🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 49*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *49* ۔۔۔۔

اس طرح مسلمان اپنے پیچھے بڑا اچھا تاثر چھوڑ کر آئے لیکن وہ اس علاقے سے نکلے نہیں۔ تمام دستے دریائے یرموک سے سات آٹھ میل دور جابیہ کے مقام پر اکٹھے ہو گئے، ان میں شرجیلؓ بن حسنہ، عمروؓ بن العاص، یزیدؓ بن ابی سفیان، ضرارؓ بن الازور جیسے نامی گرامی سالار قابلِ ذکر ہیں۔سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے سب کو مشاورت کیلئے بلایا۔ ’’تم سب پر اﷲ کی سلامتی ہو! ‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’کیا میرے چہرے پر وہی پریشانی نہیں ہے جو تم ایک دوسرے کے چہروں میں دیکھ رہے ہو؟‘‘ ’’لیکن یہ پریشانی ہے مایوسی نہیں۔مایوس نہ ہونا اس اﷲ کی ذات باری سے جس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور پیروی میں ہم اتنی مدت سے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں۔ہم پسپا نہیں ہوئے ہیں پیچھے ہٹے ہیں، اور پیچھے اس لیے ہٹے ہیں کہ اکٹھے ہو کر اس دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہو سکیں جو ہمارے دین کا دشمن ہے۔ کیا تم نے سن لیا ہے کہ ہرقل کی فوج کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے؟‘‘’’ہاں امین الامت!‘‘ سالاروں کی آوازیں سنائی دیں۔ ’’سن لیا ہے۔‘‘’’اور ہم کتنے ہیں؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ چالیس ہزار۔ لیکن تم ہر میدان میں قلیل تعداد میں تھے۔ اور اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ ایمان والے بیس ہوئے تو دو سو، کفار پر غالب آئیں گے۔ پھر بھی میں تمہیں امتحان میں نہیں ڈالوں گا۔ حکم نہیں دوں گا۔ مجھے مشورہ دو۔‘‘ ’’کیا ایسا ٹھیک نہیں ہو گا کہ ہم واپس چلے جائیں؟‘‘ ایک سالار نے کہا۔’’ ہرقل ہمیشہ اتنی زیادہ فوج نہیں رکھے گا جونہی کبھی اطلاع ملے کہ ہرقل نے فوج کی تعداد کم کر دی ہے ہم پھر واپس آجائیں گے۔ہم پہلے سے زیادہ تیار ہو کر آئیں گے۔‘‘’’اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ ہمارے مجاہدین نے اتنا خون بہاکراور قربانیاں دے کر جو علاقے فتح کیے ہیں وہ رومیوں کو واپس کر دیں۔‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔’’اگر ہم نے ایسا کیا تو ہمارے سارے لشکر کا حوصلہ ٹوٹ جائے گااور دشمن کا حوصلہ مضبوط ہو جائے گا۔رومی فوج پر ہم نے جو دھاک بٹھائی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔‘‘’’ہم فیصلہ کن جنگ لڑیں گے ۔‘‘ ایک اور سالار نے کہا۔’’فتح اور شکست اﷲکے ہاتھ میں ہے۔‘‘ اس مشورے پر زیادہ تر سالاروں نے لبیک کہا۔ ’’لڑے بغیر واپس گئے تو مدینہ والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟‘‘’’پھر پسپائی بھی ہماری روایت بن جائے گی۔‘‘’’اپنے بچوں کو یہ سبق ملے گا کہ دشمن قوی ہو تو بھاگا بھی جا سکتا ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کی طرف دیکھاجو بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ انہوں نے نہ کسی کی تائید میں کچھ کہا نہ مخالفت میں۔ ’’کیوں ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔ ’’کیا تو کوئی مشورہ نہیں دے گا۔ تیرے جرات اور قابلیت کی ضرورت تو اب ہے۔کیا سوچ رہا ہے تو؟‘‘’’ابنِ عبداﷲ ! جس کسی نے جو کچھ بھی کہا ہے، وہ اپنے خیال کے مطابق ٹھیک کہا ہے۔ لیکن میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سب نے مل کر جو فیصلہ کیا میں اس کا پابند رہوں گا اور تیرا ہر حکم مانوں گا ۔‘‘ ’’تو جو کچھ کہنا چاہتا ہے کہہ دے ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ مجھے تیری رائے کی ضرورت ہے۔‘‘

’’پہلی بات یہ ہے امین الامت!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ ہم بڑی خطرناک جگہ آکر بیٹھ گئے ہیں، یہاں سے تھوڑی ہی دور قیساریہ میں رومیوں کی فوج موجود ہے اس کی نفری چالیس ہزار ہے اور اس کا سالار ہرقل کا ایک بیٹا قسطنطین ہے۔ ہماری تعداد اتنی ہی ہے۔ جتنی اکیلے قسطنطین کی ہے۔ہم ایسی جگہ پر ہیں کہ وہ ہم پر عقب سے آسانی سے حملہ کر سکتا ہے۔ ایسا حملہ وہ اس وقت کرے گا جب سامنے سے ہم پر ہرقل کی فوج حملہ کرے گی۔ ہمیں یرموک کے مقام پر چلے جانا چاہیے ۔وہ زمین گھوڑ سوار دستوں کے لڑنے کیلئے بہت اچھی ہے اور ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مدینہ سے کمک اور رسد کا راستہ کھلا رہے گا۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا۔ سب نے کہا کہ اس سے بہتر اور کوئی تجویز نہیں ہو سکتی۔ ابو عبیدہؓ نے اسی وقت جابیہ سے یرموک کی طرف کوچ کا حکم دے دیا اور خالدؓ کو فوج کی عقبی گارڈ کے طور پر پیچھے رہنے دیا۔خالدؓ کو ان چار ہزار سواروں کے دستے کی کمان دی گئی جوخالدؓ نے تیار کیا تھا۔ یہ سب منتخب شہسوار تھے یہ دستہ جم کر نہیں گھوم پھر کر لڑتا تھا۔ یہ خالدؓ کی اپنی جاسوسی تھی کہ انہوں نے معلوم کر لیا تھا کہ قیساریہ میں ہرقل کی جو فوج ہے اس کی نفری چالیس ہزار اور اس کا سالار ہرقل کا بڑا بیٹا قسطنطین ہے۔ معروف مؤرخ گبن لکھتا ہے کہ جنگی اصولوں اور امور کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو رومی فوج کے مقابلے میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ صرف چالیس ہزار نفری سے اس فوج کے خلاف لڑنا جس کی نفری ڈیڑھ اور دو لاکھ کے درمیان تھی ممکن نہ تھا۔روم کا شہنشاہ صحیح معنوں میں سپاہیوں اور گھوڑوں کا ایسا سیلاب لے آیا تھا جس کے آگے کوئی بھی فوج نہیں ٹھہر سکتی تھی، لیکن مسلمان اس سیلاب کے آگے بند باندھنے اور اسے پھیلا کر ختم کردینے کا تہیہ کر چکے تھے۔ ان کے پاس صرف جذبہ تھا۔مسلمانوں کے جذبے کی شدت اور عزم کی پختگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خالدؓ ان میں موجود تھے اور خالدؓ سراپا عزم اور مجسم جذبہ تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ایمان کے آگے باطل کی کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکتی۔ خالدؓ نے ایک مثال وہیں قائم کردی وہ اس طرح کہ مسلمانوں کی فوج جابیہ سے کوچ کر گئی تو خالدؓ ابو عبیدہؓ کے حکم کے مطابق ابھی جابیہ میں تھے۔ادھر ہرقل کے لشکر نے اتنی تیزی سے نقل و حرکت کی تھی کہ اس کے سالاروں کو جن علاقوں میں پہنچنے کا حکم ملا تھا وہ اپنے دستوں کے ساتھ ان علاقوں میں پہنچ گئے تھے۔شام اور فلسطین میں ہرقل کی فوج چھاگئی تھی۔ خالدؓجابیہ سے روانہ ہونے لگے تو اچانک رومی فوج کا ایک دستہ دائیں پہلو سے آتا نظر آیا۔ یہ رومی فوج کے کسی حصہ کا ہراول تھا اور اس سوار دستے کی تعداد خالدؓ کے دستے سے زیادہ تھی۔ رومی دستے کو اپنی بے پناہ فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس نے خالدؓ کے دستے پر حملہ کر دیا۔خالدؓنے اپنے اس سوار دستے کو خود تربیت دی تھی۔ انہوں نے ان سواروں کو بھاگ دوڑ کر لڑنے کی ترتیب میں کر لیا۔ رومی دستے کے سوار اسی علاقے کے عیسائی تھے۔ وہ جنگ کی ترتیب میں حملے پر حملہ کرتے تھے مگر خالدؓ کے سواروں کا انداز کچھ اور تھا۔ عیسائیوں کا ہر ہلہ اس طرح ضائع ہو جاتا تھا جس طرح حریف کو مارا ہوا گھونسا حریف کو لگنے کے بجائے ہوا میں لگے۔ ذرا ہی دیر بعد عیسائی سوار میدان میں بے ترتیب بکھرے ہوئے تھے اور مسلمان سوار انہیں کاٹ رہے تھے-

خالدؓ نے اپنا مخصوص نعرہ’’میں خالد ابنِ ولید ہوں‘‘ لگایا تو معرکے کی صورت ہی بدل گئی۔ خالدؓ کا یہ نعرہ پہلے ہی رومی فوج میں مشہورتھا اور اس نعرے کے ساتھ ایک دہشت وابستہ تھی۔ عیسائی سواروں کی تنظیم پہلے ہی بکھر گئی تھی اور مسلمان سوار ان پر غالب آگئے تھے۔ خالدؓ کے نعرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور عیسائی سوار افراتفری کے عالم میں بھاگنے لگے۔خالدؓ یہ معرکہ ختم ہوتے ہی اپنے لشکر کی طر ف روانہ نہ ہوئے۔ بلکہ دو تین دن وہیں موجود رہے۔ انہیں توقع تھی کہ رومی فوج کا یہ حصہ اپنے ہراول کا انتقام لینے آگے آئے گا۔ خالدؓرومیوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ مسلمان کہیں بھاگ نہیں گئے یہیں ہیں، اور زندہ بیدار لڑنے کیلئے تیار ہیں، رومی آگے نہ آئے اور خالدؓاپنے لشکر سے جا ملے۔گبن نے لکھا ہے کہ رومی اسی ایک جھڑپ سے ہی محتاط ہو گئے تھے۔ خالدؓ ابو عبیدہؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس میدان کا جائزہ لیا۔ لڑائی کیلئے یہ ہر لحاظ سے موزوں نظر آیا، اس طرح مسلمانوں کو اپنی پسند کے میدان کا فائدہ حاصل ہو گیا، رومی ایک تو اسے بہت بڑی کامیابی سمجھ رہے تھے کہ انہو ں نے مسلمانوں سے مفتوحہ علاقے لے لیے تھے اور وہ اس لیے بھی خوش تھے کہ انہوں نے اس دور کی سب سے بڑی فوج بنا لی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کے مشوروں کے مطابق اپنے دستوں کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا اور اسی ترتیب میں ڈیرے ڈال دیئے، وہ خیمہ زن ہونے کے بجائے تیاری کی حالت میں رہے۔ انہوں نے اپنے بائیں پہلو کو محفوظ رکھنے کیلئے پہاڑیوں سے فائدہ اٹھایا ۔مسلمانوں کے محاذ کی لمبائی کم و بیش گیارہ میل تھی اور گہرائی کچھ بھی نہیں تھی۔ رومی اتنے بڑے لشکر کے باوجود محتاط ہو کر بڑھ رہے تھے حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس ہزار ہے جو کم ہو سکتی ہے زیادہ نہیں ہو سکتی اور انہیں اتنی جلدی کمک بھی نہیں مل سکتی۔ رومی لشکر چند دنوں بعد آگے آیا لیکن آتے ہی اس نے حملہ نہ کیا۔ وہ چند میل دور رک گئے اور اپنے دستوں کو جنگ کی ترتیب میں پھیلا دیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی فوج کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صحیح معنوں میں انسانوں اور گھوڑوں کا سمندر لگتی تھی۔ اس فوج کے محاذ کی لمبائی اٹھارہ میل تھی اور گہرائی بھی خاصی زیادہ تھی۔ صفوں کے پیھچے صفیں تھیں۔ رومی لشکر کے سالارِ اعلیٰ ماہان نے آگے آکر مسلمانوں کی فوج کا جائزہ لیا۔ اسے اپنی جنگی طاقت پر اتنا ناز تھا کہ وہ مسلمانوں کی صفوں کے قریب آگیا، اس کے چہرے پررعونت اور ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ مسلمان اسے خاموشی سی دیکھتے رہے اور وہ مسلمانوں کو حقارت سے دیکھتا آگے بڑھتا گیا، اس کے پیچے پیچھے بارہ محافظ گھوڑوں پر بڑی شان سے جا رہے تھے۔ ماہان زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اس کے لشکر کی طرف سے ایک سوار گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا ۔ماہان رک گیا گھوڑ سوار اس کے قریب آرکا اور رومی انداز سے سلام کرکے اس کے ہاتھ میں کچھ دیا۔ یہ ہرقل کا پیغام تھا جو اس نے ماہان کو انطاکیہ سے بھیجا تھا۔ یہ دراصل پیغام نہیں،شہنشاہِ ہرقل کا فرمان تھا۔ ہرقل نے اسے لکھاتھا کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے سے پہلے انہیں صلح نامے کیلئے راضی کرو۔مسلمان اگر یہ شرط مان لیں کہ وہ پر امن طریقے سے واپس چلے جائیں گے اور آئندہ کبھی رومی سلطنت کی سرحد میں داخل نہیں ہوں گے تو انہیں عزت سے اور کچھ رقم دے کر رخصت کرو۔اپنی طرف سے پوری کوشش کرو کہ وہ صلح پر راضی ہوجائیں اگر وہ تمہاری بات نہ مانیں تو عربی عیسائیوں کو استعمال کرو۔شاید ان کی بات مان جائیں۔

ماہان نے یہ پیغام پڑھا تو اس کے چہرے پر غصے کے آثار آگئے،اس نے قاصد کو رخصت کر دیا۔’’ ان بدوؤں کے آگے گھٹنے ہی ٹیکنے تھے تو اتنا لشکر اکٹھا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘اس نے غصے سے کہا۔اس نے پیچھے دیکھا۔ اس کا احتجاج سننے والے اس کے محافظ ہی تھے۔ اس نے مسلمانوں کے محاذ کی طرف دیکھا اور گھوڑے کا رخ اس طرف کر کے آگے آگیا۔ قریب جا کر ا س نے گھوڑا روک لیا اور ایک محافظ کو اپنے پاس بلایا۔ ’’انہیں کہو کہ اپنے سالارِ اعلیٰ کو سامنے کریں۔‘‘ اس نے اپنے محافظ سے کہا ۔’’اور کہو کہ ہمارے سالارِ اعلیٰ ماہان صلح کی بات کرنے آئے ہیں۔‘‘محافظ نے اس کے الفاظ بلند آواز سے دہرائے۔ مسلمانوں کی طرف سے جواب آیا کہ آتے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہرقل کی آدھی فوج کٹ گئی تھی۔ بے انداز مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا اور مسلمانوں نے سلطنتِ روم کے بے شمار علاقے پر قبضہ کر لیا تھا پھر ہرقل نے انہیں بخش کیوں دیا تھا؟ اس نے ڈیڑھ دو لاکھ فوج اکٹھی کر کے بھی مسلمانوں کے آگے صلح کا ہاتھ کیوں بڑھایا تھا؟فوری طور پر یہ جواب سامنے آتا ہے کہ اس کی فوج پر مسلمانوں کی جو دہشت طاری تھی اس سے وہ خطرہ محسوس کرتا تھا کہ اس کی اتنی بڑی فوج بھی شکست کھاجائے گی۔ لیکن اس وقت کے وقائع نگاروں مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویسوں نے مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ ہرقل اوچھا دشمن نہیں تھا وہ جنگجو تھا اور جنگجو قوم کی قدر کرتا تھا۔ خالدؓ کی قیادت سے وہ متاثر تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک جنگجوقوم کی اتنی پر عزم فوج اس کے لشکر کے ہاتھوں ختم ہو جائے۔ وہ مسلمانوں کو زندہ واپس چلے جانے کا موقع دے رہا تھا۔ اسے توقع تھی کہ مسلمانوں نے جذبے کے زور پر اس کے لشکر سے ٹکر لی تو مسلمانوں کا قتلِ عام ہو گا۔ ہرقل نے جو کچھ بھی سوچا تھا اس کے متعلق آراء مختلف ہوسکتی ہیں لیکن مسلمانوں کی سوچ مختلف تھی۔ میدانِ جنگ میں نہ وہ رحم کرتے تھے نہ رحم کے طلبگار ہوتے تھے۔ اپنی نفری کی کمی اور دشمن کی کئی گنا زیادہ طاقت نے انہیں کبھی پریشان نہیں کیا تھا۔رومی سالار ماہان کی پکار پر ابو عبیدہؓ آگے گئے۔ ان کے ساتھ ایک ترجمان تھا ۔’’اے سالار!‘‘ ماہان نے بارعب لہجے میں پوچھا۔’’کیا تو امن و امان سے یہاں سے چلے جانا چاہتا ہے؟‘‘ ’’ہم امن و امان چاہتے ہیں۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔ ’’لیکن جانا نہیں چاہتے۔‘‘ ’’شہنشاہ ہرقل کے حکم کی تعمیل لازمی ہے۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ اسی کے حکم سے میں تیرے پاس آیا ہوں۔‘‘’’لیکن میرے رومی دوست! ‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ ہم پر صرف اﷲ کے حکم کی تعمیل لازمی ہے۔‘‘ ’’شہنشاہ ہرقل تمہیں ایک موقع دے رہے ہیں۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’اپنی اس ذرا سی فوج سے میری فوج کے ساتھ ٹکرلینے سے باز آجاؤ میں اپنے ایک سالار کو صلح کی بات چیت کیلئے بھیج رہا ہوں۔‘‘اور وہ چلا گیا۔رومی فوج کا جو سالار صلح کی بات چیت کرنے آیا وہ گریگری تھا۔ ابو عبیدہؓ نے اس کا استقبال کیا۔ ’’میں شہنشاہ ہرقل کی طرف سے صلح کی پیشکش لے کر آیا ہوں۔‘‘ گریگری نے کہا۔’’ اگر تم واپس چلے جاؤ اور پھر کبھی ادھر نہ آنے کا معاہدہ کرلو تو ہمارے شہروں اور قصبوں سے جو مالِ غنیمت وغیرہ اٹھایا ہے وہ اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔ ہمارا لشکر دیکھ لو اور اپنی تعداد دیکھ لو۔‘‘

’’اگر یہ لڑائی میری ذاتی ہوتی تو میں تمہاری پیشکش قبول کر لیتا۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’میں شہنشاہ نہیں، شہنشاہ اﷲ ہے، اور ہم اسی کے حکم پر آئے ہیں۔ ہم کوئی پیشکش قبول نہیں کر سکتے۔‘‘ گریگری چلا گیا۔ ہرقل نے اپنے فرمان میں لکھاتھا کہ صلح کا ذریعہ استعمال کرو۔ اس حکم کے مطابق ماہان نے ایک اور سالار جبلہ بن الایہم کو بھیجا ۔’’کیا تمہاری فوج کے تمام سالار باری باری صلح کا پیغام لے کر آئیں گے؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’ کیا کوئی میرے انکار کو اقرار میں بدل سکتا ہے؟‘‘’’صلح کا پیغام لانے والا میں آخری سالار ہوں۔‘‘ جبلہ نے کہا۔’’ میں اس لئے آیا ہوں کہ میں بھی عربی ہوں،ہوں تو عیسائی۔ لیکن میرے دل میں اپنے وطن کے لوگوں کی محبت ہے ،میں تمہیں تباہی سے بچانے کیلئے آیا ہوں۔ تم واپس چلے جاؤ اگر تمہارا کوئی مطالبہ ہے وہ بتا دو، میں وہ پورا کردوں گا۔‘‘ ’’ہمارا مطالبہ تم جانتے ہو۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ ہم خیرات نہیں جزیہ لیں گے۔‘‘ ’’اے عربی سالار!‘‘ جبلہ نے حیران ہوکر پوچھا۔’’ کیا چالیس ہزار کی فوج چار گنا طاقت ور لشکرسے جزیہ وصول کر سکتی ہے؟‘‘ابو عبیدہؓ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طر ف کی اور ان کے ہونٹوں پر تبسم آگیا۔ انہوں نے رومیوں کی ہر پیشکش ٹھکرادی اور صلح سے انکار کر دیا۔ جولائی ۶۳۶ء (جمادی الآخر ۱۵ ھ) کا تیسرا ہفتہ شروع ہو چکا تھا۔ جبلہ بن الایہم نے اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کو جاکر بتایا کہ مسلمان کسی قیمت پرکسی شرط پر صلح کیلئے تیار نہیں ہیں۔’’ہم شہنشاہِ ہرقل کے حکم کی تعمیل کر چکے ہیں۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ میں نے اپنے ذرائع استعمال کر لیے ہیں…… جبلہ! اب وہ طریقہ اختیار کرو جو شہنشاہِ ہرقل کو پسند نہیں تھا۔ ان بدقسمت اور کم عقل مسلمانوں پر حملہ کردو۔ اس سے انہیں ہماری طاقت کا اندازہ ہو جائے گا، اور ہم یہ دیکھ لیں گے کہ ان میں کتنا دم خم ہے اور ان کے انداز کیا ہیں۔‘‘رومی لشکر کا پڑاؤ کئی میل دور تھا۔ جبلہ اپنے دستوں کو لے کر مسلمانوں کے سامنے آیا، اس کے دستوں کو رومی فوج کے ہتھیار دیئے گئے تھے جو بہتر قسم کے تھے۔ ان دستوں میں عربی عیسائی تھے، وہ جب آئے تو مسلمان لڑائی کیئے تیار ہو چکے تھے۔ جبلہ نے آتے ہی حملہ نہ کیا۔ وہ مسلمانوں کے محاذ کو دیکھ کر حملہ کرنا چاہتا تھا۔آخر اس نے ہلہ بولنے کاحکم دے دیا، وہ ابھی مسلمانوں کی اگلی صف تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اس کے دستوں کے دونوں پہلوؤں پر حملہ ہو گیا۔ حملہ کرنے والا مسلمان سواروں کا دستہ تھا جس کی کمان خالدؓ کررہے تھے ۔گھوم پھر کر لڑنے والے اس دستے نے اپنا مخصوص انداز اختیار کیا۔جبلہ کی ترتیب گڈمڈ ہو گئی۔ اس پر سامنے سے بھی حملہ ہوا۔عیسائی بوکھلا گئے۔ انہیں اپنے پہلوؤں پر حملے کی توقع نہیں تھی۔ مسلمان سواروں نے انہیں بکھیر دیا۔ عیسائی اب بھاگنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔وہ بہت سی لاشیں اور بے انداز زخمی پیچھے پھینک کر پسپا ہو گئے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ ماہان نے مسلمانوں کولڑتے بھی دیکھا اور جس تیزی سے مسلمان سواروں نے جبلہ کے دستوں پر حملہ کیا تھا وہ بھی دیکھااور وہ سمجھ گیاکہ مسلمانوں سے لڑنا بہت مشکل ہے اور اس کیلئے مزید تیاری کی ضرورت ہے۔ ماہان نے حملے کیلئے کوئی اور دستہ نہ بھیجا۔ماہان کو توقع تھی کہ مسلمان جوابی حملہ کریں گے لیکن نفری کی کمی مسلمانوں کی مجبوری تھی۔ وہ جوابی حملہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے، ادھر جبلہ محتاط ہو گیا۔ دن گزرنے لگے۔ دونوں طرف کی فوجوں نے ایک دوسرے پر نظر رکھنے کیلئے اپنے اپنے آدمی مقرر کر دیئے۔یہ وقفہ مسلمانوں کیلئے فائدہ مند رہا۔ انہیں مدینہ سے چھ ہزار افراد کی کمک مل گئی۔ یہ چھ ہزار افراد یمنی تھے اور تازہ دم تھے۔ ان سے مسلمانوں کے محاذ کو کچھ تقویت مل گئی۔

مسلمانوں کی فوج کی تفصیل کچھ اس طرح تھی کہ اس کی کل تعداد چالیس ہزار تھی۔ ان میں ایک ہزار رسولِ کریمﷺ کے صحابہ کرامؓ تھے۔ ان ایک ہزار میں ایک سو وہ مجاہدین بھی شامل تھے جو بدر کی لڑائی لڑے تھے۔ اس نفری میں رسولِ کریمﷺ کے پھوپھی زاد بھائی زبیرؓ بھی شریک تھے اور اس نفری میں پہلی جنگوں کی دو مشہور شخصیتیں بھی شامل تھیں۔ ابی سفیانؓ اور ان کی بیوی ہندؓ ۔ ابی سفیانؓ کے بیٹے یزیدؓ پہلے ہی چالیس ہزار کی اس فوج میں شامل تھے اور سالار تھے۔ایک مہینہ گزر گیا تو دشمن نے دیکھا کہ اس کا لشکر لڑنے کیلئے تیار ہو گیا ہے اور مسلمانوں کی نفری میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا، تو اس نے مذید انتظار مناسب نہ سمجھا لیکن ایک بار پھر صلح کی کوشش کو ضروری سمجھا۔ اس نے اپنا ایک ایلچی مسلمانوں کے محاذ کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ سالارِ اعلیٰ بات چیت کیلئے آئیں۔’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔’’ کیا اب یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اس شخص کے ساتھ تو بات کرے؟ وہ ہمیں اپنی طاقت سے ڈرا کر صلح حاصل کرناچاہتا ہے۔‘‘’’مجھے ہی جانا چاہیے امین الامت!‘‘ خالدؓنے کہا۔’’اس کے ساتھ میں ہی بات کروں گا۔‘‘خالدؓگھوڑےپر سوار ہوئے اور ایڑ لگادی۔ ماہان نظر نہیں آرہا تھا، خالدؓ کے ساتھ چند ایک محافظ تھے وہ رومیوں کے محاذ تک چلے گئے۔ ماہان نے ان کا استقبال کیا اور انہیں اپنے خیمے میں لے گیا۔ خیمے میں محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ میدانِ جنگ ہے۔ یہ شاہانہ کمرہ تھا۔’’میں ماہان ہوں۔‘‘ ماہان نے اپنا تعارف کرایا۔’’ رومی افواج کا سالارِ اعلیٰ!‘‘’’میں کچھ بھی نہیں ہوں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’میرا نام خالد بن ولید ہے۔‘‘’’تم سب کچھ ہو ابنِ ولید!‘‘ ماہان نے کہا۔’’ جہاں تک تم نہیں پہنچ سکے وہاں تک تمہارا نام پہنچ گیا ہے……میرا خیال ہے کہ تم جتنے قابل اور جرات مند سالار ہو اتنے ہی دانشمند انسان بھی ہو گے۔ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری چالیس ہزار فوج میرے اس لشکر کے ہاتھوں ماری جائے جو بڑی دور دور تک پھیلی ہوئی چٹانوں کی مانند ہے۔ دانشمند آدی چٹا نوں سے نہیں ٹکرایا کرتے۔‘‘’’بہت اچھے الفاظ ہیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ میں ان الفاظ کی قدر کرتا ہوں لیکن ہم وہ دانشمند ہیں جو باطل کی چٹانوں سے ڈرا نہیں کرتے۔ تم نے مجھے یہاں تک آنے کا موقع اس لئے دیا ہے کہ میں تمہارا لشکر دیکھ کر ڈر جاؤں۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘ ماہان نے کہا۔ ’’کیا تجھے اپنے سپاہیوں کے بیوی بچوں کا بھی کوئی خیال نہیں جو تمہارے لشکر کے ساتھ ہیں ؟ کیا تم نے سوچا نہیں کہ اگر تم سب مارے گئے تو یہ بیویاں بچے ہماری ملکیت ہوں گے؟‘‘’’ماہان!‘‘خالدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ ہم سب کچھ سوچ چکے ہیں …… صلح نہیں ہوگی۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘ ماہان نے کہا۔’’کیا تم یہ بھی نہیں سمجھ رہے کہ میں تم پر رحم کر رہا ہوں؟…… میں تمہیں، تمہارے سارے لشکر کو اور تمہارے خلیفہ کو بھی اتنی رقم پیش کروں گاجو تم سب کو حیران کر دے گی۔ ‘‘’’رحم کرنے والا صرف اﷲ ہے جس کے قبضے میں میری اور تیری جان ہے ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد اور رحم مانگتے ہیں۔اگر تو نہیں چاہتا کہ کشت و خون ہو تو اسلام قبول کرلے جو اﷲکا سچا دین ہے۔‘‘’’نہیں!‘‘ ماہان نے بڑے رعب سے جواب دیا۔’’اگر مجھے، میرے لشکر اور میرے خلیفہ کو انعام دینا ہے تو جزیہ ادا کردے۔ ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن جزیہ لے کر ہم چلے نہیں جائیں گے بلکہ تجھے اور ہرقل کی رعایا کی حفاظت ، عزت اور ہر ضرورت کے ذمہ دار ہوں گے…… اگر یہ بھی منظور نہیں تو میدانِ جنگ میں ہماری تلواروں کی ملاقات ہو گی۔‘‘

مؤرخ واقدی، بلاذری اور ابو یوسف نے لکھاہے کہ خالدؓ ماہان پر اپنابڑا ہی اچھا تاثر چھوڑ آئے اور ماہان کا جو تاثر لے کر آئے وہ بھی اچھا تھا۔اس نے کوئی اوچھی بات نہ کی۔ خالدؓ نے واپس آکر ابو عبیدہ ؓکو ایک تو یہ بتایا کہ ماہان کے ساتھ کیا بات ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ماہان کتنا اچھا اور کتنا باوقار سپہ سالار ہے۔’’پھر اس میں ایک ہی خرابی ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’اس کی عقل و دانش شیطان کے قبضے میں ہے۔ خالدؓ ماہان کو آخری فیصلہ سناآئے کہ صلح نہیں ہوگی۔ابو عبیدہؓ نے اپنے تمام سالاروں کو اکٹھا کرکے بتایا کہ دشمن نے صلح کی پیشکس کی تھی جو ٹھکرادی گئی ہے اوراب لڑائی نا گزیر ہوگئی ہے اور تمام مجاہدین کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ رومیوں نے ہمیں اپنے لشکر اور اپنی جنگی طاقت سے ڈرایا ہے۔مؤرخ کے مطابق خالدؓاور ماہان کی بات چیت کی ناکامی کے بعد جب دونوں طرف کی فوجوں کو بتایا کہ جنگ ہو کے رہے گی اور کل صبح سے فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں گی، اس وقت سے دونوں فوجوں پر ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی، رومی محاذ پر پادریوں نے لشکر کو صلیبیں دکھاکر مذہب کے نام پر گرمایا اور انہیں صلیب اور یسوع مسیح کے نام پر مر مٹنے کی تلقین کی۔پادریوں کے الفاظ اور ان کا انداز اتنا جوشیلا تھا کہ سپاہیوں نے صلیب کی طرف ہاتھ کرکے حلف اٹھائے کہ وہ فتح حاصل کریں گے ورنہ مر جائیں گے۔مسلمانوں نے عبادت اور دعا کیلئے رات کا وقت مقرر کیا۔ انہیں گرمانے اور جوش دلانے کیلئے وعظ کی ضرورت نہیں تھی۔ جس مقصد کیلئے وہ گھروں سے نکلے تھے اس مقصد کی عظمت سے وہ آگاہ تھے۔ انہوں نے اپنی جانیں اﷲ کے سپرد کردی تھیں۔اسی روز دونوں فوجوں نے صف بندی اور دستوں کو موزوں جگہوں پر پہنچانے کا کام شروع کر دیا۔ ماہان نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور انہیں آگے لاکر صف آراء کیا۔ اس کے محاذ کی لمبائی بارہ میل تھی اور گہرائی اتنی زیادہ کہ صفوں کے پیچھے صفیں تھیں جو دور پیچھے تک چلی گئی تھیں۔رومی افواج کو اس ترتیب سے کھڑا کیا گیا تھا کہ ایک پہلو پر سالار گریگری کے دستے تھے اور دوسرے پہلو پر سالار قناطیر کے دستے، قلب میں سالارِ اعلیٰ ماہان کی آرمینی فوج اور سالار دیرجان کے دستے تھے۔گھوڑ سوار دستوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیاتھا اور انہیں ایسی جگہوں پر کھڑا کیا گیاجہاں ان کے سامنے مسلمانوں کے پیادہ دستے تھے۔ رومیوں کے پاس سوار دستے اتنے زیادہ تھے کہ انہوں نے سواروں کے پیچھے بھی سوار کھڑے کر دیئے۔ سالار جبلہ بن الایہم کے سوار دستے اور شتر سواروں کو بارہ میل لمبے محاذ کے آگے کھڑا کیا گیا۔ماہان نے ایک بندوبست اور کیا، گریگری کے دستے ایک پہلو پر تھے۔ ان میں تیس ہزار پیادے تھے ان تمام پیادوں کو زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ ایک زنجیر میں دس دس آدمی باندھے گئے،زنجیریں اتنی لمبی تھیں کہ ان سے بندھے ہوئے سپاہی آسانی سے لڑ سکتے تھے۔ زنجیروں کا ایک مقصد یہ تھا کہ سپاہی بھاگ نہیں سکیں گے اور دوسرا مقصد یہ کہ مسلمان حملہ کریں گے تو ان زنجیروں سے الجھ جائیں گے گریں گے اور صفیں توڑ کر آگے نہیں نکل سکیں گے۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

خالدؓ رومیوں کی صف بندی دیکھ رہے تھے۔ سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے، ان میں ایک قابل سالار کی ساری خصوصیات موجود تھیں لیکن میدانِ جنگ میں بڑی احتیاط سے قدم اٹھاتے تھے اور خطرہ مول لینے سے کچھ گریز کرتے تھے۔ جنگِ یرموک میں انہوں نے سپہ سالاری کے فرائض خالدؓ کے حوالے کر دیئے تھے۔ یہ جنگ ایسی تھی جس میں خطرے مول لینے ہی تھے ۔دشمن کی اتنی زیادہ طاقت کے مقابلے میں روائتی طریقوں سے جنگ نہیں لڑی جا سکتی تھی ۔ سپہ سالار ابو عبیدہؓ ہی تھے انہوں نے یہ صورتِ حال خالدؓ کے سپرد کر دی تھی۔خالدؓنے ابو عبیدہؓ سے کہا کہ وہ تمام سالاروں اور کمانداروں کو اکٹھا کریں۔ خالدؓ انہیں صف آرائی اور جنگ کے متعلق کچھ بتانا چاہتے تھے۔چونکہ وہ سپہ سالار نہیں تھے اس لیے سالاروں پر ان کا حکم نہیں چل سکتاتھا۔ ابو عبیدہؓ نے سب کو بلا لیا۔خالدؓ نے انہیں بتایا کہ دشمن کی تعداد کو وہ دیکھ رہے ہیں اور اپنی تعداد بھی ان کے سامنے ہے اس لئے یہ زندگی اور موت کی جنگ ہو گی۔ اس کے بعدخالدؓ نے مجاہدین کو اس طرح تقسیم کیا چالیس ہزار تعداد میں کل دس ہزار گھوڑ سوار تھے، تیس ہزار پیادوں کو چھتیس حصوں میں تقسیم کیا، ہر حصے میں آٹھ سو سے نو سو پیادے آئے۔گھوڑ سواروں کو انہوں نے دو دو سو کے تین حصوں میں تقسیم کیا۔ایک کی کمان قیس بن ہبیرہ کو دی۔ دوسرے کی مسرہ بن مسروق کو اور تیسرے کی کمان عامر بن طفیل کو دی۔مسلمانوں کے محاذ کی لمبائی گیارہ میل تھی۔ یعنی دشمن سے ایک میل کم۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی صف آرائی کی گہرائی تھی ہی نہیں۔ ایک پہلو پر یزیدؓ بن ابی سفیان کے اوردوسرے پہلو پر عمروؓبن العاص کے دستے تھے، انہیں دو دو سو کا ایک سوار دستہ بھی دیا گیا تھا۔ابو عبیدہؓ قلب میں تھے۔ انہوں نے سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے دستوں کو اپنے ساتھ دائیں طرف رکھا۔ان کے ساتھ ساتھ سالار عکرمہؓ بن ابی جہل اور عبدالرحمٰن بن خالد بھی تھے۔ چار ہزار گھوڑ سواروں کو خالدؓنے اپنی کمان میں اگلی صفوں کے پیچھے رکھا تھا۔انہیں ہر اس جگہ پہنچنا تھا جہاں دشمن کا دباؤ زیادہ ہونا تھا اور ان سواروں نے گھوم پھر کر لڑناتھا۔اگلی صف کے پیادوں کو لمبی برچھیاں دی گئی تھیں۔جو نیزے کہلاتی تھیں۔ان کی انّیاں تین دھاری اور چار دھاری تھیں اور بہت تیز۔ ان پیادوں میں تیر انداز خاص طور پر رکھے گئے تھے۔رومیوں کے حملے کو نیزوں اور تیروں کی بوچھاڑوں سے روکنا تھا۔اس کے بعد تیغ زنوں نے اپنے جوہر دکھانے تھے۔اس دور کے رواج کے مطابق بہت سے مجاہدین کے بیوی بچے اور بعض کی بہنیں ان کے ساتھ تھیں ۔ان عورتوں اور بچوں کو فوج کے پیچھے رکھا گیا۔ابو عبیدہؓ وہاں گئے۔’’قوم کی بیٹیو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے عورتوں سے کہا۔’’ہم تمہاری حفاظت کریں گے لیکن تمہیں ایک کام کرنا ہے۔اپنے پاس پتھر جمع کر لو اور اپنے خیموں کے ڈنڈے اپنے ہاتھوں میں رکھو۔اگر کوئی مسلمان بھاگ کر پیچھے آئے تو اسے پتھر مارو۔ ڈنڈے اس کے منہ پر مارو۔ بھاگنے والوں کی بیویوں اور بچوں کو ان کے سامنے کھڑا کر دو۔‘‘عورتوں نے اسی وقت خیموں سے ڈنڈے نکال لیے اور پتھر اکٹھے کرنے لگیں۔

صف بندی ہو چکی تو ابو عبیدہؓ ، خالدؓ اور دوسرے سالار ایک سرے سے دوسرے سرے تک گئے۔وہ مجاہدین کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔وہ ہنستے اور مسکراتے تھے اور کہیں رک جاتے تو خالدؓ چندالفاظ کہہ کر ان کے جذبوں کو سہارا دیتے تھے۔ ان کے الفاظ کچھ اس قسم کے تھے کہ اﷲ کی طرف سے بڑے سخت امتحان کا وقت آگیا ہے۔ اﷲ کی مدد اسی کو حاصل ہوتی ہے جو ا س کی راہ پر ثابت قدم رہتا ہے، دنیا میں اور آخرت میں عزت اور تکریم انہیں ملتی ہے جن کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہوتی ہے، اور وہ کفر کی تیز دھار تلوار کا مقابلہ بے خوف ہو کرکرتے ہیں۔مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ یہ سالار ایک دستے کے سامنے سے گزرے تو ایک مجاہد نے کہا ۔’’رومی اتنے زیادہ اور ہم کتنے تھوڑے ہیں۔‘‘خالدؓ نے گھوڑا روک لیا۔’’میرے رفیق!‘‘ خالدؓ نے بڑی بلند آواز میں کہا۔’’کہو رومی کتنے تھوڑے اور ہم کتنے زیادہ ہیں۔طاقت تعداد کی نہیں ہوتی، طاقت اﷲ کی مدد سے بنتی ہے، تعداد رومیوں کے پاس ہے اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ اﷲجس کا ساتھ چھوڑ دے وہ بہت کمزور ہو جاتا ہے۔‘‘زیادہ تر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ سالار اور کماندار جب اپنی فوج میں گھوم پھر رہے تھے تو یہ آیت بلند آواز پڑھتے جاتے تھے:’’کتنی ہی بار چھوٹی چھوٹی جماعتیں اﷲ کے چاہنے سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ اﷲ صبر و استقامت والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘قرآن حکیم ۲/۲۴۹۔

وہ اگست ۶۳۶ء کے تیسرے ، رجب ۱۵ ھ کے دوسرے ہفتے کی ایک رات تھی۔مجاہدین تمام رات عبادتِ الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں مصروف رہے۔اﷲ کے سوا کون تھا جو ان کی مدد کو پہنچتا۔ اکثر مجاہدین سورہ انفال کی تلاوت کرتے رہے۔رومی محاذ بھی شب بھر بیدار رہا۔ وہاں پادریوں نے سپاہیوں کو عبادت اور دعا میں مصروف رکھا۔ دونوں طرف مشعلیں بھی جلتی رہیں اور جگہ جگہ لکڑیوں کے ڈھیر جلتے رہے تاکہ رات کو دشمن حملہ کرنے آئے تو آتانظرآجائے۔ دونوں فوجوں پر ہیجان اور کھچاؤکی کیفیت طاری تھی۔مسلمانوں کے محاذ سے صبح کی اذان کی آواز اٹھی۔ مجاہدین نے وضو اور زیادہ تر نے تیمم کرکے باجماعت نماز پڑھی اور اپنی جگہوں پر چلے گئے۔جنگ شروع ہونے والی تھی جس کا شمار تاریخ کی بہت بڑی جنگوں میں ہوتا ہے۔سورج افق سے اٹھا تو اس نے زمین پر بڑا ہی ہیبت ناک منظر دیکھا ۔چالیس ہزار کی فوج ڈیڑھ لاکھ نفری کی فوج کے مقابلے میں کھڑی تھی۔ شان تو ہرقل کے لشکر کی تھی اس کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور بہت سی صلیبین اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ اس میں ذرا سے بھی شک کی گنجائش نہیں تھی کہ یہ لشکر اپنے سامنے کھڑی اس چھوٹی سی فوج کو نیست و نابود کر دے گا۔جرجہ رومی فوج کا ایک سالار تھا جو انفرادی مقابلوں میں بہت شہرت رکھتا تھا، اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کے حکم سے وہ آگے بڑھا۔’’کیا خالد بن ولید میں اتنی ہمت ہے کہ میری تلوار کے سامنے آسکے؟‘‘ جرجہ نے للکار کر کہا۔’’میں ہوں رومیوں کا قاتل!‘‘ خالدؓ للکارتے ہوئے آگے بڑھے۔’’ میں ہوں خالد بن ولید!‘‘ خالدؓ دونوں فوجوں کے درمیان جا کر رُک گئے، انہوں نے تلوار نکال لی تھی لیکن جرجہ نے تلوار نہ نکالی۔ وہ گھوڑے پر سوار آ رہا تھا۔ خالدؓ اپنے گھوڑے کو اس کے گھوڑے کے اتنا قریب لے گئے کہ دونوں گھوڑوں کی گردنیں مل گئیں ۔جرجہ نے پھر بھی تلوار نہ نکالی۔

’’ابنِ ولید!‘‘ جرجہ نے کہا۔’’جھوٹ نہ بولنا کہ جنگجو جھوٹ نہیں بولا کرتے۔ دھوکہ بھی نہ دینا کہ اعلیٰ نسل کے لوگ دھوکہ نہیں دیا کرتے۔‘‘’’پوچھ اے دشمنِ اسلام!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’جنگجو جھوٹ نہیں بولے گا دھوکہ نہیں دے گا۔ پوچھ کیا پوچھتا ہے؟‘‘’’کیا میں اسے سچ سمجھوں کہ تیرے رسول(ﷺ) کو خدا نے آسمان سے تلوار بھیجی تھی؟‘‘ جرجہ نے پوچھا۔’’ اور یہ تلوار تیرے رسول(ﷺ) نے تجھے دی تھی؟اور جب تیرے ہاتھ میں یہ تلوار ہوتی ہے تو دشمن شکست کھاکر بھاگ جاتا ہے؟‘‘’’یہ سچ نہیں! ‘‘خالدؓنے کہا۔’’پھر تو سیف اﷲ کیوں کہلاتا ہے؟‘‘ جرجہ نے پوچھا۔’’ پھر تو اﷲ کی شمشیر کیوں بنا؟‘‘’’سچ یہ ہے کہ اے دشمنِ اسلام!‘‘ خالدؓنے کہا۔’’رسول اﷲ ﷺ نے میری تیغ زنی کے جوہر دیکھے تھے تو آپ ﷺ  نے بے ساختہ کہا تو اﷲ کی تلوار ہے۔ آپﷺ نے مجھے اپنی تلوار انعام کے طور پر دی تھی۔ اب نکال اپنی تلوار اور تو بھی اس کا ذائقہ چکھ لے۔‘‘’’اگر میں تلوار نہ نکالوں تو؟‘‘’’پھر کہو، لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔ ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ تسلیم کر کہ محمد ﷺ  اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘’’میں ایساکہنے سے انکار کر دوں تو تو کیا کرے گا؟‘‘’’پھر تجھ سے جزیہ مانگوں گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور تجھے اپنی حفاظت میں رکھوں گا۔‘‘’’اگر میں جزیہ دینے سے انکار کر دوں؟‘‘’’پھر نکال اپنی تلوار!‘‘خالدؓنےکہا۔’’اور پہلا وار کر لے کہ تجھے کوئی افسوس نہ رہے کہ وار کرنے کا تجھے موقع نہیں ملا تھا۔‘‘جرجہ کچھ دیر خاموش رہا اور خالدؓ کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔’’اگر کوئی آج اسلام قبول کرے تو اس کو کیا درجہ دو گے؟‘‘ جرجہ نے پوچھا۔’’وہی درجہ جو ہر مسلمان کا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اسلام میں کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں۔‘‘’’میں تیرے مذہب میں آنا چاہتا ہوں۔‘‘جرجہ نے کہا۔’’میں اسلام قبول کرتا ہوں۔‘‘خالدؓ کے چہرے پر حیرت کا بڑا گہرا تاثر آگیا۔’’کیا تو اپنے ہوش و حواس میں ہے اے رومی سالار!‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔’’ہاں ابنِ ولید!‘‘ جرجہ نے جواب دیا۔’’مجھے اپنے ساتھ لے چل۔‘‘خالدؓ نے اپنا گھوڑا موڑا۔ جرجہ نے اپنا گھوڑا خالدؓکے پہلو میں کر لیا اور وہ مسلمانوں کے محاذ میں آگیا۔ خالدؓ نے اسے کلمہ پڑھایا اوروہ مسلمانوں کے محاذ میں شامل ہو گیا۔مسلمانوں نے تکبیر کے نعرے بلند کیے اور رومی لشکر نے بڑی بلند آواز سے جرجہ پر لعن طعن کی لیکن جرجہ کو کچھ اثر نہ ہوا۔بڑی ہی خونریز جنگ شروع ہونے والی تھی اور جرجہ اپنے ہی لشکر کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔اگست ۶۳۶ء مسلمانوں کے بڑے ہی سخت امتحان کا مہینہ تھا۔ رومیوں کا ایک سالار اسلام قبول کرکے مسلمانوں کے پاس آگیا تھا۔ مسلمانوں نے خوشی کے نعرے تو بہت لگائے تھے لیکن انہیں احساس تھا کہ دشمن کے ایک سالار کے اِدھر آجانے سے رومیوں کے اتنے بڑے لشکر میں ذرا سی بھی کمزوری پیدا نہیں ہوگی اور دشمن کے لڑنے کے جذبے میں بھی کوئی فرق نہیں آئے گا۔مسلمانوں کو اتنے بڑے اور ایسے منظم لشکر کا سامنا پہلی بار ہوا تھا۔ اسلام کیلئے یہ بڑا ہی خطرناک چیلنج تھا جو اسلام کے شیدائیوں نے قبول کر لیا تھا۔ مسلمان ایک خودکش جنگ کیلئے تیار ہو گئے تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان عورتیں بھی مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے تیار ہو گئی تھیں۔ انہیں ابو عبیدہؓ نے تو یہ کہا تھا کہ خیموں کے ڈنڈے نکال لیں اور پتھر اکٹھے کر لیں اور جومسلمان بھاگ کر پیچھے آئے اس پر پتھر برسائیں اور اس کے منہ پر ڈنڈے ماریں لیکن عورتوں نے اپنے آپ کو جنگ میں کود پڑنے کیلئے بھی تیار کر لیا تھا، دونوں فوجوں کی نفری ان کے سامنے تھی۔

وہاں تو ہر مسلمان عورت میں اپنے مردوں جیسا جذبہ تھا لیکن ان میں چند ایک عورتیں غیر معمولی جذبے والی تھیں۔ ان میں ایک خاتون ہند اور دوسری خولہ بنت الازور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ہُند کا پہلے ذکر آچکا ہے وہ ابو سفیانؓ کی بیوی تھی۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے جنگِ احد میں انہوں نے اپنے قبیلے کا حوصلہ بڑھانے کیلئے میدانِ جنگ میں گیت گائے تھے۔ یہ گیت رزمیہ نہیں تھے اور باقاعدہ جنگی ترانے بھی نہیں تھے، ان گیتوں میں اپنے آدمیوں کی مردانگی کو ابھارا گیا تھا اور کچھ اس قسم کے الفاظ تھے کہ ’’تم ہار گئے تو تمہاری بیویاں تمہیں اپنے جسموں کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیں گی‘‘ ہند کا چچا اس لڑائی میں حمزہؓ کے ہاتھوں مارا گیا تو ہند نے مشہور برچھی باز وحشی کو حمزہؓ کے قتل کے لیے کہا اور اسے انعام پیش کیا تھا۔وحشی کی پھینکی ہوئی برچھی کبھی خطا نہیں گئی تھی۔ اس نے میدانِ جنگ میں حمزہؓ کو ڈھونڈ نکالا اور تاک کر برچھی ماری۔ برچھی حمزہؓ کے پیٹ میں اتر گئی اور وہ شہید ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد ابو سفیانؓ نے اور ہند نے اسلام قبول کر لیا اور اب اس عورت کا وہی جوش و خروش اور جذبہ اسلام کی سربلندی کی خاطر لڑی جانے والی جنگوں میں کام آرہا تھا، ان کا بیٹا یزیدؓ بن ابو سفیان اسلامی لشکر میں سالار تھا۔دوسری نامور خاتون خولہ بنت الازور تھیں، جو ضرار بن الازور کی بہن تھیں۔ ضرار کا بہت ذکر آچکا ہے۔ وہ خود، ذرہ اور قمیض اتار کر لڑا کرتے تھے۔ اس غیر معمولی دلیری کی وجہ سے ضرار رومیوں میں ننگا ہو کر قہر اور غضب سے لڑنے والے کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔ دو سال پہلے ضرار ایک معرکے میں رومیوں کی صفوں میں اتنی دور چلے گئے کہ بہت سے رومیوں نے انہیں گھیر لیا اور زندہ پکڑ لیا تھا ۔ضرار رومیوں کیلئے بہت اہم شکار تھے۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رومی انہیں زندہ چھوڑ دیں گے۔اور یہ بھی کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ ضرار کی بہن خولہ انہیں چھڑا لے آئیں گی۔ پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ خولہ ایک معرکے میں چہرے پر نقاب اور سر پر سبز عمامہ رکھ کر رومیوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑی تھیں۔وہ خالدؓ کے قریب سے گزر کر آگے گئی تھیں۔خالدؓ انہیں اپنا کوئی مجاہد سمجھ رہے تھے،انہوں نے آخر انہیں اپنے پاس بلایا تو انہیں پتہ چلا کہ یہ کوئی آدمی نہیں بلکہ ایک عورت ہے اورضرار بن الازور کی بہن ہے۔یہ اطلاع مل گئی کہ رومی ضرار کو پابجولاں کرکے فلاں طرف لے جا رہے ہیں، رومیوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔رافع بن عمیرہ کو ایک سو سوار دے کر خالدؓ نے ضرار کو چھڑا لانے کو بھیجاتو خولہ بھی پیچھے پیچھے چلی گئیں۔خالدؓ کو ان کے جانے کا علم نہیں تھا۔جب وہ رافع بن عمیرہ کے سواروں سے جا ملیں تو رافع نے بھی انہیں روکا تھا لیکن خولہ رکی نہیں۔انہوں نے اپنے بھائی کو آزاد کرانے کیلئے رومیوں پر حملے پر حملہ کیا تو مردوں کو حیران کر دیا تھا۔اس طرح جان کی بازی لگا کر ضرار کر رومیوں سے چھڑا لیا تھا اورا پنے ساتھ لے آئی تھیں،ان کے وہ الفاظ جو انہوں نے ضرار کو گلے لگا کر کہے تھے، تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ’’میرے عزیز بھائی! میرے دل کی تپش دیکھ، کس طرح تیرے فراق میں جل رہا ہے۔‘‘اب جبکہ رومی بلند و بالا پہاڑ کی طرح سامنے کھڑے تھے تو ہند اور خولہ اور دوسری مسلمان عورتیں صرف بیویوں اور بیٹیوں کی حیثیت سے بیٹھی نہیں رہ سکتی تھیں،نہ وہ اپنے فرض کو صرف دعاؤں تک محدود رکھ سکتی تھیں،ہند اور خولہ عورتوں کے کیمپ میں مردانہ چال چلتی گھوم پھر رہی تھیں۔وہ عورتوں کو لڑائی کیلئے تیار کر رہی تھیں۔انہوں نے یہاں تک فیصلہ کر لیا تھا کہ بچوں والی عورتوں کو پیچھے پھینک کر آگے چلی جائیں گی۔

رومی سالار جرجہ نے خالدؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، اور اس کے ساتھ ہی انفرادی مقابلے پھر شروع ہو گئے۔ رومی اپنے سالار جرجہ کی کمی کی خفت یوں مٹانے لگے کہ وہ اپنے چنے ہوئے سالاروں کو انفرادی مقابلوں کیلئے اتارتے جا رہے تھے عموماً تین چار مقابلے ہوا کرتے تھے لیکن مقابلوں کو ختم ہی نہیں ہونے دے رہے تھے۔ ادھر سے کوئی سالار نائب سالار یا کوئی کماندار سامنے آکر رومیوں کو للکارتا تو رومی اپنے کسی نامی گرامی تیغ زن یا پہلوان کو آگے کر دیتے تھے۔ تقریباً ہر مقابلے میں رومی مارا گیا یا بھاگ گیا۔خلیفہ اول ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن مقابلے کیلئے سامنے آئے۔ ’’میں ہوں رسول اﷲ ﷺ  کے پہلے خلیفہ ابی بکر کا بیٹا!‘‘ عبدالرحمٰن نے دونوں فوجوں کے درمیان گھوڑا ایک چکر میں دوڑاتے ہوئے للکار کر کہا۔ ’’رومیوں! میری حیثیت کا کوئی سالار آگے بھیجو۔‘‘تاریخ میں اس رومی سالار کا نام نہیں ملتا جو ان کے مقابلے میں آیا وہ جو کوئی بھی تھا بڑی جلدی کٹ کر گرا۔’’کیا اتنے بڑے لشکر میں میرے پائے کاکوئی سالار نہیں؟‘‘ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے رومیوں کو للکارا۔رومیوں کی صفوں سے کالے رنگ کا ایک گھوڑا نکلا جس کا قد اونچا نہیں تھا۔ سر سے دُم تک لمبائی عام گھوڑوں سے زیادہ تھی۔ اس کا چمکتا ہوا جسم گٹھا ہوا اور غیر معمولی طور پر موٹا تازہ تھا۔ گھوڑا دوڑتا تو زمین ہلتی محسوس ہوتی تھی۔ وہ اپنے سوار کے قابو میں تھا لیکن اس کا چال اور مستی ایسی تھی جیسے اپنے سوارکے قابو میں نہ ہو۔ اس کا سوار گورے رنگ کا تھا اور اپنے گھوڑے کی طرح فربہ جسم کا تھا وہ پہلوان لگتا تھا۔ ’’اے بد قسمت جوان!‘‘ رومی سالار نے للکار کر کہا۔ ’’کیا تو روم کے بیٹے ایلمور کی برچھی کے سامنے کچھ دیر اپنے گھوڑے پر بیٹھا نظر آتا رہے گا؟‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ عبدالرحمٰن نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر کہا ۔’’روم والے ابھی وہ برچھی نہیں بنا سکے جو ابنِ ابی بکر کو گھوڑے سے گرا سکے۔‘‘ ایلمور کی برچھی کالے گھوڑے کی رفتار سے عبدالرحمٰن کی طرف آرہی تھی۔ عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ گھوڑے ایک دوسرے کے قریب آئے تو ایلمور نے رکابوں میں کھڑے ہو کر عبدالرحمٰن کو برچھی ماری لیکن عبدالرحمٰن نے اپنے گھوڑے کو ذرا ایک طرف کر دیا اور خود پہلو کی طرف اتنا جھک گئے کہ رومی سالار کی برچھی کا وار خالی گیا۔ عبدالرحمٰن نے وہیں سے گھوڑا موڑا اور بڑی تیزی سے ایلمور کے پیچھے گئے۔ ایلمور ابھی گھوڑے کو موڑ رہا تھا عبدالرحمٰن کی تلوار اس کی اس کلائی پر پڑی جس ہاتھ میں اس نے برچھی پکڑ رکھی تھی۔ ہاتھ صاف کٹ کر بازو سے الگ ہو گیا۔ برچھی اس ہاتھ سمیت جس نے اسے پکڑ رکھا تھا زمین پر جا پڑی یہ زخم معمولی نہیں تھا۔ ایلمور بلبلا اٹھا۔ عبدالرحمٰن کا گھوڑا اس کے اردگرد دوڑ رہا تھا۔ ایلمور نے کٹے ہوئے ہاتھ والا بازو اوپر اٹھایا وہ اس ٹنڈ منڈ بازو سے ابل ابل کر بہتے ہوئے خون کو دیکھ رہا تھا کہ عبدالرحمٰن کی تلوار اس کی بغل میں گہری اتر گئی۔ ایلمور نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رُخ اپنے لشکر کی طرف کر لیا، وہ اپنے لشکر تک نہ پہنچ سکا۔ راستے میں ہی گر پڑا۔ اس کا کالا گھوڑا اپنے لشکر تک پہنچ گیا۔ عبدالرحمٰن نے ایک بار پھر رومیوں کو للکارا لیکن خالدؓ نے انہیں پیچھے بلا لیا۔ ضروری نہیں تھا کہ عبدالرحمٰن ہر مقابلہ جیت جاتے۔ یکے بعد دیگرے چھ سات مسلمان سالار انفرادی مقابلوں کیلئے گئے اور ان کے مقابلے میں اترنے والے رومی مارے گئے۔ یا شدید زخمی ہوکر بھاگ گئے۔ عبدالرحمٰن ایک بار پھر بغیر کسی کی اجازت کے آگے چلے گئے اور رومیوں کو للکارا۔ ایک رومی سالار ان کے مقابلے میں آیا اور واپس نہ جا سکا۔ یہ تیسرا رومی سالار تھا جو عبدالرحمٰن کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اس طرح عبدالرحمٰن نے تین رومی سالاروں کو مار ڈالا۔ خالدؓ نے انہیں سختی سے کہا کہ اب وہ آگے نہ جائیں۔ 

’’اب کوئی آگے نہیں جائے گا۔‘‘ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان نے حکم دیا اور اپنے ساتھ کے سالاروں سے کہا ۔’’اگر یہ مقابلے جاری رہے تو ہمارے پاس کام کا کوئی ایک بھی سالارنہیں رہ جائے گا۔کیا ہمیں اعتراف نہیں کر لینا چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا سالار یا کوئی اور آدمی نہیں جو دو بدو مقابلے میں مسلمانوں کو شکست دے سکے۔ اگر ہم اپنے سالاروں کو اسی طرح مرواتے گئے تو اپنے لشکر پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔‘‘ ’’بہت برا اثر پڑ رہا ہے ۔‘‘ ایک تجربہ کار سالار نے کہا۔’’ میدان میں دیکھیں صرف ہمارے سالاروں اور کمانداروں کی لاشیں پڑی ہیں اور مسلمان ہمیں طعنے دے رہے ہیں۔ ہم اتنا لشکر کیوں لائے ہیں، ان چند ہزار مسلمانوں کو ہم اپنے گھوڑوں کے قدموں تلے کچل دیں گے۔ ان کی لاشیں پہچانی نہیں جائیں گی۔‘‘’’ہمیں پورے لشکر سے ایک ہی بار حملہ کر دینا چاہیے۔‘‘ قلب کے ایک سالارنے کہا۔ ’’نہیں!‘‘ماہان نے کہا۔’’مسلمانوں سے اتنی بار شکست کھا کر بھی تم مسلمانوں کو نہیں سمجھے؟ مسلمانوں کی نفری جتنی کم ہوتی ہے یہ اتنے ہی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔میں پہلا حملہ ذرا کم نفری سے کروں گا اور دیکھوں گا کہ یہ اپنے آپ کو بچانے کیلئے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ آدھا دن گزر گیا تھا۔ سورج سر پر آگیا تھا۔ اگست کی گرمی اور حبس کا عروج شروع ہو چکا تھا۔ ماہان نے اتنی ہی نفری حملے کیلئے آگے بڑھائی جتنی مسلمانوں کی تھی۔ یہ اس کے اپنے لشکر کی نفری کا چوتھا حصہ تھا۔ یعنی تقریباً چالیس ہزار۔ یہ تمام نفری پیادوں کی تھی جب یہ نفری رومیوں کی دفوں کی تال پر آگے بڑھی تو لگتا تھا جیسے طوفانی سمندر کی موجیں پہلو بہ پہلو بپھری ہوئی غراتی ہوئی اپنے ساتھ ہی سب کچھ بہالے جانے کو آرہی ہیں۔ ’’اسلام کے پاسبانو!‘‘ کسی مجاہد کی گرجدار آواز بلند ہوئی۔’’ آج کا دن تمہارے امتحان کا دن ہے۔ اﷲ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘مسلمانوں کی صفوں سے تکبیر کے نعرے گرجے۔ اگلی صف میں جو لمبی برچھیوں والے تھے اور جو تیر انداز تھے وہ تیار ہو گئے۔ ایک ایک تیر کمانوں میں چلا گیا برچھیاں تن گئیں۔ ہر مجاہد کی زبان پر ا ﷲ کا نام تھا۔ بعض کسی نہ کسی آیت کا ورد کر رہے تھے۔رومی پیادوں کا سیلاب قریب آگیا تھا۔ اسلام کے نیزہ بازوں نے بڑھ بڑھ کر برچھیوں کے وار شروع کر دیئے، آگے والے رومی گرتے تھے تو پیچھے والے انہیں روندتے ہوئے آگے بڑھتے۔ نیزہ بازوں کاکام کچھ تو تیر اندازوں نے آسان کر دیاتھا۔ رومی ابھی برچھیوں کی زد سے دور ہی تھے کہ ان پر تیر اندازوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا تھا۔ رومیوں نے تیروں کو ڈھالوں پر لینے کی کوشش کی تھی۔ پھر بھی کئی رومی تیروں کا شکار ہو گئے ۔ اس سے رومیوں کی پیش قدمی کی رفتار سست ہو گئے ۔آگے آئے تو مسلمانوں کی برچھیوں نے انہیں چھلنی کرنا شروع کر دیا۔ لیکن ان رومیوں کا حملہ مسلمانوں کے سارے محاذ پر نہیں بلکہ گیارہ میل لمبے محاذ کے تھوڑے سے حصے پر تھا۔

اتنے تھوڑے حصے پر اتنی زیادہ نفری کا حملہ روکنا آسان نہیں تھا۔ رومی پیادے بڑھے آرہے تھے۔ حالانکہ ان کا نقصان خاصہ زیادہ ہو رہا تھا۔ مسلمان تیر اندازوں اور نیزہ بازوں نے جب دیکھا کہ رومی سر پر آگئے ہیں تو انہوں نے تلواریں نکال لیں اور معرکے کی خونریزی میں اضافہ ہو گیا۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ نے اپنے دماغ حاضر اور حوصلے قائم رکھے۔صورتِ حال ایسی ہو گئی تھی کہ محاذ کے جس حصے پر اتنا زور دار حملہ ہوا تھا۔ اسے کمک سے مذید مضبوط کیا جاتا لیکن خالدؓ اس سے بھی زیادہ خطرے مول لینے والے سالار تھے۔ انہوں نے محاذ کے کسی اور حصے کو کمزور کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مجاہدین کو معلوم تھا کہ وہ کتنے کچھ ہیں اور ان کے پاس کیا ہے۔ انہی حالات میں لڑنا تھا وہ دیکھ رہے تھے کہ جنگ فیصلہ کن ہوگی چنانچہ انہوں نے کمک اور مدد کی امید دل سے نکال پھینکی تھی۔ مدد کیلئے وہ صرف اﷲ کو پکارتے تھے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ رومی سالار احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان دیکھ رہا تھا کہ اس کے حملہ آور پیادے کٹ رہے ہیں اور وہ مقصد پورا کرتا نظر نہیں آرہا تھا جس مقصد کیلئے اس نے حملہ کرایا تھا۔ پھر بھی اس نے اپنے حملہ آور پیادوں کو پیادہ یا سوار دستے کی کمک نہ دی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ماہان کو یہ توقع تھی کہ مسلمان اس حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے پورے محاذ کو درہم برہم کر دیں گے۔ لیکن اس کی یہ توقع پوری نہیں ہو رہی تھی۔ کمک نہ ملنے کا اور اپنے اتنے زیادہ نقصان کااثر رومی حملہ آور پیادوں پر بہت برا ہوا۔ قریب تھا کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ جاتے کہ ان کے سالار نے انہیں پیچھے ہٹا لیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سورج غروب ہو رہا تھا۔وہ منظر جذباتی سا تھا جب مجاہدین جو اپنی جگہ سے آگے چلے گئے تھے، واپس آئے۔ ان کی عورتیں ان کی طرف دوڑ پڑیں۔ وہ اپنے خاوندوں کو پکار رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے مردوں کو گلے لگایا اور جو زخمی تھے ان کی باقاعدہ مرہم پٹی کرنے سے پہلے اپنی اوڑھنیاں پھاڑ پھاڑکر ان کے زخم صاف کیے اور ان پر اوڑھنیوں کی پٹیاں باندھ دیں۔عورتیں پانی کے مشکیزے اٹھائے میدانِ جنگ میں پھیل گئیں۔ وہ ان زخمیوں کو ڈھونڈتی پھرتی تھیں جو اپنے سہارے اٹھ کر چلنے کے قابل نہیں تھے، عورتوں کے انداز میں والہانہ پن اور دیوانگی سی تھی۔ وہ شدید زخمی ہو جانے والوں کو پانی پلاتیں ان کے زخموں پر کپڑے پھاڑ کرپٹیاں باندھتیں اور انہیں اٹھا کر اپنے سہارے پیچھے لا رہی تھیں۔شام گہری ہو گئی تو میدانِ جنگ میں مشعلیں نظر آنے لگیں۔ عورتوں کے ساتھ مجاہدین بھی اپنے شدید زخمی اور شہید ساتھیوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کے حوصلے بلند تھے۔ انہوں نے بڑا ہی شدید حملہ بیکار کر دیا تھا۔ میدانِ جنگ میں رومیوں کی لاشیں دیکھ کر ان کے حوصلے اور جذبے کو مزید تقویت ملی۔ مسلمانوں کے مقابلے میں رومیوں کا نقصان بہت زیادہ تھا۔بہت سے رومی ایک گروہ یا جیش کی صورت میں مشعلیں اٹھائے آگے آئے۔ وہ اپنے زخمیوں کو اور اپنے اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو اٹھانے آئے تھے۔ وہ ایسی ترتیب اور ایسے انداز سے چلے آ رہے تھے جیسے حملہ کرنے آرہے ہوں۔ مسلمان جو اپنے زخمی ساتھیوں کو اٹھا رہے تھے ، تلواریں نکال کر ان پر ٹوٹ پڑے، اچھا خاصا معرکہ ہوا۔’’ہم اپنے زخمیوں کو اٹھانے آئے ہیں۔‘‘ رومیوں کی طرف سے آواز بلند ہوئی۔’’تم زخمی ہو کر ہی اپنے زخمیوں کو اٹھا سکو گے۔‘‘مجاہدین کی طرف سے جواب گرجا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی