👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟜 𝟚⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟜  𝟚⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حبشیوں کا یہ قبیلہ جو انگوک کہلاتا تھا خوفزدہ تھا، ایک تو ان کے دیوتا کی قربانی پوری نہیں ہوئی دوسرے ان کا پروہت مارا گیا تیسرے ان کے دیوتا کا بت اور مسکن ہی تباہ کر دیا گیا اور چوتھی مصیبت یہ نازل ہوئی کہ قبیلے کے سینکڑوں جوان دیوتا کی توہین کا انتقام لینے گئے تو انہیں شکست ہوئی اور زیادہ تر مارے گئے اس قبیلے کے گھر گھر میں ماتم ہو رہا تھا ان میں سے بعض لوگ یہ بھی سوچنے لگے تھے کہ جس نے ان کا دیوتا کا بت توڑا ہے وہ کوئی بہت ہی بڑا دیوتا ہوگا
 مرے ہوئے پروہت کے جانشیں نے جب اپنے قبیلے کا یہ حال دیکھا تو اس نے پہلے یہ کہا کہ دیوتا کے مگر مچھ بھوکے ہیں ان کے پیٹ بھرو۔ حبشیوں نے کئی ایک بکریاں مگر مچھوں کے لیے بھیج دیں ایک نے تو اونٹ پروہت کے حوالے کر دیا یہ جانور کئی دن تک مگر مچھوں کی جھیل میں پھینکے جاتے رہے مگر قبیلے سے خوف کم نہ ہوا 

ایک رات نئے پروہت نے قبیلے کو پہاڑی جگہ سے باہر جمع کیا اور اس نے دیوتاؤں تک رسائی حاصل کی ہے  دیوتاؤں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ چونکہ وقت پر لڑکی کی قربانی نہیں ہوئی اس لیے قبیلے پر یہ مصیبت نازل ہوئی ہے دیوتاؤں نے کہا کہ اب بیک وقت دو لڑکیوں کی قربانی دی جائے گی تو مصیبت ٹل سکتی ہے ورنہ دیوتا سارے قبیلے کو چین نہیں لینے دیں گے پروہت نے یہ بھی کہا کہ لڑکیاں انگوک نہ ہوں اور سوڈان کی بھی نہ ہوں ان کا سفید فام ہونا ضروری ہے اتنا سننا تھا کہ قبیلے کے بہت سے دلیر اور نڈر آدمی اٹھ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ مصر سے دو فرنگی یا مسلمان لڑکیاں اٹھا لائیں گے

ادھر سے رجب فلسطین سے تین صلیبی لڑکیاں دس محافظوں کے ساتھ لا رہا تھا اس کا سفر بہت لمبا تھا اور یہ سفر خطرناک بھی تھا وہ سلطان ایوبی کی فوج کا بھگوڑا اور باغی سالار تھا اسے معلوم تھا کہ سرحد کے ساتھ ساتھ سلطان ایوبی نے کشتی پہرے کا انتظام کر رکھا ہے اس لیے وہ اپنے قافلے کو دور کا چکر کاٹ کر لا رہا تھا اس کے قافلے میں تین اونٹ تھے جن پر پانی خوراک اور صلیبیوں کا دیا ہوا بہت سارا سامان لدا ہوا تھا باقی سب گھوڑوں پر سوار تھے کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ دیوتاؤں کے پہاڑی مسکن میں پہنچ گئے اس سے ایک ہی روز پہلے قبیلے کے پروہت نے کہا تھا کہ وہ سفید فام اور سوڈان کے باہر کی لڑکیوں کی قربانی دینی ہے رجب سب سے پہلے پروہت سے ملا پروہت نے اس کے ساتھ تین سفید فام اور بہت ہی حسین لڑکیاں دیکھیں تو اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں یہ لڑکیاں قربانی کے لیے موزوں تھیں اس نے رجب سے لڑکیوں کے متعلق پوچھا تو رجب نے اسے بتایا کہ انہیں وہ خاص مقصد کے لیے اپنے ساتھ لایا ہے

رجب لڑکیوں کو پہاڑیوں کے اندر ایک ایسی جگہ لے گیا جو سر سبز اور خوشنما تھی اور تین اطراف سے پہاڑیوں میں گھری ہوئی تھی وہاں رجب نے خیمے گاڑ دئیے تھے لڑکیوں کو چوری چھپے موقع محل دیکھ کر قاہرہ میں ان دو آدمیوں کے حوالے کرنا تھا جن کے اتے پتے اسے صلیبیوں نے دئیے تھے لڑکیوں کے آرام و آسائش کا پورا انتظام تھا رجب نے وہاں شراب کا بھی انتظام کر رکھا تھا رات اس نے سفر سے کامیاب لوٹنے کی خوشی میں جشن منایا صلیبی محافظوں کو بھی شراب پلائی لڑکیوں نے بھی پی 
آدھی رات کے بعد جب محافظ اور اس کے چند ایک ساتھی جو پہلے ہی وہاں موجود تھے سوگئے تو رجب نے ایک لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اپنے خیمے میں جانے لگا لڑکی اس کی نیت پھانپ گئی اس نے اسے کہا میں طوائف نہیں ہوں میں یہاں صلیب کا فرض لے کر آئی ہوں میں آپ کے ساتھ شراب پی سکتی ہوں مگر بدی قبول نہیں کرونگی 
رجب نے اسے ہنستے ہوئے اپنے خیمے کی طرف گھسیٹا تو لڑکی نے اپنا بازو چھڑا لیا رجب نے دست درازی کی تو لڑکی دوڑ کر اپنی ساتھی لڑکیوں کے پاس چلی گئی وہ دونوں بھی باہر آگئیں انہوں نے رجب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ انہیں غلط نہ سمجھے
رجب کو غصہ آگیا اس نے کہا میں جانتا ہوں تم کتنی پاک باز ہو بے حیائی تمہارا پیشہ ہے 
اس پیشے کا استعمال ہم وہاں کرتی ہیں جہاں اپنے فرض کے لیے ضروری ہوتا ہے لڑکی نے کہا ہم عیاشی کی خاطر عیاشی نہیں کیا کرتیں 
رجب ان کی کوئی بات نہیں سمجھنا چاہتا تھا 
آخر لڑکیوں نے اسے کہا ہمارے ساتھ دس محافظ ہیں 
وہ ہماری حفاظت کے لیے ساتھ آئے ہیں ۔ انہیں کل واپس چلے جانا ہے اگر ہم نے ان کی ضرورت محسوس کی تو ہم انہیں یہاں روک سکتی ہیں یا خود یہاں سے جاسکتی ہیں
رجب چپ ہوگیا مگر اس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ لڑکیوں کو بخشے گا نہیں وہ رات گزر گئی دوسرے دن رجب نے فلسطین سے ساتھ لائے ہوئے محافظوں کو رخصت کر دیا ،  دن گزر گیا شام کے وقت رجب لڑکیوں کے ساتھ بیٹھا ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا کہ پروہت اپنے چار حبشیوں کے ساتھ آگیا اس نے سوڈانی زبان میں رجب سے کہا ہمارے دیوتا ہم سے ناراض ہیں 
انہوں نے دو فرنگی یا مسلمان لڑکیوں کی قربانی مانگی ہے
 یہ لڑکیاں قربانی کے لیے موزوں ہیں 
ان میں سے دو لڑکیاں ہمارے حوالے کر دو 
رجب چکرا گیا اس نے جواب دیا یہ لڑکیاں قربانی کے لیے نہیں ہیں ان سے ہمیں بہت کام لینا ہے اور انہی کے ہاتھوں ہمیں تمہارے دیوتاؤں کے دشمن کو مروانا ہے 
تم جھوٹ بولتے ہو پروہت نے کہا تم ان لڑکیوں کو تفریح کے لیے لائے ہو ہم ان میں سے دو لڑکیوں کو قربان کریں گے 
رجب نے بہت دلیلیں دیں مگر پروہت نے کسی ایک بھی دلیل کو قبول نہ کیا اس کے دماغ پر دیوتا سوار تھے
اس نے اُٹھ کر دو لڑکیوں کے سروں پر باری باری ہاتھ رکھے اور کہا یہ دونوں دیوتا کے لیے ہیں 
انگوک کی نجات ان دو لڑکیوں کے ہاتھ میں ہے 
 یہ کہہ کر وہ چلا گیا رُک کر رجب سے کہا لڑکیوں کو ساتھ لے کر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا تم جانتے ہو کہ ہم تمہیں فوراً ڈھونڈ لائیں گے 
لڑکیاں سوڈان کی زبان نہیں سمجھتی تھیں 
حبشی پروہت نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھا رجب کو پریشان دیکھا تو انہوں نے رجب سے پوچھا کہ یہ حبشی کیا کہہ رہا تھا
رجب نے انہیں صاف صاف بتا دیا کہ وہ انہیں قربانی کے لیے مانگتا ہے 
لڑکیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ تمہارے سر کاٹ کر خشک ہونے کے لیے رکھ دیں گے اور جسم جھیل میں پھینک دیں گے مگر مچھ جسموں کو کھا جائیں گے لڑکیوں کے رنگ فق ہوگئے انہوں نے رجب سے پوچھا کہ اس نے انہیں بچانے کے لیے کیا سوچا ہے
رجب نے جواب دیا میں نے اسے سمجھانے کی ساری دلیلیں دے ڈالی ہیں 
مگر اس نے ایک بھی نہیں سنی میں ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہوں میں تو انہیں ساتھ ملانا چاہتا ہوں یہ میری فوج میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں 
لیکن اپنے عقیدے کے اتنے پکے ہیں کہ پہلے دیوتاؤں کو خوش کریں گے پھر میری بات سنیں گے 
رجب کی باتوں اور انداز سے لڑکیوں کو شک ہو گیا کہ وہ انہیں بچا نہیں سکے گا یا انہیں خوش کرنے کے لیے بچانے کی کوشش نہیں کرے گا انہوں نے گزشتہ رات رجب کی نیت کی ایک جھلک دیکھ بھی لی تھی 
اس لیے وہ اس سے مایوس ہوگئی تھیں 
رجب نے انہیں رسمی طور پر بھی تسلی نہ دی کہ وہ انہیں بچا لے گا لڑکیاں خیمے میں چلی گئیں انہوں نے صورتِ حال پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ یہاں رجب کی عیاشی کا ذریعہ بننے یا حبشیوں کے دیوتا کی بھینٹ چڑھنے کے لیے نہیں آئیں 
وہ بے مقصد موت نہیں مرنا چاہتی تھیں 
انہوں نے وہاں سے فرار کا ارادا کیا فرار ہو کر فلسطین خیریت سے پہنچنا آسان کام نہ تھا مگر کوئی چارہ کار بھی نہ تھا یہ لڑکیاں صرف خوبصورت اور دلکش ہی نہیں تھیں گھوڑ سواری اور سپاہ گری کی بھی انہیں تربیت دی گئی تھی تاکہ ضرورت پڑے تو اپنا بچاؤ خود کر سکیں انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہاں سے بھاگ کر فلسطین چلی جائیں گی
وہ رات خیریت سے گزر گئی دوسرے دن لڑکیوں نے اچھی طرح دیکھا کہ رات کو گھوڑے کہاں بندھے ہوتے ہیں اور وہاں سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے
حبشی پروہت دن کے وقت بھی آیا او رجب کے ساتھ باتیں کر کے چلا گیا لڑکیوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کہہ گیا ہے
رجب نے انہیں بتایا کہ وہ کل رات تمہیں یہاں سے لے جائیں گے وہ مجھے دھمکی دے گیا ہے کہ میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے قتل کر کے مگرمچھوں کی جھیل میں پھینک دیں گے لڑکیوں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ فرار کا فیصلہ کر چکی ہیں کیونکہ انہیں رجب کی نیت پر شک ہوگیا تھا 
وہ غیر معمولی طور ذہین لڑکیاں تھیں 
انہوں نے رجب کے ساتھ ایسی باتیں کیں اور ایسی باتیں اس کے منہ سے کہلوائیں جن سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ انہیں بچانے کی بجائے حبشیوں کو خوش کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسے وہیں چھپائے رکھیں اور اسے سلطان ایوبی کے خلاف فوج تیار کرنے میں مدد دیں 
لڑکیوں کو یہ بھی شک ہوا کہ رجب انہیں ایسی قیمت کے عوض بچانے کی کوشش کرے گا جو وہ اسے دینا نہیں چاہتیں تھیں
سارا دن اسی شش و پنج میں گزر گیا رجب کو شک نہ ہوا کہ لڑکیاں بھاگ جائیں گی اسے اس وقت بھی شک نہ ہوا جب لڑکیوں نے اسے کہا کہ ایسے جہنم نما صحرا میں ایسا سر سبز خطہ قدرت کا عجوبہ ہے 
آؤ ذرا اس کی سیر کرا دو رجب انہیں گھمانے پھرانے لگا آگے وہ بھیانک جھیل آگئی جس کے کنارے پر پانچ چھ مگر مچھ بیٹھے تھے جھیل کا پانی غلیظ اور بدبودار تھا ایک لڑکی نے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پہاڑی کے اندر چشمہ ہے جب اس نے پہاڑی کے اندر دیکھا تو ایک لڑکی کی چیخ نکل گئی پانی پہاڑی کے اندر ایک وسیع غار بنا چلا گیا تھا رجب نے کہا یہ ہیں وہ مگر مچھ جو یہاں کے مجرموں کو اور قربان کی ہوئی لڑکیوں کے جسموں کو کھاتے ہیں 
ایسا ہولناک منظر دیکھ کر لڑکیوں کے دلوں میں فرار کا ارادہ اور زیادہ پختہ ہوگیا انہوں نے سیر کے بہانے فرار کا راستہ اچھی طرح دیکھ لیا اور ایسی نرم زمین دیکھ لی جس پر گھوڑوں کے قدموں کی آواز پیدا نہ ہو

ادھر حبشی پروہت قریبی بستی میں بیٹھا قبیلے کو یہ خوشخبری سنا رہا تھا کہ قربانی کے لیے لڑکیاں مل گئی ہیں اور قربانی آج سے چوتھی رات دی جائے گی جو پورے چاند کی رات ہوگی اس نے کہا کہ قربانی دیوتاؤں کے مسکن اور معبد کے کھنڈروں پر دی جائے گی اس کے بعد ہم یہ معبد خود تعمیر کریں گے اور جب یہ معبد تعمیر ہوجائے گا تو ہم اس قوم سے انتقام لیں گے جنہوں نے ہمارے دیوتا کی توہین کی ہے
نصف شب کا وقت تھا رجب اور اس کے ساتھیوں کو لڑکیوں نے اپنے خصوصی فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنی شراب پلادی تھی کہ ان کی بیداری کا خطرہ ہی ختم ہوگیا تھا وہ بے ہوش پڑے تھے لڑکیوں نے سفر کے لیے سامان باندھ لیا تین گھوڑوں پر زینیں کسیں سوار ہوئیں اور اس نرم زمین پر گھوڑوں کو ڈال دیا جو انہوں نے دن کے وقت دیکھی تھی اس خطے کے ایک حصے میں چار حبشی موجود تھے لیکن وہ سوئے ہوئے تھے اور دور تھے انہیں معلوم تھا کہ یہاں سے کوئی بھاگنے کی جرأت نہیں کر سکتا اگر بھاگے گا تو صحرا اسے راستے میں ہی ختم کردے گا مگر لڑکیاں اس سرسبز خوشنما اور ہولناک قید خانے سے نکل گئیں وہ اسی راستے سے فلسطین جانا چاہتی تھیں جس راستے سے رجب انہیں لایا تھا 
وہ تھیں تو غیر معمولی طور پر ذہین اور انہیں عسکری تربیت بھی دی گئی تھی مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ صحرا میں اس قدر فریب چھپے ہوئے ہیں جو دانش مندوں کو بھی عقل کا اندھا کر دیا کرتے ہیں 
اتنے طویل صحرائی سفر پر لوگ قافلوں کی صورت میں نکلا کرتے تھے اور ان کے پاس صحرا کی ہر آفت کا مقابلہ کرنے کا اہتمام ہوتا تھا
رات کے وقت تو صحرا سرد تھا تینوں لڑکیوں نے اس جگہ سے کچھ دور تک گھوڑوں کو آہستہ آہستہ چلایا پھر ایڑ لگا دی گھوڑے سرپٹ دوڑنے لگے بہت دور جا کر انہوں نے گھوڑوں کی رفتار کم کر دی باقی رات گھوڑے اسی رفتار پر چلتے رہے صبح طلوع ہوئی اور جب سورج اوپر آیا تو لڑکیوں کے اردگرد ریت کے گول گول ٹیلے تھے اور ان سے آگے ریتلی مٹی کی اونچی اونچی پہاڑیاں کھڑی تھیں کوئی راستہ نہ تھا انہوں نے سورج سے اپنی سمت کا اندازہ کیا اور ٹیلوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہوگئیں گھوڑے پیاسے تھے ہر گھوڑے پر پانی کا ایک ایک چھوٹا مشکیزہ تھا جو ایک دن کے لیے بھی کافی نہیں تھا گھوڑوں کو کہاں سے پانی پلایا جاتا لڑکیاں کسی نخلستان کی تلاش میں چلتی چلی گئیں سورج اوپر اُٹھتا گیا اور صحرا کو دوزخ بناتا گیا نخلستان کا کہیں نشان اور تصور بھی نظر نہیں آتا تھا
رجب اور اس کے ساتھی سورج طلوع ہونے پر بھی نہ جاگے وہ تو بیہوشی کی نیند سوئے ہوئے تھے
پروہت اپنے تین حبشیوں کے ساتھ آیا اس نے سب سے پہلے لڑکیوں کے خیمے دیکھے خیمہ خالی تھا اس نے رجب کو جگایا اور کہا دونوں لڑکیاں میرے حوالے کر دو رجب ہڑبڑا کر اُٹھا اور پروہت کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ ان لڑکیوں کو ضائع نہ کرے اس نے اسے تفصیل سے بتایا کہ ان لڑکیوں سے کیا کام لینا ہے مگر پروہت نے اس کی ایک بھی نہ مانی رجب نے اپنے ساتھیوں کو جگانا چاہا تو حبشیوں نے اسے پکڑ لیا پروہت نے پوچھا لڑکیاں کہاں ہیں؟
رجب نے وہیں سے لڑکیوں کو پکارا تو اسے کوئی جواب نہ ملا خیمے میں جا کر دیکھا انہیں ادھر ادھر دیکھا وہ کہیں نظر نہ آئیں اچانک نظر زینوں پر پڑی تین زینیں غائب تھیں
گھوڑے دیکھے تو تین گھوڑے غائب تھے
رجب نے پروہت سے کہا وہ تمہارے ڈر سے بھاگ گئی ہیں تم نے بڑے کام کی لڑکیوں کو بھگا دیا
انہیں تم نے بھگایا ہے پروہت نے کہا پروہت پرست اور اپنے تین حبشیوں سے رجب کے متعلق کہا اسے لے جا کر باندھ دو اس نے انگوک کے دیوتا کو پھر ناراض کر دیا ہے اچھے سواروں کو بلاؤ اور لڑکیوں کا پیچھا کرو وہ دور نہیں جا سکتیں 
رجب کے احتجاج اور منت سماجت کو نظر انداز کرتے ہوئے حبشی اسے اپنے ساتھ لے گئے اور ایک درخت کے ساتھ اس طرح باندھ دیا کہ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اس کے سوئے ہوئے ساتھیوں کے ہتھیار اُٹھا لیے گئے پھر انہیں جگا کر دھمکی دی گئی کہ وہ یہاں سے ہلے تو قتل ہوجائیں گے تھوڑی دیر بعد چھ گھوڑ سوار اور شتر سوار آگئے انہیں لڑکیوں کے تعاقب میں روانہ کر دیا گیا ریت پر تین گھوڑوں کے قدموں کے نشان صاف تھے
اسی سمت کو یہ حبشی سوار انتہائی رفتار سے روانہ ہوگئے لڑکیوں کو پکڑنا آسان نہیں تھا کیونکہ فرار اور تعاقب میں آٹھ دس گھنٹوں کا فرق تھا حبشی سواروں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ صحرا کے بھیدی تھے اور مرد تھے سختیاں جھیل سکتے تھے آگے جا کر انہیں یہ مشکل پیش آئی کہ ہوا چل رہی تھی جس نے ریت اُڑا اُڑا کر گھوڑوں کے قدموں کے نشان غائب کر دئیے تھے  پھر بھی وہ اندازے پر چلتے گئے
تین چار گھنٹوں کے بعد انہیں ایک طرف سے آسمان پر اُفق کے کچھ اُوپر تک مٹیالی سرخی دکھائی دی جو اُوپر کو اُٹھتی اور آگے بڑھتی آرہی تھی 
سواروں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا گھوڑوں اور اونٹوں کو پیچھے کی طرف موڑ کر سرپٹ دوڑا دیا یہ صحرا کی وہ آندھی تھی جو بڑے بڑے ٹیلوں کو ریت کے ذروں میں بدل کر اُڑا لے جاتی ہے کوئی انسان یا جانور کہیں رُک کر کھڑا رہے یا بیٹھ جائے تو ریت اس کے جسم کے ساتھ رُک رُک کر اسے زندہ دفن کر دیتی ہے اور اس پر ٹیلا کھڑا ہو جاتا ہے وہاں آندھی سے بچنے کے لیے کوئی مضبوط ٹیلا نہیں تھا وہ بھاگ کر اپنے پہاڑی خطے تک پہنچنا چاہتے تھے جو بہت ہی دور تھا وہاں تک آندھی پہنچ گئی تھی اسے خطے کے درخت دوہرے ہو ہو کر چیخ رہے تھے جھیل کے مگر مچھ پہاڑی کے آبی غار میں جا چھپے تھے پروہت ایک جگہ زمین پر گھٹنے ٹیکے ہوئے ہاتھ ہوا میں بلند کرتا اور زور زور سے زمین پر مارتا تھا ہر بار بلند آواز سے کہتا تھا 
انگوک کے دیوتا اپنے قہر کو سمیٹ لے ہم دو بہت ہی خوبصورت لڑکیاں تیرے قدموں میں پیش کر رہے ہیں 
وہ اس آندھی کو دیوتا کا قہر سمجھ رہا تھا 
صحرا اور آندھی کا چولی دامن کا ساتھ تھا 
لیکن سرخ اور ایسی تیز و تند آندھی کبھی کبھی چلا کرتی تھی 

وہ حبشیوں کے خطرے سے تو بہت دور نکل گئی تھیں مگر صحرا کے ایسے خطرے میں آگئیں جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا 
ان کے لیے دوسری مصیبت یہ آئی کہ ریت کے بوچھاڑوں اور آندھی کے زناٹوں سے گھبرا کر تینوں گھوڑے منہ زور اور بے لگام ہو کر دوڑ پڑے وہ چونکہ اکھٹے بدکے تھے اسے لیے اکھٹے ہی دوڑتے جا رہے تھے اس سے یہ فائدہ تو ہوا کہ ریت میں دب جانے کا خطرہ نہ رہا مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ بے لگام گھوڑے کہاں جا رکیں گے اور وہ جگہ اصل راستے سے کتنی دور ہوگی لڑکیوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ گھوڑوں کو قابو میں کر لیتیں اور گھوڑوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زیادہ دوڑ سکتے وہ پیاسے تھے اور آدھی رات سے مسلسل چل رہے تھے
تھکن اور پیاس گھوڑوں کو بے حال کرنے لگی ایک گھوڑا منہ کے بل گرا اس کی سوار لڑکی ایسی گری کہ گھوڑا اُٹھا اور جب پھر گرا تو لڑکی اس کے نیچے آگئی اسے مرنا ہی تھا کچھ اور آگے گئے تو ایک گھوڑے کا تنگ ڈھیلا ہوگیا زین ایک طرف لڑھک گئی اس کی سوار اسی پہلو پر گری مگر بایاں پاؤں رکاب میں پھنس گیا  لڑکی زمین پر گھسیٹی جانے لگی تیسری لڑکی اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی اس کا اپنا گھوڑا بے قابو تھا وہ اپنی ساتھی کی چیخیں سنتی رہی پھر چیخیں خاموش ہوگئیں اور وہ لڑکی کی لاش کو گھوڑے کے ساتھ زمین پر جاتا دیکھتی رہی اس پر دہشت طاری ہوگئی وہ کتنی ہی دلیر کیوں نہ تھی آخر لڑکی تھی زور سے رونے لگی ڈھیلی زین والا گھوڑا یکلخت رُک گیا تیسری لڑکی اپنا گھوڑا نہ روک سکی اس نے پیچھے دیکھا آندھی میں اسے کچھ نظر نہ آیا کہ اس گھوڑے کا کیا حشر ہوا لڑکی تو یقیناً مر چکی تھی
تیسری لڑکی اکیلی رہ گئی اس نے رکابوں سے پاؤں پیچھے کر لیے اس کی دہشت زدگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے گھوڑے کی لگام چھوڑ کر ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر جوڑ دئیے اور گلا پھاڑ کر خدا کو پُکارنے لگی میرے عظیم خدا آسمانوں کے خدا میرے گناہ معاف کر دے میں گنہگار ہوں 
میرا بال بال گنہگار ہے 
میں گناہ کرنے آئی تھی  
میں نے گناہوں میں پرورش پائی ہے
میرے خدا میں اس وقت بہت چھوٹی تھی 
جب مجھے بڑوں نے گناہوں کے راستے پر ڈالا تھا
انہوں نے مجھے گناہوں کے سبق دیتے جوان کیا اور کہا کہ جاؤ مردوں کو اپنے حُسن اور اپنے جسم سے گمراہ کرو ان کے ہاتھوں انسانوں کو قتل کرواو جھوٹ بولو فریب دو اور بدکار بن جاؤ انہوں نے بتایا تھا کہ یہ صلیب کا فرض ہے
تم پورا کرو گی تو جنت میں جاؤ گی وہ پاگلوں کی طرح چلا رہی تھی اور اس کے گھوڑے کی رفتار گھٹتی جا رہی تھی 
زار و قطار روتے ہوئے اس نے خدا سے کہا تیرا جو مذہب سچا ہے 
مجھے اسی کا معجزہ دکھا 
اس کے عقیدے متزلزل ہوگئے تھے
گناہوں کے احساس نے اس کے دماغ پر قابو پالیا تھا 
موت کے خوف نے اسے فراموش کرا دیا تھا کہ اس کا مذہب کیا ہے 
اسے اپنا ماضی گناہوں میں ڈوبا ہوا نظر آرہا تھا اور اس کے دل میں یہ احساس بیدار ہوتا جا رہا تھا کہ وہ مردوں کے استعمال کی چیز ہے اور اسے دھوکے اور فریب کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اب سزا صرف اس اکیلی کو مل رہی ہے
اسے غشی کی لہر آئی اور گزر گئی اس نے دھاڑ ماری اور سر کو جھٹک کر بلند آواز سے کہا میری مدد کرو میرے خدا میں ابھی مرنا نہیں چاہتی اور اس کے ساتھ ہی اسے یاد آگیا کہ وہ یتیم بچی ہے 
موت کے سامنے انسان ماضی کی طرف بھاگتا ہے جو انسانی فطرت کا قدرتی عمل ہے
اس جوان لڑکی نے بھی ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر وہاں کچھ بھی نہ تھا 
ماں نہیں تھی 
باپ نہیں تھا 
کوئی بہن بھائی نہیں تھا 
اسے کچھ یاد آیا کہ صلیبیوں نے اسے پالا اس راہ پہ ڈالا ہے جہاں وہ ایک بڑا ہی حسین دھوکہ بن گئی تھی 
اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی وہ اب بخشش چاہتی تھی 
اسے غشی آنے لگی گھوڑے کی رفتار سست ہو گئی تھی کہ وہ بمشکل چل رہا تھا اور اس کے ساتھ آندھی بھی تھمنے لگی تھی لڑکی ہوش کھو بیٹھی تھی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان ایوبی نے سرحد کے ساتھ ساتھ گشتی پہرے کا انتظام کر رکھا تھا ان  میں سے تین دستوں کا ہیڈ کواٹر سوڈان اور مصر کی سرحد سے چار پانچ میل اندر  کی طرف تھا ہیڈ کواٹر کے خیمے ایسی جگہ نصب کیے گیے تھے جہاں آندھیوں سے بچنے کی اوٹ تھی مگر اس آندھی نے ان کے خیمے اُکھاڑ پھینکے تھے 
گھوڑوں اور اونٹوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا 
آندھی رُکی تو سپاہی خیمے وغیرہ سنبھالنے میں مصروف ہو گئے ان تین دستوں کا کمانڈر ایک تُرک احمد کمال تھا وہ ایک خوبرو اور گورے رنگ کا تنو مند مرد تھا 
وہ بھی آندھی رُکتے ہی باہر آگیا اور ساز و سامان اور جانوروں کا جائزہ لے رہا تھا فضا گرد سے صاف ہوگئی تھی ایک سپاہی نے ایک طرف اشارہ کر کے اسے کہا کماندار وہ گھوڑا اور سوار ہمارا تو نہیں ؟
ہم نے ابھی لڑکیوں کو فوج میں شامل نہیں کیا احمد کمال نے جواب دیا وہ لڑکی معلوم ہوتی ہے بال بکھرے ہوئے صاف نظر آرہے تھے

وہ اسی سپاہی کو ساتھ لے کر دوڑ پڑا  ایک گھوڑا سر نیچے کیے نہایت ہی آہستہ آہستہ آرہا تھا اسے چارے کی بو آئی تو ہیڈ کواٹر کے گھوڑوں کی طرف چل پڑا گھوڑے پر ایک لڑکی اس طرح سوار  تھی کہ اس کے بازو گھوڑے کی گردن کے ادھر ادھر تھے اور لڑکی آگے کو اس طرح جھکی ہوئی تھی کہ اس کا سر گھوڑے کی گردن سے ذرا پیچھے تھا لڑکی کے بال  بکھر کر آگے آگئے تھے
احمد کمال کے پہنچنے تک گھوڑا وہاں بندھے ہوئے گھوڑوں کے پاس جا کر ان کا چارہ کھانے لگا تھا 
احمد کمال نے لڑکی کے پاؤں رکابوں سے نکالے اور اسے گھوڑے سے اتار کر بازوؤں پر اُٹھا لیا سپاہی نے کہا زندہ ہے 
فرنگی معلوم ہوتی ہے اس کے گھوڑے کو پانی  پلاؤ وہ لڑکی کو اپنے خیمے میں لے گیا لڑکی کے بال ریت سے اٹے ہوئے  تھے
احمد کمال نے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے پھر منہ میں پانی کے قطرے ٹپکانے لگا لڑکی نے آنکھیں کھول دیں دو چار لمحے احمد کمال کو حیرت سے دیکھتی رہی اور اچانک اُٹھ کر بیٹھ گئی احمد کمال کا رنگ گورا دیکھ کر اس نے انگریزی میں پوچھا میں فلسطین سے ہوں؟
احمد کمال نے سر ہلا کر اسے سمجھانا چاہا کہ میں یہ زبان نہیں سمجھتا لڑکی نے عربی زبان میں پوچھا 
تم کون ہو؟ 
میں کہاں ہوں؟
'میں اسلامی فوج کا معمولی سا کماندار ہوں 
احمد کمال نے جواب دیا اور تم مصر میں ہو 
لڑکی کی آنکھیں اُبل پڑیں اور وہ اس قدر گھبرائی جیسے پھر بے ہوش ہوجائے  گی احمد کمال نے کہا ڈرو نہیں سنبھالو اپنے آپ کو اس نے اس  کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہا میں جان گیا ہوں کہ تم فرنگی ہو میری مہمان ہو ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں اس نے ایک سپاہی کو بلایا اور  لڑکی کے لیے پانی اور کھانا منگوایا لڑکی نے لپک کر پانی کا پیالہ اُٹھا لیا اور منہ سے لگا کر بے صبری سے پینے لگی احمد کمال نے پیالہ اس کے ہونٹوں سے ہٹا کر کہا آہستہ پہلے کھانا کھا لو پانی بعد میں  پینا لڑکی نے گوشت کا ایک ٹکڑا اُٹھا لیا پھر وہ کھانا کھاتی رہی اور پانی پیتی رہی اس کے چہرے پر رونق واپس آگئی
احمد کمال نے ایک خیمہ الگ لگوا رکھا تھا جو اس کا غسل خانہ تھا وہاں پانی کی کمی نہیں تھی  خیمہ گاہ ایک نخلستان کے قریب تھی احمد کمال نے کھانے کے بعد لڑکی کو غسل والے خیمے میں داخل کر کے پردے باندھ دئیے لڑکی نے غسل کرلیا لیکن وہ بہت ہی خوف زدہ تھی کیونکہ وہ اپنے دشمن کی پناہ میں آگئی تھی جہاں اسے اچھے سلوک کی توقع نہیں تھی اس کے ذہن میں بچپن سے یہ ڈالا جاتا رہا تھا کہ مسلمان وحشی ہوتے ہیں اور عورت کے لیے تو وہ درندے ہیں اس خوف کے ساتھ اس پر حبشیوں کا مگر مچھوں کا اور صحرائی آندھی کا خوف طاری تھا اپنے ساتھ کی دونوں لڑکیوں کی موت اور وہ بھی ایسی بھیانک موت اس کے رونگٹے کھڑے کر رہی تھی اس نے غسل کرتے ہوئے بڑی شدت سے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنے ناپاک وجود کو دھونے کی کوشش کر رہی ہے جسے دنیا کا پانی پاک نہیں کر سکتا اس نے کسمپرسی کی حالت میں تنگ آ کر اپنے آپ کو صورت حال کے حوالے کر دیا
احمد کمال نے دیکھ لیا تھا کہ ایسے حسن اور ایسے دلگداز جسم والی لڑکی معمولی لڑکی نہیں مصر کے اس حصے میں ایسی فرنگی لڑکی کیسے آسکتی تھی؟ 
اس نے لڑکی سے پوچھا تو لڑکی نے جواب دیا کہ وہ قافلے سے بچھڑ گئی ہے آندھی میں گھوڑا بے لگام ہوگیا تھا
احمد کمال ایسے جواب سے مطمئن نہیں ہوسکتا تھا 
اس نے تین چار اور سوال کیے تو لڑکی کے ہونٹ کانپنے لگے احمد  کمال نے کہا اگر تم یہ کہتی کہ تم اغوا کی ہوئی لڑکی ہو اور آندھی نے تمہیں چھڑا دیا ہے تو شاید میں مان جاتا تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا 
اتنے میں اس سپاہی نے جو احمد کمال کے ساتھ تھا خیمے کا پردہ اُٹھایا اور ایک تھیلا اور ایک مشکیزہ احمد کمال کو دے کر کہا کہ یہ اس لڑکی کے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے احمد کمال تھیلا کھولنے لگا تو لڑکی نے  گھبرا کر تھیلے پر ہاتھ رکھ لیا اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا احمد کمال نے تھیلا اسے دے کر کہا لو اسے خود کھول کر دکھاؤ 
لڑکی کی زبان جیسے گنگ ہوگئی تھی اس نے بچوں کے انداز سے تھیلا پیٹھ پیچھے کر لیا احمد کمال نے کہا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ میں تمہیں کہہ دوں کہ جاؤ چلی جاؤ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں روکوں لیکن ایک ایسی لڑکی کو آبادیوں سے دور اکیلی گھوڑے پر بے ہوشی کی حالت میں بھٹکتی ہوئی پائی گئی ہے اسے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا یہ میرا انسانی فرض ہے مجھے اپنا ٹھکانہ بتا دو میں تمہیں اپنے سپاہیوں کے ساتھ حفاظت سے پہنچا دوں گا اگر نہیں بتاؤ گی تو تمہیں متشبہ لڑکی سمجھ کر قاہرہ اپنی حکومت کے پاس بھیج دوں گا تم مصری نہیں ہو تم سوڈانی بھی نہیں ہو
 لڑکی کے آنسو بہنے لگے وہ جس مصیبت سے گزر کر آئی تھی اس کی دہشت اور ہولناکی اس پر پہلے ہی غالب تھی اس نے تھیلا احمد کمال کے آگے پھینک دیا احمد نے تھیلا کھولا تو اس میں سے کچھ کھجوریں دو چار چھوٹی موٹی عام سی چیزیں نکلیں اور ایک تھیلی نکلی یہ کھولی تو اس میں سے سونے کے بہت سے سکے اور ان میں سونے کی باریک سی زنجیر کے ساتھ چھوٹی سی سیاہ لکڑی کی صلیب نکلی احمد کمال اس سے یہی سمجھ سکا کہ لڑکی عیسائی ہے اسے غالباً معلوم نہیں تھا کہ جو عیسائی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے صلیبی لشکر میں شامل ہوتا ہے وہ ایک صلیب پر حلف اُٹھاتا ہے اور چھوٹی سی ایک صلیب ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہے احمد کمال نے اسے کہا کہ اس تھیلے میں میرے سوال کا جواب نہیں ہے
اگر میں یہ سارا سونا تمہیں دے دوں تو میری مدد کرو گے ؟
لڑکی نے پوچھا کیسی مدد ؟
مجھے فلسطین پہنچا دو لڑکی نے جواب دیا اور مجھ سے کوئی سوال نہ پوچھو
میں فلسطین تک بھی پہنچا دوں گا لیکن سوال ضرور پوچھوں گا 
اگر مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھو تو اس کا الگ انعام دوں گی 
وہ کیا ہوگا ؟
'گھوڑا تمہیں دے دوں گی لڑکی نے جواب دیا اور تین دنوں کے لیے مجھے اپنی لونڈی سمجھ لو 
احمد کمال نے اس سے پہلے ہاتھ میں کبھی اتنا سونا نہیں اُٹھایا تھا اور اس نے ایسا حیران کن حسن اور جسم بھی نہیں دیکھا تھا اس نے اپنے سامنے پڑے ہوئے سونے کے چمکتے ہوئے ٹکڑوں کو دیکھا پھر لڑکی کے ریشمی بالوں کو دیکھا جو سونے کی تاروں کی طرح چمک رہے تھے پھر اس کی آنکھوں کو دیکھا جن میں وہ طلسماتی چمک تھی جو بادشاہوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا کرتی ہے وہ تنو مند مرد تھا کماندار تھا ان دستوں کا حاکم تھا جو سرحد پر پہرہ دے رہے تھے
اسے روکنے پوچھنے اور پکڑنے والا کوئی نہ تھا مگر اس نے سکے تھیلی میں ڈالے صلیب بھی تھیلی میں رکھی اور تھیلی لڑکی کی گود میں رکھ دی 
کیوں؟
لڑکی نے پوچھا یہ قیمت تھوڑی ہے؟
بہت تھوڑی احمد کمال نے کہا ایمان کی قیمت خدا کے سوا کوئی نہیں دے سکتا لڑکی نے کچھ کہنا چاہا لیکن احمد کمال نے اسے بولنے نہ دیا اور  کہا میں اپنا فرض اور اپنا ایمان فروخت نہیں کر سکتا سارا مصر میرے اعتماد پر آرام کی نیند سوتا ہے 
تین مہینے گزرے سوڈانیوں نے قاہرہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اگر میں یہاں نہ ہوتا اور اگر میں ان کے ہاتھ اپنا ایمان فروخت کر دیتا تو یہ لشکر قاہرہ میں داخل ہو کر تباہی برپا کر دیتا تم مجھے اس لشکر سے زیادہ خطرناک نظر آتی ہو کیا تم جاسوس نہیں ہو ؟
نہیں
تم یہی بتا دو کہ تمہیں آندھی نے کسی ظالم کے پنجے سے بچایا ہے یا تم آندھی سے بچ کر نکلی ہو؟
لڑکی نے بے معنی سا جواب دیا تو احمد کمال نے کہا مجھے تمہارے متعلق یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ کون ہو اور کہاں سے آئی ہو میں تمہیں کل قاہرہ کے لیے روانہ کر دوں گا وہاں ہمارا جاسوسی اور سراغرسانی کا ایک محکمہ ہے وہ جانے اور تم جانو میرا فرض پورا ہوجائے گا اگر اجازت دو تو میں اس وقت ذرا آرام کرلوں لڑکی نے کہا کل جب قاہرہ کے لیے مجھے روانہ کرو گے  تو شاید تمہارے سوالوں کا جواب دے دوں
لڑکی رات بھر کی جاگی ہوئی اور دن کے ایسے خوفناک سفر کی تھکی ہوئی تھی لیٹی اور سو گئی احمد  کمال نے دیکھا کہ وہ نیند میں بڑبڑاتی تھی
بے چینی میں سر ادھر ادھر مارتی تھی اور ایسے پتہ چلتا تھا جیسے خواب میں رو رہی ہو احمد کمال نے اپنے  ساتھیوں کو بتادیا کہ ایک مشکوک فرنگی لڑکی پکڑی گئی ہے جسے کل قاہرہ بھیجا جائے گا اس کے ساتھی احمد کمال کے کردار سے واقف تھے 
کوئی بھی ایسا شک نہیں کر سکتا تھا کہ اس نے لڑکی کو بد نیتی سے اپنے خیمے میں رکھا ہے
اس نے لڑکی کا گھوڑا دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ گھوڑا اعلیٰ نسل کا تھا اور جب اس نے زین دیکھی تو اس کے شکوک رفع ہوگئے زین کے نیچے مصر کی فوج کا نشان تھا یہ گھوڑا احمد کمال کی اپنی فوج کا تھا

حبشیوں نے آندھی کی وجہ سے تعاقب ترک کردیا تھا ۔ وہ واپس زندہ پہنچ گئے تھے
پروہت نے فیصلہ دے دیا تھا کہ لڑکیاں آندھی میں ماری گئی ہوں گی لہٰذا تعاقب میں کسی کو بھیجنا بیکار ہے
وقت بھی بہت گزر گیا تھا 
لیکن رجب پر آفت نازل ہو رہی تھی 
اس سے حبشی بار بار یہی ایک سوال پوچھتے تھے 
لڑکیاں کہاں ہیں ؟
اور قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ مجھے معلوم نہیں حبشیوں نے اسے اذیتیں دینی شروع کردیں تلوار کی نوک سے اس کے جسم میں زخم کرتے اور اپنا سوال دہراتے تھے
حبشیوں نے اس کے ساتھیوں کو بھی درختوں کے ساتھ باندھ دیا اور ان کے ساتھ بھی یہی ظالمانہ سلوک کرنے لگے رجب کو خدا اپنی قوم اور ملک سے غداری کی سزا دے رہا تھا 
رات کو بھی اسے نہ کھولا گیا اس کا جسم چھلنی ہوگیا تھا

احمد کمال کے خیمے میں لڑکی سوئی ہوئی تھی 
وہ سورج غروب ہونے سے پہلے جاگی تھی احمد کمال نے اسے کھانا کھلایا تھا اس کے بعد وہ پھر سو گئی تھی
اس سے دو تین قدم دور احمد کمال سویا ہوا تھا
رات گزرتی جا رہی تھی خیمے میں دیا جل رہا تھا اچانک لڑکی کی چیخ نکل گئی احمد کمال کی آنکھ کھل گئی لڑکی بیٹھ گئی تھی اس کا جسم کانپ رہا تھا چہرے پر گھبراہٹ تھی 
احمد کمال اس کے قریب ہوگیا لڑکی تیزی سے سرک کر اس کے ساتھ لگ گئی اور روتے ہوئے بولی ان سے بچاؤ وہ مجھے مگر مچھوں کے آگے پھینک رہے ہیں وہ میرا سر کاٹنے لگے  ہیں 
کون؟
وہ بھدے حبشی !لڑکی نے ڈرے ہوئے لہجے  میں کہا وہ یہاں آئے تھے احمد کمال کو حبشیوں کی قربانی کا علم تھا  اسے شک ہوا کہ اسے شاید قربانی کے لیے لے جایا جا رہا تھا اس نے لڑکی سے  پوچھا تو لڑکی نے بازو احمد کمال کے گلے میں ڈال دئیے کہنے لگی مت  پوچھو میں خواب دیکھ رہی تھی احمد کمال دیکھ رہا تھا کہ وہ تو بہت ہی ڈری ہوئی تھی اس نے اسے تسلیاں دیں اور یقین دلایا کہ یہاں سے اسے اُٹھانے کے لیے کوئی نہیں آئے گا لڑکی نے کہا میں سو نہیں سکوں گی تم میرے ساتھ باتیں کرسکتے ہو؟ 
میں اکیلی جاگ نہیں سکوں گی میں پاگل ہو جاؤں گی 
احمد کمال نے کہا میں تمہارے ساتھ جاگتا رہوں گا اس نے لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا جب تک میرے پاس ہو تمہیں  ڈرنے کی ضرورت نہیں اس نے اس پر عمل بھی کر کے دکھا دیا لڑکی کے ساتھ اس نے حبشیوں کے معتلق یا اس کے متعلق کوئی بات نہ کی نہ پوچھی اسے ترکی اور مصر کی باتیں سناتا رہا لڑکی اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی احمد کمال کا لب و لہجہ شگفتہ تھا اس نے لڑکی کا خوف دور کر دیا اور لڑکی سو گئی
لڑکی کی آنکھ کھلی تو صبح طلوع ہو رہی تھی 
اس نے دیکھا کہ احمد کمال نماز پڑھ رہا تھا
وہ اسے دیکھتی رہی احمد کمال نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور آنکھیں بند کرلیں لڑکی اس کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی رہی احمد کمال فارغ ہوا تو لڑکی نے پوچھا تم نے خدا سے کیا مانگا تھا ؟
بدی کے مقابلے کی ہمت! احمد کمال نے جواب دیا تم نے خدا سے کبھی سونا اور خوبصورت بیوی نہیں مانگی ؟
یہ دونوں چیزیں خدا نے مانگے بغیر مجھے دے دی تھیں احمد کمال نے  کہا لیکن ان پر میرا کوئی حق نہیں شاید خدا نے میرا امتحان لینا چاہا تھا 
تمہیں یقین ہے کہ خدا نے تمہیں بدی کا مقابلہ کرنے کی ہمت دے دی ہے ؟
تم نے نہیں دیکھا ؟
احمد کمال نے جواب دیا تمہارا سونا اور تمہارا حسن مجھے اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکے یہ میری کوشش اور اللہ کی دین ہے کیا خدا گناہ معاف کردیا کرتا ہے ؟
لڑکی نے پوچھا 
ہاں! ہمارا خدا گناہ معاف کر دیا کرتا ہے احمد کمال نے جواب دیا شرط یہ ہے کہ گناہ بار بار نہ کیا جائے 
لڑکی نے سر جھکا لیا احمد کمال نے اس کی سسکیاں سنیں تو اس کا چہرہ اوپر اُٹھایا وہ رو رہی تھی لڑکی نے احمد کمال کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کئی بار چوما احمد کمال نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا لڑکی نے کہا آج ہم جدا ہوجائیں گے تم مجھے قاہرہ بھیج دو گے میں اب آزاد نہیں ہو سکوں گی میرا دل مجبور کر رہا ہے کہ تمہیں بتا دوں کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آئی ہوں پھر تمہیں بتاؤں گی کہ اب میں کیا ہوں...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی