⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡 𝟚⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اس کی ایک ساتھی لڑکی جو اس کی ہمراز سہیلی تھی پیچھے سے جا ملی اور پوچھا لوزینا! کہاں جا رہی ہو؟
اور تم پریشان ہو یہ تھکن کا اثر ہے یا کوئی خاص واقعہ ہوگیا ہے ؟
تمہیں چھٹی نہیں ملی؟
چھٹی مل گئی ہے اس نے جواب دیا ایک خاص واقعہ ہوگیا ہے جس نے مجھے پریشان کر دیا ہے وہ سہیلی کو ساتھ لیے ایک درخت کے نیچے جا بیٹھی اور اسے تمام واقعہ سنا دیا اسے اپنے افسروں نے جو دھمکیاں دی تھیں وہ بھی سنائیں اور اس نے کہا میں حدید سے ملنا چاہتی ہوں مجھے ڈر ہے کہ اس کی مرہم پٹی نہیں ہوئی اور شہر سے نکال دیا گیا ہے یا اسے مرنے کے لیے کسی کوٹھری میں بند کر دیا گیا ہے
تم نے بتایا ہے کہ تمہیں اس سے ملنے سے منع کر دیا گیا ہے سہیلی نے اسے مشورہ دیا یہ خطرہ مول نہ لو تم اگر پکڑی گئی تو جانتی ہو کہ کیا سزا ہے ؟
اس شخص کے لیے میں سزائے موت بھی قبول کر لوں گی لوزینا نے کہا میں تمہیں سنا چکی ہوں کہ اس نے میری خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی ہے
میری جان کو تو کوئی خطرہ نہ تھا ڈاکو مجھے لے بھی جاتے تو چند دن مجھے خراب کرکے کسی امیر کبیر کے ہاتھ فروخت کر دیتے حدید میرے اس انجام سے آگاہ تھا اس نے میری عزت کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی تھی ڈاکوؤں نے کہا بھی تھا کہ لڑکیاں ہمیں دے دو اور چلے جاؤ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میں پاکباز لڑکی نہیں مگر اس نے مجھے امانت سمجھا
تم اس کے لیے جذباتی ہوگئی ہو؟
ہاں! لوزینا نے جواب دیا میں جذبات کا اظہار ہرمن کے آگے نہیں کر سکتی تھی اپنا دل تمہارے آگے رکھ سکتی ہوں تم میری سہیلی ہو اور عورت کا دل رکھتی ہو ہماری زندگی کیا ہے؟
ہم ایک خوبصورت خنجر اور میٹھا زہر ہیں ہمارا جسم مرد کی تفریح اور فریب کے لیے استعمال ہوتا ہے میں نے یہ باتیں پہلے کبھی نہیں سوچی تھیں اپنے وجود کو جذبات سے خالی سمجھا تھا مگر اس آدمی کے جسم کو میں نے اپنے جسم کے ساتھ لگایا تو میرے وجود میں وہ سارے جذبات بیدار ہوگئے جو میں سمجھتی تھی مجھ میں نہیں ہیں میں ایک ہی بار ماں ، بہن ، بیٹی اور کسی کو چاہنے والی لڑکی بن گئی یہ شاید اس کا اثر تھا کہ اپنے آپ کو میں بادشاہوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے والی شہزادی سمجھتی تھی
مجھ میں اتنی تخریب کاری ڈالی گئی ہے کہ جابر حکمرانوں کو بھی انگلیوں پر نچا سکتی ہوں مگر ڈاکوؤں نے مجھے بکنے والی چیز بنا دیا مجھے اس سطح پر لے آئے جہاں مجھ جیسی لڑکیاں ہر رات نئے گاہک کے ہاتھ فروخت ہوتی ہیں یا کسی مسلمان امیر یا حاکم کے ہاتھ فروخت ہو کر اس کے حرم کی لونڈیاں بن جاتی ہیں
اس آدمی جس کا نام حدید ہے مجھے اس سطح سے اُوپر اُٹھالیا اس سے پہلے میں اس کی قیدی تھی اس نے مجھے قابل نہیں سمجھا کہ مجھے تفریح کا ذریعہ بناتا وہ ایسا کرسکتا تھا اس نے مجھے نظر انداز کیا پھر اس نے میری عزت بچانے کے لیے اپنا جسم کٹوا لیا تو میں نے بے قابو ہو کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اس سطح کی لڑکی بن گئی جس سے مجھے گرا دیا گیا ہے
مجھے صلاح الدین ایوبی کی بات یاد آئی اس نے مجھے کہا کہ تم کسی باعزت آدمی کے ساتھ شادی کیوں نہیں کر لیتی؟
میں نے دل میں کہا تھا کہ یہ مسلمان احمق ہے
میں اب محسوس کر رہی ہوں کہ ہمارے دشمن نے کتنی عظیم بات کہی تھی میں تمہیں صاف بتا دیتی ہوں کہ میں اب جاسوسی نہیں کر سکوں گی میرے دماغ میں بچپن سے جو سبق ڈالے گئے تھے وہ صحرا کی خوفناک رات نے ڈاکوؤں کے خطرے نے اور حدید کے جسم کی حرارت اور اس کے خون کی بو نے زائل کر دئیے ہیں
تم اتنی لمبی بات نہ کرتی تو بھی جان گئی تھی کہ تم کیا محسوس کر رہی ہو اس کی سہیلی نے کہا لیکن میں حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتی ہوں اسے چلے جانا ہے تم اس کے ساتھ نہیں جا سکو گی وہ اگر یہاں تکلیف میں ہے تو حکم ہے کہ تم اسے نہیں مل سکتی اگر پکڑی گئی تو اپنے ساتھ اسے بھی مرواؤ گی
تو تم میری مدد کرو لوزینا نے منت کی یہ معلوم کرو کہ وہ کہاں ہے مجھے صرف یہ معلوم ہوجائے کہ وہ ٹھیک ہوگیا ہے اور تندرستی کی حالت میں چلاگیا ہے تو میرے دل کو چین آجائے گا
ہاں! سہیلی نے کہا میں یہ کام کر سکتی ہوں تم کمرے میں چلی جاؤ وہ کمرے میں چلی گئی اور اس کی سہیلی کسی اور طرف نکل گئی
قاہرہ میں بھی فوجوں میں بہت سرگرمی تھی فوج کی جنگی مشقیں کرائی جا رہی تھیں چند ایک دستے الگ کر لیے گئے تھے انہیں شب خون مارنے تھوڑی تعداد میں دشمن کی کوئی گنا زیادہ نفری پرحملہ کرنے اور ''ضرب لگاؤ اور بھاگو'' کی مشقین اس طرح کرائی جارہی تھیں کہ رات کو بھی دستے چھاونی سے باہر رہتے تھے سلطان ایوبی ذاتی طور پر یہ مشقیں دیکھتا تھا وہ تیسرے چوتھے روز اعلیٰ کمانڈروں اور دستوں کے کمانداروں تک کو لیکچر دیتا اور انہیں نقشوں اور خاکوں کی مدد سے جنگی چالیں سکھاتا تھا اس نے اس ٹریننگ کا بنیادی اصول یہ رکھا تھا کم تعداد سے دشمن کا زیادہ نقصان کرنا ہتھیار سے زیادہ عقل کو استعمال کرنا آمنے سامنے کے معرکے سے گریز کرنا سامنے سے حملہ نہ کرنا دس بارہ آدمیوں کے شب خون سے اتنا نقصان کرنا جتنا ایک سو آدمی دن کے وقت دُو بدو معرکے میں کر سکتے ہیں
اس کے علاوہ دشمن کے کسی قلعے یا شہر کو لمبے محاصرے میں رکھنے کے طریقے بتاتا اور قلعوں کی دیواروں میں نقب لگانے کے سبق دیتا تھا اس نے تمام اونٹوں گھوڑوں اور خچروں کا معائنہ کر لیا تھا کمزور یا عمر خورد جانوروں کو اس نے الگ کر دیا تھا حملے کی تاریخ طے ہوچکی تھی سلطان ایوبی نے فلسطین کی فتح کا جو منصوبہ بنایا تھا اس کے پہلے مرحلے میں کامیابی سے داخل ہونے کی تیاری زور و شور سے کر رہا تھا ادھر اسے راستے میں ہی روکنے کے اہتمام ہو رہے تھے
دونوں فوجوں کی تیاریاں ایسی تھیں جیسے ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے صلیبیوں کی تیاری کا دائرہ شوبک سے کرک تک اور مصر کی سرحدوں تک تھا وہ اس وسیع دائرے کو سلطان ایوبی کے لیے ایسا پھندہ بنا رہے تھے جس میں سے اس کے لیے ساری عمر نکلنے کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا ان کی تیاریاں سلطان ایوبی کے اس منصوبے کی اس روشنی میں ہو رہی تھیں جو ان تک قبل از وقت پہنچ گیا تھا
ان وسیع تیاریوں کے اندر شوبک میں ایک سرگرمی اور بھی تھی جس کا تعلق جنگ سے نہیں جذبات سے تھا اور یہ ایک خفیہ سرگرمی تھی لوزینا اپنے کمرے میں پڑی حدید کے لیے بے قرار ہو رہی تھی اور اس کی سہیلی دو روز سے حدید کو ڈھونڈ رہی تھی وہ افسروں کے ہسپتال میں بھی نہیں تھا اور وہ سپاہیوں کے ہسپتال میں بھی نہیں تھا وہ جاسوس لڑکی تھی بڑے بڑے افسر بھی اس کی عزت کرتے تھے لوزینا کو اور ہر جاسوس لڑکی کو وہاں اہمیت حاصل تھی اس کے باوجود یہ سہیلی جس سے بھی پوچھتی کہ لوزینا کے ساتھ جو زخمی مسلمان آیا تھا وہ کہاں ہے تو اسے یہی ایک جواب ملتا میں نے تو اسے نہیں دیکھا تیسرے دن ایک افسر نے اسے رازداری سے بتایا کہ اس کی مرہم پٹی کر دی گئی تھی اور اسے مسلمانوں کے کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا
سہیلی نے جب یہ خبر لوزینا کو سنائی تو اس پر سکتہ طاری ہوگیا مسلمانوں کا کیمپ ایک خوفناک جگہ تھی اس میں پہلی جنگوں کے مسلمان قیدی بھی تھے اور وہ مسلمان بچے بھی جنہیں کسی جرم کے بغیر صلیبیوں نے اپنے مقبوضہ علاقے سے پکڑا تھا یہ مسلمان زیادہ تر ان قافلوں میں سے پکڑے جاتے تھے جنہیں صلیبی لوٹتے تھے یہ کیمپ قیدخانہ نہیں تھا یہ جنگی قیدی کیمپ کہلاتا تھا یہ ایک بیگار کیمپ تھا جس پر کوئی ایسا کڑہ پہرا نہ تھا جیسا قید خانوں میں ہوتا ہے ان بد نصیب قیدیوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ بھی نہ تھا یہ لوگ مویشی بنا دئیے گئے تھے جہاں ضرورت ہوتی ان میں سے بہت سے آدمی ہانک کر لے جائے جاتے اور ان سے کام لیا جاتا تھا انہیں خوراک صرف اتنی سی دی جاتی جس سے وہ زندہ رہ سکتے تھے وہ خیموں میں رہتے تھے ان میں جو بیمار پڑ جاتا اس کا علاج اسی صورت میں کیا جاتا تھا کہ بیماری معمولی ہو اگر بیماری فوراً زور پکڑلے تو اسے زہر دے کر مار دیا جاتا تھا یہ بدنصیب مسلمانوں کا ایک گروہ تھا جو صرف اس جرم کی سزا بھگت رہے تھے کہ وہ مسلمان ہیں سلطان ایوبی کو اس کے جاسوسوں نے اس بیگار کیمپ کے متعلق خبریں دے رکھی تھیں
حدید کو بھی کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا لوزینا کے لیے حکم تھا کہ اسے نہ ملے ہرمن کو شک ہوگیا تھا کہ ایک جذباتی وابستگی ہے لیکن لوزینا نے اس حکم کو قبول نہیں کیا تھا اس نے جب سنا کہ حدید ''مسلمانوں کے کیمپ'' میں ہے تو اس نے سہیلی سے کہا کہ وہ اسے آزاد کرائے گی سہیلی نے اس کی جذباتی حالت دیکھ کر مدد کا وعدہ کیا اور دونوں نے پلان بنا لیا
وہ اسی شہر میں گئی اور ایک پرائیویٹ ڈاکٹر سے ملی اسے کہا کہ وہ ایک زخمی کو لا رہی ہے جس کا علاج اسے اس شرط پر کرنا پڑے گا کہ اس کے متعلق کسی کو کچھ نہ بتائے ڈاکٹر نے اس رازداری کی وجہ پوچھی تو لوزینا نے کہا وہ ایک غریب سا مسلمان ہے جس نے میرے خاندان کی بہت خدمت کی ہے وہ کہیں لڑائی جھگڑے میں زخمی ہوگیا ہے اس کے پلے کچھ بھی نہیں اس لیے کوئی ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کرتا چونکہ یہاں تمام ڈاکٹر عیسائی ہیں اس لیے وہ کسی مسلمان کا علاج بلا اجرت نہیں کرتے رازداری کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر شہر کے منتظم تک یہ خبر پہنچ گئی کہ ان مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہوا ہے تو وہ اسی کو بہانہ بنا کر انہیں مسلمانوں کے کیمپ میں بھیج دے گا انہیں تو بہانہ چاہیے میں اس آدمی کو اس خدمت اور ایثار کا صلہ دینا چاہتی ہوں جو اس نے میرے خاندان کے لیے کیا ہے میں اسے رات کے وقت لاؤں گی
آپ کتنی اُجرت لیں گے میں رازداری کی بھی اُجرت دوں گی
اس دوران ڈاکٹر اسے سر سے پاؤں تک دیکھتا رہا لوزینا نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کون ہے یہی بتایا تھا کہ وہ ایک معزز گھرانے کی لڑکی ہے لڑکی کا غیر معمولی حسن دیکھ کر ڈاکٹر جو اُجرت لینا چاہتا تھا اسے وہ زبان پر نہیں لا رہا تھا لوزینا اس میدان اور اس فن کی ماہر تھی وہ مردوں کی نظریں پہنچانتی تھی اس نے اپنے فن کو استعمال کیا تو ڈاکٹر موم ہوگیا لوزینا نے سونے کے چار سکے اس کے آگے رکھ دئیے اور جب ڈاکٹر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا کہ تم سے زیادہ قیمتی سکہ نہیں تو لوزینا نے مخصوص مسکراہٹ سے کہا آپ جو قیمت مانگیں گے دوں گی میرا کام کر دیں
ڈاکٹر یہ سمجھ گیا کہ معاملہ خطرناک اور پر اسرار معلوم ہوتا ہے لیکن لوزینا کو دیکھ کر اس نے خطرہ قبول کر لیا اور کہا لے آؤ آج رات کل رات جب چاہو لے آؤ اگر میں سویا ہوا ملوں تو جگا لینا اس نے ایک ہاتھ میں سونے کے سکے اور دوسرے ہاتھ میں لوزینا کا ہاتھ پکڑ لیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس مہم کا سب سے زیادہ نازک اور پر خطرہ مسئلہ تو یہ تھا کہ حدید کو کیمپ سے نکالا کس طرح جائے رات کو وہاں پہرہ برائے نام ہوتا تھا ان بدنصیب قیدیوں میں بھاگنے کی سکت ہی نہیں تھی صبح سورج نکلنے سے پہلے انہیں مشقت پر لگایا جاتا اور سورج غروب ہونے کے بعد کیمپ میں لایا جاتا ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ تھی لوزینا کی سہیلی نے کیمپ کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرلیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ زخمی اور بیمار قیدیوں کو معمولی سی ایک ڈسپنسری میں ہر روز بھیجا جاتا ہے ان کے ساتھ صرف ایک پہرہ دار ہوتا ہے دوسرے دن لوزینا اپنی سہیلی کے ساتھ وہاں پہنچ گئی جہاں مریض قیدیوں کو لے جایا جاتا تھا اسے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا پچیس تیس مریضوں کی ایک پارٹی نہایت آہستہ آہستہ چلتی آرہی تھی اور پہرہ دار ہاتھ میں لاٹھی لیے انہیں مویشیوں کی طرح ہانکتا لا رہا تھا جو تیز نہیں چل سکتے تھے انہیں وہ لاٹھی سے دھکیل دھکیل کر لارہا تھا
دونوں لڑکیاں آگے چلی گئیں ان کا انداز ایسا تھا جیسے تماشہ دیکھ رہی ہوں جب مریضوں کا ٹولہ ان کے قریب سے گزر رہا تھا تو وہ ہر ایک کو دیکھنے لگتیں اچانک لوزینا کو دھچکا لگا حدید اسے قہر بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اس سے اچھی طرح چلا نہیں جا رہا تھا اس کے چہرے سے وہ رونق اور رمق بجھ گئی تھی جو لوزینا نے زخمی ہونے سے پہلے دیکھی تھی حدید کے کندھے جھک گئے تھے اس کے کپڑے خون سے لال تھے خون خشک ہو چکا تھا لوزینا کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر حدید کی آنکھوں میں نفرت تھی اس نے منہ پھیر لیا یہ مریض ٹولہ آگے نکل گیا تو لوزینا اور اس کی سہیلی پہرہ دار سے باتیں کرنے لگیں جن میں ان مسلمان مریضوں کے خلاف نفرت تھی انہوں نے زبان کے جادو سے پہرہ دار کو اپنا گرویدہ کر لیا اور کہا کہ وہ ازراہ مذاق ان قیدیوں کے ساتھ باتیں کرنا چاہتی ہیں
ڈسپنسری میں دوسرے مریض بھی تھے خاصا ہجوم تھا قیدیوں کو ایک طرف بٹھا دیا گیا لوزینا ان کے قریب چلی گئی اور اس کی سہیلی نے پہرہ دار کو باتوں میں اُلجھا لیا حدید دیوار کے سہارے بیٹھ گیا تھا اس کی حالت اچھی نہیں تھی لوزینا نے آنکھ کے اشارے سے اسے پرے بلایا وہ جب اس کے قریب گیا تو لوزینا نے آہستہ سے کہا مجھے حکم ملا ہے کہ تم سے کبھی نہ ملوں بیٹھ جاؤ ہم یہ ظاہر نہیں ہونے دیں گے کہ ہم باتیں کر رہے ہیں
میں لعنت بھیجتا ہوں تم پر اور تمہارے حکم دینے والوں پر حدید نے نحیف مگر غضبناک آواز میں کہا میں نے تمہیں کسی صلے کے لالچ میں ڈاکوؤں سے نہیں بچایا تھا وہ میرا فرض تھا کیا تم فرض ادا کرنے والوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو ؟
چپ رہو حدید! لوزینا نے رندھیائی ہوئی آواز میں کہا یہ باتیں بعد میں ہوں گی مجھے بتاؤ کہ رات تم کس جگہ ہوتے ہو آج رات تمہیں وہاں سے نکالنا ہے
حدید اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا لوزینا نے اسے آنسوؤں سے اور بڑی مشکل سے یقین دلایا کہ وہ اسے دھوکہ نہیں دے رہی حدید نے بتایا کہ وہ رات کو کہاں سوتا ہے وہاں سے نکلنا مشکل نہیں لیکن نکل کر وہ جائے گا کہاں؟
انہوں نے جلدی جلدی فرار کا منصوبہ بنا لیا مسلمانوں کا کیمپ ایسی نیند سویا ہوا تھا جیسے یہ لاشوں کی بستی ہو پہرہ دار بھی سو گئے تھے یہاں سے کبھی کوئی بھاگا نہیں تھا بھاگ کر کوئی جاتا بھی کہاں اس کے علاوہ پہرہ داروں کو یہ بھی معلوم تھا کو کوئی ایک آدھا بھاگ بھی گیا تو کون جواب طلبی کرے گا رات پہلا پہر ختم ہو رہا تھا کہ پھٹے پرانے ایک خیمے سے ایک آدمی پیٹ کے بل رینگتا ہوا خیموں کی اوٹ میں وہاں تک چلا گیا جہاں اسے کوئی پہرہ دار نہیں دیکھ سکتا تھا آگے اسے اندھیرے میں بھی کھجور کا درخت نظر آنے لگا جہاں تک اسے پہنچنا تھا ایک سایہ سر سے پاؤں تک موٹے کپڑوں میں لپٹا ہوا کھڑا تھا رینگنے والا اُٹھ کھڑا ہوا اور کھجور کے تنے تک پہنچ گیا وہ حدید تھا لوزینا اس کی منتظر تھی
تیز چل سکو گے لوزینا نے پوچھا
کوشش کروں گا حدید نے جواب دیا
وہ کیمپ سے دور نکل گئے آگے وسیع علاقہ غیر آباد تھا مشکل یہ تھی کہ حدید تیز نہیں چل سکتا تھا لوزینا نے اسے سہارا دے کر تیز چلانے کی کوشش کی اور اسے بتاتی گئی کہ اسے کیسے کیسے حکم اور دھمکیاں ملی ہیں اس نے حدید کی غلط فہمی رفع کردی آگے شہر کی گلیاں آگئیں اور پھر ڈاکٹر کا گھر آگیا تین چار بار دستک دینے سے ڈاکٹر باہر آگیا اور انہیں فوراً اندر لے گیا اس نے حدید کے زخم کھول کر دیکھے تو کہا کہ کم از کم بیس روز مرہم پٹی ہوگی یہ سن کر لوزینا کے سامنے ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ آگیا وہ یہ تھا کہ اتنے دن حدید کو چھپائے گی کہاں؟
اسے بیگار کیمپ میں واپس تو نہیں لے جانا تھا اس کی عقل جواب دے گئی ڈاکٹر مرہم پٹی کر چکا تھا اس نے کہا کہ اسے نہایت اچھی اور مقوی غذا کی ضرورت ہے لوزینا اسے پرے لے گئی اور کہا یہ جہاں رہتا ہے وہاں اسے اچھی غذا نہیں مل سکتی میں گھر میں اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتی آپ اسے یہیں رکھیں اور جو چیز اس کے لیے فائدہ مند ہو وہ کھلائیں مجھ سے آپ جتنی قیمت اور اُجرت مانگیں گے دوں گی
ڈاکٹر نے جو اُجرت بتائی وہ بہت ہی زیادہ تھی لوزینا نے کم کرنے کو کہا تو ڈاکٹر نے کہا تم مجھ سے بہت ہی خطرناک کام کرا رہی ہو میں جانتا ہوں کہ یہ شخص مسلمانوں کے کیمپ سے لایاگیا ہے اور یہ مصری فوج کا سپاہی ہے تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟
مجھے منہ مانگی اُجرت دو گی تو تمہارا یہ راز میرے گھر سے باہر نہیں جائے گا
مجھے منظور ہے لوزینا نے کہا اور یہ بھی سن لو ڈاکٹر! اگر یہ راز فاش ہوگیا تو آپ زندہ نہیں رہیں گے
ڈاکٹر نے حدید کو ایک کمرے میں لٹا دیا اور اسے بتایا کہ وہ ٹھیک ہونے تک یہیں رہے گا اس نے اندر سے اسے دودھ اور پھل لادئیے اور لوزینا کو ایک اور کمرے میں لے گیا
دوسرے دن لوزینا اور اس کی سہیلی نے کیمپ کی جاسوسی کی ڈسپنسری میں گئیں مریض قیدی وہاں لے جائے گئے دونوں لڑکیوں نے پہرہ دار کے ساتھ گپ شپ لگائی اور اپنے خصوصی ڈھنگ سے باتیں کرکے معلوم کرلیا کہ حدید کی گمشدگی سے کیمپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہاں کوئی ہلچل نہیں
دن گزرتے گئے ڈاکٹر کو چونکہ منہ مانگی قیمت اور اُجرت مل رہی تھی اس لیے اس نے حدید کو چھپائے بھی رکھا اور اس کا علاج پوری توجہ سے کرتا رہا اسے مقوی غذا بھی دیتا رہا لوزینا شام کے بعد وہاں جاتی کچھ دیر حدید کے ساتھ بیٹھتی اور بہت دیر ڈاکٹر کے کمرے میں گزارتی اس روز مرہ کے معمول میں بیس روز گزر گئے اور حدید کے زخم ٹھیک ہو گئے اس کی صحت بحال ہوگئی لوزینا نے ڈاکٹر سے کہا کہ وہ کل رات کسی بھی وقت حدید کو لے جائے گی
دوسرے دن اس نے اپنی سہیلی کو استعمال کیا چھوٹے عہدے کا ایک افسر اس کی سہیلی کے پیچھے پڑا رہتا تھا سہیلی نے اس افسر کو جھانسہ دیا اور لوزینا نے اس کے ٹرنک سے اس کی وردی نکال لی جو اس نے حدید کو پہنادی گھوڑے کا انتظام مشکل نہ تھا وہ بھی ہوگیا یہ اہتمام اس لیے کیا جا رہا تھا کہ شہر کے اردگرد مٹی کی بہت اونچی دیوار تھی اس کے چار دروازے تھے جو رات بند رہتے تھے ان دنوں دن کے وقت یہ دروازے کھلے رکھے جاتے تھے کیونکہ سلطان ایوبی کے آنے والے حملے کے لیے فوجوں اور ان کے سامان کی آمدو رفت جاری رہتی تھی
سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے قلعے کے ایک بڑے دروازے کی طرف ایک صلیبی افسر گھوڑے پر جا رہا تھا اس کی کمر سے لٹکی ہوئی تلوار مسلمانوں کی طرح ٹیڑھی نہیں سیدھی تھی اور اس کا دستہ صلیب کی شکل کا تھا وہ ہر لحاظ سے صلیبی تھا دروازہ کھلا ہوا تھا جس سے اونٹوں کا ایک کارواں رسد سے لدا ہوا باہر جارہا تھا ظاہر یہی ہوتا تھا جیسے یہ گھوڑ سوار افسر اس کارواں کے ساتھ جارہا ہو وہ کہیں باہر سے آرہا تھا اس نے افسر کو دیکھا اور مسکرایا مگر اس افسر نے مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے نہ دیا ہرمن چند قدم اندر کو آیا تو اس نے گھوڑا روک لیا اسے دو تین سو قدم دور لوزینا کھڑی نظر آئی جس نے ہرمن کو دیکھا تو وہاں سے تیزی سے اپنے ٹھکانے کی طرف چلی گی
علی بن سفیان ک طرح ہرمن بھی جاسوس اور سراغرساں تھا اس نے فوراً گھوڑا دروازے کی طرف گھمایا اور ایڑ لگادی ۔وہ اپنا شک رفع کرنا چاہتا تھا اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی تو گھوڑا دوڑ پڑا۔باہر جا کر ہرمن نے دیکھا کہ جو افسر اس کے پاس سے گزرا تھا وہ اتنی دور نکل گیا تھا کہ اس کے تعاقب میں جانا بیکار تھا اس گھوڑ سوار نے دروازے سے نکلتے ہی گھوڑے کو ایڑ لگادی تھی گھوڑا بہت تیز رفتار تھا ہرمن اسے دیکھتا رہا اور صحرا کی وسعت میں گم ہو گیا لوزینا نے حدید کو آزاد کرا کے صلہ دے دیا تھا
ہرمن نے اپنا گھوڑا موڑا اور تیزی سے اندر گیا وہ سب سے پہلے مسلمانوں کے کیمپ میں گیا اور وہاں کے انچارج سے حدید کی نشانیاں بتا کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے کچھ پتہ نہ چلا جس خیمے میں حدید کو رکھا گیا تھا وہاں کے رہنے والوں نے بتایا کہ ایک صبح وہ یہاں سے غائب تھا وہ سمجھے کہ اسے ادھر ادھر کر دیا گیا ہے ہرمن کا شک یقین میں بدل گیا وہ حدید ہی تھا جسے اس نے صلیبی فوج کی وردی میں دروازے سے نکلتے دیکھا تھا وہ مزید تفتیش سے پہلے لوزینا کے کمرے میں گیا وہ سر ہاتھوں میں تھامے رو رہی تھی
کیا تم نے اسے بھگایا ہے ہرمن نے گرج کر کہا لوزینا نے آہستہ سے سر اُٹھایا ہرمن نے کہا جھوٹ بولو گی تو میں تفتیش کرکے ثابت کردوں گا کہ اسے تم نے فرار میں مدد دی ہے
نہ آپ کو تفتیش کی ضرورت ہے نہ مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت لوزینا نے کہا میری زندگی ایک شاہانہ جھوٹ اور میرا وجود ایک خوبصورت دھوکہ ہے
اپنی روح کی نجات کے لیے میں سچ بول کر مر رہی ہوں اس کی آواز میں غنودگی تھی جو بڑھتی چلی جا رہی تھی وہ اُٹھی تو اس کی ٹانگیں لڑ کھڑائیں اس کے قریب ایک گلاس پڑا تھا جس میں چند قطرے پانی تھا اس نے گلاس اُٹھا کر ہرمن کی طرف بڑھا کر کہا میں اپنے آپ کو سزائے موت دے رہی ہوں اس گلاس میں پانی کے چند قطرے گواہی دیں گے کہ میں نے اپنے ناپاک جسم کو سزائے موت اس لیے نہیں دی کہ اپنی قوم سے غداری کی اور دشمن کو قید سے بھگا دیا ہے بلکہ میرا جرم یہ تھا کہ میں ان انسانوں کو دھوکے دینے گئی تھی جن کے ہاں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں ان میں چار انسانوں نے میری عزت بچانے کے لیے جو میرے پاس تھی ہی نہیں دس ڈاکوؤں کامقابلہ کیا پھر ایک انسان نے مجھے اپنا جسم کٹوا کر ڈاکوؤں سے چھینا مجھے نیکی اور بدی محبت اور نفرت کا فرق معلوم ہوگیا تھا میں سچ بول کر مر رہی ہوں یہ پر سکون موت ہے
وہ گرنے لگی تو ہرمن نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر اسے تھام لیا لوزینا نے اپنے جسم کو جھٹکا دیا اور ہرمن کے بازوؤں سے نکل کر پرے ہوگئی اونگھتی ہوئی آواز میں بولی میرے جسم کو ہاتھ نہ لگاؤ یہ اب تمہارے کام کا نہیں رہا اس زہر نے اس میں سچ داخل کر دیا ہے تمہیں ناپاک جسموں کی ضرورت ہے میں نے اسے بھگایا ہے اسے میں نے بیس روز چھپائے رکھا تھا اسے میں نے فرنینڈس کی وردی چرا کر پہنائی تھی اسے میں نے گھوڑا دیا تھا میں اس کے ساتھ نہیں جا سکتی تھی میں اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتی تھی اس لیے میں نے زہر پی لیا اگر تم مجھے پکڑ نہ لیتے تو بھی میں زہر پی لیتی وہ پلنگ پر لڑھک گئی ہرمن کو اس کی آخری سرگوشی سنائی دی سچ بول کر مرنے میں کتنا سکون ہے اس نے آخری سانس اس طرح لی جیسے سکون سے آہ بھری ہو
اسے جب دفن کرچکے تو اک افسر نے پوچھا اس کا کوئی خاندان تھا تو انہیں اس کی موت کی اطلاع دے دو اس کا خاندان ہم ہی تھے ہرمن نے جواب دیا اسے دس گیارہ سال کی عمر میں کسی قافلے سے اغوا کرکے لائے تھے
صلاح الدین ایوبی کی فوج کو کوچ کیے تیسرا دن تھا صلیبیوں نے اسے راستے میں روکنے کے لیے فوج بھیج دی تھی حملہ چونکہ کرک پر آرہا تھا اس لیے صلیبیوں نے شوبک سے زیادہ تر فوج کرک بھیج دی تھی اس کا ایک حصہ شام کی طرف بھیج دیا گیا تھا تاکہ نورالدین زنگی مدد کے لیے آئے تو اسے کرک سے کچھ دور روکا جا سکے اور اس فوج کا کچھ حصہ سلطان ایوبی کو راستے میں روکنے والی فوج کو دیا گیا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کوچ کرایا تھا اور تینوں کو دور دور رکھا تھا وہ جب اس مقام پر پہنچ گیا جہاں صلیبیوں سے ٹکر ہونی چاہیے تھی اس نے تینوں حصوں کے کمانڈروں اور ان کے ماتحت کمانڈروں کو اپنے خیمے میں بلایا ۔ ۔ ۔ ۔ ہم اس مقام پر آگئے ہیں جہاں راز فاش کر دینا چاہیے سلطان ایوبی نے کہا تم شاید حیران ہو رہے ہوگے کہ میں تمہیں یہ بتاتا رہا ہوں کہ میں کرک پر حملہ کروں گا مگر میں تمہیں کسی اور طرف لے آیا ہوں میں کرک پر حملہ نہیں کر رہا ہماری منزل شوبک ہے ایک سوال تم سب کو پریشان کر رہا ہے کہ میں نے ان تین جاسوسوں کو جن میں ایک عالم تھا اور دو لڑکیاں کیوں رہا کر دیا تھا اور انہیں محافظ کیوں دئیے تھے اس سوال کا جواب سن لو میں نے انہیں اپنے ساتھ والے کمرے میں بٹھا کر درمیان کا دروازہ کھلا رکھا اور علی بن سفیان اور دو نائبین کو یہ بتانا شروع کر دیا کہ میں فلاں تاریخ کو کرک پر حملہ کر رہا ہوں میں جانتا تھا کہ جاسوس سن رہے تھے میں نے ان کے کانوں میں یہ بھی ڈالا کہ میں صلیبیوں سے کھلے میدان کی جنگ سے ڈرتا ہوں اس قسم کی باتیں ان کے کانوں میں ڈال کر انہیں رہا کر دیا اور انہیں محافظ دئیے تاکہ وہ صحیح و سلامت شوبک پہنچ جائیں مجھے اطلاع ملی ہے کہ راستے میں ایک حادثہ ہوگیا ہے ڈاکوؤں نے تین محافظوں اور ایک لڑکی کو مار ڈالا ہے چوتھا محافظ کل رات شوبک سے واپس آگیا ہے وہاں ہمارے جو جاسوس ہیں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ عالم جاسوس زندہ شوبک پہنچ گیا تھا جس نے میرا دھوکہ کامیاب کر دیا ہے صلیبیوں نے اپنی فوج میری مرضی کے مطابق تقسیم کر دی ہے اس وقت تمہاری فوج کا بائیں والا حصہ صلیبیوں کی بہت بڑی فوج کے بائیں پہلو سے چار میل دور ہے
اس نے بائیں حصے کے کمانڈر سے کہا آج سورج غروب ہونے کے بعد تم اپنے تمام گھوڑ سوار دستے سیدھے آگے دو میل لے جاؤ گے وہاں سے اپنے بائیں کو ہو جانا چار میل سیدھا جانا پھر بائیں کو جانا اور دو میل پر تمہیں دشمن آرام کی حالت میں ملے گا حملہ کرنا تم جانتے ہو یہ تیز ہلہ ہوگا راستے میں جو کچھ آئے اسے کچلتے ہوئے نکل آؤ اور اپنی اسی جگہ پر آجاؤ جہاں سے چلے تھے دوسرا حصہ شام کے بعد سیدھا آگے بڑھے گا آٹھ نو میل جا کر بائیں کو ہوجائے گا تمہیں دشمن کی رسد اور قافلے ملیں گے اس کے علاوہ تم دشمن کے عقب میں ہوگے دن کے وقت دشمن بائیں والے کے تعاقب میں آئے گا لیکن تم سامنے کی ٹکر نہیں لو گے دن کو بہت پیچھے آجاؤ گے رات کو پھر حملہ کرو گے اور رکو گے نہیں صلیبی آگے بڑھیں گے تو درمیان والا حصہ عقب سے حملہ کرے گا اور دشمن کے سنبھلنے تک بکھر جائے گا تیسرا حصہ جو میرے ساتھ ہے آج رات کوچ کر رہا ہے ہم کل دوپہر تک شوبک کا محاصرہ کر چکے ہوں گے باقی دو حصے صلیبیوں کو ان طریقوں سے جن میں تمہیں مشق کراتا رہا ہوں دشمن کو صحرا میں پریشان کیے رکھیں گے اس تک رسد نہیں پہنچنے دیں گے وہ جوں ہی پانی کے چشمے سے ہٹے گا تم چشموں پر قبضہ کر لو گے حملہ ہمیشہ پہلو سے کرو گے اور لڑنے کے لیے رکو گے نہیں جانباز دستے ہر رات دشمن کے مویشیوں پر آگ پھینکیں گے
یہ 1171ء کے آخری دن تھے جب کرک والوں کو سلطان ایوبی کے لیے انتظار کے بعد پتہ چلا کہ شوبک جیسا اہم قلعہ سلطان ایوبی کے محاصرہ میں آگیا ہے جب کہ زیادہ تر فوج کرک میں اکھٹی کرلی گئی ہے اور صحرا میں بھیج دی گئی ہے شوبک کو وہ کوئی مدد نہیں دے سکتے تھے صحرا میں جو فوج گئی تھی مسلمان اس کا برا حشر کر رہے تھے صلیبیوں کی پریشانی یہ تھی کہ مسلمان سامنے آکر نہیں لڑتے تھے وہ گوریلا اور کمانڈو طرز کے حملے سے ان کا نقصان کر رہے تھے انہوں نے رسد روک لی تھی پانی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تھا صلیبیوں کی یہ فوج نہ لڑنے کے قبل رہی تھی نہ پیچھے ہٹ کر شوبک کو بچانے کے لیے پہنچ سکتی تھی
شوبک میں صلیبیوں نے قلعے اور شہر کی دیواروں سے تیروں اور برچھیوں سے بہت مقابلہ کیا لیکن سلطان ایوبی کے نقب زن دستوں نے دیواریں توڑ لیں یہ محاصرہ تقریباً ڈیڑھ مہینہ جاری رہا آخر سلطان ایوبی شوبک میں داخل ہوگیا وہ سب سے پہلے بیگار کیمپ میں گیا جہاں کے بدنصیب قیدیوں نے شکر کے سجدے کیے صلیبیوں کی صحرا والی فوج بے ترتیبی میں پسپا ہو کر کرک کے قلعے میں چلی گئی جہاں بہت سی فوج بیکار بیٹھی صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہی تھی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*