⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 10👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【⓿➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شہنشاہ معظم!،،،، اصل بات یہ ہے کہ آپ اس ملک کی خاطر لڑے ہیں لیکن یہ قبائلی صرف اپنا اپنے بیوی بچوں اور اپنے مال و اموال کا تحفظ چاہتے ہیں۔
ان کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا پلہ بھاری ہوا تو ان کے ساتھ یہ لوگ جا ملیں یا نہ ملیں مگر یہاں سے چلے جائیں گے اور آپ ان کی مدد سے محروم رہ جائیں گے۔
اور اپنی فوج کا جذبہ کیسا ہے ؟ہرقل نے پوچھا ۔۔۔کیا اپنی فوج میں جوش و خروش اور تازگی نظر آتی ہے۔
نہیں شہنشاہ معظم !،،،،جاسوس نے کہا۔۔۔ آپ کے دل کو دکھ پہنچا کر مجھے دلی رنج ہو رہا ہے لیکن میرا فرض ہے کہ حقیقت بیان کرو ہماری فوج میں کوئی تازگی نظر آتی ہے نہ ہی جوش و خروش نظر آتا ہے میں نے خود خیموں میں بیٹھ کر باتیں کیں اور ان کی سنی ہے۔
ان بدبختوں پر مسلمانوں کا خوف اس طرح طاری ہے جیسے وہ کسی آسیب کا اثر ہو ۔
انہیں بتایا گیا کہ حمص میں مسلمانوں کی فوج بمشکل چار ہزار ہے اور یہ چار ہزار سپاہی ہماری اتنی بڑی فوج کے سامنے ٹھہر نہیں سکیں گے جس میں صرف قبائلیوں کی نفری تیس ہزار ہے لیکن ہمارے سپاہیوں میں ذرا سا بھی جوش و خروش پیدا نہیں ہو رہا کچھ ایسی آوازیں اٹھنے لگیں ہیں مسلمانوں کا مذہب سچا ہے ایسی باتیں کرنے والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے۔
مختصر یہ کہ ہرقل کو اپنی فوج کے متعلق مایوس کن رپورٹ مل رہی تھی اسے کسی کی رائے لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی وہ خود مرد میدان اور تاریخ کا ایک قابل جرنیل تھا جنگی امور کو اور فن حرب و ضرب کو خوب سمجھتا تھا، لڑنا بھی جانتا تھا، اور لڑانا بھی جانتا تھا، وہ اپنی فوج کا اور قبائلی لشکر کا تجزیہ خود کرسکتا تھا ،اس کے پاس اب یہی ایک راستہ تھا کہ وہ فورا حمص پر حملہ کر دیتا۔
حمص اس کے قبضے میں آ جاتا تو اس کی فوج میں کچھ جذبہ پیدا ہوسکتا تھا لیکن اپنی فوج کی ذہنی اور جسمانی حالت کو اور عیسائی قبائلیوں کا تذبذب دیکھتا تھا تو وہ اس فیصلے پر پہنچتا تھا کہ ابھی حملہ نہ کیا جائے ۔
وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا تھا کہ حمص کو کمک نہیں مل سکے گی اور مسلمانوں کی نفری تھوڑی ہی رہے گی۔
ہرقل ایسا بوکھلایا ہوا تھا کہ وہ جان ہی نہ سکا کہ مسلمان کتنی تیزی سے حرکت میں آ رہے ہیں اور کچھ دنوں بعد کیا ہونے والا ہے۔
اس کا اپنا جاسوسی کا نظام تھا تو بہت ہی تیز اور وہ لوگوں کے دلوں کی باتیں بھی معلوم کرلیا کرتا تھا لیکن اسے ذرا سابھی شک نہ ہوا کہ عرب کے دس بارہ مسلمان اس کے محاذ پر قبائلی عیسائیوں کے روپ میں پہنچے ہوئے ہیں اور وہ بڑی دانشمندی سے قبائلیوں میں بددلی اور رومیوں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں ذہنی تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے والے ان دس بارہ مسلمانوں کا کمانڈر حدید تھا ۔وہ تو اس تخریب کاری کا ماہر تھا وہ بعض قبائل کے سرداروں تک پہنچ گیا تھا اور ان کے ذہنوں میں بھی اس نے ہرقل رومیوں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے ایمان عزم و عہد کے پکے اور سچے تھے وہ اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف لڑتے ہوئے جان قربان کرنے وطن سے اتنی دور آئے تھے، اللہ ان کے ساتھ نہ ہوتا تو اور کس کے ساتھ ہوتا!
مسلمانوں کے ہاں کوئی محلاتی سازش نہیں تھی نہ ان میں لڑکیوں پر دست درازی کر کے دل خوش کرنے والے سالار تھے ،نہ ان کے دلوں میں کوئی شک اور شبہ تھا، وہ سب اللہ کے ایک عظیم پیغام کے پیامبر تھے، اور اپنے فرائض کو پوری طرح جانتے تھے، ان میں سالار بھی تھے، نائب اور ماتحت بھی تھے، لیکن سب جانتے تھے کہ اللہ کی نگاہ میں برتر وہ ہے جو ایمان اور کردار میں برتر ہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پچھلے باب میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوعبیدہ کو اتنی نازک اور خطرناک صورتحال سے نکالنے کے لیے کیا کیا اقدامات کئے تھے، اور عراق کے محاذ کے کون کون سے سالار کو شام کے محاذ پر پہنچ کر کون کون سے علاقے میں جانے کا حکم دیا تھا۔ حضرت عمر خود بھی مجاہدین کا ایک لشکر لے کے حمص کو روانہ ہو گئے تھے۔
امیرالمومنین نے ایک قاصد کو اس ہدایت کے ساتھ حمص کو بھیج دیا تھا کہ کمک بھی آرہی ہے، اور میں بھی آ رہا ہوں ،اور وہ اتنی تیز جائے جیسے اڑ کر حمص پہنچا ہو، جنگوں میں جرنیل اور سپہ سالار جب کسی محاذ کی طرف کوچ یا پیش قدمی کرتے تھے تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ دشمن کو اس کا علم نہ ہو سکے اور وہ اچانک دشمن پر جا ہلہ بولے لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس جنگی اصول کے بالکل الٹ ایک کاروائی کی وہ یہ کہ چند ایک شتتر سوار اور گھوڑسوار الگ کیے اور انہیں کہا کہ وہ آگے نکل جائیں اور محاذ کے قریب بستیوں میں یہ خبر پھیلاتے جائیں کہ مدینہ سے بہت بڑی کمک حمص کو جا رہی ہے۔
امیرالمومنین نے یہ بھی کہا کہ الجزیرہ میں وہ خاص طور پر یہ خبر پھیلائیں اور یہ بھی کہ عراق سے کچھ سالار دستے لے کر حمص اور بزنطیہ کی طرف جارہے ہیں ۔
حضرت عمر اپنے کوچ کی یہ تشہیر اور نمائش اس خیال کے پیش نظر کر رہے تھے کہ انھیں پتہ چل گیا تھا کہ ہرقل میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ اب کہیں بھی مجاہدین کے ساتھ ٹکر لے سکے یا کہیں جوابی حملہ کر سکے۔
مدینہ سے روانگی سے کچھ پہلے امیر المومنین نے اپنے مصاحبوں سے کہا تھا کہ ہرقل کی فوج کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اتنا زیادہ نقصان اٹھا چکی ہے کہ اب اس کا لڑنے کا جذبہ مر ہی گیا ہو گا۔
امیرالمومنین اپنی اور کمک کی آمد کی زیادہ تشہیر الجزیرہ کے ان عیسائی قبائل میں کرنا چاہتے تھے جنہوں نے ہرقل کو تیس ہزار نفری کا لشکر دیا تھا ۔ اس تشہیر کا مقصد یہ تھا کہ قبائل ڈر جائیں کہ مسلمان انکی بستیوں کو تباہ کر دیں گے اور یہ سوچ کر وہ ہرقل کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔
یہ صحیح طور پر بتانا ممکن نہیں کہ امیرالمومنین کا قاصد کتنے دنوں بعد حمص پہنچا تھا، بہرحال وہ بہت ہی تیزی سے سفر کرتا حمص پہنچ گیا اور ابو عبیدہ کو یہ خبر سنائی کہ کمک پہنچ رہی ہے اور امیرالمؤمنین ایک لشکر کے ساتھ خود بھی آرہے ہیں ،قاصد نے انہیں یہ بھی بتایا کہ حمص اور کہاں کہاں سے کمک مل رہی ہے۔ اور یہ بھی کہ قبائلی علاقوں میں بھی سالار اپنے اپنے دستے لے کر پہنچ گئے ہیں۔
تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ ابو عبیدہ نے کس طرح سکھ اور چین کا سانس لیا ہوگا۔
وہ تو سپہ سالار تھے وہاں کوئی چھوٹے سے چھوٹا مجاہد بھی جیتی ہوئی بازی ہارنا نہیں چاہتا تھا ،ابو عبیدہ نے مجاہدین کو صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ جان قربان کر دو، ہر مجاہد نے عہد کر لیا تھا۔۔۔ فتح ہے یا موت، ۔۔۔ان حالت میں امیرالمومنین کا قاصد ابوعبیدہ کو یوں نظر آنے لگا جیسے اللہ نے آسمان سے رحمت کا فرشتہ اتارا ہو۔
خالد بن ولید بھی چار ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ حمص پہنچ چکے تھے ،خالد بن ولید خطرہ مول لینے والے سالار تھے انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ باہر نکل کر لڑیں گے لیکن ابو عبیدہ اور دوسرے سالاروں نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا تھا ،اب اطلاع ملی کہ اللہ کی مدد امیرالمومنین کی صورت میں آرہی ہے تو خالد بن ولید بہت ہی خوش ہوئے کہ اب باہر نکل کر لڑنے کا موقع ملے گا۔
امیرالمومنین کا یہ قاصد واپس چلا گیا اور ایک ہی دن کے وقفے سے دوسرا قاصد آ گیا، امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس دوسرے قاصد کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ ابو عبیدہ اپنے ذرائع سے رومیوں کے محاذ پر یہ خبر پھیلا دیں کہ عراق سے کمک آگئی ہے ،اور بہت سے دستے الجزیرہ کے قبائلی علاقوں میں پھیل گئے ہیں، امیر المومنین نے خاص طور پر یہ ہدایت بھیجی کہ ان قبائل کا جو لشکر ہرقل کے پاس پہنچ گیا ہے اس لشکر پر یہ خطرہ سوار کردیا جائے کہ مسلمانوں کے جو دستے الجزیرہ میں گئے ہیں وہاں کی بستیاں اجاڑ دیں گے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارا علاقہ اب مسلمانوں کے تسلط میں ہے اور اس علاقے کے جو لوگ رومیوں کی مدد کے لئے چلے گئے ہیں وہ غدار ہیں ،اور انہیں اس غداری اور بغاوت کی سزا دی جائے گی جو یہ ہوگی کہ ان کی بستیاں اجاڑ دی جائینگی اور مویشیوں پر مسلمان قبضہ کرلیں گے۔
یہ ایک نفسیاتی یلغار تھی جو امیرالمومنین رومیو اور ان کے قبائلی اتحادیوں پر کر رہے تھے، ابو عبیدہ نے تو پہلے ہی دس بارہ مجاہدین قبائلی لشکر میں بددلی پیدا کرنے کے لیے بھیج رکھے تھے ،اب انہیں امیر المومنین کی یہ ہدایت ملی تو انہوں نے ایک اور مجاہد کو یہ ساری ہدایت سمجھا کر رومیوں کے محاذ پر بھیج دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ قاصد قبائلی عیسائیوں کے بھیس میں روانہ ہوگیا ،اسے حدید کے پاس پہنچنا تھا اور باقی کام حدید اور اس کے ساتھیوں کو کرنا تھا،
رومی فوج اور عیسائی قبائلی پہاڑوں کے اندرونی علاقوں میں اس طرح خیمہ زن تھے کہ حمص ان کے محاصرے میں تھا ، لیکن وہ حمص سے ابھی کئی میل دور تھے اس سارے لشکر کو ہرقل کے حکم پر حمص کی طرف پیش قدمی کرنی تھی اور حمص کو محاصرے میں لے لینا تھا۔
ابو عبیدہ کا بھیجا ہوا یہ قاصد وہاں پہنچا تو قبائلی اسے اپنا ہی آدمی سمجھ کر دوڑے آئے اور اسے گھیر لیا وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اپنے علاقے کے حالات کیسے ہیں؟
ان کی باتوں سے قاصد کو اندازہ ہوا کہ انہیں پہلے ہی خبر مل چکی ہے کہ مسلمانوں نے الجزیرہ کی بستیوں پر حملہ کردیا ہے اور وہاں کے حالات ٹھیک نہیں قاصد نے انہیں بتایا کہ حالات بہت برے ہیں اور مسلمان تعزیری کارروائی کے طور پر بستیاں اجاڑ رہے ہیں، مختصر یہ کہ قاصد نے اچھی خاصی دہشت پھیلا دی اور پھر وہ ڈھونڈتا ہوا حدید تک بھی پہنچ گیا حدید بھی قبائلی عیسائی بنا ہوا تھا، قاصد نے اسے بتایا ابوعبیدہ کا پیغام دیا حدید نے اسے بتایا کہ وہ واپس چلا جائے اور سپہ سالار ابوعبیدہ کو تسلی دے کہ جو طریقہ کار انہوں نے بتایا ہے اس پر پہلے ہی عمل ہورہا ہے ،اور اس میں جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ الجزیرہ سے خود عیسائی خبریں لے کر پہنچ گئے ہیں اور اس تمام تر تیس ہزار لشکر کو پتہ چل چکا ہے کہ پیچھے خیریت نہیں۔
قاصد واپس آگیا ،اور حدید اور اس کی مختصر سی جماعت نے جلتی پر خوب تیل ڈالا اور قبائلیوں کے لشکر پر دہشت طاری کر دی ۔
محاذ پر یہ قبائلی کسی ایک جگہ اکٹھا نہیں تھے وہ تو میلوں لمبائی میں رومی فوج کے ساتھ پھیلے ہوئے تھے ایک افواہ اڑی تھی جو تیز ہوا کی طرح دور دور تک پھیلے ہوئے قبائل تک پہنچ جاتی تھی۔ تصدیق کروانا کوئی ضروری نہیں سمجھتا تھا ہر ایک کی زبان پر یہی ایک افواہ ہوتی تھی اس لیے ہر کوئی اسے سچ مانتا تھا۔
قبائلی پہلے ہی رومیوں سے بد دل ہو چکے تھے ان کے دلوں میں رومیوں کے متعلق جو شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے انہیں حدید اور اس کی جماعت نے مزید پکا کر دیا تھا اور یہ شکوک یقین کی صورت اختیار کرگئے تھے، اصل میں یہ بات پیدا کردی گئی تھی کہ جو لڑائی لڑتے آئے ہیں وہ رومیوں کے مفادات کی لڑائی ہے اور اس میں ان کے لئے نقصان ہی نقصان ہے اب انہیں یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کا لشکر ان کے علاقوں پر حملہ آور ہو گیا ہے تو قبائلی سرداروں کا ایک وفد ہرقل کے پاس گیا۔
یہ خبریں ہرقل تک بھی پہنچ چکی تھیں قبائلی سرداروں نے اسے بتایا کہ وہ اس کی لڑائی لڑنے آگئے ہیں لیکن ان کے اپنے علاقوں پر مسلمانوں نے یلغار کردی ہے۔
ہرقل بڑا ہی ہوشیار اور چالاک آدمی تھا، عیار ایسا کہ کسی کو شک نہیں ہوتا تھا کہ یہ شخص عیاری کررہا ہے ،اس نے قبائلی سرداروں کے وفد کی پوری بات بڑی دلچسپی اور ہمدردی سے سنی۔
میرے عزیز بھائیوں !۔۔۔ہرقل نے کہا ۔۔۔مجھے سب سے پہلے تمہارے گھروں کا اور بیوی بچوں کے تحفظ کا خیال ہے اگر مسلمان تمہارے علاقوں میں آگئے ہیں تو کوئی قیامت نہیں آگئی میں اب حمص پر حملے کو مزید ملتوی نہیں کروں گا ، ہم نے حمص مسلمانوں سے لے لیا تو پھر ہم اس کی کمر توڑ دیں گے اور پھر تم دیکھنا کہ تمہارے علاقوں میں مسلمانوں کی جو فوج پھیل گئی ہے وہ سب بھاگی بھاگی اس طرف آ جائے گی میرا ساتھ دو اور پھر دیکھنا کہ ہم ان مسلمانوں کو کس انجام تک پہنچائیں گے۔
ہم اور انتظار نہیں کرسکتے وفد کے ایک سردار نے کہا۔۔۔ حمص فتح ہونے تک مسلمان ہماری بستیوں کا صفایا کر چکے ہوں گے ،اگر آپ ہمارا تعاون اور اتحاد چاہتے ہیں تو پہلے اپنی فوج کو ہمارے ساتھ ہمارے علاقوں میں بھیجیں ہم مسلمانوں کو وہاں سے بھگا دیں گے اور پھر حمص پر حملہ کریں گے یا جہاں آپ چاہیں گے ہم آپ کے ساتھ ہونگے۔
ہرقل اتنا کچا آدمی نہیں تھا کہ وہ ان قبائلیوں کی باتوں میں آ جاتا وہ تو انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہا تھا قبائلیوں کی پریشانی بلا وجہ نہیں تھی پہلے ایک موقع پر مسلمانوں نے ان کی تین بستیاں اس جرم کی سزا کے طور پر تباہ کر دی تھی کہ انھوں نے اس وقت بھی مسلمانوں کے خلاف رومیوں کا ساتھ دیا تھا ان قبائلیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ ہرقل تو حمص پر حملے کو ملتوی کرتا چلا جا رہا ہے لیکن مسلمان عزم کے اتنے پکے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کا نام لے کر تکبیر کے نعرے لگاتے حملے کر دیتے ہیں اور اپنی کوئی کاروائی التوا میں نہیں ڈالتے۔
ہرقل چاہتا تھا کہ قبائلی اس کے ساتھ رہیں اور وہ حمص پر حملہ کرے، لیکن قبائلی چاہتے تھے کہ ہرقل انہیں اپنی فوج دے دے اور وہ مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے نکالیں،
ہرقل نے زبان سے یہ داؤ آزمایا، بڑے پیار اور بظاہر دلی ہمدردی سے بھی انھیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن قبائلی سردار جو پہلے ہی رومیوں سے بد دل ہو گئے تھے ان کی باتوں میں نہ آئیں اور یہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے۔
میری ایک بات سن لو ۔۔۔ہرقل نے بگڑے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ جسے تم اپنا علاقہ کہہ رہے ہو وہ تمہارا اپنا نہیں وہ علاقہ اس کا ہے جس نے یہ ملک فتح کیا ہے پہلے تم میرے زیر تسلط تھے اب اس علاقے پر مسلمان قابض ہو گئے ہیں لہذا تم آزاد نہیں ہو اگر تم لوگوں میں ہمت اور غیرت ہے تو مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دو وہ نئے نئے آئے ہیں اور ابھی یہاں کا نظام انہوں نے نہیں سنبھالا اس بدنظمی سے فائدہ اٹھاؤ اور باغی ہو جاؤ۔
سردار وہاں سے آ گئے وہ ہرقل سے ملنے بزنطیہ گئے تھے جو حمص سے خاصا دور تھا۔ واپس محاذ تک پہنچتے پورا دن اور آدھی رات گزر گئی تھی، وہ محاذ پر پہنچے تو انہیں اطلاع ملی کہ قبائلیوں کے بیشتر نفری یہاں سے رخصت ہو چکی ہے اور سب اپنے اپنے علاقے کی طرف چلے گئے ہیں ان سرداروں نے بھی بوریا بسترا سمیٹا اور روانہ ہوگئے انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ساتھ لے گئے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مورخوں نے لکھا ہے کہ ایک صبح ابو عبیدہ اذان کی آواز پر جاگے اور اٹھے وہ نماز کے لیے اٹھے تھے کہ دربان نے انہیں اطلاع دی کہ حدید بن مومن خزرج اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا ہے۔
ابو عبیدہ کو جیسے اپنے کانوں پر شک ہوا ہو انہیں توقع نہیں تھی کہ حدید اپنی جماعت کے ساتھ اچانک واپس آجائے گا انہیں کچھ پریشانی سی ہوئی کہ رومیوں کو ان کی اصلیت معلوم ہو گئی ہو گی اور دو چار آدمی پکڑے گئے ہونگے اور باقی بھاگ آئے ہیں، ابو عبیدہ انہیں بلانے کے بجائے دوڑے باہر نکلے دیکھا حدید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کی جماعت کے تمام فرد موجود تھے اور سب کے چہروں پر بشاشت تھی۔
تم سب کیوں آئے ہو؟ ۔۔۔ابوعبیدہ نے پوچھا۔ اس لیے کہ تیس ہزار قبائلیوں کا لشکر چلا گیا ہے ۔۔۔حدید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
کہاں؟
جہاں سے وہ آئے تھے حدید نے جواب دیا۔۔۔ کچھ ہماری کامیابی نے ان لوگوں میں بدلی پھیلا دی تھی اور باقی کام ان اطلاعات اور خبروں نے کر دیا جو ان لوگوں کو اپنے علاقوں سے پہنچی تھی کہ مسلمان آگئے ہیں ہم نے افواہیں پھیلائی جلتی پر تیل ڈالا اور آخر قبائلی رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے،
حدید اور اس کے ساتھیوں نے تفصیلات سنائی کہ قبائلی کس طرح ہرقل سے بدظن ہوئے تھے ،اور آخر وہ کس طرح ہرقل کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے ۔
ابو عبیدہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا اور بلند آواز سے کہا کہ یہ سب اس اللہ تبارک و تعالی کی رحمت و برکت ہے جس کے نام پر ہم یہاں آئے تھے اور جس کے نام پر ہم نے اپنی جان کی قربانی کے لئے وقف کر رکھی ہے۔
ابو عبیدہ اور یہ سب لوگ نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے، اس زمانے میں سپہ سالار امامت کے فرائض سرانجام دیا کرتا تھا ،ابو عبیدہ نے نماز کی امامت کی اور نماز سے فارغ ہوئے تو ابوعبیدہ اٹھے اور سب سے کہا کہ کوئی آدمی ابھی جائے نہیں۔
آج کی صبح ہمارے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری لے کر طلوع ہوئی ہے ،ابو عبیدہ نے بڑی بلند آواز میں کہا ۔۔۔اور ہزارہا مجاہدین جو وہاں موجود تھے سناٹے میں آگئے ابو عبیدہ نے اعلان کیا تیس ہزار عیسائی قبائل کا لشکر رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے علاقوں میں چلا گیا ہے یہ اللہ کی غیبی مدد ہے اللہ نے قرآن کی سورۃ الزمر میں فرمایا ہے کہ جنہوں نے شیطان سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف رجوع کیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں فرمایا ہے کہ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنادیں جو میری بات سنتے ہیں اور نیک راستے پر چلتے ہیں اور اللہ انہی کو صحیح راستہ دکھاتا ہے اور یہی ہے جو عقل و ہوش والے ہیں،،،،،،،،، اللہ کے یہ بندے تم ہو جنہیں اللہ نے آج خوشخبری بھیجی ہے کہ الجزیرہ کے قبائلیوں کا وہ تیس ہزار کا لشکر جو ہمارے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن گیا تھا چھوڑ کر ان سے بدظن ہوکر چلا گیا ہے اور پیچھے روم کی تھوڑی سی فوج رہ گئی ہے یہ فوج تم سے پہلے ہی خوفزدہ ہے اور اس فوج میں اتنا سا دم خم بھی نہیں کہ تمہارے سامنے ایک دن بھی ٹھہر سکے۔
نعرہ تکبیر،، ۔۔۔کسی نے پھیپڑوں کا پورا زور لگا کر یہ نعرہ بلند کیا اور حمص کے زمین و آسمان اللہ اکبر کے گونجدار اور گرج دار دھماکے سے لرز اٹھے۔
یہ نعرہ بلند کرنے والے خالد بن ولید تھے جو ابوعبیدہ کی مدد کے لئے قنسرین سے آکر حمص میں مقیم تھے انہوں نے شہر سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا تھا جو سپہ سالار ابوعبیدہ نے نہیں مانا تھا اب انھیں شہر سے باہر جا کر کھلے میدان میں رومیوں سے آمنے سامنے کے معرکے کا موقع مل گیا تھا،
مجاہدین اسلام ابوعبیدہ بڑی پرجوش آواز میں کہہ رہے تھے ان شاء اللہ یہ معرکہ شام کا آخری معرکہ ہوگا جس طرح عراق کی سرزمین زرتشت کے پجاریوں سے پاک ہو گئی ہے اسی طرح شام سے رومی ہمیشہ کے لئے چلے جائیں گے، اور یہ زمین بھی پاک ہوجائے گی، مجھے یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن ایک بار پھر یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں ہم نے یہ ملک اس لیے فتح نہیں کیا کہ یہاں حکمرانی کریں گے یا یہاں کے بادشاہ بن بیٹھیں گے، بلکہ ہمارا مقصد اور ایمان یہ ہے کہ یہاں اللہ کی حکمرانی قائم کریں گے، یہ بھی سن لو کہ ملک کے فتح کرنے پر ہی ہمارا کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اصل کام اسکے بعد شروع ہوتا ہے،
یہ کام ہے لوگوں کے دلوں پر فتح حاصل کرنا اور ان کے دلوں سے غلامی کا احساس مٹا کر انہیں وہ تکریم و تعظیم دینا جو اللہ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے، لیکن ابھی اپنے آپ کو فاتح نہ سمجھ لینا کیونکہ دشمن ابھی یہاں موجود ہے جب تک دشمن اپنے خون میں ڈوب نہ جائے اور اپنے گھوڑوں کی اڑائی ہوئی گرد میں گم نہ ہو جائے اپنے آپ کو فاتح نہ سمجھنا۔
اللہ نے معجزہ دکھا کر ہمارے دشمن کو تیس ہزار کے لشکر سے محروم کر دیا ہے ہمیں یقین ملا ہے کہ اس کی ذات باری ہمارے ساتھ ہے ۔
امیرالمومنین بھی کمک لے کر آرہے ہیں اور قعقاع بن عمرو ہماری مدد کے لئے چار ہزار گھوڑسوار لے کر پہنچنے ہی والے ہیں۔
اب فورا حملے کی تیاری کرو ضروری ہدایت اور دیگر باتیں تمہیں سالار بتا دیں گے۔
مجاہدین کے اس لشکر کی جذباتی اور جسمانی کیفیت ایسی ہوگئ جیسے ان میں نئی روح پھونک دی گئی ہو وہ ہمت اور حوصلہ ہارنے والے نہیں تھے انہوں نے ہر میدان قلیل تعداد سے فتح کیا تھا اور کئی گناہ زیادہ طاقتور دشمن کو تہہ تیغ کیا تھا لیکن یہاں ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ پریشانی کے آثار سپہ سالار کے چہرے پر بھی نظر آنے لگے تھے وہ محاصرے میں آکر لڑنے کے لئے تیار تھے لیکن اب اپنے سپہ سالار سے یہ خوشخبری سنی تو وہ بند کلیوں کی طرح کھل اٹھے ابوعبیدہ اور خالد بن ولید نے حملے کا پلان تیار کر لیا اور اپنے لشکر کو فوری تیاری کا حکم دے دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بازنطیہ میں ہرقل کے یہاں تو ماتم والی فضا بن گئی تھی وہ عیسائی قبیلوں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوا تھا اس کا اپنا جو جاسوسی نظام تھا اس سے اپنی فوج کے متعلق بڑی مایوس کن رپورٹ مل رہی تھیں ،قبائلیوں کے چلے جانے سے ہرقل اتنا مایوس نہیں ہوا تھا جتنی مایوسی اس کی فوج پر طاری ہو گئی تھی، مایوسی تو طاری ہونی ہی تھی فوج کی یہ نفری جو اس وقت بزنطیہ میں تھی یہ ہرقل کی بچی کھچی فوج تھی ان فوجیوں نے اپنے ہزارہا ساتھیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں کٹتے دیکھا تھا انہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان کے اپنے گھوڑ سوار اپنے پیادہ سپاہی گھوڑوں تلے کچل کر پسپا ہوئے تھے۔
تین مؤرخوں کے مطابق اس وقت تک شام کی جنگ میں ہرقل کے تقریبا نوے ہزار فوجی مارے جاچکے تھے اور زخمیوں کا کوئی شمار ہی نہ تھا۔
صحیح سلامت گھوڑے جو مسلمانوں کے ہاتھ آئے تھے ان کی تعداد ہزاروں تھی ہرقل اپنے بیٹے قسطنطین کے ساتھ وہاں گیا جہاں اس کی فوج خیمہ زن تھی اور جس نے حمص کو محاصرے میں لینا تھا یہ فوج دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اسے ایک جگہ اکٹھا کیا گیا اور ہرقل نے اپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے بڑی جوشیلی تقریر کی لیکن اس نے دیکھا کہ اس کے فوجی یوں چپ چاپ اور بے حس و حرکت سن رہے ہیں جیسے ان کے جسم بے جان ہو چکے ہوں ۔
یہ فوج تو ہرقل کو اپنے قریب دیکھ کر نعرے لگایا کرتی تھی لیکن اب اس فوج کا یہ عالم تھا کہ جس قدر جوش و خروش سے بات کرتا تھا اسکی فوج اتنی ہی مردہ ہوتی چلی جا رہی تھی، کسی نے رسمی طور پر بھی نعرہ نہ لگایا، ہرقل بغیر لڑے پسپا نہیں ہونا چاہتا تھا اس نے اپنی اس فوج میں جان ڈالنے کے لیے ایک اور حربہ آزمایا۔
تم ارض روم کے شیر ہو، ہرقل نے بازو ہوا میں لہرا کر کہا۔۔۔ تم روم کی عزت اور ان کے محافظ ہو، تم نے اس ملک پر حکومت کی ہے، مرد میدان اپنی ملکیت اور اپنی بادشاہی آسانی سے دشمن کے حوالے نہیں کیا کرتے، اگر تم اس میدان میں جم گئے تو یہ ملک شام پھر تمہارا ہوگا، میرے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ مسلمان حمص سے باہر آکر ہم سے لڑیں گے میں یہی چاہتا تھا کہ وہ قلعہ بند شہر کے دیواروں سے باہر آجائیں اور پھر مجھے پورا یقین ہے کہ تم انہیں بھاگنے نہیں دو گے کاٹ کر پھینک دو گے ،میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم میں سے ہر سپاہی کو خالص سونے کا ایک ایک ٹکڑا دوں گا تم میں سے جو زیادہ بہادری سے لڑیں گے انہیں الگ انعام دیا جائے گا ،جو اسے مالا مال کردے گا یہ بھی سن لو کہ جو بزدلی دکھائے گا اور بھاگے گا اسے زندہ جلا دیا جائے گا ،میں انعام دینے میں ایسی فیاضی کرونگا کہ تم حیران رہ جاؤ گے۔
اب عقل کی اس اندھی فوج میں کچھ حرکت نظر آنے لگی اور سپاہیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جیسے ہرقل کو خراج تحسین پیش کر رہے ہوں، یہ فوج تنخواہ دار تھی ہر سپاہی کے پیش نظر دو چیزیں رہتی تھی ایک تنخواہ اور دوسرا مال غنیمت اس فوج کو مال غنیمت کہاں سے ملتا یہ تو ہر میدان سے بھاگی ہوئی فوج تھی جان بچانا ہی ان کے لیے بہت بڑی غنیمت تھی۔
ہرقل کی تقریر میں جوش بڑھتا ہی جا رہا تھا اس نے دیکھا کہ سپاہیوں میں کچھ ہلچل پیدا ہوگئی ہے تو اس نے کہا کہ حمص سونے اور چاندی کے خزانوں کا شہر ہے۔
اس شہر کو فتح کر لو اور یہ خزانے تمہارے ہونگے ۔
مال غنیمت اتنا زیادہ اور اتنا قیمتی ہے کہ دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے۔ اس شہر میں انتہائی حسین لڑکیاں اتنی زیادہ تعداد میں ہے کہ ہر سپاہی کے حصے میں کئی ایک لڑکیاں آ جائیں گی اور جو سپاہی کسی بھی لڑکی کو ساتھ لے کے آئے گا وہ اسی کی ملکیت رہے گی۔
اب تو صاف نظر آنے لگا کے اس رومی فوج میں زندگی لوٹ آئی تھی ہرقل نے فوج کو بتایا کہ حمص میں مسلمانوں کی فوج بہت ہی کم ہے جو ایک دن بھی مقابلہ نہیں کرسکے گی۔
دو تین جرنیل فوج کے پیچھے گھوڑوں پر سوار تھے ان جرنیلوں میں ایک انتھویس تھا جس کے پہلو میں ایک اور گھوڑ سوار تھا۔وہ یوکلس تھا۔ ہرقل نے یوکلیس کی ماں سے کہا تھا کہ وہ یوکلس کو جرنیل بنا رہا ہے لیکن اسے عملی تجربے کی ضرورت ہے۔یوکلس کی ماں تو خوش ہو گئی تھی اور یو کلس بھی خوش تھا ،لیکن ماں بیٹے جان نہ سکے کہ ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین نے یہ انتظام یوکلس کو مروانے کے لیے کیا تھا، تو اس نے یوکلس کو بہت دن پہلے جرنیل آنتھونیس کے حوالے کرکے کہا تھا کہ اسے میدان جنگ میں قیادت کے عملی سبق دینے ہیں۔
یوکلس کو اس طرح مروانے کی سازش سے جرنیل انتھونیس کو بے خبر رکھا گیا تھا۔ اسے ہرقل نے کہا تھا کہ یہ اس کو لڑائی کے دوران اپنے ساتھ ہی نہ رکھے بلکہ اسے کچھ دیر کے لیے الگ کرکے لڑائی میں سپاہیوں کی طرح شامل ہونے دے،
یوکلس کو قتل کرنے کا کام دو عہدے داروں کو سونپا گیا تھا انہیں بتایا تھا کہ وہ اس پر نظر رکھیں اور وہ جب گھمسان کی لڑائی میں ذرا الگ ہوجائے تو اسے قتل کر دیں اور پھر مشہور کیا جائے گا کہ یوکلس لڑتے ہوئے مارا گیا ہے ،ان عہدے داروں سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ قتل انتھونیس کے سامنے نہ ہو۔
یوکلیس کو پہلی بار جنگ میں آنے کا موقع ملا تھا، وہ ماہر تیغ زن اور برچھی باز تھا ، بازو تو اس کا ایک ہی تھا لیکن اسی ہاتھ سے وہ تیغ زنی اور برچھی بازی کے ایسے کمالات دیکھاتا تھا کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے تھے، وہ بہت ہی خوش تھا کہ اسے لڑنے کا موقع دیا گیا ہے۔
ہرقل کا لیکچر ختم ہوگیا تھا اور فوج ابھی وہیں کھڑی تھی ہرقل گھوڑے پر سوار اپنی فوج کا معائنہ کرنے کو چلا اس کے ساتھ قسطنطین گھوڑے پر سوار تھا۔
اب تو اس یوکلس کو زندہ رہنے کا حق ملنا ہی نہیں چاہیے۔۔۔ قسطنطین نے ہرقل سے کہا۔۔۔ کیا آپ نے اس کے جرم کی سنگینی کا ابھی تک اندازہ نہیں کیا ؟ ان قبائلیوں کو یہاں سے بھگانے میں یوکلس کا بھی اچھا خاصہ ہاتھ ہے ، انہیں میرے خلاف اتنا زیادہ بھڑکا دیا تھا کہ مجھے یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ لڑائی کے دوران یہ قبائلی میرا حکم مانیں گے ہی نہیں۔
میں نے اب فیصلہ بدل تو نہیں دیا؟ ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ میں اسے زندہ رہنے کے حق سے محروم کرچکا ہوں تم اب یہ سوچو کہ مسلمانوں نے حملہ کردیا تو تم اس فوج کو کس طرح لڑاؤ گے۔
قسطنطین نے باپ کو یقین دلایا کہ وہ اس فوج کو بڑے کارگر طریقے سے لڑائے گا اور اپنی جان بھی لڑا دے گا، یہ دونوں باتیں کرتے کرتے یو کلس اور انتھونیس تک جا پہنچے اور گھوڑے روک لیے ،ہرقل نے یوکلس کی پیٹھ تھپکی اور بڑے پیار سے اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس لڑائی کے بعد تم جرنیل ہوگے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو عراق پیغام بھیجا تھا کہ قعقاع بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر فورا حمص روانہ کر دیا جائے اور وہ کم سے کم پڑاؤ کر کے وہاں پہنچیں، قعقاع پہلے ایران کی فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے اور انہیں شکست دینے میں بہت شہرت حاصل کی تھی ان کی تیز رفتاری تو خاص طور پر مشہور تھی اب وہ بھی حمص کو اسی تیز رفتاری سے جارہے تھے لیکن فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ ابھی منزل تک نہیں پہنچے تھے۔
حمص میں ابو عبیدہ کو پیغام مل گیا تھا کہ قعقاع ان کے پاس چار ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ پہنچ رہے ہیں ،لیکن ابو عبیدہ نے ان کا انتظار نہ کیا کیونکہ انہوں نے خالد بن ولید سے مشورہ کرکے فیصلہ کیا تھا کہ رومیوں کی اس فوج پر فورا حملہ کردیا جائے۔
ان دونوں سالاروں نے یہ سوچا تھا کہ یہ فوج اور ہرقل خود بھی صدمے کی حالت میں ہونگے کہ وہ تیس ہزار قبائلی لشکر سے محروم ہوگئے ہیں ، دوسری سوچ یہ آئی تھی کہ اس فوج کو اتنی مہلت نہ دی جائے کہ بزنطیہ جا کر قلعہ بند ہو جائے محاصرے کی جنگ لمبی ہو سکتی تھی۔
سالار اس علاقے سے واقف نہیں تھے جس میں ہرقل کی فوج موجود تھی سپہ سالار ابوعبیدہ نے حدید کو بلایا حدید تو اس علاقے میں رہ کر آیا تھا اس لئے وہاں کے خدوخال سے ہی نہیں بلکہ چپے چپے سے واقف تھا اس نے سپہ سالار کو وہاں کی زمین نہایت اچھی طرح سمجھا دی۔
وہ علاقہ میدانی نہیں پہاڑی اور جنگلاتی تھا، حملے اور لڑائی کا پلان اس کے مطابق بنایا گیا ۔
اسی روز پیش قدمی کا حکم دیدیا گیا حدید اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ ہراول دستے کے ساتھ گائیڈ کے طور پر گیا، ادھر ہرقل اور قسطنطین ابھی فیصلہ نہیں کر سکے تھے کہ فوج کو یہیں رہنے دیں یا بزنطیہ بلا کر قلعہ بند ہو جائیں، یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ انھیں ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ مسلمان پیش قدمی کریں گے یا حمص میں ہی اس انتظار میں رہیں گے کہ رومی فوج حملہ کرے ۔
تاریخ سے اتنا پتا چلتا ہے کہ ہرقل بری طرح بوکھلایا ہوا تھا اور تذبذب کے عالم میں تھا اپنی فوج کو بہرحال اس نے ہر وقت تیار رہنے کا حکم دے دیا تھا۔
ابوعبیدہ چاہتے تو یہ تھے کہ اچانک رومیوں پر جا پڑیں لیکن ایسی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ رومیوں کو بے خبری میں جا لے گے کیونکہ ہرقل کے مخبر اور جاسوس حمص میں بھی موجود تھے اور انکا باہر کے علاقے میں بھی موجود ہونا یقینی تھا۔
ابو عبیدہ نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ایک حصے کو سیدھا جانا تھا اور دو حصوں کو دائیں اور بائیں دور دور نکل کر جانا تھا اور دشمن کو یہ تاثر دینا تھا کہ حملہ آور فوج یہی ہے جو سامنے سے آ رہی ہے۔
ابو عبیدہ اس درمیان والے حصے کے ساتھ تھے اس حصے کی پیش قدمی کی رفتار کم رکھی گئی تاکہ دائیں اور بائیں والے حصے اپنے اپنے مقام تک پہنچ جائیں اور پھر سامنے سے حملہ کیا جائے ان پہلوؤں والے دستوں کو دور کا چکر کاٹ کر جانا تھا۔
فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ پیش قدمی میں دن ہی گزرجاتا فجر کی نماز کے بعد چلا ہوا لشکر اس وقت لڑائی کے مقام پر پہنچ گیا جب سورج سر پر آ رہا تھا۔
جوں ہی ابو عبیدہ کے دستے پہاڑوں سے نکل کر اس کشادہ میدان میں پہنچے جہاں رومی فوج تھی تو انہوں نے دشمن کو لڑائی کی ترتیب میں تیار پایا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ہرقل کو پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی، ہرقل خود میدان جنگ میں نہیں تھا، کمان اس کے بیٹے قسطنطین کے ہاتھ میں تھی، مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر اس نے بڑے ہی پرجوش لہجے میں اپنی فوج کو للکارا اور کہا کہ وہ دیکھو تمہارا دشمن کتنی تھوڑی تعداد میں ھے اور تم اسے آسانی سے کاٹ دو گے اس کے ساتھ ہی قسطنطین نے اپنی فوج کو دائیں بائیں اور زیادہ پھیلا دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس زمانے کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ لڑائی شروع ہونے سے پہلے دونوں طرفوں سے ایک دوسرے کو للکارا جاتا تھا کہ ہمارے ایک بہادر کے مقابلے میں اپنا کوئی بہادر نکالو اس طرح دونوں طرفوں سے ایک ایک آدمی دونوں فوجوں کے درمیان جا کر مقابلہ کرتے تھے، جو ایک کے مارے جانے تک جاری رہتا تھا، عموما خالد بن ولید ایسے کئی مقابلے لڑ چکے تھے اور ان انفرادی مقابلوں میں انہوں نے رومیوں کے کئی جرنیل ہلاک کیے تھے، لیکن اس لڑائی میں ایسا کوئی مقابلہ نہ ہوا ابو عبیدہ نے آمنے سامنے کے حملے کا حکم دے دیا اور مجاہدین نعرہ تکبیر کی گرج کے ساتھ پورے جوش و خروش سے دشمن کی طرف بڑھے چند منٹوں میں ہی دونوں فوجیں گتھم گتھا ہوگئیں۔
رومیوں کا جرنیل انتھونیس یو کلس کے ساتھ ایک پہلو پر تھا ،وہ اس طرح یوکلس کو ہر بات بتا رہا تھا جس طرح استاد اپنے شاگرد کو سبق دیا کرتا ہے ،کیونکہ وہ جرنیل تھا اس لئے سپاہیوں کی طرح لڑ نہیں رہا تھا بلکہ لڑا رہا تھا اسکے اور یوکلس کے ہاتھ میں تلوار تھی، اور گھمسان کی لڑائی ان تک پہنچ رہی تھی، یوکلس آگے بڑھ کر لڑنا چاہتا تھا لیکن انتھونیس نے اسے آگے نہیں جانے دے رہا تھا وہ یوکلس کو پینترے اور لڑائی کے داؤ پیچ بتا رہا تھا۔
رومی فوج جم کر لڑ رہی تھی وہ تو بددل اور کم حوصلہ فوج تھی کیوں کہ اس پر مسلمانوں کی دہشت پہلے ہی طاری تھی توقع نہیں تھی کہ رومی فوج اس طرح لڑے گی لیکن وہ شاید اس خیال سے جم گئے تھے کہ مسلمانوں کی تعداد خاصی تھوڑی تھی ،قسطنطین اس کو بڑی اچھی طرح کنٹرول کررہا تھا اور فوج کو دائیں بائیں طرف لانے کی کوشش میں بھی تھا کہ پہلوؤں سے مسلمانوں پر حملہ کیا جائے۔
اس کے مطابق ابو عبیدہ مجاہدین کو بھی پھیلاتے جارہے تھے اس طرح گھمسان کی لڑائی وہاں تک جا پہنچی جہاں انتھونیس یوکلس تھے انتھونیس لڑائی میں الجھ گیا اور اس کی توجہ یوکلس سے ہٹ گئی وہ دیکھ نہ سکا کہ یوکلس جوانی کے جوش میں بھول گیا تھا کہ وہ جرنیل تو نہیں لیکن جرنیلی حیثیت کا آدمی ہے ۔وہ تیغ زنی کے جوہر آزمانا چاہتا تھا وہ ایک ہی ہاتھ سے لڑ رہا تھا اور گھوڑے کی لگام اپنے منہ میں لے رکھی تھی یہی اس کا کمال تھا کہ وہ گھوڑے کو بھی اپنے قابو میں رکھے ہوئے تھا اور لڑ رہا تھا۔
انتھونیس نے دائیں بائیں دیکھا اسے یوکلس اپنے ساتھ نظر نہ آیا وہ پریشان ہو گیا پریشان بھی اتنا کہ وہ لڑائی کو بھول گیا اور یوکلس کو ڈھونڈنے لگا ، یوکلس جلد ہی اسے نظر آگیا اور انتھونیس نے گھوڑا اس کی طرف دوڑا دیا۔
انتھونیس نے دیکھا کہ دو مسلمان گھوڑ سوار دو تین رومی گھوڑ سواروں کے تعاقب میں گھوڑے دوڑاتے یوکلس کے قریب سے گزر گئے تھے یوکلس نے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے ڈال دیا ۔
انتھونیس فورا اس تک پہنچ کر اسے روکنا اور اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا اس نے دیکھا کہ دو رومی گھوڑسوار یوکلس کے پیچھے جا رہے تھے۔
انتھونیس نے یہ عجیب منظر بھی دیکھاکہ قسطنطین اس طرف آ گیا تھا اور اس نے ایک جگہ گھوڑا روک لیا تھا وہ اس فوج کا کمانڈر تھا اور اسے اس وقت فوج کے پیچھے یا درمیان میں ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ ایک سوار علمبردار تھا اور صرف دو محافظ تھے، وہ یوکلس کو مسلمان سواروں کے پیچھے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی