🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 51*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *51* ۔۔۔۔

ابو عبیدہؓ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو کسی ایک سالار کو مقرر کرتے تھے کہ وہ تمام خیمہ گاہ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرہ داروں کو دیکھے پھر مجاہدین کو جا کر دیکھے جنہیں دشمن کی خیمہ گاہ پر نظر رکھنے کیلئے آگے بھیجاجاتا تھا۔ اس رات ابو عبیدہؓ نے اس خیال سے کسی سالار کو اس کام کیلئے نہ کہا۔ کہ سب دن بھر کے تھکے ہوئے ہیں۔ وہ خود اس کام کیلئے چل پڑے۔ لیکن وہ جدھر بھی گئے انہیں کوئی نہ کوئی سالار گشت پر نظر آیا(سبحان اﷲ)۔ سالار زبیرؓ تو اپنی بیوی کو ساتھ لے کر گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کی بیوی بھی دن کو لڑی تھیں۔ یہ رات بھی گزر گئی۔ جنگِ یرموک کی پانچویں صبح طلوع ہوئی۔ خالدؓ نے فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی سالاروں کو بلا لیا تھا۔ ’’میرے رفیقو!‘‘ خالدؓ نے کہا ۔ ’’آج کا دن کل سے زیادہ خطرناک ہو گا ۔اپنی تعدا ددیکھ لو۔ ہم تھوڑے رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں ان کی حالت بھی تمہارے سامنے ہے۔ آج زخمی بھی لڑیں گے۔ دشمن کا بھی بہت نقصان ہو چکا ہے لیکن اس کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ اتنے زیادہ نقصان کو برداشت کر سکتا ہے۔ تم نے دشمن کے لڑنے کا انداز دیکھ لیا ہے صرف یہ خیال رکھو کہ مرکزیت قائم رہے۔ اب ہم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘خالدؓ نے سالاروں کو کچھ ہدایات دیں اور رخصت کر دیا۔ معاً بعد مسلمان دستے اپنی پوزیشنوں پر چلے گئے ۔ ان کی کیفیت یہ تھی کہ ہر دستے میں جسمانی لحاظ سے جتنے بالکل ٹھیک افراد تھے اتنے ہی زخمی بھی تھے۔ زخمیوں میں زیادہ تر ایسے تھے جو کسی حد تک لڑنے کے قابل تھے لیکن ایسے بھی تھے جو لڑنے کے قابل نہیں تھے مگر وہ اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ عورتیں آج بھی لڑنے کیلئے تیار تھیں۔ مسلمانوں کی یہ دگرگوں کیفیت دشمن سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اس نے اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہا تھا۔ مسلمان سالار رومیوں کے محاذ کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں توقع تھی کہ آج رومی زیادہ نفری کے دستوں سے حملہ شروع کر دیں گے۔ مسلمان سالاروں کو یہ خطرہ بھی نظر آرہاتھا کہ رومی اپنے سارے لشکر سے حملہ کردیں گے۔ صبح سفید ہو چکی تھی لیکن رومی آگے نہ آئے، پھر سورج نکل آیا لیکن رومی آگے نہ آئے۔ رومیوں کا یہ سکوت خطرناک لگتا تھا۔ یہ طوفان سے پہلے کی پہلے کی خاموشی معلوم ہوتی تھی۔ خالدؓ کو خیال گزرا کہ رومی مسلمانوں کو حملے میں پہل کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ خالدؓ پہل نہیں کرناچاہتے تھے وہ کچھ وقت اور دفاع کو ہی بہتر سمجھتے تھے۔ آخر رومیوں کی طرف سے ایک سوار آتا دکھائی دیا۔ رومیوں کے لشکر نے کوئی حرکت نہ کی سوار مسلمان دستوں کے سامنے آکر رک گیا۔ وہ کوئی عیسائی عرب تھا۔ عربی روانی سے بولتا تھا۔ ’’میں اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کا ایلچی ہوں۔‘‘ اس نے اعلان کرنے کے انداز سے کہا۔ ’’تمہارے سالارِاعلیٰ سے ملنے آیا ہوں۔‘‘سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے۔ یہ تو انہوں نے اپنے طور پر خالدؓ کو سالارِ اعلیٰ کے اختیارات دے رکھے تھے۔ ذمہ داری بہرحال ابو عبیدہؓ کی تھی اور اہم فیصلے انہوں نے ہی کرنے تھے۔ وہ آگے چلے گئے۔خالدؓ وہاں سے ذرا دور تھے۔ ان کے کان کھڑے ہوئے اور وہ ان کی طرف چل پڑے۔ ’’کہو روم کے ایلچی! ‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’ کیا پیغام لائے ہو؟‘‘’’سالارِ اعلیٰ ماہان نے کہا ہے کہ چند دنوں کیلئے لڑائی روک دی جائے ۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’ کیا آپ رضامند ہوں گے؟‘‘ ’’لیکن تمہارے سالارِ اعلیٰ نے کوئی وجہ نہیں بتائی؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’یہ عارضی صلح ہوگی۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ اس دوران یہ فیصلہ ہو گا کہ مستقل صلح کیلئے بات چیت ہو گی یا نہیں۔‘‘ ’’ہم عارضی صلح پر رضامند ہو جائیں گے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔ ’’لیکن بات چیت کا فیصلہ کون کرے گا؟‘‘’’کیا آپ لڑائی روکنے پر راضی ہیں؟‘‘ ایلچی نے پوچھا۔ ’’ہاں!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ لیکن……‘‘ ’’نہیں !‘‘ایک گرجدار آواز سنائی دی۔

دونوں نے دیکھا۔ یہ خالدؓ کی آواز تھی۔ انہوں نے ابو عبیدہؓ کی صرف ہاں سنی تھی۔’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ ان کے سالار نے عارضی صلح کیلئے کہا ہے۔‘‘’’امین الامت !‘‘خالدؓنے ابو عبیدہؓ کے کان میں کہا۔’’ یہ حملے کی تیاری کیلئے مہلت چاہتے ہیں۔ ان کا اتنا نقصان ہو چکا ہے کہ فوری طور پر حملہ نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے اجازت دے کہ اس ایلچی کو کورا جواب دے سکوں۔‘‘’’اے سلطنتِ روم کے ایلچی!‘‘ ابو عبیدہؓ نے ایلچی سے کہا۔’’ صلح سمجھوتے کا وقت گزر گیا ہے۔ اپنے اتنے زیادہ آدمی مروا کر میں یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ میں اپنے اتنے زیادہ مجاہدین کا خون ضائع کر آیا ہوں۔لڑائی جاری رہے گی۔ ‘‘ابو عبیدہؓ نے گھوڑا موڑا اور خالدؓ کے ساتھ اپنے محاذ کی طرف چل پڑے۔ ’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ اپنے مجاہدین کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ انہیں آرام مل جائے اور کچھ زخمی ٹھیک ہو جائیں کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ……‘‘ ’’سب دیکھ رہا ہوں ابن الجراح !‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ لیکن حالت ہمارے دشمن کی بھی ٹھیک نہیں۔ ورنہ صلح کا دھوکا نہ دیتا۔ رومیوں کے ساتھ بہت سے قبیلے تھے۔ رومی سالاروں نے انہی کو سب سے پہلے مروایا ہے اور اپنی باقاعدہ فوج کو وہ بہت کم استعمال کر رہے ہیں۔ یہ قبیلے باغی ہو گئے ہوں گے یا ان کا دم خم ٹوٹ چکا ہو گا ۔ہم انہیں سنبھلنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘’’کیا تو ان پر حملے کی سوچ رہا ہے؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’کیا تو سوچنے کے قابل نہیں رہا امین الامت!‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’آمل کر سوچیں گے۔‘‘خالدؓ نے جو سوچا وہ بڑا ہی پر خطر اور دلیرانہ اقدام تھا۔وہ دن جو جنگ کاپانچواں دن تھا۔ بغیر لڑائی کے گزر گیا۔ دستوں کو ایک دن کا آرام تو مل گیا تھا لیکن سالاروں نے آرام نہ کیا۔ خالدؓ نے سالاروں کو اپنے ساتھ مصروف رکھا۔ انہوں نے آٹھ ہزار گھوڑ سوار الگ کرکے ایک دستہ بنا لیا۔ سالاروں کو اپنا نیا منصوبہ سمجھایا۔ انہوں نے یہ منصوبہ جن پیادوں اور سواروں کیلئے بنایا تھا ان میں آدھی تعداد زخمی تھی۔ ایسا خطرہ خالدؓ ہی مول لے سکتے تھے۔چھٹے دن کی صبح طلوع ہوئی، رومی لشکر آگے آگیا، مسلمان میدان میں نئی ترتیب سے موجود تھے۔ رومی سالار گریگری گھوڑے پر سوار آگے بڑھا۔ گریگری ان دستوں کا سالار تھا جن کے دس دس سپاہی ایک ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے ۔ گریگری نے دونوں فوجوں کے درمیان گھوڑا روکا۔’’کیا تمہارے سالارِ اعلیٰ میں ہمت ہے کہ میرے مقابلے میں آئے؟‘‘ گریگری نے للکار کر کہا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گریگری کی طرف گئے۔’’رُک جا ابن الجراح!‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کو پکارا اور گھوڑا دوڑا کران کے قریب چلے گئے۔ کہنے لگے۔ ’’تو آگے نہیں جائے گا۔ مجھے جانے دے۔‘‘’’آہ ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا ۔’’وہ مجھے للکار رہا ہے۔‘‘’’امین الامت کو روک لو۔‘‘ متعدد سالاروں نے شور مچایا۔’’ ابن الولید کو جانے دو۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ گریگری کو مسلمان سالار ماہر تیغ زن سمجھتے تھے۔ تیغ زنی میں ابو عبیدہؓ بھی کم نہ تھے پھر بھی سب خالدؓ کو گریگری کی ٹکر کا آدمی سمجھتے تھے لیکن ابو عبیدہؓ نے کسی کی نہ سنی اور گریگری کے مقابلے کیلئے چلے گئے۔گریگری نے ابو عبیدہؓ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ا س نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس طرح ایک طرف لے گیا جیسے وہ پہلو کی طرف سے آکر تلوار کا وار کرنا چاہتا ہو۔ ابو عبیدہؓ نے گھوڑا روک لیا اور گریگری کو کنکھیوں دیکھتے رہے۔ گریگری نے اپنے ہی انداز سے گھوڑا گھما کر اور دوڑا کر ابو عبیدہؓ پر وار کیا۔ وار ایسا تھا جو لگتا تھا کہ روکا نہیں جا سکے گا۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے وار روک کر گھوڑے کو گھمایا اور بڑی پھرتی سے وار کیا۔ گریگری نے وار روک لیا۔

اس کے بعد تلواریں ٹکراتی اور گھوڑے اپنے سواروں کے پینتروں کے مطابق گھومتے ، مڑتے دوڑتے اور رُکتے رہے۔ دونوں سالار شمشیر زنی کے استاد معلوم ہوتے تھے۔ دونوں کے وار بڑے ہی تیز تھے اور ہر وارلگتا تھا کہ حریف کو کاٹ دے گا۔ دونوں فوجیں اپنے اپنے سالار کو چلّا چلّا کر داد دے رہی تھیں۔ کبھی دونوں فوجیں یوں دم بخود رہ جاتیں جیسے وہاں کوئی انسان موجود ہی نہ ہو۔گریگری نے ایک وار کیا جو ابو عبیدہؓ نے روک لیا۔ ابو عبیدہؓ وار کرنے لگے تو گریگری نے گھوڑا دوڑا دیا اور ابو عبیدہؓ کے اردگرد گھومنے لگا۔ ابو عبیدہؓ وار کرنے بڑھتے تو وہ رُک کر وار روکنے کے بجائے گھوڑے کو پرے کر لیتا۔ ابو عبیدہؓ نے وار کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ وار سے بھاگ رہا تھا۔ ایسے نظر آتا تھا جیسے وہ مقابلے سے منہ موڑرہا ہو۔ ابوعبیدہؓ اس کے پیچھے ہو گئے۔آخر اس نے گھوڑے کا رخ اپنے لشکر کی طرف کر دیا۔ ابو عبیدہؓ ا س کے پیچھے پیچھے اور اس کا پیچھا کرتے رہے۔ اس نے گھوڑے کی رفتار تیز کردی۔ ابو عبیدہؓ نے بھی رفتار بڑھا دی۔ رومی لشکر پر تو خاموشی طاری ہو گئی لیکن مسلمانوں نے دادو تحسین کا شور بپا کر دیا۔ رومی سالار مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ گیاتھا۔گریگری نے گھوڑے کو ایک طرف موڑا اور رفتار تیز کردی۔ ابو عبیدہؓ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے قریب چلے گئے۔ گریگری نے گھوڑا گھما کر ابو عبیدہؓ کے سامنے کر دیا۔ یہ اس کی چال تھی۔ وہ بھاگ نکلنے کا دھوکا دے رہا تھا۔ دھوکا یہ تھا کہ وہ اچانک گھوم کر ابو عبیدہؓ پر وار کرے گا اور انہیں وار روکنے کی مہلت نہیں ملے گی۔مؤرخ طبری اور بلاذری نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہؓ چوکنے تھے اور گریگری کے دھوکے کو سمجھ گئے تھے ۔گریگری فوراً گھوڑا پیچھے کو موڑ کر وار کرنے لگاتو ابوعبیدہؓ کی تلوار پہلے ہی حرکت میں آچکی تھی۔ گریگری کی گردن موزوں زاویے پر تھی۔ ابو عبیدہؓ کا وار سیدھا گردن پر پڑا۔ جس سے گردن کی ہڈیوں کا ایک جوڑ کٹ گیا اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ گریگری گھوڑے سے گر پڑا۔مسلمانوں نے داد و تحسین کا غل غپاڑہ بپا کر دیا، دستور کے مطابق ابو عبیدہؓ کو گھوڑے سے اتر کر گریگری کی تلوار خود اور زرہ اتار لینی چاہیے تھی لیکن وہ گھوڑے سے نہ اترے ، کچھ دیر گریگری کو تڑپتا دیکھتے رہے۔ جب اس کا جسم بے حس ہو گیا تو ابو عبیدہؓ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اپنی صفوں میں آگئے۔ابن الولیدؓ ابو عبیدہؓ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے نہ رکے۔ وہ گھوڑ سوار دستے کے پاس چلے گئے جو انہوں نے اس روز کی جنگ کیلئے تیارکیا تھا۔ آٹھ ہزار سواروں کے اس دستے کو دائیں پہلو پر عمروؓ بن العاص کے دستوں کے عقب میں ایسی جگہ کھڑا کیا گیا تھا جہاں سے یہ دشمن کو نظر نہیں آسکتا تھا۔خالدؓ نے اپنی تمام فوج کو سامنے کا حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ رومی سالار حیران ہوئے ہوں گے کہ مسلمان سالاروں کا دماغ جواب دے گیا ہے کہ انہوں نے ایک ہی بار ساری فوج حملے میں جھونک دی ہے۔ رومیوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار دستے حملے میں شریک نہیں ۔ رومیوں کو یہ سب کچھ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی تھی، کیونکہ خالدؓ کے حکم کے مطابق بہت تیز حملہ کیا جا رہا تھا۔ رومیوں کی بہت سی نفری ہلاک اور شدید زخمی ہو چکی تھی۔ پھربھی ان کی نفری مسلمانوں کی نسبت سہ گنا تھی، مسلمانوں کا جانی نقصان بھی ہوا۔ اتنی کم نفری کا اتنی بڑی تعداد پر حملہ خودکشی کے برابر تھا۔’’انہیں آنے دو۔ ‘‘رومی سالار ماہان چلّارہا تھا۔’’ اور آگے آنے دو…… یہ ہمارے ہاتھوں مرنے کیلئے آ رہے ہیں۔‘‘خالدؓ آٹھ ہزار سواروں کو پیچھے لے جا کر رومیوں کے بائیں پہلو سے پرے لے گئے۔ انہوں نے سالار عمروؓ بن العاص سے کہا تھا کہ رومیوں کے اس پہلو پر تیز اور زور دار حملہ کریں ۔ عمروؓ بن العاص نے حکم کی تعمیل کی اور جانیں لڑادیں۔ خالدؓ چاہتے تھے کہ دشمن کو پہلو کے دستوں کے سامنے سے الجھالیا جائے۔
عمروؓ بن العاص نے خالدؓ کا مقصد پورا کر دیا۔ خالدؓ نے آٹھ ہزار سواروں میں سے دو ہزار سواروں کا ایک دستہ الگ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن کے پہلو کے دستے عمروؓ بن العاص کے دستوں سے الجھ گئے ہیں تو چھ ہزار سواروں کے ساتھ رومیوں کے پہلو والے دستوں کے خالی پہلو کی طرف سے حملہ کردیا ۔ رومیوں کیلئے یہ حملہ غیر متوقع تھا۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ عمروؓ بن العاص نے اپنے حملوں میں شدت پیدا کردی۔دشمن کے انہی دستوں پر سامنے سے شرجیلؓ بن حسنہ نے بھی حملہ کیا تھا۔ خالدؓ نے جن دو ہزار سواروں کو الگ کیاتھا، انہیں حکم دیا کہ وہ دشمن کے اس سوار دستے پر حملہ کریں جو اپنے پہلو کے دستوں کی مدد کیلئے تیا ر کیا تھا۔ ان دو ہزار سواروں کیلئے یہ حکم تھا کہ وہ دشمن کے سوار دستے کو روک رکھیں یعنی حملہ شدید نہ کریں بلکہ دشمن کو دھوکے میں رکھیں۔بعد میں پتا چلا کہ رومیوں کا یہ سوار دستہ خاص طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اسے ہر ا س جگہ مدد کیلئے پہنچنا تھا جہاں مدد کی ضرورت تھی۔ مسلمان سواروں نے اس سوار دستے کو اس طرح الجھایا کہ حملہ کرتے اور پیچھے یا دائیں بائیں نکل جاتے ، پینترا بدل کر پھر آگے بڑھتے اور ہلکی سی جھڑپ لے کر اِدھر اُدھر ہو جاتے۔خالدؓ کی یہ چال کارگر ثابت ہوئی۔ انہوں نے دشمن کے مقابلے میں اتنی کم تعداد کو ایسی عقلمندی سے استعمال کیا تھا کہ دشمن کے پہلوکے دستوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان دستوں کو توقع تھی کہ مشکل کے وقت سوار دستے مددکوآجائیں گے لیکن مدد کو آنے والے سواروں کو خالدؓ کے دو ہزار سواروں نے آنکھ مچولی جیسی جھڑپوں میں الجھا رکھا تھا۔دشمن کے پہلو کے دستے ایک بار پیچھے ہٹے تو خالدؓ نے چھ ہزار سواروں سے حملے میں شدت پیدا کردی، ماہان نے خود آکر اپنے دستوں کو جم کر لڑانے کی کوشش کی لیکن اس کا سوار دستہ بری طرح بکھرنے اور پیچھے ہٹنے لگا ۔ پیادہ دستے سوار دستوں کی مدد کے بغیر لڑ نہیں سکتے تھے، وہ بے طرح بکھرنے اور بھاگنے لگے۔ بھاگنے والے پیادہ دستے آرمینی تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کے بھاگنے کی ایک وجہ تو مسلمانوں کے سوار دستے کاحملہ تھا اور ان پر سامنے سے بھی بہت زیادہ دباؤ پڑ رہا تھا، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آرمینی سالاروں نے محسوس کیاکہ انہیں دانستہ سواروں کی مدد دسے محروم رکھاجا رہا ہے۔ ان کے پیچھے عیسائی عرب تھے۔ جن کا سالار جبلہ بن الایہم تھا۔ انہوں نے بھی رسالے کی مدد نہ آنے کو غلط سمجھا اور لڑنے سے منہ موڑ گئے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ آرمینیوں اور عیسائیوں کی پسپائی بھگدڑ کی مانندتھی۔ مؤرخوں نے اسے سیلاب بھی کہا ہے جس کے آگے جو کچھ بھی آتا ہے سیلاب اسے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ رومیوں کے بائیں پہلو سے بھاگنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی گئی ہے، چالیس ہزار انسانوں کی بھگدڑ ایسابے قابو سیلاب تھا جو اپنے سالاروں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا، یہاں تک کہ سالارِاعلیٰ ماہان جو ابھی میدان نہیں چھوڑناچاہتا تھا اپنے محافظوں سمیت اس سیلاب کی لپیٹ میں آگیا اور بہتا چلا گیا۔یہ کامیابی خالدؓ کی عسکری دانش کا حاصل تھی۔ انہوں نے دشمن کے پیادوں کو سواروں کی مددسے محروم کردیا تھا اور سواروں سے پیادوں پر ہلہ بول دیا تھا۔ خالدؓ کے آگے بڑھنے کارخ ماہان اور اس کے دو ہزار سوار محافظوں کی طرف تھا۔اِدھر ابو عبیدہؓ اوریزیدؓ بن ابی سفیان اپنے سامنے کے دستوں پر اس اندازسے حملے کر رہے تھے کہ بھرپور لڑائی بھی نہیں لڑتے تھے اور پیچھے بھی نہیں ہٹتے تھے۔ ابو عبیدہؓ نے دشمن کے ان دستوں کو روکاہوا تھا جو زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔ یہ دستے تیزی سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتے تھے۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

خالدؓ دشمن کے اس رسالے کو جس نے سارے محاذ کو مدد دینی تھی، بکھیر کر بھگا چکے تھے۔اس رسالے کو کھل کر لڑنے کا موقع ہی نہیں دیاگیا تھا۔خالدؓ اب اپنے رسالے(سواردستے) کے ساتھ رومیوں کے عقب میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے عقب سے حملہ کردیا۔ یہ رومی فوج کادوسرا حصہ تھا۔ اس پر اپنے بائیں پہلو کے دستوں اور سوار دستوں کے بھاگنے کا بہت برا اثر پڑ چکا تھا۔ ماہان کے غائب ہوجانے کی وجہ سے مرکزیت بھی ختم ہو گئی تھی۔اب سالار اپنی اپنی لڑائی لڑ ہے تھے۔وہ اب صرف دفاع میں لڑ سکتے تھے۔کسی بھی فوج کا بڑا حصہ بھاگ نکلے اور کمک کی امید نہ رہے تو اس صورت میں یہی ہو سکتا ہے کہ اپنی جانیں بچانے کیلئے لڑا جاتا ہے اور موقع ملتے ہی پسپائی اختیار کی جاتی ہے۔رومی لشکر کیلئے یہ صورتِ حال پیدا ہو چکی تھی۔ خالدؓ نے دشمن کے بھاگنے کے راستے روک لیے تھے سوائے ایک ،کہ خالدؓ کی بھی یہی کوشش تھی کہ رومی اسی راستے سے بھاگیں ۔ چنانچہ دشمن کے بھاگنے والے دستے اسی راستے پر جارہے تھے۔رومی فو ج بھی پسپا ہو رہی تھی لیکن منظم طریقہ سے۔اس کا کچھ حصہ بھگدڑ میں بہہ گیا تھا۔زیادہ تعداد منظم انداز سے پسپا ہوئی۔خالدؓ نے اس تمام علاقے کی زمین کو دور دور تک دیکھ لیا تھا اور انہوں نے اس زمین سے فائدہ اٹھانے کیلئے اور جو کچھ سوچ لیا تھا وہ کسی عام دماغ میں نہیں آسکتا تھا۔رومی لشکر جب بھاگ رہا تھا تو خالدؓ کے حکم سے ان کے دستے بھاگنے والوں کا تعاقب کرکے ایک خاص طرف جانے پر مجبور کر رہے تھے۔ اس طرف وادی الرّقاد تھی جس میں ایک ندی بہتی تھی اور اس وادی کے خدوخال کچھ اس طرح تھے ۔وادی اردگرد کی زمین سے گہرائی میں چلی جاتی تھی۔ اس کی ایک طرف کی ڈھلان تو ٹھیک تھی لیکن اس کے بالمقابل کی ڈھلان زیادہ تر سیدھی تھی۔ وہاں سے اوپر چڑھا تو جا سکتا تھا لیکن بہت مشکل سے۔رومی فوج کے باقاعدہ دستے اس طرف چلے گئے۔ ان کے سامنے ایک یہی راستہ تھا۔وہ آسان ڈھلان اتر گئے اور انہوں نے ندی بھی پار کرلی۔ جب وہ دوسری ڈھلان چڑھنے لگے تو مشکل پیش آئی۔ آہستہ آہستہ اوپر چلے گئے۔ اچانک اوپر سے نعرے بلند ہوئے اور للکار سنائی دی۔نعرے لگانے والے مسلمان سوار تھے، اور ان کے سالار ضرار بن الازور تھے۔ ان کاجسم ناف کے اوپر سے ننگا تھا ۔خالدؓ نے رات کو جو منصوبہ بنایا تھااس کے مطابق انہوں نے اسی وقت ضرار کو پانچ سو سوار دے کر وادی الرقاد کے دوسرے کنارے پر بھیج دیا اور اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔خالدؓ نے جیسے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ رومی فوج کی دراصل کوشش یہی تھی کہ کے تعاقب میں جو مسلمان آرہے ہیں، ان سے بہت فاصلہ رکھاجائے۔ اس لیے وہ بہت جلدی میں جا رہے تھے۔ خالدؓ نے تعاقب اسی مقصد کیلئے جاری رکھاتھاکہ رومی فوج جلدی میں رہے۔ اس مقصد میں کامیابی یوں ہوئی کہ رومی اوپر گئے تو اوپر ضرار کے پانچ سو سوار برچھیاں تانے کھڑے تھے ۔ رومی جو اوپر چلے گئے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے اور جو ابھی اوپر جا رہے تھے وہ پیچھے مڑے لیکن عمودی کنارے سے وہ تیزی سے نہیں آسکتے تھے ۔ مسلمانوں نے ان پر پتھر برسانے شروع کر دیئے، جو انہوں نے اسی مقصدکیلئے اکٹھے کر رکھے تھے۔ اوپر والے گرتے اور لڑھکتے ہوئے نیچے جاتے تھے۔ اوپر سے ان پر وزنی پتھر گرتے تھے ۔ان میں گھوڑ سوار بھی تھے۔ گھوڑے بھی گرے اور پیادے ان کے نیچے آکر مرنے لگے۔
رومی کچھ کم تو نہ تھے، ابھی ایک بڑی تعداد ندی تک نہ پہنچی تھی۔ رومی سالاروں نے اپنے آگے جانے والوں کی تباہی دیکھی تو اپنے دستوں کوآگے جانے سے روک دیا اور وادی میں اترنے کے بجائے انہیں اوپر صف آراء کر دیا۔ وہ لڑ کر مرنا چاہتے تھے۔آرمینیوں اور عیسائی عربوں کی بھی کچھ نفری ان سے آملی تھی۔ یہ نفری بھاگ رہی تھی اور مسلمان انہیں وادی کی طرف لے آئے تھے۔خالدؓ اپنی فوج کے ساتھ تھے۔ انہوں نے دشمن کو صف آراء دیکھا تو اپنے سالاروں کو بلا کر کہا کہ دشمن پر حملہ کردیں۔’’ان میں لڑنے کادم نہیں رہا۔‘‘ خالدؓنے کہا ۔’’سیدھا حملہ کرو۔ میرے حکم کا انتظار نہیں کرنا۔ ان کیلئے پیچھے ہٹنے کی جگہ نہیں ہے۔ ایک طرف دریا(یرموک)ہے ، دوسری طرف گہری وادی ہے۔ سامنے ہم کھڑے ہیں۔ ان پر ہلہ بول دو۔‘‘رومی پھندے میں آگئے تھے۔ ان کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی ختم ہوچکاتھا۔ بعض مؤرخوں نے مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار اور دو نے اس سے کچھ کم لکھی ہے ۔ شہادت اور شدیدزخمیوں کی وجہ سے نفری کم ہو گئی تھی۔ ایک دستے کو عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔مسلمانوں نے حملہ کردیا۔ اس میں کوئی چال نہ چلی گئی، اس حملے کاانداز ٹوٹ پڑنے جیسا تھا۔ سوار اور پیادے گڈ مڈ ہو گئے تھے، رومی اب زندگی اور موت کا معرکہ لڑنے کیلئے تیار ہو گئے تھے۔ وہ تو تربیت یافتہ فوج تھی۔ اس فوج کی اگلی صف نے مسلمانوں کا جم کرمقابلہ کیا لیکن وہ جگہ ایسی تھی جہاں دائیں بائیں ہونے اور گھوم پھرکرلڑنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس وجہ سے رومی اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ ٹکرانے اور ایک دوسرے کیلئے رکاوٹ بننے لگے۔یہ صورتِ حال مسلمانوں کیلئے سودمند تھی۔ رومیوں کی اگلی صف نے مقابلہ تو کیا لیکن اس کا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہ رہا۔ مسلمان سواروں نے رومی پیادوں پر گھوڑے چڑھا دیئے اور انہیں صحیح معنوں میں کچل ڈالا، جہاں جگہ کچھ کشادہ تھی۔ وہاں رومیوں نے مقابلہ کیا لیکن مؤرخوں کے مطابق ، یوں بھی ہوا کہ گردوغبار میں رومیوں نے رومیوں کو ہی کاٹ ڈالا۔ اپنے پرائے کی پہچا ن نہ رہی۔یہ بڑا خوفناک معرکہ تھا۔بڑی بھیانک لڑائی تھی۔ یہ رومیوں، عیسائی عربوں اور ان کے اتحادی قبیلوں کا قتلِ عام تھا۔’’گھوڑوں کو اٹھا کر ان پر گراؤ۔‘‘ یہ خالدؓ کی للکار تھی۔’’ مومنین! کفر کی چٹانوں کو پیس ڈالو۔‘‘مسلمان سوار باگوں کو جھٹکا دیتے تو گھوڑے اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا لیتے اور جب گھوڑے ٹانگیں نیچے لاتے تو ایک دو رومی کچلے جاتے۔ یہ تو رومیوں کا قتلِ عام تھا۔ رومی وادی الرقاد کی طرف بھاگ رہے تھے جہاں وہ اگلے عمودی کنارے کی ایک گھاٹی چڑھتے تو ضرار کے سواروں کی برچھیوں سے چھلنی ہوتے اور اوپر سے لڑھکتے ہوئے نیچے آتے۔مسلمانوں نے اس فتح کیلئے بہت سی جانیں قربان کی تھیں اور جو شدید زخمی ہوئے تھے ان میں کئی ایک ساری عمر کیلئے معذور ہو گئے تھے۔ یہ جنگ مسلمان عورتیں بھی لڑی تھیں۔ عورتوں نے اپنے بھاگتے مردوں کو دھمکیاں دے کر بھاگنے سے روکا تھا۔ اب وہ دشمن جو اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے ارادے سے ڈیڑھ لاکھ کالشکر لایا تھا ۔بڑے برے پھندے میں آگیا تھا۔ وادی الرقاد اس کیلئے موت کی وادی بن گئی تھی۔اﷲ نے مومنین کی وہ دعائیں قبول کر لی تھیں جو وہ راتوں کو جاگ جاگ کر مانگتے اور اﷲ کے حضور گڑگڑاتے رہے تھے ۔ وہ ایک آیت کا ورد کرتے رہے تھے:’’کتنی ہی بار چھوٹی چھوٹی جماعتیں اﷲکے چاہنے سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں ۔ اﷲ صبر و استقامت والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ قرآن حکیم ۲/۲۴۹اب میدانِ جنگ کی یہ کیفیت ہو چکی تھی کہ رومیوں کی چیخیں اٹھتی تھیں جو مسلمانوں کے نعروں میں دب جاتی تھیں۔ داوی میں گہری کھائیاں بھی تھیں، بعض رومی ان میں بھی گرے اور بڑی بری موت مرے۔

جنگِ یرموک کے چھٹے اور آخری روزکا سورج میدانِ جنگ کے گردوغبار میں ڈوب گیا۔ فضاء خون کی بو سے بوجھل تھی۔ مشعلیں جل اٹھیں اور رومیوں کی لاشوں کے درمیان گھومنے پھرنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی مشعلیں تھیں،وہ اپنے شہیدوں اور شدید زخمیوں کو اٹھا رہے تھے اور مالِ غنیمت بھی اکٹھا کر رہے تھے۔ خیمہ گاہ میں خبر پہنچی تو عورتیں آگئیں۔ وہ کئی میل فاصلہ طے کر کے آئی تھیں۔ وہ اپنے خاوندوں کو، بھائیوں اور بیٹوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔’’تو جنتی ہے۔‘‘ کسی نہ کسی عورت کی آواز سنائی دیتی تھی(اﷲ اکبر۔۔۔اﷲ اکبر۔۔۔اﷲ اکبر)۔’’ تو جنت میں جا رہا ہے۔‘‘جنگ ختم ہو چکی تھی لیکن خالدؓ کی جنگ ابھی جاری تھی۔ رات بھر مجاہدین شہیدوں، زخمیوں اور مالِ غنیمت میں مصروف رہے لیکن خالدؓ کی مصروفیت کچھ اور تھی۔ ان کیلئے جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔انہوں نے جو رومی قیدی پکڑے تھے ان سے خالدؓ معلوم کر رہے تھے کہ ان کا سالارِ اعلیٰ ماہان جو آرمینیہ کا بادشاہ بھی تھا، کس طرف گیا ہے۔ بیشتر قیدیوں کو معلوم نہ تھا۔آخر پتہ چل گیا، ماہان کو انطاکیہ کے بجائے دمشق کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیاتھا۔ اس کے ساتھ اس کا محافظ سوار دستہ بھی تھا جس کی تعداد دو ہزار تھی۔صبح ہوتے ہی خالدؓ اپنے سوار دستے کو ساتھ لے کر ماہان کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔ اس وقت ماہان دمشق سے دس بارہ میل دور پہنچ چکا تھا۔ اسے یہ توقع نہیں تھی کہ مسلمان اس کے تعاقب میں پہنچ جائیں گے۔ شاید اسی لیے وہ بڑے اطمینان سے جا رہا تھا۔ اس رات اس نے پڑاؤ کیا اور صبح دمشق کو روانہ ہوا تھا۔’’سالارِ معظم!‘‘ اسے اپنے کسی ساتھی نے کہا۔’’ وہ دیکھیں گرد اڑ رہی ہے، یہ کوئی سوار دستہ لگتا ہے۔‘‘’’اپنا ہی ہوگا۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ان کی گرد کو نہ دیکھو جو میدانِ جنگ کی گرد سے بھاگ آئے ہیں۔ یہ شکست کھا کر آئے ہیں۔‘‘ان کے درمیان پھر خاموشی چھا گئی۔ ماہان کی ذہنی کیفیت بہت بری تھی۔ وہ کسی کے ساتھ بولتا نہیں تھا۔ اس کی افسردگی کا باعث صرف یہ نہیں تھا کہ اس نے شکست کھائی تھی بلکہ یہ کہ اس نے بڑی تھوڑی تعداد کی فوج سے شکست کھائی تھی۔ اس نے مسلمانوں کو کچل کر واپس آنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مگر اب وہ انطاکیہ جانے کے بجائے دمشق کی طرف جا رہا تھا۔ انطاکیہ میں شہنشاہِ روم تھا۔ ماہان اس کاسامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔جن سواروں کی گرد نظر آئی تھی۔اب ان کے گھوڑوں کے قدموں کی ہنگامہ خیز آواز سنائی دینے لگی تھی۔ جو بڑی تیزی سے قریب آرہی تھی۔ ماہان پیچھے نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ انہیں میدان سے بھاگے ہوئے سوار سمجھ رہا تھا۔ سوار قریب آئے تو دو حصوں میں بٹ گئے اور ا س کے گرد گھیرا ڈالنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ایک للکار سنائی دی: انا فارس الضدید انا خالد بن الولید تب ماہان چونکا۔ اس کے ساتھ اپنے دو ہزار سوار محافظ ہی نہیں تھے بلکہ آرمینیا کی باقاعدہ فوج کی بھی کچھ تعداد تھی اور کچھ عیسائی عرب بھی تھے۔ اس نے ان سب کو لڑنے کی ترتیب میں کردیا اور خود اپنے چند ایک محافظ ساتھ لے کر الگ ہٹ گیا۔خالدؓ کو بتایا گیا تھا کہ ماہان کے ساتھ اپنے محافظوں کا سوار دستہ ہے لیکن اس کے ساتھ اس سے دگنی سے بھی کچھ زیادہ تعداد تھی۔ خالدؓ نے گھیرے کی شکل میں حملہ کیا۔ ماہان کی فوج نے جم کر مقابلہ کیا لیکن مسلمان تھکے ہوئے ہونے کے باوجود تازہ دم لگتے تھے ۔ یہ فتح کی خوشی کا اثر تھا۔

تاریخ میں اس مجاہد کا نام نہیں ملتاجو لڑائی میں بچتا بچاتا ماہان تک جا پہنچا۔ وہ ماہان کے سواروں کا حصار توڑ گیا اور اس نے ماہان کو ہلاک کر دیا۔ مجاہد خود بھی زخمی ہوا لیکن ماہان کو ہلاک کرکے اس نے اپنے ساتھیوں کا کام آسان کر دیا۔ اپنے شہنشاہ اور سالارِ اعلیٰ کو مرتا دیکھ کر اس کے سوار معرکے سے نکلنے لگے۔کچھ دیر بعد دشمن کے سوار اور پیادے جدھر کو رخ ہوا ادھر کو بھاگ نکلے لیکن بہت سی لاشیں اور اچھے بھلے گھوڑے چھوڑ گئے۔دمشق دور نہیں تھا۔ خالدؓ نے دمشق کا رُخ کر لیا۔ یہ ان کا ایک اور دلیرانہ اقدام تھا۔ دمشق پر مسلمانوں کا قبضہ رہا تھا لیکن رومیوں کے اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر مسلمانوں نے دمشق سے قبضہ اٹھا لیا تھا۔’’خدا کی قسم! ‘‘خالدؓ نے کہا ۔’’دمشق کے دروازے اب بھی ہمارے لیے کھل جائیں گے۔‘‘توقع نہیں تھی کہ ایسا ہوگا۔ ہوہی نہیں سکتا تھا کہ مسلمانوں کے چلے جانے کے بعد بھی رومیوں نے اس اہم شہر پر اپنا تسلط نہ جمایا ہو۔خالدؓ کی قیادت میں جب مسلمان سواروں کا دستہ دمشق پہنچا تو دیوار کے اوپر سے کسی نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟’’کیا تم نے نہیں پہچانا کہ یہ تمہارے حاکم تھے لیکن حکومت تمہاری تھی؟ ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ کیا تم نہ کہتے تھے کہ رومیوں سے مسلمان اچھے ہیں…… خدا کی قسم! ہم رومیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر آئے ہیں۔‘‘’’مسلمان آگئے ہیں۔‘‘ یہ ایک نعرہ تھا جو دیوار کے اوپر بلند ہوا۔ پھر یہ نعرہ سارے شہر میں پھیل گیا۔شہر کا بڑا دروازہ کھل گیا اور شہریوں کا ایک بڑا ریلا باہر نکلا۔ لوگوں نے بازو پھیلا کر مسلمانوں کا استقبال کیا اور خوشی سے ناچتے ہوئے خالدؓ اور ان کے سوار دستے کو شہر میں لے گئے، یہ اس اچھے سلوک اور برتاؤ کا اثر تھا جو مسلمانوں نے اہلِ دمشق سے کیا تھا۔ مسلمانوں نے تو کردار کی بلندی کا یہ مظاہرہ کیا تھا کہ دمشق سے رخصت ہونے سے پہلے شہریوں سے وصول کیا ہوا جزیہ واپس کر دیاتھا۔ خالدؓ دمشق میں نہیں رُک سکتے تھے۔ انہیں یرموک پہنچنا تھا اور فتح کے بعد کے امور اور انتظامات دیکھنے تھے وہ اسی وقت روانہ ہو گئے۔شام سے رومی سلطنت کا بوریا بستر گول ہو گیا۔ چند دنوں بعد شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ سے رخصت ہوا۔ اس کا ٹھکانہ اب قسطنطنیہ تھا۔ دو مؤرخوں بلاذری اور طبری نے لکھا ہے کہ شہنشاہِ ہرقل جب انطاکیہ سے روانہ ہو اتو اس نے کچھ دور جا کر رُک کر اور پیچھے مڑ کر دیکھا:’’اے ارضِِ شام!‘‘ اس نے آہ لے کر بوجھل سی آواز میں کہا۔’’ اس بد نصیب کا آخری سلام قبول کر جو تجھ سے جدا ہو رہا ہے۔ اب رومی ادھر آئے بھی تو ان پر تیرا خوف سوار ہوگا…… کتنا خوبصورت ملک دشمن کو دیئے جا رہا ہوں۔‘‘جنگِ یرموک پر ہر دور کے مبصر نے کچھ نہ کچھ لکھا ہے ۔اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ جنگ خالدؓ کی عقل سے جیتی گئی تھی اور یہ کامیابی کارگر چالوں سے حاصل کی گئی تھی۔اس جنگ میں چار ہزار مومنین شہید ہوئے تھے اور زخمی تقریباً سبھی ہوئے تھے خود خالدؓ بھی زخمی تھے۔ رومیوں کی اموات ایک لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہیں۔لیکن مؤرخوں کی اکثریت ستر ہزار پر متفق ہے۔سلطنتِ اسلامیہ شام تک پھیل گئی- 

(آج ایک بار پھر ارضِ شام آلِ مجوس کی زد میں ہے اور صحابہ کرام ؓ کی روحانی اولادیں دیوا نہ وار اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں۔وقت بدل گیا منظر وہی ہے۔کاش کہ بشار قصاب اور نصرالات لبنانی ہرقل کی روح سے مشورہ کر لیتے)۔
وہ تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔ ان کے ہتھیار دشمن کے مقابلے میں کم تر تھے۔ ان کے ذرائع یوں محدود تھے کہ اپنے وطن سے بہت دور تھے۔ کمک نہیں مل سکتی تھی۔ اس کا حصول دشوار تھا۔ دشمن مانند ٹڈی دل تھا۔اس کے ہتھیار برتر تھے۔ وہ اس کی اپنی زمین تھی۔ ملک اپنا قلعے اپنے تھے۔ کمک کی اس کے ہاں کمی نہیں تھی۔ اپنی بادشاہی میں سے ہزاروں کی تعداد میں لڑنے والے لوگوں کو میدان میں لے آتا تھا لیکن وہ جو تعدا دمیں تھوڑے تھے اور جو کئی کئی سالوں سے مسلسل لڑ رہے تھے اس دشمن کے سینے پر کھڑے تھے جو ان سے کہیں تین گنا اور کہیں چار گنا زیادہ طاقت ور تھا۔وہ کون تھے جنہوں نے اس دور کے سب سے زیادہ طاقت ور دشمن کو فیصلہ کن شکست دی تھی؟وہ صحابہ کرامؓ تھے۔وہ تابعین کرام تھے۔وہ نام کے مسلمان نہیں تھے۔وہ جنگی طاقت کو آدمیوں اور گھوڑوں کی تعداد سے نہیں جذبے اور ایمان سے ناپتے تھے۔یہ ایمان کی قوت کا کرشمہ تھا کہ شام میں قیصرِ روم کا پرچم اتر گیا تھا۔ جن قلعوں پر یہ پرچم لہرایا کرتا تھا ان قلعوں میں سے اب اذانیں گونج رہی تھیں۔یرموک کے میدانِ جنگ میں چار ہزار مجاہدین نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر رومیوں کو شام سے بے دخل کر دیا تھا۔ شہنشاہِ ہرقل جو ایک جابر جنگجو تھا اور اپنی فوج کو ایک ناقابلِ تسخیر فوج سمجھتا تھا اس حالت میں شام کی سرحد سے نکلا تھا کہ اس نے جوابی حملے کی سوچنے کے بجائے ذہنی طور پر شکست تسلیم کرلی تھی۔اس کی فوج کے بھاگنے کا اندازکسی منظم اور طاقتور فوج جیسا نہیں تھا۔ اس فوج کی آدھی نفری ماری گئی ، زخمیوں کا کچھ حساب نہ تھا، اور اب جو بھاگنے کے قابل تھے وہ افراد میں بکھر کر بھاگے۔ ان میں سے زیادہ تر نے بیت المقدس جا پناہ لی۔ اس وقت بیت المقدس ایلیا کہلاتا تھا۔یہ آخری قلعہ تھا جو رومیوں کے ہاتھ میں رہ گیاتھا۔ دو چار اور قلعے بھی تھے جو ابھی رومیوں کے پاس تھے لیکن یہ بیت المقدس جیسے بڑے نہیں تھے۔ ان کے اندر مسلمانوں کی دہشت پہنچ چکی تھی۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ شہریوں نے دیکھاکہ رومیوں کا سورج غروب ہو رہا ہے تو انہوں نے قیصرِ روم کی فوج کو اپنے تعاون سے محروم کردیا۔ مسلمانوں کے متعلق ان تک رائے یہ پہنچی تھی کہ مسلمان میدانِ جنگ میں سراپا قہر اور مانندِ فولاد ہیں اور حکمران کی حیثیت میں وہ ریشم جیسے نرم ہیں۔ان قلعوں کو سر کر لیا گیا۔ کہیں ذرا سی مزاحمت ہوئی جو مسلمانوں کو روک نہ سکی اورباقی قلعوں کے دروازے بغیر مزاحمت کے کھل گئے۔ شہر یوں نے مسلمانوں کا استقبال کیا اور جزیہ اداکردیا۔ البتہ بیت المقدس ذرا بڑا شہر تھا ۔اسے سر کرنا دشوار نظر آرہا تھا۔بیت المقدس میں رومی سالار اطربون تھا، جس کے متعلق مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فنِ حرب و ضرب میں ہرقل کا ہم پلہ تھا۔ بعض مؤرخو ں نے اسے ہرقل کا ہم مرتبہ بھی کہا ہے۔ مسلمانوں کے جاسوس بیت المقدس تک پہنچے ہوئے تھے ان کی لائی ہوئی اطلاعوں کے مطابق اطربون جابر اور بے خوف سالار تھا۔ وہ مرتے دم تک لڑنے والا جنگجو تھا۔ بیت المقدس کے دفاع میں اسے آخری دم تک لڑنا ہی تھا کیونکہ اس خطے میں رومیوں کا یہ آخری مضبوط قلعہ تھا۔ایک مقام اور بھی تھا جو خاصا اہم تھا۔ یہ تھا قیساریہ۔ اس کا قلعہ بھی مضبوط تھا۔ اس وقت تک مسلمان جابیہ کے مقام پر خیمہ زن تھے، یرموک کی جنگ کے بعد وہ جابیہ چلے گئے تھے ، زخمیوں کی تعداد غیر معمولی تھی اور جو زخمی نہیں تھے وہ لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ وہ تو پہلے ہی تھکن سے چور تھے ۔ جنگِ یرموک نے ان کے جسموں کا دم خم توڑ دیا تھا۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی اور زخمیوں کی مرہم پٹی اس سے زیادہ ضروری تھی۔ اپنے زخم ٹھیک ہونے کا انتظار کرنا تھا۔انتظار خطرناک ہو سکتاتھا۔خطرہ یہ تھا کہ رومی ایک جنگجو قوم تھی۔

شکست تو انہیں فیصلہ کن ہوئی تھی لیکن وہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے شکست کو تسلیم نہیں کرسکتے تھے۔ زیادہ پریشانی تو بیت المقدس کے متعلق تھی جہاں اطربون جیسا جری اور قابل سالار موجود تھا۔ لیکن رومیوں کے کچھ دستے بکھرے ہوئے تھے۔ جاسوس اطلاعیں دے رہے تھے کہ بعض جگہوں پر رومیوں کے سالار موجود تھے۔ابو عبیدہؓ اور دیگر مسلمان سالار یہ خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ رومی جوابی حملہ کریں گے۔ ’’میرے رفیقو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’رومی حملہ ضرور کریں گے لیکن ان میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ فوری حملہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ وہ اس طرح دور دور بکھر گئے ہیں کہ انہیں اکٹھا ہونے کیلئے بھی وقت چاہیے۔‘‘حقیقت بھی یہی تھی کہ جس طرح مسلمانوں میں ایک ہلکا سا معرکہ لڑنے کی بھی سکت نہیں رہی تھی اس طرح رومیوں میں بھی لڑنے کا دم نہیں رہا تھا جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ میں سے سترہزار رومی مارے گئے تھے اور جو باقی بچے تھے ان میں زیادہ زخمی تھے۔ جاسوسوں کی اطلاعیں یہ تھیں کہ رومی کہیں بھی جوابی حملے کیلئے منظم نہیں ہو رہے لیکن وہ جہاں جہاں بھی ہیں وہاں دفاعی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں۔اکتوبر ۶۳۶ء (شعبان ۱۵ ھ) کے ایک دن سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔ ’’میرے رفیقو!‘‘سالارِ اعلیٰ نے کہا۔’’ زیادہ تر مجاہدین لڑنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ لشکر نے بھی آرام کر لیا ہے۔ اب ہم اس قابل ہیں کہ آگے پیش قدمی کریں۔ دو جگہیں ہیں جن پر قبضہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک تو قیساریہ ہے اور دوسری جگہ ہے بیت المقدس، کیا تم بتا سکتے ہو کہ ان دونوں جگہوں میں سے پہلے کس پر حملہ کریں؟‘‘اس مسئلے پر جب بحث شروع ہوئی تو سالاروں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ بعض کا خیال تھا کہ یہ دونوں جگہیں دفاعی لحاظ سے مضبوط ہیں ، اس لیے ان پر یکے بعد دیگرے حملہ کیا جائے۔ کچھ یہ کہتے تھے کہ دونوں مقامات کو بیک وقت محاصرے میں لیا جائے۔ ابو عبیدہؓ ان کے درمیان فیصلہ نہ کر سکے۔’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم یہ بات امیر المومنین سے پوچھیں کہ ہمیں قیساریہ یا بیت المقدس میں سے کس جگہ کو پہلے محاصرے میں لینا چاہیے؟‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔’’ میں تم سب کے جذبے اور ایثارکی قدر کرتا ہوں۔ اس کا اجر تمہیں اﷲ دے گا۔ میں کسی کی حوصلہ شکنی اپنی زبان سے نہیں کروں گا۔ الحمدﷲ دشمن اس خطے سے بھاگ رہا ہے لیکن ہمیں اپنی فتح کومکمل کرنا ہے۔ میں یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ قاصد کو مدینہ بھیج کر امیرالمومنین کا حکم لیں۔‘‘تمام سالاروں نے ابو عبیدہؓ کی تائید کی اور اسی وقت ایک تیز رفتار قاصد کو مدینہ اس پیغام کے ساتھ روانہ کر دیاگیا۔
’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم،امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب کی خدمت میں سالارِ اعلیٰ برائے شام ابو عبیدہ بن الجراح کی طرف سے، سب تعریفیں اﷲ کیلئے ہیں اور اطاعت اﷲکے رسول محمد ﷺ  کی ہے۔ اﷲ نے ہمیں جس فتح سے نوازا ہے وہ ہماری آئندہ نسلوں پر اس کی ذات کا بہت بڑا احسان ہے ۔تمام فتوحات کی اطلاعیں مع مالِ غنیمت مدینہ بھیجی جاتی رہی ہیں اب ہم جابیہ کے مقام پر آرام کی غرض سے رکے ہوئے ہیں۔ الحمد ﷲ زخمی بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ اب ضرورت یہ ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور رومیوں کو شام کی سرزمین سے ہمیشہ کیلئے بے دخل کر دیں۔ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ ہم قیساریہ اور بیت المقدس میں سے کون سی جگہ کا انتخاب کریں۔ کیا امیر المومنین ہماری رہنمائی کریں گے؟‘‘۔
وہاں سے مدینہ کا سفر کم و بیش ایک ماہ کا تھا ۔قاصد کے جانے اور آنے میں کم سے کم بیس روز درکار تھے۔ ان دنوں میں زخمی مجاہدین مذید بہتر ہو گئے اور جو زخمی نہیں تھے انہیں آرام اور تیاری کیلئے مزید وقت مل گیا۔

بیت المقدس کے اندر کے ماحول پر جہاں شکست کی افسردگی شرمساری اور دہشت طاری تھی وہاں جوش و خروش بھی پایا جاتا تھا۔ یہ جوش و خروش رومی سالار اطربون کا پیدا کردہ تھا۔ وہ ابھی مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں آیا تھا۔ اس نے سنا تو تھا اور بڑی اچھی طرح سنا تھا کہ رومی فوج کسی بھی میدان میں مسلمانوں کے مقابلے میں جم نہیں سکی لیکن اطربون نے اپنے آپ پر یہ وہم طاری کر لیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بیت المقدس میں شکست دے دے گا۔ اس نے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پلان بنانے شروع کردیئے اور اس سلسلے میں ایک روز قیساریہ چلا گیا۔ قیساریہ میں اس نے وہاں کے سالار اور فوج کو خوفزدگی کے عالم میں دیکھا۔ ’’معلوم ہوتا ہے تم نے لڑنے سے پہلے شکست تسلیم کرلی ہے۔‘‘ اطربوں نے قیساریہ کے سالار سے کہا ۔’’اور میں تمہیں مسلمانوں کو شکست دینے کیلئے تیار کرنے آیا ہوں۔‘‘’’اگر ہرقل بھاگ گیا ہے تو مقابلے میں ہم بھی نہیں ٹھہر سکتے۔‘‘ قیساریہ کے سالار نے کہا۔’’ فوج جو میرے پاس ہے، ا س پر ان سپاہیوں کا اثر ہو گیا ہے جو یرموک سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں۔ وہ ابھی تک آرہے ہیں نہ جانے کہاں کہاں بھٹک کر آرہے ہیں۔ ان کے چہروں پر آنکھوں میں اور باتوں میں خوف نمایاں ہوتا ہے۔’’بزدل!‘‘ اطربوں نے نفرت سے کہا۔ ’’لڑائیوں سے بھاگے ہوئے سپاہی اور سالار بھی ایسی ہی باتیں کیاکرتے ہیں ۔وہ اپنے دشمن کی فوج کو جنات اور بدروحوں کی فوج ثابت کرتے ہیں۔ جن کا وہ مقابلہ کرہی نہیں سکتے تھے۔ کیا تم مجھے یہ مشورہ دینا چاہتے ہو کہ ہرقل کی طرح ہم بھی مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیں؟ تمہاری عقل پر ایساپردہ پڑ گیا ہے کہ تم یہ سوچنے کے بھی قابل نہیں رہے کہ ہرقل کی غیر حاضری میں میرا حکم چلتا ہے اور تم میرے حکم کے پابند ہو۔ ہم لڑیں گے۔‘‘ ’’میں نے آپ کو فوج کی ذہنی حالت بتائی ہے۔‘‘ قیساریہ کے سالار نے کہا۔’’ یہ نہیں کہا کہ ہم بھاگ جائیں گے۔ آپ حکم دیں ،فوج منہ موڑ جائے گی۔ تو بھی آپ مجھے میدانِ جنگ میں ہی دیکھیں گے۔‘‘ ’’فوج کو لڑانا تمہارا کام ہے۔‘‘ اطربوں نے کہا۔’’ تم نے باقی جو کچھ کہایہ بڑھ ہانکی ہے ۔فارسیوں نے بھی ان عربی مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی قزاق کہا تھا ہرقل اور اس کے سالار بھی یہی کہتے مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ کہ کسی ایک بھی مسلمان کو زندہ واپس نہیں جانے دیں گے۔ حکم یہ ہے اور یہ موجودہ صورتِ حال کا تقاضہ ہے کہ اپنی فوج کو لڑنے کیلئے تیار کرو۔ مسلمان ایلیا ( بیت المقدس) پر حملہ کریں گے۔ تمہارا کام یہ ہوگا کہ وہ جب ایلیا کو محاصرے میں لے لیں تو تم آکر انہیں محاصرے میں لے لو۔ تمہارے پاس فوج کی کمی نہیں۔ اگر تم دشمن کو مکمل محاصرے میں نہ لے سکو تو عقب سے اس کی فوج پر حملہ کرتے رہو ۔میں اپنے دستے شہر کے باہر بھیج کر اتنا سخت ہلہ بولوں گا کہ دشمن قدم جمانے کے قابل نہیں رہے گا۔ عقب میں تم ہو گے پھر سوچ یہ بد بخت کدھر سے نکل کر جائیں گے؟‘‘اس نے رازدار ی کے لہجے میں کہا۔’’ مسلمان تھک کر چور ہو چکے ہیں۔ ان کی نفری کم و بیش چھ ہزار کم ہو گئی ہے۔ اب انہیں شکست دینا مشکل نہیں رہا۔‘‘ ’’اور اگر وہ ایلیا کے بجائے قیساریہ میں آگئے تو کیا ……‘‘’’پھر میں تمہاری مدد کو آؤں گا۔‘‘اطربون نے کہا۔’’ اور میں تمہاری مدد اسی طرح کروں گا جس طرح میں نے تہیں کہا ہے کہ میری مد دکو آنا۔‘‘ ان کے درمیان طے ہوگیاکہ دونوں میں سے کسی پر حملہ ہوا تو دوسرا اس کی مدد کو آئے گا۔ اطربون یقین سے کہتا تھا کہ مسلمان بیت المقدس آئیں گے۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی