🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 52*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *52* ۔۔۔۔

اس دور کے متعلق جب مسلمان شام پر چھا گئے تھےہرقل شام سے نکل گیا تھا اور مسلمان فلسطین پر قابض ہوتے چلے جا رہے تھے، مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے واقعات کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔ معرکوں کے تسلسل کو بھی آگے پیچھے کر دیا ہے۔ کہیں کہیں اموات میں مبالغہ آرائی ملتی ہے۔ رومیوں اور مسلمانوں کی نفری بھی صحیح نہیں لکھی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر غیر مسلم مؤرخوں نے صحیح واقعات پیش کیے ہیں اور مسلمانوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے لیکن بعض مسلمان مؤرخوں اور بعدکے تاریخ نویسوں نے اپنے اپنے فرقے کے عقیدوں کے مطابق تعصب کا مظاہرہ کیا ہے اور واقعات کو غلط ملط کر دیا ہے اور جو تعصبات آج ان جانبدار تاریخ نویسوں کے ذہنوں میں بھرے ہوئے ہیں وہ انہوں نے خلفائے راشدینؓ اور مجاہدین کے چہروں پر مل دیئے ہیں۔مثلاً امیر المومنین عمرؓ نے خالدؓ کو معزول کرکے مدینہ بلالیا تھا۔ ہم اس کی وجوہات آگے چل کر بیان کریں گے لیکن چند ایک تاریخ نویسوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امیر المومنین عمرؓکے دل میں خالدؓ کے خلاف ذاتی رنجش کی بنا پر بغض و کینہ بھرا ہوا تھا اور اس سے یہ تاریخ نویس یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عمرؓ کا کردار اتنا عظیم نہیں تھا جتنا بتایا جاتا ہے ۔ ہم چونکہ صرف خالدؓ بن ولید سیف اﷲ کی زندگی کی کہانی سنا رہے ہیں اس لئے ہم ان جنگوں اور دیگر حالات کا زیادہ ذکر نہیں کریں گے جن کا تعلق خالدؓ کے ساتھ نہیں ۔اگر مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویسوں کی تحریروں کی چھان بین کی جائے تو سوائے الجھاؤ کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک تو یہ پتا چلتا ہے کہ سالارِاعلیٰ ابو عبیدہؓ نے امیر المومنین عمرؓ سے بذریعہ قاصد پوچھا تھا کہ وہ قیساریہ کی طرف توجہ دیں یا بیت المقدس کی طرف؟ دوسری طرف کچھ ایسے تاریخ نویس ہیں جو لکھتے ہیں عمروؓ بن العاص نے امیر المومنینؓ کو پیغام بھیجا تھا کہ بیت المقدس پر چڑھائی کریں یا کیا کریں؟ اور ایک تاریخ نویس نے یہ ظاہر کیا ہے کہ امیر المومنینؓ بیت المقدس سے تھوڑی ہی دور کسی مقام پر موجود تھے۔ پسِ منظر کے واقعات کو اور مستند مؤرخوں کی تحریروں کو دیکھاجائے تو امیر المومنین عمرؓ ہمیں مدینہ میں موجود نظر آتے ہیں۔ جہاں انہیں ہر محاذ کی رپورٹیں مل رہی ہیں۔ مالِ غنیمت کاپانچواں حصہ خلافت کیلئے ہر طرف سے آرہا ہے اور امیرالمومنینؓ کے ہاتھوں تقسیم ہو رہاہے اور وہ سالاروں کو خراجِ تحسین کے پیغام بھیج رہے ہیں۔ سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے جو قاصد مدینہ کو روانہ کیا تھا وہ تیز رفتار تھا۔ قاصدوں کی رفتار اس وجہ سے مزید تیز ہوجاتی تھی کہ راستے میں گھوڑے بدلنے کا انتظام موجود تھا۔ اب تو تمام تر علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ قاصد پندرہ دنوں بعد امیر المومنینؓ کا حکم لے آیا۔ امیر المومنینؓ نے لکھا تھا کہ بیت المقدس سب سے پہلے فتح ہونا چاہیے لیکن اس کا محاصرہ کرنے سے پہلے رومیوں کی کمک کے راستے بند کرنا ضروری ہیں۔ عمرؓ کو یہاں تک معلوم تھا کہ قیساریہ میں رومی فوج کثیر تعداد میں موجود ہے جو بیت المقدس کو کمک اور دیگر مدد دے سکتی ہے۔ عمرؓ کو مدینہ میں موجود رہ کر بھی معلوم تھا کہ قیساریہ تک رومیوں کی مزید فوج سمندرکے راستے بھی پہنچ سکتی ہے۔ چنانچہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو حکم بھیجا کہ قیساریہ کا اڈہ ختم کرنا ضروری ہے۔ امیر المومنینؓ نے اپنے حکم اور ہدایات میں یہ بھی لکھا کہ انہوں نے یزیدؓ بن ابی سفیان کو حکم بھیج دیا ہے کہ وہ اپنے بھائی معاویہؓ کو قیساریہ کا محاصرہ کرنے اور رومیوں کے اس مضبوط اور خطرناک قلعے کو سر کرنے کیلئے فوراً بھیج دیں۔

تاکہ بیت المقدس کی رومی فوج کو قیساریہ سے اور قیساریہ کو سمندرکی طرف سے مدد نہ پہنچ سکے اور اس سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ قیساریہ اور بیت المقدس کا رابطہ ٹوٹ جائے گا۔ اس حکم نامے میں یہ بھی لکھاتھا کہ قیساریہ کی فتح کے فوراً بعد ابو عبیدہؓ بیت المقدس پر چڑھائی کریں گے۔مدینہ سے یہ جو احکام مختلف سالاروں کو بھیجے گئے ان کے مطابق معاویہؓ نے قیساریہ کا محاصرہ کرلیا۔ وہاں کے رومی سالار کو توقع تھی کہ اطربون اس کی مدد کو آئے گا۔ اس توقع پر اس نے مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کایہ طریقہ اختیار کیا کہ دستوں کو قلعے سے باہر نکال کر حملے کرائے۔ ان حملوں کا تسلسل اور انداز ایسا تھا کہ محاصرے کا تو بس نام رہ گیا تھا۔ قلعے کے باہر خونریز لڑائی شروع ہو گئی۔ رومیوں کے حملوں کا طریقہ یہ تھا کہ قلعے کے دو دروازے کھلتے، دو تین دستے رکے ہوئے سیلاب کی مانند باہر آتے اورمسلمانوں پر بڑا شدید ہلہ بولے۔ کچھ دیر لڑ کر وہ پیچھے ہٹتے اور قلعے میں چلے جاتے اور دروازے پھر بند ہوجاتے۔مسلمانوں نے ان حملوں کا مقابلہ اس طرح کیا کہ رومی دستے باہر آتے تو مسلمان ان کے عقب میں جانے کی کوشش کرتے کہ رومی قلعے میں واپس نہ جا سکیں۔ عقب میں جانا اس وجہ سے خطرناک ہو جاتا تھا کہ قلعے کی دیوار سے ان پر تیر آتے تھے، مسلمان رومیوں کے پہلوؤں کی طرف ہو جاتے اور تیروں کی بوچھاڑوں سے بہت سے رومیوں کو گرا لیتے۔ اس طرح رومیوں نے اتنا نقصان اٹھایا کہ وہ لڑنے کے قابل نہ رہے۔ قیساریہ کے رومی سالار نے اطربون پر یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بزدل نہیں ایک روز خود دو چار دستوں کو ساتھ لیا اور باہر نکل آیا۔ مسلمانوں پر ایسے حملے کئی بار ہو چکے تھے اس لئے انہیں یہ حملے روکنے کا تجربہ ہو گیا تھا، اب رومی سالار خود باہر آیا تو مسلمانوں نے پہلے سے زیادہ شجاعت کامظاہرہ کیا۔ کئی مجاہدین رومی سالار کو مارنے کیلئے آگے بڑھنے لگے لیکن اسے مارنا آسان نظر نہیں آتا تھا۔ وہ محافظوں کے حصار میں تھا۔آخر وہ دہشت اپنااثر دکھانے لگی جو رومیوں پر طاری ہونے لگی تھی۔ وہ تو ہونی ہی تھی، وہ اپنے ساتھیوں کی لاشوں پر لڑ رہے تھے ۔پہلے حملوں میں جو رومی مارے گئے تھے ان کی لاشیں اٹھائی نہیں گئی تھیں۔ بہت سے دن گزر گئے تھے۔ پہلے دنوں کی لاشیں خراب ہو گئی تھیں اور ان کاتعفن پھیلا ہو اتھا۔ رومیوں پر دہشت تو پہلے ہی طاری تھی۔ کیونکہ ان کاسالار ان کے ساتھ باہر آگیا تھا۔ اس لیے ان کے حوصلے میں کچھ جان پڑ گئی تھی۔ لیکن ان کا سالار کسی مجاہد کی برچھی سے مارا گیا۔ رومیوں میں افراتفری مچ گئی اور وہ قلعوں کے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے۔ دروازے کھل گئے اس سے مسلمانوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ وہ بھاگتے اور دہشت ذدہ رومیوں کے ساتھ ہی قلعے میں داخل ہو گئے۔ اب قیساریہ مسلمانوں کا تھا ۔ جس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ سمندر کی طرف سے رومیوں کو کمک نہیں مل سکتی تھی۔قیساریہ کا سالار دل میں یہ افسوس لیے مر گیا کہ اطربون اس کی مدد کو نہ پہنچا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اطربون قیساریہ کے محاصرے کی اطلاع ملتے ہی اپنا لشکر لے کر بیت المقدس سے چل پڑا تھا لیکن مسلمان جانتے تھے کہ قیساریہ کو بچانے کیلئے بیت المقدس سے مدد آئے گی۔ انہوں نے مدد کو روکنے کا انتطام کر رکھا تھا۔ عمروؓ بن العاص نے اپنے دو سالاروں ، علقمہ بن حکیم، اور مسروق مکّی کو بیت المقدس کی طرف اس حکم کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ بیت المقدس سے رومی فوج نکلے تو اسے وہیں روک لیں۔ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ اطربون اپنی فوج کے ساتھ اجنادین کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔

عمروؓ بن العاص نے علقمہ بن حکیم اور سالار مسروق مکی کو بیت المقدس کی طرف بھیج دیا اور خود اطربون کے پیچھے گئے لیکن اجنادین تک انہیں کوئی رومی دستہ نظر نہ آیا۔ زمین بتا رہی تھی کہ اجنادین کی طرف فوج گئی ہے۔ شہر کے باہر کچھ لوگ ملے۔ انہوں نے بتایا کہ رومی فوج آئی تھی اور قلعے میں داخل ہو گئی ہے۔ اجنادین دوسرے شہروں کی طرح قلعہ بند شہر تھا۔ اس کے اردگرد گہری اور چوڑی خندق تھی جسے پار کرنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ عمروؓ بن العاص نے شہرِ پناہ کے اردگرد گھوم پھر کر دیکھا۔قلعہ سر کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے ایک نائب سالار کو(تاریخ میں اس کا نام نہیں لکھا) اپنی طرف سے ایلچی بنا کر صلح کے پیغام کے ساتھ قلعے میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔’’یہ ضروری نہیں کہ تم صلح کرا کہ ہی آؤ۔‘‘ عمروؓ بن العاص نے ایلچی کو ہدایات دے کر آخری بات یہ کہی۔’’ میں تمہیں جاسوسی کیلئے اندر بھیج رہا ہوں۔ ایک تو یہ اندازہ کرنا کہ اندر فوج کتنی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی دیکھ سکو دیکھنا اور جائزہ لینا کہ اطربون کا اپنا حوصلہ کتنا مضبوط ہے۔‘‘ایلچی اپنے محافظوں کے ساتھ قلعے میں چلاگیا۔ وہ واپس آیا اور عمروؓ بن العاص کو اپنے مشاہدات بتائے۔ عمروؓ بن العاص مطمئن نہ ہوئے۔’’کیایہ کام میں خودنہ کروں؟‘‘ عمروؓ بن العاص نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ جو میں معلوم کرنا چاہتا ہوں وہ صرف میری آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔‘‘’’ابن العاص!‘‘ ایک سالار نے کہا۔’’ کیا خود جا کر تواپنے آپ کو خطرے میں نہیں ڈال رہا؟‘‘’’خدا کی قسم! ‘‘ایک اور سالار بولا۔’’ اسلام تجھ جیسے سالار کا نقصان برداشت نہیں کر سکے گا۔‘‘’’کیا اطربون مجھے قید کر لے گا؟‘‘ عمروؓ بن العاص نے پوچھا۔ ’’کیا وہ مجھے قتل کر دے گا؟‘‘’’ہارے ہوئے دشمن سے اچھائی کی توقع نہ رکھ ابن العاص!‘‘’’میں عمرو بن العاص کے روپ میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ عمروؓ بن العاص نے کہا۔’’میں اپنا ایلچی بن کر جاؤں گا۔ ہمیں یہ قلعہ لینا ہے۔ میں ہر طریقہ آزماؤں گا۔‘‘عمروؓ بن العاص نے بھیس بدلا اور یہ اعلان کرا کے کہ مسلمانوں کاایلچی صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے قلعے میں آنا چاہتا ہے ، قلعے کا دروازہ کھلوایا۔ رومیوں نے مضبوط تختے خندق پر پھینک کر انہیں خندق پار کروائی اور قلعے کے اندر اپنے سالار اطربون کے پاس لے گئے۔مختلف مؤرخون نے یہ واقعہ لکھاہے ان کے مطابق، عمروؓ بن العاص نے اپنا روپ اور حلیہ تو بدل لیا تھا لیکن ان کے انداز اور بولنے کے سلیقے اور دو چار باتوں سے اطربون کو شک ہوا کہ یہ شخص ایلچی نہیں ہو سکتا۔ عمروؓ بن العاص سالاری کے تدبر اور استدلال کو نہ چھپا سکے۔ اطربون تجربہ کار سالار تھا اور مردم شناس بھی تھا۔ وہ کوئی بہانہ کرکے باہر نکل گیا اور اپنے محافظ دستے کے کماندار کو بلایا۔’’یہ عربی مسلمان جو میرے پاس بیٹھا ہے ابھی واپس جائے گا۔‘‘ اطربون نے کماندار سے کہا۔ ’’ایک محافظ کوراستے میں بٹھا دو۔ میں اس مسلمان کو اسی راستے سے بھیجوں گا۔ یہ زندہ نہ جائے، محافظ اسے قتل کردے۔ یہ شخص مسلمانوں کا سالار عمرو بن العاص ہے۔ اگر سالار نہیں تو یہ عمرو بن العاص کا کوئی خاص مشیر ہے اور مجھے یقین ہے کہ عمرو بن العاص اسی کے مشوروں پر عمل کرتا ہے۔ اگر میں نے اسے قتل نہ کیا تو میں سلطنتِ روما سے غداری کروں گا۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ جس طرح اطربون اٹھ کر باہر نکل گیا تھا۔ اس سے عمروؓ بن العاص کو اس کی نیت پر شک ہوا۔ وہ واپس آیا تو عمروؓ بن العاص نے اس کے چہرے پر اور اس کی باتوں میں نمایاں تبدیلی دیکھی۔ وہ بھانپ گئے کہ اطربون کی نیت صاف نہیں۔انہوں نے پینترابدلا۔’’معزز سالار!‘‘ عمروؓ بن العاص نے کہا۔’’ہم دس جنگی مشیر ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ آئے ہیں۔ میں ان میں سے ایک ہوں۔میں نے آپ کی شرائط سن لی ہیں۔میں خود تو فیصلہ نہیں کر سکتا۔ عمرو بن العاص کو مشورہ دوں گا کہ وہ آ پ کی شرائط قبول کر لیں۔ مجھے امید ہے کہ میرے مشورے پر عمل ہوگا اور مزید خون نہیں بہے گا۔‘‘اطربون دھوکے میں آگیا، وہ عمروؓ بن العاص کے ساتھ باہر نکلا اور محافظ دستے کے کماندار کو اشارہ کیا کہ اس شخص کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح عمروؓ بن العاص زندہ قلعے سے نکل آئے۔

 باہر آکر انہوں نے للکار کر کہا کہ اطربون ، میں عمرو بن العاص ہوں۔اس کے بعد اجنادین کے میدان میں دونوں فوجوں کے درمیان جو معرکہ ہوا وہ جنگِ یرموک جیسا خونریز تھا۔ ہم اس معرکے کی تفصیلات بیان نہیں کررہے کہ اطربون نے قلعے سے باہر آکر لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا اور عمروؓ بن العاص نے کیسی کیسی چالیں چل کر رومیوں کو بے تحاشا جانی نقصان پہنچا کرپسپا کیا۔‘‘اطربون اپنے بچے کچھے دستوں کو ساتھ لے کر بیت المقدس پہنچا اور وہاں قلعہ بند ہو گیا۔ اس معرکے میں مسلمانوں نے بہت جانی نقصان اٹھایاجب ابو عبیدہؓ کو اطلاع ملی کہ قیساریہ پر اپنا قبضہ ہو گیا ہے تو انہوں نے بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ہراول میں خالدؓ اپنے مخصوص رسالے کے ساتھ جا رہے تھے۔ ابو عبیدہؓ کو بھی یہ بتا دیا گیا تھا کہ اطربون لڑنے کے قابل نہیں رہا۔ پھر بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔بیت المقدس کا اندرونی حال کچھ اور ہی تھا۔ وہی اطربون جس نے قیساریہ کے سالار کوبزدل کہاتھا۔ وہ اب بیت المقدس کے بڑے پادری اسقف سفرینوس کے پاس شکست خوردگی کے عالم میں بیٹھا تھا۔’’محترم سالار!‘‘ سفرینوس نے اسے کہا۔’’ میں اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہوں کہ یہ مقدس شہر مسلمانوں کے حوالے کردوں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ یہ کام آپ اپنے ہاتھوں کریں؟‘‘’’نہیں محترم باپ!‘‘ اطربون نے کہا۔’’ میں یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ اطربون نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔‘‘’’کیا آپ اس شہر کے تقدس کو بھول گئے ہیں؟‘‘ سفرینوس نے کہا۔’’ یہ وہ زمین ہے جس پر حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا۔ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ اس سرزمین کی آبرو کی خاطر ہم اپنی تمام تر فوج کو قربان کردیں؟‘‘’’کیا آپ فوج کی حالت نہیں دیکھ رہے؟‘‘اطربون نے کہا۔’’ نصف کے قریب فوج ماری گئی یا زخمی ہو گئی ہے۔ اس فوج کا جذبہ اور حوصلہ پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ اب میں بڑی مشکل سے ان چند ایک دستوں کو اجنادین سے بچا کر لایا ہوں۔‘‘’’محترم سالار!‘‘اسقف سفرینوس نے کہا۔’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مسلمانوں کی فوجی برتری کو تسلیم کرلیا ہے۔ آپ روم کی عظیم جنگی روایات کومسلمانوں کے قدموں تلے پھینک رہے ہیں۔ آپ کچھ دن مقابلہ کرکے دیکھیں ۔ مسلمان آسمان کی مخلوق تو نہیں۔ وہ بیشک بہترین لڑنے والے ہیں لیکن آخر انسان ہیں۔ وہ یقیناً تھک کر چور ہو چکے ہیں۔ آپ اپنا حوصلہ قائم رکھیں۔ وہ پہلے محاصرہ کریں گے جس میں کئی روز گزر جائیں گے۔ اس دوران آپ اپنا اور اپنے دستوں کا حوصلہ مضبوط کریں۔‘‘مسلمان بیت المقدس کی طرف تیز رفتاری سے بڑھے چلے جا رہے تھے اور بیت المقدس میں رومی سالار اطربون اپنے آپ کو لڑنے کیلئے تیار کر رہا تھا لیکن وہ اپنی فوج کی حالت دیکھتا تو اس کا لڑنے کاجذبہ دم توڑنے لگتا تھا۔اس پر اسقف سفرینوس کی باتوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا تھا۔ جب اسقف نے دیکھا کہ اطربون ذہنی طور پر شکست قبول کر چکا ہے تو اس نے اطربون کو جذباتی باتوں سے بھڑکانا اور شرمسارکرنا شروع کر دیا۔ اس کا اتنا اثر ہوا کہ اطربون نے مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔اسلامی فوج پہنچ گئی اور بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔

دیواروں پرتیر انداز برچھیاں پھینکنے والے کثیر تعداد میں کھڑے تھے۔ ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ مسلمانوں کو قلعے کے قریب نہیں آنے دیں گے۔ مسلمان سالار قلعے کے اردگرد گھوم پھر کر دیکھ رہے تھے کہ کہیں سے دیوار پر چڑھا جا سکتا ہے یا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سے سرنگ لگا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جا سکے۔ اسی وجہ سے محاصرہ مکمل نہیں تھا۔ محاصرے میں ایک جگہ شگاف تھا۔ مسلمان سالاروں نے جب دیکھا کہ شہرِ پناہ محفوظ ہے اور اس کا دفاع بھی خطرناک ہے تو انہوں نے محاصرے کو طول دینا مناسب سمجھا۔ اس طرح محاصرہ طول پکڑتا گیا اور بہت دن گزر گئے ۔اس دوران مجاہدین نے دروازوں پر ہلے بولے، زخمی ہوئے اور جانیں بھی قربان کیں لیکن دیوار سے آنے والے تیروں اور برچھیوں نے کسی بھی دروازے تک پہنچنے نہ دیا۔ آخر ایک روز بڑے دروازے کے اوپر سے ایک بڑی بلند آواز سنائی دی۔ ’’کیا تمہارا سالار صلح کیلئے آگے آئے گا؟ ‘‘دیوار کے اوپر سے اعلان ہوا۔’’ ہم تمہاری شرطیں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ابوعبیدہؓ آگے گئے۔ خالدؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے کسی سے کہا کہ وہ بلند آواز سے یہ جواب دے کہ صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے تمہارا سالار باہر آئے۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو تھوڑی ہی دیر بعد اسقف سفرینوس چند ایک محافظوں کے ساتھ قلعے کے بڑے دروازے سے باہر آیا۔ اس کے ساتھ ایک بڑی صلیب بھی تھی۔ ’’کیاکوئی سالار موجود نہیں؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے اسقف سے پوچھا۔ ’’سالار موجود ہے۔ ‘‘اسقف نے جواب دیا۔’’ لیکن بیت المقدس وہ شہر ہے جس کی اہمیت اور احترام کو اسقف ہی جان سکتا ہے۔ اگرمیں نہ چاہتا تو ہماری فوج کا آخری سپاہی بھی مارا جاتا۔شہر کی اینٹ سے اینٹ کیوں نہ بج جاتی۔ یہاں سے صلح کا پیغام آپ کے کانوں تک نہ پہنچتا۔ میں اس شہر کو انسانی خون کی آلودگی سے پاک رکھناچاہتا ہوں۔ رومی سالار میرے زیرِ اثر ہیں۔ میں نے انہیں صلح کیلئے تیار کر لیا ہے۔ لیکن آپ کی شرطیں سننے سے پہلے میں اپنی صرف ایک شرط پیش کروں گا اسے آپ قبول کرلیں تو ہم آپ کی باقی تمام شرائط قبول کرلیں گے۔‘‘ ’’محترم اسقف !‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔’’ یہ شہر جتنا آپ کیلئے مقدس ہے اتنا ہی ہمارے لیے بھی قابلِ احترام ہے۔ یہ پیغمبروں اور نبیوں کا شہر ہے۔ ہم آپ کی اس خواہش کا احترام کریں گے کہ اس زمین کے تقدس کو انسانی خون سے پاک رکھاجائے۔ آپ اپنی شرط بتائیں۔‘‘ ’’سالارِ محترم !‘‘ اسقف سفرینوس نے کہا۔ ’’یہ جانتے ہوئے کہ صلح کی شرائط آپ کے ساتھ ہی طے کی جا سکتی ہیں، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے امیر المومنین کو یہاں بلائیں۔ میں شرائط ان کے ساتھ طے کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ شہر اپنے ہاتھوں ان کے حوالے کروں۔ پیغمبروں کے رشتے سے یہ شہر جتنا آپ کا ہے اتنا ہی ہمارا ہے۔‘‘ اسقف سفرینوس نے بیت المقدس کے متعلق ایسی جذباتی باتیں کیں کہ مسلمان سالار متاثر ہوئے اور انہوں نے اسقف کی اس شرط کو تسلیم کر لیا کہ امیر المومنین عمرؓ کو بلایا جائے۔ اسقف کوبتا دیا گیا کہ امیر المومنینؓ صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے آئیں گے۔ ابو عبیدہؓ، خالدؓ اور دیگر سالاروں کیلئے یہ ایک مسئلہ بن گیا۔ مدینہ بہت دور تھا۔ صر ف ایک طرف کا سفر کم و بیش ایک مہینے کا تھا۔ رومیوں کی طرف سے صلح کی پیشکش کامطلب یہ تھا کہ رومی شہر کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہے اس لئے وہ صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں مسلمان سالاروں کے سامنے سیدھا راستہ تھا کہ وہ قلعے پر تابڑ توڑ حملے کرتے اور قلعہ سر کرلیتے، لیکن اسلامی احکام کے مطابق انہوں نے دشمن کو امن اور صلح کی طرف آنے کا پورا موقع دیا۔ قرآن کا یہ فرمان بڑا صاف ہے کہ دشمن جھک جائے تو اس کے ساتھ شرائط طے کرکے صلح کر لی جائے۔ لیکن امیر المومنینؓ کے آنے کیلئے بہت زیادہ وقت درکار تھا۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

سالار اس مسئلے پر غوروخوض کرنے لگے۔ ’’میں ایک تجویزپیش کرتا ہوں۔‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’ بیت المقدس والوں نے امیر المومنینؓ کو کبھی نہیں دیکھا۔ ان کا قد بت ابنِ ولید جیسا ہے۔ شکل و صورت میں بھی کچھ مشابہت پائی جاتی ہے۔ وقت بچانے کی خاطر ہم یوں کر سکتے ہیں کہ تین چار دنوں بعد ابنِ ولید کو اپنے ساتھ قلعے میں لے جائیں اور کہیں کہ یہ ہیں ہمارے امیر المومنین عمر بن الخطاب۔‘‘ ’’نہیں! ‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ اسقف نے بیت المقدس میں ابنِ ولید کو دیکھ لیا ہے۔ بے شک ا س کے ساتھ باتیں میں کرتا رہا ہوں اور اس کی توجہ میری طرف رہی ہو۔ ہو سکتا ہے ا س نے ابنِ ولید کو اچھی طرح نہ دیکھا ہو۔ لیکن شہر کے اندر ایسے رومی موجود ہوں گے جنہوں نے کسی میدانِ جنگ میں ابنِ ولید کواچھی طرح دیکھاہو گا۔ اس وقت کی شرمساری کو سوچو جب کوئی ہمیں یہ کہہ بیٹھے گا کہ یہ ان کا امیرالمومنین نہیں یہ تو خالد ابن الولید ہے جو میدانِ جنگ میں نعرہ لگاکر آیا کرتا تھا۔انا خالد ابن الولید۔‘‘’’کیامیرا یہ خدشہ غلط ہے؟ ‘‘’’ایسا ہو سکتا ہے امین الامت!‘‘ خالدؓنے کہا۔ ’’اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسقف یا کوئی رومی سالار یہ کہہ دے کہ مدینہ سے تمہارا امیرالمومنین اتنی جلدی کیسے آگیا ہے؟‘‘ ’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔‘‘ شرجیل بن حسنہ نے کہا۔ ’’کہ رومی ہمارے آگے یہ شرط رکھ کر اپنے امیر المونین کو بلاؤ ،ہمارے مقابلے کی تیاری میں لگ جائیں۔ یہ وقت حاصل کر رہے ہوں گے۔ ‘‘’’ہم یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں ابنِ ِحسنہ۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ لیکن ہم دروغ اور فریب کا سہارا نہیں لے سکتے۔ ہماری چال بازی کا داغ اسلام کو لگے گا۔‘‘ دو مؤرخوں نے لکھاہے کہ شرجیلؓ کے مشورے پر خالدؓ کو بیت المقدس میں لے جاکر اسقف سفرینوس کو بتایا گیا تھا کہ یہ ہمارے امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب ہیں اور صلح نامہ عمرؓ کی بجائے خالدؓ نے عمرؓ بن کر کیا تھا۔ لیکن آگے پیش آنے والے واقعات اس روایت کی تردید کرتے ہیں۔ زیادہ تر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عمرؓ کو مدینہ سے بلایا گیا تھا اور عمرؓ فوری طور پر روانہ ہو گئے تھے۔ ابو عبیدہؓ نے ایک تیز رفتار قاصد مدینہ کو دوڑا دیا۔ پیغام میں وہی باتیں لکھیں جو اسقف بیت المقدس کے ساتھ ہوئی تھیں۔ پیغام مدینہ پہنچا ہی تھا کہ وہاں مسرتوں کی لہر دوڑ گئی۔ خلیفۃ المسلمین عمرؓ کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ انہوں نے خاص طور پر حکم بھیجا تھا کہ بیت المقدس فتح کیا جائے۔ عمرؓ تو فتح کی خوشخبری کے منتظر تھے۔ خلیفۃ المسلمین عمرؓ ابو عبیدہؓ کا پیغام مسجدِ نبوی میں لے گئے اور پڑھ کر سب کو سنایا۔ ’’تم سب مجھے کیا مشورہ دیتے ہو؟‘‘ عمرؓ نے حاضرین سے پوچھا۔’’ کیا میرا جانا بہتر ہے؟ یا نہ جانا بہتر ہے؟ ’’نہ جانا بہتر ہے امیر المومنین!‘‘ عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’ تمہارے نہ جانے سے رومی سمجھیں گے کہ تم نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی اور تم اتنے طاقتور ہو کہ صلح کی تمہیں پرواہ ہی نہیں۔ اس کا یہ اثر ہوگا کہ رومی ہمارے مقابلے میں اپنے آپ کو حقیر جانیں گے اور جذیہ اداکرکے ہماری اطاعت قبول کرلیں گے۔‘‘ ’’اﷲ تجھے اپنی امان میں رکھے ابنِ عفان!‘‘ علیؓ نے عثمانؓ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔’’امیرالمومنین کا جانا بہتر ہے۔

کیا تو نہیں جانتا کہ مجاہدین کب سے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں، کب سے گرمی سردی آندھی بارش اور طوفانوں میں کھلے آسمان تلے دن گزار رہے ہیں۔جانیں قربان کر رہے ہیں۔ زخمی ہو رہے ہیں۔ اگر امیر المومنین ان کے پاس چلے جائیں گے تو ان کے تھکے ہوئے حوصلے تازہ ہو جائیں گے۔‘‘ ’’بے شک بے شک! ‘‘چند آوازیں سنائی دیں۔’’امیر المومنین نہیں جائیں گے تو رومی قلعے کے اندر محفوظ بیٹھے رہیں گے۔ ‘‘علیؓ نے کہا۔’’ انہیں کمک بھی مل جائے گی اور کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ مجاہدین کی فتح جو ان کے سامنے کھڑی ہے وہ الٹ کر شکست بن جائے۔‘‘ حاضرین نے پرجوش طریقے سے تائید کی۔ ’’مجھے جانا چاہیے۔‘‘ امیر المومنینؓ نے کہا۔ ’’میں ابھی روانہ ہونا چاہتاہوں۔‘‘ امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب ایک اونٹنی پر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ اپنے نائبین اور مشیر تھے جن کی تعداد اور ناموں کا کسی تاریخ میں ذکر نہیں ملتا۔ وہ ایک مہینے سے کم عرصے میں جابیہ پہنچے۔ ابو عبیدہؓ نے ان کے استقبال کاانتظام جابیہ میں کیا تھااور گھوڑ سواروں کا مختصر سا دستہ امیر المومنین ؓکے استقبال کیلئے آگے روانہ کر دیا تھا۔ امیر المومنینؓ جابیہ پہنچے تو ابو عبیدہؓ، خالدؓ اور یزیدؓ کو وہاں دیکھ کر حیران ہوئے۔ ’’کیا تم نے ایلیا (بیت المقدس) کا محاصرہ اٹھا لیا ہے ؟‘‘عمرؓ نے پوچھا۔ ’’تم سب یہاں کیوں ہو؟‘‘’’امیر المومنین!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’محاصرہ عمرو بن العاص کے سپرد کر آئے ہیں۔محاصرہ مضبوط ہے۔ ہم تیرے استقبال کیلئے یہاں موجود ہیں۔‘‘خالدؓ اور یزیدؓ بڑی قیمتی اور زر بفت کی عبائیں پہنے ہوئے تھے۔ وہ شہزادے لگ رہے تھے۔ خالدؓ قریش کے بڑے امیر خاندان کے فرد تھے اور یزیدؓ قبیلے کے سردار ابو سفیانؓ کے بیٹے تھے۔ اپنے امیر المومنین ؓکے استقبال کیلئے بنے ٹھنے ہوئے تھے۔ ’’خدا کی قسم! تم بے شرم ہو جو مجھے ملنے کیلئے اس شاہانہ لباس میں آئے ہو۔ ‘‘عمرؓ نے اپنے مخصوص غصے کااظہار کرتے ہوئے کہا۔’’ دو سال پہلے تک ہمارا کیا حال تھا؟ کیا تم نے مدینہ میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا۔ لعنت ہے اس مال و دولت پر جس نے تمہارے دماغ خراب کر دیئے ہیں۔ کیا تم میدانِ جنگ میں نہیں ہو؟ خدا کی قسم! تم لباس کی شان و شوکت میں پڑ گئے تو تھوڑے ہی عرصے بعد تمہاری جگہ کوئی اور حکمران ہوگا۔‘‘ امیر المومنینؓ کی اپنی یہ حالت تھی کہ موٹے کپڑے کا کرتا پہن رکھا تھا۔ جو اتنا بوسیدہ ہو چکا تھا کہ اس میں پیوند لگے ہوئے تھے۔ خالدؓ اور یزیدؓ نے اپنی عبائیں کھول کر امیر المومنینؓ کو دکھایا۔ دونوں نے زرہیں پہن رکھی تھیں اور تلواریں ساتھ تھیں۔ ’’امیر المومنین!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ خوبصورت عبائیں تو پردہ ہیں۔ ہم ہتھیاروں کے بغیر نہیں ،لڑنے کیلئے تیارہیں۔‘‘ امیر المومنین ؓکے چہرے سے غصے کے آثار صاف ہو گئے وہ مطمئن نظر آنے لگے۔ ’’ہمیں بہت جلد ہی بیت المقدس پہنچنا چاہیے۔‘‘ امیر المومنینؓ نے کہا۔’’رومیوں کومیں زیادہ انتظار میں نہیں رکھناچاہتا۔‘‘امیر المومنینؓ نے اتنے لمبے سفرکی پرواہ نہ کی اور بیت المقدس کو چل پڑے۔

امیر المومنینؓ جب بیت المقدس کے محاصرے میں پہنچے تو مجاہدین نے دیوانہ وار خوشیاں منائیں۔امیر المومنینؓ کی صرف آمد ہی ان کیلئے حوصلہ افزاء تھی۔ اب تو وہ اور زیادہ خوشیاں منا سکتے تھے۔ ایلیا(بیت المقدس) کی فتح کوئی معمولی نہیں تھی۔امیرالمومنینؓ اپنی تمام تر فوج میں گھومے پھرے اور ہر ایک سے مصافحہ کیا۔ بیت المقدس ان کا اپنا شہر تھا۔ اب صرف معاہدہ لکھنا باقی تھا۔سب سے ملتے ملاتے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ اذان دینی تھی جو کوئی بھی دے سکتا تھا۔ امیر المومنینؓ کے ساتھ جو مصاحب گئے تھے ان میں مدینہ کے مشہور مؤذن بلالؓ بھی تھے۔ بلالؓ وہ مؤذن تھے جنہیں اسلام کی تاریخ تا قیامت فراموش نہیں کرے گی۔ ’’امیر المومنین!‘‘ کسی نے کہا۔’’بیت المقدس جیسا مقدس اور اہم شہر ہماری جھولی میں آپڑا ہے۔ اس ایک شہر پر فتح کیے ہوئے سینکڑوں شہر قربان کیے جا سکتے ہیں۔ ایسی عظیم کامیابی کی خوشی میں آج بلال اذان دیں تو کتنا اچھا ہو۔ ہم بیت المقدس میں بلال کی اذان کے بعد داخل ہوں گے۔‘‘ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے بلالؓ کی طرف دیکھا۔ بلالؓ خاموش کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر اداسی کا تاثر اور زیادہ گہرا ہو گیا۔ بلالؓ حبشی نسل سے تھے۔ ابتداء ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کی آواز بلند سریلی اور پرسوز تھی۔ انہوں نے پہلی دفعہ اذان دی تو مسلمانوں پر تو اثر ہونا ہی تھا، دوسرے لوگ بھی مسحور ہو کررہ گئے تھے۔ یہ بلالؓ کی آواز کا جادو تھا ۔اہلِ قریش نے اس آواز کو بند کرنے کیلئے بلالؓ پر اتنا تشدد کیا تھا کہ وہ بہت دیر تک بے ہوش پڑے رہتے تھے ۔جب اٹھتے تھے تو پہلی آواز جو ان کے منہ سے نکلتی تھی وہ اﷲکانام ہوتا تھا۔ ان کی اذانیں دشت و جبل اور صحراؤں پر وجد طاری کرتی رہیں۔ لیکن رسولِ کریمﷺ کے وصال کے ساتھ ہی یہ آواز خاموش ہو گئی۔ بلالؓ نے اذان دینی چھوڑ دی۔ ان کے چہرے پر ہر وقت اداسی اور افسردگی کی سیاہ گھٹائیں چھائی رہنے لگیں۔ اتنی مدت گزر جانے کے بعد آج پہلی بار بیت المقدس کے دروازے پر امیر المومنین عمرؓ کے مصاحبوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیت المقد س کی فتح کے اس موقع پر بلالؓ اذان دیں۔ امیر المومنینؓ نے ان کی طرف دیکھا تو وہ خاموش رہے۔ ’’بلال! ‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔’’میں جانتا ہوں کہ تم کیا سوچ رہے ہو، لیکن یہ موقع ایسا ہے کہ میں خود چاہتا ہوں کہ اذان تم ہی دو۔ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر کون ایسا ہو گا جو رسول ا ﷲﷺ کو یاد نہ کرنا چاہتا ہوگا؟‘‘بلالؓ کچھ دیرخاموش رہے۔ سب کو توقع یہی تھی کہ بلالؓ اذان نہیں دیں گے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ان کے چہرے کا تاثر بدل گیا۔ انہو ں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ انہیں ایک جگہ ذرا اونچی نظر آئی وہ تیز تیز قدم اٹھاتے اس جگہ جا کھڑے ہوئے۔ کانوں پر ہاتھ رکھے اور برسوں بعد بیت المقدس کی فضاء اس پر سوز آواز سے مرتعش ہونے لگی۔ جو وصالِ رسولﷺ کے ساتھ ہی خاموش ہو گئی تھی۔ امیر المومنینؓ اور ان کے مصاحبین اور تمام مجاہدین پر سناٹا طاری ہو گیا ۔جب بلال ؓکی زبان سے یہ الفاظ نکلے ’’محمد الرسول اﷲ‘‘ تو کئی ایک افراد کی دہاڑیں نکل گئیں۔ اس سے پہلے تو سب کے آنسو جاری تھے لیکن اپنے رسولﷺ کا نام سن کر سب کے جذبات کے بند ٹوٹ گئے۔ کسی کو اپنے اوپر ضبط نہ رہا۔ اذان کے بعد امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب کی امامت میں سب نے نمازِعصر ادا کی۔

اگلے روز امیر المومنینؓ کاایک ایلچی بیت المقدس کے اندر یہ پیغام لے کر گیا کہ امیر المومنینؓ صلح کا معاہدہ طے کرنے کیلئے مدینہ سے آگئے ہیں۔ اسقف سفرینوس اسی پیغام کا منتظر تھا۔وہ اپنے ساتھ چند آدمیوں کو لے کر باہر آگیا۔ معاہدے کی شرائط طے ہوئیں اور اسقف نے شہر کی چابی امیرالمومومنین عمرؓ بن الخطاب کے حوالے کردی۔ معاہدہ جو تحریر ہوا اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے: 
’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ۔ اس معاہدے کے تحت جو خلیفۃ المسلمین عمر بن الخطاب اور اسقف بیت المقدس سفرینوس کے درمیان طے پایا۔ خلیفۃ المسلمین نے ایلیا (بیت المقدس) کے باشندوں کو اس معاہدے کی رو سے امن و امان دیا۔ یہ امان ایلیا کے لوگوں کی جان و مال کیلئے ہے ۔ان کے گرجو ں اور ان کے صلیب کیلئے ہے۔ ہر عمر ہر مذہب کے فرد کیلئے ہے۔ تندرست کیلئے ،مریض کیلئے بھی ہے۔ کسی گرجے یا کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کوفاتحین کی رہائش کیلئے یا کسی اور مقصدکیلئے استعمال نہیں کیاجائے گا۔ نہ انہیں یا ان کے احاطے کے اندر کسی چیز کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ انہیں مسمار کیا جائے گا۔ گرجوں اور دیگر عبادت گاہوں میں سے نہ مال اٹھایا جائے گا نہ کوئی اور چیز غیر مسلموں پر مسلمانوں کی طرف سے مذہب کے معاملے میں کسی قسم کاجبر نہیں کیا جائے گا۔ نہ ان کے ساتھ ناگوار سلوک کیا جائے گا۔ البتہ ایلیا میں یہودی نہیں رہ سکیں گے۔ یہ فرض ایلیا کے باشندوں پر عائد ہوتا ہے کہ وہ یہودیوں رومیوں اور جرائم پیشہ افراد کو شہر سے نکال دیں۔ ایلیا کے تمام شہری دوسرے شہروں کے لوگوں کی طرح جزیہ ادا کریں گے۔ شہر سے ہمیشہ کیلئے چلے جانے والوں کی جان و مال کا تحفظ ان کی اگلی پناہ گاہ تک دیا جائے گا اور اوپر جن ملکوں کا ذکر آیا ہے انہیں چھوڑ کر باقی تمام دوسرے ملکوں کے جو لوگ اس شہر میں رہنا چاہتے ہیں رہ سکتے ہیں۔ انہیں بھی جزیہ ادا کرناہوگا۔ اگر اس شہر کا کوئی باشندہ شہر سے جانے والے رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو وہ خود یا اپنے خاندان کے ساتھ جا سکتا ہے۔ وہ اپنا جس قدر مال و اموال اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے لے جائے۔ ان کی کھیتیوں میں جو فصل ہے اس کی حفاظت مسلمانوں کے خلیفہ کی ذمہ داری ہے۔ فصل کے مالک وہی ہیں۔ جنہوں نے بوئی تھی۔ شرط یہ ہے کہ وہ جزیہ ادا کریں اور فصل کاٹنے کیلئے آجائیں۔‘‘
 ا س معاہدے پر امیر المومنینؓ نے اپنی مہر لگائی اسقف سفرینوس نے اپنے دستخط کیے اور گواہوں کے طور پر خالدؓ بن ولید اور عمروؓ بن العاص، عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور معاویہؓ بن ابی سفیان نے دستخط کیے۔ اس کے فوراً بعد امیر المومنینؓ نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کوحکم دیا کہ وہ اپنے دستوں کے ساتھ شام کے شمالی علاقوں میں چلے جائیں جہاں کچھ جگہوں پر رومی ابھی تک قلعہ بند تھے۔ جاسوسوں نے اطلاع دی تھی کہ شہنشاہ ہرقل شام کی سرحد سے تو نکل گیاہے لیکن اس کی جو فوج ابھی شام میں موجود ہے اس کیلئے ہرقل کمک تیار کر رہا ہے۔ امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب، عمروؓ بن العاص اور شرجیلؓ بن حسنہ کو ساتھ لے کر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔

اسقف سفرینوس نے ان کا استقبال کیا۔ ایک روز پہلے صلح نامے پر دستخط ہو چکے تھے اور سفرینوس نے صلح نامہ شہر کے باشندوں کو پڑھ کر سنایا، لوگوں پر اس سے پہلے خوف و ہراس طاری تھا۔ انہوں نے پہلے فاتحین کا ظلم و تشدد دیکھا تھا۔ رومی جب بیت المقدس میں آئے تھے تو شہنشاہِ ہرقل کے حکم سے اس شہر کے باشندوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ لوگوں کو سرکاری مذہب قبول کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اتنی آسانی سے اپنا مذہب کون تبدیل کرتا ہے۔ جن لوگوں نے ہرقل کا مذہب قبول نہ کیا ان کے ناک کان کاٹ دیئے گئے اور ان کے گھرتک مسمار کر دیئے گئے تھے۔ انہیں فوج میں جبری طور پر بھرتی کر لیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ محکوموں اور مظلوموں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔مسلمانوں سے تو وہ اور زیادو خوفزدہ تھے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان جس شہر کو فتح کرتے ہیں وہیں کے رہنے والوں کو زبردستی مسلمان بناتے ہیں ، گھر لوٹ لیتے ہیں خوبصورت عورتوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔بیت المقدس کے باشندوں نے رومی فوج کی زبان سے سنا تھا کہ مسلمان بڑے ظالم ہیں۔ یہ سپاہی دراصل میدانِ جنگ کی باتیں سناتے تھے اور شہری یہ سمجھ کر خوفزدہ تھے کہ مسلمان وحشی اور خونخوار ہیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مسلمان صرف میدانِ جنگ میں خونخوار ہیں۔بیت المقدس کے شہریوں نے جب معاہدے کی تحریر سنی پھر یہ دیکھا کہ مسلمان فوج نے کسی شہری کی طرف دیکھا تک نہیں تو وہ خوشیاں منانے لگے۔امیرالمومنینؓ نے علقمہ بن مجزز کو بیت المقدس کا حاکم یا امیر مقررکیا۔اسقف سفرینوس نے امیرالمومنین عمرؓ بن الخطاب کو شہر کی سیر کرائی۔ انہیں قدیم تہذیبوں اور قوموں کے آثار دکھائے، یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہیں دکھائیں، بیت المقدس میں ایسے بے شمار آثار تھے جن میں محرابِ داؤد بھی ہے اور صخرہ یعقوب بھی۔ یہ وہ پتھر ہے جس کے متعلق روایت ہے کہ رسولِ کریمﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور معراج کو گئے تھے۔شہر میں گھومتے پھرتے امیر المومنینؓ کلیسائے قیامت کے سامنے سے گزرے۔ ظہر کی نماز کاوقت ہو گیا۔انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ نماز کی کوئی جگہ مل جائے۔ ’’خلیفۃ المسلمین!‘‘ اسقف نے التجا کی۔’’ میرے لیے یہ بات باعثِ فخر ہوگی کہ آپ کلیسا کے اندر نماز پڑھیں۔‘‘’’نہیں!‘‘ خلیفہ عمرؓ نے کہا۔’’ میں اس کلیسا کااحترام کرتا ہوں لیکن میں اس میں نماز نہیں پڑھوں گا کہ یہ صلح کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ اگر آج میں نے آپ کے کہنے سے یہاں نماز پڑھ لی تو میرے بعد مسلمان اس کو رسم بنالیں گے اور کلیسا میں نماز پڑھنے کو اپناحق بنالیں گے۔‘‘ کلیسائے قیامت وہ جگہ ہے جہاں حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کیا گیا تھا۔ یہاں یہ کلیسا تعمیر کیا گیاتھا۔ اس سے آگے کلیسائے قسطنطین تھا۔ اسقف نے اس کے دروازے میں مصلےٰ بچھا دیا لیکن امیر المومنینؓ نے وہاں بھی نماز نہ پڑھی۔ انہوں نے نماز مسجدِ اقصیٰ میں پڑھی۔’’محترم اسقف! ‘‘امیر المومنین عمرؓبن الخطاب نے سفرینوس سے پوچھا۔’’ رومی آپ کا ساتھ کیوں چھوڑ گئے ہیں؟ ان کا سالار اطربوں کہاں گیا؟ سنا تھا وہ ہرقل کا ہم پلہ ہے۔‘‘’’بھاگ گیا۔‘‘ سفرینوس نے جواب دیا۔’’ بھاگ گیا……کوئی شک نہیں کہ وہ ہرقل کا ہم پلہ تھا۔ اس نے آپ کو شکست دینے کے بڑے اچھے منصوبے بنائے تھے۔ ا س نے قیساریہ کے سالار کو آپ کی فوج سے مقابلے کیلئے تیار کیا تھا۔ لیکن آپ کے سالاروں کی چال نے اطربون کے منصوبے تباہ کر دیئے۔ اس سے پہلے وہ آپ کی فوج کے مقابلے میں نہیں آیا تھا……‘‘

’’وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کی فوج میں لڑنے کا جذبہ ختم ہو گیاتھا۔ یرموک اور دوسری جگہوں سے بھاگے ہوئے بہت سے سپاہی یہاں آگئے تھے۔ انہوں نے یہاں کی فوج کو ایسی باتیں سنائیں جن سے سب کا حوصلہ بری طرح متاثر ہوا۔ اطربون نے اپنی فوج کو تیار کر لیا تھا۔ اسے جب اطلاع ملی کہ مسلمانوں نے قیساریہ کو محاصرے میں لے لیاہے تو وہ اپنی فوج کو ساتھ لے کر قیساریہ کا محاصرہ توڑنے کیلئے نکلا لیکن آپ کے کسی سالار نے اسے راستے میں روک لیا۔ اس نے پہلی بار مسلمانوں سے ٹکر لی اور اپنی بہت سی فوج مروا کر بری حالت میں واپس آیا۔‘‘’’وہ جو اپنے ہارے ہوئے سالاروں کو بزدل کہتا تھا اور جس نے بیت المقدس کے دستوں کو لڑنے کیلئے تیار کیا وہ خود بزدل بن گیا اور ا س کا اپناحوصلہ جواب دے گیا۔ اس نے یہاں سے خزانہ نکالنا شروع کر دیا اور سمندر کے راستے قسطنطنیہ لے گیا۔ زیادہ تر فوج بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔ یہ فوج برائے نام تھی جو میں نے قلعے کی دیوارپر کھڑی کر دی تھی۔ میں نے آپ کے ساتھ معاہدے کی شرط اس لئے پیش کی تھی کہ جو فیصلہ خلیفہ کر سکتے ہیں وہ سالار نہیں کر سکتے۔ میں اس شہر کو اس کے باشندوں کے جان و مال کو بچانا چاہتا تھا۔‘‘اسقف سفرینوس نے عمرؓ بن الخطاب کو یہ نہ بتایا کہ اطربون اور سفرینوس نے مل کر نہ صرف بیت المقدس سے خزانہ نکالا تھا بلکہ گرجوں کے سونے اور چاندی کے بیش قیمت ظروب بھی نکلوادیئے تھے۔ ان میں صلیبِ اعظم بھی تھی۔ سفرینوس نے امیرالمومنینؓ کو مدینہ سے اس لیے بلوایا تھا کہ وہ خزانہ ، ظروب رومی فوج اور ا س کا مال و اموال نکلوانے کیلئے وقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جتنے وقت میں امیرالمومنینؓ پہنچے تھے اتنے وقت میں بیت المقدس سے وہ سب کچھ نکل گیا تھا جو سفرینوس اور اطربون نکالنا چاہتے تھے۔اپریل ۶۳۷ ء (ربیع الاول ۱۶ھ) کے دن تھے جب خلیفۃالمسلمین عمرؓ بن الخطاب بیت المقدس میں دس دن قیام کرکے رخصت ہوئے۔ رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے تفصیل سے جائزہ لیا تھا کہ رومی کہاں کہاں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر رومی شکست کھاچکے تھے۔ ان کا شہنشاہ ہرقل شام سے رخصت ہو چکا تھا۔ رومی فوج کے نامی گرامی سالار مارے جا چکے تھے۔ کچھ اہم مقامات تھے جن پر ابھی رومیوں کا قبضہ تھا۔ وہاں سے رومیوں کو نکالنا ضروری تھا۔ایسے مقامات میں ایک کا نام قیساریہ تھا جو بحیرہ روم کی بندرگاہ تھی۔ یہاں سے رومیوں کو نکالنابہت ضروری تھا۔ کیونکہ رومیوں کا بحری بیڑہ ابھی بالکل صحیح حالت میں موجود تھا اور یہ بیڑہ بڑا طاقتور تھا اسے رومی مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ مسلمانوں نے سمندری لڑائی نہیں لڑنی تھی۔ البتہ یہ بیڑہ کمک لانے کیلئے استعمال ہوتاتھا۔کمک اتارنے کیلئے قیساریہ کی بندرگاہ استعمال ہوتی تھی۔امیرالمومنینؓ کے حکم کے مطابق قیساریہ سے پہلے بیت المقدس کو محاصرے میں لیا گیاتھا۔ بیت المقدس لے لیا گیاتو امیرالمومنین عمرؓ نے یزیدؓ بن ابی سفیان کو حکم دیا کہ وہ قیساریہ کو محاصرے میں لے لیں۔’’ابن ابی سفیان! ‘‘عمرؓ نے کہا ۔’’ مت سوچنا کہ تو اس قلعے کو فوراً سر کر لے گا۔ بہت مضبوط قلعہ بندجگہ ہے۔ رومی یہ جگہ اتنی آسانی سے نہیں دیں گے۔ ہلے بول بول کر اپنی طاقت ضائع نہ کرتے رہنا۔ قیساریہ میں رومیوں کی تعداد زیادہ ہے، اور وہاں رسدکی بھی کمی نہیں۔ دشمن یہی خواہش کرے گا کہ تو اس کے قلعے کی دیواروں سے ٹکراتا رہے اور اتنا کمزور ہو جائے کہ تو محاصرہ اٹھا لے یا تجھے کمزور پاکر دشمن باہر آجائے اور تیرے دستوں پر ایسا حملہ کردے کہ تو پسپا بھی نہ ہو سکے۔‘‘

’’تجھ پر اﷲ کی رحمت ہو ابو سفیان!‘‘ عمرؓنے کہا۔’’ رومیوں کو کمک مل گئی تو ہمارے لیے بہت مشکل پیدا ہو جائے گی۔ محاصرے کو طول دو اور کمک کو روکے رکھو۔‘‘عمرؓ بن الخطاب خلیفہ تھے۔ امیرالمومنینؓ تھے لیکن ان کا یہ دور بادشاہوں جیسا اور آج کل کے سربراہانِ مملکت جیسا نہیں تھا کہ گئے، کسی کو شاباشی دی، کسی کو انعام و اکرام سے نوازا اور آگئے۔ انہوں نے تمام تر علاقے کے احوال و کوائف معلوم کئے۔ انہیں جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا۔ اپنی فوج اور دشمن کے لشکر کی کیفیت کا جائزہ لیا اور اس کے مطابق احکام صادرکیے۔ ان کے مطابق سالار اپنے اپنے مقامات پر چلے گئے۔شام کے شمالی علاقوں میں رومی کہیں کہیں قلعہ بندتھے۔ انہیں امید تھی کہ ہرقل جہاں کہیں بھی ہے کمک ضرور بھیجے گا۔ مسلمان اس کوشش میں تھے کہ رومیوں کی کمک نہ آسکے۔ اس کوشش کی ایک کڑی یہ تھی کہ یزیدؓ اپنے دستوں کو لے کر قیساریہ روانہ ہو گئے اور اس شہر کو جو بندرگاہ بھی تھا محاصرے میں لے لیا۔سالار عمروؓ بن العاص اور شرجیل ؓبن حسنہ فلسطین اور اردن کو روانہ ہو گئے۔ ان کے ذمے یہ کام تھا کہ جن علاقوں سے انہوں نے رومیوں کو بے دخل کیا تھا ان علاقوں پر قبضہ کرکے شہری انتظامیہ اور محصولات کے نظام کو بحال اور رواں کیاجائے اور ان جگہوں کے دفاع کوبھی مستحکم کیا جائے۔ رومیوں کی طرف سے جوابی حملے کا امکان موجود تھا۔سپہ سالار ابو عبیدہؓ دمشق کو اپنا مرکز بنانے کیلئے چلے گئے۔ ان کے ساتھ مجاہدین کی جو فوج تھی اس کی نفری سترہ ہزار تھی۔قنسرین ایک قلعہ بندمقام تھا جس میں رومی فوج موجود تھی۔ ابو عبیدہؓ اس قلعے کو محاصرے میں لے کر وہاں سے رومیوں کو نکالنے جارہے تھے۔ یہ ایک مضبوط قلعہ تھا جس میں رومیوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ ابن الولیدؓ مجاہدین کی فوج کے ہراول میں تھے۔ ان کے ساتھ چار ہزار گھوڑ سواروں کا مخصوص رسالہ تھا جو گھوم پھر کر لڑنے کیلئے تیار کیا گیاتھا۔ قنسرین میں ایک مشہور رومی سالار منیاس تھا۔ا س نے دیکھ بھال کیلئے دور دور تک اپنے آدمی پھیلا رکھے تھے ان میں سے ایک آدمی سر پٹ گھوڑا دوڑاتا آیا اور سیدھا منیاس کے پاس گیا۔ اس نے منیاس کو بتایا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر آرہا ہے جس کے ہراول میں گھوڑ سوار ہیں۔ اس نے تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان بتائی اور یہ بھی بتایا کہ ہراول کتنی دور ہے۔منیاس نے بڑی عجلت سے اپنی فوج کو تیار کیا۔ 

’’سلطنتِ روما کی عظمت کے پاسبانو!‘‘ اس نے اپنی فوج کے حوصلے میں جان ڈالنے کیلئے جوشیلے انداز میں کہا۔’’ وہ بزدل تھے جنہوں نے اپنے اوپر عرب کے بتوں کا خوف طاری کر لیا تھا۔ تم میں عیسائی عرب بھی ہیں ۔اگر مسلمان اتنے بہادر ہیں تو تم بھی اتنے ہی بہادر ہو۔ عرب کے مسلمان تم میں سے ہیں۔ تم بھی اسی ریت کی پیداوار ہو اور رومیوں اس دن کو یاد کرو جب تم فاتح کی حیثیت سے اس سر زمین پر آئے تھے وہ تمہارے باپ اور داد ا تھے۔ تصور میں لاؤ کہ اس وقت ان کے سر کتنے اونچے اور سینے کتنے چوڑے تھے اور آج سوچو ان کی روحوں کو کتنی شرمساری ہو رہی ہوگی۔‘‘ ’’مت سوچو کہ شہنشاہ ہرقل بھاگ گیاہے۔ روم کی عظمت کو صلیبِ اعظم کو اور بیت المقدس کی آن کو اپنے سامنے رکھو۔ پھر سامنے رکھو اپنے سالار اطربون کی بے غیرتی کو، جس نے عیسیٰؑ کے شہر یسوع مسیح کے مسکن کو تمہارے مذہب اور تمہارے عقیدوں کے دشمن کے حوالے کر دیا ہے۔ تصور میں لاؤ اپنی بیٹیوں اور اپنی عورتوں کو جو مسلمانوں کے بچے پیدا کریں گی ۔اپنے آپ کودیکھو تم ہار گئے تو باقی عمر کیلئے مسلمانوں کے غلام بن جاؤ گے۔ آج تم کس شان سے کیسے جاہ جلال سے گھوڑوں پر سوار ہوتے ہو، تم نے اگر ہتھیار ڈال دیئے تو تم گھوڑے کی سواری کو بھی ترسو گے۔ تم اصطبل کے ملازم ہو گے اور گھوڑوں کی غلاظت صاف کیا کرو گے۔‘‘
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی