👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟠 𝟚⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟠  𝟚⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو محافظ آگے اور دو پیچھے اپنی گپ شپ لگاتے چلے جارہے تھے ان کے انداز سے ظاہر ہوتا تھا جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ دو اتنی دلکش لڑکیاں ان کی  تحویل میں ہیں سورج غروب ہو رہا تھا ایک نے عالم سے کہا کہ ہم ابھی رُکیں گے نہیں۔رات کا پہلا پہر چلتے گزاریں گے وہ چلتے گئے اور صحرا کی رات تاریک ہوتی گئی۔ عالم اور لڑکیاں اونٹوں کو قریب کر کے محافظوں کے قتل  کا منصوبہ بنا رہی تھیں بہت دیر بعد ایک سر سبز جگہ آگئی محافظ رُک گئے  اور وہیں پڑاؤ کیا انہوں نے دیکھا کہ تین محافظ لیٹ گئے تھے اور ایک ٹہل  رہا تھا 
عالم لڑکیوں کے ساتھ محافظوں سے کچھ دور لیٹا رہا ان تینوں کی نظریں محافظوں پر تھیں وہ چوتھے محافظ کو دیکھتے رہے وہ پڑاؤ کے اردگرد ٹہلتا رہا ایک کھٹکا سا ہوا وہ دوڑ کر ادھر گیا اور اچھی طرح دیکھ بھال کرکے آگیا
تقریباً دو گھنٹے گزر گئے اس نے اپنے ایک اور ساتھی کو جگایا اور خود اس کی جگہ لیٹ گیا جو جاگا تھا وہ پڑاؤ کے اردگرد ٹہلنے لگا کبھی جانوروں کے پاس جاکر انہیں دیکھتا اور کبھی سوئے ہوئے انسانوں  کو دیکھتا عالم نے لڑکیوں سے کہا ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے یہ کمبخت پہرہ دے رہے ہیں جو ہوگا ہو کے رہے گا سو جاؤ 
رات گزر گئی صبح ابھی دھندلی تھی جب محافظوں نے انہیں جگایا اور روانہ ہونے کے لیے کہا تھوڑی دیر بعد وہ پھر اسی ترتیب میں چلے جا رہے تھے جس میں ایک روز پہلے تھے تین اونٹ پہلو بہ پہلو دو محافظ آگے اور دو اونٹوں کے  پیچھے وہ ایک بار پھر لڑکیوں سے لاتعلق ہوگئے انہوں نے کوئی ایسی بات بھی نہیں کی تھی جس سے شک ہوتا کہ یہ لوگ اوباش یا بدمعاش ہیں
سورج اُبھرتا آیا پھر یہ قافلہ ٹیلوں کے علاقے میں داخل ہوگیا مٹی اور ریت  کی پہاڑیاں دیواروں کی طرح کھڑی تھیں ان میں گلیاں سی تھیں اور ان پر پہاڑیوں کا سایہ تھا لڑکیاں ڈرنے لگیں ڈر ان کے چہرے سے ظاہر ہو رہا  تھا ان کی نگاہ میں یہ جگہ جرم اور قتل وغیرہ کے لیے موزوں تھی مگر  محافظ ان کی طرف دیکھ نہیں رہے تھے
اس سے کہو کہ ہمارے ساتھ باتیں کریں ایک لڑکی نے عالم سے کہا ان کی خاموشی اور لا تعلقی مجھے ڈرا رہی ہے انہیں کہو کہ ہمیں مارنا چاہتے ہیں تو فوراً مار دیں میں موت کا انتظار نہیں کر سکتی 
عالم خاموش رہا وہ لڑکیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا وہ تینوں ان محافظوں کے رحم و کرم پر تھے 
سورج سر پر آگیا تو وہ ان ٹیلوں کے اندر ایسی جگہ رُک گئے جہاں ریت کے سلوں والے ٹیلے تھے اور اُوپر جا کر آگے کو جھکے ہوئے تھے ان کے سائے میں انہوں نے قیام کیا کھانے کے دوران عالم نے محافظوں سے پوچھا تم لوگ ہمارے ساتھ باتیں کیوں نہیں کرتے؟
جو باتیں ہمارے فرض میں شامل نہیں وہ ہم نہیں کیا کرتے محافظوں کے کمانڈر نے جواب دیا اور پوچھا اگر تم لوگ کوئی خاص بات کرنا چاہتے ہو تو ہم سنیں گے اور جواب دیں گے  
کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم کون ہیں ؟
عالم نے پوچھا 
تم تینوں جاسوس ہو محافظ نے جواب دیا یہ لڑکیاں بدکار ہیں یہ ان آدمیوں کے استعمال کے لیے ہیں جنہیں تم لوگ ہمارے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہو امیر مصر اللہ اس کے نیک ارادوں میں برکت دے نے تمہیں معلوم نہیں کیوں بخش دیا ہے ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں قلعہ شوبک میں چھوڑ آئیں تم امانت ہو تم نے یہ بات مجھ سے کیوں پوچھی ہے؟
تمہارے ساتھ باتیں کرنے کو جی چاہ رہا تھا 
عالم نے جواب دیا اتنا لمبا سفر اس لاتعلق اور بیگانگی سے بڑا کھٹن ہو رہا ہے ہمارے ساتھ باتیں کرتے چلو
ہم ہمسفر ہیں محافظ نے کہا لیکن ہماری منزلیں جدا ہیں دو روز بعد ہم جدا ہوجائیں گے
عالم جاسوس نے جیسے محافظ کا جواب سنا ہی نہ ہو  اس کی آنکھیں کسی دور کی چیز کو دیکھ رہی تھیں  وہ صحرا سے اچھی طرح واقف تھا صحرا کے خطروں سے واقف تھا اس کی آنکھیں حیرت اور اور غالباً ڈر سے پھٹی جا رہی تھیں محافظ نے اس طرف دیکھا جس طرف عالم دیکھ رہا تھا محافظ کی بھی آنکھیں کھل گئیں کوئی دو سو گز دور ایک بلند جگہ دو اونٹ کھڑے تھے۔ ان پر دو آدمی  سوار تھے جن کے چہروں اور سروں پر پگڑیاں لپٹی ہوئی تھیں اونٹوں کی ٹانگیں نظر نہیں آرہی تھیں وہ بلندی کے پیچھے تھیں سوار خاموشی سے کھڑے محافظوں اور جاسوسوں کے قافلے کو دیکھ رہے تھے ان کا انداز اور لباس بتا رہا تھا کہ وہ کون ہیں 
جانتے ہو یہ کون ہیں محافظوں کے کمانڈر نے عالم سے پوچھا 
صحرائی ڈاکو ، عالم نے جواب دیا معلوم نہیں کتنے ہوں گے دیکھا جائے گا محافظ نے کہا اس نے اُٹھتے ہوئے اپنے ایک ساتھی سے کہا میرے ساتھ آؤ 
وہ دونوں گھوڑوں پر سوار ہو کر ڈاکوؤں کی طرف چلے گئے ان کے پاس تلواروں کے علاوہ برچھیاں بھی تھیں انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر شتر سوار بلندی کے پیچھے غائب ہوگئے دو محافظ جو پیچھے رہ گئے تھے قریب کے ٹیلے پر چڑھ گئے عالم نے لڑکیوں سے کہا میرا خیال ہے تمہارا خدشہ صحیح ثابت ہو رہا ہے یہ ڈاکو نہیں یہ صلاح الدین ایوبی کے بھیجے ہوئے آدمی معلوم ہوتے ہیں ورنہ یہ محافظ اتنی دلیری سے ان کی طرف نہ چلے جاتے ایوبی تم دونوں کو بہت زیادہ ذلیل کرانا چاہتا ہے میرے لیے تو موت لکھی ہوئی ہے تمہیں بڑی خوفناک سزا دی جائے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم آزاد نہیں ایک لڑکی نے کہا ہم ابھی تک قیدی ہیں یہی معلوم ہوتا ہے 
دوسری لڑکی نے کہا
دونوں محافظ واپس آگئے تھے ان کے ساتھی اور جاسوس ان کے گرد جمع ہوگئے محافظوں کا کمانڈر جس کا نام حدید تھا انہیں بتانے لگا وہ صحرائی قزاق ہیں ہم ان سے مل آئے ہیں انہوں نے مجھے کہا ہے کہ تم فوج کے آدمی اور مسلمان معلوم ہوتے ہو لیکن یہ لڑکیاں مسلمان نہیں یہ دونوں لڑکیاں ہمارے حوالے کردو ہم تمہیں پریشان نہیں کریں گے میں نے انہیں کہا ہے کہ یہ لڑکیاں کسی بھی مذہب کی ہوں ہمارے پاس امانت ہیں ہم جیتے جی تمہارے حوالے نہیں کریں گے وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم اپنی جانیں ضائع نہ کریں میں انہیں کہہ آیا ہوں کہ پہلے ہماری جانیں ضائع کرو پھر لڑکیوں کو لے جانا اس نے عالم اور لڑکیوں سے پوچھا تم کوئی ہتھیار استعمال کر سکتے ہو؟
ان لڑکیوں کو ہر ایک ہتھیار چلانے کی تربیت دی گئی ہے عالم نے کہا تمہارے پاس برچھیاں ہیں تلواریں بھی ہیں اور تیر کمان بھی ہیں ان میں سے ایک ایک ہتھیار ہمیں دے دو ابھی نہیں حدید نے سوچ کرکہا میں قبل از وقت تمہیں ہتھیار نہیں دے سکتا اگر ڈاکوؤں سے ٹکر ہوگئی تو اس وقت دے دوں گا ہمیں اس علاقے سے فوراً نکل جانا چاہیے ان سے گھوڑوں اور اونٹوں پر لڑائی ہوگئی تو یہ  علاقہ موزوں نہیں گھوڑے گھما پھرا کر لڑنے کے لیے یہ جگہ خراب ہے 
وہ فوراً وہاں سے چل پڑے محافظوں نے کمانیں ہاتھوں میں لے لیں اور ترکش کھول لیے حدید آگے تھا اسے اس کے ساتھی نے کہا ان جاسوسوں کو ہتھیار دینا ٹھیک نہیں آخر ہمارے دشمن ہیں ہو سکتا ہے کہ ڈاکوؤں کے  ساتھ مل کر ہمیں مار ڈالیں 
عالم لڑکیوں سے کہہ رہا تھا ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں انہوں نے ہمیں ہتھیار دینے سے انکار کر دیا ہے
ڈاکو ان کے اپنے آدمی ہیں یہ تم دونوں کو ان کے حوالے کر دیں گے اور  مجھے مروا دیں گے 
دونوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں تھا اور دونوں پر ڈاکوؤں کا ڈر سوار ہوگیا تھا حدید نے اپنے محافظوں سے کہہ دیا تھا کہ کوئی نقاب پوش نظر آئے تو مجھے بتائے بغیر اس پر تیر چلا دو ان کے ساتھ ضرور ٹکر ہوگی دیکھنا یہ ہے کہ کب ہوگی اور کہاں ہوگی وہ تیز رفتاری سے چلتے گئے گھوڑوں اور اونٹوں کو آرام چارہ اور پانی ملتا رہا تھا اس لیے تھکن کا ان پر کوئی اثر نہیں تھا ٹیلوں کا علاقہ بہت دور چلا گیا تھا کئی جگہوں پر قافلہ اونچے ٹیلوں کے درمیان آجاتا تھا حدید کو ڈر یہ تھا کہ ڈاکو اوپر سے تیر نہ برسا دیں اس نے گھوڑوں کو ایڑ لگانے  کو کہا اور جاسوسوں سے کہا کہ وہ بھی اونٹوں کو گھوڑوں کی رفتار پر کر لیں اور اوپر کو دیکھتے رہیں 

وہ اس علاقے سے نگل گئے کوئی ڈاکو نظر نہیں آیا سورج نیچے جانے لگا تھا ایک بار دو اونٹ اسی سمت پر جاتے نظر آئے جدھر یہ قافلہ چلتا رہا راستے میں ایک جگہ پانی مل گیا انہوں نے جانوروں کو پانی پلایا خود بھی پیا اور چل پڑے سورج نیچے جاتا رہا اور اُفق کے پیچھے چلاگیا شام تاریک ہوئی تو حدید نے قافلے کو روک لیا کہنے  لگا یہ جگہ لڑائی کے لیے اچھی ہے کیونکہ اردگرد کوئی رکاوٹ نہیں اس نے گھوڑوں کی زینیں کھولی نہیں تاکہ ضرورت کے وقت گھوڑے تیار ملیں اونٹوں کو بٹھا دیاگیا کھانا کھا کر حدید نے لڑکیوں کو اپنے درمیان لٹایا اور انہیں کہا کہ وہ ہوشیار رہیں  محافظوں سے کہا کہ وہ کمانیں تیار رکھیں سوئیں نہیں لیٹے رہیں اسے یقین تھا کہ رات کو حملہ ضرور ہوگا
رات آدھی گزر گئی تھی صحرا پرسکون اور خاموش رہا پھر اچانک ان کے گرد سیاہ بھوتوں جیسے بڑے بڑے سائے دوڑنے لگے اونٹوں کے قدموں کی دھمک دھمک سنائی دے رہی تھی اور زمین دہل رہی تھی اونٹوں کی تعداد دس سے زیادہ معلوم ہوتی تھی ان پر ایک ایک سوار تھا 
وہ محافظوں وغیرہ کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ان کے اردگرد اونٹوں کو دوڑا رہے تھے تین چار چکر پورے کرکے ایک  نے للکارا لڑکیاں ہمارے حوالے کردو تم سے کچھ اور لیے بغیر ہم چلے جائیں گے
اس کے جواب میں حدید نے لیٹے لیٹے پہلا تیر چلایا جسے  تیر لگا اس کی بڑی زور کی آواز سنائی دی دوسرے محافظوں نے بھی لیٹے لیٹے ایک ایک تیر چلایا دو اونٹ بلبلا کر بولے اور بے قابو ہوگئے حدید نے لڑکیوں سے کہا بھاگنا نہیں ہمارے ساتھ رہنا
شتر سواروں میں سے کسی نے کہا ٹوٹ پڑو کسی کو زندہ نہ چھوڑو لڑکیوں کو اُٹھالو
صحرا کی رات اتنی شفاف ہوتی ہے کہ چاندنی نہ ہو تو بھی کچھ دور تک نظر آجاتا ہے شتر سوار اونٹوں سے کود آئے پھر تلواریں اور برچھیاں ٹکرانے کا اور دونوں فریقوں کی للکار کا شور رات کا جگر چاک کرنے لگاکسی کو ایک دوسرے کا ہوش نہ رہا حدید اور محافظوں نے لڑکیوں کو اس طرح اپنے درمیان کر لیا تھا کہ محافظوں کی پیٹھیں لڑکیوں کی طرف تھیں لڑکیوں نے کئی بار کہا  کہ ہمیں بھی کچھ دو حدید نے کہا 
 میری تلوار نکال لو وہ خود برچھی سے لڑ رہا تھا ایک لڑکی نے اس کی نیام سے تلوار نکال لی اور  دونوں محافظوں کے درمیان سے نکل گئی حدید نے اسے کہا ہم سے جدا نہ ہونا لڑکی ڈاکوؤں کا زیادہ ہلہ لڑکیوں پر تھا عالم کی کوئی آواز سنائی نہ دی 
یہ معرکہ بہت دیر لڑا جاتا رہا آدمی بکھرتے چلے گئے محافظ ایک دوسرے کو پکارتے رہے پھر ان کی پکار ختم ہوگئی معرکے کا شور بھی کم ہوتا گیا حدید نے اپنے ساتھیوں کو پکارا لیکن اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا اسے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی وہ اسے پکار رہی تھی اس کے ساتھ ہی ایک گھوڑے کے سرپٹ دوڑنے کی آواز سنائی دی حدید سمجھ گیا کہ کوئی ڈاکو ایک لڑکی کو اونٹ کی بجائے کسی محافظ کے گھوڑے پر ڈال کر لے گیا  ہے وہ دوڑ کر ایک گھوڑے تک پہنچا زین کسی ہوئی تھی وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور بھاگنے والے گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز پر تعاقب میں گیا دوسری لڑکی کے متعلق اسے معلوم نہیں تھا کہ کہاں ہے اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی صحرا میں کوئی رکاوٹ کوئی ندی نالہ نہیں تھا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا اگلا گھوڑا بھی اچھی نسل کا تھا فرق یہ کہ اس گھوڑے پر دو سوار تھے

کوئی ایک میل بعد حدید کو اگلے گھوڑے کا سایہ نظر آنے لگا اس نے تعاقب جاری رکھا فاصلہ کم ہو رہا تھا حدید نے محسوس کیا کہ اس کے پیچھے بھی ایک گھوڑا آرہا ہے جس کا سوار محافظ بھی ہو سکتا تھا اور ڈاکو بھی اس نے گھوم کر دیکھا پچھلا گھوڑا قریب آگیا تھا حدید نے پکارا کون ہو  ؟
اسے جواب نہ ملا اسنے تعاقب جاری رکھا اور گھوڑے کو اور زیادہ تیز کرنے کی کوشش کرنے لگا اگلا گھوڑا سیدھا جا رہا تھا اس کی باگ شاید لڑکی کے ہاتھ میں آگئی تھی کیونکہ حدید دیکھ رہا تھا کہ وہ گھوڑا دائیں بائیں ہو رہا تھا اور اس کی رفتار بھی گھٹتی جا رہی تھی 
وہ اس تک پہنچ  گیا اس کے پاس برچھی تھی اس نے اگلے سوار کو پہلو پر جاکر برچھی کا وار کیا لیکن وہ گھوڑا ایک طرف ہوگیا سوار تو بچ گیا برچھی گھوڑے کو لگی حدید نے گھوڑا روکا اور گھمایا دوسرا سوار بھی گھوڑے کو گھمانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن لڑکی جو اس کے آگے بیٹھی تھی باگیں ادھر ادھر کرکے گھوڑے کا رخ صحیح نہیں ہونے دیتی تھی حدید نے لڑکی کو پکارا تو لڑکی اور زیادہ دلیر ہوگئی ۔
سوار لڑکی کو ساتھ لیے گھوڑے سے اُتر آیا اور اس نے  اپنے گھوڑے کو ڈھال بنا لیا حدید اپنے گھوڑے کوگھما گھما کر لاتا مگر جدھر سے بھی وار کرنے آتا ڈاکو لڑکی کو ساتھ لیے اپنے گھوڑے کی اوٹ میں ہوجاتا آخر حدید گھوڑے سے اُتر آیا اتنے میں دوسرا سوار بھی آگیا وہ  محافظ نہیں ڈاکو تھا وہ بھی گھوڑے سے اُتر آیا حدید نے انہیں للکارا لڑکی کو نہیں لے جاسکو گے ایک ڈاکو نے لڑکی کو دبوچے رکھا اور دوسرا حدید سے لڑنے لگا لڑکی کے پاس اب تلوار نہیں تھی دوسرے ڈاکو نے لڑکی کو چھوڑ دیا اور وہ حدید پر ٹوٹ پڑا حدید نے لڑکی کو پکار کر کہا تم گھوڑے پر بیٹھو اور شوبک کی طرف نکل جاؤ میں ان دونوں کو تمہارے پیچھے نہیں آنے دوں گا 
مگر لڑکی وہیں کھڑی رہی 
حدید نے دونوں کا خوب مقابلہ کیا ڈاکوؤں نے اسے بار بار کہا ایک لڑکی کے لیے اپنی جان  مت گنواؤ حدید نے ہر بار یہی جواب دیا پہلے میری جان لو پھر لڑکی کو لے جانا اور اس نے کئی بار لڑکی سے کہا تم یہاں کیوں کھڑی ہو بھاگو یہاں سے آخر لڑکی نے کہا میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی حدید زخمی ہونے لگا اس نے ایک بار پھر لڑکی سے کہا میں زخمی ہو گیا ہوں میرے مرنے سے پہلے نکل جاؤ 
ایک ڈاکو لڑکی کی طرف گھوما حدید کو موقع مل گیا اس نے برچھی اس کے پہلو میں اُتار دی لیکن اس وقت دوسرے ڈاکو کی تلوار اس کے کندھے پر لگی لڑکی نے ایک ڈاکو کو گرتے دیکھ لیا تھا اس نے دوڑ کر اس کی تلوار لے لی اور پیچھے سے آکر دوسرے ڈاکو کی پیٹھ میں برچھی کی طرح اُتار دی وہ سنبھلنے لگا تو آگے سے حدید کی برچھی اس کے سینے میں اُتر گئی وہ ڈاکو بھی ختم ہوگیا مگر اس کے ساتھ ہی حدید بھی کھڑا رہنے کے قابل نہ رہا لڑکی نے اسے سہارا دیا تو اس نے کہا تم ٹھیک ہونا؟ 
مجھے چھوڑ دو گھوڑے پر بیٹھو اور فوراً شوبک کو روانہ ہو جاؤ اللہ تمہیں خیریت سے پہنچا دے گا شوبک دور نہیں اپنے ساتھیوں کی طرف نہ جانا وہاں شاید کوئی زندہ نہیں ہوگا 
زخم کہاں ہیں؟  لڑکی نے اس سے پوچھا
مجھے مرنے دو لڑکی! حدید نے کہا تم نکل جاؤ خدا کے لیے میرا فرض تم خود ہی پورا کر دو کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اور قزاق ادھر آ نکلے، لڑکی کی غلط فہمی اور شکوک رفع ہوچکے تھے
وہ سمجھ گئی تھی کہ اس شخص نے اس کی خاطر جان خطرے میں ڈالی ہے، اس نے اسے اکیلا چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا دوڑ کر گئی گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھی ہوئی پانی کی چھاگل کھول لائی اور حدید کے منہ کے سے ساتھ لگا دی اسے پانی پلا کر چھاگل گھوڑے کے ساتھ باندھ دی اور اس سے پوچھنے لگی کہ اس کے زخم کہاں ہیں حدید نے اسے زخم بتائے تو اس نے اپنے کپڑے پھاڑے اور کچھ ٹکڑے حدید کے لباس  سے پھاڑے انہیں پانی میں بھگو کر اس نے حدید کے زخموں پر باندھ دیئے اسے اس کام کی ٹریننگ دی گئی تھی اس نے حدید کو سہارا دے کر اُٹھایا اور گھوڑے تک لے گئی بڑی مشکل سے اسے گھوڑے پر بٹھایا خود دوسرے گھوڑے پر بیٹھنے لگی تو حدید نے کہا میں اکیلا گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکوں گا وہاں تین  گھوڑے تھے لڑکی نے یہ دانشمندی کی کہ گھوڑے ضائع کرنے مناسب نہ سمجھے دو گھوڑوں کی باگیں ایک گھوڑے کی زین کے پیچھے باندھ دیں اور خود حدید کے  پیچھے سوار ہوگئی اس نے حدید کی پیٹھ اپنے سینے سے لگا لی اور اس کا سر اپنے کندھے پر ڈال لیا شوبک کی سمت بتا سکتے ہو؟ 
لڑکی نے پوچھا
حدید نے آسمان کی طرف دیکھا ستارے دیکھے اور ایک طرف اشارہ کرکے کہا اس رخ کو چلو پھر اس نے لڑکی سے کہا میں شاید زندہ نہیں رہ سکوں گا خون نکل رہا ہے جہاں کہیں میری جان نکل جائے مجھے وہیں دفن کر دینا اور اگر تمہیں میری نیت پر کوئی شبہ تھا تو وہ دل سے نکال کر مجھے بخش دینا میں نے امانت میں خیانت نہیں کی خدا تمہیں زندہ و سلامت اپنے ٹھکانے پر پہنچا دے
گھوڑا چلا جا رہا تھا اور رات گزرتی جا رہی تھی 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح طلوع ہوئی تو حدید بے ہوشی کی حالت میں تھا اور اپنے آپ کو ہوش میں رکھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا اس کا خون رُک گیا تھا لیکن زیادہ تر خون بہہ جانے سے اس کا جسم بے جان ہوگیا تھا لڑکی نے اسے چھوٹے سے نخلستان میں اُتارا اسے پانی پلایا گھوڑوں کے ساتھ کچھ کھانے کی چیزیں بندھی ہوئی تھیں وہ حدید کو کھلائیں اس سے اس کا دماغ صاف ہونے لگا اسے پہلا خیال یہ آیا کہ وہ اس لڑکی کا محافظ تھا اب اس کا قیدی ہے لڑکی نے اسے لٹا دیا وہ رات بھر گھوڑے پر سوار رہے تھے کچھ دیر کے آرام سے حدید کا جسم ٹھکانے آگیا اس نے لڑکی سے کہا شوبک دور نہیں شاید ایک دن کی مسافت ہے تم ایک گھوڑا لو اور اسے بھگاتی لے جاؤ جلدی پہنچ جاؤ گی میں واپس چلا جاؤں گا 
تم زندہ واپس نہیں پہنچ سکو گے لڑکی نے کہا اگر یہیں سے واپس جانا ہے تو مجھے ساتھ لے چلو تم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی میں مرد ہوں حدید نے کہا میرا دل نہیں مان رہا کہ ایک لڑکی  میری حفاظت کرے اس سے بہتر ہے کہ میں مر جاؤں میں ان معمولی سی لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو گھروں میں پڑی رہتی ہیں لڑکی نے کہا اور جو مرد کی حفاظت کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتیں مجھے ایک فوجی مرد سمجھو فرق صرف یہ ہے کہ میرا ہتھیار میری خوبصورتی میری جوانی اور میری چرب زبانی ہے میں تمہاری طرح سختیاں برداشت کر سکتی ہوں میں شوبک تک پیدل پہنچ سکتی ہوں میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں حدید نے کہا ڈاکو ہم دونوں کو کتنا قریب لے آئے ہیں  مگر ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں تم میرے ملک کی بنیادیں ہلانے کی کوشش کر رہی ہو اور ایک دن میں تمہارے ملک پر حملہ کرنے آؤں گا
لیکن اس وقت میری دوستی قبول کر لو لڑکی نے کہا دشمنی کی باتیں اس وقت سوچیں گے جب تم تندرست ہو کر اپنے ملک چلے جاؤ گے اس نے حدید کی  گردن کے نیچے بازو کر کے اسے اُٹھایا حدید اب اُٹھ سکتا تھا 
وہ اُٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا گھوڑے تک پہنچ گیا لڑکی نے اس کا پاؤں اُٹھا کر رکاب میں رکھا اور اُسے سہارا دے کر گھوڑے پر سوار کر دیا لڑکی بھی اسی  گھوڑے پر سوار ہونے لگی تو حدید نے ہاتھ آگے کر کے اسے روک دیا اور کہا تم اب دوسرے گھوڑے پر بیٹھو میں اکیلا سواری کر سکوں گا اس کے باوجود میں اسی گھوڑے پر بیٹھوں گی لڑکی نے کہا تمہیں اپنے ساتھ لگائے رکھوں گی 
حدید کی ضد کے باوجود لڑکی اس کے پیچھے سوار ہوگئی اور جب ایک بازو اس کے سینے پر رکھ کر اسے اپنے ساتھ لگانے لگی تو حدید نے مزاحمت کرتے ہوئے کہا  مجھے ذرا اپنے سہارے بیٹھنے دو لڑکی نے اسے زبردستی اپنے ساتھ لگا کر اس کا سر اپنے کندھے پر ڈال دیا اس نے حدید سے پوچھا میں جانتی ہوں تم مجھے بدکار لڑکی سمجھ کر مجھ سے دور رہنے کی کوشش کر رہے ہو 
نہیں 
حدید نے کہا میں تمہیں صرف لڑکی سمجھ کر دور رہنے کی کوشش کر رہا ہوں اگر تمہیں اپنے قریب کرنے کر خواہش ہوتی تو دو راتیں تم بے  بسی کی حالت میں میری قید میں رہی ہو میں تمہیں اپنی لونڈی بنا سکتا تھا  لیکن میں نے اپنے اوپر شیطان کا غلبہ نہیں ہونے دیا تھا تو اب تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں امانت میں خیانت کر رہا ہوں میرے اندر گناہ  کا احساس پیدا ہو رہا ہے ۔
تم پتھر تو نہیں ہو؟لڑکی نے اس سے  پوچھا مجھے تو جس مرد نے بھی دیکھا ہے بھوکی نظروں سے دیکھا ہے میں نے صرف اتنی سی قیمت دے کر تمہاری قوم کے دو مومنوں کے ایمان خرید لیے تھے  
کتنی قیمت؟ حدید نے پوچھا 
صرف اتنی سی کہ انہیں پاس بٹھایا اور سر اپنے کندھے پر رکھ لیا تھا ان کے پاس ایمان تھا ہی نہیں حدید نے کہا جو کچھ بھی تھا لڑکی نے کہا وہ میں نے ان سے لے لیا تھا اس  کی جگہ ان کے دلوں میں اپنی قوم کے خلاف غداری ڈال دی تھی 
وہ کون ہیں ؟حدید نے پوچھا 
ابھی نہیں بتاؤں گی لڑکی نے جواب دیا جس طرح تم اپنے فرض کے پکے ہو اسی طرح مجھے بھی اپنا فرض عزیز ہے 
حدید خاموش ہوگیا وہ لڑکی کے جسم کی حرارت اور ہلکی ہلکی بو محسوس کر رہا تھا لڑکی کے کھلے ہوئے ریشمی سے بال ہوا سے لہرا کر اس کے گالوں پر پڑ رہے تھے اور گالوں کو سہلا رہے تھے اسے اونگھ آگئی گھوڑا چلتا رہا بہت دور جا کر حدید کی آنکھ کھلی تو سورج سر پر آچکا تھا اس نے کہا گھوڑے کو ایڑ لگاؤ مجھے اُمید ہے کہ ہم سورج غروب ہونے کے بعد شوبک پہنچ جائیں گے لڑکی نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور صحرا تیزی سے پیچھے ہٹنے لگا
سورج غروب ہو چکا تھا شوبک کے قلعے کے اس کمرے میں جہاں صلیبی حاکموں اور کمانڈروں کے اجلاس ہوا کرتے تھے  وہاں حاکم اور کمانڈر بیٹھے تھے ان میں عالم جاسوس بھی بیٹھا تھا وہ کہہ رہا تھا میں یہ نہیں بتا سکتا  کہ دونوں لڑکیوں کا کیا حشر ہوا یا ہو رہا ہے 
میں نے انہیں بچانے بلکہ انہیں دیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ ان سے زیادہ قیمتی یہ راز تھا جو  مجھے آپ تک پہنچانا تھا جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ڈاکوؤں نے حملہ کیا تو میں موقع دیکھ کر ایک طرف ہوگیا اور گھوڑے تک پہنچ گیا ایک تو میری رہائی معجزہ ہے دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ میں اتنے خون ریز معرکے میں سے صاف بچ کر نکل آیا کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آیا میرا خیال ہے کہ وہ ڈاکو نہیں تھے سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھیجے ہوئے آدمی تھے 
یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس نے ہم تینوں کو خود سزائے موت کیوں نہ دی اور لڑکیوں کو خراب کرانے کا یہ طریقہ کیوں اختیار کیا یہ ایک ڈھونگ تھا لڑکیاں اب ان لوگوں کے قبضے میں ہوں گی اور ظالمانہ اذیتیں برداشت کر رہی ہوں گی
انہیں چھڑانے کا ہم کوئی طریقہ نہیں سوچ سکتے ایک صلیبی حاکم نے کہا یہ قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں ہمارے پاس لڑکیوں کی کمی نہیں ہمارا یہ طریقہ کامیاب ہے اسے جاری رکھنے کے لیے اور لڑکیاں تیار کرو سب آگئے  ہیں۔اب وہ راز بتاؤ جو تم اپنے ساتھ لائے ہو
عالم جاسوس انہیں سنا چکا تھا کہ وہ قاہرہ کی ایک مسجد سے کس طرح گرفتار ہوا تھا قید خانے میں اس کے ساتھ اور لڑکیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا اور سلطان ایوبی نے انہیں کس طرح خلاف توقع رہا کیا اس نے یہ بھی سنایا کہ یہ راز سلطان ایوبی نے اسے کس طرح دیا ہے اس نے تاریخ بتا کر کہا صلاح الدین ایوبی اس روز اپنی فوج کو کوچ کرائے گا وہ کرک پر حملہ کرے گا نائب سالار کہہ رہے تھے کہ شوبک کو پہلے لینا چاہیے کیونکہ یہ مضبوط قلعہ ہے لیکن صلاح الدین ایوبی شوبک پر اپنی طاقت نہیں ضائع کرنا چاہتا وہ کرک کو کمزور سمجھ کر پہلے اسے  لینا چاہتا ہے وہاں وہ اپنی فوج اور رسد وغیرہ کا اڈہ بنائے گا رسد جمع کر کے وہ کمک بلائے گا اور فوج کو کافی آرام دے کر شوبک پر حملہ کرے گا اس نے یہ خاص طور پر کہا تھا کہ وہ ہمیں بے خبری میں لینا چاہتا ہے اس کی  وجہ اس نے یہ بتائی ہے کہ اس کی فوج کم ہے اور ہماری فوج زیادہ بھی ہے اور  ہمارے پاس گھوڑے بھی بہتر ہیں اور ہمارے پاس خود اور زرہ بکتر ہیں اس نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر صلیبی فوج نے اسے راستے میں روک لیا تو اسے  شکست کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا وہ کھلے میدان میں لڑنے سے ڈرتا ہے عالم جاسوس نے وہ تمام باتیں بتائیں جو اس نے سلطان ایوبی کی زبان سے سنی تھیں 
اتنے قیمتی اور اہم راز کی تفصیل سن کر لڑکیوں کو سب بھول گئے اور اس مسئلے پر تبادلہ خیالات کرنے لگے وہ اس نتیجے پر پہنچے کر سلطان ایوبی غیر معمولی طور پر دانشمند جنگجو ہے اس نے کرک پر حملے کا جو پلان بنایا ہے اس میں اس کی جنگی فہم و فراست کا پتہ ملتا ہے۔ راستے میں نہ لڑنے کا فیصلہ بھی اس کی دانائی کی دلیل ہے وہ راستے میں طاقت ضائع نہیں کرنا چاہتا یہ خدائے یسوع مسیح کا خاص کرم ہے کہ اس کے پلان کا علم ہوگیا  ہے ورنہ وہ کرک کو لے کر شوبک جیسے مضبوط دفاع کے لیے خطرہ بن سکتا تھا انہوں نے اسی وقت سلطان ایوبی کے پلان کے مطابق اپنی فوجوں کی نقل و حرکت اور اور دفاع کا پلان بنانا شروع کر دیا پلان میں یہ اقدامات طے پائے
صلیبی افواج کی متحدہ مرکزی کمان شوبک میں ہی رہے گی رسد گاہ بھی وہیں رکھی جائے گی جنگ کو شوبک سے ہی کنٹرول کیا جائے گا
کرک کی قلعہ بندی کو اور زیادہ مضبوط کیا جائے گا کچھ اور فوج کرک منتقل کردی جائے گی
ایوبی کو کرک سے دور اس کی اپنی سرحد کے اندر کسی دشورا گزار علاقے میں روکا جائے گا اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ فوج بھیجی جائے گی اس فوج  میں گھوڑ سوار اور شتر سوار زیادہ ہوں گے کوشش کی جائے گی کہ ایوبی کی فوج  کو گھیرے میں لے لیا جائے پانی کے چشموں پر پہلے سے قبضہ کر لیا جائے
ان اقدامات پر فوری طور پر عمل درآمد کے احکامات نافد کردئیے گئے ہر کوئی خوش تھا یہ پہلا موقع تھا کہ سلطان ایوبی کا کوئی راز قبل از وقت معلوم ہوگیا تھا ورنہ اس نے صلیبیوں کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا تھا 
اس پر حیرت کا  بھی اظہار کیا گیا کہ سلطان ایوبی جیسے آدمی سے یہ لغزش سردز ہوئی کہ ان  جاسوسوں کو دوسرے کمرے میں بٹھا کر جنہیں وہ رہا کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا  ایسی نازک باتیں بلند آواز سے کیں جو اسے شکست فاش سے دو چار کر سکتیں تھیں۔ انہوں نے ایک اہتمام یہ بھی کیا کہ فرانس کی فوج جو وہاں سے بہت دور تھی یہ پیغام بھیج دیا کہ فلاں دن سے پہلے پہلے ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی کمک کو روکا جا سکے
اتنے میں ایک صلیبی افسر اندر آیا اور انٹیلی جنس کے سربراہ کے کان میں کچھ کہا اس  سربراہ نے سب کو بتایا کہ ان دو میں سے ایک لڑکی جو ڈاکوؤں کے گھیرے میں  آگئی تھی ابھی ابھی آئی ہے اطلاع ملی ہے کہ اس کے ساتھ ایک زخمی مسلمان  محافظ ہے عالم جاسوس سب سے پہلے کمرے سے نکل گیا اس کے پیچھے دوسرے لوگ  بھی باہر چلے گئے حدید کو لڑکی نے برآمدے میں لٹا دیا تھا اور خود اس کے  پاس بیٹھی تھی گھوڑے کی اتنی لمبی سواری اور تیز رفتاری نے حدید کے زخم کھول دئیے تھے اس کا خون جو صبح بند ہو گیا تھا پھر بہنے لگا تھا اور اس پر غشی طاری ہوئی جا رہی تھی صلیبی کمانڈروں نے حدید کی طرف کوئی توجہ نہ دی کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ ڈاکوؤں کا حملہ ایک ڈھونگ تھا انہوں نے لڑکی کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے اندر چلنے کو کہا۔ وہ بڑی قیمتی لڑکی تھی لیکن اس نے اس وقت تک اندر جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا جب تک حدید کی مرہم  پٹی نہیں ہوجاتی
انٹیلی جنس کا سرابراہ ہرمن نام کا جرمن تھا اس نے لڑکی کو پرے لے جاکر کہا کس سانپ کے بچے کی تم مرہم پٹی کرانا چاہتی ہو یہ تو تمہاری قسمت اچھی تھی کہ بچ کر آگئی ہو ، ورنہ یہ درندے تمہیں ان وحشیوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے جو ڈاکو بن کر آئے تھے
یہ جھوٹ ہے لڑکی نے جھنجھلا کر کہا پہلے ہمیں بھی یہی شک تھا لیکن اس شخص نے میرے سارے شکوک رفع کر دئیے ہیں اس نے دو ڈاکوؤں کو ہلاک  کرکے مجھے بچایا ہے اس نے ہرمن کو سارا واقعہ سنادیا اور یہ بھی بتایا  کہ یہ شخص اسے بار بار کہتا تھا کہ مجھے یہیں مرنے دو اور تم چلی جاؤ
صلیبیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اتنی گہری اُتری ہوئی تھی کے  اتنے زیادہ افسروں میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ اس زخمی کی مرہم پٹی کرو۔ عالم جاسوس تک نے اس کی طرف توجہ نہ دی لڑکی ان کے ساتھ اندر نہیں جارہی تھی آخر کسی نے کہا کہ زخمی کو کمرے میں لے چلو اور فوراً مرہم پٹی کرو اسے اُٹھوا کر لے گئے اور لڑکی اپنے افسروں کے ساتھ چلی گئی۔ اسے کہا گیا کہ وہ بیان کرے کہ کس طرح زندہ بچی ہے۔ اس نے سب تفصیل سے سنا دیا اس دوران وہیں کھانا اور شراب آگئی۔ اس نے کہا اگر زخمی کو  کھانا کھلایا جا چکا ہے تو میں کھاؤں گی میں ذرا اسے دیکھ آؤں وہ جانے کے لیے اُٹھی
ٹھہرو لوزینا! ہرمن نے اسے بڑے رعب سے کہا تم دوسری بار صلیب کی فوج کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہو۔ پہلے  تمہیں اندر چلنے کو کہا گیا تو تم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ پہلے زخمی  کو اُٹھاؤ اب تو بلا اجازت اور بدتمیزی سے باہر جارہی ہو یہ سب صلیبی فوج کے اعلیٰ احکام ہیں اور یہاں دو صلیبی حکمران بھی بیٹھے ہیں۔جانتی ہو اس حکم عدولی اور بدتمیزی کی سزا کیا ہے؟
دس سال سزائے قید اور جب تم  یہ حکم عدولی دشمن کے ایک معمولی سے عہدیدار کی خاطر کر رہی ہو، تو تمہیں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے
کیا صلیبی حکمران اور کمانڈر اس انسان کو اس کا صلہ نہیں دیں گے کہ اس نے ان کی ایک تجربہ کار جاسوسہ کی جان اپنی جان خطرے میں ڈال کر بچائی ہے ؟
لڑکی نے کہا میں جانتی ہوں کہ وہ میرے دشمن کی فوج کا عہدیدار ہے لیکن میں اسے دشمن اس وقت کہوں گی جب وہ اپنی فوج میں واپس چلا جائے گیا
دشمن ہر حال میں اور ہر جگہ دشمن ہے ایک صلیبی کمانڈر نے چلا کر کہا فلسطین میں ہم نے کتنے مسلمانوں کو زندہ رہنے دیا ہے؟ 
اس کی نسل ہم کیوں ختم کرر ہے ہیں ؟ 
اس  لیے کہ وہ ہمارے دشمن ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ہمارے مذہب کے دشمن ہیں دنیا پر صرف صلیب کی حکمرانی ہوگی ایک زخمی مسلمان ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا بیٹھ جاؤ لڑکی بیٹھ گئی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے
 اگلی صبح سے شوبک میں ایک نئی سرگرمی شروع ہوگئی یہ فوجی نوعیت کی سرگرمی  تھی شوبک کے شہر کے لوگ اس سرگرمی سے بے نیاز اپنے کام کاج میں مصروف ہوتے جا رہے تھے قلعے سے فوجیں نکل رہی تھیں سامان بھی ادھر ادھر کیا جا رہا  تھا باہر سے آنی والی فوج کی عارضی خیمہ گاہ کے لیے جگہ خالی کی جا رہی  تھی رسد اکٹھی کرنے کے لیے اونٹوں کی قطاریں آرہی تھیں۔ فوجی ہیڈ کوارٹر  میں بھی بھاگ دوڑ تھی یہ ساری تیاری صلاح الدین ایوبی کا حملہ روکنے کے  لیے کی جا رہی تھی اور ان احکامات پر عمل درآمد شروع ہوگیا تھا جو گزشتہ رات کے پلان کے مطابق دئیے گئے تھے ۔ ہر ایک افسر اس افراتفری میں مصروف تھا۔ چند ایک بڑے افسر کرک روانہ ہوگئے تھے
صرف ایک لڑکی تھی جو اس  سرگرمی اور بھاگ دوڑ سے لا تعلق تھی یہ وہی لڑکی تھی جو زخمی حدید کو  لائی تھی اس کے افسر نے اسے لوزینا کے نام سے پکارا تھا رات اسے  کانفرنس کے کمرے سے آدھی رات کے بعد فراغت ملی تھی ۔ وہ جاسوسی کے خصوصی  شعبے سے تعلق رکھتی تھی اس لیے کانفرنس میں اس کی ضرورت تھی اس سے قاہرہ  کے ان افراد کے متعلق رپورٹیں لینی تھیں جن کے پاس وہ جاتی رہی تھی آدھی رات کے بعد نیند اور گھوڑ سواری کی تھکن نے اسے نڈھال کر دیا تھا کانفرنس کے بعد ایک افسر نے اسے کہا تھا
اسے ڈاکٹر کے حوالے کر دیا گیا ہے تمہیں اس کی اتنی زیادہ پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ تمہاری ڈیوٹی ایسی ہے جس میں ایسے جذبات کامیاب نہیں ہونے دیا کرتے اور اس کے اپنے شعبے کے بڑے  افسر ہرمن نے اسے کہا تھا
اگر آج رات میں نہ ہوتا تو نارڈ اور گے آف لوزینان جیسے بادشاہ کسی کو بخشا نہیں کرتے تمہیں قید میں ڈال دیتے تمہارے محافظ کا انتظام کر دیا گیاہے اور تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ اسے تم نہیں ملو گی
کیوں؟ لوزینا نے حیرت اور مایوسی سے پوچھا کیا میں اس کا شکریہ بھی ادا نہ کر سکوں گی؟
نہیں ہرمن نے کہا کیونکہ وہ دشمن کا فوجی ہے تم اپنا شعبہ جانتی ہو کیا ہے ہم تمہیں اس سے ملنے کی اجازت نہیں دے سکتے تمہیں دشمن  کے ساتھ ایسی وابستگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی
آپ مجھے صرف اتنا سا یقین دلا دیں کہ اس کی مرہم پٹی ہوگئی ہے لوزینا نے کہا اور اسے صحیح و سلامت واپس بھیج دیا جائے گا
لوزینا! ہرمن نے جھنجھلا کر کہا میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہاری یہ خواہش  پوری کر دی جائے گی اور سنو۔ تم بڑے مشکل اور خطرناک مشن سے واپس آئی ہو اور تمہارا سفر زیادہ خطرناک تھا تمہیں آرام کے لیے دس دن چھٹی دی جاتی ہے مکمل آرام کرو 
یہ باتیں رات کو ہوئی تھیں وہ اپنے کمرے میں  چلی گئی تھی جاسوس لڑکیوں کی رہائش ہائی کمان کے مین کوارٹر سے بہت دور تھی اس جیسی اعلیٰ درجے کی جاسوس لڑکیاں نہایت اچھے کمروں میں رہتی تھیں۔  جہاں انہیں شہزادیوں جیسی سہولتیں اور عیاشی میسر تھی۔ ان کی ڈیوٹی ایسی تھی کہ انہیں مسلمان ملکوں میں بھیجا جاتا تھا جہاں پکڑے جانے کی صورت میں انہیں ہر قسم کے اذیت اور ذلت میں ڈالا جا سکتا تھا موت یا سزائے موت تو یقینی تھی ایسی ڈیوٹی کا تقاضا تھا کہ ان لڑکیوں کو دنیا کی ہر آسائش مہیا کی جائے۔ لوزینا کمرے میں جاتے ہی سو گئی تھی دوسرے دن اس کا جسم ٹوٹ رہا تھا وہ اُٹھنا نہیں چاہتی تھی لیکن وہ اُٹھی اور ناشتہ کرکے باہر  نکل گئی اس کے ساتھ والے کمرے میں لڑکیاں آگئیں وہ اس سے قاہرہ کی باتیں  سننا چاہتی تھیں اس نے بہت ہی مختصر سی بات سنا کر انہیں ٹال دیا اور  ہسپتال کی طرف چل پڑی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی