👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟛 𝟛⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛  𝟛⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
فلسطین ابھی صلیبیوں کے پاؤں تلے کراہ رہا تھا یروشلم صلیب پر لٹکا ہوا  تھا اس مقدس شہر سے خون رِس رہا تھا وہاں کے مسلمان جو صلیبیوں کے ظالمانہ شکنجے میں آئے ہوئے تھے پس رہے تھے تڑپ رہے تھے اور صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہے تھے اُن تک یہ اطلاعات پہنچ چکی تھیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی فلسطین کی سرزمین میں داخل ہو چکا ہے اور شوبک کا قلعہ مسلمانوں کے قبضے میں ہے یہ ان کے لیے خوشخبری تھی مگر یہ خوش خبری پیغامِ اجل ثابت ہوئی صلیبیوں نے شوبک کی شکست کا انتقام یروشلم اور دیگر شہروں اور قصبوں کے مسلمانوں سے لینا شروع کر دیا تھا وہ مسلمانوں کو مردہ کر دینا چاہتے تھے تاکہ وہ جاسوسی نہ کر سکیں اور حملے کی صورت میں صلاح الدین ایوبی کی مدد کرنے کی جرأت نہ کریں سب سے زیادہ مظالم کرک کے مسلمانوں پر توڑے جا رہے تھے شوبک کے بعد کرک ایک بڑا قلعہ تھا جس پر صلیبیوں کو بہت ناز تھا ایسا ہی ناز انہیں شوبک پر بھی تھا مگر اُس کے ناز کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی نہایت اچھی چال اور اس کے مجاہدین کی شجاعت نے ریت کے ذروں کی طرح بکھیر دیا تھا اب صلیبی کرک کو مضبوط کر رہے تھے وہاں کے مسلمان باشندوں پر تشدد ایک احتیاطی تدابیر تھی صلیبیوں کو یہ وہم ہوگیا تھا کہ مسلمان جاسوسی کرتے ہیں چنانچہ یہاں بھی انہوں نے شوبک کی طرح مشتبہ مسلمانوں کو بیگار کیمپ میں پھینکنا شروع کر دیا تھا

فلسطین کی فتح ہمارا ایک عظیم مقصد ہے مگر کرک سے مسلمانوں کو نکالنا اس سے بھی عظیم تر مقصد ہونا چاہیے جاسوسوں کے ایک گروہ کا سربراہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو بتا رہا تھا وہ طلعت چنگیز نام کا ایک تُرک تھا جو چھ جاسوسوں کو شوبک سے بھاگے ہوئے عیسائی باشندوں کے بہروپ میں کرک لے گیا تھا وہ تین  مہینوں بعد واپس آیا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کو علی بن سفیان کی موجودگی میں وہاں کے حالات بتا رہا تھا صلیبی فوج جو بھاگ کر کرک پہنچی تھی اس کے متعلق اس نے بتایا کہ خاصی بُری حالت میں ہے اور فوری طور پر لڑنے کے قابل نہیں اس ہاری ہوئی فوج نے کرک میں جاتے ہی مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا اندھا دُھند گرفتاریاں شروع ہوگئیں مسلمانوں عورتوں نے باہر  نکلنا چھوڑ دیا ہے جہاں کسی مسلمان پر ذرا سا شک ہوتا ہے اُسے پکڑ کر بیگار کیمپ میں لے جاتے ہیں جہاں انسان ایسا مویشی بن جاتا ہے جو بول  نہیں سکتا صبح کے اندھیرے سے رات کے اندھیرے تک کام کرتا سوکھی روٹی اور پانی پر زندہ رہتا ہے ہم نے وہاں زمین دوز مہم چلائی ہے کہ جتنے مسلمان جوان ہیں یا لڑنے کی عمر میں ہیں وہ یہاں سے نکل کر شوبک پہنچیں اور فوج میں بھرتی ہوجائیں تاکہ کمک کا انتظار کیے بغیر کرک پر حملہ کیا جاسکے چنگیز تُرک نے کہا ہماری موجودگی میں کچھ لوگ وہاں سے نکل آئے تھے لیکن یہ کام ایک تو اس لیے مشکل ہے کہ ہر طرف صلیبی فوج پھیلی ہوئی  ہے اور دوسری مشکل یہ ہے کہ اپنے کنبوں، خصوصاً عورتوں کو وہ عیسائیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر نہیں آسکتے فوری ضرورت یہ ہے کہ کرک پر حملہ کیا جائے اور مسلمانوں کو نجات دلائی جائے

اس سے پہلے ایک اور جاسوس یہ اطلاع دے چکا تھا کہ صلیبیوں کی اسکیم اب یہ ہے کہ سلطان صلاح الدین  ایوبی کرک کا محاصرہ کرے گا تو صلیبیوں کی ایک فوج جو ایک صلیبی حکمران ریمانڈ کے زیر کمان ہے عقب سے حملہ کرے گی سلطان صلاح الدین ایوبی نے پہلے ہی اپنے فوجی سربراہوں سے کہہ دیا تھا کہ صلیبی عقب سے حملہ کریں گے اس صورتِ حال کے لیے اُسے زیادہ فوج کی ضرورت تھی اس نے چنگیز کو رخصت کرکے علی بن سفیان سے کہا جذبات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں فوراً کرک پر حملہ کر دینا چاہیے میں اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہوں کہ وہاں کے مسلمان کس جہنم میں پڑے ہوئے ہیں لیکن حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی صفوں کو مستحکم  کیے بغیر ایک قدم آگے نہ اُٹھاؤ ضرب اُس وقت لگاؤ جب تمہیں یقین ہوکہ کاری ہوگی ہم ان عورتوں اور بچوں کو نہیں بھول سکتے جو دشمن کے ہاتھوں ذلیل وخوار اور قتل ہو رہے ہیں یہ ہمارے گمنام شہید ہیں یہ قوم کی عظیم قربانی ہے میں انہی کی آبرو وقار کے لیے فلسطین لینا چاہتا ہوں اگر میرا مقصد یہ نہ ہو تو جنگ کا مقصد ڈاکہ اور لوٹ مار رہ جاتا ہے وہ قوم جو اپنی اُن بچیوں اور بچوں کو بھول جائے جو دشمن کے اقتدار میں ذلیل وخوار اور قتل ہوئے وہ قوم ڈاکوؤں اور رہزنوں کا گروہ بن جاتی ہے اس قوم کے افراد دشمن سے انتقام لینے کی بجائے ایک دوسرے کو لوٹتے ایک دوسرے کو دھوکہ اور  فریب دیتے ہیں اُن کے حاکم قوم کو لوٹتے اور عیش و عشرت کرتے ہیں اور جب دشمن انہیں کمزور پا کر اُن کے سر پر آجاتا ہے تو کھوکھلے نعرے لگا کر قوم کو بے وقوف بناتے ہیں اور دشمن کے ساتھ درپردہ سودا بازی کرتے ہیں وہ اپنے ملک کا کچھ حصہ اور اس حصے کی آبادی نہایت راز دارانہ طریقے سے دشمن کے حوالے کرکے باقی ملک میں اپنی حکمرانی قائم رکھتے ہیں پھر وہ اور زیادہ  عیش اور لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دشمن انہیں بخشے گا  نہیں یہ عیش چند روزہ ہے لہٰذا قوم کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی جلدی جلدی نچوڑ لو 

سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسی متعدد قوموں کے نام لیے اور کہا وہ توسیع پسند تھے اُن کے سامنے اس کے سوا کوئی مقصد نہ تھا کہ ساری دنیا پر بادشاہی کریں اور دُنیا بھر کی دولت سمیٹ کر اپنے قدموں میں ڈھیر لگا لیں انہوں نے دوسری قوموں کی عصمت دری کی اور اُن کی اپنی بیٹیاں اور بہنیں دوسروں کے ہاتھوں بے آبرو ہوئیں ان قوموں کے حکمران پرائی زمین پر ہلاک ہوئے اور اُن کا نام و نشان کس نے مٹایا؟ ان  قوموں نے جو غیرت مند تھیں اور جنہیں احساس تھا کہ اُن کی زمین کو اور اُن کی عصمت کو دشمن نے ناپاک کیا ہے اور اس کا انتقام لینا ہے ہم بھی حملہ آور ہیں صلیبی بھی حملہ آور ہیں لیکن ہم میں فرق ہے وہ دور دراز ملکوں سے ہمارے مذہب کا نام و نشان مٹانے آئے ہیں وہ اس لیے آئے ہیں کہ مسلمان عورتوں کو اپنی گرفت میں لے کر ان کے بطن سے صلیبی پیدا کریں ہم اُن کی آبرو کے دفاع کے لیے حملہ آور ہوئے ہیں اگر ہم کفر کے طوفان کو نہ روکیں تو ہم بے غیرت ہیں اور ہم مسلمان نہیں اور اگر اسلام کا دفاع اس انداز سے کریں کہ دشمن کے انتظار میں گھر بیٹھے رہیں اور جب وہ حملہ آور ہو تو اپنے گھر میں اُس کے خلاف لڑیں اور پھر فخر سے کہیں کہ ہم نے دشمن کا حملہ پسپا کر دیا ہے تو یہ ثبوت ہے ہماری بزدلی کا دفاع کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن تمہیں مارنے کے لیے نیام سے تلوار نکالنے لگے تو تمہاری تلوار اُس کی گردن کاٹ چکی ہو وہ کل حملے کے لیے آنے والا ہو تو آج اُس پر حملہ کردو میرے پاس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ محترم نورالدین زنگی سے کمک مانگی جائے علی بن سفیان نے کہا اور کرک پر حملہ کر دیا جائے یہ بھی نقصان دہ ہوگا سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا زنگی کے پاس اتنی فوج موجود رہنی چاہیے کہ صلیبی اگر ہمارے عقب پر حملہ کریں تو زنگی اُن کے عقب پر حملہ کر سکے میں مدد مانگنے کا قائل نہیں اس کی بجائے میں یہ بھی کر سکتا ہوں کہ کرک میں چھاپہ مار دستے بھیج کر صلیبیوں کا جینا حرام کیے رکھوں مجھے اُمید ہے کہ ہمارے جاسوس چھاپہ مار صلیبیوں کی جڑیں چوہوں کی طرح کاٹتے رہیں گے مگر اس کی سزا وہاں کے بے گناہ مسلمان باشندوں کو ملے گی چھاپہ مار تو اپنا کام کرکے اِدھر اُدھر ہوجائیں گے وہ ہر قسم کی سختی اور مصیبت جھیل سکتے ہیں ہمارے نہتے بہن بھائی کچلے جائیں گے البتہ اس تجویز پر غور کرو کہ وہاں سے مسلمان کنبوں کو نکالنے کا کوئی خفیہ انتظام کیا جائے حملے میں کچھ وقت لگے گا ہمیں خاصی بھرتی مل گئی ہے کرک کے جوان بھی آگئے ہیں اور آرہے ہیں 

میں محسوس کرنے لگا ہوں کہ ہمیں یہاں کے باشندوں کے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنے پڑے گی صلیبیوں کے محکمہ جاسوسی اور سراغرسانی کے سربراہ ہرمن نے کہا قلعہ کرک میں چند ایک صلیبی بادشاہ اُن کے فوجی  کمانڈر اور انتظامیہ کے حکام جمع تھے وہ جوں جوں اپنی ہاری ہوئی فوج کو دیکھ رہے تھے ان کی عقل پر غصہ اور انتقام غالب آتا جا رہا تھا وہ شکست کو بہت جلدی فتح میں بدلنا چاہتے تھے اُن میں ان کی انٹیلی جنس کا سربراہ ہرمن واحد آدمی تھا جو ٹھنڈے دِل سے سوچتا اور عقل کی بات کرتا تھا وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے صلیبی بھائی کرک کے مسلمان باشندوں کے ساتھ کیسا  وحشیانہ سلوک کر رہے ہیں اس نے کہا آپ نے یہی سلوک شوبک کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انہوں نے وہاں مسلمانوں کے کیمپ سے اُس مسلمان فوجی کو بھگا دیا جسے ہم نے خطرناک جاسوس سمجھ کر قید میں ڈال دیا تھا مجھے یقین ہے کہ اُسے وہاں کے مسلمانوں نے پناہ دی تھی وہ قلعے کے اندرونی حالات اور دفاع کو دیکھ کر گیا تھا اسکے علاوہ صلاح  الدین ایوبی نے ہمارے قلعے کی دیوار جو توڑی تھی اس میں اندر کے مسلمانوں کا بھی ہاتھ تھا وہ آپ کے سلوک سے اس قدر تنگ آئے ہوئے تھے کہ انہوں نے جان کی بازی لگا کر مسلمان فوج کی مدد کی اور جب فوج کا ہر اوّل دستہ اندر آیا تو مسلمانوں نے اس کی رہنمائی کی
اس لیے ہم کرک کے مسلمانوں کا دم خم توڑ رہے ہیں کہ اُن میں جذبہ اور ہمت ہی نہ رہے ایک صلیبی سالار نے کہا اس کی بجائے اگر آپ انہیں اپنا دوست بنا لیں تو وہ آپ کی مدد کریں گے ہرمن نے کہا اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں پیار اور محبت سے انہیں اُن کا مذہب تبدیل کیے بغیر صلیب کا گرویدہ بنا لوں گا میں انہیں مسلمانوں  کو مسلمانوں کے خلاف لڑا دوں گا
'تم بھول رہے ہو ہرمن! ایک مشہور صلیبی بادشاہ ریمانڈ نے کہا تم چند ایک مسلمانوں کو لالچ دے کر انہیں غدار بنا سکتے ہو مگر ہر ایک مسلمان کو اسلامی فوج کے خلاف نہیں کر سکتے پوری قوم غدار نہیں ہوسکتی ہرمن! تم ان لوگوں پر اتنا بھروسہ نہ کرو ہم انہیں دوست نہیں بنانا چاہتے ہم ان کی نسل ختم کرنا چاہتے ہیں کوئی بھی غیر مسلم کسی مسلمان کے ساتھ محبت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام سے محبت کرتا ہے جبکہ ہمارا مقصد اسلام کا خاتمہ ہے کرک میں یروشلم میں عقہ اور عدیسہ میں جہاں بھی صلیب کی حکمرانی ہے مسلمانوں کو اس قدر پریشان کرو کہ وہ مر جائیں یا وہ صلیب کے آگے گھٹنے ٹیک دیں

مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ صلاح الدین ایوبی کو باقاعدہ معلوم ہوتا جا رہا ہے ہرمن نے کہا آپ اسے اُکسا رہے ہیں کہ وہ کرک پر جلدی حملہ کرے آپ یہ بھول رہے ہیں کہ ہماری فوج فوری حملے کے آگے ٹھہرنے کے قابل نہیں اس کا حل یہ نہیں کہ ہم مسلمان باشندوں  کو سر پر بٹھا لیں فلپ آگسٹس نے کہا آپ لوگ مسلمان جنگی قیدیوں کو ابھی تک پال رہے ہیں انہیں قتل کیوں نہیں کر دیتے؟
اس لیے کہ ایوبی ہمارے قیدیوں کو قتل کردے گا گے آف لوزینان نے جواب دیا ہمارے پاس مسلمانوں کے کل تین سو اِکسٹھ جنگی قیدی ہیں مسلمانوں کے پاس ہمارے بارہ سو پچہتر قیدی ہیں
کیا ہم ایک مسلمان کو مارنے کے لیے چار صلیبی نہیں مروا سکتے؟
آگسٹس نے کہا ہمارے وہ قیدی جو صلاح الدین ایوبی کے پاس ہیں بزدل تھے وہ لڑنے کی بجائے قید ہوئے وہ زندہ رہنا چاہتے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مرجائیں تو اچھا ہے تم اطمینان سے مسلمان قیدیوں کو ختم کردو
کیا مسلمان باشندوں کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کرکے اور مسلمان جنگی قیدیوں کو قتل کرکے تم صلاح الدین ایوبی کو شکست دے دو گے؟
سالار کے عہدے کے ایک صلیبی نے کہا اس وقت فوج کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی اگر پیش قدمی کر آیا تو اُسے کس طرح روکیں گے اور اُس سے شوبک کا قلعہ واپس کس طرح لیا جاسکتا ہے کرک کے تمام مسلمانوں کو قتل کردو پھر کیا ہوگا ؟ 
صلاح الدین ایوبی کی طرح تم اپنی نظر میں وسعت پیدا کیوں نہیں کرتے کیا ہرمن بتا سکتا ہے کہ مصر میں اس زمین دوز کاروائیاں کیا ہیں اور کامیابی کتنی ہے؟
توقع سے زیادہ ہرمن نے جواب دیا علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ شوبک میں ہے میں نے قاہرہ میں اس کی غیر حاضری سے بہت فائدہ اُٹھایا  ہے قاہرہ کے نائب ناظم مصلح الدین کو فاطمیوں نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے مصلح الدین ایوبی کا معتمد خاص ہے لیکن اب ہمارے ہاتھ میں ہے فاطمیوں نے درپردہ اپنا ایک خلیفہ مقرر کر دیا ہے وہ قاہرہ کے اندر سے بغاوت اور سوڈانیوں کے حملے کا انتظار کر رہے ہیں ہمارے فوجی افسر سوڈان کی فوج تیار کر رہے ہیں قاہرہ میں صلاح الدین ایوبی جو فوج چھوڑ آیا ہے اس کے دو نائب سالار ہمارے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں اُدھر سے سوڈانی حملہ کریں گے قاہرہ میں بغاوت ہوگی اور فاطمی اپنی خلافت کا اعلان کردیں گے
مجھے سو فیصد اُمید ہے کہ قاہرہ میں جو اس کی فوج ہے وہ اس کے کام نہیں آسکے گی ہرمن نے کہا میرے آدمیوں نے فوج میں اس قسم کے شکوک پیدا کر دئیے ہیں کہ انہیں قاہرہ میں پیچھے چھوڑ کر مالِ غنیمت سے محروم کر دیا گیا ہے اور یہ بھی شوبک کی سینکڑوں عیسائی لڑکیاں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ آئی ہیں جو اُس نے وہاں فوج کے حوالے کر دی ہیں میری کامیابی یہ ہے کہ میں نے مسلمان فوجی حکام کے ہی منہ میں یہ افواہیں ڈال کر اُن کی فوج میں پھیلائی ہیں میں نے ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ قاہرہ کی تمام فوج  سوڈانیوں کا ساتھ دے گی اور صلاح الدین ایوبی کو بغاوت کرنے کے لیے یہاں سے تمام فوج لے جانی پڑے گی مگر یہ فوج اُس وقت وہاں پہنچے گی جب قاہرہ ایک بار پھر فاطمی خلافت کی گدی بن چکا ہوگا اور وہاں سوڈان کی فوج قابض ہوگی ضروری نہیں کہ ہم یہاں صلاح الدین ایوبی پر حملہ کریں اور اُسے روکیں ہم اُسے بھٹکنے کے لیے کھلا چھوڑ دیں گے ہم اُسے مسلمانوں کے ہاتھوں  مروائیں گے ہرمن نے زور دے کر کہا آپ ابھی تک مسلمان کی نفسیات نہیں سمجھ سکے یہی وجہ کہ آپ میری بعض کارگر باتیں نظر انداز کردیتے ہیں 
مسلمان اگر فوجی ہو اور اس کے دماغ میں ٹریننگ کے دوران یہ بٹھا دیا جائے کہ وہ ملک اور قوم کا محافظ ہے تو وہ ملک اور قوم کی خاطر جان قربان کر دیتا ہے
دُنیا کی بادشاہی اس کے قدموں میں رکھ دو وہ سپاہی رہنا پسند کرے گا قوم سے غداری نہیں کرے گا اگر اسی فوجی میں جنسی لذت شراب نوشی اور عہدوں کی خواہش پیدا کردو تو وہ اپنا مذہب بھی داؤ پر لگا دیتا ہے ہم نے  جن مسلمان فوجی حکام کو اپنے ساتھ ملایا ہے اُن میں یہی خامیاں پیدا کی تھیں اور کر رہے ہیں 
مگر فوجی کو غدار بنانا آسان نہیں جتنا انتظامیہ کے حکام کو اپنے ہاتھ میں لینا آسان ہے ہرمن نے کہا انتظامیہ کے ہر حاکم میں امراء اور وزراء کی صف میں آنے کی شدید خواہش ہوتی ہے ان لوگوں پر بادشاہ بننے کا خبط سوار ہے مسلمانوں کی تاریخ دیکھیں ان کے رسول(ﷺ) کے بعد یہ لوگ خلافت پر ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ان کے جرنیلوں نے نہایت دیانت داری سے اپنا کام جاری رکھا وہ دوسرے ملکوں کو بے تیغ کرتے رہے اور اسلامی سلطنت کو وسیع کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اُن کے خلیفوں نے جہاں دیکھا کہ فلاح جرنیل ایسا  مقبول ہوگیا ہے کہ اس کی فتوحات کی بدولت اُسے قوم خلیفہ سے زیادہ مقام دینے لگی ہے تو خلیفہ اور اُس کے حواریوں نے جرنیل کو غلط احکام دے کر اُسے ذلیل اور رُسوا کر دیا خود خلیفہ کی گدی مخالفین سے محفوظ نہ رہی مخالفین کی نگاہ اسلامی سلطنت کی وسعت سے ہٹ کر خلافت کے حصول پر مرکوز ہوگئی جرنیل ہارتے چلے گئے اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم عرب میں بیٹھے ہیں صلاح الدین ایوبی انہیں جرنیلوں میں سے ہے جو سلطنت کو اُنہی سرحدوں تک لے جانا چاہتا ہے جہاں یہ پہلے جرنیلوں نے پہنچائی تھیں اس شخص میں خوبی یہ ہے کہ انتظامیہ اور خلافت کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس نے مصر کی خلافت کو اپنے ارادوں کے سامنے رکاوٹ بنتے دیکھا تو خلیفہ کو ہی معزول کر دیا یہ دلیرانہ قدم اس نے فوجی طاقت اور اپنی فہم و فراست کے بل بوتے پر اُٹھایا  تھا

ہرمن بولتا جا رہا تھا تمام حکمران اور صلیبی کمانڈر انہماک سے سُن رہے تھے وہ کہہ رہا تھا صلاح الدین ایوبی اپنی قوم کی اس کمزوری کو سمجھ گیا ہے کہ غیر فوجی قیادت گدی کی خواہش مند ہے اور یہ خواہش  ایسی ہے کہ جوزن اور زرپرستی اور شراب نوشی جیسی عادتیں پیدا کرتی ہے ہم  نے صرف اُن فوجی افسروں کو ہاتھ میں لیا ہے جو اقتدار کے خواہش مند ہیں اسی لیے ہم زیادہ تر اثر انتظامیہ کے سربراہوں پر ڈال رہے ہیں فوج کو کمزور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے لوگوں کی نظروں میں رسوا کردیا جائے یہ کام میرا ہے جو میں کر رہا ہوں آپ شاید میری تائید نہ کریں لیکن میں آپ  کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ صلاح الدین ایوبی کو میدانِ جنگ میں آسانی سے  شکست نہیں دے سکتے۔ وہ صرف لڑنے کے لیے نہیں لڑتا اس کے عزم کی بنیاد ایک ایسے منصوبے پر ہے جسے اس کی ساری فوج سمجھتی ہے

اس کی بنیادی خوبی یہ ہے  کہ وہ اپنے خلیفہ سے یا غیر فوجی قیادت سے حکم نہیں لیتا وہ کٹر مسلمان ہے وہ کہتا ہے کہ میں خدا اور قرآن پاک سے حکم لیتا ہوں میرے جو جاسوس بغداد میں ہیں، انہوں نے اطلاع دی ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے نورالدین زنگی  کو ساتھ ملا کر یہاں سے انقلابی تجاویز بھیجی ہیں جن پر عمل درآمد شروع  ہوگیا ہے ایک یہ ہے کہ امیر العلماء سے یہ فتویٰ صادر کرایا گیا ہے کہ خلافت صرف ایک ہی ہوگی اور یہ بغداد کی خلافت ہوگی یہ خلافت دوسرے ممالک  کے متعلق احکام نافذ کرنے اور سمجھوتوں کی بات چیت کرنے سے پہلے اعلیٰ فوجی قیادت سے منظوری لے گی۔ جنگی امور فوجی حکام کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ خلیفہ  دور دراز علاقوں میں لڑنے والے جرنیلوں کو کوئی حکم نہیں بھیج سکتا تیسرے  یہ کہ خلیفہ کا نام خطبے میں نہیں لیا جائے گا اور خلافت کا اثرو رسوخ ختم کرنے کے لیے صلاح الدین ایوبی نے حکم جاری کرا دیا ہے کہ خلیفہ یا اس کے  نائب یا کوئی قلعہ دار وغیرہ جب دورے وغیرہ کے لیے باہر نکلیں گے تو لوگوں  کو راستے میں کھڑے ہونے نعرے لگانے اور سلام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی

صلاح الدین ایوبی نے سب سے اہم کام یہ کیا ہے کہ سُنی شیعہ تفرقہ مٹا دیا ہے ہرمن نے کہا اُس نے شیعوں کو فوج اور انتظامیہ میں پوری نمائندگی دے دی ہے اور نہایت پُر اثر طریقوں سے شیعہ علماء کو قائل کر لیا ہے کہ وہ ایسی رسمیں ترک کر دیں جو اسلام کے منافی ہیں صلاح الدین ایوبی کے یہ انقلابی اقدامات ہمارے لیے نقصان دہ ہیں ہم مسلمانوں کی انہی خامیوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے جو دراصل جاری ہے کہ مسلمانوں کی انتظامی قیادت کو صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج کے خلاف کیا جائے صرف آج نہیں ہمیشہ کے لیے 
فلپ آگسٹس جو مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا بولا ہماری عداوت صرف صلاح الدین ایوبی سے  نہیں ہماری جنگ اسلام کے خلاف ہے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایوبی مرجائے تو یہ قوم کوئی دوسرا ایوبی پیدا نہ کرسکے اس قوم کو عقیدوں غلط اور بے بنیاد عقیدوں کے ہتھیاروں سے مارو ان میں بادشاہ بننے کا جنون طاری کردو انہیں عیاش بنادو اور ایسی روایات پیدا کردو کہ یہ لوگ خلافت کی گدی پر آپس میں لڑتے رہیں پھر اس خلافت کو اس کی فوج پر سوار کردو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ قوم ایک نہ ایک دن صلیب کی غلام ہوجائے  گی اس کا تمدن اور اس کا مذہب صلیب کے رنگ میں رنگا ہوا ہوگا وہ بادشاہی اور خلافت کے حصول کے لیے آپس میں دست و گریباں ہوں گے اور اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے ہم سے پناہ مانگیں گے اُس وقت ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہوگ ہماری روحیں دیکھیں گی کہ میں نے جو پیشین گوئی کی ہے وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے یہودی تمہیں اپنی  لڑکیاں پیش کر رہے ہیں انہیں استعمال کرو یہودیوں کو اس لیے اپنا دشمن سمجھو کہ وہ یروشلم کو اپنا مقدس شہر اور فلسطین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں انہیں کہو کہ فلسطین تمہارا ہے آخر میں یہ خطہ ہم تم کو ہی دیں گے ابھی ہمارا ساتھ دو لیکن یہ احتیاط ضرور کرنا کہ یہودی بہت چالاک قوم ہے اُسے جب تمہاری طرف سے خطرہ نظر آیا تو تمہارے ہی خلاف ہوجائے گی اس کی دولت اور اس کی لڑکیاں استعمال کرو اور اس کے عوض انہیں فلسطین پیش کرو
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قلعہ شوبک اور قلعہ کرک سےبہت دور ایک ایسا وسیع خطہ تھا جو مٹی ریت اور  سِلوں کی پہاڑیوں اور اونچی نیچی چٹانوں میں گھرا ہوا تھا یہ خطہ کم و  بیش ڈیڑھ ایک میل وسیع اور چوڑا تھا اس میں بہت سا علاقہ ریتلا میدانی تھا اور اس میں کھڈ بھی تھے اور کم اونچی ٹیکریاں بھی جب صلیبی حکمران اور کمانڈر اسلام کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے اور نہایت پُر کشش اور خطرناک طریقے وضع کر رہے تھے صحرا کا یہ خطہ میدانِ جنگ بنا ہوا تھا ہزاروں پیادہ عسکری گھوڑ سوار اور شتر سوار بھاگ دوڑ رہے تھے تلواریں اور برچھیاں چمک رہی تھیں گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ سے گرد گہرے بادلوں کی طرح آسمان کی طرف اُٹھ رہی تھی اس گرد میں برچھیاں بھی اُڑ رہی تھیں تیر بھی پیادہ سپاہی گھوڑوں سے آگے نکل جانے کی رفتار سے دوڑنے کی کوشش کر رہے تھے ایک پہاڑی کے دامن میں آگ کے شعلے اُڑتے اور پہاڑی سے ٹکڑا کر بھڑکتے اور بجھ جاتے تھے شوروغل آسمان کو ہلا رہا تھا
صلاح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار ایک بلند چٹان پر کھڑا یہ نظارہ انہماک سے دیکھ رہا تھا وہ بہت دیر سے اس میدان کے اردگرد چٹانوں پر گھوم رہا تھا اس کے ساتھ اس کے دو نائب تھے
میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ جس رفتار سے سکھلائی ہو رہی ہے نئے سپاہی چند دنوں میں تجربہ کار ہو جائیں گے ایک نائب نے کہا آپ نے جن سواروں کو اتنا چوڑا کھڈ پھلانگتے ہوئے دیکھا تھا وہ سب کرک سے آئے  ہوئے سوار ہیں میں انہیں اناڑی سمجھتا تھا تیر اندازوں کا معیار بھی اچھا ہو رہاہے
میدانِ جنگ کا یہ منظر دراصل ٹریننگ تھی جس کے متعلق صلاح الدین ایوبی نے بڑے سخت احکامات جاری کیے تھے اردگرد سے بہت سے جوان فوج میں بھرتی کیے گئے تھے اور کرک سے بھی بہت سے مسلمان چوری چھپے نکل  آئے تھے یہ سلطان ایوبی کے جاسوسوں کا کمال تھا کہ کرک سے بھی جوان حاصل  کر لیے تھے شوبک کے وہ مسلمان جنہوں نے صلیبیوں کا ظلم و تشدد برداشت کیا  تھا جوش و خروش سے صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہوئے تھے ان کی ٹریننگ کا انتظام وہیں کر دیا گیا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی اس میں ذاتی دلچسپی لے رہا تھا اُسے اُس کے نائب یقین دلا رہے تھے کہ وہ نئی بھرتی کو تھوڑے سے عرصے میں پختہ کار بنا دیں گے سپاہی صرف ہتھیاروں کے استعمال اور جسمانی پھرتی سے تجربہ کار نہیں بن سکتا سلطان ایوبی نے کہا عقل اور جذبے کا استعمال ضروری ہے مجھے ایسی فوج کی ضرورت نہیں جو اندھا دُھند دشمن پر چڑھ دوڑے اور صرف ہلاک کرے مجھے ایسی فوج چاہیے جسے معلوم ہو کہ اس کا دشمن کون ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں ؟ میری فوج کو علم  ہونا چاہیے کہ یہ خدا کی فوج ہے اور خدا کی راہ میں لڑ رہی ہے جوش و خروش جو میں دیکھ رہا ہوں بہت ضروری ہے مگر مقصد واضح نہ ہو اپنی حیثیت واضح نہ ہو تو یہ جوش جلدی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے انہیں بتاؤ اور ذہن نشین کراؤ کہ ہم فلسطین کیوں لینا چاہتے ہیں انہیں بتاؤ کہ غداری کتنا بڑا جرم  ہے انہیں سمجھاؤ کہ تم صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے تحفظ اور  فروغ کے لیے لڑ رہے ہو اور تم آنے والی نسلوں کے وقار کے لیے لڑ رہے ہو عملی سکھلائی کے بعد انہیں وعظ دو اور ان پر ان کی قومیت واضح کرو انہیں ہر شام وعظ دئیے جاتے ہیں سالارِ اعظم ایک نائب نے کہا ہم انہیں صرف درندے اور وحشی نہیں بنا رہے اور یہ خیال رکھو کہ ان کے دلوں میں قوم کی وہ بیٹیاں نقش کردو جو کفار کے ہاتھوں اغوا اور بے آبرو ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں سلطان ایوبی نے کہا انہیں قرآن پاک کے وہ ورق یاد دلاتے رہنا جنہیں صلیبیوں نے پاؤں تلے مسلا تھا اور انہیں وہ مسجدیں یاد دلاتے رہنا جن میں کفار نے  گھوڑے اور مویشی باندھے تھے اور باندھ رہے ہیں بیٹی کی عزت اور مسجد کا احترام مسلمان کی عظمت کے نشان ہوتے ہیں انہیں بتاؤ کہ جس روز تم عصمت اور مسجد کو ذہن سے اُتار دو گے اُس روز تم اپنے لیے اس دُنیا کو جہنم بنالو گے اور آخرت میں جو عذاب ہے اس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے

پہاڑیوں پر جو دو دو چار چار سپاہی گھوم پھر رہے تھے ،وہ پہرہ دار تھے صلیبیوں کے جوابی حملے کا خطرہ موجود تھا دور آگے تک فوج موجود تھی پھر بھی ٹریننگ کے اس علاقے کے گرد پہرے کی ضرورت تھی ان پہرہ داروں میں سے دو ایک چوٹی پر جارہے تھے وہ رُک گئے انہیں نیچے ایک ٹیکری پر صلاح الدین ایوبی کھڑا نظر آرہا تھا اُن کی طرف اس کی پیٹھ تھی فاصلہ دو اڑھائی سو گز تھا ایک پہرہ دار نے کہا کم بخت کی پوری پیٹھ ہمارے سامنے ہے اگر یہاں سے تیر چلاؤں تو اس کے دل کے پار کر سکتا ہوں کیا خیال ہے؟
پھر بھاگ کر کہاں جاؤ گے؟
اس کے ساتھی نے پوچھا
ہاں! دوسرے نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو اگر یہ لوگ ہمیں پکڑ کر جان سے مار ڈالیں تو بات نہیں وہ زندہ پکڑ کر ایسے شکنجے میں جکڑیں گے کہ ہمیں اپنے تمام ساتھیوں کے نام بتانے پڑیں گے
یہ کام اس کے محافظوں کو کرنے دو اس کے ساتھی نے کہا اگر صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنا اتنا آسان ہوتا تو یہ اب تک زندہ نہ ہوتا
یہ کام اب ہوجانا چاہیے دوسرے نے کہا سنا ہے فاطمی کہتے ہیں کہ تم کچھ کیے بغیر ہم سے منہ مانگی رقم لیتے جا رہے ہو مجھے اُمید ہے کہ یہ کام جلدی ہوجائے گا
اس کے ساتھی نے کہا سنا تھا کہ حشیشین بہت دلیر ہیں قتل کرنے کے لیے جان پر کھیل جاتے ہیں ابھی تک انہوں نے کچھ کر کے تو نہیں دکھایا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایوبی کے  محافظ دستے میں تین حشیشین ہیں یہ تو ان کا کمال ہے کہ محافظ دستے تک پہنچ گئے ہیں اور کسی کو اُن کی اصلیت کا علم نہیں ہوا مگر وہ قتل کب کریں گے؟  کم بخت ڈرتے ہیں وہ باتیں کرتے آگے چلے گئے

مؤرخین لکھتے ہیں کہ مصر سے صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری سے وہاں مخالفین کی زمین دوز سرگرمیاں اُبھر آئیں تو صورتِ حال ایسی پیدا کر دی گئی جسے صرف معجزہ سنبھال سکتا تھا یہ ایک سازش تھی جو فاطمی خلافت کو معزول اور  تخریب کاروں کی گرفتاری کے بعد بظاہر دب گئی تھی لیکن راکھ میں دبی ہوئی  چنگاری کی طرح دہکتی رہتی تھی اس کی پشت پناہی کرنے والے صلیبی تھے اور اسے عملی جامہ پہنانے والے وہ مسلمان زُعما تھے جن پر سلطان ایوبی کو بھروسہ تھا صلیبیوں نے یہودی لڑکیاں حاصل کر لی تھیں جو عرب اور مصر کی زبان روانی سے بولتی اور اپنے آپ کو ہر رنگ میں ڈھال سکتی تھیں مصر کی انتظامیہ کے متعدد حُکام اقتدار میں حصے یا کُلی طور پر خود مختاری کے  خواہش مند تھے ان میں قومی وقار اور جذبہ ختم ہو چکا تھا وہ حرموں کے بادشاہ تھے ان لوگوں کا آلہ کار بنانے والوں میں فاطمیوں نے دانش مندی کا ثبوت دیا اور انہوں نے حسن بن صباح کے حشیشین کی خدمات بھی حاصل کرلیں
اُس وقت کے واقعہ نگاروں نے جن میں اسد الا سدی ابن الاثیر ابی الضر اور ابن الجوزی خاص طور پر قابل ذکر ہیں لکھتے ہیں کہ صلیبیوں نے سوڈانیوں کو مدد دے کر انہیں مصر پر حملے کے لیے تیار کر لیا تھا مصر میں تھوڑی سی فوج تھی وہ بغاوت کے لیے تیار کردی گئی تھی صلاح الدین ایوبی کے حامی سخت پریشان تھے کہ وہ قبل از وقت نہ پہنچا تو مصر ہاتھ سے نکل جائے گا ان واقعہ نگاروں اور دو گمنام کاتبوں کی تحریروں سے ایک کہانی کی کڑیاں ملتی ہیں ان میں قاہرہ کے محکمہ مالیات کے ایک بڑے ناظم خضر الحیات کا ذکر ملتاہے
وہ خزانے کا بھی ذمہ دار تھا دوسرے علاقوں کی جزئیے اور تاوان وغیرہ کی رقمیں زکوٰة سزا کے طور پر وصول ہونے والے جرمانے عطیات اور نظامتِ مصر کا تمام تر حساب کتاب اور پیسہ مالیات کے محکمے میں آتا اور خرچ  ہوتا تھا یہ بڑا ہی اہم اور نازک محکمہ تھا اس کے ناظم کا قابل اعتماد ہونا بہت ضروری تھا یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی خوش نصیبی تھی کہ ناظم خضر الحیات دیندار مسلمان تھا
ایک رات وہ باہر سے آیا گھر میں داخل ہوا تو اندھیرے کو چیرتا ہوا ایک تیر آیا جو خضر الحیات کی پیٹھ میں اُترا اور دل تک پہنچا اُس کی کربناک آواز سن کر ملازم باہر آیا پھر گھر کے افراد باہر آئے مشعل کی روشنی میں خضر کو اوندھے منہ پڑے دیکھا اتفاق سے کسی نے دیکھ لیا کہ خضر کے دائیں ہاتھ کی انگلی زمین پر تھی اور مٹی پر اس  انگلی سے اس نے کچھ لکھا تھا وہ مر چکا تھا زمین پر اس نے انگلی سے لکھا تھا مصلح ''ح'' پوری نہیں ہوتی تھی اس حرف کی گولائی کے نصف میں جان نکل گئی تھی لاش اُٹھا لی گئی اور اس لفظ کو محفوظ رکھا گیا ایک آدمی کو کوتوال غیاث بلبیس کو بلانے دوڑا دیا گیا یہی کہا جا سکتا تھا کہ خضر نے مرتے مرتے مٹی پر اپنے قاتل کا نام لکھا ہے غیاث بلبیس کوتوال بھی تھا اور مصر کی تمام تر پولیس کا حاکم اعلیٰ بھی یہ بھی صلاح الدین ایوبی کا قابل اعتماد حاکم تھا علی بن سفیان کی طرح شہری جرائم کا ماہر سراغرساں تھا
بلبیس نے آتے ہی زمین پہ لکھے ہوئے لفظ ''مصلح'' کو غور سے دیکھا اتنے میں شہر کا نائب ناظم مصلح الدین خضر کے قتل کی خبر سن کر آگیا بلبیس نے اُسے دیکھتے ہی زمین پر پاؤں رگڑ کر ''مصلح'' کا لفظ مٹا دیا مصلح الدین چونکہ شہر کا نائب تھا۔ اس لیے کوتوالی کا محکمہ اس کے  ماتحت تھا اس نے بلبیس کو حکم کے لہجے میں کہا قاتل کا سراغ صبح سے پہلے مل جانا چاہیے میں زیادہ انتظار نہیں کروں گا بلبیس نے اُسے یقین دلایا کہ قاتل کو جلدی پکڑ لیا جائے گا وہ وہاں سے چلا گیا رات کو ہی بلبیس نے خضر الحیات کے نائب معاون اور اس کے دفتر میں اُن افراد کو بلا لیا جو مقتول کے قریب رہتے تھے اور بتا سکتے تھے کہ قتل کے روز ان کی سرگرمیاں کیا رہیں اِن لوگوں سے اُسے پتا چلا کہ آج شہری انتظامیہ کے حکامِ اعلیٰ کا ایک اجلاس تھا جس میں فوج کا کوئی نمائندہ نہیں تھا خضر کا نائب اس کی مدد کے لیے اجلاس میں شریک تھا اجلاس میں مالیات کے سلسلے میں فوج کے اخراجات زیربحث آئے تو خضر نے کہا کہ مصر میں بعض اخراجات روکنے پڑیں گے کیونکہ امیر مصر صلاح الدین ایوبی نے شوبک میں بہت سی فوج بھرتی کی ہے جس کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہے
نائب ناظم مصلح الدین نے اس کی مخالفت کی اور کہا فوج کے اخراجات غیر ضروری ہیں مزید فوج بھرتی کرنے کی بجائے ہمیں توجہ اس فوج کے مسائل کی طرف دینی چاہیے جو پہلے ہی ہمارے لیے ایک مہنگا مسئلہ بنی ہوئی ہے اُس نے بتایا کہ مصر میں جو فوج ہے اس میں بے اطمینانی اور بدامنی پائی جاتی ہے شوبک سے جو مالِ غنیمت ہاتھ آیا ہے اس میں سے اس فوج کے لیے کوئی حصہ نہیں بھیجا گیا خضر الحیات نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیر مصر نے مالِ غنیمت تقسیم کرنے کی بدعت ختم  کردی ہے؟ 
یہ نہایت اچھا فیصلہ ہے مالِ غنیمت کے لالچ سے لڑنے والی فوج کا کوئی قومی جذبہ اور مذہبی نظریہ نہیں ہوتا
اس مسئلے پر بحث ترش کلامی میں بدل گئی مصلح الدین نے یہاں تک کہہ دیا کہ امیر مصر مصری سپاہیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک نہیں کر رہا جتنا شامی اور ترک سپاہیوں کے ساتھ کرتا ہے اُس نے غصے میں کچھ اور نادرا باتیں کہہ دیں جن کے جواب میں خضر نے کہا مصلح! تمہاری زبان سے صلیبی اور فاطمی بول رہے ہیں اس پر اجلاس نے ہنگامے کی صورت اختیار کر لی اور برخاست ہوگیا خضرالحیات نے معاون اور نائب نے بتایا کہ اجلاس کے بعد مصلح الدین خضرالحیات کے دفتر میں آیا وہاں پھر ان میں گرما گرمی ہوئی مصلح الدین خضر کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مصری فوج مطمئن نہیں اُس نے پھر وہی باتیں دہرائیں جو اس نے اجلاس میں کہی تھیں خضرالحیات نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو میں یہ مسئلہ تمہاری طرف سے امیر مصر کے آگے رکھ دوں گا لیکن میں یہ ضرور لکھوں گا کہ تم نے اجلاس میں تمام شرکاء کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ امیر مصر مصری فوج میں امتیازی سلوک کر رہا ہے اور میں یہ بھی لکھوں گا کہ تم نے ہمیں یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ صلاح الدین ایوبی نے شوبک کا مال غنیمت شامیوں اور ترکوں میں تقسیم کر دیا ہے اور میں یہ رائے ضرور دوں گا تم نے جو الزامات عائد کیے ہیں انہیں سچ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور فوج میں جو افواہیں دشمن پھیلا رہاہے ان کے متعلق تم نے کہا ہے کہ یہ افواہیں نہیں بلکہ سچ ہے 
خضرالحیات کے نائب نے بیان دیا کہ مصلح الدین جب خضر کے کمرے سے نکلا تو اس کے منہ سے یہ الفاظ سنے گئے تھے اگر تم زندہ رہے تو سب کچھ لکھ کر صلاح الدین ایوبی کے آگے رکھ دینا
غیاث بلبیس نے فوری طور پر مصلح الدین سے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا ایک تو اس کی حیثیت بہت اونچی تھی اور دوسرے یہ کہ بلبیس اس کے خلاف مزید شہادت جمع کرنا چاہتا تھا اسے ڈر یہ تھا کہ اگر اس نے مصلح الدین پر بغیر ٹھوس شہادت کے ہاتھ ڈالا تو یہ اقدام اس کے اپنے لیے مصیبت بن جائے گا اگر صلاح الدین ایوبی قاہرہ میں موجود ہوتا تو بلبیس اس کی پشت پناہی حاصل کرلیتا وہ اتنا سمجھ گیا تھا کہ یہ قتل ذاتی رنجش کا نتیجہ نہیں خضر الحیات ذاتی رنجش رکھنے والا حاکم  نہیں تھا رات کو اس نے چند ایک لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور تفتیش میں لگا رہا اپنے خفیہ آدمیوں کو بھی سرگرم کر دیا لیکن اُسے کوئی کامیابی نہ ہوئی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی