👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟝 𝟚⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟝  𝟚⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہماری روانگی کا وقت ہوگیا ہے احمد کمال نے کہا میں خود تمہارے ساتھ چلوں گا میں اتنی نازک اور اتنی خطرناک ذمہ داری کسی اور کو نہیں سونپ سکتا
یہ نہیں سنو گے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آئی ہوں ؟؟؟ ۔ ۔ ۔ اُٹھو! احمد کمال نے کہا یہ سننا میرا کام نہیں وہ خیمے سے باہر نکل گیا 
 کچھ دیر بعد قاہرہ کی سمت چھ گھوڑے جا رہے تھے ایک پر احمد کمال تھا اس کے پیچھے دوسرے گھوڑے پر لڑکی تھی اس کے پیچھے پہلو بہ پہلو چار گھوڑے  محافظوں کے تھے اور ان کے پیچھے ایک اونٹ جس پر سفر کا سامان پانی اور خوراک وغیرہ جا رہا تھا 
قاہرہ تک کم و بیش چھتیس گھنٹوں کا سفر تھا 
لڑکی  نے دو مرتبہ اپنا گھوڑا اس کے پہلو میں کر لیا اور دونوں مرتبہ احمد کمال نے اسے کہا کہ وہ اپنا گھوڑا اس کے اور محافظوں کے درمیان رکھے اس کے سوا اس نے لڑکی کے ساتھ کوئی بات نہ کی سورج غروب ہونے کے بعد احمد کمال نے قافلے کو روک لیا اور پڑاؤ کا حکم دیا 
رات لڑکی کو احمد کمال نے اپنے خیمے میں سلایا اس نے دیا جلتا رکھا وہ گہری نیند سویا ہوا تھا اس  کی آنکھ کھل گئی کسی نے اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا تھا 
اس نے لڑکی کو اپنے پاس بیٹھے دیکھا لڑکی کا ہاتھ اس کے ماتھے پر تھا احمد کمال تیزی سے اُٹھ کر بیٹھ گیا اس نے دیکھا کہ لڑکی کے آنسو بہہ رہے تھے
اس نے احمد کمال کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور اسے چوم کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی احمد کمال اسے دیکھتا رہا لڑکی نے آنسو پونچھ کر کہا میں تمہاری دشمن ہوں تمہارے ملک میں جاسوسی کے لیے اور تمہارے بڑے بڑے حاکموں کو آپس میں لڑوانے کے لیے اور صلاح الدین ایوبی کے قتل کا انتظام کرنے کے لیے فلسطین سے آئی ہوں لیکن اب میرے دل سے دشمنی نکل گئی  ہے 
کیوں ؟
احمد کمال نے کہا تم بزدل لڑکی ہو اپنی قوم سے غداری کر رہی ہو سولی پر کھڑے ہو کر بھی کہو کہ میں صلیب پر قربان ہو رہی ہوں 
اس کی وجہ سن لو اس نے کہا تم پہلے مرد ہو جس نے میرے حسن اور میری جوانی کو قابل نفرت چیز سمجھ کر ٹھکرایا ہے ورنہ کیا اپنے کیا بیگانے مجھے کھلوناسمجھتے رہے میں نے بھی اسی کو زندگی کا مقصد سمجھا کہ مردوں کے ساتھ کھیلو دھوکے دو اور عیش کرو میری تربیت ہی اسی مقصد کے تحت ہوئی تھی جسے تم لوگ بے حیائی کہتے ہو وہ میرے لیے ایک  فن ہے ایک ہتھیار ہے مجھے نہیں معلوم کہ مذہب کیا ہے اور خدا کے کیا احکام ہیں صرف صلیب ہے جس کے متعلق مجھے بچپن میں ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ یہ خدا کی دی ہوئی نشانی ہے اور یہ عیسائیت کی عظمت کی علامت ہے اور یہ کہ ساری دنیا پر حکمرانی کا حق صرف صلیب کے پجاریوں کو حاصل ہے اور یہ مسلمان صلیب کے دشمن ہیں انہیں اگر زندہ رہنا ہے تو صلیبیوں کے قدموں میں  رہ کر زندہ رہیں
ورنہ انہی چند ایک باتوں کو مذہب کے بنیادی اصول سمجھتی  رہی مجھے مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے کی تربیت دی گئی تو اسے بھی مذہبی فریضہ کہا گیا کیا تم اپنے سالار رجب کو جانتے ہو ؟
لڑکی نے پوچھا 
وہ خلیفہ کے محافظ دستوں کا سالار ہے 
احمد کمال نے کہا وہ بھی سوڈانیوں کے حملے والی سازش میں شامل تھا
اب کہاں ہے؟
معلوم نہیں احمد کمال نے کہا مجھے صرف یہ حکم ملا ہے کہ رجب  فوج سے بھگوڑا ہوگیا ہے 
جہاں کہیں نظر آئے اسے پکڑ لو اور بھاگے تو تیر مارو اور اسے ختم کر دو میں بتاؤں وہ کہاں ہے ؟
لڑکی نے کہا وہ سوڈان میں حبشیوں کے پاس ہے 
وہاں ایک خوشنما جگہ ہے جہاں حبشی لڑکیوں کو دیوتا کے آگے قربان کرتے ہیں
رجب وہاں ہے میں جانتی ہوں وہ فوج کا بھگوڑا ہے
ہم تین لڑکیاں اس کے ساتھ فلسطین سے آئی تھیں 
باقی دو کہاں ہیں ؟
لڑکی نے آہ بھری اور کہا وہ مر گئی ہیں 
انہی کی موت نے مجھے بدل ڈالا ہے 
لڑکی نے احمد کمال کو ایک لمبی کہانی کی طرح سنایا کہ وہ کس  طرح فلسطین سے رجب کے ساتھ آئی تھیں کس طرح حبشیوں نے ان میں سے دو لڑکیوں کو دیوتا کے نام پر ذبح کرنا چاہا رجب انہیں بچا نہ سکا کس طرح  وہ وہاں سے بھاگیں اور راستے میں دو لڑکیاں کس طرح آندھی میں ماری گئیں اس نے کہا میں اپنے آپ کو شہزادی سمجھتی تھی میں نے بادشاہوں کے دلوں  پر حکمرانی کی ہے میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ خدا بھی ہے اور موت  بھی ہے مجھے گناہوں میں ڈبویا گیا اور میں ڈوبتی چلی گئی عجیب لذت تھی اس ڈوبنے میں مگر مجھے وہ مگرمچھ دکھائے گئے جن کے آگے ذبح کی ہوئی لڑکیوں کے جسم پھینکے جاتے ہیں 
مگر مچھ پانی کے کنارے سوئے ہوئے تھے 
ان کے بھدے اور مردہ جسم دیکھ کر میں کانپ گئی وہ میرے اس جسم کو جس نے بادشاہوں کے سرجھکائے تھے ان مگر مچھوں کی خوراک بنانا چاہتے تھے میں نے وہ بدصورت سیاہ کالے حبشی دیکھے جو میرا سر میرے جسم سے الگ کرنے کے لیے آگئے تھے 
موت کے پروں کی آواز مجھے سنائی دینے لگی تھی 
میری رگ رگ بیدار ہوگئی میرے اندر سے مجھے آواز سنائی دی اپنے حسن اور اتنے دل نشین جسم کا انجام دیکھ ہم جان کی بازی لگا کر اپنے گھر سے نکلی تھیں ہمیں یہ کہہ کر رجب کے ساتھ فلسطین سے بھیجا گیا تھا کہ یہ شخص ہماری حفاظت  کرے گا لیکن اس شخص نے میرے ساتھ دست درازی کی ہم وہاں سے  بھاگیں آندھی میں گھوڑے بے قابو ہوکر بھاگ اُٹھے ہمارے لیے صحرا میں کوئی پناہ نہیں تھی ہم آندھی اور گھوڑوں کے رحم و کرم پر تھیں پہلے ایک  لڑکی گری میں نے اسے گھوڑے کے نیچے آتے دیکھا پھر دوسری لڑکی گھوڑے سے گری تو پاؤں رکاب میں پھنس جانے کی وجہ سے گھوڑے نے اسے دو میل سے زیادہ فاصلے تک گھسیٹا اس کی چیخیں میرا جگر چاک کر رہی تھیں 
میں اب بھی اس  کی چیخیں سن رہی ہوں جب تک زندہ رہوں گی یہ چیخیں سنتی رہوں گی پھر وہ لڑکی لاش بن گئی میرا گھوڑا ساتھ ساتھ دوڑتا آرہا تھا 
مگر میرے قابو میں نہیں تھا وہ لڑکی بھی اپنے گھوڑے کے ساتھ پیچھے رہ گئی میں اب اکیلی تھی مجھے خدا نے ان دو لڑکیوں کو مار کر بتا دیا تھا کہ میرا انجام کیا ہوگا وہ مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور شوخ تھیں ان میں حسن کا غرور  بھی تھا انہوں نے بھی بادشاہوں کو انگلیوں پر نچایا تھا مگر ایسی بھیانک موت مریں کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی اب وہ ریت کی گمنام قبروں میں دفن ہو گئی ہیں میں اکیلی رہ گئی آندھی کے زناٹے موت کے قہقہے بن گئے مجھے اپنے سر کے اوپر آگے پیچھے دائیں اور بائیں چڑیلیں بدروحیں بھوت اور موت کے قہقہے سنائی دے رہے تھے میں بدھو اور بیوقوف لڑکی نہیں ہوں دماغ روشن ہے میں نے جان لیا کہ خدا مجھے گناہوں کی سزا دے رہا ہے
ایسی ہیبت ناک موت اور ہولناک آندھی وہ تم نے بھی دیکھی ہے
مجھے خدا یاد آگیا میں نے خدا کو بلند آواز سے پکارا رو رو کر گناہوں سے توبہ کی اور  معافی مانگی پھر میں بے ہوش ہوگئی 
اور جب ہوش میں آئی تو  میں تمہارے قبضے میں تھی تمہاری گوری رنگت دیکھ کر خوش ہوئی ہوں کہ تم  یورپی ہو اور میں فلسطین میں ہوں اسی دھوکے میں میں نے اپنی زبان میں پوچھا تھا کہ کیا میں فلسطین میں ہوں جب مجھے پتہ چلا کہ میں مسلمانوں کے  قبضے میں ہوں تو میرا دل بیٹھ گیا میں آندھی سے بچ کر اپنے دشمن کے قبضے میں آگئی تھی مسلمانوں کے متعلق مجھے بتا دیا گیا تھا کہ عورتوں کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کرتے ہیں لیکن تم نے میرے ساتھ وہ سلوک کیا جس کی مجھے  توقع نہیں تھی تم نے سونا ٹھکرا دیا اور تم نے مجھے بھی ٹھکرا دیا میں اس قدر خوف زدہ تھی کہ میں کہتی تھی کہ خواہ کوئی مل جائے وہ مجھے پناہ دے  دے اور مجھے سینے سے لگا لے تمہارے متعلق مجھے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا کہ تمہارا کردار پاک ہے مجھے یہ توقع تھی کہ رات کو تم مجھے پریشان کرو  گے میں خواب میں بھی مگر مچھوں حبشیوں اور آندھی کی دہشت دیکھتی رہی میں ڈر کر اٹھی تو تم نے مجھے سینے سے لگا لیا اور بچوں کی طرح مجھے  کہانیاں سنا کر میرا خوف دور کر دیا اور جب رات گزر گئی تو میں نے جاگتے ہی تمہیں خدا کے آگے سجدے میں دیکھا تم نے جب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور  آنکھیں بند کر لی تھیں اس وقت تمہارے چہرے پر مسرت سکون اور نور تھا میں اس شک میں پڑ گئی کہ تم انسان نہیں فرشتہ ہو کوئی انسان سونے اور مجھ جیسی لڑکی سے منہ نہیں موڑ سکتا
میں نے تمہارے چہرے پر جو سکون اور مسرت دیکھی تھی اس نے میرے آنسو نکال دئیے میں تم سے پوچھنا چاہتی  تھی کہ یہ سکون تمہیں کس نے دیا ہے 
میں تمہارے وجود سے اتنی متاثر ہوئی کہ میں نے تمہیں دھوکے میں رکھنا بہت بڑا گناہ سمجھا میں تمہیں یہ کہنا  چاہتی تھی کہ میں تمہیں اپنے متعلق ہر ایک بات بتا دوں گی اس کے عوض مجھے یہ کردار اور یہ سکون دے دو اور میرے دل سے وہ دہشت اُتار دو جو مجھے بڑی  ہی تلخ اذیت دے رہی ہے مگر تم نے میری بات نہ سنی تمہیں فرض عزیز تھا  اس نے احمد کمال کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور کہا تم شاید اسے بھی دھوکہ سمجھو لیکن میرے دل کی بات سن لو میں تم سے جدا نہیں ہو سکوں گی میں نے کل تمہیں گناہ کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے اپنی لونڈی سمجھو مگر اب میں ساری عمر کے لیے تمہارے قدموں میں بیٹھی رہوں گی مجھے اپنی لونڈی بنا لو اور اس کے عوض مجھے وہ سکون دے دو جو میں نے نماز کے وقت تمہارے چہرے پر دیکھا تھا 
میں تمہیں بالکل نہیں کہوں گا کہ تم مجھے دھوکہ دے رہی ہو احمد کمال نے کہا میری مجبوری یہ ہے کہ میں  اپنی قوم کو اور اپنی فوج کو دھوکہ نہیں دے سکتا تم میرے پاس امانت ہو میں خیانت نہیں کر سکتا میں نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا وہ میرا فرض تھا  
یہ فرض اس وقت ختم ہوگا جب میں تمہیں متعلقہ محکمے کے حوالے کر دوں گا  اور وہ مجھے حکم دے گا کہ احمد کمال تم واپس چلے جاؤ 
وہ اسے  دھوکہ نہیں دے رہی تھی اس نے روتے ہوئے کہا تمہارے حاکم جب مجھے سزائے موت دیں گے تو تم میرا ہاتھ پکڑے رکھنا اب یہی ایک خواہش ہے میں تمہیں ایسی بات نہیں کہوں گی کہ مجھے فلسطین پہنچا دو میں تمہارے فرض کے  راستے میں رکاوٹ نہیں بنوں گی ۔ مجھے صرف اتنا کہہ دو کہ میں نے تمہارا  پیار قبول کر لیا ہے میں یہ بھی نہیں کہوں گی کہ مجھے اپنی بیوی بنا لو  کیونکہ میں ایک ناپاک لڑکی ہوں مجھے تربیت دینے والوں نے پتھر بنا دیا  تھا میں یہ بھی سمجھتی تھی کہ میرے اندر انسانی جذبات نہیں رہے لیکن خدا نے مجھے بڑے ہی پُر ہول طریقے سے سمجھا دیا کہ انسان پتھر نہیں بن سکتا اور  وہ ایک نہ ایک دن مجبور ہو کر کسی سے پوچھتا ہے کہ سیدھا راستہ کون سا ہے  
رات گزرتی جا رہی تھی اور وہ دونوں باتیں کر رہے تھے احمد کمال نے اس سے پوچھا تم جیسی لڑکیوں کو ہمارے ملک میں بھیج کر ان سے  کیا کام لیا جاتا ہے 
بہت سے کام کرائے جاتے ہیں 
لڑکی نے  جواب دیا بعض کو مسلمان امراء کے حرموں میں مسلمان کے روپ میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ تربیت کے مطابق امراء اور وزراء پر غالب آجاتی ہیں  
ان سے صلیبیوں کی پسند کے افراد کو عہدے دلاتی ہیں جو حاکم صلیبیوں کے خلاف ہو اس کے خلاف کروائیاں کراتی ہیں مسلمان لڑکیاں اتنی چالاک نہیں ہوتیں انہیں خوبصورتی پر ناز ہوتا ہے وہ حرموں کے لیے منتخب تو ہوجاتی ہیں لیکن ایک عیسائی یا یہودی لڑکی انہیں بیکار کر کے اپنا غلام بنا لیتی ہے اس وقت تک اسلامی حکومت کے امیروں اور وزیروں اور قلعہ داروں کی آدھی  تعداد کے فیصلے میری قوم کے حق میں ہوتے ہیں لڑکیوں کا ایک گروہ اور بھی ہے یہ لڑکیاں اسلامی نام سے مسلمانوں کی بیویاں بن جاتی ہیں ان کا کام  یہ ہے کہ اچھے درجے کے مسلمان گھرانوں کی لڑکیوں کے دماغ اور کردار خراب کرتی ہیں ان کے لڑکوں کو بدی کے راستے پر ڈالتی اور شریف گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں کے معاشقے کراتی ہیں مجھ جیسی صلیبی لڑکیاں چوری چھپے  تمہارے ایسے حاکموں کے پاس آتی ہیں جو ہمارے ہاتھ میں کھیل رہے ہوتے ہیں ان حاکموں کو سونے کے سکے کی صورت میں معاوضہ ملتا رہتا ہے وہ مجھ جیسی لڑکیوں کو حفاظت میں ایسے طریقے سے رکھتے ہیں جن سے ان پر ذرا سا شک نہیں ہوتا یہ لڑکیاں اعلیٰ درجے کے حاکموں کے درمیان رقابت اور غلط فہمیاں  پیدا کرتی اور صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کے خلاف نا پسندیدگی پیدا کرتی ہیں مجھے دو لڑکیوں کے ساتھ اسی کام کے لیے رجب کے حوالے کیا  گیا تھا 
وہ اس صلیبیوں کی درپردہ کاروائیوں اور مسلمانوں کی ایمان فروشی کی تفصیل سناتی رہی احمد کمال سنتا رہا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے دن سورج غروب ہونے سے بہت پہلے یہ قافلہ قاہرہ پہنچ گیا احمد کمال علی بن سفیان کے پاس گیا اور اسے لڑکی کے متعلق تمام رپورٹ دے کر لڑکی اس کے حوالے کر دی اس نے یہ بھی بتایا کہ رجب حبشیوں کے پاس ہے اور اس نے  اس جگہ کو اڈہ بنا رکھا ہے  جہاں حبشی لڑکی کی قربانی دیا کرتے تھے 
احمد کمال نے یہ بھی کہا کہ اگر اسے حکم دیا جائے تو وہ رجب کو زندہ یا مردہ وہاں سے لا سکتا ہے علی بن سفیان نے ایسا حکم نہ دیا کیونکہ اس مقصد کے لیے اس  کے پاس تربیت یافتہ فوجی تھے احمد کمال نے وہ طریقہ بتا دیا جس سے رجب  تک پہنچا جا سکتا تھا اس نے یہ طریقہ لڑکی کی سنائی ہوئی باتوں کے مطابق سوچا تھا علی بن سفیان پہلے ہی ایک پارٹی سوڈان بھیج چکا تھا اس نے  لڑکی سے تفتیش کرنے سے پہلے چار نہایت ذہین کماندار بلائے اور انہیں احمد  کمال کے حوالے کرکے حکم دیا کہ اس کے مطابق وہ فوراً سوڈان چلے جائیں اور  رجب کو لانے کی کوشش کریں اس نے احمد کمال کو واپسی سے پہلے آرام کے لیے  بھیج دیا اور لڑکی کو اپنے پاس بلایا لڑکی سے اس نے پہلا سوال کیا تو لڑکی نے جواب دیا احمد کمال میرے سامنے بیٹھا رہے گا تو جو پوچھو گے بتا دوں گی ورنہ زبان نہیں کھولوں گی خواہ جلاد کے حوالے کر دو 
علی بن سفیان نے احمد کمال کو بلا کر اس کے سامنے بٹھا دیا لڑکی نے  مسکرا کر بولنا شروع کر دیا اس نے کچھ بھی نہ چھپایا اور آخر میں کہا مجھے سزا دینی ہے تو میری ایک آخری خواہش پوری کر دو میں احمد کمال کے  ہاتھ سے مرنا چاہتی ہوں اس نے تفصیل سے سنا دیا کہ وہ احمد کمال کی  مرید کیوں بن گئی ہے
علی بن سفیان نے لڑکی کو قید میں ڈالنے کی  بجائے احمد کمال کی تحویل میں رہنے دیا اور سلطان ایوبی کے پاس چلا گیا اسے لڑکی کا سارا بیان سنایا اس نے کہا آپ کا معتمد فیض الفاطمی ہمارا دشمن ہے لڑکیوں کو اس کے پاس آنا تھا 
سلطان ایوبی کا فوری رد عمل یہ تھا 
وہ جھوٹ بکتی ہے تمہیں گمراہ کر رہی ہے فیض الفاطمی ایسا حاکم نہیں 
امیر محترم! آپ بھول گئے ہیں کہ وہ فاطمی  ہے ؟
 علی بن سفیان نے کہا آپ شاید یہ بھی بھول گئے ہیں کہ فاطمی اور  فدائیوں کا گہرا رشتہ ہے یہ لوگ آپ کے وفادار ہو ہی نہیں سکتے
سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھو گیا وہ غالباً سوچ رہا تھا کہ کس پر بھروسہ کرے کچھ دیر بعد اس نے کہا علی !میں تمہیں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ فیض الفاطمی کو گرفتار کر لو کوئی ایسی ترکیب کرو کہ وہ جرم کرتا ہوا پکڑا جائے میں اسے موقع پر پکڑنا چاہتا ہوں اور یہ موقع پیدا کرنا تمہارا کام ہے وہ جنگ جیسے اہم شعبے کا حاکم ہے سلطنت کے جنگی راز اس  کے پاس ہیں مجھے بہت جلدی یہ ثبوت چاہیے کہ وہ ایسے گھناؤنے جرم کا مجرم ہے یا نہیں 
علی بن سفیان سراغرسانی کا ماہر تھا 
خدا نے اسے دماغ ہی ایسا دیا تھا اس نے ایک ترکیب سوچ لی اور سلطان ایوبی سے کہا لڑکی جن مراحل سے گزر کر آئی ہے ان کی دہشت نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا  ہے اور وہ احمد کمال کے لیے جذباتی ہو گئی ہے کیونکہ اس شخص نے اسے دہشت سے بچایا اور ایسا سلوک کیا ہے کہ لڑکی اس کے بغیر بات ہی نہیں کرتی مجھے امید ہے کہ میں اس لڑکی کو استعمال کر سکوں گا
کوشش کر کے دیکھو سلطان ایوبی نے کہا لیکن یاد رکھو میں واضح ثبوت اور شہادت کے بغیر اجازت نہیں دوں گا کہ فیض الفاطمی کو گرفتار کر لو مجھے ابھی تک  یقین نہیں آرہا کہ وہ بھی دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے 
علی بن سفیان لڑکی کے پاس گیا اور اسے اپنا مدعا بتایا لڑکی نے کہا احمد کمال کہے تو میں آگ میں بھی کود جاؤں گی احمد کمال نے اسے کہا جیسے یہ کہتے ہیں ویسے کردو اس کی بات سمجھ لو 
اس کا مجھے کیا انعام ملے گا ؟
لڑکی نے پوچھا تمہیں پوری حفاظت کے ساتھ فلسطین کے قلعہ شوبک میں پہنچا دیا جائے گا علی بن سفیان نے کہا اور یہاں تمہیں پوری حفاظت سے رکھا جائے گا  
نہیں! لڑکی نے کہا یہ انعام بہت تھوڑا ہے 
مجھے منہ مانگا انعام دو میں اسلام قبول کرلوں گی اور احمد کمال میرے ساتھ شادی کر لے 
احمد کمال نے صاف انکار کر دیا علی بن سفیان اسے باہر لے گیا احمد کمال نے اسے کہا کہ یہ بے شک اسلام قبول کر لے لیکن میں اسے  پھر بھی اسلام کا دشمن ہی سمجھوں گا علی بن سفیان نے اسے کہا ملک  اور قوم کی سلامتی کی خاطر تمہیں یہ قربانی دینی ہوگی احمد کمال مان گیا  اس نے اندر جا کر لڑکی سے کہا میں تمہیں چونکہ ابھی تک بے اعتبار  لڑکی سمجھ رہا ہوں اس لیے شادی سے انکار کیا ہے اگر تم ثابت کر دو کہ تمہارے دل میں میرے مذہب کے لیے قربانی کا جذبہ ہے تو میں تمام عمر تمہارا غلام رہوں گا 
لڑکی نے علی بن سفیان سے کہا کہو مجھے کیا کرنا ہے  میں بھی دیکھ لوں گی کہ مسلمان اپنے وعدے کے کتنے پکے ہوتے ہیں میری ایک شرط یہ بھی ہے کہ احمد کمال میرے ساتھ رہے گا 
علی بن سفیان نے اس کی یہ شرط بھی مان لی اور اپنے ایک اہلکار کو بلا کر احمد کمال اور لڑکی کے لیے رہائش کے انتظام کا حکم دے دیا اس نے دروازہ بند کر لیا اور لڑکی کو احمد کمال کی موجودگی میں بتانے لگا کہ اسے کیا کرنا ہے 
تیسرے دن علی بن سفیان کے بھیجے ہوئے آدمی حبشیوں کی اس مقدس جگہ پہنچ گئے جہاں سے لڑکیاں بھاگی تھیں اور جہاں رجب حبشیوں کا قیدی تھا یہ چھ آدمی  تھے اور سب اونٹوں پر سوار تھے انہوں نے بھیس نہیں بدلا تھا وہ مصری فوج  کے لباس میں تھے ان کے پاس برچھیاں تیر و کمان اور تلواریں تھیں انہیں احمد کمال نے لڑکیوں کی روئیداد سنادی تھی اس کے مطابق علی بن سفیان نے انہیں طریقہ کار سمجھا دیا تھا وہ پہاڑی خطے کے اندر گئے جسے پہاڑیوں نے قلعہ بنا رکھا تھا ایک برچھی نہ جانے کہاں سے آئی اور زمین  میں گڑ گئی اس کا مطلب یہ تھا کہ رُک جاؤ  تم گھیرے میں ہو وہ رُک گئے حبشی پروہت سامنے آیا اس کے ساتھ تین حبشی تھے جن کے پاس برچھیاں  تھیں حبشی نے انہیں خبردار کیا کہ وہ اس کے چھپے ہوئے تیر اندازوں کی زد میں ہیں  اگر انہوں نے کوئی غلط حرکت کی تو ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں  رہے گا

سب نے اپنے ہتھیار حبشیوں کے آگے پھینک دئیے اور اونٹوں سے اُتر آئے ان کے قائد نے حبشی پروہت سے ہاتھ ملا کر کہا ہم تمہارے دوست ہیں محبت لے کر آئے ہیں  تمہاری محبت لے کے جائیں گے کیا تم نے تینوں لڑکیوں کی قربانی دے دی ہے ؟
ہم مصری فوج کے باغی ہیں جماعت کے قائد نے جواب دیا ہم تمہاری اس فوج کے سپاہی ہیں جو مسلمانوں سے تمہارے دیوتا کی توہین کا انتقام لے گی ہمیں تمہارے آدمیوں نے بتایا تھا کہ انہیں شکست اس لیے ہوئی ہے کہ لڑکی کی قربانی نہیں دی جا سکی ہم رجب کے ساتھ تھے ہم نے اسے کہا کہ ہم تین فرنگی لڑکیاں اغوا کر کے لے آئیں گے اور ایک کی بجائے تین لڑکیاں قربان کریں گے اور دیوتا کے مگرمچھوں کو کھلائیں گے ہم بڑی دور سے تین لڑکیاں ورغلا کر اور بہت سے لالچ  دے کر لے آئے اور رجب کے حوالے کر دی تھیں وہ انہیں یہاں لے آیا تھا ہم  یہ دیکھنے آئے ہیں کہ لڑکیوں کی قربانی دی جاچکی ہے یا نہیں 
حبشی پروہت دھوکے میں آگیا اس نے کہا رجب نے ہمارے ساتھ کمینگی کی ہے وہ لڑکیاں لے آیا تھا مگر اس کی نیت خراب ہو گئی تھی اس نے لڑکیوں کو  یہاں سے بھگا دیا لیکن ہم نے اسے بھاگنے نہیں دیا اسے پوری سزا دی ہے ۔ لڑکیاں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہیں کیا تم دو لڑکیوں کا بندوبست کر سکتے  ہو؟ 
دیوتاؤں کا قہر سخت ہوتا جا رہا ہے
ہم ضرور بندوبست کریں گے قائد نے کہا تھوڑے دنوں تک ہم دو لڑکیاں لے آئیں گے ہمیں رجب کے پاس لے چلو ہم اس سے پوچھیں گے وہ لڑکیاں کہاں ہیں ؟

حبشی پروہت سب کو اپنے ساتھ لے گیا ایک جگہ مٹی کا ایک چوڑا اور گول برتن رکھا تھا جو ایسے ہی ایک برتن سے ڈھکا ہوا تھا پروہت نے اوپر والا برتن اُٹھا کر نیچے والے برتن میں ہاتھ ڈالا جب اس نے ہاتھ باہر نکالا تو اس کے ہاتھ  میں رجب کا سر تھا چہرے کا ہر ایک نقش بالکل صحیح اور سلامت تھا آنکھیں آدھی کھلی ہوئی تھیں منہ بند تھا یہ سر اور چہرہ گردن سے کاٹ کر  جسم سے الگ کر دیاگیا تھا اس سے پانی ٹپک رہا تھا
یہ کوئی دوائی تھی جس  میں حبشیوں نے سر ڈالا ہوا تھا تا کہ خراب نہ ہو پروہت نے کہا اس کا جسم مگرمچھوں کو کھلا دیا گیا ہے اس کے ساتھیوں کو ہم نے زندہ جھیل میں پھینک دیا تھا مگرمچھ بھوکے تھے
اگر ہمیں یہ سر دے دو تو  ہم اپنے ساتھیوں کو دکھائیں گے ایک نے کہا اور انہیں بتائیں گے کہ جو انگوک کے دیوتا کی توہین کرے گا اس کا یہ انجام ہوگا 
''تم اس  شرط پر لے جا سکتے ہو کہ کل سورج غروب ہونے سے پہلے واپس لے آؤ گے پروہت نے کہا یہ انگوک کے دیوتا کی ملکیت ہے اگر واپس نہیں لاؤ گے تو تمہارا سر جسم سے جدا ہوجائے گا 
تیسرے روز رجب کا سر سلطان صلاح الدین ایوبی کے قدموں میں پڑا تھا اور سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا 
اسی رات کا واقعہ ہے احمد کمال اور لڑکی اس مکان کے برآمدے میں سوئے ہوئے تھے جو انہیں رہائش کے لیے دیا گیا تھا اس مکان میں رہتے ہوئے انہیں چھ روز گزر گئے تھے اس دوران لڑکی احمد کمال سے کہتی رہی تھی کہ وہ  فوراً مسلمان ہونے کو تیار ہے اور احمد کمال اس کے ساتھ شادی کر لے لیکن احمد کمال ایک ہی جواب دیتا تھا پہلے فرض پورا کریں گےلڑکی نے دو تین بار اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوگا احمد کمال اسے ابھی ایک ہاتھ دور ہی رکھنے کی کوشش کر رہا تھا اس دوران لڑکی کے دل سے دہشت اُتر گئی تھی اور اب وہ ہوشمندی سے سوچنے کے قابل ہو گئی تھی
اس رات وہ اور احمد کمال برآمدے میں سوئے ہوئے تھے  باہر ایک  سپاہی پہرے پر کھڑا تھا آدھی رات سے کچھ دیر پہلے پہرہ دار مکان کے  اردگرد گھومنے کے لیے آہستہ آہستہ چلا تو کسی نے پیچھے سے اس کی گردن بازو  میں جکڑ لی فوراً بعد اس کے منہ پر کپڑا باندھ دیا گا ہاتھ اور پاؤں بھی رسیوں میں جکڑے گئے وہ چار آدمی تھے مکان کا دروازہ اندر سے بند تھا ایک آدمی دیوار سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا دوسرا اس کے کندھوں پر چڑھ کر  دیوار پھلانگ گیا اندر سے اس نے دروازہ کھول دیا  باقی تین آدمی بھی اندر چلے گئے ایک جو سب سے زیادہ قوی ہیکل تھا اس نے لڑکی کے منہ پر  کپڑا باندھ دیا لڑکی کے جاگنے تک اس نے لڑکی کو دبوچ لیا اور اُٹھا کر کندھے پر ڈال لیا تین آدمیوں نے احمد کمال کو رسیوں سے جکڑ کر اور منہ پر کپڑا باندھ کر پلنگ پر ہی پڑا رہنے دیا اسے مزاحمت کی مہلت ہی نہ ملی باہر جا کر انہوں نے لڑکی پر کمبل ڈال دیا تاکہ کوئی دیکھ لے تو اسے پتہ نہ چل سکے کہ اس آدمی کے کندھوں پر لڑکی ہے
شہر سے چار میل دور  فرعونوں کے وقتوں کی ایک وسیع و عریض اور بھول بھلیوں جیسی عمارت کے کھنڈر  تھے۔ ان کے متعلق لوگ بہت سی ڈراؤنی باتیں کیا کرتے تھے کہ عمارت کے اندر  ایک بلند چٹان ہے اس چٹان کو کاٹ کر بہت سے کمرے اور ان کمروں کے نیچے  بھی کمرے بنے ہوئے تھے ان کے اندر وہی جا کر واپس آ سکتا تھا جو ان سے واقف تھا بہت مدت سے کسی نے ان کھنڈروں کے اندر جانے کی جرأت نہیں کی تھی مشہور ہو گیا تھا کہ اندر جنوں بھوتوں کا بسیرا ہے
اندر سانپوں کا بسیرا تو ضرور ہی تھا سانپوں کے ڈر سے کوئی اس کھنڈر کے قریب سے بھی نہیں  گزرتا تھا بڑی خوفناک کہانیاں سنائی جاتی تھیں اس کے باوجود یہ چار آدمی جو لڑکی کو اغوا کر کے لے گئے تھے ان کھنڈروں میں داخل ہوگئے اور داخل بھی اس طرح ہوئے جیسے یہی ان کا گھر ہے
وہ غار نما کمروں  گردشوں اور اندھیری گلیوں میں سے بغیر رکے گزرتے گئے آگے مشعلوں کی روشنی تھی ان کے قدموں کی آہٹوں سے چمگادڑ اُڑتے اور پھڑ پھڑاتے تھے  چھپکلیاں اور رینگنے والی کئی چیزیں ادھر ادھر بھاگتی پھر رہی تھیں اندر  مکڑیوں کے جالے اور کائی بھی تھی وہ چٹان میں بنے ہوئے ایک کمرے میں داخل  ہوگئے وہاں ایک آدمی مشعل لیے کھڑا رہا تھا جو ان کے آگے آگے چل پڑا آگے سیڑھیاں تھیں جو نیچے اُترتی تھیں وہ سب نیچے اُتر گئے اور ایک طرف مڑ کر ایک وسیع کمرے میں داخل ہوگئے وہاں فرش پر بستر بچھا تھا اس کے ساتھ بڑی خوشنما دری تھی کمرہ سجا ہوا تھا لڑکی کو بستر پر ڈال کر اس کے منہ سے کپڑا کھول دیا گیا لڑکی غصے سے بولی میرے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا ہے ؟ 
میں مر جاؤں گی کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دوں گی اگر تمہیں وہاں سے اُٹھوا نہ لیا جاتا تو کل صبح تمہیں جلاد کے حوالے کر دیا جاتا ، ایک آدمی نے کہا میرا نام فیض الفاطمی ہے تمہیں میرے پاس آنا تھا باقی دو کہاں ہیں؟ 
تم اکیلی کیسے پکڑی گئی ہو؟ 
رجب کہاں ہے؟
لڑکی مطمئن ہوگئی اور بولی میں خدا کا شکر بجا لاتی ہوں جس نے مجھے بڑی بڑی خوفناک مصیبتوں سے بچا لیا میں منزل پر پہنچ گئی ہوں اس نے فیض الفاطمی کو رجب حبشیوں آندھی دو لڑکیوں کی موت اور احمد کمال کے ہتھے چڑھ جانے کی ساری روئیداد سنا دی فیض الفاطمی نے اسے تسلی دی اور ان چار آدمیوں کو جو لڑکی کو اُٹھا لائے تھے سونے کے چھ چھ ٹکڑے دئیے اور کہا تم اب اپنی اپنی جگہ سنبھال لو میں تھوڑی دیر بعد  چلا جاؤں گا یہ لڑکی تین چار روز یہیں رہے گی میں رات کو آیا کروں گا باہر جب اس کی تلاش ختم ہو جائے گی تو میں اسے لے جاؤں گا 

چاروں آدمی چلے گئے اور کھنڈر کے چاروں طرف ایسی جگہوں پر بیٹھ گئے جہاں سے باہر نظر رکھی جا سکتی تھی فیض الفاطمی کے ساتھ ایک ہی آدمی اندر رہ گیا  جو مصری فوج کا کماندار تھا اندر فیض الفاطمی اپنی کامیابی پر بہت خوش تھا اور دو لڑکیوں کی موت کا اسے غم بھی تھا اسے رجب کے انجام کا بھی علم نہیں تھا اس نے کہا رجب کو وہاں سے نکالنا ضروری ہے 
اس نے علی بن سفیان اور صلاح الدین ایوبی کے قتل کا کچھ انتظام کیا تھا جس کا مجھے علم  نہیں کہ کیا تھا اس نے غالباً فدائیوں سے معاملہ طے کیا ہے یہ دونوں قتل اب بہت ضروری ہوگئے ہیں اب ہمیں کوئی نیا منصوبہ بنانا ہے میں دوسرے ساتھیوں سے بات کر کے تمہیں کل بتاؤں گا ابھی آرام کرو مجھے واپس  جانا ہے 
صلاح الدین ایوبی کو آپ پر اعتماد ہے ؟
لڑکی نے پوچھا اتنا زیادہ کہ اپنی ذاتی باتوں میں بھی مجھ سے مشورہ لیتا ہے فیض الفاطمی نے جواب دیا مجھے پتہ چلا ہے کہ اعلیٰ حکام میں صلاح الدین ایوبی کے وفاداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے لڑکی نے کہا اور فوج بھی اس کی وفادار ہے
یہ صحیح ہے کماندار جو وہاں موجود تھا بولا اس کا سراغ رسانی کا محکمہ بہت ہوشیار ہے جہاں کوئی سر اُٹھاتا ہے اس کی نشاندہی ہوجاتی ہے اعلیٰ حکام میں دو اور ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے خلاف کام کر رہے ہیں ان کے نام آپ کو محترم فیض الفاطمی بتا سکیں گے
فیض الفاطمی نے دونوں نام بتا دئیے اور مسکرا کر لڑکی سے کہا تمہیں اعلیٰ سطح پر ہی کام کرنا ہے صرف دو حکام کے درمیان چپقلش پیدا کرنی ہے اور دو کو زہر دینا ہے جو تم آسانی سے دے سکو گی مگر اب مشکل یہ پیدا ہوگئی ہے کہ تمہیں  کسی محفل میں نہیں لے جاسکیں گے تم پردہ نشین مسلمان لڑکی کے بھیس میں  کام کرو گی ورنہ پکڑی جاؤ گی ہو سکتا ہے میں تمہیں واپس فلسطین بھیج دوں  اور کسی اور لڑکی کو بلا لوں جسے یہاں کوئی پہچان نہ سکے میرا گروہ بہت ذہین اور سرگرم ہیں یہ سالاروں سے نیچے کمانداروں کی سطح کا گروہ ہے یہ چار آدمی جو تمہیں اتنی دلیری سے اُٹھا لائے ہیں اسی گروہ کے افراد ہیں ہم نے ایوبی کی فوج میں بے اطمینانی پھیلانی شروع کر دی ہے قوم اور فوج  کو ایک دوسرے سے متنفر کرنا ضروری ہے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شامی اور ترک فوجی مصری عوام میں اپنے اچھے سلوک کردار اور لڑنے کے جذبے کی بدولت بہت مقبول ہیں اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں سوڈانیوں کو شکست  دے کر انہوں نے شہریوں کے دلوں میں عزت کا اضافہ کر لیا ہے ہمیں فوج کی اس عزت کو مجروح کرنا ہے سالاروں اور دیگر فوج حکام کو رسوا کرنا ہے اس کے بغیر ہم صلیبیوں اور سوڈانیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے باہر کا حملہ ناکام رہے گا فوج اسے کامیاب نہیں ہونے دے گی قوم فوج کا ساتھ دے گی اگر اس وقت ایک طرف سے صلیبی اور دوسری طرف سے سوڈانی حملہ کردیں تو قوم اور فوج مل کر قاہرہ کو ایسا قلعہ بنا دے گی جسے فتح کرنا ناممکن ہوگا قاہرہ کو فتح کرنے کے لیے ہمیں زمین ہموار کرنی ہوگی لوگوں کے ذہنوں میں وہم اور وسوسے اور نوجوانوں کے کردار میں جنس پرستی اور آوارگی پیدا کرنی ہوگی۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ کام دو سال سے ہورہا ہےلڑکی نے کہا ، خاصی کامیابی بھی ہوئی ہے فیض الفاطمی نے کہا بدکاری میں اضافہ ہوگیا ہے مگر صلاح الدین ایوبی نے ایک تو نئے مدرسے کھول دئیے ہیں دوسرے مسجدوں میں خطبے سے خلیفہ کا نام نکال کر کوئی اور ہی رنگ پیدا کر دیا ہے اور لڑکوں کو عسکری تعلیم دینی شروع کر دی ہے ، بات یہی تک پہنچی تھی کہ ان چار آدمیوں میں سے ایک آیا اور فیض الفاطمی سے کہا ابھی باہر نہ جانا کچھ گڑبڑ ہے 
فیض الفاطمی گھبرایا اس آدمی کے ساتھ باہر چلا گیا ایک اونچی جگہ چھپ کر دیکھا آدھی رات کے پورے چاند نے باہر کے ماحول کو روشن کر رکھا تھا اس نے کہا تم لوگوں نے بے احتیاطی کی ہے یہ تو فوجی معلوم ہوتے ہیں گھوڑے بھی ہیں تم چاروں طرف سے دیکھو میں کدھر سے نکل جاؤں 
میں دیکھ چکا ہوں اس آدمی نے جواب دیا یوں نظر آتا ہے جیسے ہم  مکمل گھیرے میں ہیں آپ وہیں چلے جائیں مشعلیں بجھا دیں وہاں سے نکلنے کی غلطی نہ کریں وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا 
فیض الفاطمی کھنڈروں میں غائب ہوگیا اور یہ آدمی جو پہرہ دے رہا تھا بلند جگہ سے اُتر  کر اندر کو جانے کی بجائے دیواروں کے ساتھ ساتھ چھپتا باہر نکل گیا باہر  کا یہ عالم تھا کہ پچاس کے قریب پیادہ فوجی تھے اور بیس پچیس گھوڑوں پر سوار تھے انہوں نے سارے کھنڈر کو گھیرے میں لے لیا تھا یہ پہرہ دار ان تک گیا اور ایک فوجی سے پوچھا علی بن سفیان کہاں ہیں ؟
اسے بتایا  گیا تو وہ دوڑتا ہوا گیا اس دستے کی کمان علی بن سفیان خود کر رہا تھا اس کے ساتھ احمد کمال تھا پہرہ دار نے انہیں کہا اندر کوئی ایسا خطرہ نہیں آپ کے ساتھ دو آدمی بھی کافی ہیں میرے ساتھ آئیں یہ پہرہ دار ان چار آدمیوں میں سے تھا جنہوں نے لڑکی کو اغوا کیا تھا ۔
علی بن سفیان نے دو مشعلیں روشن کرائیں احمد کمال اور چار عسکریوں کو ساتھ لیا دو کے ہاتھوں میں مشعلیں دیں سب نے تلواریں نکال لیں اور اس آدمی کے  ساتھ کھنڈر میں داخل ہوگئے انہوں نے دیکھا کہ کوئی آدمی کسی طرف سے آیا اور دوڑتا ہوا اندر کی طرف چلا گیا ہے علی بن سفیان کے راہنما نے کہا یہ ان کا آدمی ہے وہ اندر والوں کو خبردار کرنے چلا گیا ہے آپ تیز چلیں وہ سب دوڑ پڑے اگر یہ لوگ راہنما کے بغیر ہوتے تو ان بھول بھلیوں میں بھٹک جاتے یا ڈر کر وہاں سے بھاگ آتے راہنما کے ساتھ وہ بڑی اچھی رفتار سے جارہے تھے کسی طرف سے ایک اور آدمی دوڑتا آیا اس کی انہیں یہ آواز سنائی دی میں ادھر جارہا ہوں تیز چلو یہ راہنما کا ساتھی تھا
وہ اس چٹانی کمرے میں پہنچ گئے جس سے سیڑھیاں نیچے اُترتی تھیں نیچے سے انہیں آوازیں سنائی دیں ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے یہ دونوں ان کے آدمی ہیں پھر تلواریں ٹکڑانے کی آوازیں سنائی دیں اور یہ بھی آواز آئی اسے بھی ختم کر دو یہ گواہی نہ دے سکے
علی بن سفیان اور احمد کمال مشعل برداروں کے پیچھے دوڑتے پھلانگتے نیچے اُترے اس کمرے میں پہنچے تو وہاں خون بہہ رہا تھا لڑکی پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھے  ہوئے بیٹھی ہوئی تھی فیض الفاطمی کے ساتھی جو کماندار تھا وہ اور ایک اور آدمی فیض الفاطمی اور ایک پہرہ دار سے لڑ رہے تھے علی بن سفیان نے فیض الفاطمی کو للکارا فیض الفاطمی نے جب اپنے خلاف بہت سی تلواریں دیکھیں تو اس نے تلوار پھینک دی احمد کمال نے دوڑ کر لڑکی کو سنبھالا اس کا پیٹ چاک ہو چکا تھا  احمد کمال نے فرش پر بچھے ہوئے بستر سے چادر اُٹھا کر  لڑکی کے پیٹ پر کس کر باندھ دی اور علی بن سفیان سے کہا مجھے اجازت ہو تو اسے باہر لے جاؤں ؟
علی بن سفیان نے اسے اجازت دے دی احمد کمال نے  لڑکی کو بازوؤں پر اُٹھا لیا وہ سخت تکلیف میں تھی پھر بھی اس نے مسکرا کر احمد کمال سے کہا میں نے فرض پورا کر دیا ہے تمہارے مجرم پکڑوا دئیے ہیں
فیض الفاطمی اور لڑکی کو اغوا کرنے والے چار میں سے دو آدمیوں کو گرفتار کر لیا گیا باقی دو آدمی اور ایک کماندار جو فیض الفاطمی کے ساتھ تھے علی بن سفیان کے آدمی تھے یہ ایک ڈرامہ تھا جو فیض الفاطمی کو موقعہ پر گرفتار کرنے کے لیے کھیلا گیا تھا لڑکی نے پورا پورا تعاون کیا لیکن زخمی ہو گئی یہ ڈرامہ اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ لڑکی سے وہ خفیہ الفاظ معلوم کیے گئے جو اس کے گروہ کو ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے  استعمال کرنے تھے لڑکی نے یہ بھی بتا دیا کہ اسے فیض الفاطمی کے پاس جانا تھا علی بن سفیان نے اپنے تین ذہین جاسوس استعمال کیے جن میں ایک  کماندار کے عہدے کا تھا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی