⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟙 𝟛⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صحرائی درندے لاشوں کو چیر پھاڑ رہے تھے اور معرکہ آرائی کا یہ عالم تھا جیسے اُفق سے اُفق تک انسان ایک دوسرے کا کشت و خون کر رہے ہوں اس وسیع ریگزار میں کہیں کہیں نخلستان بھی تھے جہاں پانی مل جاتا تھا تھکے ہارے انسان زخمی انسان اور پیاس کے مارے ہوئے انسان وہاں جا جا کر گرتے تھے
عماد ہاشم سلطان ایوبی کی فوج کے ایک چھوٹے سے دستے کا کمانڈر تھا وہ شامی باشندہ تھا اسی لیے وہ اپنا نام عماد شامی بتایا کرتا تھا صلیبیوں کے خلاف جو جذبہ ہر مسلمان سپاہی کے دل میں تھا وہ عماد شامی میں بھی تھا لیکن اس کے جذبے میں انتقام کا قہر اور غضب زیادہ تھا اس کے متعلق سب جانتے تھے کہ وہ یتیم ہے اور اس کا سگا عزیز رشتہ دار کوئی نہیں لیکن اُسے یہ یقین نہیں تھا کہ وہ یتیم ہے یا نہیں کیونکہ اس کا باپ اس کی آنکھوں کے سامنے نہیں مرا تھا وہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگا تھا اُس وقت اس کا گھر شوبک میں تھا اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس کے بچپن میں شوبک پر صلیبیوں کا قبضہ ہوا تھا اور انہوں نے مسلمانوں کا کشت و خون شروع کر دیا تھا اس کا بچپن صلیبیوں کی دہشت میں گزرا تھا اس نے مسلمان جنگی قیدی بھی دیکھے جنہیں مار مار کر لایا جا رہا تھا اور اس کے سامنے دو قیدیوں کے سر کاٹ دئیے گئے تھے کیونکہ وہ زخموں کی وجہ سے چل نہیں سکتے تھے
اس نے مسلمان گھروں سے لڑکیاں اغوا ہوتے دیکھی تھیں اور اس نے مسلمانوں کو بیگار میں جاتے بھی دیکھا تھا شوبک کے مسلمان کہا کرتے تھے کہ جب شہر میں عیسائی مسلمانوں کو بلاوجہ پکڑ پکڑ کر کیمپ میں لے جانا شروع کریں اور ان کے گھروں پر حملے کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں کہیں شکست ہوئی ہے
عماد شامی کا گھر بھی محفوظ نہ رہا اُس کی ایک بہن تھی جس کی عمر سات آٹھ سال تھی اُسے وہ بہن یاد تھی بہت خوبصورت اور گڑیا سی بچی تھی گھر میں اس کا باپ تھا ماں تھی اور ایک بڑا بھائی تھا ایک روز عماد کی گڑیا سی بہن باہر نکل گئی اور لا پتہ ہوگئی باپ نے تلاش کی مگر کہیں نہ ملی ایک مسلمان پڑوسی نے اسے بتایا کہ اسے عیسائی اٹھا کر لے گئے ہیں باپ شہر کے حاکم کے پاس فریاد لے کر گیا جونہی اس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہے، حاکم اس پر برس پڑا اور اس پر الزام عائد کیا کہ وہ حکمران قوم پر اتنا گھٹیا الزام تھوپ رہا ہے
گھر آکر باپ نے اور عماد کے بڑے بھائی نے عیسائیوں کے خلاف شور شرابا کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رات کو ان کے گھر پر حملہ ہوا عماد نے اپنی ماں اور بڑے بھائی کو قتل ہوتے دیکھا وہ باہر بھاگ گیا اور ایک مسلمان کے گھر جا چھپا اس کے بعد وہ اپنے گھر نہیں گیا کیونکہ اس مسلمان نے اس ڈر سے اُسے باہر نہ نکلنے دیا کہ عیسائی اسے بھی قتل کر دیں گے
تھوڑے دنوں بعد اس مسلمان نے اسے ایک اور آدمی کے حوالے کر دیا جو اسے چوری چھپے شہر سے باہر لے گیا صبح کے وقت وہ ایک قافلے کے ساتھ جا رہا تھا۔ بہت دنوں کی مسافت کے بعد وہ شام پہنچا وہاں اُسے ایک امیر کبیر تاجر کے گھر نوکری مل گئی اب اس کی یہی زندگی تھی کہ نوکری کرے اور زندہ رہے وہ ذہنی طور پر بالغ اور بیدار ہوگیا یہ انتقام کا جذبہ تھا اسی جذبے کے زیر اثر اسے فوجی اچھے لگتے تھے۔ اس نے تاجر کی نوکری چھوڑ کر کسی فوجی حاکم کے گھر میں نوکری کرلی عماد نے اسے بتایا کہ اس پر کیا بیتی ہے اور یہ بھی بتایا کہ وہ فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہے
اس حاکم نے اس کی پرورش کی اور سولہ سال کی عمر میں اسے شام کی فوج میں بھرتی کرا دیا وہ انتقام کیلئے بے تاب تھا اسے تین چار معرکوں میں شریک ہونے کا موقع ملا جن میں اس کے جوہر سامنے آگئے گیارہ بارہ سال بعد اُسے اس فوج کے ساتھ مصر روانہ کر دیا گیا جو نورالدین زنگی نے سلطان ایوبی کی مدد کیلئے بھیجی تھی دو سال مصر میں گزر گئے پھر خدا نے اس کی یہ مراد بھی پوری کی کہ وہ شوبک پر حملہ کرنے والی فوج کے ساتھ گیا لیکن اُسے اُس فوج میں رکھا گیا جسے ریگزار میں صلیبیوں کی فوج پر حملے کرنے تھے
وہاں وہ صلیبیوں کے لیے قہر بنا ہوا تھا اس کا چھاپہ مار دستہ مشہور ہوگیا تھا عماد شامی اپنے سواروں کو ساتھ لیے صحرا میں صلیبیوں کی مشک لیتا پھرتا اور بھیڑیوں اور چیتوں کی طرح ان پر چھپٹا تھا مگر اس کے سینے میں جو آگ لگی ہوئی تھی وہ سرد نہیں ہوتی تھی ایک ماہ بعد اس دستے میں کل چار سوار رہ گئے تھے باقی سب شہید ہو گئےایک رات اس نے ان چار سواروں سے صلیبیوں کے کم و بیش پچاس افراد کے دستے پر حملہ کر دیا وہ سارا دن چھپ چھپ کر اس کا پیچھا کرتا رہا تھا دن کے وقت وہ چار سپاہیوں سے پچاس سپاہیوں پر حملہ نہیں کر سکتا تھا اُن کے تعاقب میں وہ بہت دور نکل گیا رات کو صلیبی رُک گئے اور انہوں نے پڑاؤ کیا لیکن بہت سے سنتری بیدار رکھے عماد نے آدھی رات کے وقت گھوڑوں کو ایڑ لگائی اور سوئے ہوئے صلیبیوں کے درمیان سے اس طرح گزرا کہ برچھی سے دائیں بائیں وار کرتا گیا اس کے چاروں جانبازوں کا بھی یہی انداز تھا
انہیں جو چیز ہلتی نظر آئی اس پر برچھیوں یا تلواروں کے وار کرتے اندھیرے میں غائب ہوگئے کئی سوئے ہوئے صلیبی ان کے گھوڑوں تلے روندے گئے سنتریوں نے تاریکی میں تیر چلائے جو خطا گئے آگے جا کر عماد نے اپنے جانباز سواروں کو روکا اور انہیں وہاں سے آہستہ آہستہ پیچھے لایا اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ دشمن بیدار ہوچکا ہے وہ گھوڑ سواروں کو پھر قریب لے گیا اور ایڑ لگانے کا حکم دے دیا اندھیرے میں اُسے سائے گھومتے پھرتے نظر آرہے تھے پانچوں گھوڑے سرپٹ دوڑتے ان کے درمیان سے گزرے مگر اب وہ دشمن پر وار کرکے آگے گئے تو وہ پانچ کی بجائے تین تھے دو کو صلیبی تیر اندازوں نے گرا لیا تھا
عماد کا خون اور زیادہ جوش میں آگیا اس نے اپنے مجاہدوں سے کہا ابھی انتقام لیں گے یہ اس کی حماقت تھی اُس نے اپنے دونوں مجاہدوں کو موڑا اور صلیبیوں کے قریب آہستہ آہستہ آکر حملے کا حکم دے دیا اب کے وہ دشمن میں سے نکلا تو اس کے ساتھ اپنے دو ساتھیوں کی بجائے دو صلیبی تھے جو اس کا تعاقب کر رہے تھے اندھیرے میں اس نے انہیں ان کی للکار سے پہچانا ورنہ وہ انہیں اپنے ساتھی سمجھ رہا تھا
وہ اس کے سر پر پہنچ گئے انہوں نے اس پر تلواروں سے حملہ کیا اس کے پاس لمبی برچھی تھی دوڑتے گھوڑے سے اس نے دونوں کا مقابلہ کیا گھوڑا گھما کر آمنے سامنے آکر معرکہ لڑا لڑائی خاصی لمبی ہوگئی اور وہ دور ہٹتے چلے گئے آخر عماد نے دونوں صلیبیوں کو مار لیا اور دونوں کے گھوڑے شوبک بھیجنے کیلئے پکڑ لیے ان کی تلواریں بھی لے لیں مگر اسے یہ خیال نہ رہا کہ کہاں تک جا پہنچا ہے اس نے گھوڑے کو اور اپنے آپ کو آرام دینے کے لیے ایک جگہ قیام کیا لیکن وہ سونے سے ڈرتا تھا کیونکہ کسی بھی وقت اور کہیں بھی وہ دشمن کے نرغے میں آسکتا تھا اس نے رات جاگتے گزار دی ستارے دیکھ کر اس نے یہ معلوم کر لیا کہ شوبک کس طرف اور کرک کس طرف ہے اور اسے صحرا میں کون سی جگہ جانا ہے جہاں اسے اپنا کوئی دستہ مل جائے گا
صبح ہوتے ہی وہ چل پڑا وہ صحراؤں میں پلا تھا بھٹکنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا تجربہ کار چھاپہ مار تھا خطرے کو دور سے سونگھنے کی اہلیت رکھتا تھا اسے دور دور صلیبی چار چار یا پانچ پانچ کی ٹولیوں میں جاتے نظر آئے اگر اس کے پاس دو فالتو گھوڑے نہ ہوتے تو کسی ٹولی پر حملہ کر دیتا وہ بچتا بچاتا اپنی راہ چلتا گیا راستے میں اسے کئی جگہ گھوڑوں اور اونٹوں کے مردار اور صلیبی سپاہیوں کی لاشیں پڑی نظر آئیں جنہیں گدھ اور لومڑیاں کھا رہی تھیں ان میں اس کے اپنے ساتھیوں کی لاشیں بھی ہوں گی وہ چلتا گیا اور سورج اُفق پر چلا گیا آگے ٹیلوں کا علاقہ آگیا جس میں سے راستے ہر چند قدم پر گھومتے تھے یہاں ڈر تھا کہ صلیبیوں کی کوئی ٹولی رات کے لیے قیام کرے گی وہ سورج غروب ہونے سے پہلے وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا یہ ڈر بھی تھا کہ کسی ٹیلے پر کوئی تیر انداز نہ بیٹھا ہو وہ ہر طرف اور اوپر دیکھتا چلتا گیا
آگے راستہ دو ٹیلوں کے درمیان سے مڑتا تھا وہاں سے وہ مڑا تو اچانک اسے کسی کے دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی کوئی آدمی ساتھ والے ٹیلے کے پیچھے چھپ گیا تھا اس نے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا اور ایڑ لگائی تیز رفتار سے وہ ٹیلے کے پیچھے گیا تو آگے راستہ ایک اور ٹیلے نے بند کر رکھا تھا یہ جگہ ایک وسیع کھڈ بنی ہوئی تھی عماد سے کوئی بیس قدم دور میلے کچیلے سے چغے والا ایک آدمی ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل ٹیلے پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا عماد کی طرف اس کی پیٹھ تھی اس آدمی کا سرڈھکا ہوا تھا وہ آدمی نہتہ معلوم ہوتا تھا عماد نے اسے للکارا مگر وہ ٹیلے پر چڑھنے کی کوشش کرتا رہا ٹیلا مشکل قسم کا تھا عماد آگے چلا گیا اس آدمی نے ایک کوشش اور کی مگر کہیں ہاتھ نہ جما سکا۔ وہ نڈھال ہو چکا تھا ٹیلے سے اس کی گرفت ڈھیلی ہوگئی اور وہ لڑھکتا ہوا عماد کے گھوڑے کے قدموں میں آن پڑا اس کے سر سے چغے کی اوڑھنی والا حصہ اتر گیا عماد یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ایک جوان لڑکی تھی اور خوبصورت اتنی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
عماد گھوڑے سے اترا لڑکی خوفزدہ تھی اس کی رہی سہی قوت بھی خوف نے ختم کر دی وہ اٹھی مگر بیٹھ گئی عماد نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟
اس نے جوا ب دیا پانی پلاؤ عماد نے ایک گھوڑے سے پانی کی چھاگل کھول کر اسے دے دی اس نے بے تابی سے پانی پیا اور اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں عماد نے اسے کھانے کے لیے کچھ دیا جو اس کے پیٹ میں گیا تو اس کے چہرے پر زندگی کے آثار نظر آنے لگے عماد نے اسے کہا مجھ سے ڈرو نہیں بتاؤ کون ہو ؟
شوبک سے اپنے خاندان کے ساتھ چلی تھی اس نے تھکی ہاری زبان میں کہا سب مارے گئے ہیں میں اکیلی رہ گئی ہوں ۔مسلمانوں نے راستے میں حملہ کر دیا تھا
مجھے سچ کیوں نہیں بتا دیتی کہ تم کون ہو ؟
تم نے جو کچھ کہا ہے جھوٹ کہا ہے
جھوٹ ہی سہی اس نے خوفزدہ لہجے میں کہا مجھ پر رحم کرو اور مجھے کرک تک پہنچا دو
شوبک تک عماد نے کہا میں تمہیں شوبک لے جا سکتا ہوں کرک نہیں تم دیکھ رہی ہو کہ میں مسلمان ہوں میں راستے میں عیسائی فوج کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا پھر مجھے ایک گھوڑا دے دو لڑکی نے کہا میں لڑکی ہوں اگر راستے میں کسی کے قبضے میں آگئی تو جانتے ہو کہ میرا انجام کیا ہوگا
میں تمہیں گھوڑا بھی نہیں دے سکتا تمہیں یہاں سے اکیلے روانہ بھی نہیں کر سکتا عماد نے کہا یہ میرا فرض ہے کہ تمہیں اپنے ساتھ شوبک لے جاؤں
وہاں مجھے کس کے حوالے کرو گے ؟
اپنے حاکموں کے حوالے کروں گا
عماد نے کہا اور اسے تسلی دی تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوگا جس کا تمہیں ڈر ہے
لڑکی کرک جانے کی ضد کر رہی تھی عماد نے اسے بتایا کہ انہیں حکم ملا ہے کہ شوبک کے کسی عیسائی باشندے کو وہاں سے بھاگنے نہ دیا جائے اس کے علاوہ اس نے لڑکی کو خبردار کیا کہ وہ کرک تک نہیں پہنچ سکے گی وہ چونکہ گوری رنگت کی خوبصورت لڑکی تھی اس لیے لڑکی کو یہ ڈر تھا کہ یہ مسلمان فوجی اسے بے آبرو کرے گا اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس کے ساتھ آبرو کا ہی سودا کرکے اسے کہا جائے کہ وہ اسے گھوڑا دے دے لڑکی نے اپنا رویہ بدل لیا اور عماد سے کہا میں بہت تھکی ہوئی ہوں آج رات یہیں قیام کیا جائے صبح شوبک کو روانہ ہوجائیں گے عماد بھی تھکا ہوا تھا گھوڑوں کا بھی یہی حال تھا وہ لڑکی کی حالت بھی دیکھ رہا تھا اس نے وہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا اس سے پہلے لڑکی نے اسے غور سے نہیں دیکھا تھا ۔ اس نے یہی دیکھا کہ یہ بڑھی ہوئی داڑھی والا مسلمان فوجی ہے جو جسم کی ساخت اور گرد سے اٹے ہوئے چہرے سے وحشی لگتا ہے اس سے اسے رحم کی اُمید نہیں تھی اب جبکہ اس نے کچھ اور ہی سوچ لیا تھا اس نے عماد کو گہری نظروں سے دیکھا
اس وقت عماد بھی اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس قدر حسین لڑکی کا اس صحرا میں اکیلے رہ جانا جہاں صلیبی اور اسلامی سپاہی لمبے عرصے سے بھوکے بھیڑیوں کی طرح بھاگتے دوڑتے پھر رہے ہیں اس کے لیے کتنا خطرناک ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس لڑکی پر سپاہی یا کماندار آپس میں ہی لڑ مریں وہ خود بھی فرشتہ نہیں تھا اس نے لڑکی کی آنکھوں میں جھانکا اس وقت لڑکی اسے دیکھ رہی تھی عماد نے کوشش کی کہ وہ لڑکی سے نظریں پھیر لے مگر لڑکی کی آنکھوں نے اس کی آنکھوں کو گرفتار کر لیا اس نے اپنے جسم کے اندر کوئی ایسا جذبہ محسوس کیا جو اس کے لیے اجنبی تھا اس نے ایک بار نظریں جھکالیں مگر آنکھیں اپنے آپ اوپر اُٹھ گئیں اور وہ بے چین سا ہونے لگا لڑکی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی عماد نے آہستہ سے کہا شاید تم کنواری ہو
ہاں لڑکی نے جواب دیا اور ذرا سا بھی سوچے بغیر کہہ دیا میرا دنیا میں کوئی نہیں رہا اگر میرے ساتھ کرک چلے چلو تو میں تمہارے ساتھ شادی کرلوں گی
عماد بیدار سا ہوگیا اس نے کہا پھر تم مجھے کہو گی کہ اپنا مذہب تبدیل کرلو جو میں نہیں کر سکوں گا تم شوبک چل کر میرے ساتھ شادی کرو اور مسلمان ہو جاؤ مجھے بہرحال کرک جانا ہے لڑکی نے کہا اگر میرے ساتھ وہاں تک چلو گے تو تمہاری دنیا بدل جائے گی
لڑکی نے سودا بازی شروع کردی تھی لیکن عماد کچھ اور ہی سوچ رہا تھا یہ سوچ ایسی تھی جسے وہ سمجھ نہیں سکتا تھا وہ بار بار لڑکی کے چہرے اس کے ریشمی بالوں اور آنکھوں کو دیکھتا اور سر جھکا کر سوچ میں کھو جاتا تھا لڑکی کی جیسے وہ کوئی بات سن ہی نہیں رہا تھا تھوڑی دیر بعد لڑکی کا چہرہ گہری شام کی تاریکی میں چھپ گیا اس نے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھیلے میں سے کھانے کی دو تین چیزیں نکالیں لڑکی کو دیں اور خود بھی کھائیں اس کا جسم اس قدر نڈھال تھا کہ جونہی لیٹا اس کی آنکھ لگ گئی
آدھی رات کے بہت بعد لڑکی نے کروٹ بدلی اور اس کی آنکھ کھل گئی اس نے عماد کو دیکھا وہ خراٹے لے رہا تھا ان سے چند قدم دور گھوڑے کھڑے تھے رات کے پچھلے پہر کا چاند ٹیلوں کے اوپر آگیا تھا صحرائی چاندنی آئینے کی طرف شفاف تھی لڑکی نے گھوڑوں کو دیکھا عماد کو اتنا ہوش بھی نہ تھا کہ سونے سے پہلے گھوڑوں کی زینیں اتار دیتا لڑکی نے گھوڑے تیار دیکھے عماد کو گہری نیند سوئے دیکھا اور یہ بھی محسوس کیا کہ پیٹ میں خوراک اور پانی جانے اس کا جسم تروتازہ ہوگیا ہے تو اس نے اپنے چغے کے اندر ہاتھ ڈالا اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس کی اتنی دلکش انگلیوں نے ایک خنجر کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا چاندنی میں اسے عماد کا چہرہ نظر آرہا تھا وہ تو بیہوشی کی نیند سویا ہوا تھا لڑکی نے چاندنی میں چمکتے ہوئے خنجر کو دیکھا اور ایک بار پھر عماد کے چہرے پر نظر ڈالی عماد آہستہ سے کچھ بڑبڑایا وہ نیند میں بول رہا تھا لڑکی یہی سمجھ سکی کہ وہ گھر والوں کو یاد کر رہا ہے
لڑکی نے عماد کے سینے کو غور سے دیکھا اور اندازہ کیا کہ اس کا دل کہاں ہے؟
وہ ایک سے دوسرا وار نہیں کرنا چاہتی تھی یہ وار دل پر ہونا چاہیے تھا تا کہ عماد فوراً مر جائے ورنہ وہ مرتے مرتے بھی اسے مار ڈالے گا لڑکی نے خنجر کو اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیا اور گھوڑوں کو دیکھا اس نے دل ہی دل میں پورا عمل دہرایا وہ خنجر دل میں اتار دے گی اور بھاگ کر ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے گی اور گھوڑے کو ایڑ لگا دے گی وہ سپاہی نہیں تھی ورنہ وہ بلا سوچے سمجھے خنجر مار کر عماد کو ختم کر دیتی یہی وجہ کافی تھی کہ عماد مسلمان ہے اور اس کا دشمن مگر وہ بار بار عماد کے چہرے پر نظریں گاڑ لیتی تھی اور جب اسے قتل کرنے کے لیے خنجر مضبوطی سے پکڑتی تھی تو اس کا دل دھڑکنے لگتا تھا عماد ایک بار پھر بڑبڑایا اب کے اس کے الفاظ ذرا صاف تھے وہ خواب میں اپنے گھر پہنچا ہوا تھا اس نے ماں کا نام لیا بہن کو بھی یاد کیا اور کچھ ایسے الفاظ کہے جیسے انہیں قتل کر دیا گیا اور عماد قاتلوں کو ڈھونڈتا رہا تھا
کوئی احساس یا جذبہ لڑکی کا ہاتھ روک رہا تھا خوف بھی ہو سکتا تھا یہ قتل نہ کرنے کا جذبہ بھی ہو سکتا تھا لڑکی بے چین ہوگئی اس نے یہ ارادہ کیا کہ قتل نہ کرے آہستہ سے اُٹھے گھوڑے پر بیٹھے اور آہستہ آہستہ اس کھڈ سے نکل جائے وہ اُٹھی اور خنجر ہاتھ میں لیے گھوڑے کی طرف چل پڑی مگر ریت نے اس کے پاؤں جکڑ لیے اس نے رک کر عماد کو دیکھا تو اچانک اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اس مرد نے اتنی بھی پرواہ نہیں کی کہ اسے ایک جوان لڑکی تنہائی میں مل گئی ہے اور اس نے یہ بھی نہیں سوچا کو یہ لڑکی عیسائی ہے جو اسے سوتے میں قتل کر سکتی ہے اور اس نے گھوڑے کی زینیں بھی نہیں اتاریں اور اس نے اپنی برچھی اور تلوار بھی احتیاط سے نہیں رکھی کیوں ؟
کیا اسے مجھ پر بھروسہ تھا ؟
کیا یا اتنا ہی بے حس ہے کہ میری جوانی اس کے اندر کوئی جذبہ بیدار نہیں کر سکی ؟
اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس آدمی نے اسے گھوڑے سے زیادہ قیمتی نہیں سمجھا وہ آہستہ آہستہ ایک گھوڑے تک پہنچی گھوڑا ہنہنایا لڑکی نے گھبرا کر عماد کو دیکھا گھوڑے کی آواز پر بھی اس کی آنکھ نہ کھلی
وہ تین گھوڑوں کی اوٹ میں کھڑی ایک گھوڑے پر سوار ہونے کا ارادہ کر رہی تھی کہ اسے اپنے عقب سے آواز سنائی دی ''کون ہو تم ؟''
لڑکی نے چونک کر پیچھے دیکھا ایک آدمی نے منہ سے وسل بجائی اور کہا ہماری یہ قسمت ؟
وہ دو تھے دوسرا ہنسا لڑکی زبان سے پہچان گئی کہ یہ صلیبی ہیں ایک نے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف کھینچا لڑکی نے کہا میں صلیبی ہوں دونوں آدمی ہنس پڑے اور ایک نے کہا پھر تو تم سالم ہماری ہو آؤ ذرا ٹھہرو اور میری بات سنو اس نے کہا میں شوبک سے فرار ہو کر آئی ہوں میرا نام ایونا ہے میں جاسوسی کے شعبے کی ہوں کرک جا رہی ہوں وہ دیکھو ایک مسلمان سپاہی سویا ہوا ہے اس نے مجھے پکڑ لیا تھا میں اسے سوتا چھوڑ کر بھاگ رہی ہوں میری مدد کرو یہ گھوڑے سنبھالو اور مجھے کرک پہنچاؤ اس نے انہیں اچھی طرح سمجھایا کہ وہ صلیبی فوج کے لیے کتنی قیمتی اور کارآمد لڑکی ہے
ایک صلیبی نے اسے وحشیوں کی طرح بازوؤں میں جکڑ لیا اور کہا جہاں کہو گی پہنچا دیں گے دوسرے نے ایک بیہودہ بات کہہ دی اور دونوں اسے ایک طرف دھکیلنے لگے وہ صلیبی فوج کے پیادہ سپاہی تھے جو مسلمان چھاپہ ماروں سے بھاگتے پھر رہے تھے رات کو وہ چھپ کر ذرا آرام کرنا چاہتے تھے ایسی خوبصورت لڑکی نے انہیں حیوان بنا دیا لڑکی نے جب دیکھا کہ انہیں صلیب کا بھی کوئی خیال نہیں تو اس نے اس اُمید پر بلند آواز سے بولنا شروع کر دیا کہ عماد جاگ اُٹھے گا اسے سپاہیوں نے گھسیٹنا شروع کر دیا
اچانک ایک نے گھبرائی ہوئی آواز میں اپنے ساتھی کا نام لے کر کہا ''بچو '' مگر اس کے بچنے سے پہلے ہی عماد کی برچھی اس کی پیٹھ میں اتر چکی تھی دوسرے نے تلوار سونت لی اس وقت لڑکی نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں خنجر ہے اس نے خنجر صلیبی سپاہی کے پہلو میں گھونپ دیا یکے بعد دیگرے دو اور وار کیے اور چلا چلا کر کہا تمہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں تم صلیب کے نام پر غلیظ داغ ہو
جب دونوں صلیبی ٹھنڈے ہوگئے تو لڑکی بے قابو ہو کر رونے لگی عماد نے اسے بہلایا اور کہا اب یہاں رُکنا ٹھیک نہیں ہو سکتا ہے زیادہ سپاہی ادھر آ نکلیں ہم ابھی شوبک کو روانہ ہوجاتے ہیں اس نے لڑکی سے پوچھا انہوں نے تمہیں جگایا تھا ؟
نہیں لڑکی نے جواب دیا میں جاگ رہی تھی اور گھوڑوں کے پاس کھڑی تھی
وہاں کیوں ؟
گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگنے کے لیے لڑکی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا میں تمہارے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی
تم نے خنجر کہاں سے لیا؟
میرے پاس تھا لڑکی نے جواب دیا میں نے پہلے ہی ہاتھ میں لے رکھا تھا
پہلے ہی ہاتھ میں کیوں لے رکھا تھا ؟
عماد نے پوچھا شاید اس لیے کہ میں جاگ اُٹھوں تو تم مجھے قتل کر دو
لڑکی نے جواب نہ دیا عماد کو دیکھتی رہی کچھ دیر بعد بولی میں تمہیں قتل کرکے بھاگنا چاہتی تھی پیشتر اس کے کہ تم مجھے قتل کرو میں تمہیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں نے یہ خنجر تمہیں قتل کرنے کیلئے کھولا تھا لیکن ہاتھ اُٹھا نہیں میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں نے تمہارے دل میں خنجر کیوں نہیں اُتارا تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں تھی میں بزدل نہیں پھر بھی میں تمہیں قتل نہ کر سکی میں کوئی وجہ بیان نہیں کر سکتی شاید تم کچھ بتا سکو
زندگی اور موت اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے عماد نے کہا تمہارا ہاتھ میرے خدا نے روکا تھا اور تمہاری عزت خدا نے بچائی ہے میرا وجود تو ایک بہانہ اور سبب تھا کسی گھوڑے پر سوار ہو جاؤ اور چلو
لڑکی نے خنجر عماد کی طرف بڑھا کر کہا میرا خنجر اپنے پاس رکھ لو ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گی تم میری تلوار بھی اپنے پاس رکھ لو عماد نے کہا تم مجھے قتل نہیں کر سکو گی یہ مذاق نہیں تھا دونوں پر سنجیدگی طاری تھی وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور تیسرا گھوڑا ساتھ لے کر چل پڑے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج نکلنے تک وہ اس علاقے میں پہنچ چکے تھے جہاں کوئی صلیبی سپاہی نظر نہیں آتا تھا عماد کی اپنی فوج کے چند سپاہی اسے نظر آئے جن کے ساتھ کچھ باتیں کیں اور چلتے گئے اپریل کا سورج بہت ہی گرم تھا وہ منہ اور سر لپیٹے ہوئے چلتے گئے دور سے ریت پانی کے سمندر کی طرح چمکتی نظر آتی تھی اور بائیں سمت ریتلی سلوں کی پہاڑیاں نظر آرہی تھیں سفر کے دوران وہ آپس میں کوئی بات نہ کر سکے گرمی کے علاوہ ان لاشوں نے بھی ان پر خاموشی طاری کر رکھی تھی جو انہیں ادھر ادھر بکھری ہوئی نظر آرہی تھیں کوئی ایک لاش سالم نہیں تھی گدھوں اور درندوں نے ان کے اعضاء الگ الگ کر دئیے تھے بعض لاشوں کی صرف ہڈیاں اور کھوپڑیاں رہ گئی تھیں عماد نے لڑکی سے کہا یہ تمہاری قوم کے سپاہی ہیں یہ ان بادشاہوں کی خواہشوں کا شکار ہوگئے ہیں جو اسلامی سلطنت اسلامی کو ختم کرنے برطانیہ فرانس جرمنی اٹلی اور نہ جانے کہاں کہاں سے آئے ہیں
لڑکی خاموش رہی وہ بار بار عماد کو دیکھتی تھی اور آہ بھر کر سر جھکا لیتی تھی عماد نے سلوں کی پہاڑیوں کا رخ کرلیا اسے معلوم تھا کہ وہاں پانی ضرور ہوگا اور سایہ بھی سورج ان کے پیچھے جانے لگا تو وہ پہاڑیوں میں پہنچ گئے تلاش کے بعد انہیں ہری جھاڑیاں اور گھاس نظر آگئی ایک جگہ سے پہاڑی کا دامن پھٹا ہوا تھا۔وہاں پانی تھا وہ گھوڑوں سے اُترے پہلے خود پانی پیا پھر گھوڑوں کو پانی پینے کے لیے چھوڑ دیا اور سائے میں بیٹھ گئے
تم کون ہو؟
لڑکی نے اس سے پوچھا مہارا نام کیا ہے ؟
کہاں کے رہنے والے ہو؟
میں مسلمان ہوں عماد نے جواب دیا میرا نام عماد ہے اور میں شامی ہوں
رات خواب میں تم کسے یاد کر رہے تھے ؟
یاد نہیں رہا عماد نے کہا میں شاید خواب میں بول رہا ہوں گا میرے ساتھی مجھے بتایا کرتے ہیں کہ میں خواب میں بولا کرتا ہوں
تمہاری ماں ہے؟ بہن ہے ؟
لڑکی نے پوچھا اور کہا تم شاید انہیں یاد کر رہے تھے
تھیں کبھی عماد نے آہ بھر کر کہا اب انہیں خواب میں دیکھا کرتا ہوں
لڑکی نے اس سے ساری بات پوچھنے کی بہت کوشش کی لیکن عماد نے اور کچھ نہیں بتایا اس نے لڑکی سے کہا تم نے اپنے متعلق جھوٹ بولا تھا مجھے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تم کون ہو میں تمہیں متعلقہ حاکم کے حوالے کرکے واپس آجاؤں گا اگر سچ بول سکو تو اپنے متعلق کچھ بتا دو لیکن یہ نہ کہنا کہ تم ان صلیبی لڑکیوں میں سے نہیں ہو جو ہمارے ملک میں جاسوسی کے لیے آتی ہیں
تم ٹھیک کہتے ہو لڑکی نے کہا میں جاسوس لڑکی ہوں میرا نام ایونا ہے
تمہارے ماں باپ کو معلوم ہے کہ تمہارا کام کس قسم کا ہے ؟
عماد نے پوچھا میرے ماں باپ نہیں ہیں ایونا نے جواب دیا میں نے ان کی صورت بھی نہیں دیکھی میرا محکمہ میری ماں اور اس محکمہ کا حاکم ہرمن میرا باپ ہے اس نے یہ بات یہیں ختم کر دی اور کہا میری ایک ساتھی لڑکی نے ایک مسلمان سپاہی کو بچانے کے لیے زہر پی لیا تھا میں اس وقت بہت حیران ہوئی تھی کہ کوئی صلیبی لڑکی ایک مسلمان کے لیے اتنی بڑی قربانی کر سکتی ہے؟
میں آج محسوس کر رہی ہوں کہ ایسا ہو سکتا ہے پتہ چلا تھا کہ اس مسلمان سپاہی نے بھی تمہاری طرح اس لڑکی کو ڈاکوؤں سے لڑکر بچایا خود زخمی ہوگیا اور لڑکی کو شوبک تک پہنچایا تھا تمہاری طرح اس نے بھی دھیان نہیں دیا تھا کہ وہ لڑکی کتنی خوبصورت ہے لوزینا بہت خوبصورت لڑکی تھی میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں تمہاری خاطر اپنی جان قربان کردوں گی میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے عماد نے کہا ہم لوگ حکم کے پابند ہوتے ہیں
شاید یہ جذبات کا اثر ہے کہ میں ایسے محسوس کرتی ہوں جیسے میں نے پہلے بھی تمہیں کہیں دیکھا ہے دیکھا ہوگا عماد نے کہا تم مصر گئی ہوگی وہاں دیکھا ہوگا
میں مصر ضرور گئی ہوں لڑکی نے کہا تمہیں نہیں دیکھا تھا اس نے مسکرا کر پوچھا میرے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟
کیا میں خوبصورت نہیں ہوں تمہاری خوبصورتی سے میں انکار نہیں کر سکتا عماد نے سنجیدگی سے کہا میں سمجھ گیا ہوں تم نے یہ سوال کیا ہے تم ضرور حیران ہوگی کہ میں نے تمہارے ساتھ وہ سلوک کیوں نہیں کیا ہے جو تمہاری صلیب کے دو سپاہیوں نے تمہارے ساتھ کرنا چاہا تھا ہو سکتا ہے تمہارے دل میں میرے لیے یہ خوف ابھی تک موجود ہو کہ میں تمہیں دھوکہ دے رہا ہوں اور تمہیں شوبک لے جا کر خراب کروں گا یا تمہارے ساتھ تمہاری مرضی کے خلاف شادی کر لوں گا یا تمہیں بیچ ڈالوں گا۔ میں تمہارا یہ خوف دور کرنا ضروری سمجھتا ہوں لڑکی میرے مذہب کی ہو یا کسی دوسرے مذہب کی میں کسی لڑکی کو بری نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جب تیرہ چودہ سال کا تھا تو میری ایک چھوٹی سی بہن اغوا ہوگئی تھی اس کی عمر چھ سات سال تھی سولہ سال گزر گئے ہیں اسے شوبک کے عیسائی اٹھا لے گئے تھے میں نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا مر گئی ہے اگر زندہ ہے تو کسی امیر کے حرم میں ہوگی یا تمہاری طرح جاسوسی کرتی پھر رہی ہوگی میں جس لڑکی کو دیکھتا ہوں اسے اپنی بہن سمجھ لیتا ہوں اسے بری نظر سے اس لیے نہیں دیکھتا کہ وہ میری گمشدہ بہن ہی نہ ہو۔ میں تمہیں صرف اس لیے شوبک لے جا رہا ہوں کہ محفوظ رہو۔ میں جانتا تھا کہ صحرا میں اکیلے جانے اور پیدل چلنے سے تمہارا کیا حشر ہوتا اور تم کسی کے ہاتھ چڑھ جاتی تو تمہارا حال وہی ہوتا جو تمہارے اپنے صلیبی بھائی کرنے لگے تھے مجھے اپنی خوبصورتی کا احساس نہ دلاؤ۔ میں اس احساس کے لحاظ سے مردہ ہوں مجھے لذت ان صحراؤں میں صلیبیوں کے تعاقب میں گھوڑا دوڑاتے اور ان کا خون بہاتے ملتی ہے
لڑکی اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں پیار کا تاثر تھا اس کے ساتھ ایسی باتیں کسی نے نہیں کی تھیں اسے بے حیائی اور عیاری کے سبق دئیے گئے تھے اور اس کی باتوں اور چال ڈھال میں بڑی محنت سے جنسی کشش پیدا کی گئی تھی اسے ایک بڑا ہی خوبصورت فریب بنایا گیا تھا اس پر حسن اور شراب کا نشہ طاری کیا گیا تھا اسے عصمت کے موتی سے محروم رکھا گیا تھا اور وہ اس ٹریننگ کے بعد اپنی ساتھی لڑکیوں کی طرح اپنے آپ کو مردوں کے دلوں پر راج کرنے والی شہزادی سمجھنے لگی تھی اسے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ اس کا گھر کہاں ہے اور اس کے ماں باپ کیسے تھے عماد کی جذباتی باتوں نے اس کی ذات میں ایک عورت کے جذبات بیدار کر دئیے وہ گہری سوچ کے عالم میں کھو گئی جیسے وہ بے تکلف ہوگئی ہو
اس نے گہری سوچ کے عالم میں کہا ایک ڈراؤنے خواب کی طرح یاد آتا ہے کہ مجھے ایک گھر سے اُٹھایا گیا تھا مجھے یاد نہیں آرہا کہ اس وقت میری عمر کیا تھی اس نے اپنے بالوں میں دونوں ہاتھ پھیرے اور بالوں کو دونوں مٹھیوں میں لے کر جھنجھوڑا جیسے پرانی یادوں کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہی ہوں اس نے اُکتا کرکہا کچھ یاد نہیں آتا میرا ماضی شراب اور عیش و عشرت اور حسین عیاریوں میں گم ہوگیا ہے میں نے کبھی بھی نہیں سوچا کو میرے والدین کون تھے اور کیسے تھے مجھے کبھی ماں باپ کی ضرورت محسوس ہوئی ہی نہیں میرے اندر جذبات تھے ہی نہیں مجھے معلوم ہی نہیں کہ مرد باپ اور بھائی بھی ہو سکتا ہے مرد مجھے اپنی تفریح کے استعمال کی چیز سمجھتے ہیں لیکن میں مردوں کو استعمال کیا کرتی ہوں۔ جس پر میری خوبصورتی اور میری جوانی کا نشہ طاری ہو اسے میں حشیش اور شراب سے اپنا غلام بنا لیا کرتی ہوں مگر اب تم نے جو باتیں کیں ہیں انہوں نے مجھ میں وہ حسیں بیدار کردی ہیں جو ماں، باپ، بہن اور بھائی کا پیار مانگتی ہیں
اس کی بے چینی بڑھتی گئی وہ رک رک کر بولتی رہی پھر بالکل ہی چپ ہوگئی کبھی عماد کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگتی اور کبھی اپنے سر پرہاتھ رکھ کر اپنے بال مٹھی میں لے کرجھنجھوڑنے لگتی وہ دراصل گم گشتہ ماضی اور حال کے درمیان بھٹک گئی تھی عماد نے جب اسے کہا کہ اُٹھو چلیں تو وہ بھولے بھالے معصوم سے بچے کی طرح اس کے ساتھ چل پڑی ان کے گھوڑے انہیں پہاڑی علاقے سے بہت دور لے گئے تو بھی وہ عماد کو دیکھ رہی تھی صرف ایک بار اس نے ہنس کرکہا مرد کی باتوں اور وعدوں پر میں نے کبھی اعتبار نہیں کیا میں سمجھ نہیں سکتی کہ میں کیوں محسوس کر رہی ہوں کہ مجھے تمہارے ساتھ جانا چاہیے عماد نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا
وہ جب شوبک کے دروازے پر پہنچے تو اگلے روز کا سورج طلوع ہو رہا تھا وہ صحرا میں ایک اور رات گزار آئے تھے۔ عماد لڑکی کو جہاں لے جانا چاہتا تھا اس جگہ کے متعلق پوچھ کر وہ چل پڑا گھوڑے شہر میں سے گزر رہے تھے لوگ ایونا کو رک رک کر دیکھتے تھے چلتے چلتے عماد نے ایک مکان کے سامنے گھوڑا روک لیا اور بند دروازے کو دیکھنے لگا ایونا نے اس سے پوچھا یہاں کیوں رُک گئے؟
اس نے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو دروازے کے قریب جا کر گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے اس نے دروازے پر آہستہ آہستہ ٹھوکریں ماریں ایک بزرگ صورت انسان نے دروازہ کھولا
یہاں کون رہتا ہے ؟
عماد نے عربی زبان میں پوچھا کوئی نہیں بوڑھے نے جواب دیا عیسائیوں کا ایک خاندان رہتا تھا ہماری فوج آگئی تو پورا خاندان بھاگ گیا ہے
اب آپ نے اس پر قبضہ کر لیا ہے؟
بوڑھا ڈر گیا اس نے دیکھا کہ یہ سوار فوجی ہے اور اس سے باز پرس کر رہا ہے کہ عیسائی کے مکان پر اس نے کیوں قبضہ کر لیا ہے جبکہ سلطان ایوبی نے منادی کے ذریعے حکم جاری کیا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف سے کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ورنہ سخت سزا دی جائے گی بوڑھے نے کہا میں نے قبضہ نہیں کیا اس کی حفاظت کے لیے یہاں آگیا ہوں
میں اسے بالکل بند کردوں گا۔ اس کا مالک زندہ ہے وہ مسلمان ہے اور پندرہ سولہ سال سے بیگار کیمپ میں پڑا ہے کیا امیر مصر نے انہیں کیمپ سے رہا نہیں کیا ؟
عماد نے پوچھا
وہاں کے سب مسلمان آزاد ہیں مگر ابھی کیمپ میں ہی ہیں بوڑھے نے جواب دیا اس سب کی حالت اتنی بری ہے کہ قابل احترام سالار اعظم ایوبی نے ان کے لیے دودھ گوشت دوائیوں اور نہایت اچھے رہن سہن کا انتظام وہیں کر دیا ہے بہت سے طبیب ان کی دیکھ بال کر رہے ہیں ان میں جس کی صحت بحال ہوجاتی ہے اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے وہاں جو رہتے ہیں انہیں ان کے رشتہ دار وہیں ملنے جاتے ہیں اس مکان کا مالک بھی وہیں ہے ایک تو اس کا بڑھاپا ہے اور دوسرے کیمپ کی پندرہ سولہ سالوں کی اذیتیں بے چارہ صرف زندہ ہے میں اسے دیکھنے جایا کرتا ہوں اُمید ہے صحت یاب ہوجائے گا میں نے اسے بتا دیا تھا کہ اس کا مکان خالی ہوگیا ہے
اس کے رشتہ دار کہاں ہیں؟
عماد نے پوچھا
کوئی بھی زندہ نہیں ہے بوڑھے نے جواب دیا اور تین چار گھر چھوڑ کر ایک مکان کی طرف اشارہ کرکے کہا وہ میرا ذاتی مکان ہے میں ان لوگوں کا صرف پڑوسی تھا آپ مجھے ان کا رشتہ دار بھی کہہ سکتے ہیں
عماد یہ پوچھ کر کہ اندر مستورات نہیں ہیں گھوڑے سے اُتر کر اندر چلا گیا کمروں میں گیا دیواروں پر ہاتھ پھیرا اَیونا بھی اندر چلی گئی اس نے عماد کو دیکھا وہ آنسو پونچھ رہاتھا اَیونا نے آنسوؤں کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا اپنے بچپن کو ڈھونڈ رہا ہوں میں اس گھر سے بھاگا تھا یہ میرا گھر ہے اس کے آنسو بہنے لگے اس نے بوڑھے سے پوچھا ان کے رشتے دار مر گئے ہیں ؟
ان کی کوئی اولاد بھی تھی ؟
صرف ایک لڑکا بچا تھا جو عیسائی ڈاکوؤں سے بچ کر میرے گھر آگیا تھا بوڑھے نے جواب دیا اسے میں نے شام کو روانہ کر دیا تھا اگر یہاں رہتا تو مارا جاتا
عماد کو وہ رات یاد آگئی جب وہ اس گھر سے بھاگ کر پڑوسی کے گھر جا چھپا تھا وہ یہی پڑوسی تھا مگر اس نے بوڑھے کو بتایا نہیں کہ وہ لڑکا جسے اس نے شوبک سے شام کو روانہ کر دیا تھا وہ یہی جوان ہے جسے وہ یہ کہانی سنا رہا ہے عماد کے لیے جذبات پر قابو پانا محال ہوگیا لیکن وہ سخت جان فوجی تھا اس نے بوڑھے سے کہا میں اس مکان کے مالک سے ملنا چاہتا ہوں مجھے ان کا نام پتا بتا دو بوڑھے نے اس کے باپ کا نام بتا دیا عماد کو اپنے باپ کا نام اچھی طرح سے یاد تھا
اس لڑکے کی ایک بہن تھی بوڑھے نے کہا بہت چھوٹی تھی اسے عیسائیوں نے اغوا کر لیا تھا اسی ضمن میں اس گھر کے سارے افراد عیسائیوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*