🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 50*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *50* ۔۔۔۔

دو تین جگہوں پر اسی طرح کی جھڑپیں ہوئیں اور رات گزرتی رہی۔ اس وقت رومی سالارِ اعلیٰ ماہان نے سالاروں کو اپنے سامنے بٹھا رکھا تھا۔’’اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھو۔ ‘‘وہ کہہ رہا تھا۔’’ ہم اپنے حملے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘’’میرا خیال ہے کہ ہمارے سپاہیوں نے اپنے اوپر مسلمانوں کا خوف طاری کر رکھا ہے۔‘‘ ایک سالار نے کہا۔ ’’نہیں!‘‘ ماہان نے کہا۔’’ ہماری صفوں میں اتحاد نہیں۔ مسلمان ایک ہیں۔ وہ بھی مختلف قبیلوں کے ہیں لیکن وہ سب اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کے رشتے کا پابند کر لیا ہے۔ اس عقیدے نے انہیں ایک جان کر دیا ہے۔ ہم میں یہ اتحاد نہیں ، کئی ایک علاقوں اور کئی ایک قبیلوں کے لوگ ہمارے ساتھ آملے ہیں لیکن ہمارے درمیان کوئی ایسا رشتہ نہیں جو ہم سب کو متحد کر سکے۔‘‘ ’’ایک رات میں اتحاد پیدا نہیں کیا جاسکتا سالارِ اعلی!‘‘ٰ ایک پرانے سالار نے کہا ۔’’ہمارے درمیان اتحاد نہ ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔ ہمیں انہی حالات میں لڑناہے۔‘‘ ’’ہاں!‘‘ ماہان نے کہا۔’’ ہمیں انہی حالات میں لڑنا ہے۔ میں مایوس نہیں۔ ہمیں کوئی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ کل صبح ہم اس وقت مسلمانوں پر حملہ کریں گے۔ جب وہ حملہ روکنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے اور یہ ان کی عبادت کا وقت ہوگا۔‘‘ تقریباً ان تمام مؤرخوں نے جنہوں نے جنگِ یرموک کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ماہان کا اگلی صبح کے حملے کا پلان اس طرح لکھا ہے کہ مسلمانوں کے قلب پرحملہ کیا جائے گا۔ جو دھوکا ہو گا۔ اس کا مقصد یہ ہو گا کہ قلب یعنی مسلمانوں کے درمیانی دستوں کو جن میں مرکزی کمان بھی تھی لڑائی میں الجھا کر یہیں روک کر رکھا جائے گا۔ اس سے فائدہ یہ اٹھایا جائے گا کہ مسلمانوں کا مرکز اپنے دائیں بائیں کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ ماہان کے پلان کے مطابق اصل حملہ مسلمانوں کے پہلوؤں پر کرنا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ پہلوؤں کے دستوں کو بکھیر کر ختم کیا جائے۔ ’’اور اگر مسلمان مقابلے میں جم جائیں تو ان پر ایسا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے قلب کی طرف اکٹھے ہو جائیں۔ اس صورت میں ان پر پہلوؤں اور عقب سے حملہ کیا جائے۔‘‘ پلان بڑا خطرناک تھا۔رومیوں کی نفری اتنی زیادہ تھی کہ اس کے بل بوتے پر اپنے پلان کو کامیاب کر سکتے تھے۔ ’’جاؤ! اور اپنے دستوں کو صبح کے حملے کیلئے تیار کرو۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ لیکن تیاری ایسی خاموشی سے ہو کہ پتا نہ چلے۔ مسلمانوں نے جاسوس ہمارے اردگرد موجود رہتے ہیں۔‘‘ رات کو ہی ماہان نے اپنا خیمہ اکھڑوایا اور ایک چٹان کی سب سے اونچی چوٹی پر لے جا کر نصب کرایا وہاں سے تمام تر محاذ کو وہ دیکھ سکتا تھا۔ اس نے تیز رفتار گھوڑوں والے قاصد اپنے ساتھ رکھ لیے اور اپنا حفاظتی دستہ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ دستے کی نفری دو ہزار تھی۔ دونوں طرف کی فوجوں کے درمیان ڈیڑھ ایک میل کا فاصلہ تھا۔ خالدؓ نے حسبِ معمول دشمن کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے اور اطلاع دینے کیلئے اپنے آدمی آگے بھیج رکھے تھے لیکن دشمن کے محاذ کی صورت ایسی تھی کہ قریب جا کر کچھ دیکھنا ممکن نہ تھا۔ اپنے آدمی بلندیوں سے دیکھتے رہتے تھے۔

 مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ایک آدمی دوڑتا آیا اور خالدؓ کو بتایا کہ رومی تیار ہو کر ترتیب میں آرہے ہیں۔’’ترتیب کیسی ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔ ’ترتیب حملے کی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ جاسوس نے جواب دیا۔’’پہلے دف بجے تھے پھر ان کے دستے بڑی تیزی سے ترتیب میں آگئے۔ سوار گھوڑوں پر سوار ہو چکے ہیں۔‘‘ ’’ہو نہیں سکتا کہ رومی کہیں اور جا رہے ہوں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ وہ حملے کیلئے آرہے ہیں۔‘‘ خالدؓ کچھ پریشان بھی ہوئے لیکن وہ حوصلہ ہارنے والے نہیں تھے، تیاری کا وقت نہیں تھا۔ اگر رومی تیار تھے تو انہوں نے مسلمانوں کو اس حالت میں آ دبوچنا تھا، جب وہ تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے بڑی تیزی سے تمام سالاروں کو اطلاع بھجوادی کہ دشمن کا حملہ آرہا ہے۔ مسلمان جب تیار ہو رہے تھے۔ اس وقت رومی لشکر اپنے محاذ سے چل پڑا تھا۔ اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ رومی سالاروں کو توقع تھی کہ وہ مسلمانوں کو بے خبری میں جا لیں گے لیکن وہ جب قریب آئے تو مسلمان تیار تھے وہ خلافِ توقع اتنی جلدی تیار ہو گئے تھے۔ خالدؓ نے انہیں لمبا چوڑا حکم نہیں بھیجاتھا نہ کوئی ہدایت جاری کی تھی۔ صرف اتنا پیغام دیا تھا کہ دشمن کا حملہ آرہا ہے۔ اپنے اپنے محاذ پر تیار رہو۔ صبح کا اجالا سفید ہو رہا تھا۔ رومی سیلاب کی طرح بڑھے آرہے تھے۔ ان کا رخ مسلمانوں کے قلب کی طرف تھا۔ ان کے بہت سے دستے دائیں اور بائیں پہلوؤں کی طرف بھی آرہے تھے لیکن معلوم یہی ہوتا تھا کہ وہ حملہ قلب پر کریں گے۔ خالدؓ نے اپنے قلب کے دستوں کو آگے بڑھ کر دشمن کا استقبال کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے دفاع کا طریقہ وہی اختیار کیا کہ برچھی بازوں اور تیراندازوں کو آگے رکھا گیا۔ رومی جو اس امید پر بہت تیزی سے آرہے تھے کہ مسلمان بے خبر ہوں گے اور یہ بڑی آسان فتح ہو گی۔ مسلمانوں کو ہرلحاظ سے تیار دیکھ کر ذرا سست ہو گئے اور ان کے قدم رکنے لگے۔ انہوں نے گزشتہ روز حملہ کرکے دیکھ لیا تھا۔ مسلمان تیر اندازوں نے اتنی تیزی سے تیر چلانے شروع کر دیئے کہ فضاء میں ایک جال تن گیا۔ رومی رک کر پیچھے ہٹے اور تیروں کی زد سے دور نکل گئے۔ کچھ دیر بعد وہ ڈھالیں آگے کر کے بڑھنے لگے۔ تیر اندازوں نے ایک بار پھر تیروں کا مینہ برسا دیا، لیکن اب کے رومی بڑھتے آئے، تیر کھاکھا کر گرتے بھی رہے اور وہ نیزہ بازوں تک آپہنچے۔ رومیوں کے پاس مروانے کیلئے بہت نفری تھی۔ نیزہ بازوں نے رومیوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن رومیوں کی یلغار اتنی شدید تھی کہ رک نہ سکی۔ تب قلب کے دستے آگے بڑھے اور مجاہدین نے جان کی بازی لگا دی، خالدؓ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ رومی پیچھے ہٹنے لگے ہیں، مجاہدین ان کے پیچھے گئے لیکن خالدؓ نے انہیں روک دیا۔کچھ دیر بعد رومی پھر آگے بڑھے اور مجاہدین نے پہلے کی طرح حملہ روکا۔ خاصی خونریزی ہوئی اور رومی پیچھے ہٹ گئے اور اس کے بعد یہی سلسلہ چلتا رہا۔ مسلمان سالاروں کو معلوم نہیں تھا کہ ماہان کا پلان ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کے قلب اور محفوظہ کو الجھائے رکھو، تاکہ اپنے پہلوؤں سے بے خبر رہیں اور انہیں کمک نہ دے سکیں۔ خالدؓ اس دھوکے کو سمجھ تو نہ سکے لیکن انہوں نے ہر حملہ اس طرح روکا کہ مرکزیت اور جمیعت کو درہم برہم نہ ہونے دیا، رومیوں نے پیچھے ہٹ کر مسلمان سالاروں کو موقع دیا کہ وہ جوابی حملہ کریں لیکن خالدؓ نے اپنے دستوں کو دفاع میں ہی رکھا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کی نفری اور نفری کی جسمانی طاقت زائل ہوتی رہے۔ خالدؓنے اپنے پہلوؤں کی طرف توجہ نہ دی۔ انہوں نے سالاروں کو بتا رکھا تھا کہ کمک کی امید نہ رکھیں۔ سالاروں کو بھی اپنی بے مائگی کا احساس تھا اور یہ احساس اسلامی لشکرکے ہر ایک فرد کو تھا کہ صورتِ حال کتنی ہی دگرگوں ہو جائے مدد صرف اﷲ کی طرف سے ملے گی۔

رومیوں کے اصل حملے تو مسلمانوں کے پہلوؤں پر ہو رہے تھے۔ جو ماہان کے پلان کے عین مطابق تھے۔ دائیں پہلو پر یوں ہوا کہ رومیوں نے وہاں بڑا تیز حملہ کیا۔ اس پہلو کی کمان عمروؓ بن العاص کے پاس تھی، مجاہدین نے یہ حملہ نہ صرف روک لیا بلکہ دشمن کو پسپا کر دیا۔ دشمن نے یہ حملہ کرنے والے دستوں کو پیچھے کرکے دوسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا۔ یہ پہلے حملے سے زیادہ شدید تھا۔ مسلمانوں نے اس کا بھی مقابلہ کیا لیکن ان کے جسم شل ہو گئے۔ انہوں نے رومیوں کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا جتنا رومیوں نے انہیں پہنچایا تھا اور انہوں نے اس حملے کا دم خم توڑ دیا۔ رومی بری طرح ناکام ہو کر پیچھے ہٹ گئے لیکن مسلمانوں کی جسمانی حالت ایسی ابتر ہو گئی کہ وہ مذید لڑنے کے قابل نہ رہے۔ رومیوں نے تیسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا، اب کہ حملہ آوروں کی نفری بھی زیادہ تھی، مسلمانو ں نے جذبے کے زور پر حملہ روکنے کی کوشش کی تھی مگر جسم ہی ساتھ نہ دیں تو جذبہ ایک حد تک ہی کام آسکتا ہے۔ وہ حد ختم ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان کی ترتیب اور تنظیم ٹوٹ گئی۔ بیشتر اس طرح پسپا ہوئے کہ خیمہ گاہ تک جا پہنچے اور جنہوں نے پسپائی کو قبول نہ کیا وہ درمیانی دستوں یعنی قلب کی طرف جانے لگے۔ سالار عمروؓ بن العاص بھاگنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ان کے پاس محفوظہ میں دو ہزار سوار تھے جو وہاں موجودرہے۔ عمروؓ بن العاص نے ان دو ہزار سواروں سے رومیوں پر حملہ کر دیا۔اس کی قیادت عمروؓ بن العاص نے خود کی، سواروں نے حملہ بہت تیز اور سخت کیا، اور رومیوں کو کچھ پیچھے ہٹا دیا۔ لیکن رومیوں نے تازہ دم دستے آگے لا کر ان دو ہزار مسلمان سواروں کا حملہ ناکام کر دیا اور اتنا دباؤ ڈالا کہ مسلمان سوار منہ موڑ گئے۔ وہ تو جیسے بڑے ہی تیز و تند سیلاب کے بھنور میں پھنس گئے تھے یہ بھی ان کی بہادری تھی کہ وہ لڑائی میں سے زندہ نکل آئے اور خیمہ گاہ کی طرف چلے گئے۔ ’’دشمن کو پیٹھ دکھانے والوں پر اﷲ کی لعنت! ‘‘یہ مسلمان عورتوں کی آوازیں تھیں۔’’ جو خیموں کے ڈنڈے ہاتھوں میں لیے کھڑی تھیں۔‘‘ عورتوں نے بھاگ آنے والے مسلمانوں پر لعن طعن اور طنز کے تیر برسائے ، اور (مؤرخوں کے مطابق) بعض کو عورتوں نے ڈنڈے بھی مارے۔ ’’خد اکی قسم!مسلمان خاوند اتنے بے غیرت نہیں ہو سکتے۔‘‘ یہ بیویوں کی آوازیں تھیں، وہ اپنے خاوندوں سے چلّا چلّا کر کہہ رہی تھیں۔’’ کیا تم ہمارے خاوند ہو؟ جو ہمیں غیر مسلموں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے؟‘‘ اس دور کے عربی رواج کے مطابق چند ایک مسلمان عورتوں نے دف اٹھا کر اس کی تال پر گیت گانا شروع کر دیا۔ یہ کوئی باقاعدہ ترانا نہیں تھا۔ عورتوں نے خود گیت گڑھ لیا اور گانے لگیں:’’ہائے تمہاری غیرت کہاں گئی؟‘‘’’اپنی ان بیویوں کو جو خوبصورت ہیں، نیک بھی ہیں،حقیر اور قابلِ نفرت کفار کے پاس، چھوڑ کر بھاگ رہے ہو اس لئے کہ، کفار ان کو اپنی ملکیت میں لے لیں،ان کی عصمتوں کی بے حرمتی کریں،اور ان کو ذلیل و خوار کر دیں۔‘‘

مسلمان پسپائی میں حق بجانب تھے۔ اتنی زیادہ نفری کے حملے کو روکنا ان کیلئے زیادہ دیر تک ممکن نہیں تھا۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے اس لئے عورتوں سے کہا تھا کہ وہ بھاگ آنے والوں کو ڈنڈے اور پتھر ماریں کہ وہ تاریخ ِ اسلام کو پسپائی سے پاک رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا مقصد پورا ہو گیا۔ بھاگ آنے والوں کو عورتوں نے نیا حوصلہ دیا۔ ان کا خون کھول اٹھا اور وہ واپس چلے گئے۔ عمروؓ بن العاص نے انہیں جلدی جلدی منظم کیا اور رومیوں پر جوابی حملے کی تیاری کرنے لگے۔بائیں پہلو کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔ ان کے والد ابی سفیانؓ ان کے ماتحت لڑ رہے تھے۔ اس پہلو پر بھی رومیوں نے حملہ کیا تھا جو مسلمانوں نے روک کر پسپاکر دیا تھا۔ دوسرا حملہ جس رومی دستے نے کیا وہ زنجیروں میں بندھا ہوا تھا۔دس دس سپاہی ایک ایک زنجیر کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ زنجیریں اتنی لمبی تھیں کہ سپاہی آسانی سے لڑ سکتے تھے۔ کیونکہ اس دستے کے سپاہی زنجیروں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے اس لئے ان کے حملے کی رفتار تیز نہیں تھی۔ مجاہدین نے پہلا حملہ بڑی جانفشانی سے روکا تھا اور رومیوں کو پسپا کرنے کیلئے انہیں چند گھنٹے لڑناپڑا تھا۔اس کے فوراً بعد تازہ دم دستوں کا حملہ روکنا ان کیلئے محال ہو گیا۔ حملہ آوروں کی نفری تین گنا سے بھی کچھ زیادہ تھی چنانچہ مسلمانوں کے جسموں نے ان کے جذبوں کا ساتھ نہ دیا اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ پسپا ہونے لگے۔ان کی عورتوں کے خیمے ان کے پیچھے محفوظ فاصلے پر تھے۔ پسپا ہونے والوں میں ان کے سالار کے والد ابی سفیانؓ بھی تھے۔ وہ کوئی معمولی شخص نہیں تھے قبیلے کے سرداروں میں سے تھے۔ قبولِ اسلام سے پہلے انہوں نے مسلمانوں سے کئی لڑائیاں لڑی تھیں اور مسلمانوں کی تباہی اور بربادی میں پیش پیش رہتے تھے۔ قبولِ اسلام کے بعد بھی وہ اپنے بدلے ہوئے کردار میں اہم حیثیت کے مالک رہے لیکن رومیوں کے سیلاب کے آگے ٹھہر نہ سکے، اور عورتوں کے کیمپ کی طرف پسپا ہوئے۔ وہاں بھی عورتوں نے پسپا ہو کر آنے والوں کا استقبال ڈنڈوں سے کیا۔ ان میں ابی سفیانؓ کی بیوی ہند بھی تھیں۔ وہ ان کی طرف دوڑی آئیں اور ڈنڈہ آگے کر کے انہیں روک لیا۔ ’’اے ابنِ حرب!‘‘ ہند نے ابی سفیانؓ سے کہا۔’’ تو کدھر بھاگا آرہاہے؟‘‘ انہوں نے ابی سفیانؓ کے گھوڑے کے سر پر ڈنڈہ مارا اور کہا۔’’ یہیں سے لوٹ جا اور ایسی بہادری سے لڑ کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تو نے رسول اﷲﷺ کے خلاف جو کارروائیاں کی تھیں اﷲ وہ بخش دے۔ ‘‘ابی سفیانؓ اپنی بیوی کو جانتے تھے۔ وہ بڑی زبردست خاتون تھیں۔ ابی سفیانؓنے انہیں اتنا کہنے کی بھی جرات نہ کی کہ وہ بھاگ آنے پر مجبور تھے وہ جانتے تھے کہ ہند کے سامنے بولے اور کچھ دیر رکے رہے تو ہند ڈنڈوں سے مار مار کر انہیں بے ہوش کردیں گی۔دوسری عورتوں نے یہاں بھی وہی منظر بنا دیا جو دائیں پہلو کے مجاہدین کی عورتوں نے بنا دیا تھا۔بیویوں نے اپنے خاوندوں کو شرمسار کیا اور انہیں ایسا جوش دلایا کہ وہ سب واپس چلے گئے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ میدانِ جنگ تک چلی گئیں۔ ان میں ایک عورت کچھ زیادہ ہی آگے چلی گئی۔ ایک رومی سپاہی اس کے سامنے آگیا وہ اسے ایک عورت ہی سجھ رہا تھا ۔ لیکن اس عورت نے تلوار نکال لی اور اس رومی کو مار ڈالا۔

سالار یزیدؓ بن ابی سفیان ایک جگہ پریشانی کے عالم میں اپنے بکھرے ہوئے مجاہدین کو ڈھونڈتے نظر آئے انہوں نے دیکھاکہ پسپا ہونے والے واپس آگئے ہیں تو ان کے چہرے پر رونق واپس آگئی۔ رومی پیچھے ہٹ گئے تھے ۔یزیدؓ نے اپنے دستوں کو بڑی تیزی سے منظم کیا اور جوابی حملے کا حکم دے دیا۔ ہند نے بہت ہی بلند آواز میں وہی گیت گانا شروع کر دیا جو انہوں نے احد کی جنگ میں اپنے قبیلے کو گرمانے کیلئے گایا تھا۔ اس وقت ہند مسلمان نہیں تھیں۔ ا س گیت کا لب لباب یہ تھا کہ ہم تمہارے لیے راحت اور لطف کا ذریعہ بنتی ہیں۔اگر تم نے دشمن کو شکست دی تو ہم تمہیں گلے لگالیں گی اور اگر تم پیچھے ہٹ آئے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گی۔ جنگِ یرموک میں بھی ہند نے وہی گیت گایا۔ خالدؓ کی نظر پورے محاذ پر تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ دائیں اور بائیں پہلوؤں پر کیا ہو رہا ہے۔ انہیں احساس تھا کہ پہلوؤں کو مدد کی ضرورت ہے لیکن خالدؓ نے مدد کو انتہائی مخدوش صورتِ حال میں استعمال کرنے کی سوچ رکھی تھی۔انہیں خبریں مل گئی تھیں کہ دایاں پہلو پسپا ہو گیااور بایاں پہلو بھی بکھر کر پیچھے ہٹ گیا ہے۔ خالدؓ نے دونوں پہلوؤں کے سالاروں کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ جوابی حملہ کریں۔ نفری کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو۔ آخر انہیں اطلاع ملی کہ دائیں پہلو کے سالار نے جوابی حملہ کر دیا ہے۔ خالدؓ نے محفوظہ کے سوار دستے کے ساتھ متحرک سوار دستے کے کچھ حصے کو اس حکم کے ساتھ ادھر بھیج دیا کہ وہ دائیں پہلو پر رومیوں پر دوسری طرف سے حملہ کریں۔اس وقت دائیں پہلو سے عمروؓ بن العاص نے جوابی حملہ کیا تھا۔ یہ تھکے ہوئے مجاہدین کاحملہ تھاجو نئے جوش اور ولولے سے کیا گیا تھا لیکن نفری بہت کم تھی۔ پھر بھی حملہ کر دیا گیا تھا۔ ’’اب زندہ نہ جائیں۔‘‘ یہ رومیوں کی للکار تھی۔’’ اب بھاگ کر نہ جائیں۔‘‘رومی نفری کی افراط پر ایسادعویٰ کر سکتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی اس قلیل سی نفری کو زندہ نہیں جانے دیں گے۔ لیکن اچانک ان کے پہلو پر بڑا تیز حملہ ہو گیا حملہ آور گھوڑ سوار تھے وہ نعرے لگاتے اور گرجتے آئے تھے۔ ’’ابنِ العاص!‘ سوار دستوں کا سالار للکار رہا تھا۔’’ ہم آگئے ہیں۔ حوصلہ قائم رکھو۔‘‘ عمروؓ بن العاص کے تھکے ہارے مجاہدین کے حوصلوں میں بھی اور جسموں میں بھی جان پڑ گئی اور اس کے ساتھ ہی رومیوں کے حوصلوں سے جان نکل گئی وہ اب دو طرفہ حملوں کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ وہ بوکھلا گئے۔ مسلمان سوارتازہ دم تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ساتھیوں کی بری حالت دیکھ کر اور زیادہ جوش میں آگئے تھے۔ یہ انتقام کا قہر تھا۔ اگر دونوں طرف نفری برابر ہوتی یا دشمن کی نفری ذرا زیادہ ہی ہوتی تو دشمن کا بے تحاشہ نقصان ہوتا اور وہ میدان چھوڑ جاتا لیکن نفری کے معاملے میں رومی سیلابی دریا تھے۔ مسلمانوں کے حملے کاان پر یہ اثر پڑا کہ وہ اپنی بہت سی لاشیں اور بے شمار زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن بھاگے نہیں ۔ بلکہ منظم طریقے سے اپنے محاذ تک واپس چلے گئے۔ اِدھر مرکز یعنی قلب میں کیفیت یہ تھی کہ خالدؓ دشمن کی چال سمجھ چکے تھے۔ رومی ابھی تک مسلمانوں کے قلب کے سامنے موجود تھے۔ وہ ہلکاسا حملہ کرکے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ خالدؓ جان گئے کہ دشمن انہیں مصروف رکھناچاہتا ہے تاکہ وہ اپنے پہلوؤں کی طرف توجہ نہ دے سکیں۔ خالدؓ کو دائیں بائیں پہلوؤں کی اطلاعیں ملیں تو انہوں نے ماہان کا پلان بے کار کرنے کا طریقہ سوچ لیا۔ پہلے تو انہوں نے دائیں پہلو کو مدد بھیجی پھر بائیں طرف توجہ دی جہاں کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔

’’ابن الازور!‘‘ خالدؓ نے اپنے متحرک سوار دستے کے سالار ضرار بن الازور کو بلا کر کہا۔’’ کیا تو دیکھ رہا ہے کہ دشمن ہمارے بازوؤں پر غالب آگیا ہے؟ ‘‘’’دیکھ رہا ہوں ابن الولید!‘‘ ضرار نے کہا۔’’ میں تیرے حکم کا منتظر ہوں۔ کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ میرا گھوڑا کس بے چینی سے کھر مار رہا ہے۔‘‘’’بائیں پہلو پر جلد جا ابن الازور! ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ سواردستہ اپنے ساتھ لے اور یزید کی مدد کو اس طرح پہنچ کہ جن رومیوں کے ساتھ وہ الجھا ہوا ہے ان پر پہلو سے حملہ کردو۔‘‘ ’’کس حال میں ہے یزید؟‘‘ ضرار نے پوچھا۔’’حال جو مجھے بتایا گیا ہے وہ میں کیسے بیان کروں؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ابی سفیان جو کبھی ہمارے قبیلہ قریش کی آنکھ کا تارا تھا وہ بھی پسپاہو گیا۔ دوسری اطلاع ملی ہے کہ پسپا ہو کر آنے والے پھر آگے چلے گئے لیکن تو جانتا ہے کہ حوصلہ ایک ضرب کھالے تو دوسری ضرب کھانے کی تاب نہیں رہتی۔‘‘ ’’اﷲ ہم سب کو حوصلہ دے گا۔‘‘ضرار بن الازور نے کہا۔ضرار تاریخی جنگجو تھے۔ دل میں اﷲ اور رسولﷺ کا عشق ، زبان پر اﷲ اور رسولﷺ کا نام اور ان کی تلوار اﷲ کے نام پر چلتی تھی۔ وہ تو اپنی جان سے لا تعلق ہو چکے تھے۔ خالدؓ کا حکم ملتے ہی انہوں نے اپنے سوار دستے کو ساتھ لیا اور یہ دستہ اپنی ہی اڑائی ہوئی گرد میں غائب ہو گیا۔ وقت بعد دوپہر کا تھا۔ گرمی جھلسا رہی تھی ۔گھوڑے پسینے میں نہا رہے تھے۔ پیاس سے مجاہدین کے منہ کھل گئے تھے اور ان کی روحیں پانی کی نہیں دشمن کے خون کی پیاسی تھیں۔ ضرار بن الازور کے دستے نے ان رومیوں پر ایک پہلو سے حملہ کیا جنہیں یزیدؓ نے اپنے حملے میں الجھا رکھا تھا۔ یہ رومی زنجیر بند تھے۔ انہیں پہلی بار احساس ہو اکہ زنجیریں نقصان بھی دے دیا کرتی ہیں۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ دس دس آدمی ایک ہی زنجیر میں بندھے ہوئے تھے۔ انہوں نے جب حملہ کیا تھا تو ان کی رفتار زنجیروں کی وجہ سے سست تھی۔ اب ان پر ضرار نے حملہ کیا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں سے بچنے کیلئے انہیں تیزی سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا لیکن زنجیریں انہیں تیزی سے پیچھے ہٹنے نہیں دے رہی تھیں۔ ضرار کے سواروں کا ہلہ بڑا ہی تیز اور زوردار تھا ضرار بڑے ذہین سالار تھے اور ان کے ساتھی وہ اپنے ہی طریقے اور جوش سے لڑنے والے سپاہی بھی تھے۔ ان کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ دشمن کی صفوں میں گھس جایا کرتے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے ایسی ہی دلیری کا مظاہرہ کیا وہ رومیوں کے سالار کو ڈھونڈ رہے تھے۔ انہیں وہ سالار نظر آگیا۔ وہ دیرجان تھا۔ اس کے اردگرد اس کے محافظ سوار کھڑے تھے اور وہاں رومی پرچم بھی تھا۔ ضرار اگر اسے للکارتے تو پہلے انہیں اس کے محافظوں کا مقابلہ کرنا پڑتا جو اکیلے آدمی کے بس میں نہیں تھا۔ ضرار محافظوں کو نظر انداز کرکے ان کے حصارمیں چلے گئے اور تلوار کا ایسا وار کیا کہ دیرجان کی گردن تقریباً آدھی کٹ گئی۔

پیشتر اس کے کہ دیرجان کے محافظ ضرار کو گھیر لیتے ضرار وہاں سے غائب ہو گئے تھے۔ محافظوں میں ہڑبونگ مچ گئی۔ ان کا سالار گھوڑے سے لڑھک گیا۔ دو محافظوں نے اسے تھام لیا اور گھوڑے سے گرنے نہ دیا لیکن اس کی زندگی ختم ہو چکی تھی۔ اسے اب مرنا تھا۔ وہ ذبح ہونے والے بکرے کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اسے پیچھے لے جانے لگے تو وہ دم توڑ گیا۔ادھر ضرار ایک قہر کی طرح رومیوں پر برس رہے تھے۔ ادھر خالدؓ نے اسی پہلو کے اس مقام پر حملہ کردیا جہاں رومیوں کا سالار گریگری تھا۔ ضرار اور خالدؓ کے حملوں نے رومیوں کا زور توڑ دیا۔ زیادہ نقصان ان رومی سپاہیوں کا ہوا جو زنجیروں سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، وہ تیزی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے۔اس جوابی حملے کا اثر یہ ہوا کہ رومی پیچھے ہٹ گئے لیکن یہ پسپائی نہیں تھی۔ وہ محاذ یا خیمہ گاہ تک چلے گئے ۔ ان کا نقصان بہت ہوا تھا۔ لیکن ان کے پاس نفری کی کمی نہیں تھی۔ مسلمان فوج پر یہ اثر ہوا کہ ان کا حوصلہ اور جذبہ بحال ہو گیا اور ان میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اتنے بڑے لشکر کو پیچھے ہٹایا جا سکتا ہے تو اسے شکست بھی دی جا سکتی ہے۔اس روز مزید لڑائی نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ سورج غروب ہو رہا تھا۔وہ رات بیداری کی رات تھی۔ مسلمان عورتیں آگے جا کر لڑنے کیلئے بیتاب ہوئے جا رہی تھیں لیکن ان کیلئے دوسرے کام بھی تھے۔ جن میں فوج کیلئے پانی فراہم کرنا اور کھانا پکانا تھا، اور اس سے بھی زیادہ اہم کام زخمیوں کی مرہم پٹی تھا۔ عورتیں زخمیوں کے زخم صاف کرتی اور ان پر پٹیاں باندھتی تھیں۔ ان کے انداز میں جو خلوص اور جو اپنائیت تھی اس سے زخمیوں کے حوصلے اور زیادہ مضبوط ہو گئے۔ ان میں جو اگلے روز لڑنے کے قابل نہیں تھے وہ بھی لڑنے کو تیار ہو گئے۔مجاہدین رات کو اپنے ساتھیوں کی لاشیں ڈھونڈتے اور پیچھے لاتے رہے، کچھ زخمی بے ہوش پڑے تھے۔ انہیں بھی انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اٹھایا اور پیچھے لے آئے۔ادھر ماہان نے اپنے سالاروں کو اپنے سامنے بٹھا رکھا تھا۔’’میں شہنشاہِ ہرقل کو کیا جواب دوں گا؟‘‘ وہ سخت برہم تھا۔’’ تم ہی بتاؤ کہ میں شہنشاہ کو کیا بتاؤں کہ ان چند ہزار مسلمانوں کو ہم اپنے گھوڑوں کے قدموں تلے کچل کیوں نہیں سکے؟‘‘کوئی سالار اسے تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔’’ہمارا ایک سالار بھی مارا گیا ہے۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ کیا تم نے ان کے کسی سالار کو قتل کیا ہے؟‘‘اس کے تمام سالار خاموش رہے۔ ’’قورین! ‘‘اس نے اپنے ایک سالار قورین سے کہا۔’’ تم سالار دیر جان کے دستے لے لو…… اور سوچ لو کہ پسپا ہونا ہے تو زندہ میرے سامنے نہ آنا۔ آگے ہی کہیں مارے جانا۔ ‘‘اس نے تمام سالاروں سے کہا۔’’ کل کے سورج کے ساتھ مسلمانوں کا سورج بھی غروب ہو جائے……ہمیشہ کیلئے۔‘‘ماہان نے مسلمانوں کو اگلے روز ختم کردینے کا نیا پلان بنایا اور سالاروں کو سمجھایا۔ اپنے مرے ہوئے سالار دیرجان کی جگہ اس نے قورین کو اس کے دستوں کا سالار مقرر کیا۔مسلمان سالاروں نے بھی رات جاگتے گزاری۔ زخمیوں کی عیادت کی اور مجاہدین کا حوصلہ بڑھایا۔ اگلے روز کی لڑائی پہلے سے کہیں زیادہ شدید اور خونریز تھی۔مسلمانوں کے دائیں پہلو پر سالار عمروؓ بن العاص کے دستے تھے، اور ان کے ساتھ ہی سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے دستے تھے۔ رومیوں نے اس جگہ حملہ کیا جہاں ان دونوں کے دستے آپس میں ملتے تھے ۔دونوں سالاروں نے مل کر رومیوں کا یہ حملہ بے جگری سے لڑ کر پسپا کردیا۔رومیوں نے اپنا پہلے والا طریقہ اختیار کیا، انہوں نے دوسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا، اس طرح وہ بار بار تازہ دم دستے آگے لاتے رہے اور مسلمان ہر حملہ روکتے رہے۔ انہوں نے اپنی تنظیم اور ترتیب برقرار رکھی مگر جسمانی طاقت جواب دینے لگی۔ رومیوں کی کوشش یہی تھی کہ مسلمانوں کو اتنا تھکا دیا جائے کہ حملہ روکنے کے قابل نہ رہیں۔ یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

دوپہر کے وقت جب گرمی انتہا پر پہنچ گئی تو رومیوں نے زیادہ نفری سے بڑا ہی سخت حملہ کیا۔اس کے آگے پوری کوشش کے باوجود مسلمان جم نہ سکے۔ عمروؓ بن العاص کے پورے کا پورا اور شرجیلؓ بن حسنہ کا تقریباً نصف دستہ پسپا ہو گیا۔اس روز بھی ایسے ہی ہوا جیسے گشتہ روز ہوا تھا۔بھاگنے والوں کو عورتوں نے روک لیا، انہیں ڈنڈے بھی دکھائے، طعنے بھی دیئے، غیرت کو بھی جوش دلایا اور ان کا حوصلہ بھی بڑھایا۔  کسی مؤرخ نے ایک تحریر لکھی ہے کہ ایک مجاہد بھاگ کر پیچھے آیا اور عورتوں کے قریب آکر گر پڑا۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں، منہ کھل گیا تھا۔ایک عورت دوڑتی اس تک پہنچی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔’’کیا تو زخمی ہے؟‘‘ عورت نے پوچھا۔وہ بول نہیں سکتا تھا، اس نے سر ہلا کر بتایا کہ وہ زخمی نہیں۔’’پھر توبھاگ کیوں آیا ہے؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’ کیا تیرے پاس تلوار نہیں تھی؟‘‘مجاہد نے نیام سے تلوار نکالی جس پر نوک سے دستے تک خون جما ہو اتھا۔’’کیا تیرے پاس دل نہ تھا جو تو بھاگ آیا ہے؟‘‘عورت نے پوچھا۔مجاہد نے اکھڑی ہوئی سانس کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور بول نہ سکا۔’’کیا تیری بیوی یہاں ہے؟‘‘اس نے نفی میں سر ہلایا۔’’بہن ؟ ‘‘عورت نے پوچھا۔’’ ماں؟‘‘’’کوئی نہیں۔‘‘ اس نے بڑی مشکل سے کہا۔’’کیا یہ عورتیں تمہاری مائیں اور بہنیں نہیں؟‘‘عورت نے کہا۔’’ کیا تو برداشت کر لے گا کہ انہیں کفار اٹھا کر لے جائیں۔‘‘ ’’نہیں۔‘‘ مجاہد نے جاندار آواز میں کہا۔’’کیا تو اﷲ کی راہ میں اپنی جان قربان نہیں کرے گا؟‘‘’’ضرور کروں گا ۔‘‘ا س نے جواب دیا۔’’پھر یہاں کیوں آن گرا ہے؟‘‘ عورت نے کہا۔’’تھک کر چور ہو گیا ہوں۔‘‘ مجاہد نے کہا۔’’لے میرا ہاتھ پکڑ!‘‘ عورت نے کہا۔’’ میں تجھے اٹھاتی ہوں ۔نہیں اٹھنا تو تلوار مجھے دے۔ تیری جگہ تیری بہن لڑے گی۔‘‘مجاہد اٹھ کھڑا ہوا اور میدانِ جنگ کی طرف چل پڑا۔’’بھائی!‘‘ عورت نے کہا۔’’ اﷲ تجھے فاتح واپس لائے۔‘‘مسلمانوں کی پسپائی بزدلی نہیں تھی۔ وہ تو ہمت سے بڑھ کر لڑے تھے۔ ان کا اتنے بڑے لشکر سے لڑ جانا ہی ایک کارنامہ تھا۔ جہاں تک رومیوں کو شکست دینے کا تعلق تھا یہ ارادہ ناکام سی خواہش بنتا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کا بار بار پسپا ہو جانا کوئی اچھا شگون نہ تھا لیکن خالدؓ شکست کو قبول کرنے والے سالار نہیں تھے۔ باقی تمام سالار بھی عزم کے پکے تھے۔سالار اپنے ان مجاہدین کو جو پیچھے آگئے تھے اکٹھا کرکے منظم کر رہے تھے۔ خالدؓ بھی پریشانی کے عالم میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے اور قاصدوں کو گیارہ میل لمبے محاذ پر مختلف سالاروں کو احکام پہنچانے کیلئے دوڑا رہے تھے۔ ایک خاتون ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔’’ابن الولید!‘‘ خاتون نے کہا۔’’خد اکی قسم! عرب نے تجھ سے بڑھ کر کوئی دلیر اور دانشمند آدمی پیدا نہیں کیا۔ کیا تو میری ایک بات پر غور نہیں کرے گا؟…… سالار آگے آگے ہو تو سپاہی اس کے پیچھے جان لڑا دیتے ہیں۔ سالار شکست کھانے پر اتر آئے تو اس کے سپاہی بہت جلد شکست کھا جاتے ہیں۔‘‘’’میری بہن!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ ہمارے لیے دعا کر۔ تیرے کانوں میں یہ آواز نہیں پڑے گی کہ اسلام کے سالار رومیوں سے شکست کھا گئے ہیں۔‘‘اس خاتون نے کوئی ایسا مشورہ نہیں دیا تھا جو خالدؓ کیلئے نیا ہوتا ، وہ تو اپنی فوج کے آگے رہنے والے سپہ سالار تھے لیکن اس خاتون کے جذبے سے خالدؓ متاثر ہوئے۔ خواتین کا جذبہ تو ہر لڑائی میں ایسا ہی ہوتا تھا لیکن یرموک کی جنگ میں عورتوں کے جذبے کی کیفیت کچھ اور ہی تھی وہ مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے بیتاب تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خواتیں نے مجاہدین کے جسموں اور جذبوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔

اس کے فوراً بعد خالدؓ نے وہ سوار دستہ ساتھ لیا جو انہوں نے خاص مقصد کیلئے تیار کیا اور اسے گھوم پھرکر لڑنے کی ٹریننگ دی تھی، انہوں نے رومیوں کے ایک حصے پر جس کا سالار قناطیر تھا، حملہ کر دیا۔ انہوں نے حملہ دائیں پہلو پر کیا تھا۔ خالدؓ کے حکم کے مطابق سالار عمروؓ بن العاص نے اسی حصے کے بائیں پہلو پر حملہ کیا ان کے ساتھ سالار شرجیلؓ بن حسنہ بھی اپنے دستوں کے ساتھ تھے یہ دستے پیادہ تھے۔ رومیوں نے بڑی بے جگری سے یہ دو طرفہ حملہ روکا۔ وہ اگلے دستوں کو پیچھے کرکے تازہ دم دستے آگے لاتے تھے۔ تھکے ماندے مسلمانوں نے جیسے قسم کھالی تھی کہ پیچھے نہیں ہٹیں گے ، اس لڑائی میں مسلمانوں نے جانوں کی بے دریغ قربانی دی۔ شہید ہونے والوں کی تعداد کئی سو ہو گئی تھی۔ وہ رومیوں کو شکست تو نہ دے سکے صرف یہ کامیابی حاصل کی کہ رومیوں کو ان کے محاذ تک پسپا کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اس دن کا سورج میدانِ جنگ کے خاک و خون میں ڈوب گیا۔اس روز کی جنگ پہلے سے زیادہ شدید اور خونریز تھی۔یہ پہلی جنگ تھی جس میں مسلمان صرف ایک دن میں سینکڑوں کے حساب سے شہید ہوئے اور زخمیوں کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔تاریخ میں صحیح اعداد و شمار نہیں ملتے۔ رومیوں کا جانی نقصان مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ تھا۔لڑنے کے جذبے اور حوصلے کی کیفیت یہ تھی کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی بحال ہو گئی تھی۔حالانکہ ان کی تعدادخاصی کم ہو گئی تھی۔ اور انہیں کمک ملنے کی توقع بھی نہیں تھی۔ ان کا حوصلہ اسی کامیابی سے قائم ہو گیا تھا کہ وہ پسپا نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے رومیوں کو پسپا کر دیا تھا۔رومیوں میں مایوسی پیدا ہو گئی تھی کیونکہ انہیں توقع تھی کہ اتنے بڑے لشکر سے تو پہلے دن ہی مسلمانوں کو تہ تیغ کر کے خالدؓ کو زندہ پکڑ لیں گے لیکن تیسرا دن گزر گیا تھا۔مسلمان پیچھے ہٹتے اور پھر حملہ کر دیتے تھے ۔ہار مانتے ہی نہیں تھے۔رومیوں کے سالارِ اعلیٰ کی ذہنی حالت تو بہت ہی بری تھی۔ اس نے آج رات پھر سالاروں کو بلایا اور ان پر برس پڑا۔ وہ ان سے پوچھتا تھاکہ وجہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ابھی تک شکست نہیں دے سکے۔ سالاروں نے اپنا اپنا جواز بیان کیالیکن ماہان کا غصہ اور تیز ہو گیا۔آخر رومی سالاروں نے حلف اٹھایا کہ وہ اگلے روز مسلمانوں کو شکست دے کر پیچھے آئیں گے۔گذشتہ رات کی طرح اس رات بھی خالدؓ اور ابو عبیدہؓ تمام تر محاذ پر پھرتے رہے، خالدؓ نے حکم دیا کہ جو زخمی چل پھر سکتے ہیں وہ اگلے روز کی لڑائی میں شامل ہوں گے۔عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہیں، رات کے آخری پہر عورتیں اکٹھی ہوئیں۔ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند اورضرار بن الازور کی بہن خولہ نے عورتوں کو بتایا کہ کل کا دن فیصلہ کن ہوگا۔’’……اور اپنے آدمیوں کی جسمانی حالت ہم سب دیکھ رہی ہیں۔‘‘ ہند نے کہا۔’’مجھے اپنی شکست نظر آرہی ہے اور کمک نہیں آرہی۔ اب ضرورت یہ ہے کہ تمام عورتیں لڑائی میں شامل ہو جائیں۔‘‘’’کیا ہمارے مرد ہمیں اپنی صفوں میں شامل ہونے دیں گے؟‘‘ ایک عورت نے پوچھا۔’’ہم مردوں سے اجازت نہیں لیں گی۔‘‘ ہند نے کہا ۔’’وہ اجازت نہیں دیں گے۔ کیا تم سب لڑنے کیلئے تیار ہو؟‘‘تمام عورتوں نے جوش و خروش سے کہا کہ وہ کل مردوں سے پوچھے بغیر میدانِ جنگ میں کود پڑیں گی۔اگلے روزکیلئے رومیوں نے جنگ کی جو تیاری کی وہ بڑی خوفناک تھی۔ مسلمان خواتین نے ہتھیار نکال لیے۔ کل انہیں بھی میدان میں اترنا تھا۔

خاک و خون میں ڈوبی ہوئی رات کے بطن سے ایک اور صبح طلوع ہوئی۔ یہ تاریخ اسلام کی ایک بھیانک اور ہولناک جنگ کے چوتھے روز کی صبح تھی۔ مسلمان فجر کی نماز پڑھ چکے تو خالدؓ اٹھے۔ ’’اے جماعتِ مومنین!‘‘ خالدؓ نے مجاہدین سے کہا۔’’ تم نے دن اﷲ کی راہ میں لڑتے اور راتیں اﷲ کویاد کرتے گزاری ہیں۔ اﷲہمارے حال سے بے خبر نہیں۔ اﷲ دیکھ رہا ہے کہ تم لڑنے کے قابل نہیں رہے پھر بھی لڑ رہے ہو۔ اﷲ تم سے مایوس نہیں ہوا۔ تم اس کے رحم و کرم سے مایوس نہ ہونا۔ ہم اﷲ کیلئے لڑ رہے ہیں آج کے دن حوصلہ قائم رکھنا آج اسلام کی قسمت کا فیصلہ ہو گا ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اﷲ کے سامنے بھی رسول اﷲﷺ کی روحِ مقدس کے سامنے بھی اور اپنے ان بھائیوں کی روحوں کے سامنے بھی شرمسار ہوں جو ہمارے ساتھ چلے تھے اور ہم نے ان کے لہولہان جسموں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا ہے۔ کیا تم ان کے بچوں کی خاطر جو یتیم ہو گئے ہیں اور ان کی بیویوں کی خاطر جو بیوہ ہو گئی ہیں اور ان کی بہنوں اور ان کی ماؤں کی عزت کی خاطر نہیں لڑو گے؟‘‘ ’’بے شک ابن الولید!‘‘ مجاہدین کی آوازیں اٹھیں۔’’ ہم لڑیں گے۔‘‘ ’’شہیدوں کے خون کے قطرے قطرے کا انتقام لیں گے۔‘‘ ’’آج کے دن لڑیں گے ، کل کے دن اور زندگی کے جتنے دن رہ گئے ہیں وہ کفار کے خلاف لڑتے گزار دیں گے۔‘‘اس طرح مجاہدین نے خالدؓ کی آواز پر جوش و خروش سے لبیک کہا لیکن ان کی آوازوں میں وہ جان نہیں تھی جو ہوا کرتی تھی۔ جہادکا عزم موجود تھا۔ خالدؓ کا یہ پیغام سارے محاذ تک پہنچایا گیا۔ ہر سالار کی زبان پر یہی الفاظ تھے۔’’آج کے دن حوصلہ نہ ہارنا، آج کے دن۔‘‘ادھر رومی لشکر کے سالاروں کو بھی یہی حکم ملا تھا۔’’ آج کے دن مسلمانوں کا خاتمہ کر دو۔‘‘ صبح کا اجالا صاف ہوتے ہی رومی دستے نمودار ہو ئے۔ ان کا انداز پہلے والا اور پلان بھی پہلے والا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے دائیں پہلو پر سالار عمروؓ بن العاص کے دستوں کا حملہ کیا۔ حملہ آور آرمینیہ کی فوج تھی جس کا سالار قناطیر تھا ۔ عمروؓ بن العاص کے پہلو میں سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے دستے تھے۔ ان پر آرمینیوں نے حملہ کیا اور ان کی مدد کیلئے عیسائی دستے بھی ساتھ تھے۔ عمروؓ بن العاص کیلئے صورتِ حال مخدوش ہو گئی۔ انہوں نے بہت دیر مقابلہ کیا لیکن وہ دشمن کے سیلاب کے آگے ٹھہر نہ سکے۔ عمروؓ بن العاص کے مجاہدین نے تنظیم اور ترتیب توڑ دی اور حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے۔ وہ دراصل پسپا ہو رہے تھے۔ لیکن اب وہ پسپائی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی صفیں توڑ کر انفرادی لڑائی شروع کردی۔ عمروؓ بن العاص سالار سے سپاہی بن گئے، وہ تو تلوار کے دھنی تھے۔ اکیلے انہی کی تلوار نے کئی آرمینیوں کو خون میں نہلا دیا۔ ان کے دستے کا ہر فرد اب اپنی لڑائی لڑ رہا تھا۔ انہوں نے دشمن کی بھی ترتیب توڑ دی۔ رومیوں کے اتحادی یہ آرمینی اس قسم کی لڑائی کی تاب نہ لا سکے لیکن وہ پسپا نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کے پیچھے تازہ دم عیسائی دستے موجود تھے، وہ آرمینیوں کو پیچھے نہیں آنے دیتے تھے دوسری وجہ یہ کہ ان کے سالار پیچھے ہٹنے کا حکم نہیں دیتے تھے اور تیسری وجہ یہ کہ مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود انہیں لڑائی میں سے نکلنے نہیں دے رہے تھے۔ شرجیلؓ بن حسنہ کے دستوں کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ انہیں دشمن نے بہت پیچھے ہٹا دیا تھا۔ مجاہدین بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ لیکن دشمن کا دباؤ ان کیلئے نا قابلِ برداشت ہو گیاتھا۔

خالدؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے یہ چال سوچی کہ عمروؓ بن العاص اور شرجیلؓ بن حسنہ پر حملہ کرنے والے آرمینیوں پر پہلو سے حملہ کیا جائے لیکن ان کی مدد کو آنے والے دستوں کا راستہ روکنا بھی ضروری تھا۔ انہوں نے قاصد کو بلایا۔ ’’ابو عبیدہ اور یزید سے کہو کہ آگے بڑھ کر اپنے سامنے والے رومیوں پر حملہ کر دیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’اور انہیں کہنا کہ دشمن کے ان دستوں کو روکے رکھنا ہے کہ ہمارے دائیں پہلو کی طرف نہ جا سکیں اور انہیں کہنا کہ اپنے سوار دستے بھی حملہ کر رہے ہیں۔‘‘قاصد نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ بن ابی سفیان تک جا پہنچا۔ پیغام ملتے ہی ان دونوں سالار نے اپنے سامنے والے رومی دستوں پر حملہ کر دیا۔ خالدؓ نے اپنے مخصوص رسالے کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے کی کمان قیس بن ھبیرہ کو دی اور دوسرے کو اپنے کمان میں رکھا۔ خالدؓ اپنے دائیں پہلو کے پیچھے سے گزر کر آگے نکل گئے اور اس طرف سے آرمینی دستوں پر حملہ کر دیا ۔ان کے حکم کے مطابق قیس بن ھبیرہ کے سوار دستوں نے آرمینیوں پر دوسرے پہلو سے حملہ کر دیا۔ شرجیلؓ نے سامنے سے حملہ کر دیا۔ یہ سہہ طرفی حملہ تھا جو آرمینیوں کیلئے ایک آفت ثابت ہوا۔ عیسائی دستے ان کی مدد کو آئے لیکن بے شمار لاشیں تڑپتے ہوئے زخمی اور بے لگام بھاگتے ہوئے گھوڑے چھوڑ کر پسپا ہو گئے، اور اپنے محاذ بلکہ خیمہ گاہ تک جا پہنچے۔ ابھی دشمن کا پیچھا نہیں کیا جا سکتا تھا۔خالدؓ ابھی دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ دشمن حملے کر کر کے تھک جائے۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ نے آگے بڑھ کر جو حملہ کیا تھا وہ انہیں مہنگا پڑا۔ دشمن نے ان دونوں سالاروں کے دستوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔ یہ ویسی تیر اندازی نہیں تھی جیسی لڑائیوں میں معمول کے مطابق ہوا کرتی ہے، یہ تو صحیح معنوں میں تیروں کا مینہ تھا۔ رومی اپنے لشکر کے تمام تیر اندازوں کو آگے لے آئے تھے۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فضاء میں اڑتے ہوئے تیروں نے سورج کو چھپا لیا تھا۔ تیر اندازوں کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ سات سو مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر لگے اور آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ اسی لیے اس دن کو ’’یوم النفور‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسلمان تیر اندازوں نے رومی تیر اندازوں پر تیر چلائے لیکن مسلمانوں کے تیر بے کار ثابت ہوئے کیونکہ مسلمانوں کی کمانیں چھوٹی تھیں۔ ان سے تیر دور تک نہیں جا سکتا تھا ۔اس کے علاوہ تیر اندازوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی ۔اسی دن ابو سفیان ؓکی آنکھ میں بھی تیر لگااور وہ ایک آنکھ سے معذور ہو گئے۔ اس صورتِ حال میں مسلمان میدان میں نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ سات سو مسلمان تو وہ تھے جن کی آنکھوں میں تیر لگے تھے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی۔ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان ایک اونچی چٹان کی چوٹی سے یہ جنگ دیکھ رہا تھا۔’’وہ وقت آگیا ہے۔‘‘ ماہان نے چلّا کر کہا۔ ’’اب حملے کا وقت آگیا ہے۔ نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘ اس نے اپنے دو سالاروں کو پکار کر کہا۔’’گریگری ،قورین! تیز ہلہ بول دو۔ فیصلے کا وقت آگیا ہے۔‘‘جنگ کے شور وغوغا میں اور پھر اتنی دور سے اس کی آواز سالاروں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس کی پکار اس کے قاصد سن سکتے تھے جو ہر وقت اس کے قریب موجودرہتے تھے۔ ’’کوئی اور حکم؟‘‘ایک قاصد نے ماہان کے آگے ہو کر پوچھا۔ماہان نے اپنا پورا حکم دیا اور قاصد کا گھوڑا بڑی تیزی سے چٹان سے اتر کر میدانِ جنگ کی قیامت خیزی میں غائب ہو گیا۔ ماہان مسلمانوں کو اسی کیفیت میں لانا چاہتا تھا کہ وہ حملہ روکنے کے قابل نہ رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کی نفری ہزاروں کے حساب سے کم ہو گئی تھی اور جو زخمی نہیں تھے وہ جسمانی تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ رومیوں کیلئے وہ فیصلہ کن لمحہ آگیا تھا جس کا حکم ماہان نے گذشتہ رات اپنے سالاروں کو دیا تھا۔

ماہان کا حکم پہنچتے ہی رومیوں نے تین سالاروں ابو عبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان اور عکرمہؓ کے دستوں پر حملہ کر دیا۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ کے دستوں پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا کیونکہ ان کے قدم پہلے ہی اکھڑے ہوئے تھے۔ وہ پیچھے ہٹ رہے تھے۔ انہیں میدانِ جنگ سے بھگا دینا رومیوں کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ وہ پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جا رہے تھے۔رومی جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں لے آئے تھے۔ مسلمانوں کی شکست یقینی تھی اور اس شکست کے نتائج صرف ان مسلمانوں کیلئے ہی تباہ کن نہیں تھے، جو لڑ رہے تھے بلکہ اسلام کیلئے بھی کاری ضرب تھی۔ اسی میدان میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ اس خطے میں مسلمان رہیں گے یا رومی، اسلام رہے گا یا عیسائیت؟میدان عیسائیت کے ہاتھ تھا۔ ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کے دستوں کے بائیں پہلو پر عکرمہؓ کے دستے تھے۔ ان پر بھی حملہ ہوا تھا۔ لیکن یہ اتنا زور دار نہیں تھا جتنا دوسرے دستوں پر تھا۔ عکرمہؓ نے ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ جیسے بہادر سالار کو پسپائی کی حالت میں دیکھا تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے اپنے دستے بھی نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ’’خدا کی قسم! ہم یوں نہیں بھاگیں گے۔‘‘ عکرمہؓ نے نعرہ لگایا اور اپنے دستوں میں گھوم پھر کر کہا۔’’ جو لڑ کر مرنے اور پیچھے نہ ہٹنے کی قسم کھانے کو تیار ہے الگ ہو جائے۔ سوچ کر قسم کھانا۔ قسم توڑنے کے عذاب کو سوچ لو۔ فیصلہ کرو تمہیں کیا منظور ہے ؟شکست یا موت؟ ذلت و رسوائی کی زندگی یا با عزت موت؟‘‘اگر صورتِ حال یہ نہ ہوتی اور مسلمان تازہ دم ہوتے تو عکرمہؓ کے اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن مسلمان جسمانی طور پر جس بری حالت کو پہنچ گئے تھے وہ اس کا بہت برا اثر ذہنوں پر بھی پڑا تھا۔ یہ دستے پہلی جنگ تو نہیں لڑ رہے تھے۔ وہ تین تین چار چار برسوں سے گھروں سے نکلے ہوئے تھے اور لڑتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔ یہ جذبہ تھا جو انہیں یہاں تک لے آیا تھا۔ ورنہ عام ذہنی حالت میں یہ ممکن نہیں تھا۔اس جسمانی اور ذہنی کیفیت میں عکرمہؓ کے اعلان اور للکار پر صرف چار سو مجاہدین نے لبیک کہا اور حلف اٹھایا کہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹھیں گے۔ لڑتے ہوئے جانیں دیدیں گے۔ باقی جو تھے وہ لڑنے سے منہ نہیں موڑ رہے تھے لیکن وہ ایسی قسم نہیں کھانا چاہتے تھے جسے وہ پورا نہ کر سکیں۔ان چار سو مجاہدین نے جنہوں نے حلف اٹھایا تھا اپنے سالار عکرمہؓ کی قیادت میں ان رومیوں پر ہلہ بول دیا جو ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔ یہ ہلہ اتنا شدید تھا جیسے شیر شکار پر جھپٹ رہے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ رومیوں کا جانی نقصان بے شمار ہوا۔ عکرمہؓ کے دستوں میں سے کوئی ایک آدمی بھی پسپا نہ ہوا لیکن چار سو جانباوں میں سے ایک بھی صحیح و سلامت نہ رہا۔ زیادہ تر شہیدہو گئے اور باقی شدید زخمی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوتے رہے ۔کئی ایک جسمانی طورپر معذور ہو گئے۔ اتہائی شدید زخمی ہونے والوں میں عکرمہؓ بھی تھے اور ان کے نوجوان بیٹے عمرو بھی(یعنی ابو جہل کا بیٹا اور پوتا۔۔سبحان اﷲ ۔۔۔اﷲ جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے گمراہ کر دے) ۔ انہیں بے ہوشی کی حالت میں پیچھے لایا گیا تھا ۔ ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کے دستے پیچھے ہٹتے گئے۔ رومی انہیں دھکیلتے چلے آرہے تھے۔ بڑا ہی خونریز معرکہ تھا۔ جب یہ دستے مسلمانوں کی خیمہ گاہ تک پہنچے تھے تو مسلمان عورتوں نے ڈنڈے پھینک کر تلواریں اور برچھیاں اٹھا لیں اور چادریں پگڑی کی طرح اپنے سروں سے لپیٹ کر رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔ ان میں ضرار کی بہن خولہ بھی تھیں۔ جو عورتوں کو للکار رہی تھیں۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتیں اپنے دستوں میں سے گزرتی آگے نکل گئیں اور بڑی مہارت دلیری اور قہر سے رومیوں پر جھپٹنے لگیں۔ وہ تازہ دم تھیں انہوں نے رومیوں کے منہ توڑ دیئے ان کی ضربیں کاری تھیں۔ رومی زخمی ہو ہو کر گرنے لگے۔ عورتوں کے یوں آگے آجانے اور رومیوں پر جھپٹ پڑنے کا جو اثر مجاہدین پر ہوا وہ غضب ناک تھا۔ اپنی عورتوں کر لڑتا دیکھ کر مجاہدین آگ بگولہ ہو گئے۔ انسان میں جو مخفی قوتیں ہوتی ہیں وہ بیدار ہو گئیں اور وہی مجاہدین جو پسپا ہوئے جا رہے تھے رومیوں کیلئے قہر بن گئے۔ انہوں نے ترتیب توڑ دی اور اپنے سالاروں کے احکام سے آزاد ہو کر ذاتی لڑائی شروع کر دی، ان کی ضربوں کے آگے رومی بوکھلا گئے، اور پیچھے ہٹنے لگے۔ وہ اپنے زخمیوں کو روندتے جا رہے تھے۔ سالار بھی سپاہی بن گئے، اور عورتیں بدستور لڑتی رہیں۔ دن کا پچھلا پہر تھا۔ معرکہ انتہائی خونریز اور تیز ہو گیا۔ رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے۔ گھمسان کے اس معرکے میں ضرار کی بہن خولہ جو اس وقت تک کئی ایک رومیوں کو زخمی اور ہلاک کر چکی تھیں ایک اور رومی کے سامنے ہوئیں۔ پہلا وار خولہ نے کیا جو رومی نے روک لیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایسا زور دار وار کیا کہ اس کی تلوار نے خولہ کے سر کا کپڑا بھی کاٹ دیا اور سر پر شدید زخم آئے۔ خولہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ پھر انہیں اٹھتے نہ دیکھا گیا۔ اس کے فوراً بعد سورج غروب ہو گیا اور دونوں طرف کے دستے اپنے اپنے مقام پر پیچھے چلے گئے اور زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع ہو گیا۔ رومیوں کی لاشوں اور بے ہوش زخمیوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ نقصان مسلمانوں کا بھی کم نہ تھا لیکن رومیوں کی نسبت بہت کم تھا۔ خولہ کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔انہیں خیمہ گاہ میں ڈھونڈا گیا نہ ملیں تو لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈنے لگے اور وہ بے ہوش پڑی ہوئی مل گئیں۔ سر میں تلوار کا لمبا زخم تھا۔ بال خون سے جڑ گئے تھے۔ ’’اس کے بھائی کو اطلاع دو۔‘‘ کسی نے کہا۔ ’’ابن الازور سے کہو تیری بہن شہید ہو رہی ہے۔‘‘ ضرار بن الازور بہت دور تھے۔ بڑی مشکل سے ملے ۔بہن کی اطلاع پر سر پٹ گھوڑا دوڑاتے آئے۔ جب اپنی بہن کے پاس پہنچے تو بہن ہوش میں آگئیں۔ ان کی نظر اپنے بھائی پر پڑی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ’’خدا کی قسم !تو زندہ ہے۔‘‘ ضرار نے جذبات سے مغلوب آواز میں کہا۔ ’’تو زندہ رہے گی۔‘‘ ضرار نے خولہ کو اٹھا کر گلے لگالیا۔ خولہ کے سر پر تہہ در تہہ کپڑ اتھا جس نے تلوار کی ضرب کو کمزور کر دیا تھا۔ سر پر صرف اوڑھنی ہوتی تو کھوپڑی کٹ جاتی پھر زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔جنگ کا بڑا ہولناک دن گزر گیا۔ رومیوں کو اپنے اس عزم میں بہت بری طرح ناکامی ہوئی کہ آج کے دن جنگ کا فیصلہ کردیں گے۔ ان کی نفری تو بہت زیادہ تھی لیکن اس روز ان کی جو نفری ماری گئی تھی اس سے ان کا یہ فخر ٹوٹ گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے کچل ڈالیں گے۔ مسلمانوں نے جس طرح اپنے سالاروں سے آزاد ہو کر ان پر ہلے بولے تھے اس سے وہ محتاط ہو گئے تھے۔ رومیوں کے لشکر میں سب سے زیادہ جو مارے گئے یا شدید زخمی ہوئے وہ عیسائی اور آرمینی اور دوسرے قبائل کے آدمی تھے جو رومیوں کے اتحادی بن کر آئے تھے۔ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان نے انہی کو آگے کر دیا اور بار بار انہی سے حملے کروارہا تھا۔ ان لوگوں کا جذبہ اپنی اتنی زیادہ لاشیں اور زخمی دیکھ کر مجروح ہو گیا تھا۔اس روز ایک اور واقعہ ہو گیا۔ خالدؓ پریشانی کے عالم میں کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ جنگ کے متعلق تو ان کے چہرے پر اضطراب اور ہیجان رہتا تھا لیکن ایسی پریشانی ان کے چہرے پر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہو۔ ان سے پریشانی کا باعث پوچھا گیا۔ ’’میری ٹوپی!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ سرخ ٹوپی میری کہیں گر پڑی ہے۔

تلاشِ بسیارکے بعد ان کی سرخ ٹوپی مل گئی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ کے چہرے پر رونق اور ہونٹوں پر تبسم آگیا۔ ’’ابن الولید!‘‘ کسی سالار نے پوچھا ۔’’کیا تجھے ان کا غم نہیں جو ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئے ہیں؟ تو ایک ٹوپی کیلئے اتنا پریشان ہو گیا تھا ۔‘‘ ’’اس ٹوپی کی قدروقیمت صرف میں جانتا ہوں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ حجۃالوداع کیلئے رسولِ اکرمﷺ نے سر کے بال منڈھوائے تو میں نے کچھ بال اٹھا لئے، رسول اﷲﷺ نے پوچھا کہ ان بالوں کو کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ اپنے پاس رکھوں گا ۔کفار کے خلاف لڑتے وقت یہ بال میرا حوصلہ مضبوط رکھیں گے۔ رسول اﷲﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ یہ بال تیرے پاس رہیں گے اور میری دعائیں بھی تیرے ساتھ رہیں گی۔ اﷲ تجھے ہر میدان میں فتح عطا کرے گا۔ میں نے یہ بال اپنی اس ٹوپی میں سی لیے تھے۔ میں اس ٹوپی سے جدا نہیں ہو سکتا۔ اسی کی برکت سے میری طاقت و ہمت قائم ہے۔‘‘ خالدؓ کو ٹوپی مل جانے کی تو بہت خوشی ہوئی تھی لیکن وہ رات ان کیلئے شبِ غم تھی۔ وہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ان کے ایک زانو پر سالار عکرمہؓ کا سر تھا اور دوسری زانو پر عکرمہؓ کے نوجوان بیٹے عمرو کا سر رکھا ہوا تھا(واﷲ آنکھوں میں آنسووں کی قطاریں ہیں یہ قسط تیار کرتے ہوئے۔ان صحابہ کرامؓ کے بارے میں نسل مجوس ،ایرانی گماشتے، اولادِمتعہ،ابن سبا کی ناجائز نسل رافضی کہتے ہیں کہ وہ سب منافق تھے اور مرتد ہوگئے تھے۔کوئی ان رافضیوں کے کفر کا پردہ چاک کرے تو فوراً اسے فرقہ پرست،وہابی اور تکفیری کا لقب دے دیا جاتا ہے۔سلام صحابہ کرامؓ سلام۔۔ہمارا سب کچھ آپؓ کی ناموس پر قربان)۔ باپ بیٹا اس روز کی لڑائی میں اتنے زیادہ زخمی ہو گئے تھے کہ ہوش میں نہیں آرہے تھے۔ جسموں سے خون نکل گیا تھا۔ زخم ایسے تھے کہ ان کی مرہم پٹی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس روز باپ بیٹا قسم کھاکر لڑے تھے کہ مر جائیں گے مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عکرمہؓ خالدؓکے بھتیجے بھی تھے اور دوست بھی۔ ان کا بڑا پرانا ساتھ تھا۔ دونوں مانے ہوئے شہسوار اور شمشیر زن تھے ۔خالدؓ کو اپنے اتنے عزیز ساتھی کے بچھڑ جانے کا بہت دکھ تھا۔ عکرمہؓ کا نوجوان بیٹا بھی دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔ خالدؓ نے پانی اپنے ساتھ رکھا ہو اتھا۔ وہ پانی میں اپنا ہاتھ ڈبوتے اور انگلیاں جوڑ کر کبھی عکرمہؓ کے نیم وا ہونٹوں پر رکھتے کبھی ان کے بیٹے عمرو کے ہونٹوں پر۔ مگر قطرہ قطرہ پانی جو باپ بیٹے کے منہ میں جا رہا تھا وہ آبِ حیات نہیں تھا۔ اﷲ نے اس عظیم باپ اور اس کے بیٹے کو فرائض سے سبکدوش کر دیا تھا۔ اس طرح عکرمہؓ نے اور اس کے فوراً بعد ان کے بیٹے نے خالدؓ کی گود میں سر رکھے جانِ جان آفرین کے سپرد کر دی۔ خالدؓ کے آنسو نکل آئے۔ ’’کیا ابنِ حنطمہ اب بھی کہتا ہے کہ بنی مخزوم نے جانیں قربان نہیں کیں؟ ‘‘خالدؓ نے کہا۔حنطمہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ کی والدہ کا نام تھا۔ خالدؓ اور عکرمہؓ بنی مخزوم میں سے تھے۔ خالدؓ کو غالباً وہم تھا کہ عمرؓ کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کی اسلام کیلئے جانی قربانیاں تھوڑی ہیں۔ عکرمہؓ اور ان کے بیٹے کی شہادت معمولی قربانی نہیں تھی ۔وہ رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔جیسے لمحے لمحے ڈر ڈر کر کانپ کانپ کر گزار رہی ہو۔ زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔کئی شہیدوں کی بیویاں وہیں تھیں لیکن کسی عورت کے رونے کی آوازنہیں آتی تھی(یہی فرق ہے اسلام اور کفر کے درمیان)۔ فضاء خون کی بو سے بوجھل تھی۔ دن کو اُڑی ہوئی گرد زمین پر واپس آرہی تھی۔ شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر انہیں دفن کیا جا رہا تھا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی