🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➊➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس نے یہ عجیب منظر بھی دیکھاکہ قسطنطین اس طرف آ گیا تھا اور اس نے ایک جگہ گھوڑا روک لیا تھا وہ اس فوج کا کمانڈر تھا اور اسے اس وقت فوج کے پیچھے یا درمیان میں ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ ایک سوار علمبردار تھا اور صرف دو محافظ تھے، وہ یوکلس کو مسلمان سواروں کے پیچھے جاتا دیکھ رہا تھا۔
ایک رومی سوار یوکلس کے قریب ہو گیا اور تلوار اس طرح بلند کی جیسے یوکلس کو مارنا چاہتا ہوں انتھونیس یوکلس کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا اس نے جب دیکھا کہ اپنا ہی ایک سوار یوکلس کو تلوار مارنے لگا ہے تو انتھونیس نے گھوڑا اور تیز کرکے تلوار اس طرح رومی سوار کے پیٹ میں اتار دی جس طرح پرچھی ماری جاتی ہے۔
ایک اور رومی سوار یوکلس کے گھوڑے کے دوسرے پہلو پر تھا لیکن ذرا آگے تھا انتھونیس نے دیکھا کہ وہ اپنا گھوڑا یوکلس کے گھوڑے کے ساتھ کر کے اسے روکنے کی کوشش میں تھا صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ یوکلس کو مارنا چاہتا ہے۔
انتھونیس نے اپنا گھوڑا اس کی طرف کر لیا اور رومی سوار اسے دیکھ نہ سکا کیونکہ اس کی توجہ یوکلس پر تھی انتھونیس نے اس کے دائیں کندھے پر تلوار کا ایسا زوردار وار کیا کہ اس کا بازو جسم سے الگ کر دیا اس کی تلوار اسی ہاتھ میں تھی انتھونیس نے یوکلس کو اپنے ساتھ لیا اور ایک طرف لے گیا۔
انتھونیس نے پروا ہی نہیں کی کہ قسطنطین نے اس کی یہ کارروائی دیکھی یا نہیں۔
یہ کوئی معمولی جرم نہیں تھا کہ اس نے لڑائی کے دوران اپنے ہی دو سپاہیوں کو مار دیا تھا۔
قسطنطین نے انتھونیس کی یہ ساری کاروائی دیکھی اور منہ پھیر کر وہاں سے چلا گیا۔
آپ نے اپنے ہی آدمیوں کو کیوں کاٹ پھینکا ہے ۔
یوکلس نے انتھونیس سے پوچھا۔۔۔ اگر میں انہیں دیکھ نہ لیتا تو یہ تمہیں کاٹ پھینکتے، انتھونیس نے کہا ۔۔۔اب مجھ سے الگ نہ ہونا۔۔۔
کیا آپ مجھے بتائیں گے نہیں یہ معاملہ کیا ہے ؟۔۔۔یوکلس نے پوچھا میں تو لڑنے آیا تھا اپنے باپ اور بھائی کو میں دکھانا چاہتا تھا کہ میں دیکھنے میں ادھورا ہوں مگر اپنے فرائض کی ادائیگی میں ادھورا نہیں ہوں شاید یہی دیکھنے کے لیے شاہ ہرقل نے مجھے آپ کے ساتھ بھیجا تھا۔
نہیں میرے بیٹے انتھونیس نے کہا۔۔۔ تمہارے باپ اور بھائی نے تمہیں یہاں قتل کروانے کے لئے بھیجا تھا اور قتل ان دو آدمیوں نے کرنا تھا جو تم تک پہنچ گئے تھے اور ایک کی تلوار تمہاری گردن کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تھا اور دوسرا سوار اپنا گھوڑا تمہارے گھوڑے کی گردن سے لگا کر تمہیں روک رہا تھا میں نہ دیکھ لیتا تو تمہاری ماں کو یہ خبر سنائی جاتی کہ تمہارا بیٹا بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا ہے ،تم نے دیکھا نہیں کہ اس وقت قسطنطین اس طرف آ گیا تھا اتنی زیادہ خونریز لڑائی میں قسطنطین کو کہیں اور ہونا چاہیے تھا وہ ادھر آیا تو تم پر حملہ ہوا۔ تمھارے یہ دونوں قاتل کوئی معمولی سپاہی نہیں بلکہ دو چار سو سپاہیوں کی کمان کرنے والے عہدے دار تھے۔
یوکلس یقیناً حیران نہیں ہوا ہوگا کہ باپ اور بھائی نے اسے قتل کرانے کی سازش کی تھی ۔
شاہی خاندانوں میں خون کے رشتے کوئی مانے نہیں رکھتے اور جہاں تخت و تاج کی جانشینی کا مسئلہ پیدا ہوجائے وہاں بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔
مجھے بتائیں میں کیا کروں ۔۔۔۔یوکلس نے پوچھا۔۔۔یہاں سے نکل جاؤں یا یہیں رہوں۔
میرے ساتھ رہو۔۔۔ انتھونیس نے کہا۔۔۔ اب تو مجھے بھی یہاں سے بھاگنا پڑے گا۔ میں نے کمان کرنے والے دو عہدیداروں کو قتل کردیا ہے۔یہ کوئی نہیں سنے گا کہ قتل کی وجہ کیا تھی ۔میرے لئے اب سزائے موت ہے۔
پھر آئیں یہاں سے نکل چلیں۔۔۔ یوکلس نے کہا۔۔۔ تم یوں کرو انتھونیس نے کہا۔۔۔ یہ جو ٹیکری ہے اس کے پیچھے چلے جاؤ اور اس طرح بزنطیہ پہنچو کہ یہاں سے نکلتے تمہیں کوئی دیکھ نہ لے سیدھے اپنی ماں کے پاس پہنچنا اور اسے بتا دینا یہاں کیا ہوا ہے اور میں نے تمہیں کیا بتایا ہے۔
اور آپ؟
ابھی کچھ فیصلہ نہیں کیا۔۔۔ انتھونیس نے کہا۔۔۔ تم جاؤ۔
یو کلس ساتھ ہی ایک ٹیکری کے پیچھے چلا گیا اور وہاں سے اس نے بزنطیہ کا رخ کر کے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہاں ایک گھوڑ سوار کے نکل بھاگنے کا کسی کو پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ فلاں بھاگ نکلا ہے، وہاں تو سینکڑوں گھوڑے بھاگتے دوڑتے میدان جنگ سے نکل گئے تھے ،بعض بغیر سواروں کے تھے ان کے سوار زخمی ہو کر گھوڑوں سے گر پڑے تھے ،کچھ سوار زخمی ہو کر گرے تو ان کے ایک ایک پاوں رکابوں میں پھنس گئے تھے، اور گھوڑے ان کی لہولہان لاشیں گھسیٹتے پھر رہے تھے بعض گھوڑے زخمی تھے اور وہ اندھا دھن دوڑتے پھر رہے تھے اور بعض گھوڑے اپنے سواروں کو پیٹھ پر اٹھائے دوڑے جا رہے تھے ان کا رخ انطاکیہ کی طرف تھا جہاں سے آگے بحر روم کی بندرگاہ تھی اس بندرگاہ پر وہ بحری جہاز کھڑے تھے جو مصر سے ہرقل کے لیے کمک لائے تھے۔
مؤرخوں کے مطابق دو تین گھنٹوں تک رومی جم کر لڑتے رہے ہرقل نے انہیں سونے کے ٹکڑوں، انعام اور حمص کے مال غنیمت کی لالچ دے دی تھی ان میں اتنی طاقت تھی کہ رومیوں کے قدم جم گئے تھے۔
ابو عبیدہ نے دیکھا کہ رومی کچھ زیادہ ہی جوش اور جذبے میں ہیں تو انہوں نے خالد بن ولید کو اشارہ کیا مجاہدین کے لشکر کے کچھ دستے دائیں کو اور کچھ بائیں کو چلے گئے تھے۔
یہ خالد بن ولید کے زیر کمان تھے انہوں نے ان دستوں کو ایسی خوبی سے پہاڑیوں کے پیچھے چھپا دیا تھا کہ رومی ان سے بے خبر رہے ،پیش قدمی کے دوران انہیں دور سے ہی پہاڑیوں کے اندر بھیج دیا گیا تھا یہ خالد ؓبن ولید کی ایک خصوصی چال ہوتی تھی جس سے انہوں نے اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو کئی میدانوں میں بہت بڑی شکست دی تھی۔ یہاں بھی انہوں نے رومیوں کو یہی دھوکا دیا
ابو عبیدہ نے اشارہ کیا تو خالد بن ولید نے دائیں بائیں قاصدوں کو یہ پیغام دے کر دوڑا دیا کہ ٹوٹ پڑو۔
پہلوؤں کے ان دستوں کے کمانڈر بے تابی سے اس حکم کے منتظر تھے وہ بیچ و تاب کھا رہے تھے کہ ان کے بھائی لڑ رہے ہیں اپنا اور دشمن کا خون بہا رہے ہیں اور وہ پہاڑیوں کے اندر آرام سے چھپے بیٹھے ہیں آخر انہیں حملے کا حکم ملا دشمن کے دونوں پہلوؤں سے پہاڑیوں کے اندر سے گھوڑے سرپٹ دوڑتے، اس طرح نکلے جس طرح سیلاب بند توڑ کر غراتا، ٹھاٹھیں مارتا باہر آتا ہے ، اور جو کچھ بھی سامنے آتا ہے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔
کچھ گھوڑ سوار رومیوں کے عقب میں چلے گئے قسطنطین کے لیے دو ہی راستے رہ گئے تھے اپنی فوج کو کٹواتا ،یا بھاگ نکلتا، اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا اپنی فوج کو مجاہدین کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ مرنے اور ان کو گھوڑوں تلے روندے جانے کے لیے چھوڑ کر بھاگ نکلا رومی سپاہی کٹ کٹ کر گرنے لگے میدان جنگ کے اردگرد پہاڑیوں کی ٹیکریاں اور چٹانیں تھیں رومی جو لڑائی سے نکل سکے وہ پہاڑیوں کے اندر چلے گئے اور بچ نکلے۔
تمام مؤرخ متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ بھاگنے والے رومیوں کا رخ انطاکیہ کی طرف تھا وہ یہی فوج تھی جو قسطنطین کے ساتھ مصر سے ہرقل کی مدد کے لئے آئی تھی یہ رومی فوج اس توقع پر انطاکیہ کی طرف بھاگ رہے تھے کہ جن بحری جہازوں پر وہ آئے تھے وہ بھی وہیں ہوں گے اور انہیں واپس مصر لے جائیں گے، حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ قسطنطین بھی بزنطیہ جانے کے بجائے انطاکیہ کی طرف بھاگا ،ظاہر ہے اس کا ارادہ بھی مصر چلے جانے کا تھا ہرقل کی شکست مکمل ہوچکی تھی ملک شام پر اس کا ایک انچ زمین پر بھی تسلط نہیں رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بزنطیہ میں ہرقل کو اطلاع مل گئی تھی کہ اس کی یہ فوج جو مصر سے آئی تھی اور وہ بچی کچھی فوج جو بزنطیہ میں اس کے پاس تھی سب کٹ مری ہے یا تتر بتر ہو کر بھاگ نکلی ہے۔ ہرقل نے اس اطلاع پر پہلا اقدام یہ کیا کہ بزنطیہ سے نکل جانے کی تیاریاں شروع کردی اس نے حکم دے دیا کہ بزنطیہ خالی کردیا جائے۔
خالی کر دینے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ایک دو دنوں میں وہ محل بھی خالی کر جاتا اور وہاں سے نکلنے والے لوگ نکل بھی جاتے اس انخلا میں بہت سے دنوں کی مہلت درکار تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ ہرقل نے شکست تسلیم کرلی تھی اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ مصر چلا جائے گا ۔اپنے مصاحبوں سے اس نے کہا تھا کہ وہ مصر جاکر فوج کو تیار کریگا ۔اور پھر شام پر فوج کشی کرکے مسلمانوں کو یہاں سے نکال باہر کرے گا ۔۔۔۔۔یہ ایک قدرتی ردعمل تھا یا اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کا ایک ڈھنگ کہ اس نے اعلان کیا
خفت مٹانے کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
یوکلس میدان جنگ سے نکلا تو رات کے وقت بزنطیہ اپنی ماں لیزا کے پاس گیا تھا ،یہ ایک احتیاط تھی کہ ہرقل کو پتہ نہ چلے کہ یوکلس آیا ہے۔ ماں یوکلس کو دیکھ کر یقینا حیران ہوئی ہوگی کہ یہ لڑکا واپس کیوں آگیا ہے؟
یوکلس نے ماں کو سارا واقعہ بتایا اور کہا کہ انتھونیس نہ ہوتا تو ماں کو اس کی لاش ملتی جس کا سر الگ ہوتا ۔
یوکلس لیزا کا اکلوتا بیٹا تھا، وہ تو ایسی چونکی کے اس کی آنکھیں ٹھہر گئی اور منہ کھل گیا پھر اس کے چہرے پر غصے کا تاثر آگیا اور وہ دانت پیسنے لگی۔
ظالم جلاد !۔۔۔لیزا نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔ میں اسے زہر پلانے آئی تھی لیکن میرے دل میں اسکی ایسی محبت پیدا ہوئی کہ میں نے اسے صاف بتا دیا تھا کہ میں کس طرح ایران کی طرف سے اس کے لیے سراپا دھوکہ اور فرشتہ اجل بن کر آئی تھی، میں نے محبت سے اندھی ہو کر اس کے ساتھ شادی کرلی اور آج یہ میرے بیٹے کو قتل کروا رہا ہے ،اس سے میرا اعتماد شادی کے کچھ دنوں بعد ہی اٹھ گیا تھا لیکن میں اس کے ہاتھوں میں مجبور ہو چکی تھی۔
لیزا نے یہ بات ایسے انداز سے کہی جیسے وہ اپنے آپ سے بات کر رہی ہو، یوکلس اس کے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ ماں کیا کہہ رہی ہے۔
ایک دو دنوں بعد انتھونیس بھی بزنطیہ پہنچ گیا لیکن اس نے بھی ایسی احتیاط کی کہ ہرقل کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ اس کا ایک جرنیل میدان جنگ سے آیا ہے وہ اپنے گھر بھی نہ گیا کسی دوست کے یہاں یا اپنے کسی خفیہ ٹھکانے پر چلا گیا ،وہ جرنیل تھا اور جرنیل عموما شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،انتھونیس نے اپنے کسی قابل اعتماد دوست یا نوکر یا کسی اور کو خفیہ طور پر لیزا کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اسے آ کر ملے۔
لیزا تو بڑی بے تابی سے اس کا انتظار کر رہی تھی وہ انتھونیس سے پوچھنے کو بے تاب تھی کہ اسے کس طرح پتہ چلا تھا کہ ہرقل اور اس کا بیٹا قسطنطین یوکلس کو اس طریقے سے قتل کرنا چاہتے تھے جو یوکلس نے اسے سنایا ہے ۔
جونہی اسے انتھونیس کا پیغام ملا وہ چل پڑی اور انتھونیس کے پاس پہنچ گئی۔
وہ ایک عام عورت کے لباس میں چہرے پر نقاب ڈالے اس کے پاس گئی تھی تاکہ کوئی اسے پہچان نہ سکے۔
آؤ لیزا ۔۔۔۔انتھونیس نے پوچھا کیا تمہیں اپنا بیٹا زندہ و سلامت واپس مل گیا ہے؟
ہاں مل گیا ہے۔۔۔ لیزا نے کہا۔۔۔ لیکن یہ سب ہوا کیا ؟اور ہوا کیسے؟ میں کچھ سمجھی ہوں اور کچھ جاننا چاہتی ہوں۔
انتھونیس نے کہا کہ اس نے اسے یہی بتانے کے لیے بلایا ہے کہ وہ یوکلس اور موت کے درمیان کس طرح آ گیا تھا۔
ذرا اس منظر کو سامنے لائیں جب قسطنطین ہرقل کے پاس بیٹھا تھا اور وہ یوکلس کے اس جرم پر تبادلہ خیالات کر رہے تھے کہ اس نے غداری کی ہے اور قبائلیوں میں قسطنطین کے خلاف بداعتمادی کی ہے پھر ہرقل نے یوکلس کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا ، اور اسے قتل کروانے کا جو طریقہ اس کے دماغ میں آیا تھا وہ قسطنطین کو بتا دیا پھر اس نے لیزا کو اور یوکلس کو بھی بلایا تھا اور انہیں یہ جھانسا دیا تھا کہ وہ یوکلس کو جرنیل بنانے کا فیصلہ کر چکا ہے، اور عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے یوکلس کو میدان جنگ میں جانا پڑے گا۔
ہرقل کے کمرے میں ایک نوخیز اور بڑی ہی دلکش کنیز موجود تھی جو وقفے وقفے سے ہرقل کو شراب پلاتی اور پھر الگ ہٹ کر اس طرح کھڑی ہوجاتی تھی کہ اس کی پیٹھ ہرقل اور قسطنطین کی طرف ہوجاتی تھی یا وہ باہر نکل جاتی۔
اس کے کان ہرقل اور قسطنطین کے باتوں پر لگے ہوئے تھے اس نے بڑی اچھی طرح سن لیا تھا کہ یوکلس کو قتل کروایا جائے گا اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اسے جرنیل بنانے کی جو بات کی تھی، وہ ایک جھانسا تھا، جب ہرقل نے کہا کہ وہ یوکلس کو انتھونیس کے حوالے کردے گا ،تو کنیز چونک اٹھی تھی اور اب وہ ہرقل اور قسطنطین کی باتیں پہلے سے زیادہ غور اور توجہ سے سننے لگی اس نے یوکلس کے قتل کی ساری سازش سن لی۔
یہ کنیز کمسنی میں اس کی بیوہ ماں سے چھینی گئی تھی اور اسے ہرقل کو بطور تحفہ پیش کیا گیا تھا ،لڑکی چونکہ غیر معمولی طور پر خوبصورت تھی اس لئے اسے ہرقل کی خاص کنیز بنا کر اس کے مطابق تربیت دی گئی تھی ،انتھونیس کنیز کی ماں کو اچھی طرح جانتا تھا اور ماں انتھونیس کو اپنا ہمدرد سمجھتی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ اس عورت کا خاوند انتھونیس کا دوست تھا ،وہ مر گیا تھا ،کنیز کی ماں انتھونیس کے آگے فریاد کرتی رہتی تھی کہ اس کی بیٹی اسے واپس مل جائے۔
انتھونیس نے اس عورت کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اس کی بیٹی کو کسی نہ کسی طرح ہرقل کے چنگل سے آزاد کرا لے گا۔
کنیز اسے اپنا مونس و غمخوار سمجھتی تھی اور دل میں اسے باپ کا درجہ دے دیا تھا ۔
کنیز انتھونیس کو یوں خوش کرتی رہتی تھی کہ ہرقل اپنے خاص کمرے میں کسی ساتھ کوئی بات کرتا اور اس میں کوئی راز ہوتا تو موقع پیدا کرکے انتھونیس کو بتا دیتی تھی ۔
اس طرح اس نے قتل کی سازش انتھونیس تک پہنچا دی۔
اس نے انتھونیس کو اس لئے سنائی تھی کہ وہ اس خبر سے لطف اندوز ہو گا اس سے زیادہ انتھونیس کااس راز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن وہ یہ جان نہ سکی کہ انتھونیس کے لیے یہ خبر کس قدر اہم تھی اور اسے جب اس سازش کی تفصیلات معلوم ہوئی تو وہ کس قدر مسرور ہوا تھا۔
یوکلس کو انتھونیس کے ساتھ ہی لگا کر یعنی اس کا شاگرد بناکر محاذ پر بھیجا گیا تھا۔
انتھونیس نے یوکلس کی ماں کو بتایا کہ یوکلس اس کے ساتھ میدان جنگ میں آیا تو ہر وقت اس پر نظر رکھی کہ ایسا نہ ہو کہ قسطنطین کہیں اسے لڑائی سے پہلے مروا دے ، انتھونیس اسے الگ ہونے ہی نہیں دیتا تھا، آخر جنگ شروع ہو گئی اب تو انتھونیس یوکلس کو بالکل ہی اپنے ساتھ رکھتا تھا ،لیکن یوکلس موقع دیکھ کر اس سے الگ ہو گیا، انتھونیس نے جس طرح یوکلس کو بچایا وہ بیان ہوچکا ہے، تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا؟ ۔۔۔لیزا نے پوچھا۔۔۔
نہیں لیزا۔۔۔ انتھونیس نے جواب دیا۔۔۔ میں نے کچھ سوچ کر ہی تمہیں نہیں بتایا تھا۔۔ سوچا یہ تھا کہ تم ہرقل کو جا بتاؤ گی اور پھر یوکلس کو محاذ پر نہیں جانے دوگی تو ہرقل اسے کسی اور طرح قتل کروا دے گا ۔
میں نے اس کو بچانے کا عہد کرلیا تھا تم جانتی ہو کیوں؟
ہاں میں جانتی ہوں۔۔۔ لیزا نے کہا ۔۔۔یوکلس تمہارا اپنا بیٹا ہے یہ ہرقل کا بیٹا نہیں میں نے جن بیٹیوں کو جنم دیا ہے وہ ہرقل کی ہیں۔ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔ انتھونیسس نے کہا۔۔۔ یوکلس میرا اپنا بیٹا ہے۔
ہوا یوں تھا کہ لیزا نے ہرقل کی محبت سے مجبور ہوکر اس کے ساتھ شادی کر لی تھی لیکن ہرقل کا دل چند دنوں بعد ہی لیزا سے ہٹنا شروع ہوگیا تھا اس وقت انتھونیس جرنیل نہیں تھا ، وہ ہرقل کے محافظ دستے کا کمانڈر تھا، اپنے وقت کا خوبرو اور جاذب نظر جوان تھا، لیزا کو وہ اتنا اچھا لگا کہ اس کے ساتھ اس کی خفیہ دوستی ہو گئی تھی ،یوکلس اس دوستی کی پیداوار تھا، انتھونیس کا بیٹا۔
بادشاہوں کی اندرونی دنیا میں یہی کچھ ہوتا ہے۔۔۔ انتھونیس نے کہا۔۔۔ مجھے پتہ چلا کہ ہرقل نے قسطنطین کو یا اپنے کسی اور بیٹے کو قتل کروانے کی سازش کی ہے تو میں اس میں ذرا سی بھی دلچسپی نہ لیتا لیکن یوکلس کو میں یوں قتل ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا یہ میرے خون کا مسئلہ تھا۔
قسطنطین نے ہرقل کو بتایا ہوگا کہ تم نے اس کی سازش ناکام بنا دی ہے۔۔۔ لیزا نے کہا کہ ہرقل تمہارا یہ جرم بخش دے گا؟
نہ بخشے! ۔۔۔انتھونیس نے کہا ۔۔۔میں روپوش ہو جاؤں گا جس روز پکڑا گیا وہ میری زندگی کا آخری دن ہوگا۔
ابھی یہیں چھپے رہو۔۔۔ لیزا نے کہا ۔۔۔کہیں بھاگنا ہے تو مجھے اور یوکلس کو بھی ساتھ لے کے چلو۔
ہرقل اور قسطنطین کو شکست کا کڑوا گھونٹ نگل لینے دو ۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ اس کے بعد سوچوں گا مجھے کیا کرنا چاہیے۔
ادھر ہرقل کی بھاگی ہوئی فوج کے عہدے دار اور سپاہی بندرگاہ تک جا پہنچے اور بحری جہاز میں سوار ہوگئے یہ جہاز انہیں مصرلے کر روانہ ہو گیا۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ابھی حمص سے خاصی دور تھے کہ ابو عبیدہ کا بھیجا ہوا قاصد ان تک پہنچا ابو عبیدہ نے محاذ سے امیر المومنین کو پیغام بھیج دیا تھا کہ اللہ نے انھیں فتح سے نوازا ہے اور اب اس لشکر کی ضرورت نہیں رہی جو حضرت عمر ساتھ لا رہے تھے۔
امیرالمومنین وہیں رک گئے ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ حمص تک چلے جاتے ابھی پانچ دنوں کی مسافت باقی تھی۔
ہرقل کو تو فیصلہ کن شکست دے دی گئی لیکن عیسائی قبائل جب اپنے علاقوں میں پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف مسلح بغاوت کردی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لیزا کی ایک تاریخ تھی وہ اپنے ماضی پر اور اپنے خاندانی پس منظر پر بجا طور پر فخر کر سکتی تھی۔
وہ رومی نہیں تھی بلکہ ایرانی تھی اور کسریٰ کے خاندان کی شہزادی تھی مذہبی لحاظ سے وہ آتش پرست تھی۔
جب ایران اور روم برسرپیکار تھے، اور کبھی ایک کو فتح حاصل ہوتی، اور کبھی دوسرے کو، اور کبھی مصر اور شام ایرانیوں کے زیر تسلط آ جاتے، اور کبھی رومیوں کے، اس وقت لیزا کی ملاقات ہرقل کے ساتھ ہوئی تھی، لیکن یہ کوئی دوستانہ ملاقات نہیں تھی لیزا ہرقل کے لیے بڑا ہی حسین پیغام اجل بن کر آئی تھی اس نے اپنا تعارف یوں نہیں کرایا تھا کہ وہ کس طرح ایران کی شہزادی ہے ، بلکہ اس نے اپنے اغواء کا ایک ناٹک کھیلا تھا اور ایک مظلوم مغویہ بن کر ہرقل کے پاس پہنچی یا پہنچائی گئی تھی، ہرقل کو بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکی ایک تاجر کی بیٹی ہے اور قافلے سے اغوا کر کے لائی گئی ہے ہرقل اس وقت جوان تھا اور ایسے ہی ہیروں اور موتیوں کی تلاش میں رہتا تھا اس نے یہ تحفہ دل و جان سے قبول کر لیا۔
شام پر ایرانی قابض ہوگئے اور ہرقل نے ایرانیوں پر جوابی حملے کرنے کے لئے روم کے بادشاہ فوکاس کا تختہ الٹ کر بالکل معزول کردیا تھا اور پھر شام پر حملہ آور ہوا تھا ۔وہ آدھا شام فتح کر چکا تھا جب یہ لڑکی اس کے پاس آئی تھی یا اسے پیش کی گئی تھی۔
لڑکی کسی تاجر کی بیٹی نہیں تھی نہ اغوا ہوئی تھی، کسریٰ کی ایک سازش کے تحت لڑکی کو بڑی ہی کامیابی سے ہرقل تک پہنچا دیا گیا تھا، کسریٰ نے کہا تھا کہ وہ ہرقل کو قتل کرنا چاہتا ہے، اور ہرقل قتل ہو گیا تو پھر رومی فوج اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہرے گی لیکن اسے قتل کس طرح کیا جائے ؟
اس موقع پر اس شہزادی نے کہا کہ وہ یہ کام کر سکتی ہے۔
کسریٰ کسی طرح رضامند نہ ہوا لیکن لڑکی نے جب اپنا منصوبہ بیان کیا تو کسریٰ نے ایک سازش تیار کر لی اور مطلوبہ افراد کو بلا کر سب کچھ سمجھا دیا لڑکی کا کام یہی تھا کہ شراب میں ہرقل کو زہر پلا دے گی اور وہاں سے فرار ہو آئے گی۔
اس شہزادی کو اندازہ نہیں تھا کہ جسے وہ زہر پلانے آئی ہے وہ بڑا ہی شاطر اور غیر معمولی عقل و دانش رکھنے والا بادشاہ ہے ۔
ہرقل نے بڑی کامیابی سے منصوبہ بنا کر بادشاہ کا تختہ الٹ دیا تھا اور روم کے عوام اور فوج اس کے ساتھ ہو گئی تھی۔ ہرقل اس شہزادی سے اتنا متاثر ہوا کہ اس سے کہا کہ تم ایرانی حسن کا ایک بے مثال نمونہ ہو۔ شہزادی کے منہ سے نکل گیا کہ میں ہوں ہی ایرانی، ہرقل اسی سے چوکنا ہوگیا، ایرانیوں اور رومیوں کی دشمنی تو ضرب المثل بن گئی تھی۔
ہرقل نے کسی شک و شبے کا اظہار کیے بغیر شہزادی کے ساتھ ایسا پیار اور پراثر سلوک کیا جس کی اس شہزادی کو توقع نہیں تھی، ہو سکتا ہے ہرقل کو اس لڑکی پر شبہ ہو گیا ہو اور ہرقل نے اس کی اصلیت معلوم کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اسے داشتہ بنانے کے بجائے محبوبہ بنا لیا اور اس کے آگے بچھنے لگا۔
ایک روز شہزادی کو موقع مل گیا اور اس نے شراب میں زہر ملا بھی دیا لیکن جب شراب کا یہ پیالہ ہرقل کے آگے رکھا تو اس کا اپنا دل اس کے خلاف ہو گیا ہرقل نے پیالہ اٹھا لیا اور جب پیالا اس کے ہونٹوں سے ایک دو انچ ہی دور رہ گیا تھا شہزادی نے جھپٹ کر پیالا اس کے ہاتھ سے چھین لیا ہرقل حیرت زدگی کے عالم میں اسے دیکھنے لگا۔
میں تمہیں زہر نہیں دے سکتی شہزادی نے کہا ۔۔۔اور ہرقل کو بتا دیا کہ وہ اغواء نہیں ہوئی تھی، اور ایک منصوبے کے تحت آئی تھی ہرقل نے اسی وقت ایک خاص ایلچی کو بلایا اور کسریٰ ایران کے نام پیغام لکھوا کر اسے دیا اور کہا کہ وہ فوراً روانہ ہو جائے اور یہ پیغام کسریٰ کے ہاتھ میں جا کر دے پیغام میں لکھا کہ جس کو تم نے مجھے زہر پلانے کے لیے بھیجا تھا وہ اب میری بیوی بن چکی ہے اور یہ بھی سن لو کہ اس پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ یہ اس کی خواہش تھی جو میں نے دلی مسرت سے قبول کرلی ہے۔اگر مجھے زہر دینا ہی مقصود ہے تو ایک اور شہزادی کو بھیج دو لیکن یہ بھی ذہن میں رکھو کہ وہ بادشاہ جو مرد میدان ہوتے ہیں میدان میں آ کر لڑا کرتے ہیں اور اپنی بیٹیوں کو اپنے دشمن کے پاس نہیں بھیجا کرتے۔
یہ واقعہ تاریخ کے حوالے کرنے والے مؤرخ نے لکھا ہے کہ ہرقل کا ایلچی پیغام لے کر چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا کسریٰ نے اسے قتل کروا ڈالا تھا۔
ہرقل نے اس شہزادی کو عیسائی بنا لیا اور اس کا نام لیزا رکھا کچھ ہی دن ہرقل کی جذباتی کیفیت یہ رہی جیسے لیزا کے حسن و جمال اور طلسماتی جوانی میں کھو گیا ہو۔ لیزا نے پہلے بچے کو جنم دیا تو ہرقل کی توجہ لیزا سے ہٹ گئی یہ پہلا بچہ یوکلس تھا جس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر بیکار تھا۔
لیزا خود ہرقل جیسے شاہی خاندان کی شہزادی تھی اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ تو بادشاہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ ایک چیز ذرا سی بھی پرانی ہو جائے تو اسے پھینک دیتے ہیں اور اسی جیسی ایک اور نئی چیز لے آتے ہیں لیزا نے یوکلس کے بعد ایک بچی کو جنم دیا تو ہرقل اسے یوں نظر آنے لگا جیسے کسی سفر میں ملا تھا کچھ دور تک ہمسفر رہا اور ایک دو راہے پر اس کا راستہ لیزا کے راستے سے جدا ہو گیا تھا۔
لیزا کی جگہ ایک اور کنیز آ گئی تھی اور ہرقل اسے بھی رخصت کرنے والا تھا ،لیزا نے اپنے آپ کو کوڑے کباڑے کی کوئی چیز نہ سمجھا وہ آخر شاہی خاندان کے فرد کی محلاتی سازشوں سے خوب واقف تھی، اس کی ماں ایسی ہی ایک سازش کا شکار ہوئی تھی ،اور اس نے ایسا ہی شکار کھیلا بھی تھا، لہذا ایک سے بڑھ کر ایک کارآمد اور تباہ کن سازش سوچ سکتی تھی اور اس پر عمل کروانا بھی جانتی تھی۔
وہ ہرقل کے دماغ پر سوار رہی اور ہرقل اسے نظر انداز نہ کر سکا بلکہ ہرقل کے دل میں اس کا کچھ ڈر بھی پیدا ہو گیا ، یہ تھی یوکلس کی ماں جو اسے ہرقل کا جانشین بنوانا چاہتی تھی لیکن ہرقل نے اپنے دوسرے بیٹے قسطنطین کو جانشین بنا دیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت عمررضی اللہ عنہ اس وقت جابیہ کے مقام تک پہنچ چکے تھے جب انہیں ابوعبیدہ ؓکا پیغام ملا کہ رومیوں کو فیصلہ کن شکست دے دی گئی ہے۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے وہیں سے مدینہ کو واپسی کا ارادہ کرلیا پہلے سنایا جاچکا ہے کہ امیرالمؤمنین اپنے ساتھ ایک لشکر لے کر گئے تھے لیکن اب اس لشکر کی ضرورت نہیں رہی تھی المومنین کی مدینہ سے لمبی غیر حاضری مناسب نہیں تھی، لڑائی صرف حمص اور اس کے گردونواح میں ہی نہیں لڑی جا رہی تھی، بلکہ ادھر ایران کی فتح ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کسریٰ ایران کی فوجوں کو شکست دی جا چکی تھی اور اب قبضہ مکمل کیا جا رہا تھا اور مفتوح علاقوں کا انتظام اور محصولات وغیرہ کا نظام رواں کرنے کی مہم جاری تھی۔
مجاہدین کے لشکر دور دور تک پھیل گئے تھے اور ان کے قاصد مدینہ پہنچتے رہتے تھے۔ احکامات اور ہدایت جاری کرنے کے لئے امیر المومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو مدینہ میں ہی رہنا چاہیے تھا۔
حضرت عمر جابیہ سے ابھی واپسی کے سفر پر روانہ نہیں ہوئے تھے روانگی کی تیاری ہو رہی تھی کہ ابو عبیدہ کا ایک اور قاصد آ گیا یہ قاصد امیر المومنین سے ایک فیصلہ لینے آیا تھا۔
صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ ابو عبیدہ نے مدینہ قاصد بھیجا تھا کہ امیر المومنین سے کہے کہ حمص بڑے سخت خطرے میں آگیا ہے جس کے لیے کمک کی ضرورت ہے ۔
حضرت عمر نے کمک کے جو انتظامات کیے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا تھا کہ قعقاع بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر فورا حمص روانہ کر دے۔
قعقاع بن عمرو برق رفتار پیش قدمی اور چیتے کی طرح دشمن پر جھپٹنے میں خصوصی شہرت رکھتے تھے۔
وہ کوفہ سے چار ہزار کمک لے کر بگولے کی طرح حمص کو روانہ ہوگئے تھے، لیکن ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ ابو عبیدہ نے رومیوں پر حملہ کرکے انہیں شام کی سرحد سے نکال دیا اور اس طرح انہیں فیصلہ کن شکست دے دی۔
قعقاع اس وقت حمص پہنچے جب یہ فتح مکمل ہوچکی تھی، اس وقت کا قومی اور ذاتی کردار قابل توجہ ہے۔
ابو عبیدہ نے محسوس کیا کہ مال غنیمت کی تقسیم میں قعقاع بن عمرو اور ان کے سالاروں کا حصہ بھی ہونا چاہیے ، لیکن وہ تو اس لڑائی میں شامل ہی نہیں تھے، اس لئے ابوعبیدہ خود یہ فیصلہ نہ کر سکے اور انہوں نے فوراً قاصد امیرالمومنین کی طرف جابیہ دوڑا دیا کہ یہ فیصلہ لائے کہ قعقاع اور ان کے سارے لشکر کو مال غنیمت کا حصہ دیا جائے یا نہیں۔
امیرالمومنین نے جو تاریخی فیصلہ دیا وہ قاصد کو لکھوا کر ابوعبیدہ کے نام بھیجا اس فیصلے کے الفاظ آج بھی تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں ۔انہوں نے لکھا۔۔۔
اہل کوفہ کو مال غنیمت میں اتنا ہی شریک سمجھا جائے جتنا لڑنے والے مجاہدین شریک ہیں ،قعقاع اور اس کے مجاہدین اس پہلو سے مال غنیمت کے حقدار بنتے ہیں کہ ان کی آمد کی خبر رومیوں تک پہنچی تو رومی مرعوب ہوئے، اور یہ بھی ایک وجہ تھی کہ رومیوں نے شکست کھائی اللہ کوفہ والوں کو جزائے خیر دے کہ وہ اپنے مفتوحہ علاقے کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں مدد کیلئے بھی پہنچتے ہیں۔
امیر المومنین نے قعقاع بن عمرو اور ان کے سواروں کو اہل کوفہ لکھا ہے ۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حمص کی طرف کمک لے کر جا رہے تھے تو انہوں نے کئی ایک جاسوس الجزیرہ کے عیسائی قبائل میں بھیج دیے تھے اور رومی علاقے میں بھی جاسوس بھیجے تھے انہیں یہ کام سونپا گیا تھا کہ دشمن کے علاقے میں یہ دہشت پھیلا دیں کہ ابو عبیدہ کے لیے عراق سے بھی مدینہ سے بھی اور کئی اور جگہوں سے بھی اتنی کمک آ رہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے طاقتور دشمن کو کچل دے گی۔
یہ ایک نفسیاتی حملہ تھا جو امیر المومنین نے کیا تھا اس کا سب سے زیادہ اثر عیسائی قبائل پر پڑا تھا اور وہ رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے تھے۔
امیرالمومنین یہ بھی جانتے تھے کہ قعقاع بن عمرو پیش قدمی کس طرح کیا کرتے ہیں، ان وجوہات کی بنا پر امیرالمومنین نے قعقاع بن عمرو اور ان کے چار ہزار سواروں کو مال غنیمت میں سے پورا پورا حصہ دلوایا۔
پہلے ایک باب میں بیان ہوچکا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کون کون سے سالار کو الجزیرہ کا کون کون سا علاقہ دیا تھا اور یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ ان عیسائی قبائل کو چین نہ لینے دیا جائے جو رومیوں کی مدد کو تیس ہزار کی تعداد میں پہنچے تھے۔ یہ سالار اس حکم کے مطابق ان علاقوں میں پہنچ گئے تاکہ یہ قبائل سر نہ اٹھا سکیں، اور کہیں ایسا نہ ہو کہ پیٹھ پیچھے سے وار کر جائیں۔
امیرالمومنین نے یہ سارا محاذ مضبوط کر دیا اور جب دیکھا کہ رومیوں کو شام سے ہمیشہ کے لئے بے دخل کر دیا گیا ہے تو جابیہ سے واپسی کے سفر کو روانہ ہو گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ اسلامی فتوحات تھیں جو بلا شک و شبہ قابل فخر تھیں لیکن فتوحات کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا تھا کہ اس کے مطابق مجاہدین کی تعداد قلیل تھی، یہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور سپہ سالاروں کی عقل و دانش کا کرشمہ تھا کہ اسی قلیل نفری کو ایسا پھیلا دیا کہ فتوحات کی وسعت قابو میں رہی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فتح بظاہر مکمل تھی لیکن سانپ ابھی مرا نہیں تھا ہرقل بزنطیہ سے نکل گیا تھا اس کا رخ ارض روم کی طرف تھا۔
تاریخ سے یہ پتہ نہیں ملتا کہ ہرقل کہاں جا ٹھہرا تھا ۔
تاریخ میں ارض روم لکھا ہے ، شام سے کچھ آگے روم کا علاقہ شروع ہوجاتا تھا ہرقل خود کو تو شکست قبول کرکے چلا گیا تھا، لیکن اس کا کچھ زہر پیچھے رہ گیا تھا مسلمان مؤرخین نے اس پہلو پر کچھ بھی نہیں لکھا ،تین یورپی مؤرخوں کی تفصیلات ملتی ہے جو ایک اور ڈرامے سے پردہ اٹھاتی ہے۔
یہ مسلمانوں پر جوابی حملے کی ایک کوشش تھی۔
شکست خوردہ رومی فوج کا کمانڈر یعنی سپہ سالار ہرقل کا اپنا بیٹا قسطنطین تھا وہ بھی بوکھلا کر بھاگا اور بزنطیہ جانے کے بجائے اس نے انطاکیہ کا رخ کر لیا تھا اسے توقع تھی کہ ہرقل انطاکیہ میں ہی ہوگا اور وہاں سے وہ مصر کو روانہ ہوجائے گا، لیکن راستے میں اسے پتہ چلا کہ ہرقل اس وقت نہ بزنطیہ میں ہے نہ انطاکیہ میں بلکہ ایک اور جگہ جا پہنچا ہے قسطنطین اس طرف چلا گیا اور اپنے باپ سے ملا۔
محترم باپ! ۔۔۔قسطنطین نے خفت مٹانے کے انداز سے کہا ۔۔۔مجھے دلی صدمہ ہے کہ میں آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترا لیکن اس سے پہلے کہ آپ شکست کا الزام مجھ پر عائد کریں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ شکست کا اصل ذمہ دار کون ہے۔
ہرقل کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی وہ چپ چاپ قسطنطین کو دیکھتا رہا۔
اگر الجزیرہ کے قبائل ہمارے ساتھ رہتے تو آج ہم یوں پسپا نہ ہوتے قسطنطین نے کہا۔۔۔ انہیں یوکلس نے بھگایا تھا یہ تو آپ کو بھی یقین ہے، لیکن لڑائی کے دوران ایک اور بڑا ہی خطرناک غدار سامنے آیا ہے، وہ ہے ہمارا ایک جرنیل انتھیونیس، اس نے میری آنکھوں کے سامنے دو تجربے کار کمانڈروں کو قتل کیا ہے۔
ہرقل جو پہلے نیم بیداری کی سی کیفیت میں تھا یک لخت بیدار ہو گیا۔
ہمارے اس جرنیل نے ان دو کمانڈروں کو قتل کیا ہے جنہیں ہم نے یوکلس کو قتل کرنے کا کام سونپا تھا۔۔۔ قسطنطین نے کہا۔۔۔ میں خود دیکھ رہا تھا یوکلس الگ ہو کر لڑائی میں شامل ہو گیا تھا ،اور دونوں کمانڈر ہماری ہدایت کے عین مطابق اس تک پہنچ گئے، انتھیونیس کچھ دور تھا اس نے یوکلس کی طرف گھوڑا دوڑایا دیا ایک کمانڈر یوکلس پر تلوار کا وار کرنے ہیں لگا تھا کہ پیچھے سے انتھیونیس نے اس کمانڈر پر تلوار کا زوردار وار کر کے اسے گھوڑے سے گرا دیا، ہمارا دوسرا کماندر اپنے گھوڑے کو یوکلس کے گھوڑے سے آگے کرکے روک رہا تھا لیکن انتھیونیس نے وار کر کے اسے بھی قتل کر دیا ۔
میں وہاں سے چلا گیا انتھیونیس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم یوکلس کو قتل کروا رہے ہیں ۔
پھر اس نے ان دونوں کمانڈروں کو کیوں قتل کیا صرف اس لئے کہ وہ اپنی فوج کو کمزور کر رہا تھا تاکہ ہمیں شکست ہو۔
میں نے لڑائی کی صورتحال کے مطابق انتھیونیس کی طرف قاصد دوڑایا کے اپنے دستے کو فلاں طرف لے جا کر مسلمانوں پر حملہ کرے لیکن قاصد اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر واپس آگیا نہ اسے انتھیونیس ملا نہ یوکلس یہ کیا کھلی غداری نہیں؟
وہ اس وقت ہونگے کہاں؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا۔
میں یہ بھی معلوم کر آیا ہوں قسطنطین نے جواب دیا۔۔۔ وہ دونوں بزنطیہ چلے گئے تھے وہاں جاتے دیکھے گئے ہیں۔
ہرقل پہلے ہی صدمے اور غصے سے نیم پاگل ہو چکا تھا اس نے اپنے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلایا اور بڑی ہی گرجدار آواز میں حکم دیا کہ ابھی بزنطیہ جاؤ اور جرنیل انتھیونیس کو زنجیروں سے باندھ کر یہاں لے آؤ۔
سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا اور رات گہری ہوگئی تھی محافظ دستے کا کمانڈر آٹھ یا دس محافظوں کو ساتھ لے کر بزنطیہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔
بزنطیہ تک پہنچنے کے لیے تین چار گھنٹے درکار تھے ہرقل کا حکم تھا کہ اس جرنیل کو فوراً لایا جائے محافظوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے سرپٹ دوڑتے گئے۔
آدھی رات سے کچھ پہلے یہ محافظ سوار بزنطیہ پہنچے۔
بزنطیہ ایک مضبوط قلعہ تھا اور قلعے کے دروازے سورج غروب ہوتے ہی بند کر دیے جاتے تھے ، لیکن اب بزطیہ کے دروازے کھلے تھے کیونکہ ہرقل نے یہ شہر خالی کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
کماندر کو انتھونیس کے گھر کا علم تھا اس گھر پر چھاپہ مارا لیکن مکان خالی پڑا تھا اور گھر میں کوئی بھی نہیں تھا، ابھی کئی لوگ شہر میں موجود تھے کمانڈر نے ساتھ والے تین چار مکانوں پر دستک دے کر سب کو جگایا اور انتھونیس کے متعلق پوچھا ۔۔۔انہوں نے بتایا کہ انتھیونیس کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ شہر سے نکلتے دیکھی گئی تھی لیکن انھتیونیس کہیں نظر نہیں آیا۔
اس وقت انتھونیس بزنطیہ سے پورے ایک دن کی مسافت جتنا دور نکل گیا تھا ، یوکلس بھی اس کے ساتھ تھا اور یوکلس کی ماں لیزا بھی۔
تینوں گھوڑے پر سوار تھے اور چوتھے گھوڑے پر انہوں نے کھانے پینے کا سامان اور کچھ ضروری اشیاء لاد لی تھیں ان تک کسی کا پہنچنا ممکن نہیں رہا تھا۔
محافظ دستے کے کمانڈر نے واپس جاکر بتایا کہ انتھونیس کا گھر خالی ہے اور اس کے بیوی بچے بھی لاپتہ ہیں ۔
قسطنطین نے یہ سنتے ہی کہا کہ وہ غدار اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر کہیں بھاگ گیا ہے۔ ہرقل پہلے ہی غصے سے بوکھلایا ہوا تھا۔
اس نے حکم جاری کردیا کہ یہ جرنیل جہاں کہیں نظر آئے اسے پکڑ کر اس کے سامنے لایا جائے۔
اور دوسرے غدار یوکلس کے متعلق کیا حکم ہے ؟قسطنطین نے ہرقل سے پوچھا۔۔۔
اب میں اسے معاف نہیں کرسکتا ہرقل نے کہا۔۔۔ اس کا اب خاتمہ ہی کرنا پڑے گا اور اگر اس کی ماں نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو میں اسے بھی دنیا سے اٹھا دوں گا۔ پورا ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے میں تو اپنے آپ کو بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔
قسطنطین نے ہرقل کو اکسا دیا کہ یوکلس کو گرفتار کرلیا جائے، خفیہ طور پر وہ جہاں کہیں بھی ہے قتل کروا دیا جائے۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel