⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 13👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➌➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میں جس بادشاہی کی بنیاد رکھنے جا رہا ہوں اس کی پہلی ملکہ عالیہ تم ہو گئی انتھونیس نے کہا۔
انتھونیس حیوانیت کے غلبے میں آگیا تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ایسے مخمور اور مدہوش ہو گئے جیسے انھیں احساس ہی نہ رہا ہو کہ وہ کسی شاہانہ کمرے میں نرم اور گداز پلنگ پر ہیں، یا جنگل کی ایک ٹیکری پر، لیزا ٹیکری کی سختی میں پلنگ کی نرمی اور ملائمت محسوس کر رہی تھی۔
چاند کچھ اوپر آ گیا تھا نمناک جنگل کی چاندنی بڑی صاف اور شفاف تھی وہ دونوں اٹھے انتھونیس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اب سو جانا چاہیئے کہ لیزا نے پیچھے دیکھا تو لرز اٹھی یوکلس ننگی تلوار ہاتھ میں لئے بڑی تیزی سے ٹیکری چڑھتا آ رہا تھا۔
میرے پیچھے ہو جاؤ انتھونیس! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ اور یوکلس کے راستے میں کھڑی ہو گئی۔
انتھونیس نے پیچھے دیکھا تو اسے یوکلس نظر آیا اس کے ہاتھ میں تلوار اور اس کے اوپر آنے کی تیزی سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کیوں اور کس کی ارادے سے آیا ہے لیزا کے کہنے کے مطابق وہ لیزا کے پیچھے ہو گیا۔
تم اس شیطان کو مجھ سے نہیں بچا سکوں گی ماں! ۔۔۔یوکلس نے قریب آکر غضب ناک لہجے میں کہا ۔۔۔ہٹ جاؤ آگے سے میں نے دیکھ لیا ہے یہ تمہیں دھوکے میں اپنے ساتھ اسی مقصد کے لئے لایا تھا میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
رک جاؤ یوکلس! ۔۔۔لیزا نے گرجدار آواز میں کہا ۔۔۔کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو تمہیں قتل ہونے سے بچا لایا ہے تمہاری خاطر یہ اپنے بچوں کو چھوڑ آیا ہے۔
یوکلس پھنکار رہا تھا اور ماں بازو پھیلائے اسے روک رہی تھی اگر انتھونیس نہتا نہ ہوتا تو یوکلس کا مقابلہ کر کے اس پر قابو پالیتا،
اسے بتا دو لیزا میں کون ہوں۔۔۔ انتھونیس نے کہا ۔۔۔اسے حقیقت بتا دو ۔۔۔یوکلس انتھونیس کو للکار رہا تھا کہ وہ ایک عورت کو ڈھال نہ بنائے اور مردوں کی طرح سامنے آئے۔
کیا تم اپنے باپ کو قتل کرو گے۔۔۔ لیزا نے کہا۔
ہاں آگے سے ہٹ جاؤ ماں۔۔۔ یوکلس نے غصے سے لرزتی آواز میں کہا۔۔۔ اسے قتل کرکے میں واپس جاؤں گا اور اپنے باپ ہرقل کو بھی قتل کروں گا۔
ہرقل تمہارا باپ نہیں ہے؟ ۔۔۔لیزا نے کہا وہ میرا صرف خاوند تھا تمہارا باپ یہ ہے انتھونیس تم اس کے بیٹے ہو۔
یوکلس کا جوش اور عتاب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا اس کی تلوار جھک گئی ۔
آؤ یوکلس! ۔۔۔لیزا نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے تلوار لے کر کہا۔۔۔ میں تمہیں یہ بھی بتا دو کہ تم انتھونیس کے بیٹے ہو ،اور ہر قل اس حقیقت سے واقف نہیں وہ تمہیں اپنا بیٹا سمجھتا ہے ہم دونوں کسی وجہ سے تمہیں اپنے ساتھ لائے ہیں۔
انتھونیس اور لیزا نے یوکلس کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔
لیزا نے یوکلس کو بتایا کہ اسے کسریٰ ایران نے کس طرح اور کس مقصد کے لئے ہرقل کے پاس ایک دھوکے کے ذریعے بھیجا تھا اور ہرقل نے اسے بیوی بنا کر اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔لیزا یوکلس کو یہ ساری بات ایسے جذباتی انداز میں سنائی کہ یوکلس پوری طرح متاثر ہو گیا۔
ان لوگوں کے یہاں اخلاق اور کردار نام کی تو کوئی چیز ہی نہیں تھی ان کا کلچر ہی کچھ ایسا تھا جس میں حلال اور حرام کا حیا اور بے حیائی کا تصور کچھ اور تھا۔
میں تمہیں شہزادہ بنا کر دم لونگا انتھونیس نے یوکلس سے کہا ۔۔۔ہرقل کو قتل نہیں کریں گے اس کی بادشاہی پر قبضہ کرکے اسے بھکاری بنا دیں گے اور وہ بازاروں میں بھیک مانگتا پھرے گا۔
یوکلس نے اپنی ماں اور انتھونیس کو اس طرح دیکھ لیا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے دیکھا دونوں وہاں نہیں تھے، انہیں دیکھنے کے لیے وہ اٹھا ایک طرف ٹیکری پر وہ اسے نظر آ گئے ، چاند ان کی دوسری طرف سے اوپر آ رہا تھا، یوکلس کو وہ اس طرح دکھائی دیے جیسے وہ دو سائے ہوں، وہ دونوں ایسی حالت میں تھے کہ قریب جا کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یوکلس نے تلوار نکالی اور ان کی طرف غیظ و غضب سے چل پڑا یہ تو وہ جانتا ہی تھا کہ اس کی ماں کس قدر خوبصورت عورت ہے یہی ایک خیال اس کے ذہن میں اٹک گیا کہ انتھونیس اس کی ماں کو ورغلا کر لایا ہے، اور اب ماں سے خراج وصول کر رہا ہے، وہ اپنی ماں کو اس کے ہاتھوں میں مجبور سمجھ رہا تھا۔
آخر ہم جا کہاں رہے ہیں ؟۔۔۔۔یوکلس نے پوچھا۔۔۔ ایک ہی دن کی مسافت رہ گئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا ۔۔۔کل رات ہم کسی جنگل یا صحرا میں نہیں ہونگے بلکہ کسی قبائلی سردار کے یہاں آرام دہ بستروں میں سوئے ہوئے ہونگے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس کی سوچ اور اس کے ارادے بے بنیاد ہو سکتے تھے اور یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ وہ بیداری میں خواب دیکھ رہا ہے، لیکن اس نے اپنی منزل کا تعین کر لیا تھا کامیابی اور ناکامی تو بعد کے نتائج تھے، اس کے ذہن میں ایسی کوئی الجھن اور کوئی شک نہیں تھا کہ وہ غلط راستے پر جا رہا ہے اس نے اپنے ذہن میں ایک پلان تیار کر لیا تھا اور یہ بھی طے کر لیا تھا کہ وہ کس قبیلے کے سردار سے ملے گا۔
اس کے مقابلے میں روتاس بھی بھٹکتا پھر رہا تھا اس نے یہ فیصلہ کر تو لیا تھا کہ اپنی فوج میں واپس نہیں جائے گا ۔
تاکہ ہرقل سے سامنا نہ ہو لیکن چلتے چلتے وہ اس فیصلے سے یوں ہٹ جاتا جیسے اس کا پاؤں پھسل گیا ہو اور وہ گر پڑا ہو، اس کا ذہن چلتا تھا اور گر گر کر اٹھتا ،اور پھر چلتا تھا، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس پر جرم کا بوجھ سوار تھا راستے میں ایک رات آئی اور وہ ایک جگہ سو گیا اور اگلے روز پھر چل پڑا۔
وہ بار بار تحفے میں ملی ہوئی صلیب اور سونے کے عیسٰی علیہ السلام کو دیکھتا تھا۔ جیسے یہ بت اس کی رہنمائی کرے گا لیکن صلیب کے ساتھ چپکا ہوا یہ بت اسکے کسی کام نہ آ سکا۔
سوچ سوچ کر اسے ایک ہی پناہ نظر آئی اور یہ پناہ اسے کسی عیسائی قبیلے کے یہاں ہی مل سکتی تھی ،وہ جب حمص میں مسلمانوں کی نظربندی میں تھا تو شارینا اسے ملنے جاتی اور روزبروز کی خبریں سناتی رہتی تھی۔
شارینا نے اسے سنایا تھا کہ الجزیرہ کے جو عیسائی قبائل ہرقل کی مدد کو گئے تھے وہ سب بددل ہو کر واپس چلے گئے ہیں ۔
یہ سوچ کا روتاس پھر الجھن میں مبتلا ہوجاتا کہ ان قبائلیوں نے اسے قبول نہ کیا اور پناہ نہ دی تو پھر وہ کیا کرے گا۔
ایک بار تو اس نے فیصلہ کر ہی لیا تھا کہ وہ اپنی فوج میں چلا جائے اس نے گھوڑا روک لیا تھا، لیکن گھوڑے کا رخ موڑا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے ہرقل اس کے سامنے کھڑا ہو اور اس سے پوچھ رہا ہوں کہ تم کہاں جا چکے تھے۔۔۔ روتاس یہ تو سمجھ ہی سکتا تھا کہ ہرقل شکست کے بعد کس مجازی کیفیت میں ہوگا، وہ تو ذرا سی بات پر بھی حکم دیتا ہو گا کہ اس شخص کو جلاّد کے حوالے کردو۔
یہ دانستہ لڑائی سے بھاگا تھا ، روتاس اس عمر میں جلاد کے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
اس نے گھوڑے کا رخ ادھر ہی کر دیا جدھر وہ جا رہا تھا۔
دن کا پچھلا پہر تھا جب اسے ایک بڑی خوبصورت اور سرسبز جگہ نظر آئی وہاں چھوٹا سا ایک چشمہ بھی تھا درخت اتنے گھنے اور قریب قریب تھے کہ ان کی ٹھنڈی چھاؤں کو دیکھ کر سو جانے کو جی چاہتا تھا ، روتاس کی تو کوئی منزل ہی نہیں تھی اتنی روح افزا جگہ دیکھ کر وہ گھوڑے سے اترا اور گھاس پر لیٹ گیا فوراً ہی وہ گہری نیند سو گیا آنکھ کھلی تو رات گہری ہوچکی تھی اور چاند افق سے اوپر اٹھتا آرہا تھا ، روتاس نے سوچا کہ وہ بہت سو چکا ہے اور رات خاصی ٹھنڈی ہے۔ وہ چل ہی پڑے تو اچھا ہے کہ وہ دور نکل جانا چاہتا تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اس منزل کو چل پڑا جس کو وہ جانتا ہی نہیں تھا کہ ہے بھی یا نہیں۔
اور اگر ہے تو کہاں ہے وہ چلتا گیا اور چاند اوپر اٹھتا آیا۔
انتھونیس اور لیزا یوکلس کو اس جگہ لے گئے جہاں انہوں نے سونے کے لئے کمبل بچھا ئے تھے، یوکلس مطمئن ہو گیا تھا ، ماں نے اس کے ساتھ اپنا پیار کیا کہ وہ اپنے آپ کو چھوٹا سا بچہ سمجھنے لگا، تینوں لیٹ گئے۔
انہیں ایک گھوڑے کے قدموں کی ہلکی ہلکی دھمک سنائی دینے لگی وہ چوکس ہو گئے قدموں کی آہٹ بلند ہونے لگی اور اب کسی کے گانے کی آواز سنائی دی، گانا رومی زبان کا تھا لیزا سرگوشی میں بولی کہ کوئی تعاقب میں آرہا ہے، انتھونیس نے کہا ۔۔۔کہ یہ ایک ہی گھوڑا معلوم ہوتا ہے ، تعاقب ہوتا تو کئی ایک گھوڑے ہوتے ، یہ کوئی مسافر لگتا ہے یا ہو سکتا ہے لڑائی سے بھاگا ہوا ہو۔
تم یہیں بیٹھی رہو لیزا! ۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ میں اور یوکلس چھپ جائیں گے اور دیکھیں گے یہ کون ہے خطرے والا معاملہ ہوا تو ہم دونوں پیچھے سے حملہ کریں گے۔
انتھونیس اور یوکلس بڑی تیزی سے وہاں سے چلے گئے اور ایک پرانے درخت کے تنے کے پیچھے چھپ گئے، انہوں نے گھوڑے ٹیکری کے دوسری طرف باندھے تھے، آنے والا سوار کسی اور طرف سے آ رہا تھا وہ اس جگہ کے قریب سے گزرا تو اس کی نظر لیزا پر پڑی جو پیٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی، اس نے گھوڑا روک لیا اور گھوڑے سے اترا گھوڑے کو وہیں چھوڑا اور آہستہ آہستہ لیزا کی طرف گیا،
ابھی اسے یہ پتا نہیں چلا تھا کہ یہ عورت ہے، یہ پہلا انسان تھا جو اسے اس سفر میں نظر آیا، قریب گیا تو اسے پتہ چلا کہ یہ عورت ہے کھڑے کھڑے ذرا اس پر جھکا تو لیزا اٹھ بیٹھی اور پھر کھڑی ہو گئی۔
سوار کا دل یک لخت ایک خوف کی گرفت میں آ گیا اس نے اس عورت کو پہچان لیا تھا ہرقل کی بیویاں اور داشتائیں ہر طرف گھومتی پھرتی رہتی تھی اس لئے ہر کوئی انہیں جانتا پہچانتا تھا ایسی اور ہر عورت خواہ وہ ہرقل کی بیوی تھی یا داشتہ ملکہ کہلاتی تھی۔
آپ؟ ۔۔۔ملکہ لیزا سوار نے حیرت زدگی کے لہجے میں پوچھا۔۔۔ آپ یہاں کیا شاہ ہرقل بھی یہی کہیں قریب ہی ہیں؟
تم کون ہو؟ ۔۔۔لیزا نے ایسے رعب سے پوچھا جیسے وہ واقعی ملکہ ہو ۔۔۔کہاں سے آئے ہو؟ ۔۔۔کہاں جا رہے ہو؟
سوار کے لیے یہ بات حیرت ناک تھی کہ شاہ ہرقل کی بیوی اس جنگل میں اکیلی پڑی تھی، اسے یقین ہونے لگا کہ یہ بد روح ہے یا جنات جیسی مخلوق میں سے ہے ،اور اس نے ملکہ لیزا کا روپ دھار رکھا ہے اس کا خوف اور زیادہ بڑھ گیا۔
نہیں!.. نہیں!.. اس نے ہکلاتی ہوئی زبان سے کہا۔۔۔ آپ زندہ انسان نہیں ہوسکتی آپ کو شاہ ہرقل کے ساتھ ارض روم میں ہونا چاہیے تھا، آپ کسی کی روح ہیں مجھے معاف کر دینا ،میں آپ کے آرام میں مخل ہوا ہوں۔
وہ وہاں سے الٹے قدم چلنے لگا خوف کے مارے لیزا کی طرف پیٹھ نہیں کر رہا تھا۔
ٹھہرو!.. لیزا نے اپنی آواز بدل کر بڑے دھیرے سے کہا۔۔۔ میرے قریب آؤ۔۔۔ اپنا نام بتاؤ۔۔۔ تم روم کے فوج کے آدمی ہو؟
میرا نام روتاس ہے۔۔۔ سوار نے لیزا کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ میں رومی فوج کا افسر ہوں مسلمانوں نے مجھے قید کرلیا تھا، میں فرار ہوا آیا ہوں، کیا میں جا سکتا ہوں؟
انتھونیس اور یوکلس درختوں کے پیچھے سے ہٹے اور دبے پاؤں روتاس کی طرف بڑھنے لگے ،اس طرف روتاس کی پیٹھ تھی، دونوں کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں وہ روتاس کے بالکل قریب پہنچ گئے تو روتاس نے محسوس کیا کہ اس کے پیچھے کوئی ہے اس نے گھوم کر دیکھا اور بدک کر ایک طرف ہو گیا اس نے یقیناً اپنے جرنیل انتھونیس اور ہرقل کے بیٹے یوکلس کو پہچان لیا تھا۔
میں یہ سب کیا دیکھ رہا ہوں روتاس نے حیرت زدگی کی حالت میں پوچھا۔۔۔ آپ سب یہاں کیا کر رہے ہیں؟
روتاس!... انتھونیس نے تلوار کی نوک اس کے دل کے مقام پر رکھ کر کہا ۔۔۔کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نہیں جانتا کہ تم ہرقل کی جاسوسی کے محکمے کے افسر ہو ،کیا تم اس سے انکار کر سکو گے کہ تم ہمارے پیچھے آئے ہو؟
آپ کیسے جرنیل ہیں روتاس نے کہا ۔۔۔آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ میں تین چار مہینوں سے فوج سے غیر حاضر ہوں میں ہرقل کی طرف سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی قید سے فرار ہو کر آیا ہوں۔
اس نے یوں جھوٹ بولا کہ وہ جاسوسی کے لئے حمص تک چلا گیا تھا اس کے ساتھ اس کے محکمے کے دو تجربے کار آدمی تھے لیکن پکڑا گیا اس کے دونوں آدمی مارے گئے اور وہ اب موقع دیکھ کر فرار ہو آیا ہے۔
پھر اس طرف کیا لینے آئے ہو ؟۔۔۔یوکلس نے پوچھا ۔۔۔اور کہا ہرقل اور اس کی فوج اس طرف تو نہیں آئی؟
اس کا چہرہ اور اس کا لباس دیکھو لیزا نے کہا۔۔۔ اگر یہ تین چار مہینے دشمن کی قید میں رہا ہوتا تو اس کا چہرہ اتنا تروتازہ اور صحت مند نہ ہوتا ،اور اس کے کپڑے پھٹے پرانے اور غلیظ ہوتے ، ہمیں یہ دھوکہ دے رہا ہے۔
آپ یقین کریں روتاس نے کہا۔۔۔ مسلمان قیدیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے مجھے مہمان رکھا تھا ۔
انتھونیس نے اپنی تلوار کی نوک اس کے دل سے ہٹالی اور بائیں ہاتھ سے اس کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑا پھر اس کے کمربند کو دیکھا جس کے ساتھ تلوار لٹک رہی تھی۔
مسلمانوں نے اسے باعزت طور پر رہا کرتے ہوئے تلوار بھی اسے دے دی تھی انتھونیس نے اس کے کمربند کے چاروں طرف ہاتھ پھیرا کہ اس کے پاس خنجر بھی ہوگا خنجر تو نہیں تھا کوئی اور چیز اس کے ہاتھ کو لگی تو اس نے یہ چیز کھینچ لی چاندنی میں اس کی چمکتی ہوئی چیز کو دیکھا تو اس نے یہ چیز لیزا کی طرف بڑھائی۔
یہ صلیب اس کے جھوٹ کو ثابت کرتی ہے انتھونیس نے کہا۔۔۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہ کس کی ہے۔
سپہ سالار ابوعبیدہ تک یہ صلیب مال غنیمت میں پہنچی تھی، یہ کسی رومی افسر کے پاس تھی جو مارا گیا تھا ہر وقت اس کے پاس رہتی تھی۔
اب سوچو انتھونیس نے کہا۔۔۔ اگر یہ شخص مسلمانوں کے قید میں رہا ہوتا تو کیا وہ اتنا وزنی سونا اس کے پاس رہنے دیتے انتھونیس نے روتاس سے کہا۔۔۔ تم سچ کیوں نہیں بولتے؟ ۔۔۔
انتھونیس نے اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس کے کمر بند سے تلوار کھینچ لی اور ایک بار پھر کہا کہ وہ سچ بولے ورنہ اس کی لاش یہی پڑی رہ جائے گی اور اسے جنگل کے درندے کھائیں گے۔
میں پناہ ڈھونڈتا پھر رہا ہوں روتاس سچ بولنے پر آگیا۔۔۔ میں جانتا ہوں ہرقل پسپا ہوکر کس طرف گیا ہے ادھر نہیں جاؤں گا مگر یہ بھی معلوم نہیں کہ میں جاؤں گا کہاں؟... میں جاسوسی کے لئے گیا تھا لیکن اپنے سینے میں جو راز تتے وہ مسلمانوں نے نکلوا لیے
روتاس نے بالکل صحیح اور سچ سارا واقعہ سنا دیا کہ وہ کس طرح پکڑا گیا اور مسلمانوں کی قید میں جا پہنچا تھا
میں ہرقل کی ایک بیٹی کے دھوکے میں آ گیا تھا روتاس نے کہا۔۔۔ آپ شارینا کو بھولے نہیں ہونگے وہ وہاں موجود تھی اور اس نے مجھے قید خانے سے بچا کر ایک نہایت اچھے کمرے میں رکھوایا تھا اس نے میرے ساتھ ایسی پیار و محبت کی باتیں کی اور کہا۔۔۔ کہ وہ واپس جانا چاہتی ہے ، میں اس کے دھوکے میں آ گیا اور اپنی فوج کی کمزوریاں وغیرہ اسے بتا دیں مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں نے میری بتائی ہوئی باتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے یہ صلیب اسی کا انعام ہے جو ان کے سپہ سالار نے مجھے دیا ہے۔
انتھونیس اور لیزا نے اس کی باتوں کو سچ مان لیا پھر بھی انتھونیس نے اسے کہا کہ جہاں کہیں اس نے دھوکا دیا اسے وہاں قتل کر دیا جائے گا۔
*روتاس نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں؟*
*انتھونیس نے اسے صاف الفاظ میں بتا دیا۔*
*مجھے آپ ایک وفادار ساتھی پائیں گے روتاس نے کہا۔۔۔* *میں تو بھٹکا ہوا مسافر تھا آپ نے مجھے منزل دکھا دی ہے ،ان قبائلی سرداروں کو میں آپ سے بھی زیادہ بہتر جانتا ہوں ۔*
*رات بہت تھوڑی رہ گئی تھی وہ ذرا سا سوئے اور پو پھٹنے سے پہلے ہی وہاں سے روانہ ہو گئے۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*عراق اور شام کے درمیان وسیع و عریض الجزیرہ کے علاقوں میں عیسائی قبائل کی سرکوبی کی جارہی تھی ۔ان میں ایک دلچسپ صورتحال بنو تغلب نے پیدا کردی تھی۔بنو تغلب کا علاقہ شام عراق سرحد اور دریاے فرہاد کے درمیان تھا ،کچھ علاقہ شام میں بھی تھا یہ صحرائی علاقہ تھا امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بنو تغلب کی سرکوبی کی ذمہ داری ایک سالار ولید بن عقبہ کو سونپی تھی، بنو تغلب کئی ایک بستیوں میں آباد تھے، جن میں دو یا تین بڑی بستیاں قلعہ بند تھی۔*
*سالار ولید بن عقبہ کو ان بستیوں پر قبضہ کرنے کے لیے کئی دشواریاں پیش آئیں جن میں سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ بنو تغلب کے لوگ صحیح معنوں میں جنگجو تھے، وہ عربی نسل کے لوگ تھے، مجاہدین کے جس لشکر نے پہلے مثنیٰ بن حارثہ اور اس کے بعد سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں کسریٰ ایران کی طاقتور فوج کو ہر میدان میں شکست دی اس لشکر میں بنو تغلب کے عیسائی بھی شامل تھے اور ان میں سے بعض نے شجاعت کے بڑے ہی حیران کن کارنامے کر دکھائے تھے۔*
*اب بنو تغلب نے ہرقل کی شہ پر مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دی تھی عراق پر بھی مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہو گیا تھا اور شام پر بھی ، بنو تغلب نے مسلمانوں کے اس قبضے کے خلاف سرکشی شروع کردی تھی۔*
*مجاہدین کا لشکر سالار ولید بن عقبہ کی قیادت میں وہاں پہنچا تو اس قبیلے کے لوگوں نے جم کر مقابلہ کیا لیکن کسی بھی جگہ قدم جما نہ سکے مجاہدین کو ایک سہولت یہ حاصل ہو گئی تھی کہ انہیں رومیوں اور ایرانیوں کے بے انداز گھوڑے مل گئے تھے اس طرح مجاہدین کے اکثریت گھوڑ سوار تھی مجاہدین کو ایک اور فائدہ حاصل ہو گیا تھا انہوں نے ہرقل کو شکست دی تھی جو اس دور میں ایک عجیب بات سمجھی جاتی تھی کیونکہ ہرقل کی جنگی طاقت ایک دہشت کا نام تھا ،مجاہدین نے اس طاقت کو ملک شام کے جنگلوں اور صحرا میں بکھر ڈالا تھا اس طرح مجاہدین کی دھاک ہر طرف بیٹھ گئی تھی۔*
*الجزیرہ کے عیسائی قبائل لڑنے کے لیے میدان میں آ تو جاتے تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرتا تھا کہ گھٹنے ٹیک دیتے تھے ۔*
*بنو تغلب نے بھی ایسی ہی لڑائی لڑی تین چار معرکوں میں انہیں منہ کی کھانی پڑی تو ان کے سردار صلح کا معاہدہ کرنے آگئے اور انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔*
*سالار ولید بن عقبہ نے بنو تغلب کے سرداروں سے کہا ۔۔۔کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔*
*بنو تغلب ان قبائل میں زیادہ جنگجو اور باوقار قبیلہ سمجھا جاتا تھا اس قبیلے کے سرداروں نے اسلام قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ولید بن عقبہ نے کہا کہ انہیں اسلام قبول کرنا ہی پڑے گا ورنہ ان پر ایسی سختی عائد کردی جائیں گی جو وہ برداشت نہیں کر سکیں گے ۔سرداروں نے متفقہ طور پر کہا کہ امیرالمومنین حضرت عمر جو فیصلہ کریں گے وہ اس فیصلے کو قبول کر لیں گے۔*
*سالار ولید بن عقبہ نے اسی روز امیرالمومنین کو پیغام بھیج دیا جس میں لکھا کہ انہوں نے بنو تغلب سے اسلام قبول کرنے کو کہا تھا جس سے انہوں نے انکار کر دیا ہے اور وہ فیصلہ امیرالمومنین پر چھوڑتے ہیں۔*
*حضرت عمر کی دور اندیشی اور تدبر کی تعریف تو غیر مسلم مؤرخوں نے بھی کی ہے۔ حضرت عمر نے جواب دیا کہ بنو تغلب کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور یہ فیصلہ ان پر ہی چھوڑ دیا جائے۔*
حضرت عمر نے یہ بھی لکھا کہ بنو تغلب کے سرداروں سے کہہ دیاجائے کہ ان کے قبیلے میں سے کوئی بھی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہے تو قبیلے کے لوگ اسے روکیں گے نہیں۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمر کا یہ فیصلہ سالار ولید بن عقبہ نے بنو تغلب کے سرداروں وغیرہ کو سنایا تو اس فیصلے سے ہی متاثر ہوکر متعدد عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا ، امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پیغام میں یہ بھی لکھا تھا کہ بنو تغلب سے جزیہ وصول کر کے انہیں ذمی قرار دے دیا جائے ۔
بنو تغلب کے سرداروں نے جزیہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ذمی نہیں کہلائیں گے۔
ائے بنو تغلب! ۔۔۔ولید بن عقبہ نے کہا ہم تمہارے لئے اپنا قانون اور دستور بدل نہیں سکتے میں اب یوں نہیں ہونے دوں گا کہ تمہاری ہر ضد مدینہ امیر المومنین کے پاس بھیجوں اور وہاں سے فیصلہ لوں جزیہ تو ہم کبھی معاف نہیں کریں گے۔
ہم رقم دینے سے انکار نہیں کررہے ایک سردار نے کہا۔۔۔ آپ جزیہ سے دوگنی رقم ہم سے لیں، لیکن ہمیں ذمی نہ کہیں اور اس رقم کو جزیہ نہ کہیں۔
آخر طے پایا کہ بنو تغلب کے سرداروں کا ایک وفد امیر المومنین کے پاس مدینہ جائیگا اور وہ ان کے آگے مطلوبہ رقم بھی رکھ دے گا اور اپنا مطالبہ بھی۔
اسی روز ان کا ایک وفد مدینہ کو روانہ ہوگیا اس وفد میں بنو تغلب کے نو مسلم بھی تھے سالار ولید بن عقبہ نے اپنا ایک نمائندہ ساتھ بھیج دیا تھا مدینہ پہنچ کر یہ وفد حضرت عمر کے حضور پہنچا اور یہی اصرار پیش کیا کہ وہ جزیہ دیں گے اور رقم جس قدر بھی ان سے طلب کی جائے گی وہ فوراً ادا کریں گے۔
ہم نے جو جزیہ مقرر کیا ہے اس سے زیادہ نہیں لیں گے حضرت عمر نے کہا۔۔۔ اور اسے ہم جزیہ کہیں گے۔
لیکن ہم اسے صدقہ کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔بنو تغلب کے ایک معمر سردار نے کہا ۔
تم اسے کوئی بھی نام دے دو ۔۔۔۔حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔دستور کے مطابق اسے جزیہ کہا جاتا ہے ،،،،میں حیران ہوں کے تم لوگ کیسی بے معنی بات پر اڑے ہوئے ہو۔
امیرالمومنین! ۔۔۔۔معمر سردار نے کہا۔۔۔ ہم آپ کو امیر المومنین تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ ہماری عزت اور قومی وقار کو برقرار رہنے دیں، آپ جانتے ہیں کہ بنو تغلب کا کتنا اونچا نام یے ۔ جزیہ کو بے عزتی اور ذلت سمجھا جاتا ہے ، یہ نہ بھولیں کہ ہمارے قبیلے کے آدمی آپ کے لشکر میں شامل ہوکر کسریٰ ایران کی فوج کے خلاف لڑے تھے، اب بھی ہم آپ کی لڑائیاں لڑیں گے، ہم نے آپ کی اطاعت قبول کرلی ہے، ہماری روایت کو تباہ نہ کریں۔
حضرت عمر جزیہ کو جزیہ ہی کہنے پر قائم رہے کچھ بدمزگی سی پیدا ہونے لگی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت عمر کو ایک سالار سعد بن مالک کا واقعہ یاد دلایا جس نے ایک علاقہ فتح کر کے وہاں کے لوگوں سے جزیہ لینے کے بجائے دو گنا صدقہ قبول کر لیا تھا۔
حضرت عمر بلاوجہ اپنی بات پر اڑا نہیں کرتے تھے۔ انہیں وہاں کا یاد آگیا اور (مورخ لکھتے ہیں کہ ) حضرت عمر کو یہ خیال بھی آیا کہ یہ قبیلہ ایک جنگی طاقت ہے جو اپنے کام آسکتا ہے ،آخر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جزیہ کے بجائے صدقہ قبول کرلیا جائے لیکن رقم دگنی ہو گی۔
بنو تغلب کے سرداروں نے یہ فیصلہ بخوشی قبول کر لیا اور رقم ادا کر دی اس طرح ایک طاقتور قبیلہ بھی مسلمانوں کے زیر اطاعت آگیا اور اس قبیلے کے لوگوں نے آہستہ آہستہ اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس، روتاس، لیزا، اور یوکلس حلب کے قریب ایک بستی میں پہنچ گئے، یہ جنگل میں چند ایک گھروں کی بستی تھی اور یہ بنو ربیعہ کے لوگ تھے انہوں نے انتھونیس اور اس کے ساتھیوں کو دیکھا تو سب گھروں سے باہر آگئے وہ جان گئے ہوں گے کہ یہ رومی ہیں رومیوں کے متعلق ان لوگوں کی رائے اچھی نہیں رہی تھی۔
انتھونیس اور روتاس خاصا لمبا عرصہ الجزیرہ کے علاقے میں رہے تھے اس لیے انہوں نے ان کی زبان سیکھ لی تھی انہوں نے بستی والوں سے کہا کہ وہ کسی بڑے آدمی یعنی بزرگ سے ملنا چاہتے ہیں۔
لوگ انہیں ایک گھر میں لے گئے یہاں ایک ضعیف العمر آدمی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں عزت و احترام سے بٹھایا یہ بوڑھا کوئی عام سا اور غریب سا آدمی نہیں لگتا تھا اس کے بولنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ وہ صاحب حیثیت ہے۔
تم رومی ہو بوڑھے نے کہا۔۔۔ ہمارے دلوں میں اب رومیوں کی وہ عزت نہیں رہی جو ان کی شکست سے پہلے ہوا کرتی تھی، لیکن تم ہمارے مہمان ہو دل سے تمھاری عزت کریں گے ۔کیا تم لوگ کہیں جا رہے ہو ؟کیا تمہیں ہماری کسی بھی قسم کی مدد درکار ہے؟ راستہ بھول گئے ہو تو ہم راستے پر ڈال دیں گے۔
قابل احترام بزرگ! ۔۔۔انتھونیس نے کہا ۔۔۔ہم راستہ نہیں بھولے ہم ایک نیا راستہ بنانے آئے ہیں اور ہمیں آپ کی اور آپ کے قبیلے کی مدد درکار ہے۔
کہو۔۔۔ بوڑھے نے پوچھا۔۔۔ کیسی مدد چاہیے ہم تمہیں مایوس نہیں کریں گے۔
ہمیں اپنی ذات کے لئے کچھ بھی نہیں چاہیے انتھونیس نے کہا۔۔۔ ہم آپ کی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ اپنے لئے بھی، ہرقل بھاگ گیا ہے اس کی فوج مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئی ہے ،اور جو بچ گئی تھی وہ ایسی بکھر کر بھاگی کے اس کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے، میں رومی فوج کا جرنیل ہوں اسے بھی جرنیل سمجھیں، یہ عورت اور یہ لڑکا کون ہے یہ بعد میں بتائیں گے ابھی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں رومی نہ سمجھیں اپنا ہم مذہب بھائی سمجھیں ، ہرقل پہلے بادشاہ ہے اس کے بعد عیسائی اور وہ بھی برائے نام ہم پہلے عیسائی ہیں اس کے بعد رومی۔
انتھونیس نے وہ صلیب اس بوڑھے کو دکھائی جو روتاس کو ابو عبیدہ نے تحفے کے طور پر دی تھی۔
ہم اس کی سلطنت قائم کرنا چاہتے ہیں جو صلیب کے ساتھ لٹکا ہوا ہے، انتھونیس نے کہا۔۔۔ یہ روم اور ایران جیسی بادشاہی نہیں ہوگی یہ یسوع مسیح کی سلطنت ہوگی اگر الجزیرہ کے تمام عیسائی قبائل اکٹھے ہوجائیں تو میں اور میرا یہ ساتھی انھیں ایک ایسی زبردست فوج میں منظم کر دیں گے کہ تھوڑے ہی عرصے میں مسلمانوں کو شام سے دھکیل باہر کریں گے۔
بوڑھے کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق اور ہونٹوں پر تبسم آگیا ،یہاں سے وہ بات چلی جس بات پر انتھونیس قبائل کے سرداروں کو لانا چاہتا تھا ۔
بوڑھا جب بولا تو معلوم ہوا کہ وہ اس کا ہم خیال ہے اور ایسے ہی ارادے اس کے سینے میں بھی تڑپ رہے ہیں۔
کبھی ہم ایرانیوں کے غلام ہو جاتے ہیں۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔کبھی رومی آکر ہمیں اپنا زرخرید رعایا بنا لیتے ہیں، اور اب مسلمانوں نے ہمیں تہ تیغ کر لیا ہے مجھے اپنے اس تمام علاقے کی خبریں مل رہی ہیں ہمارے قبائل نے بغاوت تو کردی ہے لیکن الگ الگ ہوکر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قبیلے کچھ لڑکے اور فوراً ہی ہتھیار ڈال کر اطاعت قبول کرتے چلے جا رہے ہیں۔
بنو تغلب جیسے طاقتور قبیلے نے بھی مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی ہے صرف حلب رہ گیا ہے جہاں ابھی کچھ نہیں ہوا میری نظر اس قلعے بند شہر پر ہے ، دو طاقتور قبیلے ابھی بچے ہوئے ہیں ایک ہے بنی ربیعہ اور دوسرا ہے بنی تنوخ اگر ہم حلب میں جم گئے اور مسلمانوں کو ناکام کردیا تو تمام قبائل کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ ہمارے پرچم تلے متحد ہو جائیں گے۔
کیا آپ ان قبیلوں کے سرداروں کو یہاں بلوا سکتے ہیں انتھونیس نے کہا ۔۔۔ہم ابھی سامنے نہیں آناچاہتے خطرہ ہے کہ ہرقل کے مخبر اور جاسوس ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے ہونگے۔
تمہارے لئے کوئی خطرہ نہیں بوڑھے نے کہا۔۔۔ جب تک تم ہمارے پاس ہو تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا، کسی بھی سردار کو یہاں بلانے کی ضرورت نہیں ہم تمہیں حلب میں پہنچا دیں گے اور سردار تمہارے پاس آجائیں گے۔ ہم تمہیں اپنا لباس پہنا دیں گے اور غریب سے کسانوں اور مزدوروں کے بہروپ میں حلب میں داخل کریں گے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ حلب جیسے بڑے اور قلعہ بند شہر کو مسلمانوں نے کیوں اتنا نظر انداز کر رکھا تھا کہ وہاں مجاہدین کی نفری آبادی کے لحاظ سے بہت تھوڑی تھی، اور یہ چند ایک مجاہدین جزیہ اور محصولات وصول کرنے اور انتظامیہ کا کاروبار چلانے میں مصروف رہتے تھے، حلب کی آبادی بڑھتی جا رہی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ الجزیرہ کے علاقوں سے بھاگے ہوئے عیسائی قبائل حلب میں جاکر پناہ لیتےتھے، مختلف قبیلوں کے کئی ایک سردار بھی وہاں جا پہنچے تھے، یا وقتا فوقتا وہاں جاتے رہتے تھے ،حلب میں ابھی بغاوت اور سرکشی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
انتھونیس، روتاس، لیزا، اور یوکلس جب حلب میں داخل ہوئے تو کسی نے انہیں اچھی طرح دیکھا بھی نہیں کسی کو دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی اس قسم کے خانماں برباد پناہ گزیں تو حلب میں آ ہی رہے تھے۔ انتھونیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی ایسے ہی پریشان حال پناہ گزین سمجھا گیا ان کے ساتھ بوڑھے کے بھیجے ہوئے دو خاص آدمی تھے جو انہیں ایک سردار کے گھر میں لے گئے۔
حلب میں جا کر پتہ چلا کہ جس بزرگ کے پاس یہ لوگ گئے تھے وہ کوئی معمولی حیثیت کا آدمی نہیں بلکہ ان قبائل کا دانشور تھا جسے سردار بھی پیرومرشد کا درجہ دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انتھونیس جن سرداروں کے پاس گیا انہوں نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی بہت ہی عزت اور پذیرائی کی۔
انتھونیس نے ان سرداروں کے ساتھ بات کی تو انہوں نے تین چار اور سرداروں کو بلا لیا جو حلب میں ہی موجود تھے انتھونیس نے اپنا مدعا بیان کیا تو اس نے سرداروں کو پہلے ہی تیار پایا ،اب یہ پلان بنانا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف معرکہ آرائی کی ابتدا کس طرح کی جائے کچھ دیر بات چیت اور بحث و مباحثہ ہوا اور ایک لائحہ عمل تیار ہو گیا۔
اس کے مطابق سرداروں نے اپنے خاص آدمی بلائے اور انہیں کچھ ہدایت دے کر دوڑا دیا ،دو ہی دنوں بعد قلعہ حلب میں آنے والے پناہ گزین قبائلیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور بڑھتی ہی چلی گئی، جو مسلمان مجاہدین شہر میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ ان پناہ گزینوں کے ساتھ ہتھیار بھی آ رہے ہیں ان ہتھیاروں میں زیادہ تر برچھیاں تھیں اور اس سے زیادہ کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی ترکشیں تھیں ۔ بعض ہتھیار تو کھلم کھلا آئے تھے اور زیادہ تر ہتھیار چھپا کر لائے جارہے تھے۔
رومی اس شہر سے بھاگ گئے تھے ان کے مکان اور فوجیوں کی بارکیں خالی پڑی تھیں پناہ گزین ان میں آ کر قیام کرتے تھے اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ خیمے گاڑنے پڑے ۔
انتھونیس سرداروں کو فوجی اور جنگی نوعیت کی ہدایت دیتا تھا اور سردار یہ ہدایت اپنے خاص آدمیوں کو دیتے اور اس طرح تمام لوگوں تک یہ پہنچ جاتی تھی اور لوگ اس کے مطابق تیاریاں کر رہے تھے۔
انتھونیس اور اس کے کسی بھی ساتھی کو مسلمان تو پہچانتے ہی نہیں تھے لیزا اور یوکلس تو شاہی خاندان کے افراد تھے انہیں مسلمان پہچان ہی نہیں سکتے تھے، البتہ یوکلس کو تقریبا تمام عیسائی سردار پہچانتے تھے، اور یہ بھی ایک وجہ تھی کہ یہ سردار فوراً انتھونیس کے ساتھ ہو گئے تھے کیوں کہ اس نے ایک قبائلی لڑکی کو قسطنطین کی دست درازی سے اس طرح بچایا تھا کہ تلوار نکال لی تھی اور اگر محافظ دستے کا ایک افسر درمیان میں نہ آ جاتا تو ان دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک قتل ہو جاتا ۔
پھر یوکلس لڑائی سے پہلے ان قبائلیوں کے لشکر میں گھومتا پھرتا رہتا تھا اور سب کے دلوں میں اس واقعے کی وجہ سے یوکلس کی عزت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ قبائلی اس کو اپنی عزت و آبرو کا محافظ سمجھنے لگے تھے۔ قبائلیوں کا تیس ہزار کا لشکر بد دل ہو کر ہرقل کا ساتھ چھوڑ آیا تھا جس کی اور وجوہات تو تھی لیکن اس میں یوکلس کا عمل دخل بھی تھا ،اب وہی یوکلس اپنے باپ کا ساتھ چھوڑ کر اور شاہی زندگی ترک کرکے ان کے پاس آ گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لیزا تو رات کے وقت کبھی باہر نکلتی اور قلعے کی دیوار پر گھوم لیتی تھی ،یوکلس نوجوان لڑکا تھا وہ ایک گھر میں قید رہ ہی نہیں سکتا تھا، اور قید رہنے کی ضرورت بھی نہیں تھی اسے مجاہدین میں سے تو کوئی پہچانتا نہیں تھا ایک روز وہ شہر سے نکلا اور ویسے ہی سیر سپاٹے کے لئے ایک طرف چل پڑا اس طرف سبزہ زیادہ تھا اور بڑے گھنے اور خوبصورت درخت تھے ،اور وہیں کہیں ایک چشمہ بھی تھا کچھ کھیت بھی تھے وہ اس طرف جارہا تھا کہ چار پانچ لڑکیاں کچھ دور سے ہنستی کھیلتی آ رہی تھیں، اس کو دیکھ کر وہ رک گئیں، یوکلس نے ان کی طرف دیکھا ایک لڑکی دوڑتی ہوئی یوکلس کے پاس آئی ،یوکلس اسے ٹھیک طرح پہچان نہ سکا۔
تم وہی ہو لڑکی نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ساری عمر نہیں بھول سکتی تم نے میری عزت بچائی تھی تم نہ ہوتے تو،،،،،،،،
وہ میرا فرض تھا۔۔۔ یوکلس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ مجھے تو تمہاری صورت یاد نہیں رہی تھی۔
وہ بڑی بھولی بھالی معصوم سی اور بڑی خوبصورت لڑکی تھی ،ابھی تو وہ بمشکل نوجوان ہوئی تھی جذبات کی شدت سے اس نے یوکلس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اس نے محسوس کیا کہ یوکلس کا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے بہت ہی مختلف ہے، لڑکی نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے آنکھوں سے لگا کر چومے اور پھر بائیں ہاتھ کو غور سے دیکھا، یوکلس نے اسے بتایا کہ اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر بیکار اور سوکھا ہوا ہے۔ لڑکی کے چہرے پر اداسی آئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
میں تمہیں خوابوں میں دیکھتی رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ جب یہ خیال آتا تھا کہ تمھیں ساری عمر نہیں دیکھ سکوں گی تو بہت دکھ ہوتا تھا ،تم جیسے غیرت مند آدمی مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز لگتے ہیں۔
وہ میرا بڑا بھائی تھا جسے میں قتل کرنے کو تیار ہو گیا تھا۔۔۔ یوکلس نے کہا۔۔۔ میرا ایک بازو نہیں ہے پھر بھی میں تلوار برچھی اور کلہاڑی سے دو تین آدمیوں کا مقابلہ کرسکتا ہوں۔
سنا تھا تم بادشاہ کے بیٹے ہو؟ ۔۔۔لڑکی نے کہا ۔۔۔وہ بادشاہ تو بھاگ گیا ہے تم یہاں کیوں آئے ہو؟
میں بادشاہی کو ٹھوکر مار کر آیا ہوں... یوکلس نے کہا۔۔۔ اس روز تمہاری عزت بچائی تھی اب تمہارے قبیلے کی عزت بچانے آیا ہوں اب یہیں رہوں گا۔
لڑکی کے چہرے پر ایسا تاثر آ گیا تھا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ اس کے خوابوں کا شہزادہ اس کے سامنے کھڑا ہے ،دوسری لڑکیاں ذرا پرے کھڑی دیکھ رہی تھیں، لڑکی نے انہیں ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ چلی جائیں، وہ سب قہقہے لگاتی چلی گئیں، اور کچھ دیر بعد یوکلس اور لڑکی چشمے کے کنارے ایک پھول دار جھاڑی کے پاس اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ دونوں نے ایک دوسرے کو ایک ایک بازو کے گھیرے میں لے رکھا تھا۔
اس روز کے بعد لڑکی یو کلس سے کئی بار ملی، وہ ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی تھی۔ رات کو بھی وہ یوکلس کے پاس آئی اور دونوں قلعے کے دیوار پر بیٹھے یا ٹہلتے رہے۔ وہ تو جیسے ایک دوسرے میں تحلیل ہو گئے تھے ،یوکلس نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ یہاں کیا کررہا ہے، اب تو لڑکی نے اسے آسمان سے اترا ہوا فرشتہ سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
میرا ایک وہم تم کس طرح ختم کر سکتے ہو؟ ۔۔۔لڑکی نے ایک روز یو کلس سے کہا ۔۔۔جو سلطنت یا بادشاہی تم قائم کرنے آئے ہو وہ ہوگئی تو پھر تم شہزادے بن جاؤ گے اور مجھے بھول جاؤ گے تمہارے سامنے تو میری کوئی حیثیت ہی نہیں،،،، ۔
یوکلس نے اسے الفاظ میں نہیں اپنے ساتھ لگاکر عملاً یقین دلایا کہ وہ اسے کبھی نہیں بھولے گا ،اور کتنا ہی اونچا کیوں نہ چلا جائے اس کے بغیر نہیں رہ سکے گا، یوکلس نے اپنے ایک ہی بازو میں لڑکی کو اتنی شدت سے بھیجا جیسے اس کی پسلیاں توڑ ڈالے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی