👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟘 𝟛⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘  𝟛⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
1172ء کا دوسرا مہینہ گزر رہا تھا شوبک کا قلعہ تو سر ہوچکا تھا لیکن شہر میں ابھی بدنظمی اور افراتفری تھی عیسائی اپنے کنبوں سمیت وہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے کچھ بھاگ بھی گئے تھے انہیں ڈر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جس طرح انہوں نے شوبک کے مسلمان باشندوں پر ظلم و تشدد روا رکھا تھا اسی طرح اب مسلمان ان کا جینا حرام کر دیں گے اس انتقامی کاروائی سے وہ اتنے خوفزدہ ہوئے کہ انہوں نے جب اپنی فوج کو قلعے سے بھاگتے سلطان ایوبی کے تیر اندازوں کے تیروں سے مرتے اور ہتھیار ڈالتے دیکھا تو بال بچوں کو لے کر گھروں سے نکلنے لگے مسلمان سپاہ نے انہیں جانے نہیں دیا تھا سالاروں اور کمانداروں نے اپنے طور پر حکم دے دیا تھا کہ شہر سے کسی شہری کو کہیں جانے نہ دیا جائے چنانچہ سپاہی بھاگنے والے عیسائیوں کو ریگستان کے دُور دراز راستوں گوشوں اور ٹیلوں کے علاقوں سے روک روک کر واپس بھیج رہے تھے
یہ لوگ دراصل اپنے اور اپنے حکمرانوں کے گناہوں کی سزا سے بھاگ رہے تھے انہوں نے یہاں کے مسلمانوں کو کیڑے مکوڑے بنا رکھا تھا ''مسلمانوں کا کیمپ'' اس کا منہ بولتا ثبوت تھا سلطان ایوبی کو اس کیمپ کا علم تھا 
وہ شوبک میں داخل ہوتے ہی اس کیمپ میں پہنچا تھا ایک اندازے کے مطابق وہاں دو ہزار کے قریب مسلمان قید تھے یہ دو ہزار لاشیں تھیں ان سے مویشیوں کی طرح کام لیا جاتا تھا ان سے غلاظت تک اُٹھوائی جاتی تھی ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جو یہاں جوانی میں لائے گئے تھے اور بوڑھے ہو چلے تھے وہ بھول گئے تھے کہ وہ انسان ہیں ان میں پہلی لڑائیوں کے جنگی قیدی بھی تھے اور ان میں اُن بد نصیبوں کی تعداد زیادہ تھی جنہیں صلیبیوں نے قافلوں سے اور شہر سے پکڑ کر کیمپ میں ڈالا تھا یہ امیر کبیر تاجر تھے یا خوبصورت لڑکیوں کے باپ تھے ان سے دولت مال اور لڑکیاں چھین لی گئی تھیں ان میں شہر کے وہ مسلمان بھی تھے جن کے خلاف یہ الزام تھا کہ وہ سلطنت اسلامیہ کے وفادار اور صلیب کے دشمن ہیں شہر میں جو مسلمان رہتے تھے وہ نماز اور قرآن گھروں میں چھپ چھپ کر پڑھتے تھے وہ بھی اس طرح کہ آواز باہر نہ جائے وہ معمولی حیثیت کے عیسائیوں کو بھی جھک کر سلام کرتے تھے
اپنی جوان بیٹیوں کو تو وہ پردے میں رکھتے ہی تھے اپنی معصوم بچیوں کو بھی وہ باہر نہیں نکلنے دیتے تھے عیسائی خوبصورت بچیوں کو اغوا کر لیتے تھے
سلطان ایوبی نے جب ان دوہزار زندہ لاشوں کو دیکھا تو اس کے آنسو نکل آئے تھے اس نے کہا تھا ان مظلوموں کو آزاد کرانے کے لیے میں پوری کی پوری سلطنت اسلامیہ کو داؤ پر لگا سکتا ہوں اس نے ان کی غذا اور اُن کی صحت کے لیے فوری احکامات جاری کر دئیے تھے اور کہا تھا کہ ابھی انہیں اسی جگہ رکھا جائے اور انہیں بستر مہیا کیے جائیں اس کے پاس ابھی ان کی کہانیاں سننے کے لیے وقت نہیں تھا اسے ابھی باہر کی کیفیت کو قابو میں لانا تھا باہر کا یہ عالم تھا کہ جنگ ابھی جاری تھی جس کی نوعیت کھلی جنگ کی سی نہیں تھی صورت یہ تھی کہ صلیبی فوج جو سلطان ایوبی کے دھوکے میں آکر کرک اور شوبک سے دور اُس فوج کو روکنے کے لیے چلی گئی تھی وہ بکھر کر پسپا ہو رہی تھی مسلمان دستے اُس پر شب خون مار مار کر اور زیادہ بُرا حال کر رہے تھے سلطان ایوبی کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ بعض جھڑپوں میں اس کے دستے گھیرے میں آکر نقصان اُٹھا رہے تھے یہ خطرہ بھی تھا کہ کرک کے قلعے میں جو صلیبی فوج ہے وہ صحرا میں پھنسی اور بکھری ہوئی اپنی فوج کی مدد کے لیے بھیج دی جائے گی
اس صورت حال کے لیے سلطان ایوبی کے پاس فوج کی کمی تھی مصر سے وہ کمک نہیں منگوانا چاہتا تھا کیونکہ وہاں کی سازشیں دبی نہیں تھیں معزول کی ہوئی فاطمی خلافت کے حامی درپردہ سازشوں میں مصروف تھے سوڈانی حبشی الگ طاقت جمع کر رہے تھے ان دونوں کو صلیبی مدد دے کر سلطان ایوبی کے خلاف متحد کر رہے تھے سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ متعدد مسلمان سیاسی اور فوجی سربراہ بھی سلطان ایوبی کے خلاف درپردہ کاروائیوں میں مصروف تھے یہ ایمان فروشوں کا ٹولہ تھا جو اقتدار کے حصول کے لیے اسلام کے دشمنوں کے ساتھ سازباز کر رہا تھا انہوں نے حشیشین کے پیشہ ور قاتلوں کی خدمات بھی حاصل کر لی تھیں جنہوں نے سلطان ایوبی کے قتل کا منصوبہ بنا لیا تھا
صلاح الدین ایوبی نے کئی بار کہا تھا کہ صلیبیوں کی یہ کتنی بڑی کامیابی ہے کہ وہ میرے ہاتھوں مسلمانوں کو قتل کرا رہے ہیں وہ بیشک ایمان فروش ہیں جنہیں میں نے غداری کی پاداش میں سزائے موت دی ہے لیکن  وہ مسلمان تھے کلمہ گو تھے کاش یہ لوگ اپنے دشمن کو پہچان لیتے

اب جب کہ شوبک کا قلعہ اس کے قدموں میں تھا اور وہ قلعے کی دیوار پر اپنے فوجی مشیروں وغیرہ کے ساتھ گھوم رہا تھا اسے شہر کے مسلمان باشندے گروہ در گروہ ناچتے اور اللّٰہ اکبر کے نعرے لگاتے نظر آرہے تھے اونٹوں پر شہیدوں کی لاشیں اور زخمی لائے جا رہے تھے سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا اس کا دستِ راست بہاؤالدین شداد اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے صلاح الدین ایوبی کے چہرے پر فتح و نصرت کا کوئی تاثر نہیں تھا خوشیاں منانے والے شوبک کے مسلمانوں کا ایک گروہ دف اور شہنائی کی تال پر ناچتا اس دیوار کے دامن میں آن رکا جہاں ہم کھڑے تھے صلاح الدین ایوبی انہیں دیکھتا رہا لوگ اسے دیکھ کر پاگلوں کی طرح ناچنے لگے ایوبی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تک نہ آئی اس نے ان لوگوں کے لیے ہاتھ تک نہیں ہلایا بس دیکھ رہا تھا گرہ میں سے کسی نے بلند آواز سے کہا صلاح الدین بن نجم الدین تم شوبک کے مسلمانوں کے لیے پیغمبر بن کر اُترے ہو وہ لوگ عربی نسل کے تھے ایک دوسرے کو باپ کے نام سے پہچانتے اور پکارتے تھے اس لیے ان میں بیشتر صلاح الدین ایوبی کو بن ایوب یا بن نجم کہتے تھے سلطان ایوبی کُرد نسل سے تھا

ناچنے والوں میں کسی نے نعرہ لگایا کُرد کے بچے ہم تیری پیغمبری کو سجدہ کرتے ہیں صلاح الدین ایوبی یکلخت بیدار ہوگیا تڑپ کر بولا انہیں کہو مجھے گناہگار نہ کریں میں پیغمبروں کا غلام ہوں سجدے کے لائق صرف اللّٰہ کی ذات ہے میں نے سلطان کے ایک محافظ سے کہا بھاگ کر جاؤ اور ان لوگوں سے کہو کہ ایسے نعرے نہ لگائیں آرام سے کہنا ان کا دل نہ دکھانا انہیں ناچنے دو انہیں گانے دو انہوں نے جہنم سے نجات حاصل کی ہے میری زندگی ان لوگوں کی خوشیوں کے لیے وقف ہے وہ اور کچھ نہیں کہہ سکا کیونکہ اس کی آواز بھرا گئی تھی یہ جذبات کا غلبہ تھا اس نے منہ پھیر لیا وہ ہم سب سے اپنے آنسو چھپا رہا تھا کچھ دیر بعد اس نے ہم سب کی طرف دیکھا اور کہا ہم ابھی فلسطین کی دہلیز پر پہنچے ہیں ہماری منزل بہت دُور ہے ہمیں شمال میں وہاں تک جانا ہے جہاں سے بحیرئہ روم کا ساحل گھوم کر مغرب کو جاتا ہے ہمیں سرزمین عرب سے آخری صلیبی کو دھکیل کر بحیرئہ روم میں ڈبونا ہے
وہیں سلطان ایوبی نے اپنے متعلقہ مشیر کو حکم دیا کہ سارے شہر میں منادی کرا دو کہو کہ کوئی غیر مسلم اس خوف سے شہر سے نہ بھاگے کہ مسلمان انہیں پریشان کریں گے کسی کو کسی مسلمان فوجی یا شہری سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ قلعے کے دروازے پر شکایت کرے اس کا ازالہ کیا جائے گا اس نے زور دے کر کہا کہ ہم کسی کے لیے تکلیف اور مصیبت کا نہیں پیار اور محبت کا پیغام لے کر آئیں ہیں اگر کسی نے اسلامی حکومت کے خلاف کوئی بات یا حرکت کی تو اسے اسلامی قانون کے تحت سزا دی جائے گی جو بہت سخت ہوگی اور یاد رکھو کہ اسلامی قانون سے نہ کوئی غیر مسلم بچ سکتا ہے نہ مسلمان اس کے ساتھ ہی اس نے حکم دیا کہ شہر میں اگر کوئی صلیبی فوجی یا جاسوس چھپا ہوا ہے یا اسے کسی نے اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے تو وہ فوراً اپنے آپ کو مسلمان فوج کے حوالے کردے سلطان ایوبی کی فوج قلعے کی ایک دیوار توڑ کر اندر گئی تھی اس نے حکم دے رکھا تھا کہ قلعے کے اس حصے پر فوراً قبضہ کیا جائے جہاں صلیبیوں کا محکمہ جاسوسی کا مرکز تھا اس کے جاسوسوں نے اسے اس مرکز کے متعلق بہت سی معلومات دے رکھی تھیں اور راہنمائی بھی کی تھی مگر صلیبی اتنے اناڑی نہیں تھے انہوں نے سب سے پہلے اسی حصے کو خالی کیا اور دستاویزات نکال لے گئے تھے ان کی جاسوسی کا سربراہ ہرمن اور اس کے دیگر ماہرین وہاں سے غائب ہوچکے تھے البتہ آٹھ لڑکیاں پکڑی گئیں تھیں جو علی بن سفیان کے حوالے کر دی گئی تھیں وہ ان سے معلومات لے رہا تھا , ان لڑکیوں نے بتایا تھا کہ کم و بیش بیس لڑکیاں وہاں سے نکل گئی ہیں وہ سب اپنے طور پر بھاگی تھیں ان کے ساتھ کوئی مرد نہیں تھا مرد جاسوس بھی نکل گئے تھے ان آٹھ لڑکیوں میں سے ایک نے اپنی ساتھی لڑکی لوزینا کے متعلق بتایا تھا کہ اس نے ایک مسلمان فوجی (حدید) کو قلعے سے فرار کرا کے خود کشی کر لی تھی

شوبک میں امن اور شہری انتظامات بحال کرنے کی سرگرمیاں تھیں اور کرک میں شوبک پر حملے اور اسے سلطان ایوبی سے چھڑانے کی اسکیمیں بن رہی تھیں لیکن صلیبی حملے کے لیے اتنی جلدی تیار نہیں ہو سکتے تھے جتنا وہ سمجھتے تھے ان کے سامنے پہلا سوال تو یہ تھا کہ ان کے عالم جاسوس نے بڑی پکی اطلاع دی تھی کہ سلطان ایوبی کرک پر حملہ کرے گا اس کی فوجیں کرک کی طرف آرہی تھیں ان کے قاہرہ کے جاسوسوں نے بھی ناقابلِ تردید اطلاعیں دی تھیں کہ سلطان ایوبی کی فوج کرک پرحملہ کرے گی جس کی کمان وہ خود کرے گا مگر آدھے راستے سے اس کی فوجوں نے رُخ بدل دیا اور ایسی چالیں چلیں کہ صلیبی فوج جو مسلمانوں کو روکنے کے لیے گئی تھی ،شب خونوں کی زد میں آگئی اور سلطان ایوبی نے کرک سے اتنی زیادہ دُور شوبک پر حملہ کر دیا
یہ سوال ایک کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا جس میں صلیبی فوج کے اعلیٰ افسر اور صلیبی حکمران موجود تھے ان کے محکمہ جاسوسی کا سربراہ جرمن نژاد ہرمن اور عالم جاسوس جسے سلطان ایوبی نے قاہرہ سے گرفتار کرکے رہا کر دیا تھا ملزموں کی حیثیت سے کانفرنس میں پیش کیے گئے تھے عالم جاسوس شوبک کے قلعے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا تھا اسے کانفرنس میں ہتھکڑیوں میں پیش کیا گیا تھا اس پر الزام یہ تھا کہ اس نے غلط اطلاع دے کر مسلمانوں کو فائدہ پہنچایا اور ان کی فتح کا باعث بنا ہے اس نے ایک بار پھر بیان دیا کہ اسے یہ اطلاع کس طرح ملی تھی کہ سلطان ایوبی کرک پر حملہ کرے گا اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کی اطلاع میں کوئی شک تھا تو متعلقہ محکمے کو اس کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہیے تھا اس کے اس بیان پر ہرمن سے پوچھا گیا کہ اس نے جاسوسی کے ماہر کی حیثیت سے کیوں تسلیم کر لیا تھا کہ اس جاسوس کی لائی ہوئی اطلاع بالکل صحیح ہے
مجھے اس ضمن میں بہت کچھ کہنا ہے ہرمن نے کہا میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں جاسوسی اور سراغرسانی کا ماہر ہوں مگر کئی مواقع ایسے آئے ہیں جن میں میری مہارت اور میرے جاسوسوں کی محنت اور قربانی کو نظر انداز کیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری مہارت فوج کی مرکزی کمان کے حکم یا کسی بادشاہ کے حکم کی نذر ہوگئی اس کانفرنس میں تین حکمران موجود ہیں اور ان کی متحدہ کمان کے اعلیٰ کمانڈر بھی موجود ہیں اور جبکہ ہم اتنی بڑی شکست سے دوچار ہوئے ہیں جس میں شوبک جیسا قلعہ ہاتھ سے نکل گیا ہے اس کے ساتھ میلوں وسیع علاقے پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ہے سال بھر کی رسد اور دیگر ساز وسامان دشمن کے ہاتھ لگا ہے اور شوبک کی پوری آبادی مسلمانوں کی غلام ہوگئی ہے میں آپ کی خامیاں اور احمقانہ حرکتیں آپ کے سامنے رکھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں اور میں آپ سب کو بصد احترام یاد دلاتا ہوں کہ ہم نے صلیب پر حلف اُٹھایا ہے کہ صلیب کے وقار کے لیے اپنا آپ قربان کر دیں گے اگر آپ میں سے کسی کے ذاتی وقار کو ٹھیس پہنچے تو اسے صلیب کا وقار پیشِ نظر رکھنا چاہئے
ہرمن کی حیثیت ایسی تھی کہ نارڈ گے آف لوزینان اور شاہ آگسٹس جیسے خود سر بادشاہ بھی اس کی بات رد کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے جاسوسی کا تمام تر نظام اس کے ہاتھ میں تھا ان میں تباہ کار جاسوس بھی تھے ہرمن کسی بھی حکمران کو خفیہ طریقے سے قتل کرانے کی ہمت اور اہلیت رکھتا تھا اسے اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ اپنا تجزیہ پیش کرے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ دشمن کے راز معلوم کرنے کے لیے اور اس کی کردار کشی کے لیے صرف لڑکیوں پر کیوں بھروسہ کیا جا رہا ہے اُس نے پوچھا اس لیے کہ عورت انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے کسی حکمران نے کہا کردار کشی کا بہترین ذریعہ عورت ہےخواہ وہ تحریر میں یا گوشت پوست کی صورت میں ہو کیا تم اس سے انکار کر سکتے ہو کہ عرب میں بہت سے مسلمان امراء قلعہ داروں اور وزراء کو ہم نے عورت کے ہاتھوں اپنا غلام بنا لیا ہے ؟
لیکن آپ یہ نہیں سوچ رہے کہ اس وقت مسلمانوں کی حکومت فوج کے ہاتھ میں ہے ہرمن نے کہا  اُن کا خلیفہ اپنا حکم نہیں منوا سکتا فوجی امور میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں صلاح الدین ایوبی کی مصر میں حیثیت ایک گورنر کی سی ہے لیکن اس نے وہاں کے خلیفہ کو معزول کر دیا ہے اِدھر نورالدین زنگی ہے جس کی حیثیت ایک سالار اور وزیر کی ہے لیکن جنگی امور میں اسے بغداد کے خلیفہ سے حکم اور اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں لہٰذا یہ پیشِ نظر رکھیے کہ آپ نے چند ایک امیروں، وزیروں اور قلعہ داروں کو ہاتھ میں لے لیا ہے تو ان کی حیثیت چند ایک غداروں کی ہے وہ آپ نے اپنے ملک کا ایک انچ علاقہ بھی نہیں دے سکتے اسلامی سلطنت کے اصل حکمران فوجی ہیں نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوجوں کی تربیت ایسی کی ہے کہ آپ لڑکیوں سے اس فوج کا کردار خراب نہیں کرسکتے اور نہ ہی کر سکیں گے اس فوج کے لیے شراب پینا سنگین جرم ہے اسلام میں ہر کسی کے لیے شراب حرام ہے اس پابندی کا اثر یہ ہے کہ مسلمان فوجی ہو یا شہری وہ اپنے ہوش ٹھکانے رکھتا ہے اگر صلاح الدین ایوبی شراب کا عادی ہوتا تو آج مصر ہمارا ہوتا اور صلاح الدین ایوبی شوبک کے قلعے کا فاتح نہ ہوتا بلکہ اس قلعے میں ہمارا قیدی ہوتا
ہرمن! ایک کمانڈر نے اسے ٹوک کر کہا اپنی بات لڑکیوں تک رکھو ہمارے پاس مسلمانوں کے اوصاف سننے کے لیے وقت نہیں ہے 
میں یہ کہنا چاہتا ہوں ہرمن نے کہا کہ جاسوسی کے لیے لڑکیوں کا استعمال ناکام ہوچکا ہے گزشتہ دو برسوں میں ہم بڑی قیمتی لڑکیاں مصر میں بھیج کر مسلمان فوجیوں کے ہاتھوں مروا چکے ہیں لڑکی کے معاملے میں یہ بھی یاد رکھیے کہ عورت ذات جذباتی ہوتی ہے
 آپ لڑکیوں کو کتنی ہی سخت ٹریننگ کیوں نہ دیں وہ مردوں کی طرح پتھر نہیں بن سکتیں۔ ہم انہیں خطروں میں پھینک دیتے ہیں خطرہ بہر حال خطرہ ہوتا ہے اور دل و دماغ پر اثر کرتا ہے بعض اوقات حالات بہت ہی بگڑ جاتے ہیں ان حالات میں مسلمان فوجی ہماری لڑکیوں کو تفریح کا ذریعہ بنانے کی بجائے انہیں پناہ میں لے لیتے ہیں اور ان کے جسموں کو اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں لڑکیاں جذبات سے مغلوب ہو کے رہ جاتی ہیں حال ہی میں ہماری ایک لڑکی کو صلاح الدین ایوبی کے ایک کمانڈر نے ڈاکوؤں سے بچایا اور زخمی ہوگیا لڑکی اسے شوبک میں لے آئی ہم نے اسے مسلمانوں کے کیمپ میں پھینک دیا لڑکی نے اسے ہماری فوج کے ایک افسر کی وردی پہنا کر قلعے سے نکال دیا اسے گھوڑا بھی دیا میں نے لڑکی کو پکڑ لیا لڑکی نے زہر کھا کر خود کشی کرلی اس نے سزا کے خوف سے خود کشی نہیں کی تھی۔ اس نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ گناہگار ہے اور اپنے جسم کو دھوکے کے لیے استعمال کر رہی ہے یہ احساس اتنا شدید تھا کہ اس نے زہر پی لیا , لڑکیوں کے خلاف میں ایک دلیل اور بھی دینا چاہتا ہوں ہمارے پاس جو لڑکیاں ہیں ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جنہیں ہم نے بچپن میں مسلمانوں کے قافلوں سے یا ان کے گھروں سے اغوا کیا تھا انہیں ہم نے اپنا مذہب دیا اور اپنی ٹریننگ دی وہ جوان ہوئیں اور اپنا بچپن اور اپنی اصلیت بھول گئیں انہیں یاد بھی نہ رہا کہ وہ مسلمانوں کی بیٹیاں ہیں مگر ہم نے صرف نام بدلے ان کا مذہب اور اُن کا کردار بدلا ان کے خون کو نہ بدل سکے میں انسانی نفسیات کو سمجھتا ہوں لیکن یہ میرا تجربہ ہے کہ مسلمان کی نفسیات دوسرے مذاہب کے انسانوں سے مختلف ہے یہ لڑکیاں جب کسی مسلمان کے سامنے جاتی ہیں تو جیسے انہیں اچانک یاد آجاتا ہے کہ ان کی رگوں میں بھی مسلمان باپ کا خون ہے مسلمان کے خون سے اس کا مذہب نہیں نکلتا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ کسی لڑکی  کو جاسوسی کے لیے نہ بھیجا جائے ؟ ایک کماندار نے اس سے پوچھا ۔
کسی ایسی لڑکی کو نہ بھیجا جائے جو کسی  مسلمان کے گھر پیدا ہوئی تھی ہرمن نے جواب دیا اگر آپ لڑکیوں کو میرے محکمے سے نکال ہی دیں تو صلیب کے لیے بہتر رہے گا آپ مسلمان اُمراء کے حرموں میں لڑکیاں بھیجتے رہیں آپ انہیں پھانس سکتے ہیں  وہ آسانی سے آپ کے ہاتھ میں آجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے میدانِ جنگ نہیں دیکھا ان کی تلواریں ہماری تلوار سے نہیں ٹکرائی ہمیں ان کی صرف فوج پہچانتی ہے دشمن کو صرف فوج جانتی ہے اس لیے وہ ہمارے جھانسے میں نہیں آسکتی
صلیبیوں کا شاہ آگسٹس انتہا درجے کا شیطان فطرت حکمران تھا جو اسلام کی دشمنی کو عبادت سمجھتا تھا اس نے کہا ہرمن! تمہاری نگاہ محدود ہے تم صرف صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کو دیکھ رہے ہو۔ ہم اسلام کو دیکھ رہے ہیں ہمیں اس مذہب کی بیج کنی کرنی ہے اس کے لیے کردار کشی اور نظریات میں شکوک پیدا کرنا لازمی ہے مسلمانوں میں ایسی تہذیب رائج کرو جس میں کشش ہو ضروری نہیں کہ ہم اپنا مقصد اپنی زندگی میں حاصل کرلیں ہم یہ کام اپنی اگلی نسل کے سپرد کردیں گے کچھ کامیابی وہ حاصل کرے گی اور یہ مہم اس سے اگلی نسل ہاتھ میں لے لے گی پھر ایک دور ایسا آہی جائے گا جب اسلام کا نام و نشان نہیں رہے گا اگر اسلام زندہ رہا بھی تو یہ مذہب کسی اور صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کو جنم نہیں دے گا میں وثوق سے کہتا ہوں کہ مذہب مسلمانوں کا اپنا ہوگا لیکن یہ مذہب ہماری تہذیب میں رنگا ہوا ہوگا ہرمن! آج سے سو سال بعد پر نظر رکھو فتح اور شکست عارضی واقعات ہیں ہم شوبک پر دوبارہ قبضہ کرلیں گے۔ تم مصر میں سازشوں کو مضبوط کرو فاطمیوں اور سوڈانی حبشیوں کو مدد دو حشیشین کو استعمال کرو
کانفرنس کے کمرے میں ایک صلیبی افسر داخل ہوا گرد سے اٹاہوا اور تھکا ہوا تھا وہ اس فوج کے کمانڈروں میں سے تھا جو ریگستان میں چلی گئی تھی اور آہستہ آہستہ کرک کی طرف پسپا ہو رہی تھی وہ بہت پریشان تھا اس نے کہا فوج کی حالت اچھی نہیں میں یہ تجویز لے کے آیا ہوں کہ کرک کی تمام تر فوج کے ساتھ کافی کمک ملا کر شوبک پر حملہ کر دیا جائے اور مسلمانوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ آمنے سامنے کی جنگ لڑیں۔اس وقت جنگ کی کیفیت یہ ہے کہ ہمارے دستے مرکزی کمان کے حکم کے مطابق کرک کی طرف پیچھے ہٹ رہے ہیں مسلمانوں کے شب خون مارنے والے دستے تھوڑی سی نفری سے رات کو عقبی حصے پر شب خون مارتے اور غائب ہو جاتے ہیں دن کے وقت ان کے تیر انداز چند ایک تیر برسا کر نقصان کرتے اور غائب ہو جاتے ہیں وہ نشانہ گھوڑے یا اونٹ کو بناتے ہیں ۔جس جانور کو تیر لگتا ہے وہ بھگدڑ مچا دیتا ہے اسے دیکھ کر دوسرے گھوڑے اور اونٹ بھی ڈرتے اور بے قابو ہو جاتے ہیں ہم نے رک کر ادھر ادھر کے دستے اکٹھے کیے اور جوابی حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن مسلمان آمنے سامنے نہیں آتے ہمارے کچھ دستون کو انہوں نے صرف اس لیے مارا ہے کہ مسلمان انہیں اپنی مرضی کے میدان میں جا کر لڑاتے ہیں سپاہ میں لڑنے کا جذبہ ماند پڑگیا ہے جزبے کو بیدار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک شدید جوابی حملہ کیا جائے

اس مسئلے پر بحث شروع ہوگئی صلیبیوں کے لیے مشکل یہ پیدا ہو گئی تھی کہ ان کی فوج کا بڑا حصہ جسے بہترین لڑاکا سمجھا جاتا تھا کرک سے دور ریگزار میں بکھر گیا تھا سلطان ایوبی کی چال کامیاب تھی اس کے کماندار اور دستوں کے عہدیدار اس کی چال کو خوش اسلوبی سے عملی رنگ دے رہے تھے وہ پانی پر قبضہ کر لیتے تھے بلندیوں پر پہنچ جاتے تھے ٹیلوں کے علاقوں میں گھات لگاتے تھے اور دن کے وقت اگر ہوا تیز ہو تو ہوا کے رخ سے حملہ کرتے تھے اس سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ ہوا اور گھوڑوں کی اڑائی ہوئی ریت صلیبیوں کی آنکھوں میں پڑتی اور انہیں اندھا کرتی تھی سلطان ایوبی کے پاس اتنی نفری نہیں تھی کہ وہ شوبک کو بچا سکتا اس نے جنگی فہم و فراست سے کام لیا اور صلیبیوں پر اپنا رعب قائم کر دیا تھا شوبک کے شمال مشرق میں صلیبیوں کی خاصی نفری بیکار بیٹھی تھی اسے اس لیے واپس نہیں بلایا جا رہا تھا کہ نور الدین زنگی سلطان ایوبی کو کمک بھیج دے گا
صلیبی حکمران اور کمانڈر کرک کے قلعے میں بیٹھے ہوئے پیچ و تاب کھا رہے تھے شوبک میں ایوبی کو یہ مسئلہ پریشان کر رہا تھا کہ صلیبیوں نے حملہ کر دیا تو وہ کس طرح روکے گا
اس نے عیسائیوں کے بھیس میں اپنے جاسوس کرک بھجوا دئیے تھے تاکہ صلیبیوں کے عزائم اور منصوبوں سے آگاہ کرتے رہیں اس نے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ اسے محاذ کی خبریں تیزی سے مل رہی تھیں اس نے شوبک سے اور گرد نواح کے علاقے سے فوج کے لیے بھرتی شروع کر دی اور حکم دیا کہ قلعے میں فوری طور پر ان کی ٹریننگ شروع کر دی جائے صلیبیوں کے بہت سے گھوڑے اور اونٹ قلعے میں رہ گئے تھے
باہر کے دستوں کو اس نے حکم بھیج دیا تھا کہ دشمن کے جانوروں کو مارنے کی بجائے انہیں پکڑیں اور قلعے میں بھیجتے رہیں نئی بھرتی کی ٹریننگ کے سلسلے میں اس نے یہ حکم جاری کیا کہ انہیں شب خون مارنے کی اور متحرک جنگ لڑنے کی ٹریننگ دی جائے
کرک میں جو کانفرنس ہو رہی تھی اس میں ہرمن کی اس تجویز کو رد کر دیا گیا تھا کہ جاسوسی کے لیے لڑکیوں کو استعمال نہ کیا جائے البتہ عالم جاسوس کو چھوڑ دیا گیا اور اسے یہ حکم دیا گیا کہ وہ مسلمانوں پر نظریاتی حملہ کرنے کے لیے آدمی تیار کرے اس کے بعد یہ پوچھا گیا کہ شوبک میں کتنی جاسوس لڑکیاں اور مرد رہ گئے ہیں اور لڑکیوں کو وہاں سے نکالا جا سکتا ہے؟ 
ہرمن نے انہیں بتایا کہ چند ایک لڑکیاں مسلمانوں کی قید میں ہیں کچھ نکل آئی ہیں اور کچھ لاپتہ ہیں مرد جاسوسوں کے متعلق اس نے بتایا کہ چند ایک قید ہو گئے ہیں اور بہت سے وہیں ہیں انہیں اطلاع بھیج دی گئی ہے کہ وہی رہیں اور اب مسلمان بن کر اپنا کام کریں ایک صلیبی حکمران نے کہا کہ جو لڑکیاں وہاں قید میں ہیں انہیں نکالنا شاید آسان نہ ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ لڑکیاں وہاں عیسائیوں کے گھروں میں روپوش ہو گئی ہوں انہیں وہاں سے نکالنا لازمی ہے
تھوڑی دیر کے بحث مباحثے کے بعد یہ طے ہوا کہ ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جو سلطان ایوبی کے شب خون مارنے والے آدمیوں کی طرح جان پر کھیلنا جانتا ہو اس گروہ کا ہر ایک آدمی ذہین اور پھرتیلا ہو عربی یا مصری زبان بول سکتا ہو اس گروہ کو ایسے مسلمانوں کے بھیس میں شوبک بھیجا جائے جس سے پتہ چلے کہ کرک کے عیسائیوں کے ظلم وتشدد سے بھاگ کر آئے ہیں انہیں یہ کام دیا جائے کہ شوبک میں رہ کر لڑکیوں کا سراغ لگائیں اور انہیں وہاں سے نکالیں اس کام کے لیے جرائم پیشہ آدمی موزوں رہیں گے جنہیں ان کی خواہش کے مطابق جیلوں سے نکال کر فوج میں لیا گیا ہے فوج میں پیشہ ور مجرموں کو تلاش کرو اور انہیں چند دن کی ٹریننگ دے کر شوبک بھیج دو لیکن یہ خیال رکھو کہ ان میں وہی سپاہی ہوں جو شوبک میں رہ چکے ہیں اور وہاں کے گلی کوچوں اور لوگوں سے واقف ہیں یہاں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ یہ جرائم پیشہ آدمی اس خطے کی زبان نہیں جانتے اس کا یہ حل پیش کیا گیا کہ زیادہ تر ایسے آدمی بھیجے جائیں جو وہاں کی زبان جانتے ہوں 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
متعدد مؤرخین نے شوبک کی فتح کو کئی ایک رنگ دئیے ہیں ان میں صاف گو قسم کے مؤرخین نے جو ولیم آف ٹائر کی طرح عیسائی ہیں صلیبیوں پر کڑی نکتہ چینی کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ان کے حکمران خوبصورت لڑکیوں کے ذریعے مسلمان علاقوں میں جاسوسی تخریب کاری اور کردار کشی پر زیادہ توجہ دیتے تھے اس سے ان کے اپنے کردار کا پتہ ملتا ہے کہ کیا تھا یہ درست ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے چند ایک غیر فوجی سربراہوں کو اپنے زیر اثر لے لیا تھا لیکن ان کے دماغ میں یہ نہ آئی کہ مسلمانوں کی ایک قوم بھی ہے اور ایک فوج بھی ہے کسی قوم اور اس کی فوج کے قومی جذبے کو مارنا آسان کام نہیں ہوتا اور اس صورت میں جب کہ صلیبیوں نے مسلمانوں کے نہتے قافلے لوٹے تھے ان کی بچیاں اغوا کی تھیں مفتوحہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر آبروریزی کی قتل عام کیا اور مسلمانوں کو بیگار کیمپوں میں ٹھونس کر جانور بنا دیا مسلمان قوم اور فوج کے جذبے کو مجروح کرنا ممکن ہی نہیں تھا انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں انتقام کا جذبہ پیدا کر دیا تھا اسلام کی صفوں میں چند ایک غدار پیدا کر لینے سے اس مذہب کی عظمت کو مجروح نہیں کیا جا سکتا تھا

مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت جب شوبک پر حملے کی ضرورت تھی اور جب صلاح الدین ایوبی جنگی لحاظ سے کمزور تھا صلیبیوں نے شوبک سے چند ایک لڑکیوں کو نکال لانے پر توجہ مرکوز کر لی اور اس مہم کے لیے جانبازوں کا گروہ تیار ہونے لگا وہ لکھتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کی جنگی فہم و فراست کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے صلیبیوں پر رعب طاری کر دیا تھا کہ اس نے ان کی فوج کو بکھیر دیا ہے صلیبیوں نے اس تاثر کو قبول کر لیا تھا انہوں نے اس طرف توجہ نہ دی کہ ایوبی کی اپنی فوج دستہ دستہ ٹولہ ٹولہ ہو کے بکھر گئی ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سلطان ایوبی اس صورت حال سے کچھ پریشان بھی تھا اس کے مشیر خاص شداد نے اس کی جس پریشانی کا ذکر کیا ہے وہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس کے دستے صلیبیوں کے تعاقب میں بکھر گئے تھے اس سے مرکزیت ختم ہو گئی تھی یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے دستے ذاتی اور قومی جذبے کے تحت لڑ رہے تھے ایسی مثالیں بھی ملی ہیں کہ بعض مسلمان دستے صحرائی بھول بھلیوں میں بھٹک گئے اور خوراک اور پانی سے محروم رہے لیکن وہ ہر حال اور ہر کیفیت میں لڑتے رہے
یہ جذبے کی جنگ تھی جس سے صلیبی سپائی عاری تھے انہوں نے اپنے کمانڈروں کو پسپا ہوتے دیکھا تو ان میں لڑنے کاجذبہ ختم ہو گیا اگر صلیبی ادھر توجہ دیتے تو ایوبی کی بکھرتی ہوئی فوج پر قابو پا سکتے تھے مگر وہ ذرا ذرا سی باتوں پر اتنی زیادہ توجہ دیتے تھے جتنی اہم جنگی امور پر دی جاتی ہے
یہاں ایک اور وضاحت ضروری ہے اس دور کے صلیبی و قائع نگاروں کے حوالے سے دو تین غیر مسلم مورخین نے اس قسم کی غلط بیانی کی ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے مسلسل دو سال شوبک کو محاصرے میں رکھا اور ناکام لوٹ گیا انہوں نے اسکی وجہ یہ بیان کی ہے کہ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی زنگی کو اس کے مشیروں نے خبردار کیا تھا کہ ایوبی مصر کو اپنے ذاتی تسلط میں رکھ کر فلسطین کا بھی خود مختار حکمران بننا چاہتا ہے 
وہ فلسطین پر قبضہ کر کے زنگی کو معزول کر دے گا یہ مورخین لکھتے ہیں کہ نور الدین زنگی نے اس بہانے شوبک کو اپنی فوج روانہ کر دی کہ یہ سلطان ایوبی کے لیے کمک ہے لیکن اس نے اپنے کمانڈروں کو خفیہ ہدایت دی تھی کہ وہ شوبک کے جنگی امور اپنے قبضے میں لے لیں چنانچہ یہ فوج آئی سلطان ایوبی سے کسی نے کہا کہ نور الدین زنگی نے یہ فوج اس کی مدد کے لیے نہیں بھیجی بلکہ اس کی مرکزی کمان پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجی ہے یہ سن کر سلطان ایوبی دل برداشتہ ہو گیا اور وہ شوبک کا محاصرہ اٹھا کر مصر کوچ کر گیا
عیسائی مؤرخین نے زنگی اور ایوبی کی اس مفروضہ چپقلش کو بہت اچھالا ہے لیکن ان ‎مؤرخین کی تعداد زیادہ ہے جنہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ سلطان ایوبی نے ڈیڑھ ماہ کے محاصرے کے بعد شوبک کا قلعہ لے لیا تھا البتہ یہ پتہ بھی ملتا ہے کہ صلیبی تخریب کاروں نے نورالدین زنگی کو سلطان ایوبی کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہیں ہو سکی اس کا ثبوت یہ ہے کہ سلطان ایوبی کے والد نجم الدین ایوبی لمبی مسافت طے کر کے شوبک پہنچے انہیں شک ہو گیا تھا کہ ان کا بیٹا ایسی حماقت پر اتر ہی نہ آیا ہو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تخریب کار اس کے کان زنگی کے خلاف بھر دیں
بہاؤالدین شداد اپنی یادداشتوں میں اقمطراز ہے اپنے والد بزرگوار کو دیکھ کر ایوبی بہت حیران ہوا ان کے گھٹنے چھو کر مصافحہ کیا اور سمجھا کہ محترم والد اسے فتح کی مبارکباد دینے آئے ہیں مگر انہوں نے بیٹے کو پہلے الفاظ یہ کہے کیا نور الدین زنگی جاہل ہے جس نے مجھ جیسے گمنام اور غریب آدمی کے بیٹے کو مصر کا حکمران بنا ڈالا ہے؟  کیا مجھے یہ سننا پڑے گا کہ تیرا بیٹا ذاتی اقتدار کی خاطر سلطنت اسلامیہ کے محافظ نورالدین زنگی کا دشمن ہو گیا ہے؟ جا اور زنگی سے معافی مانگو

بات کھلی تو معلوم ہوا کہ سلطان ایوبی کا ذہن صاف ہے اور وہ نور الدین زنگی سے کمک مانگنے والا ہے نجم الدین ایوب مطمئن ہو گئے اور واضح ہو گیا کہ یہ صلیبوں کی تخریب کاری اور عیاری ہے سلطان ایوبی نے اپنے خصوصی قاصد اور معتمد فقیہہ عیسٰی الہکاری کو اپنے والد محترم کے ساتھ رخصت کیا اور الہکاری کو نور الدین زنگی کے نام ایک تحریری پیغام دیا اس کے ساتھ شوبک کے کچھ تحفے بھی بھیجے اس نے لکھا بیش قیمت تحفہ شوبک کا قلعہ ہے جو میں آپ کے قدموں میں بیش کرتا ہوں اس کے بعد خدائے عزوجل کی مدد سے کرک کا قلعہ پیش کروں گا
اس پیغام میں سلطان ایوبی نے واضح کیا تھا کہ صلیبیوں کی تخریب کاری سے خبردار رہیں اور یہ نہ بھولیں کہ کچھ مسلمان امرا بھی اس تخریب کاری اور سازشوں میں صلیبیوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں ان کی سرکوبی کی جائے اس پیغام میں سلطان ایوبی نے شوبک کی اس وقت کی صورت حال اور اپنی فوج کی کیفیت تفصیل سے لکھی اور کچھ انقلابی تجاویز پیش کیں اس نے زنگی کو لکھا کہ ان حالات میں جب دشمن ہماری سرزمین پر قلعہ بند ہے اور وہ میدانِ جنگ میں ہمارے خلاف سرگرم ہے اور زمین دوز کاروائیوں سے بھی ہمارے درمیان غدارا پیدا کر رہا ہے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری غیر فوجی قیادت نہ صرف ناکام ہو گئی ہے بلکہ سلطنتِ اسلامیہ کے لئے خطرہ بن گئی ہے ہم گھر سے دور بے رحم صحرا میں دشمن سے بر سر ِپیکار ہیں ہمارے مجاہد لڑتے اور مرتے ہیں وہ بھوکے اور پیاسے بھی لڑتے ہیں انہیں کفن نصیب نہیں ہوتے ان کی لاشیں گھوڑوں کے تلے روندی جاتی اور صحرائی لومڑیوں اور گدھوں کی خوراک بنتی ہیں اسلام کی عظمت اور قوم کے وقار کو جتنا وہ سمجھتے ہیں اتنا اور کوئی نہیں سمجھ سکتا ہمارے غیر فوجی حکام اور سربراہوں کے خون کا ایک قطرہ نہیں گرتا وہ میدانِ جنگ سے بہت دور محفوظ بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ عیش و عشرت کے عادی ہوگئے ہیں دشمن انہیں نہایت حسین اور چلبلی لڑکیوں اور یورپ کی شراب سے اپنا مرید بنا لیتا ہے ہم دین اور ایمان کی سر بلندی کے لیے مرتے ہیں اور وہ ایمان کو دشمن کے ہاتھ بیچ کر عیش کرتے اور اس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں

سلطان ایوبی نے لکھا کہ اب جبکہ میں فلسطین کی دہلیز پر آگیا ہوں اور میں نے فلسطین لیے بغیر واپس نہ جانے کا تہہ کر لیا ہے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ (نورالدین زنگی) غیر فوجی قیادت پر کڑی نظر رکھیں امیر العلماء سے کہیں کہ وہ مساجد میں اور ہر جگہ اعلان کر دے کہ سلطنتِ اسلامیہ کا صرف ایک خلیفہ ہے اور یہ بغداد کی خلافت ہے ہر مسلمان پر اس واحد خلافت کی اطاعت فرض ہے لیکن خطبے میں اور کسی مسجد میں خلیفہ کا نام نہیں لیا جائے گا عظیم نام صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے یہ حکم بھی جاری کیا جائے کہ آئندہ جب خلیفہ یا کوئی حاکم کسی دورے یا معائنے کے لیے باہر نکلے گا تو اس کے محافظ دستے کے سوا کوئی جلوس اس کے ساتھ نہیں ہوگا اور لوگ راستے میں رک کر اور جھک جھک اسے سلام نہیں کریں گے سلطان ایوبی نے سب سے زیادہ اہم بات یہ لکھی کہ شیعہ سنی تفرقہ بڑھتا جا رہا ہے فاطمی خلافت کی معزولی نے اس تفرقے میں اضافہ کر دیا ہے یہ تفریق ختم ہونی چاہیے بے شک خلافت اور حکومت سنی ہے لیکن کسی سنی حاکم یا اہل کار کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شیعوں کو اپنا غلام سمجھے حکومت اور فوج میں شیعوں کو پوری نمائندگی دی جائے، اس قسم کی کچھ اور بھی انقلانی تجاویز تھیں جو سلطان ایوبی نے نورالدین زنگی کو بھیجیں مؤرخین اس پر متفق ہیں کہ زنگی نے ان پر فوری طور پر عمل کیا اپنے ہاں بھی سلطان ایوبی نے شیعہ سنی تفرقہ پیار ومحبت اور عقل و دانش سے مٹانا شروع کر دیا

کرک میں صلیبی سلطان ایوبی پر جوابی وار کرنے پر غور کر رہے تھے ان کو مرکزی کمان نے قاصدوں کے زریعے اپنی بکھری ہوئی فوج کو احکام بھیج دئیے کہ مسلمانوں سے لڑنے کی کوشش نہ کریں بلکہ نکلنے کی ترکیب کریں تاکہ جوابی حملے کے لیے زیادہ سے زیادہ فوج بچ جائے ان احکام کے ساتھ ہی انہوں نے چالیس جانبازوں کا ایک گروہ تیار کر لیا جسے مظلوم مسلمانوں کے بہروپ میں شوبک میں داخل ہونا اور لڑکیوں کو وہاں سے نکالنا تھا صلیبی حکمرانوں نے اس خیال سے کہ سلطان ایوبی مصر سے غیر حاضر ہے وہاں اپنے تخریب کاروں میں اضافہ کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا وہ سوڈانیوں اور فاطمیوں کو جلد از جلد متحد کر کے قاہرہ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، شوبک اور کرک کے درمیانی علاقے میں بہت خون بہہ رہا تھا وہ سارا علاقہ ہموار ریگستان نہیں تھا۔ کئی جگہوں پر مٹی اور ریتلی سِلّوں کے ٹیلے تھے اور کہیں ریت کی گول گول ٹکریاں تھیں جن میں کوئی داخل ہوجائے تو باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا تھا ایسے علاقوں میں صلیبی بھی مر رہے تھے اور سلطان ایوبی کے مجاہدین بھی اور وہاں شوبک کے وہ عیسائی بھی مر رہے تھے جو مسلمانوں کے ڈر سے شہر سے کرک کی سمت بھاگ اُٹھے تھے فضا میں گِدھوں کے غول اُڑ رہے تھے ان کے پیٹ انسانی گوشت سے بھرے ہوئے تھے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی