👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟞 𝟚⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟞  𝟚⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انہیں خفیہ الفاظ بتائے اور کہا کہ وہ فیض الفاطمی تک رسائی حاصل کریں اور اسے بتائیں کہ تین میں سے ایک لڑکی یہاں آ گئی ہے لیکن وہ فلاں مکان میں قید ہے جہاں سے اسے نکالا جا سکتا ہے انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ فیض الفاطمی کو رجب کا جھوٹا پیغام دیں کہ اس لڑکی کو بچاؤ اور اپنی کاروائیاں تیز کردو
ان جاسوسوں نے تین دنوں کے اندر فیض الفاطمی تک رسائی حاصل کر لی اور اس پر ثابت کر دیا کہ وہ اس کے زمین دوز گروہ کے افراد ہیں فیض الفاطمی کو یہ خطرہ بھی تھا کہ لڑکی چونکہ قید میں ہے اس لیے اذیت کے زیر اثر بتا دے گی کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہے فیض الفاطمی کے لیے اپنا تحفظ ضروری تھا لہٰذا اس نے لڑکی کے اغوا کا منصوبہ بنایا اس میں اس نے کماندار کو اپنے ساتھ رکھا دو آدمی علی بن سفیان کے بھیجے ہوئے اور دو اپنے ملا کر ان کے سپرد یہ کام دیا کہ وہ لڑکی کو اُٹھا لائیں گے اور کھنڈر میں پہنچا دیں اس کھنڈر کو انہوں نے کچھ عرصے سے اپنا خفیہ اڈہ بنا رکھا تھا منصوبہ بن گیا تو علی بن سفیان تک پہنچ گیا پانچ چھ مردوں میں احمد کمال اور لڑکی کو بتایا گیا کہ وہ برآمدے میں سوئیں گے اور رات کے وقت لڑکی اغوا ہوگی جس کے خلاف وہ مزاحمت نہیں کریں گے مکان کے باہر ہر وقت ایک سپاہی پہرے پر رہتا تھا اس رات جو آدمی پہرے پر تھا وہ سپاہی نہیں بلکہ علی بن سفیان کے محکمے کا جاسوس تھا اسے معلوم تھا کہ رات کو اس پر حملہ ہوگا اور حملہ کس طرح کا ہوگا حملہ کرنے والا علی بن سفیان کا آدمی تھا اگر فیض الفاطمی کا آدمی ہوتا تو وہ اسے خنجر مار کر ہلاک کر دیتا 
اس رات فیض الفاطمی اور کماندار کھنڈر میں چلے گئے مقررہ وقت پر پہرے دار پر حملہ ہوا دیوار پھلانگی گئی اس وقت احمد کمال جاگ رہا تھا اس نے دیکھا کہ لڑکی کو اُٹھا لیا گیا ہے لیکن وہ آنکھیں بند کر کے لیٹا رہا اس نے تڑپنا اس وقت شروع کیا جب وہ رسیوں میں بندھ چکا تھا لڑکی کو کھنڈر میں پہنچا دیا گیا یہ ڈرامہ اس لیے کھیلا گیا تھا کہ فیض الفاطمی نے اغوا کا منصوبہ بنایا اور اس میں اپنے دو آدمی شامل کر دئیے تھے
ان پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ یہ حقیقی اغواء ہے اور اس میں کوئی دھوکہ فریب نہیں آخر دم تک شک نہ ہوا اغواء کے بعد علی بن سفیان نے پہرہ دار اور احمد کمال کی رسیاں کھولیں پیادہ سپاہی اور سوار تیار تھے تھوڑے سے وقفے کے بعد وہ کھنڈر کی طرف روانہ ہوگئے اور کھنڈر کو گھیرے میں لے لیا

انہیں سب سے پہلے علی بن سفیان کے ہی ایک آدمی نے دیکھا جس نے فیض الفاطمی کو جا کر اطلاع دی اسے باہر لا کر گھیرا دکھایا اور یہ مشورہ دیا کہ وہ اسی کمرے میں چلا جائے اسے ادھر بھیج کر یہ آدمی باہر نکل گیا اور علی بن سفیان اور احمد کمال کو اندر لے گیا یہ اس آدمی کی دانشمندی تھی کہ اس نے فیض الفاطمی کو اسی کمرے میں چھپے رہنے پر قائل کر لیا تھا اگر وہ کھنڈر کے  بھول بھلیوں جیسے کمروں برآمدوں گلیوں اور تہہ خانوں میں نکل جاتا تو اسے پکڑنا آسان نہ ہوتا کھنڈر بہت وسیع اور پیچیدہ تھا باہر تو چاندنی تھی لیکن اندر تاریکی تھی جس میں تعاقب کیا جاتا تو اپنے آدمیوں کے مارے جانے کا بھی خطرہ تھا بالکل آخری وقت فیض الفاطمی کو پتہ چلا کہ کماندار اور دو آدمی اس کے ساتھی نہیں بلکہ اسے دھوکے میں یہاں لائے ہیں لڑکی سے  یہ غلطی ہوئی کہ اس کے منہ سے کچھ ایسے الفاظ نکل گئے جس سے ظاہر ہوگیا کہ یہ بھی اس دھوکے میں شریک ہے فیض الفاطمی کے دو ساتھی اس کے پاس پہنچ گئے دھوکہ بے نقاب ہوگیا اور لڑائی شروع ہوگئی فیض الفاطمی نے لڑکی کے پیٹ میں نوک کی طرف سے تلوار ماری اور اس کا پیٹ چاک کر دیا اس نے لڑکی کو غالباً اس لیے بھی قتل کرنا ضروری سمجھا تھا کہ وہ اس کے خلاف گواہی دینے کے لیے بھی زندہ نہ رہے۔

فیض الفاطمی اور اس کے ساتھیوں کو قید میں ڈال دیا گیا علی بن سفیان نے تینوں کو الگ الگ قید میں رکھا اور تینوں کو  رجب کا سر دکھا کر کہا اپنے دوست کا انجام دیکھ لو اگر تمہیں یہ توقع ہے کہ تمہیں فوراً سزا دے دی جائے گی تو یہ خیال دماغوں سے نکال دو جب تک اپنے پورے گروہ کو سامنے نہیں لاؤ گے تمہیں چکر شکنجے میں باندھے رکھوں گا جینے بھی نہیں دوں گا مرنے بھی نہیں دوں گا 
لڑکی کی حالت اچھی نہیں تھی طبیبوں اور جراحوں نے اسے بچانے کی پوری کوشش کر ڈالی مگر کٹی ہوئی انتڑیوں کا کوئی علاج نہ ہو سکا وہ پھر بھی مطمئن تھی جیسے اسے پیٹ کے مہلک زخم کی پروا ہی نہیں تھی اس کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ احمد کمال کو میرے پاس بیٹھا رہنے دو سلطان ایوبی بھی اس کی عیادت کے لیے آیا احمد کمال امیر مصر اور اپنی فوج کے سالار اعلیٰ کو دیکھ کر تعظیم کے لیے اُٹھا تو لڑکی نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا احمد کمال سلطان ایوبی کی موجودگی میں بیٹھ نہیں سکتا تھا 
 آخر سلطان نے اسے لڑکی کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے دی سلطان ایوبی نے لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور شفقت سے صحت یابی کی دعا دی
تیسری رات احمد کمال لڑکی کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا لڑکی نے انوکھے سے لہجے میں پوچھا احمد! تم نے میرے ساتھ شادی کر لی ہے نا میں نے اپنا وعدہ پورا کیا تم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے خدا نے میرے گناہ بخش دئیے ہیں  اس کی زبان لڑکھڑانے لگی اس نے احمد کمال کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں مظبوطی سے پکڑ لیا مگر گرفت فوراً ڈھیلی پڑگئی احمد کمال نے کلمہ شریف پڑھا اور لڑکی کو خدا کے سپرد کر دیا دوسرے دن سلطان ایوبی کے حکم کے مطابق لڑکی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا
فیض الفاطمی نے اور اس کے ساتھیوں نے صرف دو دن اذیتیں سہیں اور اپنے گروہ کی نشاندہی کر دی ان لوگوں کو بھی پکڑ لیا گیا مراکشی واقعہ نگار اسد الا سدی نے سلطان ایوبی کے وقت کے ایک کاتب کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطان ایوبی نے جب فیض الفاطمی کی سزائے موت پر دستخط کیے تو سلطان زار و قطار رونے لگا تھا

یہ واقعہ 1171ء کا ہے
 قاہرہ میں ایک مسجد تھی جو اتنی بڑی نہیں تھی کہ لوگ وہاں جمعہ کی نماز  پڑھتے اور اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی کہ نمازیوں کی کمی ہوتی یہ قاہرہ کے اس علاقے میں تھی جو شہر کا قریبی مضافات یا شہر کے باہر کا علاقہ تھا جہاں درمیانے اور اس سے کم درجے کے لوگ رہتے تھے مذہب کا احترام انہی لوگوں  کے دلوں میں رہ گیا تھا مگر ان کی بدنصیبی یہ تھی کہ تعلیم سے بے بہرہ تھے جذباتی استدلال اور دلکش الفاظ سے فوراً متاثر ہوتے اور انہیں قبول کرلیتے تھے صلاح الدین ایوبی نے مصر میں آکر جو نئی فوج تیار کی تھی اس  میں ان کنبوں کے افراد زیادہ بھرتی ہوئے تھے جس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ ذریعہ معاش تھا سلطان ایوبی نے فوج کی تنخواہ میں کشش پیدا کی تھی اور متعدد سہولتیں بھی تھیں دوسری وجہ یہ کہ یہ لوگ جہاد کو فرض سمجھتے تھے وہ اسلام کے نام پر جان اور مال قربان کرنے کو تیار رہتے تھے اس دور میں اس جذبے کی شدید ضرورت تھی سرکاری طور پر انہیں بتایا گیا تھا کہ  صلیبی دنیا عالم اسلام کا نام و نشان مٹانے کے لیے اپنے تمام تر ذرائع اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے
چھ سات مہینوں سے یہ گمنام  سی مسجد مشہور ہوگئی تھی یہ شہرت نئے امام کی بدولت تھی جو عشاء کی نماز کے بعد درس دیا کرتا تھا پہلا پیش امام صرف تین روز پہلے ایسی بیماری سے مر گیا تھا جسے کوئی حکیم اور سیانا سمجھ ہی نہیں سکا وہ پیچش کے درد اور آنتوں کی سوزش کی شکایت کرتا تھا اسی روگ سے مر گیا وہ عام سا ایک مولوی تھا جو صرف نماز باجماعت پڑھاتا تھا اس کی وفات کے اگلے ہی روز سرخ  و سفید چہرے اور بھوری داڑھی والا ایک مولوی آیا جس نے امامت کے فرائض اپنے ذمے لینے کی پیشکش کی لوگوں نے اسے قبول کر لیا وہ کہیں جھونپڑے میں رہتا تھا اس کی دو بیویاں تھیں اس نے لوگوں کو بتایا تھا کہ وہ علم  کا شیدائی اور مذہب کے سمندر کا غوطہ خور ہے وہ خاطر و مدارت کا لوگوں سے نذرانے وصول کرنے کا قائل نہیں تھا اس کی ضرورت صرف یہ تھی کہ اسے کشادہ اور اچھا مکان مل جائے جہاں وہ دو بیویوں کے ساتھ عزت سے اور پردے میں رہ سکے

لوگوں نے مسجد کے قریب ہی اسے ایک مکان خالی کرا دیا جس کے کئی ایک کمرے تھے لوگوں نے دیکھا کہ وہ دونوں بیویوں کے ساتھ اس مکان میں آیا۔ بیویاں سیاہ برقعوں میں مستور تھیں ان کے ہاتھ بھی نظر نہیں آتے تھے پاؤں تک چھپے ہوئے تھے اسے لوگوں نے ضروری سامان وغیرہ دے کر آباد کر دیا لوگ ایک تو اس کی ظاہری شخصیت سے متاثر ہوئے لیکن جس جادو نے انہیں اس کا گرویدہ کیا وہ اس کی آواز کا جادو تھا اس مسجد میں اس نے پہلی آذان دی تو جہاں جہاں تک اس کی آواز پہنچی سناٹا سا طاری ہوگیا ایک مقدس  ترنم زمین و آسمان پر وجد طاری کر رہا تھا یہ ایک طلسم تھا جو ان لوگوں کو بھی مسجد میں لے گیا جو گھروں میں نماز پڑھتے یا پڑھتے ہی نہیں تھے اسی رات اس نے عشاء کی نماز کے بعد نمازیوں کو پہلا درس دیا اور انہیں کہا  کہ وہ ہر رات درس دیا کرے گا چھ سات مہینوں میں اس نے لوگوں کو اپنا  گرویدہ بنالیا بعض لوگ تو اس کے مرید بن گئے اس مسجد میں جمعہ کی نماز  نہیں پڑھی جاتی تھی اس پیش امام نے جو دراصل عالم تھا وہاں جمعہ کی نماز بھی شروع کر دی
چھ سات مہینوں بعد اس مسجد اور اس پیش امام کی  شہرت دور دور تک پہنچ گئی شہر کے بھی کچھ لوگ اس کے درس میں جانے لگے وہ اسلام کے جن بنیادی اصولوں پر زیادہ زور دیتا تھا وہ تھے عبادت اور محبت وہ لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کے خلاف سبق دیتا تھا اس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ عقیدہ پختہ کر دیا تھا کہ انسان اپنی تقدیر خود نہیں بنا سکتا جو کچھ ہے وہ خدا کے ہاتھ میں ہے انسان کمزور سا ایک کیڑا ہے اس عالم کا  انداز بیان بڑا ہی پر اثر ہوتا تھا وہ قرآن ہاتھ میں لے کر ہر بات قرآن کی کسی نہ کسی آیت سے واضح کرتا تھا صلاح الدین ایوبی کی وہ بے حد تعریف کیا کرتا اور اکثر کہا کرتا تھا کہ یہ مصر کی خوش بختی ہے کہ اس ملک کی  امارت اسلام کے ایسے شیدائی کے ہاتھ میں ہے اس نے جہاد کا فلسفہ اور  مفہوم بھی پیش کیا تھا جو لوگوں کے لیے نیا تھا لیکن انہوں نے بلا حیل و  حجت اسے تسلیم کر لیا

ایک رات عشاء کی نماز کے بعد وہ اپنا درس  شروع کرنے لگا تو ایک آدمی نے اُٹھ کر عرض کی عالم عالی مقام! خدا آپ کے علم کی روشنی جنات تک اور اس مخلوق تک بھی پہنچائے جو ہمیں نظر نہیں آتی میں اپنے آٹھ دوستوں کے ساتھ بہت دور سے آیا ہوں ہم آپ کے علم کی شہرت سن کر آئے ہیں اگر گستاخی نہ ہو اور عالم عالی مقام کی خفگی کا باعث نہ بنے تو ہمیں جہاد کے متعلق کچھ بتائیں ہم شک میں ہیں لوگوں نے بتایا ہے  کہ ہمیں جہاد کا مطلب غلط بتایا جا رہا ہے ۔
سات آٹھ آوازیں سنائی دیں 
ہم نے یہ درس نہیں سنا تھا 
ایک نے کہا یہ وقت کی آواز ہے جو ہمارے کانوں میں بگاڑ کر ڈالی گئی ہے ہم صحیح بات سننا چاہتے ہیں 
عالم نے کہا یہ قرآن کی آواز ہے جسے کوئی نہیں بگاڑ سکتا میرا فرض  ہے کہ صحیح آواز کو ایک ہزار بار دہراؤں تاکہ یہ ہر ایک کان میں پہنچ جائے جہاد کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے ان کی  گردنیں کاٹو  جہاد کا مطلب قتل و غارت نہیں خون خرابہ نہیں اس نے  قرآن میں سے ایک آیت پڑھی اور اس کی تفسیر یوں بیان کی یہ میرا علم  نہیں یہ فرمان خداوندی ہے کہ تم بدی اور گناہ کے خلاف لڑتے ہو تو اسے  جہاد کہتے ہیں جو ہم سب پر فرض کر دیا گیا ہے 
کیا تم نے نہیں سنا کہ  اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ پیار کے زور سے پھیلا ہے؟ 
جہاد کی شکل بعد میں آکر بگڑی ہے اور یہ انہوں نے بگاڑی ہے جو بادشاہی کے دلدادہ ہیں عیسائی بھی دوسروں کے ملکوں کو اپنی سلطنت بنانے کے لیے جنگ و جدل کو مقدس جنگ کہتے ہیں اور مسلمان بھی اسی ارادے سے قتل و غارت کو جہاد کہتے ہیں یہ صرف حکومتیں اور بادشاہیاں قائم کرنے کے ڈھنگ ہیں لوگوں کو مذہب کے نام بھڑکا کر لڑایا جاتا ہے اور اس طرح بادشاہوں کی بنیادیں مضبوط کی جاتی  ہیں 
تو کیا امیر مصر صلاح الدین ایوبی ہمیں گمراہ کرکے لڑا رہا ہے ؟
اس آدمی نے پوچھا جس نے جہاد کا صحیح مطلب سمجھنا چاہا تھا 
نہیں! 
عالم نے جواب دیا صلاح الدین ایوبی پر اللّٰہ کی رحمت ہو اسے بڑوں نے جو بتایا ہے وہ سچے مسلمان کی حیثیت سے پوری نیک نیتی سے اس پر  عمل کر رہاہے اس کے دل میں عیسائیوں کے خلاف نفرت ڈالی گئی ہے وہ اس کے  مطابق عمل کر رہا ہے ذرا غور کرو کہ عیسائی اور مسلمان میں کیا فرق ہے دونوں کا نبی مشترک ہے آگے آکر ذرا اختلاف پیدا ہوگیا ہے حضرت موسیٰ محبت اور امن کا پیغام لائے تھے ہمارے رسولﷺ بھی محبت کا پیغام دے گئے ہیں پھر تلوار اور زرہ بکتر کہاں سے آگئی؟ 
یہ ان لوگوں کی لائی ہوئی چیزیں ہیں جو خدا کی اتنی پیاری زمین پر جس پر صرف اسی کی ذات باری کی حکمرانی ہے وہ اپنی حکومت قائم کرتے اور خدا کے بندوں کو اپنا غلام بناتے ہیں میں امیر مصر کے دربار میں حاضری دوں گا اور اس کی خدمت اقدس میں جہاد کا صحیح نقطہ واضح کروں گا امیر مصر صلاح الدین ایوبی نے صحیح جہاد شروع کر رکھا ہے جو جہالت اور بے علمی کے خلاف ہے اس نے خطبے سے خلیفہ کا نام نکال کر بہت بڑا جہاد کیا ہے اس نے مدرسے کھول کر بھی جہاد کیا ہے لیکن مدرسوں میں یہ خرابی ہے کہ جہاں مذہب اور معاشرت کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں عسکری تربیت بھی دی جاتی ہے بچوں کو خدا کے نام پر غارت گری کے سبق دئیے جاتے ہیں انہیں تیغ زنی اور تیر اندازی سکھائی جاتی ہے جب تم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں تلوار اور تیر کمان دو گے تو انہیں یہ بھی بتاؤ گے کہ ان سے وہ کیسے ہلاک کریں ظاہر ہے کہ تم انہیں کچھ انسان دکھاؤ گے اور کہو گے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں انہیں ہلاک کرو

عالم کی آواز میں ایسا تاثر تھا اور اس کے دلائل میں اتنی کشش تھی کہ سننے والے مسحور ہوتے جارہے تھے اس نے کہا اپنے بچوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ گے کیونکہ اپنے بچوں کو غلط راستے میں ڈالنے والے تم تھے تمہیں جنت میں اپنے بادشاہ اور فوجوں کے سالار نہیں  لے جائیں گے پیش امام اور وہ عالم دین لے جائیں گے جن کے ہاتھ میں مذہب اور علم کی قندیل تھی تم دنیا میں ان کے پیچھے چلو گے تو وہ روز قیامت بھی تمہیں اپنے پیچھے جنت میں لے جائیں گے روز قیامت جس کے ہاتھ انسان کے  خون سے لال ہوں گے اسے ساری عمر کے اچھے اعمال اور ساری عمر کی نمازوں کے  باوجود دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ایک نقطہ اور سمجھ لو تم زکوٰة بیت المال کو دیتے ہو بیت المال حاکم وقت کا ہوتا ہے زکوٰة غریبوں اور  ناداروں کا حق ہے حاکم وقت غریب اور نادار نہیں ہوتا تمہاری زکوٰة جو بیت المال میں جاتی ہے اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے جاتے ہیں جو انسانوں کو  ہلاک کرنے کے کام آتے ہیں لہٰذا جو فرض ادا کر کے تم جنت میں جاسکتے ہو وہ  فرض ادا کرکے بھی تم دوزخ میں ٹھکانا بناتے ہو لہٰذا زکوٰة بیت المال میں نہ دو

عالم نے موضوع بدلا اورکہا بہت سی باتیں عام ذہن کے انسانوں کی سمجھ میں نہیں آتیں انہیں بتاتا بھی کوئی نہیں کیا تم نہیں  دیکھتے کہ تمہارے اندر ایک حیوانی جذبہ ہے؟ 
کیا تم عورت کی ضرورت محسوس نہیں  کرتے؟ کیا یہی جذبہ نہیں جو تمہیں بدکاری کے اڈوں پر لے جاتا ہے ؟
یہ جذبہ خدا نے خود پیدا کیا ہے یہ کسی انسان کا پیدا کردہ نہیں ۔ تم اس کی  تسکین کر سکتے ہو اسی لیے تمہیں خدا نے حکم دیا ہے کہ بیک وقت گھر میں چار بیویاں رکھو۔ اگر تم غریب ہو اور ایک بیوی بھی نہیں لا سکتے تو کسی عورت کو اجرت دے کر اس حیوانی جذبے کی تسکین کر سکتے ہو جو تم میں خدا نے پیدا  کیا ہے اور انسان اسی جذبے کی پیداوار ہے مگر بدی سے بچو ایک ایک دو دو تین تین چار چار بیویاں گھر میں رکھو ان بیویوں کو اور اپنی بیٹیوں کو  گھروں میں چھپا کر رکھو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جوان لڑکیوں کو بھی عسکری  تربیت دی جارہی ہے اور انہیں بھی گھوڑ سواری اور شتری سواری سکھائی جا رہی  ہے
زنانہ مدرسوں میں انہیں زخمیوں کی مرہم پٹی اور انہیں سنبھالنے کے طریقے سکھائے جارہے ہیں تاکہ وہ میدانِ جنگ کے زخمیوں کو سنبھالیں اور اگر ضرورت پڑے تو لڑیں بھی یہ ایک بدعت ہے اپنی لڑکیوں کو اس بدعت سے بچاؤ یہ باتیں اپنے ان دوستوں اور پڑوسیوں کو بھی سناؤ جو مسجد میں نہیں آتے خدا کے احکام اور کارناموں میں مت دخل دو یہ بہت بڑا گناہ ہے عالم نے درس ختم کیا تو سامعین جن کی تعداد اتنی ہو گئی تھی کہ بہت سے لوگ پیچھے کھڑے تھے مسجد میں بیٹھنے کو جگہ نہ تھی اُٹھ کر عالم سے ہاتھ ملانے اور جانے لگے۔ بعض نے اس کے ہاتھ چومے جھک کر مصافحہ تو ہر کسی نے کیا ایک  ایک کر کے سب لوگ چلے گئے صرف دو آدمی عالم کے سامنے بیٹھے رہے۔ ان میں سے  ایک وہ آدمی تھا جس نے کہا تھا کہ مجھے جہاد کے متعلق بتائیے اس آدمی نے  لمبا چغہ پہن رکھا تھا سر پر چھوٹی سی پگڑی اور اس پر چوڑا پھولدار رومال پڑا ہوا تھا اس کی داڑھی لمبی اور سیاہ اور مونچھیں گھنی تھیں لباس سے وہ درمیانہ درجے کا آدمی معلوم ہوتا تھا اس کی ایک آنکھ پر ہرے رنگ کا پٹی نما کپڑا تھا جو دو دھاگوں کی مدد سے اس کے سر کے ساتھ بندھا تھا اس کپڑے نے اس کی ایک آنکھ ڈھانپ رکھی تھی عالم کے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ اس کی یہ آنکھ خراب ہے دوسرے آدمی کا لباس بھی معمولی سا تھا اس  کی بھی داڑھی لمبی اور گھنی تھی مسجد میں عالم کے پاس یہی دو آدمی رہ گئے  تھے ان کے ساتھ چھ اور آدمی تھے جو جہاد کا درس لینے آئے تھے وہ مسجد کے دروازے کے باہر کھڑے تھے  شاید اپنے ساتھیوں کے انتظار میں تھے
کیوں تمہارا شک ابھی رفع نہیں ہوا؟
عالم نے مسکرا کر ان دونوں سے پوچھا 
میرا خیال ہے شک رفع ہوگیا ہے 
آنکھ کی ہری پٹی والے نے جواب دیا ہم شاید آپ ہی کی تلاش میں ہیں ہم نے آدھا مصر چھان مارا ہے ہمیں  مسجد کا محل و قوع اور نشانیاں غلط بتائی گئی تھیں
کیا آدھے مصر میں تمہیں مجھ سے بہتر کوئی عالم نہیں ملا ؟
تلاش جو صرف آپ کی تھی 
اس آدمی نے جواب دیا کیا ہم صحیح جگہ آگئے  ہیں؟ آپ کا درس بتاتا ہے کہ ہم آپ کی ہی تلاش میں تھے 
عالم نے باہر کی طرف دیکھا اور بے توجہی کے انداز سے بولا معلوم نہیں موسم کیسا رہے گا 
بارش آئے گی ہری پٹی والے نے جواب دیا 
آسمان بالکل صاف ہے عالم نے کہا 
ہم گھٹائیں لائیں گے ہری پٹی والے نے کہا اور قہقہہ لگایا
عالم مسکرایا اور رازداری سے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟
ایک مہینے سے ہم سکندریہ میں تھے اس آدمی نے جواب دیا اس سے پہلے شوبک میں تھے
مسلمان ہو ؟
فدائی ہری پٹی والے نے کہا ابھی مسلمان ہی سمجھو اور وہ اپنے ساتھی کے ساتھ بڑی زور سے ہنسا
میں آپ کو اس فن کا استاد مانتا ہوں دوسرے نے عالم سے کہا مجھے بالکل یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ آپ ہیں آپ ناکام نہیں ہو سکتے 
اور کامیابی آسان بھی نہیں عالم نے کہا صلاح الدین ایوبی کو شاید تم نہیں جانتے بے شک میں نے ان تمام لوگوں کے دلوں میں جہاد اور اس کے متعلق اسلامی نظریات کے خلاف شکوک پیدا کر دئیے ہیں لیکن صلاح الدین ایوبی نے جو مدرسے کھولے ہیں وہ شاید ہماری کوششوں کو آسانی سے کامیاب نہ ہونے  دیں
اس نے پوچھا تم نے مجھے یہ کیوں کہاں تھا کہ میں جہاد پر درس دوں؟
شوبک میں ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے ہری پٹی والے نے جواب دیا یہ تمام الفاظ جو آپ نے درس میں بولے ہیں  ہمیں وہاں بتائے گئے تھے ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ جہاد کے بعد  جنسی جذبے کا ذکر ضرور کریں گے آپ نے اپنا سبق بڑی محنت سے یاد کیا ہے
میرا نام کیا ہے؟
عالم نے پوچھا کیا آپ ہمارا امتحان لینا چاہتے ہیں ؟
اس آدمی نے جواب دیا کیا آپ کو ہم پر شک ہے؟ 
ہمیں ایک دوسرے کا نام نہیں صرف نشانیاں بتائی جاتی ہیں
تم کس کام سے آئے ہو ؟
عالم نے پوچھا فدائی کس کام سے آیا کرتے ہیں ؟
ہری پٹی والے نے پوچھا تمہیں میرے پاس کیوں بھیجا گیا ہے ؟
عالم نے کہا ایک اونٹنی کے لیے اس آدمی نے جواب دیا……''آپ کے پاس دو ہیں ہمیں آپ کے پاس نہ بھیجا جاتا مگر آپ کو اطلاع مل گئی ہو گی کہ صلاح الدین ایوبی  کے ایک نائب سالار رجب کے ساتھ شوبک سے تین اونٹنیاں روانہ کی گئی تھیں ان میں سے ایک ہمارے مقصد کے لیے تھی مگر معلوم نہیں کہ کیا ہوا کہ تینوں  ماری گئی ہیں رجب کی کھوپڑی اور ایک سب سے زیادہ خوبصورت اونٹنی صلاح الدین کے پاس پہنچ گئی اور وہ بھی ختم ہوگئی
ہاں عالم نے آہ بھر کر کہا ہمیں بہت بڑا نقصان ہوا ہے صلاح الدین ایوبی کا ایک  بڑا ہی کارآمد سالار جو ہمارے قبضے میں تھا جلاد کی نذر ہوگیا اندر چلو یہ جگہ محفوظ نہیں ہے 
وہ دونوں عالم کے ساتھ اُٹھے اور باہر نکل گئے باہر جو چھ آدمی کھڑے تھے وہ اندھیرے میں بکھر گئے 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ اب عالم کے گھر میں داخل ہوئے صاف ستھرا گھر تھا کئی کمرے تھے دو  تین کمروں میں سے گزر کر وہ ایسے کمرے میں چلے گئے جو زمین پر ہی تھا لیکن  زیر زمین معلوم ہوتا تھا اس کے سامنے کوڑا کباڑ بکھرا ہوا تھا دروازے کے باہر تالا لگا ہوا تھا صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ دروازہ برسوں سے نہیں کھولا گیا اور کھولا بھی نہیں جائے گا اس کے پہلو میں کھڑکی تھی اسے ہاتھ لگایا تو کھل گئی عالم اندر گیا اس کے پیچھے یہ دونوں آدمی اندر  چلے گئے اندر سے کمرہ خوب سجا ہوا تھا دیوار کے ساتھ سنہری صلیب لٹک  رہی تھی اس کے ایک طرف حضرت عیسٰی کی دستی تصویر اور دوسری طرف مریم کی تصویر تھی عالم نے کہا یہ میرا گرجا ہے اور پناہ گاہ بھی خطرے کی صورت میں آپ کے پاس کیا انتظام ہے ؟
آنکھ کی ہری پٹی والے نے  پوچھا اور مشورہ دیا آپ کو صلیب اور یہ تصویریں اس طرح سامنے نہیں  رکھنی چاہیے یہاں تک کسی کے آنے کا خطرہ نہیں عالم نے جواب دیا اور ہنس کر کہا مسلمان بڑی سیدھی اور جذباتی قوم ہے یہ قوم جذباتی الفاظ اور سنسنی خیز دلائل پر مرتی ہے جنس انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ میں ان لوگوں میں یہ کمزوری اُبھار رہا ہوں انہیں یہ سبق دے  رہا ہوں کہ چار شادیاں فرض ہیں آہستہ آہستہ انہیں بدکاری کی طرف راغب کر  رہا ہوں مذہب کے نام پر تم مسلمان سے بدی بھی کرا سکتے ہو نیکی بھی ہاتھ میں قرآن رکھ کر بات کرو تو یہ لوگ احمقانہ باتوں کے بھی قائل ہو جاتے ہیں اور جھوٹ کو بھی سچ مان لیتے ہیں میرا تجربہ کامیاب ہے میں یہاں اپنے جیسا ایک گروہ پیدا کر لوں گا جو مسجد میں بیٹھ کر اور قرآن مجید ہاتھ  میں لے کر ان لوگوں کے جذبہ جہاد کو اور کردار کو قتل کردے گا عورت کے  متعلق میں ان لوگوں کے نظریات بدل رہا ہوں صلاح الدین ایوبی نے عورتوں کو  بھی عسکری تربیت دینی شروع کر دی ہے میں انہیں بتا رہا ہوں کہ عورت کو  گھر میں قید رکھو میں اس قوم کی نصف آبادی کو بیکار کردوں گا 
فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنا ضروری ہے
ہری پٹی والے کے ساتھی نے کہا صلاح الدین ایوبی نے یہی کمال کر دکھایا ہے کہ قوم اور فوج کو ایک کر دیا ہے وہ اس وقت اعلان کر دے کہ یروشلم فتح کرنا ہے تو مصر کی ساری آبادی اس کے ساتھ چل پڑے گی لیکن وہ ایسا اعلان نہیں کرے گا عالم نے کہا وہ دانشمند ہے 
وہ جذباتی لوگوں کو پسند نہیں کرتا وہ صرف ایک تربیت یافتہ سپاہی کو ایک سو غیر تربیت یافتہ جوشیلے آدمیوں پر ترجیح دیتا ہے وہ کھوکھلے نعروں سے قوم کو بھڑکاتا نہیں حقیقت کی بات کرتا ہے یہ ہمارا کام ہے کہ اس کی قوم کو حقیقت اور تربیت سے دور رکھیں اور اسے جذباتی بنادیں اس قوم میں شعور کی بجائے جوش رہ جائے وہ جوش جس میں حقیقت پسندی اور دانشمندی نہ ہو دشمن کے پہلے تیر سے ہی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے خواہ تیر قریب سے گزر جائے ہم ان میں صرف جوش رہنے دیں گے تم  نے سنا ہے کہ میں اپنے درس میں   صلاح الدین ایوبی کی بہت تعریفیں کر رہا تھا 
یہ باتیں تو ہم بعد میں کر لیں گے اس آدمی نے جواب دیا دونوں اونٹنیاں دکھا دیں اور یہ بتائیں کہ ہمیں یہاں کس وقت اور کس طرح پناہ مل سکتی ہے اور یہاں اپنا کوئی اور آدمی رہتا ہے یا نہیں 
نہیں! عالم نے جواب دیا یہاں اور کوئی نہیں رہتا 
ان کے درمیان کوئی شک و شبہ نہیں رہا تھا 
وہ خفیہ الفاظ میں ایک دوسرے کو پہچان چکے تھے عالم کمرے سے نکل گیا واپس آیا تو اس کے ساتھ دو بڑی  ہی خوبصورت اور جوان لڑکیاں تھیں یہی وہ دو لڑکیاں تھیں جن کے متعلق اس  نے لوگوں کو بتایا تھا کہ اس کی بیویاں ہیں انہیں وہ سر سے پاؤں تک برقعے میں چھپا کر لایا تھا مگر ان دو آدمیوں کے سامنے وہ بے پردہ آئیں عالم نے ان کا تعارف دونوں آدمیوں سے کرایا اور الماری میں سے شراب کی بوتل نکالی ایک لڑکی گلاس لے آئی شراب گلاسوں میں ڈالی گئی ان دونوں آدمیوں نے شراب کو ہاتھ کو نہ لگایا
پہلے کام کی باتیں کر لیں ہری پٹی والے نے کہا ہمیں دو آدمیوں کو قتل کرنا ہے دوسرے نے کہا صلاح الدین ایوبی کو اور علی بن سفیان کو ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم نے دونوں آدمیوں کو نہیں دیکھا ہمیں دونوں آدمی دکھا دیں کیا آپ نے انہیں دیکھا ہے ؟
اتنا دیکھا ہے کہ دونوں کو اندھیرے میں بھی پہچان سکتا ہوں عالم نے کہا میں نے جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ دونوں کو اچھی طرح پہچان لوں علی بن سفیان اتنا ذہین اور گھاگ ہے کہ اپنے کسی جاسوس کو یہاں بھیجنے کی بجائے خود یہاں آ سکتا ہے  اگر وہ بھیس بدل کر  میرے سامنے آئے تو بھی اسے پہچان لوں گا 
اور صلاح الدین ایوبی کے متعلق کیا خیال ہے ؟
ہری پٹی والے نے کہا اسے بھی خوب پہچانتا ہوں عالم نے جواب دیا
ہری پٹی والے نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کنپٹیوں پر رکھے داڑھی کو پکڑا اور ہاتھوں کو نیچے کو جھٹکا دیا اس لمبی داڑھی اور گھنی مونچھیں اس کے چہرے سے الگ ہوگئیں پیچھے چھوٹی سی داڑھی رہ گئی جو نہایت اچھی طرح تراشی ہوئی تھی مونچھیں بھی تراشیدہ تھیں لمبی داڑھی اور گھنی مونچھیں مصنوعی  تھیں جو اب اس نے ہاتھ میں لے رکھی تھیں اس نے آنکھ سے ہری پٹی بھی نوچ کر پرے پھینک دی عالم جہاں تھا وہیں بت بن گیا اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں اور اس کا منہ کھل گیا  دونوں لڑکیاں حیران و ششدر کبھی اس آدمی کو  دیکھتیں جس نے اپنا بہروپ اتار دیا تھا کبھی عالم کو دیکھتیں جس کا رنگ لاش کی طرح کا ہو گیا تھا عالم کے منہ سے حیرت اور گھبراہٹ میں ڈوبی ہوئی  سرگوشی نکلی صلاح الدین ایوبی؟
ہاں دوست! اسے جواب ملا میں صلاح الدین ایوبی ہوں تمہاری شہرت سن کر تمہارا درس سننے  آیا تھا 
سلطان ایوبی نے اپنے ساتھی کی داڑھی کو مٹھی میں لے کر جھٹکا دیا تو اس کی داڑھی چہرے سے الگ ہوگئی اس نے عالم سے کہا آپ اسے بھی پہچانتے ہوں گے ؟
پہچانتا ہوں عالم نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا علی بن سفیان !!!
علی بن سفیان کی صرف ٹھوری پر داڑھی تھی اچانک لڑکیاں اور عالم پیچھے کو دوڑے اور الماری میں سے چھرا نما تلواریں نکال لیں مگر ادھر کو گھومے تو ان کی تلواریں جھک گئیں کیونکہ صلاح الدین ایوبی اور علی بن سفیان نے چغوں کے اندر سے اسی قسم کی تلواریں نکال لیں تھیں لڑکیوں کو تیغ زنی کی مشق تو کرائی گئی تھی لیکن دو پیشہ ور تیغ زنوں کے مقابلے میں نہ آسکیں ان سے تلواریں رکھوا لی گئیں علی بن سفیان باہر نکل گیا ذرا سی دیر میں چھ آدمی جو باہر کھڑے تھے اسی سائز کی تلواریں سونتے کھڑکی میں سے کود کر آگئے
دوسرے دن مسجد کے سامنے اس علاقے کے لوگوں کا ہجوم تھا وہاں چند ایک سرکاری اہل کار بھی تھے جو لوگوں کو باری باری عالم کے اس خفیہ کمرے میں لے جا رہے تھے جہاں صلیب حضرت عیسٰی اور مریم کی تصویریں آویزاں تھیں لوگوں کو شراب کی بوتلیں بھی دکھائی گئیں اہل کار لوگوں کو عالم کی اصلیت بتا رہے تھے اور وہ جہاد کا جو نظریہ پیش کرتا رہتا تھا اس کی  وضاحت کر رہے تھے
سلطان ایوبی کی ہدایت پر علی بن سفیان نے سارے ملک  میں جاسوسوں کا جال بچھا دیا تھا کیونکہ یہ ثابت ہوگیا تھا کہ ملک میں خصوصاً قاہرہ میں صلیبیوں نے بہت سے جاسوس اور تخریب کار بھیج دئیے ہیں  صلیبیوں نے مسلمانوں کے کردار کشی کی جو زمین دوز مہم چلائی تھی وہ سلطان ایوبی کو زیادہ پریشان کر رہی تھی اسے جب علی بن سفیان نے اطلاع دی تھی کہ  ایک مسجد کا پیش امام ہر رات درس دیتا ہے اور اسلامی نظریات کو بگاڑ کر پیش کر رہا ہے تو سلطان ایوبی نے فوراً ہی یہ حکم نہیں دیا تھا کہ اس عالم  کو گرفتار کر لو اس نے کہا تھا  :علی! مذہب میں فرقہ بندی شروع ہوگئی ہے  یہ پیش امام کسی فرقے کا ہوگا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قرآن کی اپنی  تفسیریں پیش کر رہا ہو میں مذہب میں دخل نہیں دینا چاہتا میں حاکم ہوں عالم نہیں ہوں اگر تم سمجھتے ہو کہ وہ کوئی تخریب کار ہے تو گرفتاری سے  پہلے اچھی طرح چھان بین کر لو پیش امام کا درجہ مجھ سے بہت زیادہ بلند ہے ۔

علی بن سفیان خود اس مسجد میں درس سننے نہیں گیا تھا کیونکہ اسے  شک تھا کہ اگر یہ پیش امام واقعی دشمن کا بھیجا ہوا تخریب کار ہے تو اسے  پہچانتا ہوگا اس نے اپنے ذہین سراغرساں مسجد میں بھیجے تھے ، جو دس بارہ مرتبہ وہاں گئے اور انہوں نے جو درس سنے وہ من وعن علی بن سفیان کو سنا دئیے آخر ایک رات اس صلیبی ''عالم'' نے جہاد پر درس دیا اور تاویل یہ پیش کی جو صلاح الدین ایوبی نے بھی سنی سراغ رسانوں نے یہ درس علی بن سفیان کو سنایا تو کوئی شک نہ رہا علی نے سلطان ایوبی کو بتایا اور یہ رائے دی کہ اگر یہ شخص صلیبیوں کا جاسوس اور تخریب کار نہیں تو بھی اسے  پکڑنا یا روکنا ضروری ہے کیونکہ وہ جہاد کا ایسا نظریہ پیش کر رہا ہے جو صرف وہ آدمی پیش کر سکتا ہے جو دشمن کا آدمی ہو یا اس کا دماغ چل گیا ہو۔
سلطان ایوبی نے یہ رپورٹ بڑی ہی غور سے سنی اور کہا کہ معاملہ بہر حال مذہب مسجد اور پیش امام کا ہے ، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ علی بن سفیان کے ساتھ خود بہروپ میں درس سننے جائے گا اور خود یقین کرے گا کہ پیش امام کی نیت اور اصلیت کیا ہے جہاد کے ساتھ حیوانی جذبے کے ذکر نے سلطان ایوبی کے کان کھڑے کر دئیے تھے اس نے علی بن سفیان سے ساتھ صلاح مشورہ کر کے یہ بہروپ تیار کرایا تھا جس میں وہ مسجد میں گئے تھے
علی بن سفیان جاسوسی اور جاسوسی کے خلاف دفاع کے فن کا ماہر تھا اس نے سلطان ایوبی کو اپنی ایک اور کامیابی سے آگاہ کر دیا تھا وہ یہ تھی کہ فیض الفاطمی کو جس صلیبی لڑکی نے موقعہ پر گرفتار کرایا اور احمد کمال کے نام کے ایک کماندار کی خاطر اسلام قبول کرنے اور اس کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی مگر  ماری گئی تھی اس نے وہ خفیہ الفاظ اور اشارے بتائے تھے جو صلیبی جاسوس ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے استعمال کرتے تھے، اس کی نشاندہی پر چند ایک مسلمان بھی پکڑے گئے تھے جو صلیبیوں سے زر و جواہرات اور خوبصورت لڑکیاں لے  کر ان کے لیے جاسوسی کرتے تھے انہوں نے بھی علی بن سفیان کے تہہ خانے  میں تصدیق کی تھی کہ یہ الفاظ اور اشارے استعمال ہوتے ہیں اشارے یہ تھے کہ جاسوس جو ایک دوسرے سے پہلی بار ملتے اور ایک دوسرے کے متعلق یقین کرنا چاہتے تھے ان میں سے ایک آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا تھا معلوم نہیں موسم کیسا رہے گا 'وہ ایسی بے پروائی کے سے لہجے میں کہتا تھا جیسے یونہی اسے موسم کا خیال آگیا ہو، دوسرا کہتا تھا بارش آئے  گی اسے جواب ملتا تھا ، آسمان بالکل صاف ہے دوسرا کہتا تھا ہم گھٹائیں لائیں گے اور وہ قہقہہ لگاتا تھا قہقہے کی ضرورت یہ ہوتی تھی کہ یہ مکالمہ کوئی اور سن لے یا دوسرا آدمی جاسوس نہ ہو تو وہ سمجھے کہ اس آدمی نے مذاق کیا ہے علی بن سفیان کو بتایا گیا تھا کہ یہ خفیہ مکالمہ اس وقت بولا جائے گا جب یہ ظاہر ہوجائے گا دوسری بات جو علی بن سفیان نے معلوم کی تھی وہ یہی تھی کہ جاسوس ایک دوسرے کو اپنا نام نہیں بتاتے تھے ۔
ان کا ہیڈ کوارٹر فلسطین کا ایک قصبہ شوبک تھا جو ایک قلعہ تھا یہ صلیبیوں کا جاسوسی کا مرکز تھا، ان انکشافات کے سہارے سلطان ایوبی اور علی بن سفیان بہروپ میں مسجد میں چلے گئے انہوں نے جہاد کے درس  کی خواہش ظاہر کی تو عالم نے خواہش پوری کر دی پھر وہ اس کے پاس اکیلے رہ گئے اور ان خفیہ مکالموں کو بے نقاب کر دیا اس نے بعد میں بیان دیا تھا کہ وہ اتنا کچا جاسوس نہیں تھا کہ وہ اجنبی آدمیوں کے آگے اپنا آپ ظاہر کر دیتا اسے ان خفیہ الفاظ نے پھنسایا کیونکہ یہ مکالمہ ہر ایک جاسوس کو بھی معلوم نہیں ہوتا یہ جاسوسوں کے اعلیٰ درجے کا مکاملہ ہے 
اس سے نیچے اس سے کوئی جاسوس واقف نہیں ہوتا اس مکالمے کے بعد کا قہقہہ خاص طور پر قابل ذکر تھا اس کے بغیر ایک دوسرے پر اپنا راز فاش نہیں کیا جاتا تھا سلطان ایوبی نے قہقہہ لگایا تھا وہ اپنے ساتھ چھ جانبازوں کو بھی لے گیا تھا کہ بوقت ضرورت مدد دیں علی بن سفیان نے اس جاسوس کو اور دونوں لڑکیوں کو اپنے تہہ خانے میں بند کر دیا اور سب سے پہلے اس علاقے میں جا کر تفتیش کی کہ یہ شخص اس مسجد پر قابض کس طرح ہوا اور اسے سے پہلے وہ جس جھونپڑے میں رہتا تھا وہ اسے کس نے دیا تھا وہاں کے مختلف لوگوں نے جو بیان دئیے ان سے پتہ چلا کر یہ شخص دو بیویوں کے ساتھ اس آبادی میں آیا پہلے ایک آدمی کے گھر مہمان رہا جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو کوئی عالم فاضل ہے تو انہوں نے اسے جھونپڑا دے دیا وہ اس میں مسجد میں نماز  پڑھنے جایا کرتا تھا وہاں بہت مدت سے ایک پیش امام تھا یہ شخص پیش امام کا مرید بن گیا پندرہ سولہ روز بعد پیش امام نے مسجد میں پیٹ درد کی  شکایت کی یہ شکایت اتنی تیزی سے بڑھی کہ اس کے بعد پیش امام مسجد میں نہ آسکا حکیموں نے گھر جا کر دیکھا دوائیاں دیں مگر وہ تیسرے روز مر گیا اس کے بعد اس عالم نے لوگوں سے بات کر کے مسجد سنبھال لی اس نے ایسا تاثر پیدا کیا کہ لوگ اس کے عقیدت مند ہوگئے اور اس کی ضرورت کے مطابق اسے مکان دے دیا
علی بن سفیان کے پوچھنے پر لوگوں نے اسے بتایا کہ انہوں نے  کئی بار اس شخص کو پیش امام کے لیے کھانا لے جاتے دیکھا تھا علی بن سفیان جان گیا کہ پیش امام کو اس آدمی نے زہر دیا ہے اور اسے راستے سے ہٹا کر  مسجد پر قبضہ کیا تھا اس جاسوس کے گھر کی تلاشی میں بہت سے ہتھیار برآمد ہوئے تھے
جو مختلف جگہوں میں چھپائے ہوئے تھے
وہاں زہر بھی برآمد ہوا وہ ایک کتے کو دیا گیا تو کتا تین دن بے چین رہا اور گرتا رہا اور اُٹھتا رہا تیسرے دن شام کے بعد کتا مر گیا
 علی بن سفیان نے اپنی تفتیش سلطان ایوبی کے آگے رکھی تو سلطان نے اسے کہا ان تینوں کو قید میں خوب پریشان کرو اور انہیں خوفزدہ کیے رکھو لیکن میں انہیں جلاد کے حوالے نہیں کروں گا اور انہیں قید میں بھی نہیں ڈالوں گا 
پھر آپ کیا کریں گے؟
علی بن سفیان نے پوچھا میں انہیں حفاظت اور عزت سے واپس بھیج دوں گا علی بن سفیان نے حیرت زدہ ہو کر سلطان ایوبی کے منہ کی طرف دیکھا سلطان نے کہا میں ایک جوا کھیلنا چاہتا ہوں علی! ابھی مجھ سے کچھ نہ پوچھنا میں سوچ رہا ہوں کہ یہ بازی لگاؤں یا نہیں اس نے ذرا توقف سے کہا کل دوپہر کے کھانے کے بعد نائب سالاروں مشیروں اعلیٰ کمانداروں اور انتظامیہ کے ہر  شعبے کے سربراہ کو میرے پاس لے آنا تمہاری موجودگی بھی ضروری ہے
 علی بن سفیان نے اس رات پہلی بار اس ''عالم '' سے تفتیش کی لیکن وہ بڑا سخت آدمی نکلا اس نے کہا غور سے میری بات سن لو علی بن سفیان! ہم دونوں ایک ہی میدان کے سپاہی ہیں تم میرے ملک میں کبھی پکڑے گئے تو مجھے امید ہے کہ تم جان دے دو گے اپنے ملک اور اپنی قوم کو دھوکہ نہیں دوگے تم  یہی توقع مجھ سے رکھو مجھے معلوم ہے میرا انجام کیا ہوگا اگر میں تمہیں وہ ساری باتیں بتادوں جو تم مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو تو بھی تم لوگ مجھے بخشو گے نہیں مجھے اس تہہ خانے میں مرنا ہے خواہ تم جلاد سے مروا دو خواہ اذیت میں ڈال کر مار دو پھر میں کیوں اپنی قوم کو دھوکہ دوں 
مجھے امید ہے تم اپنا ارادہ بدل دو گے علی بن سفیان نے کہا کیا تم ان دو لڑکیوں کی عزت بچانے کی خاطر یہ پسند نہیں کرو گے کہ میں جو  پوچھوں وہ مجھے بتا دو ؟
تم کیسی عزت؟
اس نے جوا ب دیا ان لڑکیوں کے پاس صرف حسن اور ناز نخرے ہیں یا وہ استادی ہے جس سے وہ پتھر کو بھی موم کر لیتی ہیں ان کے پاس عزت نام کی کوئی چیز نہیں یہی تو انہیں سکھلایا جاتا ہے کہ اپنی عزت سے دستبردار ہو جاؤ ہم لوگ اپنی جان اور عزت بہت دور پھینک آتے ہیں تم ان لڑکیوں کے ساتھ جیسا بھی سلوک کرنا چاہو کرلو...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی