🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➏➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا جب شہر کے دو دروازے ایک پہلو سے اور دوسرے دو پہلو سے کھلے اور اندر سے لشکر بڑی ہی تیزی سے ان چاروں دروازے سے نکلنے لگے، ادھر پانچواں دروازہ کھلا اور یوکلس اپنے تقریبا ایک سو جانبازوں کے ساتھ شہر سے نکلا ، یہ دروازہ اسی نے کھلوایا تھا، انتھونیس نے صرف چار دروازے کھولنے کا حکم دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ حملے کے دوران دروازے کھلے رکھے جائیں۔
اب کے لشکر کے لڑنے کا انداز کچھ اور تھا دائیں بائیں حملہ کرنے کے بجائے سیدھے حملے کیے گئے مسلمان حملہ روکنے کے لیے تیار ہوگئے اور تصادم ہوا۔
مجاہدین کے لڑنے کا انداز یہ تھا کہ وہ مقابلہ تو کر رہے تھے لیکن دباؤ ڈالنے کے بجائے پیچھے ہٹتے جا رہے تھے ان قبائلیوں کو معلوم نہ تھا کہ خالد بن ولید کس قدر دانشمند سپہ سالار ہیں ،اور رہتی دنیا تک غیر قومیں بھی انکے حوالے دیا کریں گے۔
مجاہدین کا اس طرح آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا کہ دشمن کو یہ دھوکہ ہو کہ یہاں بھی بھاگ نکلیں گے مسلمانوں کی ایک خاص جنگی چال تھی جس سے انہوں نے بڑی بڑی جنگی طاقتوں کو شکست دی تھیں۔
انتھونیس اور روتاس بھی اسی دھوکے میں آگئے اور محسوس ہی نہ کر سکے کہ انکے لشکر قلعے سے خاصی دور نکل آئے ہیں ۔جہاں سے ان کے لیے واپسی محال ہوجائے گی۔
جب دونوں طرف سے قبائلی لشکر مسلمانوں سے لڑتے لڑتے شہر سے بہت دور نکل گئے تو شہر کے ساتھ والی ٹیکریوں اور پہاڑیوں میں سے گھوڑسوار مجاہدین کا ایک سیلاب نکلا یا وہ تیز تند طوفان تھا جو حیران کن رفتار سے شہر کی طرف آیا اور شہر کی دیوار اور قبائلی عیسائیوں کے لشکر کے درمیان حائل ہو گیا یہ وہ گھوڑسوار مجاہدین تھے جو محاصرے سے نکل گئے تھے اور انتھونیس اور شہر کے لوگوں کو یہ دھوکا ہوا تھا کہ مسلمان محاصرہ اٹھا رہے ہیں، اور یہ گھوڑ سوار دستے واپس چلے جائیں گے وہ گئے کہیں بھی نہیں تھے۔
ٹیکریوں اور پہاڑیوں کے پیچھے جا کر چھپ گئے تھے۔ اور اپنے سپہ سالار کے اشارے کا انتظار کرتے رہے تھے۔
انہیں بہت ہی دنوں بعد اشارہ ملا اور ان کے لیے جو حکم تھا ان کی تعمیل انہوں نے پوری خوش اسلوبی سے کی۔
ان میں سے کچھ شہر کے کھلے دروازوں میں سے اندر چلے گئے اور باقی قبائلی لشکروں پر ٹوٹ پڑے محاصرہ کرنے والے وہ مجاہدین جو لڑتے لڑتے پیچھے ہٹ رہے تھے، یکلخت رک گئے اور قبائلیوں پر ہلہ بول دیا ۔اب قبائلی لشکر دونوں طرف نرغے میں آگئے اور ادھر مجاہدین شہر میں بھی داخل ہو گئے تھے۔ شہر میں کچھ مزاحمت ہوئی لیکن وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔
مجاہدین تمام شہر میں گھوم گئے اور اعلان کرتے گئے کہ تمام آدمی گھر سے باہر نکل آئیں اور عورتیں گھروں کے اندر رہیں اگر کوئی مرد گھر کے اندر چھپا ہوا پایا گیا تو اسے قتل کردیا جائے گا، عورتیں بالکل نہ ڈریں ان کی طرف کوئی غلط نظر سے دیکھے گا بھی نہیں نہ کسی بوڑھے بچے یا مریض پر ہاتھ اٹھایا جائے گا نہ کوئی ضعیف العمر یا مریض آدمی گھر سے باہر آئے۔
صرف کہنے پر کون یقین کرتا لوگوں نے اپنی عورتوں اور خصوصا نوجوان لڑکیوں کو گھروں میں ادھر ادھر چھپا دیا اور خود باہر نکل آئے۔ عورتیں ڈر کے مارے باہر نہیں آئی تھیں نہ اپنے مکانوں کی چھتوں پر جاتی تھیں کہ دیکھتی کے باہر کیا ہو رہا ہے ہر گھر میں افراتفری تھی۔
اگر یہ فوج رومیوں یا ایرانیوں کی یا کسی اور غیر مسلم قوم کی ہوتی تو وہ گھروں پر ہلّہ بول دیتیں لوٹ مار کرتیں اور قتل عام بھی کوئی جوان عورت ان کے ہاتھ سے نہ بچتی لیکن مجاہدین نے لوگوں کے گھروں کی طرف دیکھا تک نہیں۔
شہر میں تمام آدمی باہر میدانوں میں اکٹھے ہو گئے شہر کے باہر قبائلی عیسائیوں کا قتل عام ہو رہا تھا وہ خالد بن ولید کے پھندے میں آ گئے تھے۔
یوکلس اپنے ایک سو جانبازوں کے ساتھ مسلمانوں کے سپہ سالار کو ڈھونڈ رہا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کا سپہ سالار بادشاہ نہیں ہوا کرتا جو میدان جنگ سے ذرا دور ایک جگہ کھڑے رہ کر حکم چلاتا ہے۔ خالد بن ولید جنگ کے دوران کسی ایک جگہ تو ٹھہرتے ہی نہیں تھے ، قاصد اور مجاہد ان کے ساتھ ساتھ رہتے تھے ، یوکلس انہیں ڈھونڈتا ہی رہا کہ وہ بھی اپنے جانبازوں کے ساتھ مجاہدین کے گھیرے میں آ گیا اور نوجوانوں کا یہ دستہ کٹ کٹ کر گھوڑوں سے گرنے لگا، اور گھوڑے انہیں پاؤں تلے روندنے مسلنے لگے۔
دونوں رومی مارے گئے ہیں۔۔۔ کسی نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔۔۔ انتھونیس بھی نہیں رہا، روتاس بھی قتل ہو گیا ہے ۔
یہ آواز کئی آوازوں میں بدل گئی اور تمام تر میدان جنگ میں یہ اطلاع پھیل گئی کہ قبائلیوں کے کمانڈر انتھونیس اور روتاس مارے گئے ہیں۔
قبائلی عیسائیوں کا جوش و خروش ایسا مانند پڑا جیسے جلتی مشعل اچانک بجھ گئی ہو۔ انہوں نے برچھیاں تلواریں اور کمانے پھینک دیں اور چلا چلا کر کہنے لگے کہ ہم نہیں لڑیں گے ان میں جو گھوڑوں پر سوار تھے وہ گھوڑوں سے اتر آئے اور اس طرح جو مرنے سے بچ گئے تھے ہتھیار پھینک کر موت سے محفوظ ہو گئے۔
خالد بن ولید نے جنگ روک دی اور یہ حکم نہیں دیا کہ ہتھیار ڈالنے والوں کو قید میں ڈال دیا جائے بلکہ یہ اعلان کیا کہ جو قبائلی ہتھیار ڈال چکے ہیں وہ شہر کے اندر چلے جائیں لیکن اپنے گھروں میں نہ داخل ہوں اس حکم کے مطابق قبائلی سر جھکائے ہوئے دروازوں میں داخل ہونے لگے اور ایک میدان میں اکٹھا ہو گئے کچھ دیر بعد خالد بن ولید اور سالار عیاض بن غنم شہر کے صدر دروازے سے فاتحین کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوئے۔
یہ شام کا آخری قلعہ تھا وہ بھی فتح ہو گیا اور شام کی فتح پر مسلمانوں کی مہر ثبت ہو گئی ۔
خالد بن ولید اس جگہ گئے جہاں شہر کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تھا ہتھیار ڈالنے والوں کو بھی وہیں لے گئے اور خالد بن ولید نے ان سے مختصر سا خطاب کیا۔
الجزیرہ کے لوگوں۔۔۔ خالد بن ولید نے کہا۔۔۔ ہم نے یہ شہر لڑ کر لیا ہے اور تم نے ہمیں جانی نقصان پہنچایا ہے تمہارے ساتھ ہمارا سلوک کچھ اور ہونا چاہیے تھا لیکن میں اس راستے پر چلوں گا جو مجھے ہمارے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دکھایا ہے ۔ ہمارے دستور کے مطابق تم سب کو اسلام قبول کر لینا چاہیے اور پھر ہمارا حق ہے کہ تم سے تاوان بھی وصول کریں لیکن بنو تغلب نے ہتھیار ڈالے تھے تو ہمارے امیرالمومنین نے حکم بھیجا تھا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اس کے بجائے جزیہ وصول کیا جائے ۔
تم سب کو جزیہ دینا پڑے گا اور جزیہ ہر ایک کی حیثیت کے مطابق وصول کیا جائے گا ۔ تم لوگ ہمارے خلاف لڑنے کے لئے رومیوں کے ساتھ جاملے تھے تمہیں اس کی سزا ملنی چاہیے لیکن ہم تمہیں کوئی سزا نہیں دیں گے۔ کیا شہر کے کسی بھی گھر میں لوٹ مار ہوئی ہے؟ ۔۔۔کوئی مسلمان کسی گھر میں داخل ہوا ہے؟
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ سپہ سالار بہت سی آوازیں آئیں، جن کا مطلب یہ تھا کہ نہ لوٹ مار ہوئی ہے نہ کوئی مسلمان کسی گھر میں داخل ہوا ہے۔
اور نہ ہوگا ۔۔۔خالد بن ولید نے کہا ۔۔۔ہم تمہاری عزت و آبرو اور تمہارے جان و مال کے محافظ ہیں لیکن کسی نے ذرا سی بھی بدامنی یا غداری کی تو اسے قتل کردیا جائے گا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ حلب کے غیرمسلموں کے دلوں پر جو خوف بیٹھ گیا تھا وہ نکل گیا اور کئی ایک نے اسی روز اسلام قبول کر لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہونے میں ابھی بہت وقت باقی تھا مجاہدین اپنے زخمی ساتھیوں اور شہیدوں کی لاشوں کو اٹھا رہے تھے۔
ان کی خواتین زخمیوں کو پانی پلاتیں پھر رہی تھیں اور ان میں جو ذرا بھی چلنے کے قابل تھے انہیں سہارا دے کر وہاں پہنچا رہی تھی جہاں مرہم پٹی کا انتظام تھا۔
وہاں دو ہی آوازیں سنائی دیتی تھیں ایک زخمیوں کا کراہنا اور دوسرا پانی، پانی، خدا کے واسطے ایک بوند پانی،،،،، شارینا بھی اسی کام میں مصروف تھی کہ وہ ایک زخمی کو دیکھ کر رک گئی اور حیرت زدگی کے عالم میں اس کے پاس بیٹھ گئی یہ ایک نوجوان زخمی تھا جس کے چہرے اور سر پر تو کوئی زخم نہ تھا لیکن اس کے تمام کپڑے لال سرخ ہو گئے تھے اور خون ابل ابل کر نکل رہا تھا۔
تم یوکلس تو نہیں ہو سکتے! ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ شاہ ہرقل کے بیٹے کا یہاں کیا کام میں خواب تو نہیں دیکھ رہی!،
میں یوکلس ہی ہوں شارینا!۔۔۔زخموں سے نڈھال یوکلس نے کہا ۔۔۔میں تمہیں دیکھ کر حیران ہورہا ہوں تم یہاں کیسے؟
یوکلس سے اچھی طرح بولا نہیں جارہا تھا وہ بولتا تھا تو اس کی آواز ڈوبنے لگتی تھی۔
چپ رہو یوکلس! ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ یہ وقت کہانیاں سننے سنانے کا نہیں کہ تم یہاں کیسے آ گئے اور میں یہاں کس طرح آن پہنچی ہوں ۔یہ لو پانی پیئو اور میں تمھیں اٹھاکر مرہم پٹی کے لیے لے چلتی ہوں۔
نہیں شارینا! ۔۔۔یوکلس نے کہا۔۔۔ میرا وقت پورا ہوچکا ہے معلوم نہیں میں اب تک زندہ کیسے ہوں مجھے یہیں آخری سانس لے لینے دو۔
یوکلس نے شارینا کا ایک ہاتھ پکڑ لیا ۔
یہ تو الگ بات ہے کہ یوکلس انتھونیس کا بیٹا تھا، لیکن سب اسے شاہ ہرقل کا بیٹا کہتے تھے کیونکہ وہ ہرقل کی ایک بیوی لیزا کا بیٹا تھا ۔شارینا بھی شاہ ہرقل کی بیٹی تھی اس لیے وہ اور یوکلس ایک دوسرے کو بڑی اچھی طرح جانتے تھے۔
شارینا نے یوکلس سے کہا کہ وہ مجاہدین کو بلواتی ہے اور اسے وہاں سے اٹھا کر شہر میں لے چلی گی، لیکن یوکلس نے شارینا کا ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیا اور زور زور سے سر ہلا کر کہنے لگا کہ وہ مرہم پٹی نہیں کروائے گا کیونکہ وہ بیکار ہو گی۔
ادھر دور دور تک بکھری ہوئی لاشوں میں نوجوان روزی یوکلس کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی، عورتوں کے لئے باہر نکلنے کی پابندی تھی لیکن وہ چھپتی چھپاتی کسی طرح گھر سے ہی نہیں بلکہ شہر سے نکل آئی اور اس کو ڈھونڈتی رہی تھی شاید اسے کسی نے بتا دیا تھا کہ یوکلس مارا گیا ہے یا بری طرح زخمی ہو گیا ہے۔
روزی پاگلوں کی طرح زخمیوں اور لاشوں کو دیکھتی پھر رہی تھی وہ کئی بار کسی نہ کسی لاش سے ٹھوکر کھا کر گری اور اٹھ کر پھر زخمیوں اور لاشوں کو دیکھنے لگتی آخر وہ وہاں تک جا پہنچی جہاں شارینا یوکلس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
یوکلس کو دیکھ کر وہ اس کے اوپر گری اور دیوانہ وار اس کے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
اٹھنے کی کوشش کرو یوکلس شارینا نے اپنا ایک بازو یوکلس کے کندھوں کے نیچے لے جاتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم دونوں تمہیں اٹھاکر لے جائیں گی۔
ہم اٹھالیں گے یوکلس روزی نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ہی انتظار میں تھا روزی !۔۔۔یوکلس نے روزی سے کہا۔۔۔میری ماں سے کہنا ۔۔۔اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا آنکھیں پتھرا گئیں۔
روزی کے سینے سے ایک چیخ نکلی اور وہ لاش سے لپٹ گئی ، شارینا وہاں سے اٹھی اور ایک آہ لے کر وہاں سے چلی گئی ، اس نے روزی سے یہ بھی نہ پوچھا کہ وہ کون ہے؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کیا وہ زمانہ تھا ،کیا وہ مسلمان اور کیا ان کا ایمان تھا ، آج کے پیمانوں سے ناپو تو لگتا ہے کہ حساب غلط ہو گیا ہے، اور یہ جو ہم اسلامی فتوحات کی تاریخی کہانیاں پڑھتے ہیں یہ افسانے ہیں۔
یہ تو انسانی فطرت کے مظاہر ہیں جو قدرت کے اٹل اصولوں کے تحت ظہور پذیر ہوتے ہیں اور یہ عمل اور ردعمل کا فلسفہ ہے کہ ردعمل عمل کے مطابق ہی ہوتا ہے ۔
انسان غلط سوچوں میں پڑجائے تو دماغ کا کمپیوٹر جو جواب دیتا ہے وہ غلط ہی ہوتا ہے مسلمان ایمان سے دستبردار ہوجائے تو اس کی نگاہ میں کل کی حقیقت آج کا افسانہ بن جاتی ہے۔
وہ بھی مسلمان ہی تھے جو ایمان کو ہی اپنی متاع عزیز سمجھتے تھے اور ان کی نگاہوں میں اپنی جانوں کی کوئی اہمیت تھی ہی نہیں وہ ایمان کی طاقت ہی تھی کہ ان مسلمانوں نے اس دور کے دیوہیکل جنگی طاقتوں کو افسانہ بنا ڈالا تھا جیسے ان کی حقیقت تھی ہی نہیں۔
یہ فارس ایران اور روم کی طاقتیں تھیں جو آپس میں ٹکراتی تھیں تو یوں لگتا تھا جیسے زمین وآسمان ہل رہے ہوں۔ کسریٰ (ایران) یعنی بادشاہ وقت کو لوگ خدا کا بیٹا مانتے تھے، جنگی طاقت ہو اور قدموں میں دنیا کا خزانہ پڑا ہوا ہو تو انسان اپنے آپ کو فرعونوں کی طرح خدا بھی سمجھ لیتا ہے ،کسریٰ تو اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ۔
خدا کے اور خدا کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے شیدائی جب پیغام حق لے کر نکلے تو خدا کا بیٹا یزدگرد اپنے دارالحکومت مدائن تمام تر خزانے سمیت مسلمانوں کے قدموں میں پھینک کر بھاگ گیا یہ ایران کا آخری کسریٰ تھا اس کی پوری سلطنت پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی شہنشاہیت کا خاتمہ ہو گیا۔
ہم فتح مصر کی جو داستان سنارہے ہیں اس کے ساتھ یزدگرد کے فرار اور انجام کا کوئی تعلق تو نہیں لیکن ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلام کی اصل روح پیش کرنے کے لئے یہ واقعہ مختصرا بیان کردیا جائے۔
یزدگرد ایران مجاہدین کے حوالے کرکے ترکستان جا کر پناہ گزین ہوا اور اس امید کو دل میں زندہ رکھا کہ ایک نہ ایک دن ایران میں مسلمانوں میں بغاوت کرانے میں کامیاب ہو جائے گا اور اس موقع پر وہ ایران جا پہنچے گا اور اس کی سلطنت اسے واپس مل جائے گی اور کسی ایک بھی مسلمان کو وہاں سے زندہ نہیں نکلنے دے گا۔
برسوں بعد اسے یہ موقع مل گیا اس وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے خراسان میں بغاوت ہو گئی یزدگرد نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ترکستان سے مرو جا پہنچا اس نے مختلف سرداروں سے رابطہ کیا اور بغاوت کی آگ پر تیل چھڑکنے کی بہت کوشش کی لیکن مسلمانوں نے جلد ہی بغاوت پر قابو پالیا۔
یزدگرد نے کچھ لوگ اپنے گرد اکٹھا کر لیے تھے ۔وہ سب بھاگ نکلے یزدگرد مجبور ہو گیا کہ جہاں سے آیا تھا وہی بھاگ جائے لیکن اب اس کے لئے بھاگنا بھی آسان نہیں رہا تھا اس کے اپنے ایرانی اہلکار مسلمانوں کے جاسوس نکلے، سپہ سالار نے حکم دیا کہ یزدگرد کا سراغ لگایئں اور اسے گرفتار کر لیں۔
بھگوڑا سابق کسریٰ روپوش ہوتا پھر رہا تھا اور مجاہدین اس کے گرد گھیرا تنگ کر رہے تھے آخر ایک روز وہ دریا کے کنارے ایک پن چکی کے کمرے میں جا چھپا چکی والے نے نشاندہی کردی اور اسے ڈھونڈنے والے وہاں جا پہنچے وہ عرب کے مسلمان یعنی مجاہدین نہیں تھے بلکہ خراسان کے باشندے تھے انہوں نے مسلمانوں کے سپہ سالار کا یہ حکم نظر انداز کردیا کہ یزدگرد کو گرفتار کرکے لایا جائے اس کے بجائے انہوں نے یزدگرد کو قتل کرکے لاش دریا میں پھینک دی۔
تاریخ میں ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ چکی والا یزگرد کو جانتا تو نہیں تھا لیکن اس کے شاہانہ لباس سے اور پھر چھپنے کے انداز سے یقین ہو گیا کہ یہ یزدگرد ہی ہوسکتا ہے جس کی گرفتاری کا اعلان ہوچکا ہے، چکی والے نے اپنا کمرہ باہر سے بند کر دیا اور مرو کے حاکم کے پاس جا پہنچا اسے بتایا کہ یزدگرد اس کے ہاں چھپا ہوا ہے، مرو کے حاکم نے اپنے ایک سالار کو حکم دیا کہ یزدگرد کا سر کاٹ کر اس کے پاس لایا جائے چکی والا یہ حکم سن کر دوڑا گیا اور خود ہی یزدگرد کا سر کاٹ ڈالا اور جب سالار آیا تو سر اس کے حوالے کر دیا اور لاش دریا میں پھینک دی۔
تاریخ میں یہ اختلاف موجود ہے کہ یزدگرد کو کس نے کس طرح قتل کیا لیکن اس روایت پر تمام مورخ متفق ہیں کہ یزدگرد کو چکی والے کمرے میں قتل کیا گیا اور اس کی لاش دریا میں پھینک دی گئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کسریٰ ایران کی آتش پرست سلطنت یوں تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو گئی، اور دوسری طرف قیصر روم جو جنگی طاقت اور مال و دولت کے لحاظ سے یقینا دیوہیکل تھا پناہ ڈھونڈ رہا تھا اسے شام سے جس طرح بے دخل کیا گیا تھا وہ سنایا جاچکا ہے، حلب ،شام کا آخری قلعہ تھا وہ بھی مجاہدین نے فتح کر لیا تو قیصر روم شاہ ہرقل کے ساتھ وہی بات بن گئی نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔
شام تو قلعوں کا ملک تھا اور بعض قلعے اس قدر مضبوط تھے کہ انھیں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا لیکن کوئی بھی قلعہ ہرقل کو پناہ نہ دے سکا، اس کی فوج تو لڑتی اور پسپا ہوتی چلی جا رہی تھی اور جب آدھا شام مجاہدین نے فتح کر لیا تو ہرقل نے اپنی فوج کو مجاہدین کے رحم و کرم پر چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر لی اسے یہ خطرہ صاف نظر آنے لگا تھا کہ وہ گرفتار ہو جائے گا ، وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔
آخر اسے انطاکیہ ایک محفوظ مقام نظر آیا اور وہاں جا پناہ لی، لیکن سپہ سالار ابوعبیدہ وہاں بھی جا پہنچے اور ہرقل کی محصور فوج بھاگ نکلی ، ہرقل وہاں سے بھی زندہ و سلامت نکل گیا اور اسے روہاء کا مقام نظر آیا یہاں کا قلعہ خاصا مضبوط تھا لیکن مجاہدین اسلام وہاں بھی جا گرجے اور ہرقل نکل بھاگا۔
حلب ایک آخری شامی قلعہ بند شہر رہ گیا تھا، مجاہدین نے وہ بھی لے لیا لیکن ہرقل حلب سے دور تھا اور اس نے اور دور بھاگ جانا بہتر سمجھا ،اس نے قسطنطنیہ جا دم لیا۔
قارئین کرام کی معلومات کے لیے یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ ترکی کا ایک شہر تھا اور ہرقل کے زمانے میں ترکی پر رومیوں کی حکومت تھی۔ قسطنطنیہ کا ایک نام بزنطیہ تھا یہ نام اس وقت رکھا گیا تھا جب وہاں بازنطینی حکومت تھی ۔ ہرقل کے ایک بیٹے کا ذکر اس داستان میں آیا ہے جس کا نام قسطنطین تھا اس بیٹے کے ساتھ ہرقل کو اتنا پیار تھا کہ اس نے بزنطیہ کا نام تبدیل کرکے قسطنطنیہ رکھ دیا تھا ۔
موجودہ صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد اتاترک مصطفی کمال پاشا کی حکومت بنی تو قسطنطنیہ کا نام بدل کر استنبول رکھ دیا گیا آج یہ استنبول ترکی کا ایک بڑا شہر ہے۔ نقشے پر انطاکیہ دیکھیں اور پھر استنبول دیکھیں۔ ہرقل انطاکیہ سے بھاگ کر استنبول پہنچا ۔ فاصلہ تقریبا 900 کلومیٹر ہے۔
اس وقت کی دوسری بڑی جنگی طاقت جسے ہم نے دیوہیکل کہا ہے شام سے ہمیشہ کے لئے نکل بھاگی ابھی سلطنت قائم تھی، ترکی اور مصر سلطنت میں شامل تھے اور قیصر روم کے پنجے اترے ہوئے تھے، پھر بھی یوں کہا جاسکتا ہے کہ بڑے ہی زہریلے سانپ کی کمر توڑ دی گئی تھی اور اب اس کا دم خم ختم ہو گیا تھا یہ تو پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ہرقل نے مصر سے جو کمک اپنے بیٹے قسطنطین کی زیرقیادت منگوائی تھی وہ آدھی کے قریب کٹ مری اور باقی واپس مصر کو بھاگ گئی تھی۔
یہاں ایک اور وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پہلے ذکر آیا ہے کہ ہرقل نے بزنطیہ خالی کر دینے کا حکم دیا تھا اور خود پہلے ہی نکل گیا تھا، لیکن تاریخ کے اگلے باب حتم و یقین کے ساتھ اس غلط فہمی کی تصحیح کرتے ہیں کہ اس نے بازنطیہ استنبول جا کر پناہ لی تھی اور انطاکیہ اور حلب کے فوجیوں اور شہریوں کو کہا تھا کہ وہ ان شہروں سے نکل جائیں اور اپنی حفاظت اور اپنے مسائل و امور کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقل خوش قسمت تھا کہ مجاہدین اس کے تعاقب میں نہ چلے گئے وہ فتح پر فتح حاصل کرتے جا رہے تھے اور اسی جوش و خروش میں شام کی سرحد سے آگے نکل جانے کا بھی عزم کیے ہوئے تھے لیکن امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ شام کا آخری قلعہ بھی فتح کرلیا گیا گیا ہے اور رومی شام سے نکل گئے ہیں تو امیر المومنین نے پہلا حکم یہ دیا کہ مزید پیش قدمی نہ کی جائے اور جو علاقے فتح کرلئے گئے ہیں ان کے انتظامات اور انکا دفاع مستحکم کیا جائے ۔ایسی ہدایت دینے کی ضرورت نہیں تھی کہ مفتوح آبادیوں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور کسی کو پریشان نہ کیا جائے یہ تو مسلمانوں کا کردار تھا کہ وہ مفتوح بستیوں کے لوگوں کو مفتوح نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان لوگوں کو اپنی پناہ میں لے لیتے اور ان کی تمام ضروریات اپنے ذمے لے لیا کرتے تھے۔
پیش قدمی روک دینے کا فیصلہ دانشمندانہ تھا اور یہ حضرت عمر کی جنگی فہم و فراست کا کرشمہ تھا ، یہ تو انہیں معلوم تھا کہ مجاہدین فتح کی مسرتوں سے سرشار ہیں ان میں جذبہ جہاد بھی اور شوق شہادت بھی ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی احساس تھا کہ وہ آخر گوشت پوست کے انسان ہیں لوہے کے بنے ہوئے نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جسم جواب دے جائیں اور شام سے بھاگ جانے والے رومی کہیں قدم جماکر پلٹ آیا اور شکست کو فتح میں بدل لے۔
مجاہدین کی خوشیوں کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مجاہدین نے کس طرح خوشیاں منائیں ہونگی، سالاروں نے شکرانے کے نوافل باجماعت پڑھائے ہونگے۔ سپہ سالار ابوعبیدہ کو حلب کی فتح کی اطلاع ملی تو وہ حمص سے فورا وہاں پہنچے۔
تاریخ سے یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ سپہ سالار ابوعبیدہ نے کونسی نماز کی امامت کی تھی یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نماز باجماعت پڑھائی اور اس کے بعد مجاہدین سے خطاب کیا ان کا یہ مختصر سا خطاب تاریخ کے دامن میں لفظ بہ لفظ موجود ہے۔
انہوں نے شام کی فتح کی مبارکباد کے بعد کہا۔
اللہ نے قرآن میں جس مدد کا وعدہ فرمایا ہے اس مدد کے صدقے ہم نے اپنا یہ فرض ادا کر دیا ہے کہ باطل کی ایک اور طاقت کو کچل کر اسلامی سلطنت کی سرحد اور وسیع کردی ہے ۔ اسلامی سلطنت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، ہم اپنی بادشاہی نہیں بلکہ اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں ، یہ ساری زمین اللہ کی ہے ،روئے زمین پر صرف اللہ کا حکم چلے گا ،شہیدوں نے اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی کی خاطر جانیں قربان کی ہیں، شہیدوں کو تو اللہ نے اپنے ہاں پناہ دے دی ہے، قربانی ان کی دیکھیں جو بازو یا ٹانگ یا بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور زندہ ہیں اور باقی عمر معذوری میں گزاریں گے۔ لیکن وہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے اللہ نے ان کے بال بچوں کا اوران کے بوڑھے ماں باپ کا رزق اپنے ذمے لے رکھا ہے ۔ شہیدوں اور معذور ہوجانے والوں کی بیوی بچوں اور لواحقین کو یہ زمین دی گئی جس زمین کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ اپنے آپ کو اس دنیا کی نظر سے نہ دیکھو تمہارا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ ہے، تم ہر روز قرآن پڑھتے ہو کیا تم نے پڑھا یا سنا نہیں کہ اللہ نے تمہیں بہترین امت کہا ہے۔ اور تمہیں اعزاز یہ بخشا ہے ، تو ان کی بھلائی کا کام کرتے ہو اور لوگوں کو برائی سے بچاتے ہو اس سے بڑی بھلائی اور کیا ہو گی کہ لوگوں کو ظالم بادشاہوں سے نجات دلائی جائے، اور انھیں باطل کی زنجیروں سے آزاد کر کے سیدھے راستے پر ڈالا جائے، اپنے آپ کو بے یار و مددگار نہ سمجھنا اللہ تمہارے ساتھ ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہم اس داستان کو کچھ دن پیچھے اس مقام پر لے جاتے ہیں جب حلب فتح ہو گیا تھا، مجاہدین شہر میں داخل ہوئے تھے اور داخل ہورہے تھے ،اور شہر کے ارد گرد قبائلی عیسائیوں کی لاشیں دور دور تک بکھری ہوئی تھی ، شہر کی عورتیں اور ان کے بچے شہر سے نکل گئے تھے اور اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کی آہ و بکا سے دل دہل رہے تھے۔
ایک عورت بڑی بلند ہی چیخ نما آواز میں کہتی پھر رہی تھی کہ ہمارے آدمیوں نے آخر کس کی لڑائی لڑی ہے۔۔۔ اور کس کی خاطر کٹ مرے ہیں۔
دونوں رومی جرنیلوں نے ہمارے آدمیوں کو گمراہ کیا تھا ۔۔۔یہ بھی ایک عورت کی آواز تھی جو کئی عورتوں کی آواز بن گئی ،ایک بڑی خوبصورت رومن آئی تھی۔۔۔ ایک اور آواز سنائی دی، وہ عورتوں کو بھی لڑانے کے لئے تیار کر رہی تھی ،وہ ہے کہاں ؟
کسی عورت نے پوچھا ۔۔۔زندہ نظر آجائے تو اسے بھی اسی طرح کاٹ دو جس طرح ہمارے آدمی کٹ گئے ہیں۔ یہ ایک اور عورت کی جلی کٹی آواز تھی۔
یہ رونا اب عورتوں کے لئے ہی تھا جن کے آدمی مارے گئے یا اتنے زخمی ہوگئے تھے کہ ان کے زندہ رہنے کی امید کچھ زیادہ نہیں تھی۔
بچے گلیوں میں روتے پھر رہے تھے عورتیں ہرقل کی بیوی لیزا کو کوس رہی تھیں۔
اسے عورتیں انتھونیس کی بیوی سمجھتی رہی تھیں، لیزا کو اس لڑائی کے ساتھ ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی ، یہ پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ اس نے اپنے خاوند شاہ ہرقل کو دھوکا دے کر رومی فوج کے جرنیل انتھونیس کے ساتھ قابل اعتراض مراسم قائم کر لیے تھے، اور اس کا ایک بیٹا پیدا کیا تھا، جس کا نام یوکلس تھا ۔
حلب میں آکر لیزا نے انتھونیس سے بے وفائی کی، اور روم کے فوجی افسر روتاس کے ساتھ ویسے ہی نازیبا تعلقات قائم کرلئے تھے، اور اس گناہ کی سزا اسے یوں ملی کہ ان دونوں نے تلواروں کے جو وار ایک دوسرے پر کئے تھے وہ لیزا پر پڑے اور دونوں تلوار اس کے جسم کے پار ہو گئی تھیں۔
لیزا یہی کچھ تھی اور یہی اس کا کردار تھا، لیکن عیسائی قبیلوں کی عورتیں اس کے پاس آجاتیں تو وہ انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی اور کہتی تھی کہ اپنے آدمیوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کریں، اور خود بھی تیار ہو جائیں لڑائی کا جو نتیجہ نکلا وہ ان عورتوں نے دیکھ لیا اور اب وہ اپنے آدمیوں کا ماتم کر رہی تھیں۔
انہیں اب محسوس ہونے لگا کہ ان کے آدمیوں نے ایک بے مقصد لڑائی لڑی،۔
کسی نے بتایا ہے اس کا جرنیل خاوند مارا گیا ہے ۔۔۔ایک عورت ہر کسی کو بلند آواز سے بتاتی پھر رہی تھی ۔۔۔دوسرا رومی جرنیل بھی سنا ہے مارا گیا ہے اس کے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں۔
انتھونیس کی بیوی کو ڈھونڈو کہاں ہے۔۔۔ ایک معمر عورت نے کہا۔۔۔ مل جائے تو اسے خنجروں سے چھلنی کر دو۔
عورتیں شہر میں ایک جگہ اکٹھا ہوگئی تھیں کسی نے انہیں بتایا کہ لیزا اسی مکان میں مری پڑی ہے، جس میں رومی فوج کا دوسرا جرنیل یعنی روتاس رہتا تھا ۔ یہ سب عورتیں اس طرف دوڑ پڑیں مکان کا دروازہ کھلا تھا اندر جاکر سب نے دیکھا کہ صحن میں لیزا خون میں نہائی پڑھی تھی ، عورتوں نے اپنے اپنے الفاظ اور انداز میں نفرت اور حقارت کا اظہار کیا کسی نے کہا کہ اس لاش گھسیٹ کر باہر پھینک دو، ایک بولی کی لاش یہی پڑے رہنے دو اور مکان بند کر دو اسے یہی کیڑے مکوڑے کھا جائیں گے۔
زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر شہر کے اندر لایا جارہا تھا ان کے لیے فوجی بارکیں موجود تھیں، اور کچھ لوگ اپنے زخمی عزیزوں کو اپنے گھروں کو لے جا رہے تھے، دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہوگئی تھی زخمی عیسائی، تھا یا مسلمان، مسلمانوں نے مرہم پٹی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ مجاہدین کی عورتیں اسی کام میں مصروف تھیں۔
شارینا بھی یہی کام کرتی پھر رہی تھی وہ ایک گلی میں سے گزری تو اس کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ اس مکان کے اندر رومی جرنیل کی بیوی کی لاش پڑی ہے ۔
شارینا مکان میں چلی گئی وہاں اب دو تین عورتیں رہ گئی تھیں۔
شارینا نے دیکھا تو حیران رہ گئی وہ تو لیزا کی لاش تھی، لیزا کو وہ بہت ہی اچھی طرح جانتی تھی، لیزا کے سامنے ہی وہ ہرقل کے محل میں پلی اور جوان ہوئی تھی، اس کی اپنی ماں بھی ہرقل کی بیوی تھی شارینا ایک تو یہ دیکھ کر حیرت زیادہ ہوئی کہ لیزا یہاں تک کس طرح پہنچی، حیرت کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے قتل کس نے کیا مسلمان تو عورت پر ہاتھ اٹھانا گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔
شارینا نے جب یہ سنا تھا کہ دو رومی جرنیل بھی مارے گئے ہیں تو اس نے دونوں کی لاشیں دیکھی تھی ،وہ چونکہ شاہی خاندان کی لڑکی تھی اس لئے اپنی فوج کے تمام جرنیلوں کو جانتی تھی انتھونیس کی لاش دیکھ کر بھی وہ حیران ہوئی تھی، روتاس کو تو وہ اور ہی اچھی طرح جانتی تھی، روتاس کو حمص میں سپہ سالار ابوعبیدہ کے حکم سے نظر بند رکھا گیا اور شارینا اسے ملتی ملاتی رہتی تھی۔ جب اس نے لیزا کی لاش دیکھی تو اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ یہ عورت یہاں تک کس طرح اور کیوں آئی؟ ۔۔۔انتھونیس اور روتاس کے متعلق تو اس نے خود ہی سوچ لیا کہ حلب کے عیسائیوں کو ان دونوں نے ہی مسلمانوں کے خلاف لڑایا ہے اور انتھونیس کو اس مقصد کے لئے ہرقل نے بھیجا ہوگا، لیکن ہرقل نے اپنی ایک بیوی کو کیوں بھیج دیا ۔
وہ کچھ بھی نہ سمجھ سکی، جو دو تین عورتیں لاش کے پاس کھڑی تھی وہ بھی باہر چلی گئیں اور شارینا حیران و پریشان اکیلی وہاں کھڑی لاش کو دیکھتی رہی۔
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ شارینا کو ایک نسوانی آواز سنائی دی۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا سب جھوٹ بولتے ہیں۔
شارینا نے چونک کر دیکھا یہ وہی نوجوان اور خوبصورت لڑکی تھی جو اسے یوکلس کی لاش پر ملی تھی، یوکلس نے اسے روزی کے نام سے پکارا تھا ، اور اس کے فوراً بعد وہ مر گیا تھا ۔
شارینا اس لڑکی کو یوکلس کے پاس بیٹھے اور چیخ چیخ کر روتے چھوڑ آئی تھی۔
اس سے اتنا بھی نہ پوچھا کہ وہ ہے کون؟ اب شاید روزی کو کسی نے بتایا ہوگا کہ یوکلس کی ماں کی لاش فلاں مکان میں پڑی ہے ،وہ دوڑی آئی اور لیزا کی لاش کو اس طرح چیھڑنے لگی جیسے اسے نیند سے جگا رہی ہو ، تم نہیں مر سکتی ماں روزی نے لیزا کی لاش کے سر کو ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔تم کہتی تھی کہ مجھے یوکلس کی دلہن بناؤ گی، اٹھو!،،،یوکلس کے پاس چلو ، وہ تمہارا انتظار کر رہا ہے۔
شارینا کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ جان گئی کہ یہ لڑکی یوکلس کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکی، اور اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔
شارینا نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھایا ،روزی !۔۔۔شارینا نے کہا ۔۔۔میں اسے اٹھا لوں گی یہ گہری نیند سوئی ہوئی ہے یہ تمہاری کیا لگتی ہے؟
یہ یوکلس کی ماں ہے۔۔۔ روزی نے جواب دیا یہ میری کچھ بھی نہیں لگتی لیکن میرا سب کچھ یہی ہے مجھے یوکلس کے ساتھ دیکھ کر یہ بہت خوش ہوتی ہے اس نے کہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کے لیے تم جیسی ہی دلہن کی تلاش میں تھی۔
شارینا کو اس لڑکی پر ترس آنے لگا اور وہ سوچنے لگی کہ اسے کس طرح حقیقت میں لائے کہ یہ قبول کرلے کے یوکلس بھی مر چکا ہے، اور یوکلس کی ماں بھی مر گئی ہے۔
اور یہ دونوں اب کبھی اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے۔
لیکن روزی تصوراتی دنیا میں کھو گئی تھی۔ شارینا اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی لیکن یہ نہ کہا کہ یہ عورت جو صحن میں پڑی ہے زندہ نہیں۔
اتنے میں ایک اور عورت اس مکان میں آ گئی اور اس لڑکی کو اپنے بازوؤں میں لے لیا یہ عورت عمر اور شکل و صورت سے روزی کی ماں معلوم ہوتی تھی۔
وہ روزی سے کہنے لگی کہ وہ گھر چلے، لیکن روزی اس طرح جواب دے رہی تھی جیسے لیزا زندہ تھی، تم یہاں سے چلی جاؤ ماں! ۔۔۔روزی نے کہا۔۔۔ میں یوکلس کو بلانے جارہی ہوں وہ آ کر اپنی ماں کو اٹھائے گا۔ شارینا نے روزی کی ماں کو اشارہ کیا کہ وہ روزی کو ابھی آزاد چھوڑدے۔
شارینا روزی کی ماں کو ایک کمرے میں لے گئ اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ شارینا یہ تو سمجھ گئی تھی کہ یوکلس اور روزی ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ لیکن شارینا کچھ اور بھی سننا چاہتی تھی ،وہ روزی کی ماں نے اسے سنا دیا روزی کی ماں نے اس کے اس خیال کی تائید کردی کے یوکلس اور روزی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے۔
یوکلس نے جو کچھ بھی روزی کو بتایا تھا وہ روزی اپنی ماں کو بتاتی رہتی تھی، یوں کہ روزی کو بتایا تھا کہ اس کا باپ شاہ ہرقل اور اسکا ایک بیٹا قسطنطین اسے قتل کرنا چاہتے تھے کیونکہ ہرقل قسطنطین کو اپنا جانشین مقرر کر رہا تھا ، یوکلس نے روزی کو بتایا تھا کہ کس طرح انتھونیس اسے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر فرار ہوا تھا ۔
یوکلس نے روزی کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ہرقل کا نہیں بلکہ انتھونیس کا بیٹا ہے ۔
روزی نے یہ ساری باتیں اپنی ماں کو بتا دی تھی اور اب ماں یہ ساری باتیں شارینا کو بتا رہی تھی۔
شارینا یہ سن کر ذرا سی بھی حیران نہ ہوئی کہ یوکلس کی ماں کا خاوند ہرقل تھا لیکن اس کا باپ ایک جرنیل تھا یہ تو بادشاہوں کے یہاں ایک معمول تھا ۔
روزی کی ماں نے شارینا کو یہ بھی بتایا کہ انتھونیس مسلمانوں کے خلاف لڑ کر اپنی سلطنت بنانا چاہتا تھا ،اسے وہ یسوع مسیح کی سلطنت کہتا تھا۔
روزی کی ماں اور شارینا کمرے میں باتیں کہہ سن رہی تھیں کہ باہر سے روزی کی چیخ نما آواز سنائی دی۔
یوکلس اور اس کی ماں کو ہرقل نے قتل کروایا ہے ۔۔۔روزی چلا چلا کر کہہ رہی تھی۔۔۔ میں ہرقل کو قتل کرنے جا رہی ہوں۔ روزی کے دوڑ کے قدموں کی آہٹ سنائی دی، اور وہ مکان سے نکل گئی ۔
روزی کی ماں اس کے پیچھے دوڑتی نکل گئی، اور شارینا دل پر رنج و غم کا بوجھ لئے کمرے سے نکلی، لیزا کی لاش کو دیکھا اور مکان سے نکل گئی۔
باہر جاکر اس نے دیکھا کہ روزی شہر کے صدر دروازے کی طرف دوڑی جا رہی تھی اور اس کی ماں چلاتی جا رہی تھی ،اسے پکڑنا، اسے روکنا ، وہاں صورتحال ایسی بنی ہوئی تھی کہ کوئی بھی ماں بیٹی کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا ، وہاں تو یہ حال بنا ہوا تھا کہ کچھ لوگ لاشیں اٹھا کر لا رہے تھے، اور بعض لہولہان زخمیوں کو سہارا دے کر ان کے گھروں کو لے جا رہے تھے، فضا میں موت کی بو رچی بسی ہوئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تو حکم دے دیا تھا کہ شام کی سرحد تک ہی محدود رہا جائے اور مزید پیش قدمی نہ کی جائے ،ابوعبیدہ اور خالد بن ولید جیسے جوشیلے اور تاریخ ساز سپہ سالاروں نے بھی امیر المومنین کا یہ حکم دانشمندانہ اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق سمجھا تھا ،انہیں احساس تھا کہ مفتوحہ علاقے وسیع و عریض ہیں اور ان کے نظم و نسق کو رواں اور پُر اثر کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ فتح کرتے چلے جاو آگے بڑھتے جاؤ اور مفتوحہ لوگوں کو فراموش کرتے جاؤ، وہ باغی بھی ہو سکتے ہیں اور ایک دوسرے کو لوٹنے بھی لگتے ہیں۔
تمام سالار امیرالمومنین کے حکم کو پسند کر رہے تھے۔ لیکن ایک سالار ایسا تھا جس کے خون کا ابال ٹھنڈا ہو ہی نہیں رہا تھا، یہ تھے سالار عمروبن عاص ،شام کی فتح کے جشن میں تو وہ دل و جان سے شامل تھے شامل کیوں نہ ہوتے انہوں نے دن رات ایک کرکے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ فتح حاصل کی تھی لیکن وہاں بھی مطمئن نہیں تھے۔
جس وقت حلب میں سپہ سالار ابوعبیدہ پہنچے تھے اور انہوں نے مجاہدین سے خطاب کیا اس وقت عمرو بن عاص کسی اور شہر میں تھے وہ جہاں کہیں بھی تھے اپنی بے چینی اور اپنی بے قراری چھپا نہ سکے انہوں نے صاف الفاظ میں امیرالمومنین کے حکم کو غیر دانشمندانہ بھی کہہ دیا، کچھ دنوں بعد ان کی یہ بے چینی اور یہ احتجاجی باتیں سپہ سالار ابوعبیدہ تک پہنچ گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦