں حق پر نہیں تو میں اپنی تلوار الصالح کے قدموں میں رکھ دوں گا آپ حق پر ہیں سلطان محترم! کسی نے کہا ہم حق پر ہیں دل سے اب وسوسے نکال دیں
حلب شہر میں ہر آدمی آگ کا شعلہ بنا ہوا تھا سلطان ایوبی کے دستے دریا پار کرگئے تھے حلب سامنے نظر آرہا تھا سلطان ایوبی نے شہر کودیکھا اس کی وسعت ساخت اور دفاعی انتظامات دیکھے اور جائزہ لیا کہ محاصرہ کیا جائے یا سیدھا حملہ کرکے شہر کے اندر لڑا جائے اسے ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ شہر کے اندر کی جذباتی کیفیت کیا ہے اسے توقع تھی کہ شہری چونکہ مسلمان ہیں اس لیے وہ دونوں مسلمان فوجوں کی جنگ کے خلاف ہونگے غالباً اسی توقع نے اس سے وہ کارروائی کرائی جس نے اسے پریشان کردیا اس نے نفری سے نیم محاصرے کی ترتیب میں اپنے دستے آگے بڑھائے لڑائی کی ابتداء تیروں کے تبادلے سے ہوئی لیکن کچھ ہی دیر بعد اس نے محسوس کیا جیسے اس کے دستے پیچھے ہٹ رہے ہیں حلب کے دفاع میں لڑنے والوں کا یہ عالم تھاکہ ایک طرف سے کم وبیش دو سو گھوڑ سوار نکلے انہوں نے سلطان ایوبی کے ایک دستے کے ایک پہلو پر حملہ کردیا یہ بڑا ہی تیز اور دلیرانہ حملہ تھا جو پیادہ دستے پر کیا گیا تھا اس کے سواروں نے جوابی ہلہ بول کر اپنے پیادہ دستے کو بچانے کی نہایت اچھی کوشش کی لیکن گھوڑوں کے تصادم میں اپنے ہی پیادے کچلے گئے پھر یوں ہونے لگا کہ شہر سے ایک حبش پیادہ یا سوار نکلتا ان کے پیچھے سے شہر کی منڈیروں اور بلند جگہوں سے تیروں کی بوچھاڑیں آتیں اور حملہ کرنے والے حبش سلطان ایوبی کی صفوں میں گھس جاتے حلب کا یہ معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا اس کیفیت میں سلطان ایوبی کے دو تین جاسوس باہر نکل آئے اور سلطان ایوبی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس تک پہنچ گئے انہوں نے بتایا کہ شہریوں کو کس طرح اس کے خلاف بھڑکایا گیا ہے اور شہر کے دفاع میں لڑنے والے اتنے فوجی نہیں جتنے شہری ہیں سلطان ایوبی کو یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ حلب کے باشندوں پر اس کے خلاف جنگی جنون طاری کیا جارہا ہے لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ شہری اس پاگل پن سے لڑیں گے وہ ان کی دلیری پر عش عش کر اٹھا لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنے لگا یہ ہے مسلمان کی شان ان کا عسکری جذبہ دیکھو کفار مسلمان کے اسی جذبے کو ختم کررہے ہیں سلطان ایوبی نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا اسے کسی نائب نے مشورہ دیا کہ شہر پر منجنیقوں سے آگ پھینکی جائے سلطان ایوئی نے یہ مشورہ قبول کرنے سے انکار کردیا اس نے کہا کہ شہریوں کے گھر تباہ ہوجائیں گے ان کی عورتیں اور بچے مارے جائیں گے اسی لیے میں نے تباہ کار چھاپہ ماروں کو نہیں بھیجا اگر یہ شہر صلیبیوں کا ہوتا تو اب تک شعلوں کی لپیٹ میں اور میرے چھاپہ ماروں کی زد میں ہوتا جو مسلمان میدان جنگ میں آکر لڑتے اور مرتے ہیں انہیں میں روک نہیں سکتا اور جو گھروں میں بیٹھے ہیں انہیں مارنا نہیں چاہتا اس نے چند اور دستے آگے بلا کر شہر کو مکمل محاصرے میں لے لیا اور حکم دیا کہ دفاع میں لڑا جائے حملہ ہو تو روکا جائے حملہ نہ کیا جائے اور محاصرے کو مضبوط رکھا جائے نفری کی بھی کمی تھی اور شہر کو تباہی سے بچانے کا خیال بھی تھا
جنوری ١١٧٥ء کا پورا مہینہ محاصرہ جاری رہا حلب کی فوج اور شہریوں نے محاصرہ توڑنے کے لیے حملے کیے لیکن اب وہ کامیاب نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ سلطان ایوبی نے اپنے دستوں کی ترتیب اور سکیم بدل دی تھی یکم فروری ١١٧٥ء کی صبح سلطان کو اطلاع ملی کہ تریپولی کا صلیبی حکمران ریمانڈ حماة کی طرف بڑھ رہا ہے اسے ریمانڈ کی فوج کی نفری (پیادہ اور سوار) کی اطلاع بھی دی گئی سلطان ایوبی کو پہلے ہی توقع تھی کہ یہ صورت بھی پیدا ہوگی اس کے لیے وہ تیار تھا اس نے اس کے لیے دستے محفوظ رکھے ہوئے تھے اور ایسی جگہ رکھے ہوئے تھے جہاں سے وہ ریمانڈ کے استقبال کے لیے بروقت پہنچ سکتے تھے اس نے یہ اطلاع ملتے ہی اپنے قاصد کو اس پیغام کے ساتھ ان دستوں کی طرف دوڑایا کہ جس قدر جلدی ہوسکے الرستان کے علاقے میں پہنچ کر بلندیوں پر تیر انداز بٹھا دو سوار دستے پیچھے رکھو میں آرہا ہوں اگر صلیبی فوج مجھ سے پہلے آجائے تو سامنے کی ٹکر نہ لینا گھات لگانا اور شب خون مارنا الرستان ایک پہاڑی سلسلے کا نام تھا ریمانڈ کو اس میں سے گزر کر آنا تھا ریمانڈ کی پیش قدمی کا راستہ اس کے پلان کے مطابق موزوں تھا وہ حماة تک پہنچ کر سلطان کے عقب کے لیے اور رسد وغیرہ کے راستوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا پھر صورت یہ ہوجاتی کہ سلطان ایوبی حلب کی فوج اور ریمانڈ کی فوج (جو یقینا برتر اور زیادہ تھی) کے درمیان پس جاتا اس نے دوسرا اقدام یہ کیا کہ حلب کا محاصرہ اٹھا دیا اور اسی نے ان دستوں کو کسی اور سمت روانہ کردیا خود الرستان کی طرف چلا گیا وہاں کی چوٹیوں پر برف پڑی ہوئی تھی ریمانڈ خوش تھا کہ اس موسم میں سلطان ایوبی کے صحرائی سپاہی اس کے یورپی اور اسی علاقے کے رہنے والی عیسائی سپاہیوں سے نہیں لڑ سکیں گے مگر وہ آگے آیا تو برف پوش پہاڑی سلسلہ کوہ سے اس پر تیر برسنے لگے یہ اس کے لیے بلائے ناگہانی تھی
اس نے لڑے بغیر اپنی فوج پیچھے ہٹا لی اسے ہر جگہ گھات کا خطرہ تھا وہ سلطان ایوبی کے لڑنے کے انداز سے اچھی طرح واقف تھا اس نے بہت پیچھے ہٹ کر پڑاؤ ڈال دیا وہ اپنے راستے پر نظرثانی کرنا چاہتا تھا موسم بگڑ گیا بارشیں شروع ہوگئیں سات آٹھ دنوں میں گھوڑوں کا خشک چارہ ختم ہوگیا اناج کی بھی ضرورت محسوس ہوئی اس نے رسد کا انتظام نہایت اچھا رکھا تھا وہاں تک اسے باقاعدگی سے رسد پہنچ رہی تھی مگر کئی دن پیچھے سے نہ رسد آئی نہ کوئی اطلاع اس نے قاصد بھیجا جو واپس آگیا اور پیغام لایا کہ سلطان ایوبی کی فوج نے راستہ روک رکھا ہے ریمانڈ بہت حیران ہوا کہ سلطان ایوبی اتنی جلدی یہاں کیسے پہنچ گیا؟
اس نے اپنے دو افسروں کو پیچھے کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا یہ دو افسر تین چار روز بعد واپس آئے انہوں نے تصدیق کی کہ سلطان ایوبی نے رسد کا راستہ روک لیا ہے اور یہ بھی کہ اس نے حلب کا محاصرہ اٹھا لیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا فرض ادا ہوگیا ہے ریمانڈ نے کہا فوج کو واپس تریپولی لے چلو یہ اطلاع سلطان ایوبی کے لیے حیران کن تھی کہ ریمانڈ لڑے بغیر واپس کوچ کر گیا ہے ریمانڈ نے واپسی کا جو راستہ اختیار کیا تھا وہ دشوار گزار تھا لیکن وہ اس راستے سے نہیں جانا چاہتا تھا جس سے آیا تھا وہ سلطان ایوبی سے لڑنے کا ارادہ ترک کرچکا تھا یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ لڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ سلطان ایوبی نے اسے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں رہنے دیا تھا وہ اسی سے گھبرا گیا تھا کہ مسلمان فوج اتنی سردی میں ایسی خوبی سے لڑ رہی ہے جیسے صحرا میں لڑتی ہے دوسری وجہ یہ تھی کہ سلطان ایوبی اس کے عقب میں اور رسد کے راستے میں جا بیٹھا تھا تیسری اور سب سے بڑی وجہ کچھ اور تھی جس کا انکشاف بعد میں ہوا وہ دراصل الصالح اور اس کے امراء کو دھوکہ دے گیا تھا اس نے بے بہا خزانے کی شکل میں اجرت لے لی تھی اسے اب لڑنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کا یہ مقصد (جو صلیبیوں کا بنیادی مقصد تھا) پورا ہوچکا تھا کہ مسلمان آپس میں ٹکرا جائیں صلیبی مسلمان قوم کی فوج کو دو حصوں میں کاٹ چکے تھے اور ان دونوں حصوں میں جنگ شروع ہوچکی تھی
اس کی نیت کا پتہ اس وقت چلا جب تریپولی سے اس کا ایلچی الصالح کے نام یہ پیغام لے کر آیا میں نے وعدہ کیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی نے آپ کو محاصرے میں لیا تو میں محاصرہ توڑ دوں گا مجھے جونہی اطلاع ملی کہ صلاح الدین ایوبی نے حملہ کردیا ہے میں فوج لے کر آپ کی مدد کو آگیا صلاح الدین ایوبی نے فوراً حلب کا محاصرہ اٹھا لیا میں نے وعدہ پورا کردیاہے لہٰذا ہمارا وہ فوجی معاہدہ ختم ہوگیا جس کے تحت آپ نے مجھے سونا وغیرہ بھیجا تھا اور اس کے عوض میں نے آپ کو محاصرے سے بچایا میرے فوجی نمائندے اور مشیروں کو فوراً واپس بھیج دیا جائے حلب والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے صلیبی انہیں ڈنک مار رہے تھے دو مورخوں نے لکھا ہے کہ ریمانڈ کو یہ خطرہ بھی نظر آنے لگا تھا کہ سلطان ایوبی اس کے دارالحکومت تریپولی پر حملہ کرے گا چنانچہ اس نے اپنی راجدھانی کا دفاع مضبوط کرنا شروع کردیا
الصالح ابھی ناتجربہ کار تھا اس کے ایک دو مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ سلطان ایوبی سے صلح کرلے مگر سیف الدین اور گمشتگین وغیرہ نے اسے مدد کا یقین دلا کر سمجھوتے اور صلح پر آمادہ نہ ہونے دیا انہی میں سے کسی نے اسے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی چند روز کا مہمان ہے نو فدائی آچکے ہیں وہ مذہبی پیشواؤں اور صوفیوں کے بہروپ میں صلاح الدین ایوبی کے پاس یہ درخواست لے کر جارہے ہیں کہ وہ آپس میں نہ لڑیں اور صلح کرلیں سلطان ایوبی ان کے احترام کے لیے انہیں اپنے پاس بٹھائے گا اکیلے ان کی بات سنے گا اور فدائی اسے نہایت اطمینان سے قتل کرکے نکل جائیں گے انہوں نے الصالح کو یہ خبر سنا کر جھانسہ نہیں دیا تھا جس وقت سلطان ایوبی الرستان کے سلسلۂ کوہ میں بیٹھا اپنے اگلے حملے کا پلان بنا رہا تھا تو پیشہ ور فدائی قاتل یہ سوچ رہے تھے کہ اسے کہاں قتل کیا جائے

مصر میں جہاں آج اسوان ڈیم ہے آٹھ سو سال پہلے وہاں ایک خونریز معرکہ لڑا گیا تھا مورخوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کی اس لڑائی کا ذکر کیا ہی نہیں اگر کیا ہے تو اتنا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک جرنیل باغی ہوگیا تھا قاضی بہاؤالدین شداد نے اپنی ڈائری میں اس جرنیل کا نام بھی لکھا ہے نام القنض تھا جس کا تلفظ القند ہے وہ مصری مسلمان تھا اس کی ماں سوڈانی تھی شاید یہ سوڈانی خون تھا جس نے اسے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا اس دور کے وقائع نگاروں اور کاتبوں کی غیر مطبوعہ تحریریں ملی ہیں ان سے اس بغاوت کا پس منظر خاصی حد تک واضح ہوجاتا ہے
یہ ١١٧٤ء کے آخر اور ١١٧٥ء کے اوائل کا عرصہ تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے غیرحاضر تھا اس سے پہلے پوری تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم کی وفات کے فوراً بعد شام کے حالات اس صورت میں بگڑ گئے تھے کہ مفاد پرست امراء نے زنگی مرحوم کے گیارہ سالہ بیٹے کو سلطنت کی گدی پر بٹھا دیا اور صلیبیوں سے گٹھ جوڑ کرکے خود مختاری کے راستے پر چل پڑے تھے سلطنت اسلامیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر صلیبیوں کے پیٹ میں جارہی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق پہنچا تھوڑی سی معرکہ آرائی اور دمشق کے شہریوں کے تعاون سے اس نے دمشق پر قبضہ کرلیا خلیفہ اور اس کے حواری امراء اور جرنیل حلب کو بھاگ گئے جہاں انہوں نے صلیبیوں سے جنگی مدد حاصل کی صلیبیوں نے مدد کا جھانسہ دے کر مسلمان فوج کو مسلمان فوج سے ٹکرا دیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے حمص اور حماة کے قلعے سر کرلیے حلب کے محاصرے میں اسے غیر متوقع مزاحمت کا سامنا ہوا اس کے ساتھ ہی تریپولی کے صلیبی حکمران ریمانڈ نے حملہ کردیا سلطان صلاح الدین ایوبی کو حلب کا محاصرہ اٹھا کر پیچھے آنا پڑا تاکہ صلیبی فوج کو راستے میں روکا جاسکے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دستوں کی برق رفتاری نے اس کی چال کو کامیاب کیا اور ریمانڈ لڑائی سے منہ پھیر گیا مگر یہاں لڑائی ختم نہیں ہوئی تھی اصل جنگ تو یہیں سے شروع ہوئی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی الرستان سلسلہ کوہ میں اپنی فوج کو پھیلائے ہوئے تھا اس کا مقابلہ تین دشمنوں کے ساتھ تھا ایک الصالح اور اس کے حواری امراء کی فوج تھی دوسرے صلیبی فوج اور تیسرا موسم یہ جنوری فروری ١١٧٥ء کے دن تھے جب پہاڑیوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں یخ جھکڑ چلتے تھے اور وادیاں ٹھٹھر رہی تھیں سلطان صلاح الدین ایوبی وہاں اس طرح الجھ گیا تھا جیسے زنجیروں میں جکڑا گیا ہو مصر کے متعلق وہ مطمئن نہیں تھا وہاں کی فوج کی کمان وہ اپنے بھائی العادل کے سپرد کر آیا تھا اس فوج میں سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کمک بھی منگوا لی تھی مصر پر سمندر کی طرف سے صلیبیوں کا اور جنوب سے سوڈانیوں کے حملے کا خطرہ تو تھا لیکن زیادہ خطرہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کی زمین دوز تخریب کاری کا تھا جو مصر میں جاری تھی دشمن کی جاسوسی اور تخریب کاری کو بہت حد تک دبایا جاچکا تھا مگر یہ کہنا غلط تھا کہ دشمن اس زمین دوز میدان سے بھاگ گیا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہی خطروں سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی انٹیلی جنس کے ماہر سربراہ علی بن سفیان کو قاہرہ میں رہنے دیا تھا اس نے العادل کو بھی اس ضمن میں بہت سی ہدایات دے دی تھیں مگر جو جگہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیرحاضری سے خالی ہوگئی تھی اسے العادل اور علی بن سفیان مل کر بھی پر نہیں کرسکتے تھے
مصر کی سرحدوں اور ساحل کی دیکھ بھال کے لیے سرحدی دستوں کی چوکیاں اور ان کے پہرے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے العادل کے متعلق یہ حکم دے دیا تھا کہ سوڈانی سرحد پر ذرا سی بھی گڑ بڑ کریں تو شدید جنگی نوعیت کی جوابی کارروائی کرو اور سوڈان کے اندر جا کر لڑو مگر ایک ضرورت ایسی تھی جس کی طرف کسی نے بھی توجہ نہ دی یہ تھی سرحدی دستوں کی بدلی ان دستوں میں بیشتر سپاہی اور بعض کمانڈر ایسے تھے جو دو سال سے زیادہ عرصہ سے سرحد کی ڈیوٹی پر تھے یہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے دشمن سے معرکے لڑے تھے لہٰذا ان کے دلوں میں دشمن کے خلاف نفرت بھری ہوئی تھی سوڈانیوں کو تو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے ان سے پہلے جو دستے سرحد پر تھے وہ اچھے ثابت نہیں ہوئے تھے ان کی موجودگی میں مصر کی منڈی سے اناج اور دیگر ضروری اشیاء سمگل ہوکر سوڈان چلی جاتی تھیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے محاذ سے واپس آکر ان دستوں کو بدل دیا اور وہ دستے بھیجے تھے جو محاذ سے آئے تھے ان دستوں نے سرحد پر پہنچ کر اودھم بپا کردیا تھا گشتی پہرے والوں کو کوئی چیز ہلتی نظر آتی تھی تو اسے جا دبوچتے تھے وہ تیز رفتار تھے اور ان کی نظریں عقابی تھیں انہوں نے سرحد صحیح معنوں میں سربمہر اور مقفل کردی تھی
یہ دو اڑھائی سال پہلے کی بات تھی ابتداء میں ان دستوں میں جوش اور جذبہ تھا اور کرنے کو ایک کام بھی تھا جو ایک مہم تھی وہ جانفشانی سے اس میں مگن رہے چند مہینوں میں ہی انہوں نے یہ مہم سرکرلی اور فارغ ہوگئے یہ فراغت ان کے جذبے کو دیمک کی طرح کھانے لگی سلطان صلاح الدین ایوبی ہر پہلو ہر گوشے اور ہر عنصر پر نظر رکھتا تھا لیکن سرحدی دستوں کی بدلی اتنی معمولی سی بات تھی جس پر وہ ذاتی توجہ نہ دے سکا سرحدی دستوں کا شعبہ الگ تھا جس کا کمانڈر سالار (جرنیل) کے عہدے کا ایک فرد تھا اور یہ القند تھا یہ اس کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ سال میں تین بار نہیں تو دو بار سرحدی دستوں کی بدلی کرتا رہتا اس نے یہ بے حد ضروری کارروائی نہ کی اس کوتاہی کے اثرات سامنے آنے لگے سپاہی ایک ہی قسم کے ماحول اور فضا میں اور ایک ہی قسم کی زمین پر رہتے اور پہرے دیتے اکتاہٹ محسوس کرنے لگے سوڈان خاموش تھا سمگلنگ بند ہوچکی تھی فراغت اور کاہلی سپاہیوں کی نفسیات پر تخریبی اثرات ڈال رہی تھی۔ اس کے لیے کام بھی نہیں تھا اور ان کے لیے تفریح بھی کوئی نہیں تھی موسم میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی ریت کا سمندر اور ریت کے ٹیلے ایک ہی جیسے تھے جیسے صدیوں سے چلے آرہے تھے آسمان کا رنگ ایک ہی جیسا رہتا تھا اس کیفیت اور سپاہیوں کی اکتاہٹ کا پہلا اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ گشتی پہرے پر جاتے تو راہ جاتے مسافروں سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں اور ان کے پاس کیا ہے وہ انہیں روک کر ان سے گپ شپ لگاتے اور ان سے ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے یہ دل بہلانے کا ایک ذریعہ تھا جن چوکیوں کی ذمہ داری کے علاقے میں کوئی گاؤں تھا سپاہی وہاں چلے جاتے اور گپ بازی سے دل بہلا آتے سرحد کے رکھوالوں کا یہ انداز ملک کے لیے خطرناک تھا مگر وہ سپاہی تھے اور اکتائے ہوئے بھی تھے انسانی فطرت کا تقاضہ تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں سے تسکین حاصل کرتے وہاں آتے جاتے مسافر تھے رات بھر کے لیے پڑاؤ کرنے والے قافلے تھے یا کہیں کوئی آباد گاؤں تھا وہ ہر کسی کے ساتھ گھل مل گئے مصر کے سرحدی لوگوں پر ان کا جو ڈر تھا وہ دور ہوگیا ان کے کمانڈر بھی سپاہیوں جیسے ہی انسان تھے وہ بھی وقت گزارنے کے اور تفریح کے ذرائع ڈھونڈنے لگے تھے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق کے لیے روانہ ہونے لگا تو اتنی عجلت میں تھا کہ سرحدوں کے متعلق تمام تر ہدایات دینے کے باوجود اس کے ذہن میں یہ نہ آئی کہ پرانے دستوں کی بدلی کے احکام بھی دے دیتا اسے غالباً اطمینان ہوگا کہ ان کا کمانڈر القند تمام تر ضروریات پوری کرتا رہتا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی کے جانے کے بعد العادل نے فوجوں کی کمان لی تو اس نے القند سے پوچھا کہ سرحد پر جو دستے ہیں وہ کب سے اس ڈیوٹی پر ہیں القند نے جواب دیا کہ وہ بہت عرصے سے وہیں ہیں کیا سرحد پر مزید دستے بھیجنے کی ضرورت ہے؟
العادل نے پوچھا اور کیا پرانے دستوں کو قاہرہ بلا کر نئے دستے بھیجنے کی ضرورت ہے؟
نہیں القند نے جواب دیا یہی وہ دستے ہیں جنہوں نے ملک سے اناج مویشی اور ہتھیار وغیرہ کے چوری چھپے باہر جانے کو روکا تھا وہ اب سرحد اور ارگرد کے علاقوں کے عادی ہوگئے ہیں وہ اب دور سے مشتبہ انسان کی بو سونگھ کر اسے پکڑ لیتے ہیں ان کی جگہ اگر نئے دستے بھیجے گئے تو پرانے دستوں جیسا تجربہ حاصل کرتے انہیں ایک سال سے زیادہ عرصہ چاہیے ہمیں ایسا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے العادل اس جواب سے مطمئن ہوگیا تھا اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہی القند رات کو اپنے گھر میں بیٹھا کہہ رہا تھا یہ سرحدی دستے بیکار ہوچکے ہیں میری یہ کوشش کامیاب ہے کہ میں نے ان کی بدلی نہیں ہونے دی انہوں نے سرحد کے لوگوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرلیے ہیں ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان کے پیٹ تو بھرے رہتے ہیں کھانے پینے کی انہیں کوئی شکایت نہیں میں ان کے لیے ضرورت سے زیادہ خوراک بھیجتا ہوں لیکن ان کی حالت بھوکے بھیڑیوں کی سی ہوگئی ہے کوئی قافلہ گزرتا ہے تو وہ قافلے والوں کی عورتوں کو منہ کھول کر دیکھتے رہتے ہیں اب ہم اپنا کام کرسکتے ہیں
وہ جس کے ساتھ باتیں کررہا تھا وہ کوئی سوڈانی تھا جو اس کے ہاں مہمان کے روپ میں آیا ہوا تھا وہ سوڈان سے اس کے لیے تحفے لایا تھا اور ان تحفوں کے ساتھ ایک پیغام بھی تھا اس نے القند کو بتایا تھا کہ سوڈانی تیار ہیں مگر نفری ابھی اتنی زیادہ نہیں ہوئی یہ آدمی پیغام لے کر آیا تھا کہ اس نفری کو کسی طرح مصر میں داخل کرکے چھپا لیا جائے اس کے لیے پہلی مشکل یہ تھی کہ انہیں سرحد پار کس طرح کرائی جائے اسی کے جواب میں القند نے کہا تھا کہ مصر کے سرحدی دستے بیکار ہوچکے ہیں القند ان چند ایک سالاروں میں سے تھا جن پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھروسہ تھا القند نے کبھی شک بھی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ مصر کی امارت کا وفادار نہیں علی بن سفیان تک کو اس نے دھوکے میں رکھا ہوا تھا اس کا یہ کارنامہ کہ اس نے دو اڑھائی سال پہلے سمگلنگ روک دی اور سرحدیں سربمہر کردی تھیں اسے بہت فائدہ دے رہا تھا کوئی بھی نہ جان سکا کہ وہ سرحدوں کا بھیدی بن چکا ہے
اب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے چلا گیا تو القند نے العادل کو یقین دلا دیا کہ وہ سوڈان کی طرف سے بے فکر ہوجائے سوڈان کا کوئی پرندہ بھی مصر میں داخل نہیں ہوسکتا ایسا ہی یقین وہ علی بن سفیان کو بھی دلاتا رہا اور سوڈان میں حبشیوں کی ایک فوج مصر پر اس انداز سے حملہ کرنے کے لیے تیار ہوتی رہی کہ حبشی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مصر میں داخل ہوں گے چوری چھپے قاہرہ کے قریب جائیں گے اور ایک رات حملہ کرکے رات ہی رات مصر کی امارت کو قبضے میں لے لیں گے دریائے نیل سوڈان سے گزرتا مصر میں داخل ہوتا ہے آگے مصر کے علاقے میں ایک وسیع جھیل کی صورت اختیار کرلیتا ہے اس کے آگے ایسے علاقے میں داخل ہوتا ہے جو پہاڑی ہے اس سے آگے آبشار کی طرح گرتا ہے اس کے قریب اسوان ہے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اسوان کے گردونواح کی جغرافیائی کیفیت کچھ اور تھی دور دور تک چٹانیں اور پہاڑیاں تھیں ان پر فرعونوں کی خصوصی نظر کرم رہی تھی انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر بت بنائے تھے ان میں سب سے بڑے بت ابو سمبل کے تھے بعض چٹانوں کی چوٹیاں تراش کر کسی معبدے گنبد کی شکل کی یا کسی فرعون کا چہرہ بنا دی گئی تھیں پہاڑیوں کے دامن میں غاریں بنائی گئی تھیں جو اندر سے وسیع وعریض تھیں کچھ ایسی تھیں جن کے اندر کمرے سرنگوں جیسے راستے اور بھول بھلیاں سی بنا دی گئی تھیں
کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ فرعونوں نے یہ پراسرار سی دنیا کیوں آباد کی تھی یہ بت تراشتے اور غاریں کھود کر اندر کمرے وغیرہ بناتے تین نسلیں ختم ہوگئی ہوں گی فرعون اس دور کے خدا تھے رعایا کا کام صرف یہ تھا کہ ان کے آگے سجدے کرے اور ان کا ہر حکم بجا لائے یہ پہاڑ اسی مظلوم اور فاقہ کش رعایا سے کٹوائے گئے تھے آج وہاں کوئی بت نہیں کوئی غار نہیں کوئی پہاڑ نہیں وہاں اسوان ڈیم کی میل ہا میل وسیع جھیل ہے اس ڈیم کی تعمیر سے پہلے ابوسمبل کے اتنے بڑے بڑے بت جو بجائے خود پہاڑ تھے مشینری سے وہاں سے اٹھائے گئے اور فرعونوں کے دور کی یادگاروں کے طور پر کہیں محفوظ کرلیے گئے ہیں ڈائنامیٹ سے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے زمین بوس کردیا گیا تھا اگر فرعون انسان کے ہاتھوں پہاڑوں کو یوں اڑاتا اور زمین سے ملتا دیکھتے تو خدائی کے دعوے سے دستبردار ہوجاتے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اس علاقے کے خدوخال کچھ اور تھے ان پہاڑوں کی وادیوں اور غاروں میں ساری دنیا کی فوج کو چھپایا جاسکتا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے ذاتی طور پر سرحد کے اس علاقے پر زیادہ توجہ دی تھی جہاں سے دریائے نیل مصر میں داخل ہوتا تھا سوڈانی کشتیوں کے دریعے مصر میں داخل ہوسکتے تھے اس دریائی راستے پر نظر رکھنے کے لیے ایک چوکی قائم کی گئی تھی جو دریا سے دور تھی چوکی سے دریا نظر نہیں آتا تھا اور دریا سے چوکی نظر نہیں آتی تھی یہ فاصلہ دانستہ رکھا گیا تھا تاکہ دریا سے چوری چھپے گزرنے والے اس خوش فہمی میں مبتلا رہیں کہ انہیں دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں دریا پر گشتی پہرے کے ذریعے نظر رکھی جاتی تھی دو گھوڑ سوار ہر وقت گشت پر رہتے تھے اور ان کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی
مصر سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری کے دنوں کا واقعہ ہے کہ دن کے وقت دریا کی دیکھ بھال والی سرحدی چوکی کے دو گھوڑ سوار گشت پر نکلے اور معمول کے مطابق دور تک نکل گئے ایک جگہ دریا کے کنارے سبزہ زار تھا سایہ دار درخت تھے اور یہ جگہ بہت ہی خوبصورت تھی گشت والے سنتری اس جگہ آکر آرام کیا کرتے تھے۔ ایک عرصہ سے انہوں نے کسی سوڈانی کو دریا سے آتے نہیں دیکھا تھا ابتداء میں انہوں نے بہت سے آدمی پکڑے تھے جن میں بعض تخریب کار اور جاسوس تھے اس کے بعد یہ دریائی راستہ ویران ہوگیا تھا۔ اب سنتری صرف ڈیوٹی پوری کرنے آتے اور چوکی کی نظروں سے اوجھل ہوکر بیٹھ جاتے تھے
ان دو سواروں کا بھی ہی یہ معمول تھا اس معمول سے اب وہ تنگ آگئے تھے دریا کے کنارے اتنی سرسبز جگہ بھی انہیں اچھی نہیں لگتی تھی ہر روز دریا کو دیکھ دیکھ کر وہ اس کے حسن سے اکتا گئے تھے یہاں انہیں باہر کی دنیا کی اگر کوئی چیز نظر آتی بھی تھی تو وہ صحرائی لومڑی تھی جو دریا سے پانی پیتی اور سنتریوں کو دیکھ کر بھاگ جاتی تھی یا ماہی گیروں کی ایک آدھ کشتی نظر آتی تھی وہ ماہی گیروں سے پوچھتے کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں پھر انہوں نے یہ پوچھنا بھی چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد ماہی گیروں نے بھی وہاں جانا چھوڑ دیا تھا اس رورز وہ سنتری گشت کے علاقے میں گئے تو وہ اکتائی ہوئی سی باتیں کررہے تھے جن کا لب لباب یہ تھا کہ اس کے ساتھی قاہرہ سکندریہ اور دوسرے شہروں میں عیش کررہے ہیں اور وہ اس جنگل بیابان میں پڑے ہیں ان کے لب ولہجے میں احتجاج تھا اور بے اطمینانی بھی
وہ اس سرسبز جگہ سے کچھ دور تھے تو انہیں وہاں چار پانچ اونٹ بندھے ہوئے نظر آئے آٹھ دس آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور چار آدمی دریا میں نہا رہے تھے دونوں سوار آگے چلے گئے مگر رک گئے وہ کوئی انسان نہیں ہوسکتے تھے انہیں جس چیز نے حیرت سے زیادہ خوف میں مبتلا کردیا تھا وہ یہ تھی کہ دریا میں چار آدمی نہیں بلکہ چار جوان لڑکیاں نہا رہی تھیں انہوں نے ستر باریک کپڑوں سے ڈھانپے ہوئے تھے وہ دریا میں اس جگہ ڈبکیاں لگا رہی تھیں جہاں پانی ان کی کمر تک تھا ان کے جسموں کے رنگ مصریوں کی نسبت زیادہ ستھرے اور جاذب تھے وہ قہقہے لگارہی تھیں گھوڑ سوار یہ سمجھ کر ڈر گئے کہ یہ جل پریاں ہیں یا آسمان سے اتاری ہوئی پریاں یا فرعونوں کی شہزادیوں کی بدروحیں وہ دونوں رکے رہے اور انہیں دیکھتے رہے انہوں نے وہیں سے واپسی کا ارادہ کرلیا لیکن جو آدمی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ان کی طرف دیکھا دو آدمی اٹھ کر ان کی طرف آئے لڑکیوں نے بھی انہیں دیکھ لیا تھا وہ چاروں دریا سے نکل کر کنارے کی خشک اوٹ میں چلی گئیں گھوڑ سواروں کا خوف ذرا کم ہوا وہ آخر فوجی تھے قریب جاکر انہوں نے ان دو آدمیوں سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور یہاں کیا کررہے ہیں دونوں آدمیوں نے جھک کر سلام کیا وہ صحرائی لباس میں تھے انہوں نے بتایا کہ وہ قاہرہ کے تاجر ہیں بہت سے سرحدی دیہات میں مال فروخت کرکے واپس جارہے ہیں قاہرہ جانے کا یہ راستہ تو نہیں ایک سوار نے کہا لڑکیوں کا شوق ہے کہ دریا کے کنارے کنارے جائیں گے ایک نے جواب دیا ہم اپنے کام سے فارغ ہوگئے ہیں واپسی کی کوئی جلدی نہیں دو تین راتیں یہیں قیام کریں گے اگر آپ کو شک ہو تو چل کر ہمارا سامان دیکھ لیں ہمارے پاس بہت ساری رقم ہے وہ بھی دیکھ لیں تاکہ آپ کو یقین ہوجائے کہ ہم واقعی مصر کے تاجر ہیں
دونوں گھوڑ سوار ان کے ساتھ چل پڑے اور قیام کی جگہ پہنچے تو سب اٹھ کھڑے ہوئے سب نے جھک کر سلام کیا پھر دونوں کے ساتھ مصافحہ کیا ایک آدمی نے پوچھا کہ وہ ان کا سامان نہیں دیکھیں گے؟ 
گھوڑ سوار سنتری گھوڑوں سے اتر چکے تھے انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ وہ سامان نہیں دیکھیں گے ایک آدمی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کی تعریفیں شروع کردیں پھر انہوں نے ان دونوں کی جوانی دلیری اور فرض کی تعریفیں کیں۔انہوں نے ایسی کوئی بات نہ کی جس سے ان دونوں کو کوئی شک ہوتا اس دوران چاروں لڑکیاں کپڑے پہن کر اور بال جھاڑ کر آگئی تھیں لیکن وہ شرمائی شرمائی سی پرے ہٹ کر کھڑی رہیں اس ویرانے میں ان سپاہیوں نے دو اڑھائی سال بعد باہر کے چند آدمیوں کی محفل دیکھی اور انہیں عورت ذات نظر آئی ان لڑکیوں میں انہوں نے عورت کا ہر ایک روپ دیکھا ماں بہن بیوی اور وہ عورت بھی جو ماں ہوتی ہے نہ بہن نہ بیوی دونوں کی نظریں ان لڑکیوں نے گرفتار کرلیں لڑکیاں انہیں دیکھ دیکھ کر شرماتی اور منہ چھپا کر مسکراتی تھیں ان کے شرم وحجاب سے پتہ چلتا تھا کہ یہ سب اچھے خاندان کے لوگ ہیں
یہ دونوں سرحدی سپاہی ان آدمیوں کی باتوں اور خصوصاً لڑکیوں میں ایسے محو ہوئے کہ اپنی ڈیوٹی بھول گئے سرحدی علاقے میں اتنی مدت سے پڑے رہنے اور فارغ ہونے کے جو برے اثرات تھے وہ بڑی خطرناک نفسیاتی تشنگی بن کر ان پر غالب آگئے ایک آدمی دریا کے کنارے برچھی لیے کھڑا مچھلیاں پکڑ رہا تھا وہ پانی پر دانے سے پھینکتا تھا مچھلیاں اوپر آجاتی تھیں وہ اوپر سے برچھی مارتا تو ایک مچھی برچھی کی انی میں پروئی ہوئی باہر آجاتی وہ بہت سی مچھلیاں پکڑ چکا تھا کسی نے لڑکیوں سے کہا کہ وہ مچھلیاں بھونیں چاروں لڑکیاں دوڑی گئیں انہوں نے آگ جلائی اور مچھلیوں کو کاٹ کر آگ پر رکھ دیا گھوڑ سوار سرحدی سپاہی اپنے کھانے سے بھی اکتائے ہوئے تھے ان کا کھانا اچھا ہوتا تھا مگر ہر روز ایک ہی قسم کا کھانا کھا کھا کر وہ اس کھانے سے بھی اکتائے ہوئے تھے دریائے نیل کے کنارے ان کے سامنے بھنی ہوئی مچھلی اور خشک پکا ہوا گوشت رکھا گیا تو دیکھ کر ہی ان پر نشہ طاری ہوگیا سب مل کر کھانے لگے تو کھانا اور زیادہ لذیذ ہوگیا کھانے کے دوران دونوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی ان کے ایک گھوڑے کی گردن اور زین پر ہاتھ پھیرتی اور گھوڑے کو اشتیاق سے دیکھتی تھی لڑکیاں مردوں کے ساتھ کھانے پر نہیں بیٹھی تھیں۔ گھوڑے والا سپاہی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو گھوڑے پر ہاتھ پھیر رہی تھی لڑکی نے ادھر دیکھا تو مسکرا کر اس نے منہ پھیر لیا کیونکہ اس گھوڑے کا سوار اسے دیکھ رہا تھا ان سپاہیوں نے اتنی خوبصورت لڑکیاں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں
ایک بوڑھے نے سپاہیوں سے کہا ان لڑکیوں نے کبھی گھوڑے کی سواری نہیں کی اور یہ جو لڑکی گھوڑے کے قریب کھڑی ہے گھوڑ سواری کی شوقین ہے لیکن اسے گھوڑے پر بیٹھنے کا کبھی موقع نہیں ملا ہم ان چاروں کا شوق پورا کردیں گے ایک سپاہی نے کہا کھانے کے بعد وہ سپاہی اٹھا اور اپنے گھوڑے کے پاس چلا گیا لڑکی جھینپ کر پرے ہوگئی سپاہی نے اسے کہا آؤ میں تمہیں سواری کراتا ہوں باری باری چاروں کو گھوڑے پر بٹھا دوں گا کسی نے لڑکی سے کہا ان سے شرماؤ نہیں یہ تو تمہاری عزت اور ملک کے رکھوالے ہیں یہ نہ ہوں تو صلیبی اور سوڈانی معلوم نہیں تمہارا کیا حشر کریں لڑکی جھجکتی شرماتی گھوڑے کے قریب گئی سپاہی نے اس کا پاؤں اٹھا کر رکاب میں ڈالا اور اسے اٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دیا سپاہی کو کسی نے آواز دی اور کچھ کہا سپاہی اس طرف متوجہ ہوا اچانک گھوڑا دوڑ پڑا لڑکی کی چیخیں سنائی دیں سپاہی نے گھوم کر دیکھا گھوڑا سرپٹ دوڑا جارہا تھا اس کے اوپر لڑکی ادھر ادھر گرتی اور سنبھلنے کی کوشش کرتی تھی سب نے شور بپا کردیا کہ گھوڑا بے لگام ہوگیا ہے لڑکی گر کر مرجائے گی سپاہی کے قریب اس کے ساتھی کا گھوڑا کھڑا تھا وہ اچھل کر اس گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑی لگا دی لڑکی والا گھوڑا ایک چٹان سے گھوم کر نظروں سے اوجھل ہوگیا سپاہی نے اپنے گھوڑے کی رفتار انتہا تک پہنچا دی اسے معلوم تھا کہ لڑکی گری اور اس کا پاؤں رکاب میں پھنسا رہ گیا تو اس کی ہڈیاں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گی اور گھوڑا اسے گھسیٹ گھسیٹ کر ہڈیوں سے گوشت اتار دے گا سپاہی نے گھوڑا چٹان سے موڑا آگے کھلی وادی تھی لڑکی کو گھوڑا اٹھائے دوڑا جارہا تھا کچھ آگے جاکر گھوڑا مڑا اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا سپاہی کو لڑکی کی چیخیں اور گھوڑے کے ٹاپو سنائی دے رہے تھے وہ آگے جا کر مڑا اسے گھوڑا نظر نہ آیا عجیب بات یہ تھی کہ اسے اب کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی نہ گھوڑے کے ٹاپو نہ لڑکی کی چیخیں وہ سمجھا گھوڑا کسی کھڈ میں جا گرا ہے اس نے گھوڑے کی رفتار کم کردی کچھ اور آگے گیا تو ایک اوٹ سے اسے لڑکی کی آواز سنائی دیا ادھر جلدی سے میرے پاس آجاؤ سپاہی نے ادھر دیکھا تو اس پر خوف طاری ہوگیا گھوڑا کھڑا تھا اور لڑکی اطمینان سے اس پر سوار تھی اس کے چہرے پر ڈر یا گھبراہٹ نہیں بلکہ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی سپاہی نے ایک بار تو ارادہ کرلیا کہ گھوڑے کو ایڑی لگائے اور بھاگ جائے اسے یقین ہوگیا تھا کہ یہ لڑکی شرشراریا بدروح ہے اور اسے دھوکے سے اس ڈھکی چھپی جگہ لے آئی ہے اور اب اس کا خون پی جائے گی لیکن وہ جیسے جکڑ لیا گیا ہو لڑکی کی مسکراہٹ اور اس کے سراپا میں کوئی ایسی قوت تھی جس نے سپاہی کے گھوڑے کا رخ لڑکی کی طرف کردیا تم سپاہی ہو مرد ہو لڑکی نے اسے کہا مجھ سے ڈر رہے ہو؟
وہ اس کے قریب گیا تو لڑکی نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا گھوڑا بے لگام نہیں ہوا تھا میں نے اسے خود ایڑی لگائی اور بھگایا تھا اور چیخیں مار کر یہ ظاہر کیا تھا کہ گھوڑا بے لگام ہوگیا ہے اور میں گر پڑوں گی مجھے امید تھی کہ تم میرے پیچھے آؤ گے میں اناڑی نہیں شاہ سوار ہوں تم نے یہ دھوکہ کیوں دیا ہے؟
سپاہی نے پوچھا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے لڑکی نے کہا میں یہ باتیں سب کے سامنے نہیں کرسکتی تھی تم نے ان آدمیوں میں ایک بوڑھا دیکھا ہے وہ میرا خاوند ہے اس کی عمر دیکھو اور میری جوانی دیکھو میرے ساتھ جو لڑکیاں ہیں ان میں سے ایک میری طرح ایک بوڑھے آدمی کی بیوی بنا دی گئی ہے تم جانتے ہو کہ لڑکی کو جس کے ساتھ باندھ دو وہ بول نہیں سکتی یہ بوڑھا مجھے خوش کرنے کے لیے اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے یہ سب تاجر ہیں ہمیں بھی اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں
دوسری دو لڑکیاں کون ہیں؟
سپاہی نے پوچھا وہ دونوں شادی شدہ ہیں لڑکی نے جواب دیا ان کے خاوند جوان ہیں وہ انہیں سیر سپاٹے کے لیے ساتھ لاتے ہیں تم میری مدد کرو اگر یہ لوگ تمہیں اغوا کرکے لائے ہوتے تو میں ان سب کو چوکی لے جاتا سپاہی نے کہا تم اس کی بیوی ہو میں نے اسے اپنا خاوند تسلیم نہیں کیا لڑکی نے کہا تمہیں دیکھا ہے تو میرے دل میں اس بوڑھے کی نفرت اور زیادہ گہری ہوگئی ہے اس نے جذباتی لہجے میں کہا تمہیں پہلی نظر میں دیکھ کر میرے دل سے آواز آئی کہ یہ ہے تمہارا خاوند خدا نے تمہیں اس خوبرو جوان کے لیے پیدا کیا ہے
میں اتنا خوبصورت نہیں جتنا تم نے کہا ہے سپاہی نے کہا تم مجھے کیوں دھوکہ دے رہی ہو؟ 
تمہارے دل میں کیا ہے؟
خدا جانتا ہے کہ میرے دل میں کیا ہے لڑکی نے مایوس سے لہجے میں کہا وہی تمہارے دل میں رحم ڈالے گا اگر تم میرے دل کی آواز کو دھوکہ سمجھتے ہو تو میں اپنے خاوند کے پاس نہیں جاؤں گی گھوڑے کو ایڑی لگاؤں گی اور سیدھی دریا میں گھوڑے سمیت کود جاؤں گی خدا سے جاکر کہوں گی کہ تم میرے قاتل ہو وہ ایک تشنہ سپاہی تھا سرحد کی ڈیوٹی سے اکتایا ہوا تھا وہ سلطان صلاح الدین ایوبی علی بن سفیان یا العادل نہیں تھا وہ سپاہی تھا جوان تھا اور یہی اس کی شخصیت تھی لڑکی کے حسن وشباب اور اس کے انداز اور اس کی باتوں نے اسے موم کردیا البتہ اس احساس کا اس نے اظہار کردیا میں کمتر سپاہی ہوں اور تم شہزادیوں سے کم نہیں تم مخمل سے نکل کر میرے ساتھ اس ریت پر اور ان چٹانوں میں زندہ نہیں رہ سکو گی اگر خواہش مخمل اور دولت کی ہوتی تو اس بوڑھے خاوند سے بہتر میرے لیے کوئی خاوند نہیں ہوسکتا تھا لڑکی نے کہا اس نے اپنی دولت میرے قدموں میں ڈال رکھی ہے لیکن میں کسی سپاہی کی بیوی بنانا چاہتی ہوں میرا باپ بھی سپاہی ہے دو بڑے بھائی بھی سپاہی ہیں وہ دمشق اور شام کے محاذ پر سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں ہیں مجھے اس بوڑھے کے حوالے میری ماں نے کیا ہے ہم غریب لوگ ہیں میری خوبصورتی میری بدنصیبی کا باعث بنی ہے میں شاہ سوار ہوں یہ میرے خاوند کو معلوم نہیں ہمارے خاندان کی دولت یہی عسکری روایات ہیں میں نے ہمیشہ یہ خواہش کی ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہو جاؤں اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی سپاہی کے ساتھ شادی کرلوں تم ریت اور چٹانوں کی باتیں نہ کرو میں اس ریت کی پیداوار ہوں اور جب میرا خون اسی ریت میں جذب ہوجائے گا تو میری روح مطمئن ہوکر خدا کے حضور جائے گی میں تمہاری مدد کس طرح کرسکتا ہوں؟
آؤ لڑکی نے کہا آہستہ آہستہ واپس چلتے ہیں وہ لوگ ہمارے پیچھے آرہے ہوں گے راستے میں تمہیں بتاؤں گی کہ میں نے کیا سوچا ہے وہ چل پڑے لڑکی نے کہا میں تمہیں یہ نہیں کہوں گی کہ مجھے اپنے ساتھ لے چلو یہ جرم ہوگا میرا خاوند قاضی کے پاس چلا جائے گا اور ہم دونوں سزا پائیں گے پہلے اس خاوند سے آزاد ہونا ہے اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے ایسے طریقے سے قتل کیا جائے کہ یہ قتل نہ لگے قتل تم نہیں کرو گے میں کروں گی ہوسکتا ہے اسے شراب میں کچھ ملا کر پلا دوں اور رات کو دریا کے کنارے لے جا کر دھکا دے دوں اور کہوں کہ وہ نشے میں دریا میں اتر گیا تھا اس کے لیے دو چار روز انتظار کرنا پڑے گا میں اسے یہیں رکھوں گی تمہارے پاس کوئی زہر ہے؟
سپاہی نے پوچھا لڑکی نے قہقہہ لگایا اور کہا تم بدھو سپاہی ہو میں قاہرہ کے دور اپور کے علاقے کی رہنے والی ہوں جس میں سے یہ دریا گزرتا ہے ہماری خوراک مچھلی ہے مچھلی کا پتہ زہر سے بھرا ہوتا ہے تم نے دیکھا ہے کہ ہم یہاں بھی مچھلیاں پکڑتے ہیں میں مچھلی کا پتہ الگ کرکے چھپا لوں گی اور اس میں سے چند قطرے بوڑھے کی شراب میں ملا دوں گی پھر اسے سیر کے بہانے دریا کے کنارے لے جاؤں گی پھر میں تمہیں کس طرح لے جاؤں گا؟
وہ مرگیا تو میں آزاد ہوں گی لڑکی نے جواب دیا میں سب سے کہہ دوں گی کہ تم میں سے کوئی بھی میرا وارث نہیں جو مجھے اپنی مرضی کی شادی سے روکے میں تمہارے ساتھ چلی جاؤں گی تم مجھے اپنے گھر بھیج دینا اور سنو تم مجھے ملتے رہنا اب چلے جاؤ گے تو پھر کب آؤ گے؟
میں صرف گشت پر آسکتا ہوں سپاہی نے جواب دیا چوکی دور ہے گشت کے بغیر ہم گھوڑا استعمال نہیں کرسکتے میری گشت اسی ساتھی کے ساتھ کل رات کے دوسرے پہر ہوگی میں یہیں آجاؤں گا ذرا دور رہنا لڑکی نے کہا میں تمہیں راستے میں ملوں گی کہیں چھپ کر بیٹھ جائیں گے لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا سپاہی نے اس کی طرف دیکھا تو لڑکی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں سپاہی کے تمام شکوک رفع ہوگئے اس نے لڑکی کا ہاتھ دل پر رکھ کر دبایا وہ جب اس جگہ پہنچے جہاں سے لڑکی کا گھوڑا چٹان کی اوٹ میں ہوگیا تھا انہیں تمام آدمی نظر آئے وہ اسی طرف دیکھ رہے تھے انہیں دیکھ کر وہ ان کی طرف دوڑ پڑے دونوں گھوڑوں سے اترے لڑکی کا بوڑھا خاوند سپاہی کے ساتھ لپٹ گیا اس کی آواز کانپ رہی تھی دوسرے آدمیوں نے بھی والہانہ انداز سے اس کا شکریہ ادا کیا لڑکی نے انہیں جھوٹ موٹ کی کہانی سنا دی اور کہا کہ اس سپاہی نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اسے بچایا ہے ورنہ گھوڑا اسے کسی پتھریلے کھڈ میں گرا کر مار دیتا دونوں سپاہی چوکی کو واپس روانہ ہوئے راستے میں اس سپاہی نے اپنے ساتھی کو بتایا کہ اصل واقعہ کیا ہوا ہے اس کے ساتھی کے دل میں رشک سا پیدا ہوا لیکن اس نے بتایا کہ اس کی غیرحاضری میں ایک لڑکی عجیب سی نظروں سے اسے دیکھتی تھی یہ سپاہی اپنے ساتھی کے پیچھے جانا چاہتا تھا مگر پیدل پہنچنا ممکن نہیں تھا باقی آدمی پیچھے کھڑے رہے وہ بہت آگے چلا گیا دو لڑکیاں بھی آگے گئیں جن میں سے ایک اس کے ساتھ باتیں کرنے لگی باتوں باتوں میں لڑکی نے اس سپاہی کے ساتھ محبت کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ وہ اسے پھر کب ملے گا اس نے لڑکی کو بتایا کہ وہ کل رات کے دوسرے پہر گشت پر آئے گا اس لڑکی نے اسے بتایا کہ اسے ایک بوڑھے کے ساتھ بیاہ دیا گیا ہے اور وہ اس کے ساتھ بھاگنا چاہتی ہے دونوں کی کہانی ایک جیسی تھی انہوں نے اس مسئلہ پر غور کرنا شروع کردیا کہ وہ لڑکیوں کو کس طرح اپنے ساتھ لے جائیں گے وہ دونوں اس پر بھی غور کرنے لگے کہ اگر لڑکیاں اپنے خاوندوں کو قتل نہ کرسکیں تو وہ انہیں قتل کریں اور کس طرح کریں گے دونوں سپاہی بڑے ہی حسین تصورات میں خمار کی کیفیت میں اپنی چوکی پر پہنچے انہوں نے اپنے کمانڈر کو رپورٹ دی کہ فلاں جگہ قاہرہ کے تاجروں کا قافلہ رکا ہوا ہے جس کے سامان کی تلاشی لی گئی ہے اور ہر طرح اطمینان کرلیا گیا ہے کہ وہ مشتبہ اور مشکوک لوگ نہیں ان سپاہیوں نے لڑکیوں کا ذکر بھی کیا چوکی کے کمانڈر نے رپورٹ کے پہلے حصے کو توجہ سے نہیں سنا تھا جب لڑکیوں کا ذکر آیا تو اس نے دلچسپی لینی شروع کردی لڑکیوں کی تعداد عمر شکل وصورت قدبت رنگ روپ غرض اس نے کوئی بات نہ رہنے دی سپاہیوں نے اس کے اس رویے کو محسوس کیا اور خاموش رہے چوکی میں ایک اور چوکی کا سپاہی بیٹھا تھا وہ چوکی وہاں سے آٹھ دس میل دور تھی اس کے کمانڈر نے اس سپاہی کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ آج شام کے بعد میری چوکی میں آنا ضروری کام ہے کمانڈر نے یہ پیغام لانے والے سپاہی کو یہ کہہ کر روک لیا تھا کہ اکٹھے چلیں گے سورج غروب ہوتے ہی کمانڈر سپاہی کے ساتھ روانہ ہوگیا دوسری چوکی پر پہنچا تو شام گہری ہوچکی تھی یہ چوکی ہری بھری جگہ تھی وہاں اس شام کچھ اور ہی رونق تھی چوکی کے تمام سپاہی جو ڈیوٹی پر نہیں تھے، چوکی کے باہر گول دائرے میں بیٹھے تھے مشعلیں جل رہی تھیں چوکی کا کمانڈر وہاں نہیں تھا اس کے خیمے میں گئے وہاں دو لڑکیاں بیٹھی تھیں اور تین صحرائی آدمی بھی تھے ان کے قریب ساز اور دف پڑے تھے مہمان کمانڈر کے آتے ہی کھانا چنا گیا سب کھا چکے تو چوکی کے کمانڈر کے کہنے پر سازندے اور لڑکیاں باہر چلی گئیں دوسری چوکی کے کمانڈر نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور باہر کیا ہورہا ہے یہ لڑکیاں ناچنے والی ہیں کمانڈر نے جواب دیا اور ان کے ساتھ سازندے ہیں یہاں سے گزر رہے تھے پانی پینے کے لیے رکے تو میں نے انہیں بٹھا لیا لڑکیاں اچھی لگیں میں نے انہیں کھانا بھی کھلایا یہ کہیں جارہے تھے میرے کہنے پر رک گئے آج رات انہیں یہیں رکھوں گا مجھے یہ سلسلہ اچھا نہیں لگا دوسرے کمانڈر نے کہا سرحد پر آکر یہ عیاشی سپاہیوں کو خراب کرے گی اس کے بغیر سپاہی زیادہ خراب ہورہے ہیں میزبان کمانڈر نے کہا ایک ہمارے وہ ساتھی ہیں جو شہروں میں عیش کررہے ہیں ایک ہم ہیں جو معلوم نہیں کب سے یہاں بو گیر کتوں کی طرح آوارہ پھر رہے ہیں کیا تمہیں سپاہیوں نے کبھی پریشان نہیں کیا کہ ان کی جگہ دوسرے دستے لائے جائیں؟
میری چوکی میں تو دو سپاہی آپس میں لڑ بھی چکے ہیں مہمان کمانڈر نے کہا اب تو سپاہیوں کو معمولی سی بات پر غصہ آجاتا ہے سپاہی انہیں چیخ چیخ کر داد دے رہے تھے تین چار سپاہیوں نے لڑکیوں کی طرف پیسے پھینکے جو لڑکیوں نے یہ کہہ کر واپس کردئیے کہ وہ وطن کے محافظوں سے پیسے نہیں لیں گی ان کے سازندوں نے بھی سپاہیوں سے کہا کہ اگر وہ ناچ گانے سے خوش ہوتے ہیں تو انہیں جب بھی بلایا جائے گا وہ بلا اجرت آجایا کریں گے ان تماشائیوں میں دو کمانڈر تھے ان کے عہدے کوئی زیادہ اونچے تو نہیں تھے پھر بھی وہ ذمہ دار افراد تھے اور وہ دونوں اپنی ذمہ داریوں کو بھول چکے تھے انہوں نے یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش نہ کی کہ ناچنے گانے والی یہ پارٹی آئی کہاں سے ہے اور جا کہاں رہی ہے اور جو کچھ سازندوں نے اپنے متعلق بتایا ہے وہ صحیح بھی ہے یا نہیں کمانڈروں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ تماشائیوں میں مصر کے صحرائی لباس میں جو چند ایک آدمی بیٹھے ہیں وہ کون ہے اور کہاں سے آئے ہیں اور ان کمانڈروں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ چوکی کے چار سپاہی گشتی پہرے سے جلدی واپس آگئے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے چار سپاہی پہرے کے لیے گئے ہی نہیں...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی