🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 48*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *48* ۔۔۔۔

 راستے میں کئی نشانیاں اور کئی آثا ر انہیں یقین دلاتے رہے کہ اس راستے پر ایک فوج گزری ہے۔تھیوڑورس آدھی رات سے پہلے مرج الروم سے روانہ ہو گیا۔ خالدؓ رات کے آخری پہر روانہ ہوئے اور دمشق اس وقت پہنچے جب مسلمان ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں کمک کی ذرا سی بھی توقع نہیں تھی۔خالدؓ کو وہاں وہی نظر آیا جو انہوں نے سوچا تھا۔ انہوں نے عقب سے رومیوں پر ہلہ بول دیا۔ خالدؓ کو رومیوں کا پرچم نظر آیا تو اپنے محافظوں کے ساتھ وہاں جا پہنچے۔انہیں تھیوڈورس بوکھلاہٹ کے عالم میں دکھائی دیا۔ اسے دمشق اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا۔وہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور اس کی فوج فتح کے قریب پہنچ کر کٹنے لگی تھی۔’’میں رومیوں کا قاتل ہوں۔‘‘ خالدؓ نے تھیوڈورس کو للکارا۔’’میں وہیں سے آیا ہوں جہاں سے رات کو تو آیا تھا۔‘‘تھیوڈورس نے تلوار نکال لی۔دونوں سالاروں کے محافظ الگ ہٹ گئے۔ خالدؓ نے تھیوڈورس کے دو تین وار بے کار کر دیئے اور اس کے اردگرد گھوڑا دوڑاتے رہے۔تھیوڈورس کو بھرپور وار کر نے کیلئے موزوں پوزیشن نہیں مل رہی تھی۔ وہ خالدؓ کے رحم و کرم پر تھا وہ مانا ہوا جنگجو سالار تھا لیکن اس کا مقابلہ ایسے سالار کے ساتھ آپڑا تھا جو ہر لمحہ شکار کی تلاش میں رہتا تھا۔ آخر اس نے بڑے غصے میں خالدؓ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ نے ایک پینترا بدل کر اپنے آپ کو تھیوڈورس کی زد سے دور کر لیا اور دوسرے پینترے میں ایسا وار کیا کہ تھیوڈورس گھوڑے پر بھی دوہرا ہو گیا۔خالدؓ کے دوسرے وار نے اسے ختم کر دیا۔اب رومیوں کے کرنے کا ایک ہی کام رہ گیا تھا کہ بھاگیں اور اپنی جانیں بچائیں۔ وہ رومی خوش قسمت تھے جو زندہ نکل گئے۔ مالِ غنیمت میں زرہ، خودیں ،ہتھیار، اور گھوڑے قابلِ ذکر تھے۔ادھر ابو عبیدہؓ نے دوسرے رومی سالار شنس کو ختم کر دیا تھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کو اس حکم کے ساتھ روانہ کر دیا کہ وہ حمص پہنچ کر وہاں کا محاصرہ کر لیں۔ ابو عبیدہؓ خود ایک اور اہم مقام بعلبک کی طرف روانہ ہو گئے۔ توقع یہ تھی کہ ان دونوں جگہوں کا محاصرہ طول پکڑے گا اور مقابلہ بڑا سخت ہو گا لیکن (مؤرخوں کے مطابق) مسلمانوں کی تلوار کی دہشت وہ کام نہیں کر سکتی تھی جو ان کے حسنِ اخلاق نے کیا۔ مسلمان جدھر جاتے تھے وہاں کے لوگوں میں پہلے ہی مشہور ہو چکا ہوتا تھا کہ مسلمان کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرتے اور وہ انہی شرطوں کے پابند رہتے ہیں جو وہ پیش کرتے ہیں۔اس دور کی فاتح فوجیں سب سے پہلے مفتوح شہر کی خوبصورت عورتوں پر ہلہ بولتی تھیں۔ پھر لوگوں کے گھر لوٹ لیتیں اور گھروں کو آگ لگا دیتی تھیں۔یہ اس زمانے کا رواج تھا اور اسے فاتح فوجوں کا حق سمجھا جاتا تھا لیکن مسلمانوں نے اس رواج کو نہ اپنایا بلکہ نہتے لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ ابو عبیدہؓ بعلبک پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا تو وہاں جو رومی دستہ تھا اس نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔خالدؓ نے حمص کا محاصرہ کیا تو رومی سالار ہربیس باہر آگیا اور امن کے سمجھوتے کی پیش کش کی۔ابو عبیدہؓ بھی پہنچ چکے تھے ان کے حکم سے رومی سالار سے دس ہزار دینار اور زر بفت کی ایک سو قباؤں کا مطالبہ کیا گیا جو رومی سالار نے قبول کر لیا۔معاہدہ یہ ہوا کہ مسلمان ایک سال تک حمص پر حملہ نہیں کریں گے اور اگر اس دوران روم کی فوج نے اس علاقے میں مسلمانوں کے خلاف کوئی معمولی سی بھی جنگی کارروائی کی تو مسلمان صلح کے معاہدے کو منسوخ سمجھ کر جوابی کارروائی کریں گے۔

اس معاہدے پر دستخط ہوتے ہی شہر کے دروازے کھل گئے اور مسلمان فوج داخل ہوئی۔ مؤرخ ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حمص کے لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ مسلمان دکانوں میں جاتے اور جو چیز لیتے اس کی قیمت ادا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے مجاہدین کو تحفے پیش کیے تو مجاہدین نے ان کی بھی قیمت ادا کی۔وہ کہتے تھے کہ مسلمان تحفے کو مالِ غنیمت سمجھتے ہیں اور کوئی مسلمان اپنے طورپر کوئی مالِ غنیمت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ صلح کے معاہدے کے بعد اسلام مالِ غنیمت کو جائز نہیں سمجھتا۔ایسے مقامات بھی آئے جہاں کے لوگوں نے مسلمان فوج کا باقاعدہ استقبال کیا، مثلاً نومبر ۶۳۵ ء (رمضان ۱۴ ھ) مسلمان فوج حمص سے حما گئی تو شہری باہر آگئے اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ۔معرۃ النعمان کے شہریوں نے مسلمانوں کا استقبال اس طرح کیا کہ پہلے سازندے ساز بجاتے اور خوشی کے گیت گاتے باہر آئے۔ان کے پیچھے معززین آئے اور جزیہ پیش کرکے شہر ابو عبیدہؓ کے حوالے کر دیا۔اس کے بعد ان قصبوں اور شہروں کے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔’’مسلمان ہمارے جال میں آگئے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا۔’’میں سردیوں کے انتظار میں تھا۔ عرب کے یہ مسلمان اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں اور اونٹنی کا ہی دودھ پیتے ہیں۔ ریگستان کے ان باشندوں نے کبھی اتنی سردی نہیں دیکھی۔یہ سردی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس ملک کی سردی ان کے جوش اور جذبے کو منجمند کر دے گی۔پھر موسم سرما ختم ہونے تک مسلمان ختم ہو جائیں گے۔ہم انہیں بڑی آسانی سے شکست دیں گے۔ ان کے خیمے انہیں سردی سے نہیں بچا سکیں گے۔‘‘ ہرقل نے حکم دیا کہ حمص سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیاجائے۔کچھ دنوں بعد ابو عبیدہؓ کو اطلاع ملی کہ رومیوں کی کمک حمص پہنچ گئی ہے۔ رومیوں کی اس کارروائی کے بعد حمص کا معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓکہیں اور تھے اور اطلا ع ملتے ہی وہ اپنے دستوں کو ساتھ لے کر حمص جا پہنچے۔ خالدؓ پہلے پہنچے تھے وہ حمص کے قریب گئے تو باہر رومی فوج لڑنے کیلئے تیار کھڑی تھی۔خالدؓ نے اس فوج پر حملہ کر دیا۔ رومی پیچھے ہٹتے گئے اور قلعے میں داخل ہو کر انہوں نے دروازے بند کردیئے۔اس کے فوراً بعد ابو عبیدہؓ بھی اپنے دستوں کے ساتھ آن پہنچے۔’’ابو سلیان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا ۔’’یہ محاصرہ تیرا ہے اور تو اس کا سالار ہے۔‘‘ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ابوعبیدہؓ نے خالدؓ کو دیا۔خلیفۃ المسلمین عمرؓ کے احکام کے مطابق سالارِ اعلیٰ ابوعبیدہؓ ہی تھے-

یہ دسمبر کا مہینہ تھا، سردی کا عروج شروع ہو چکا تھا ۔مسلمان اتنی زیادہ سردی کے عادی نہیں تھے۔ ان پر سردی بڑا برا اثر کر رہی تھی۔یہ سب سے بڑی وجہ تھی کہ محاصرہ طول پکڑتا گیا اس دوران خلیفۃ المسلمینؓ کا حکم آگیا اس کے تحت کچھ دستے عراق کو بھیجنے تھے۔  یہ دستے چلے گئے تو رومی سمجھے کہ مسلمان محاصرہ اٹھا رہے ہیں۔لیکن ایسا نہ ہوا۔رومی یہی توقع لیے قلعے میں بیٹھے رہے کہ مسلمان محاصرہ اٹھا لیں گے۔مارچ ۶۳۶ ء کا مہینہ آگیا۔سردی کی شدت ختم ہو چکی تھی۔رومی سالار ہربیس روم کے شاہی خاندان کا آدمی تھا۔ اسے کسی کے حکم کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے اپنے نائب سالاروں اور کمانداروں سے کہا کہ سردی کا موسم گزر گیا ہے پیشتر ا س کے کہ مسلمانوں کو کمک مل جائے اور یہ سردی سے بھی سنبھل جائیں ان پر حملہ کر دیا جائے۔چنانچہ ایک روز شہر کا ایک دروازہ کھلا اور پانچ ہزار نفری کی رومی فوج نے باہر آکر مسلمانوں کے اس دستے پر حملہ کر دیا جو اس دروازے کے سامنے موجود تھا۔حملہ بڑا تیز اور شدید تھا، مسلمان اس حملے کیلئے پوری طرح تیار نہیں تھے۔ا س کے علاوہ ان پر سردی کا بھی اثر تھا اس لئے وہ مقابلے میں جم نہ سکے۔پیچھے ہٹ کر وہ منظم ہوئے اور آگے بڑھے۔لیکن رومیوں کے دوسرے حملے نے انہیں پھر بکھیر دیا۔’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا ۔’’کیا تو دیکھتا رہے گا کہ رومی فتح یاب ہو کر واپس قلعے میں چلے جائیں۔‘‘خالدؓ تماشہ دیکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔لیکن وہ اس دروازے کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتے تھے جس کے سامنے وہ موجود تھے۔پھر بھی انہوں نے اپنا سوار دستہ ساتھ لیا اور رومیوں پر حملہ کر دیا رومیوں نے جم کر مقابلہ کیا اور سورج غروب ہو گیا۔رومی قلعے میں چلے گئے ان کی بہت سی لاشیں او ر شدید زخمی پیچھے رہ گئے۔دوسرے دن ابوعبیدہؓ نے سالاروں کو بلایا۔’’کیا تم نے خود محسوس نہیں کیا کہ کل رومیوں نے باہر آکر حملہ کیا تو ہمارے آدمی بے دلی سے لڑے؟ ‘‘ابو عبیدہؓ نے شکایت کے لہجے میں کہا۔’’کیا ہم میں ایمان کی حرارت کم ہو گئی ہے؟ سردی سے صرف جسم ٹھنڈے ہوتے ہیں۔‘‘ ’’سالارِ اعلیٰ !‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ہارے آدمی بے دلی سے نہیں لڑے دراصل جن رومیوں نے حملہ کیا تھا وہ ان رومیوں سے زیادہ جرات و ہمت والے تھے جن سے ہم اب تک لڑتے رہے ہیں۔‘‘’’پھر تو ہی بتا ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’ہمیں اتنے لمبے محاصرے میں یہیں بیٹھے رہنا چاہیے؟‘‘’’نہیں ابو عبیدہ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’کل صبح ہم محاصرہ اٹھالیں گے۔‘‘دوسرے سالاروں نے حیرت سے خالدؓکی طرف دیکھا۔ ’’ہاں میرے دوستو!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ کل ہم یہاں نہیں ہوں گے اور میری تجویز غور سے سن لو۔‘‘ خالدؓنے انہیں محاصرہ اٹھانے کے متعلق کچھ ہدایات دیں۔ اگلی صبح شہر کی دیوار کے اوپر سے آوازیں آنے لگیں ۔ ’’وہ جا رہے ہیں۔ محاصرہ اٹھ گیا ہے۔ وہ دیکھو مسلمان جا رہے ہیں۔‘‘ سالار ہربیس کو اطلاع ملی تو وہ دوڑتا ہوا دیوار پر آیا اس کے ساتھ بڑا پادری تھا۔

’’سردی نے اپنا کام کر دیا ہے۔‘‘ ہربیس نے کہا۔’’ ان میں لڑنے کی ہمت نہیں رہی۔ میں انہیں زندہ نہیں جانے دوں گا۔ ان کے تعاقب میں جاؤں گا انہیں ختم کر کے آؤں گا۔‘‘’’محترم سالار!‘‘ پادری نے کہا۔’’ مجھے یہ مسلمانوں کی چال لگتی ہے۔ یہ منہ موڑنے والی قوم نہیں۔ وہ دیکھو۔ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو یہیں چھوڑ گئے ہیں۔‘‘ ’’میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ ہربیس نے کہا۔’’ اپنی بیویوں اور بچوں کو وہ ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ان کی حفاظت کیلئے انہوں نے بہت کم سپاہی پیچھے چھوڑے ہیں، وہ ساما ن باندھ رہے ہیں۔ لیکن انہیں ہم جانے نہیں دیں گے۔ میں پہلے ان کے تعاقب میں جاؤں گا جو حوصلہ ہار کر چلے گئے ہیں۔‘‘ ہربیس نے فوراً پانچ ہزار سوار تیار کیے، اور ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے دستوں کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ انہوں نے دو اڑھائی میل فاصلہ طے کر لیا تھا۔ جب رومی ان تک پہنچ گئے۔ جونہی ہربیس اپنے دستے کے ساتھ مسلمانوں کے قریب پہنچا۔ مسلمان اچانک دو حصوں میں بٹ گئے۔خالدؓ نے گزشتہ روز سالاروں کو یہی بتایا تھا کہ رومی ان کے تعاقب میں ضرور آئیں گے اور انہیں گھیرے میں لے کر ختم کرنا ہے۔اس کے مطابق مسلمان چلتے چلتے دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک حصہ دائیں کو ہو کر پیچھے کو مڑا، اور دوسرا بائیں طرف ہو کر گھوم گیا۔رومی ایسی صورتِ حال کیلئے تیار نہیں تھے وہ بوکھلا گئے۔ مسلمانوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا، اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کیلئے کچھ مجاہدین کو پیچھے چھوڑ آنا بھی اسی دھوکے کا ایک حصہ تھا۔ رومی پیچھے کو بھاگے تو یہی مجاہدین جو عورتوں اور بچوں کے ساتھ تھے، رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔ پھر انہوں نے رومیوں کی پسپائی کا راستہ روک لیا۔ایک اور سالار معاذؓ بن جبل خالدؓ کی پہلے سے دی ہوئی ہدایات کے مطابق پانچ سو سوار ساتھی لے کر حمص کے راستے میں آگئے تاکہ کوئی رومی شہر کی طرف نہ آسکے۔رومی اتنی جلدی بھاگنے والے نہیں تھے لیکن وہ مجاہدین کے پھندے میں آگئے تھے۔ وہ تازہ دم تھے۔ کچھ اپنی روایات کے مطابق کچھ اپنی جانیں بچانے کیلئے وہ بے جگری سے لڑ رہے تھے۔خالدؓان کے سالار ہربیس کو ڈھونڈ رہے تھے ، ان کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ، ان کے راستے میں جو آتا تھا کٹتا جاتا تھا ، آخر وہ انہیں نظر آگیا۔

’’میں ہوں ابنِ ولید!‘‘ خالدؓ نے للکار کر کہا۔’’فارسیوں کا قاتل ابن الولید…… رومیوں کا قاتل ابن الولید، ہربیس نامی گرامی جنگجو تھا۔وہ خالدؓکے مقابلے کیلئے بڑھا لیکن گھوڑے سے اتر آیا۔خالدؓ بھی گھوڑے سے اترے اور اس کی طرف بڑھے لیکن ایک رومی دونوں کے درمیان آگیا۔تین چار مؤرخوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے لیکن اس رومی کا نام نہیں لکھا، اتنا ہی لکھا ہے کہ اس کا جسم پہلوانوں جیسا تھا اور وہ شیرکی طرح گرج کر لڑا کرتا تھا، رومی زبان میں وہ ’’شیر کی مانند دہاڑنے والے‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔تاریخ میں یہ واقعہ اس طرح آیا ہے کہ اک رومی اپنے سالار ہربیس کو پیچھے ہٹا کر خالدؓ کے مقابلے میں آیا۔دو تین پیترے دونوں نے بدلے اور خالدؓنے تلوار کا وار کیا، تلوار رومی کی آہنی خودپر پڑی۔ خود اتنی مضبوط اور وار اتنا زوردار تھا کہ خالدؓ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ ان کے ہاتھ صرف دستہ رہ گیا۔اب خالدؓ خالی ہاتھ تھے اور رومی پہلوان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ خالدؓ اپنے محافظوں کی طرف آنے کی کوشش کرتے تھے کہ ان سے تلوار لے لیں مگر رومی درندوں کی طرح غراتا، دھاڑتا اور خالدؓ کے آگے ہو جاتا تھا تاکہ وہ دوسری تلوار نہ لے سکیں۔ایک محافظ نے خالدؓ کی طرف تلوار پھینکی لیکن خالدؓ سے پہلے رومی تلوار تک پہنچ گیا اور تلوار پرے پھینک دی۔ خالدؓ کا بچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ رومی نے ان پر تابڑ توڑ وار کرنے شروع کر دیئے ۔ خالدؓ اِدھر اُدھر ہو کر وار بچاتے رہے۔ رومی نے ایک وار دائیں سے بائیں کو کیا جسے خالدؓ کی گردن یا اس سے ذرا نیچے پڑنا چاہیے تھالیکن خالدؓ بڑی پھرتی سے بیٹھ گئے۔رومی کا یہ زور دار وار خالی گیا تو اپنے ہی زور سے وہ گھوم گیا۔ خالدؓ اچھل کر اس پر جھپٹے۔ رومی پلک جھپکتے پھر گھوم گیا اور خالدؓ کے بازوؤں کے شکنجے میں آگیا۔ اب صورت یہ تھی کہ دونوں کے سینے ملے ہوئے تھے اور رومی خالدؓ کے بازوؤں میں تھا۔خالدؓ نے بازوؤں کو دبانا اور شکنجہ سخت کرنا شروع کر دیا۔ رومی خالدؓکی گرفت سے نکلنے کے لیے زور لگا رہا تھا لیکن خالدؓ کی گرفت سخت ہوتی جا رہی تھی، اور وہ اس قدر زور لگا رہے تھے کہ خون ان کے چہرے میں آگیا، اور چہرا گہرا لال ہو گیا۔رومی پہلوان کی آنکھیں باہر کو آنے لگیں۔ اس کی سانسیں رکنے لگیں اور چہرے پر تکلیف کا ایسا تاثر تھا کہ اس کے دانت بجنے لگے۔ مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ رومی پہلوان کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں۔ رومی اور زیادہ تڑپنے لگا۔ خالدؓ اور زیادہ زور سے اپنے بازوؤں کے شکنجے کو تنگ کرتے گئے۔ رومی کی پسلیاں ٹوٹتی گئیں اور اس کا تڑپنا ختم ہو گیا حتیٰ کہ اس کا جسم بے جان ہو گیا۔خالدؓ نے اسے چھوڑا تو وہ گر پڑا۔ وہ مر چکا تھا۔ خالدؓ نے اس رومی کی تلوار اٹھا لی اور ہربیس کو للکارا لیکن ہر بیس اپنے پہلوان کا انجام دیکھ کر وہاں سے کھسک گیا، خالدؓ نے گھوڑے پر سوار ہو کر رومی پہلوان کی تلوار بلند کرکے لہرائی اور نعرہ لگایا۔اس مقابلے کے دوران رومیوں کا قتلِ عام جاری رہا۔ ابو عبیدہؓ کو پتا چلا کہ خالدؓنے اس رومی پہلوان کو کس طرح ہلاک کیا ہے تو وہ دوڑے آئے۔’’خدا کی قسم ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے بڑے مسرور لہجے میں کہا۔ ’’تو نے جو کہا تھا کر دکھایا ہے۔ تو نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔‘‘یہ بات اس طرح ہوئی تھی کہ خالدؓ نے جب گذشتہ روز محاصرہ اٹھا کر واپس جانے کی تجویز پیش کی تھی تو ابو عبیدہؓ اور دوسرے سالاروں نے اس تجویز کو پسند نہیں کیا تھا۔

خالدؓنے انہیں بتایا کہ انہوں نے کیا سوچا ہے ، پھر بھی ابو عبیدہؓ محاصرہ اٹھانے کے حق میں نہیں تھے ۔ تب خالدؓ نے کہا تھا۔’’ میری تجویز پر عمل کریں ، میں ان کی ہڈیاں توڑ دوں گا۔ ان کی کمر توڑ دوں گا۔‘‘خالدؓ نے صرف ایک پہلوان کی نہیں بلکہ رومی فوج کی ہڈیاں توڑ دی تھیں۔مارچ ۶۳۶ء (صفر ۱۵ھ) مسلمان فاتح کی حیثیت سے حمص میں داخل ہوئے۔حمص پر خوف وہراس طاری تھا۔ وہ اس وقت بھگدڑ اور نفسانفسی کی صورت اختیار کر گیا جب مسلمان حمص میں داخل ہوئے تھے۔انہوں نے سنا تو یہی تھا کہ مسلمان شہریوں کو پریشان نہیں کرتے ہیں لیکن جس شہر کی فوج ہتھیار نہ ڈالے اور مسلمان بزور شمشیر شہر کو فتح کریں تو وہ ہر گھر سے مال و اموال اٹھا لیتے ہیں اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتے ہیں۔مسلمانوں نے حمص تو بڑی ہی مشکل سے فتح کیا تھا۔ رومیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے بلکہ مسلمانوں نے محاصرہ اٹھایا تو پانچ ہزار سوار رومی ان کے تعاقب میں گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ محاصرہ اٹھانا مسلمانوں کی چال تھی لیکن رومیوں نے اسے ان کی کمزوری سمجھ کر ان پر حملہ کیا تھا۔ اس معرکے میں رومیوں کے صرف ایک سو سوار زندہ بچے تھے اور مسلمان جو شہید ہوئے ان کی تعداد ۲۳۵ تھی۔اتنی خونریز لڑائی لڑ کر مسلمانوں نے حمص کو فتح کیا تھا ۔حمص والوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے وہ پانچ ہزار سوار مسلمانوں کے تعاقب میں گئے تھے ان میں سے بہت تھوڑے بھاگتے ہوئے واپس آرہے ہیں تو ان پر خوف و ہراس طاری ہو گیا تھا اور جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک سوار دستہ رومیوں اور حمص کے دروازوں کے درمیان آگیا ہے اور رومی سوار نہ بھاگ سکتے ہیں نہ شہر میں داخل ہو سکتے ہیں تو وہ اور زیادہ خوفزدہ ہو گئے۔ شہر میں اتنی فوج نہیں رہ گئی تھی جو ان کی مدد کو پہنچتی۔ یہ سوار مسلمان سواروں کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ گئے۔ابو عبیدہؓ اور خالدؓ جب حمص میں داخل ہوئے تو چند ایک شہری ان کے استقبال کیلئے کھڑے تھے ۔ دونوں مسلمان سالاروں کو دیکھ کر وہ سجدے میں گر پڑے۔ دونوں سالاروں نے گھوڑے روک لیے۔’’اٹھو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے گرجدار آواز میں کہا۔’’کھڑے ہو جاؤ۔‘‘وہ سب سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ان سب کے چہروں پر خوف و ہراس اور رحم طلبی کا گہرا تاثر تھا۔’’بولو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’ اگر تمہاری فوج ہمارے کہنے پر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتی تو تمہیں ہمارے آگے سجدہ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔‘‘’’ہم رحم کے طلب گار ہیں!‘‘ ایک نے التجا کی۔’’ وہ رومی فوج تھی جو آپ سے لڑی ہے، ہم رومی نہیں۔ ہم آپ کا ہر مطالبہ پورا کریں گے۔‘‘’’ہم صرف یہ بتانے کیلئے آئے ہیں کہ سجدہ صرف اﷲ کے آگے کیا جاتا ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ ہم کسی کو اپنا غلام بنانے نہیں آئے ہیں۔‘‘ابو عبیدہؓ کے حکم سے حمص کے لوگوں سے صرف ایک دینار فی کس جزیہ لیا گیا اور مسلمانوں کی طرف سے اعلان ہوا کہ کوئی شخص شہر چھوڑ کر نہ جائے، شہر کے لوگوں کے جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔اس اعلان نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ بعض اسے مسلمانوں کی ایک چال سمجھے۔ وہ رات بھر اس خوف سے جاگتے رہے کہ مسلمان رات کو ان کے گھروں پر ٹوٹ پڑیں گے لیکن رات گزر گئی اور کچھ بھی نہیں ہوا۔

رومی شہنشاہ ہرقل حمص سے تقریباً اسّی میل دور انطاکیہ میں تھا۔اسے جب خبر ملی کہ حمص بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اس کے ہونٹوں پرہلکا سا تبسم آگیا جیسے وہ اسی خبر کا منتظر تھا۔ اس کے سالار مشیر اور شاہی خاندان کے افراد یہ جانتے تھے کہ ہرقل کا یہ تبسم موت کی مسکراہٹ ہے اور اس تبسم میں قہر بھرا ہوا ہے۔’’کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ عرب کے ان مسلمانوں نے حمص کس طرح لیا ہے؟‘‘ ہرقل نے خبر لانے والے سے پوچھا۔’’ تم سالار تو نہیں، کماندار ہو، جنگ کو سمجھتے ہو گے……تمہارا نام کیا ہے؟‘‘’’سب سمجھتا ہوں قیصرِ روم!‘‘ خبر لانے والے نے کہا۔’’ میرا نام سازیرس ہے، ایک جیش کا کماندار ہوں…… حمص اک دھوکے نے ہم سے چھینا ہے۔ ہمارے سالاروں کو توقع تھی کہ مسلمان اتنی سردی برداشت نہیں کر سکیں گے اور محاصرہ اٹھا کر چلے جائیں گے، انہوں نے سردی کی شدت محاصرے میں گزار دی اور محاصرہ اس وقت اٹھا کر چلے گئے جب سردی کی شدت گزر گئی تھی اور درختوں کی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔‘‘’’اور ہمارے سالار اس وقت قلعے میں بیٹھے رہے، جب دشمن باہر سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’ ہمارے سالار دشمن پر اس وقت نہ جھپٹے جب سردی نے ان کی رگوں میں خون منجمند کر دیا تھا……پھر کیا ہوا؟‘‘’’قیصرِ روم!‘‘ سازیرس نے کہا۔’’ جب وہ کوچ کر گئے تو سالار ہربیس نے پانچ ہزار سواروں کے ایک دستے کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے تعاقب میں جاؤ اور ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ رہے …… ہم ان کے تعاقب میں گئے ۔جب ہم ان کے قریب گئے تو انہوں نے پلٹ کر ہمیں گھیرے میں لے لیا۔‘‘ سازیرس نے ہرقل کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں نے انہیں کس طرح گھیرے میں لیا اور ان کے سواروں کو تباہ و برباد کر دیا۔’’ہمارا سالار ہربیس کہاں ہے؟ ‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’……کیا وہ……‘‘’’وہ زندہ ہیں۔‘‘ سازیرس نے کہا۔’’ وہ اس وقت وہاں سے نکل گئے تھے جب مسلمانوں کے سالار خالدبن ولید نے ہمارے ایک پہلوان کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا تھا اور پہلوان کی آنکھیں باہر آگئی تھیں۔‘‘’’کیا ہمارے پہلوان کو خالد بن ولید نے مار ڈالا ہے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔سازیرس کچھ دیر ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا، پھر اس نے دائیں بائیں آہستہ آہستہ سر ہلایا۔’’مسلمان سالار نے ہمارے پہلوان کو بازوؤں میں دبوچ کر اس کی پسلیاں توڑ ڈالی تھیں۔‘‘ سازیرس نے کہا۔’’ اور وہ مر گیا‘‘’’آفرین!‘‘ہرقل کے ہونٹوں سے سرگوشی پھسل گئی۔’’یہ طاقت جسم کی نہیں۔ ‘‘وہ اچانک جیسے بیدار ہو گیا ہو۔ اس نے جاندار آواز میں کہا۔ ’’میں ا نہیں کچل دوں گا…… انہیں آگے آنے دو۔ ‘‘اس کی آواز اور زیادہ بلند ہو گئی۔ ’’انہیں اور آگے آنے دو…… اور آگے جہاں سے وہ بھاگ نہیں سکیں گے۔‘‘سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اور آگے چلے گئے تھے، انہوں نے حمص کے انتظامات کیے۔ کچھ نفری وہاں چھوڑ دی تھی۔ حمص سے وہ اپنے دستوں کے ساتھ حمص سے آگے حما پھر اس سے آگے شیرز تک جا پہنچے تھے۔ وہاں سے انطاکیہ کا فاصلہ پینتیس چالیس میل کے درمیان تھا۔ انطاکیہ اہم ترین مقام تھا کیونکہ اسے ہرقل نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا یا تھا، اور وہیں رومیوں کی فوج کا اجتماع اور فوج کی تقسیم ہوتی تھی۔مسلمانوں نے شیرز سے کوچ کیا، تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ رومیوں کا ایک قافلہ سا آتا نظر آیا۔ اس کی حفاظت کیلئے رومی فوجیوں کا ایک چھوٹا سا دستہ تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اونٹوں اور گاڑیوں کے اس قافلے میں فوجی سامان جا رہا ہے۔ خالدؓ کے اشارے پر مجاہدین نے قافلے کو گھیرے میں لے لیا۔ رومی فوجیوں نے مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فوج کے کھانے پینے کا سامان ہے۔ اس میں ہتھیار بھی تھے۔ ان سب کو پکڑ لیا گیا اور انہیں یہ تاثر دیا گیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

’’ہم نے آپ کا مقابلہ نہیں کیا۔‘‘ اس رومی فوجی قافلے کے کماندار نے جان بخشی کی التجا کرتے ہوئے کہا۔’’ ہم رومی نہیں، ہم تو رعایا ہیں۔ہماری آپ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔‘‘’’پھر دوستی کا ثبوت دو۔‘‘انہیں کہا گیا۔’’یہ بتا دو کہ انطاکیہ میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘’’آپ کی تباہی کا سامان تیار ہو رہا ہے۔‘‘ قافلے کے کماندار نے جواب دیا۔’’ وہاں بہت بڑی فوج اکٹھی کی جا رہی ہے۔ دور دور سے عیسائی قبیلے آپ کے مخالف لڑنے کیلئے جمع ہو رہے ہیں اور انہیں میدانِ جنگ میں لڑنے کے ڈھنگ سکھائے جا رہے ہیں۔‘‘’’آپ نے ہماری جانیں ہمیں واپس کر دی ہیں تو ہم آپ کی جانیں بچاتے ہیں۔ ‘‘قافلے کے ایک اور آدمی نے کہا۔’’ آپ آگے نہ جائیں۔ آپ کی نفری بہت تھوڑی ہے اور انطاکیہ میں شہنشاہ ہرقل جو فوج اکٹھی کر چکا ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ آپ کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں رہے گا۔‘‘’’کیا اتنی زیادہ شکستوں نے اس کی کمر ابھی توڑی نہیں؟ ‘‘مسلمانوں کے ایک سالار نے پوچھا۔’’ہم اتنے بڑے لوگ نہیں کہ شہنشاہ تک رسائی حاصل کر سکیں۔‘‘ رومیوں کے کماندار نے کہا۔’’ہم اس کے ساتھ بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتے لیکن اپنے سالاروں سے جو پتا چلتا ہے وہ آپ کو بتاتے ہیں…… ہرقل کی کمر اتنی کمزور نہیں کہ چند ایک شکستوں سے ٹوٹ جائے۔ اس نے اپنا دماغ اپنے ہاتھ میں رکھا ہو اہے۔ اسے فتح حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے اوپر اس کا نشہ طاری نہیں ہونے دیتا اور شکست سے وہ مایوس نہیں ہواکرتا۔ وہ جو حسین ترین اور نوجوان لڑکیوں اور شراب کا رسیا ہے، اب شراب تو پیتا ہو گا لیکن اپنی پسندیدہ لڑکیوں کو بھی اپنے سامنے نہیں آنے دیتا۔‘‘’’وہ تو شاید راتوں کو سوتا بھی نہیں ہوگا۔‘‘ دوسرے نے کہا۔’’اس پر ایک جنون سا سوار ہے۔ فوج اکٹھی کرو۔ اس کے آدمی بستی بستی جا کر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ مسلمان طوفان کی طرح آرہے ہیں اور وہ تمہارے مذہب کو اور تہاری عورتوں کو اپنے ساتھ اڑا لے جائیں گے…… لوگ قبیلہ در قبیلہ مذہب کے نام پر اور اپنی عورتوں کو مسلمانوں سے بچانے کی خاطر انطاکیہ میں آرہے ہیں۔ آپ نے آگے جانا ہے تو زیادہ فوج لے کر آئیں ورنہ رک جائیں…… اب شہنشاہ ہرقل زیادہ وقت نئی فوج کی تنظیم اور تربیت میں گزارتا ہے اور کہتا ہے کہ مسلمانوں کو آگے آنے دو۔انہیں اور آگے آنے دو۔‘‘’’اس نے یہ بھی کہا ہے ۔‘‘ ایک اور بولا۔’’ اب میری فوج کی پسپائی میرے دل کو مضبوط کرتی ہے۔ میری فوج کی ہر پسپائی عرب کے ان مسلمانوں کو میرے جال میں لا رہی ہے۔‘‘اس قافلے سے جو صورتِ حال ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو معلوم ہوئی وہ غلط نہیں تھی ۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ہرقل روائتی شہنشاہ نہیں تھا۔ وہ اپنے وقت کا فنِ حرب و ضرب کا ماہر جنگجو تھا اور وہ میدانِ جنگ کا شاطر جرنیل تھا۔ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو ان اطلاعات نے جو انہیں اس قافلے سے ملیں ، وہیں رکنے پرمجبور کر دیا۔ ’’خدا کی قسم امین الامت!‘‘ خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔ ’’ہم یہاں بیٹھے نہیں رہیں گے اور ہم ہرقل کو اتنی مہلت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی تیاریاں مکمل کرلے۔ ’’آج رات تک اپنے کسی آدمی کو آجانا چاہیے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابو سلیمان! جب تک آگے کی مصدقہ صورتِ حال معلوم نہیں ہو جاتی ہم آگے نہیں جائیں گے۔‘‘اپنے کسی آدمی سے مراد وہ جاسوس تھے جو انطاکیہ تک پہنچے ہوئے تھے۔ خالدؓ نے اپنی سپہ سالاری کے دور میں جاسوسی کے نظام کو باقاعدہ اور منظم کر دیاتھا اور جاسوسوں کو دور دور تک پھیلا دیا تھا۔ مسلمان جاسوس جان کی بازی لگا کر بڑی قیمتی معلومات لے آتے تھے۔مؤرخوں کے مطابق، ہرقل نے اپنی فوج کی پے در پے شکستوں کی خبریں سن سن کر اس حقیقت کو قبول کر لیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بکھری ہوئی لڑائیوں میں شکست نہیں دے سکتا۔ایک شکستیں تو وہ تھیں جو رومی فوج کو خالدؓ پھر ابو عبیدہؓ نے دی تھیں، اور دوسری وہ تھیں جو دوسرے سالار شا م کے دوسرے علاقوں میں رومیوں کو دیتے چلے آرہے تھے۔

مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ انہیں کسی ایک میدان میں اکٹھا ہونے پر مجبور کیا جائے اور ان کے مخالف ان سے کئی گنا زیادہ فوج میدان میں اتاری جائے۔ چنانچہ اس نے نئی اور بہت بڑی فوج تیار کرنی شروع کر دی تھی۔ مسلمانوں نے جب حمص پرقبضہ کیا اس وقت تک اس کی نئی فوج کی نفری ڈیڑھ لاکھ ہو چکی تھی۔ انطاکیہ سے چالیس میل دور ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ رکے ہوئے تھے۔ اس کے دو روز بعد جب انہوں نے رومیوں کا قافلہ پکڑا تھا، مسلمان مغرب کی نماز کی تیاری کر رہے تھے کہ اک گھوڑ سوار پڑاؤ کی طرف آتا دکھائی دیا۔ اتنی دور سے پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ رومیوں کا کوئی فوجی سوار ہے یا کوئی مسافر ہے۔ پڑاؤ سے کچھ دور اس نے گھوڑا موڑ لیا اور پراؤ کے اردگرد گھوڑا دوڑانے لگا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کا لباس مسلمانوں جیسا نہیں تھا۔ ’’پکڑ لاؤ اسے!‘‘ کسی کماندار نے اپنے سواروں کو حکم دیا۔ سوار ابھی گھوڑوں پر زینیں ڈال رہے تھے کہ اس اجنبی سوار نے گھوڑا پڑاؤ کی طرف موڑ دیا۔ ’’اﷲ اکبر! اس نے نعرہ لگایا اور قریب آکر اس نے بڑی بلند آواز میں کہا۔’’میں اپنے پرچم کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘ ’’ابنِ احدی!‘‘ کسی نے کہا اور چند ایک مجاہدین اس کی طرف دوڑے۔ ایک نے کہا۔’’ خدا کی قسم! ہم اب بھی تجھے رومی فوج سمجھ رہے ہیں۔‘‘’’کیا یہ لباس اس رومی کا ہے جسے تو نے قتل کیا ہوگا؟‘‘ ایک نے پوچھا۔ابنِ احدی کسی کو بتا نہیں سکتا تھا۔ کہ وہ جاسوس ہے اور انطاکیہ سے آیا ہے۔ وہ ابو عبیدہؓ کے خیمے میں چلا گیا۔ وہ ان تین چار جاسوسوں میں سے ایک تھا جو ڈیڑھ دو مہینوں سے انطایہ گئے ہوئے تھے۔ ’’تجھ پر اﷲ کی سلامتی ہو ابنِ احدی!‘‘ ابو عبیدہؓ نے اسے گلے لگا کر کہا ۔’’ہم انطاکیہ کی خبر کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔‘‘ ابنِ احدی نے خالدؓکے ساتھ مصافحہ کیا۔خالدؓ نے بھی اسے گلے لگا لیا۔ ’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔’’سیاہ کالی گھٹا ہے جو انطاکیہ کے افق سے اٹھ رہی ہے۔‘‘ ابنِ احدی نے عربوں کے مخصوص شاعرانہ انداز میں کہا۔’’ اس گھٹا سے جو مینہ برسے گا وہ زمین پر سیلاب بن کر چٹانوں کو بھی بہا لے جائے گا۔ امین الامت اور ابن الولید! اﷲ نے تمہیں اشارہ دیا ہے کہ آگے نہ جانا۔‘‘ ’’ہمیں یہ اشارہ دشمن کے ایک قافلے نے دیا ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’یہ رومیوں کا فوجی قافلہ ہے جسے ہم نے پکڑ لیا ہے۔‘‘ ’’اسے اﷲکا بھیجا ہوا قافلہ سمجھ امین الامت!‘‘ ابنِ احدی نے کہا۔’’ اب پوری بات مجھ سے سن۔ انطاکیہ کے اندر اور باہر لشکر کے سپاہیوں اور گھوڑوں کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ انطاکیہ کے گردونواح میں دور دور تک خیموں کا جنگل ہے۔ جو بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ہرقل نے جو منصوبہ بنایا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔‘‘ ’’کیا تیری خبر مصدقہ ہو سکتی ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’میں ہرقل کی فوج کے ایک ٹولے کا کماندار ہوں ابو سلیمان!‘‘ ابنِ احدی نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ رومیوں کی اس وقت یہ حالت ہے کہ جو کوئی انطاکیہ کے دروازے پر جا کر کہے کہ فوج میں بھرتی ہونے آیا ہوں تو اس کیلئے شہر کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔‘‘ ابنِ احدی جس طرح انطاکیہ کی فوج میں شامل ہوا تھا اس کی اس نے تفصیلات بتائیں۔

وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ عیسائی عرب بن کر انطاکیہ گیا تھا۔ انہیں اسی وقت فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ اس روز گھوڑ دوڑ کے میدان میں شہسواری، تیغ زنی اور دوڑتے گھوڑے سے تیر نشانے پر چلانے کے مقابلے ہورہے تھے ان میں ہر کوئی شامل ہو سکتا تھا۔ ابنِ احدی اپنی فوج کا مشہور شہسوار تھا اور بڑا ہی خوبصورت جوان۔ وہ مقابلے میں اس طرح شریک ہوا کہ میدان میں جا کر گھوڑا چکر میں دوڑایا اور تلوار نکال کر تیغ زن سواروں کو مقابلے کیلئے للکارا۔ ایک سوار اس کے مقابلے میں اترا وہ رومی تھا۔ ’’اگر تجھے اپنے بازوؤں اور اپنے گھوڑے پر پورا بھروسہ ہے تو میرے مقابلے میں آ اے اجنبی سوار! ‘‘ابنِ احدی نے اس سے کہا۔ ’’میری تلوار تیرے خون کی پیاسی تو نہیں لیکن اس کے سامنے تیری تلوار آئے گی تو……‘‘’’تیری تلوار کے مقابلے میں میری برچھی آئے گی اے بد قسمت اجنبی! ‘‘دوسرے سوار نے کہا۔’’ اگر تجھے زندگی عزیزنہیں تو آجا۔‘‘ابنِ احدی نے گھوڑا اس کے اردگرد دوڑایا اور اسے للکارا۔رومی سوار گھوڑے کو کچھ دور لے گیا اور گھوڑا موڑ کر ایڑ لگائی۔ اس نے برچھی نیزہ بازی کے انداز سے آگے کر لی تھی۔ ابنِ احدی اس کی طرف منہ کرکے کھڑا رہا۔ رومی کی رفتار اور تیز ہو گئی جب اس کی برچھی کی انّی ابنِ احدی کے سینے سے تھوڑی ہی دور رہ گئی تو وہ اس قدر پھرتی سے گھوڑے کی دوسری طرف جھک گیا جیسے وہ گھوڑے پر تھا ہی نہیں۔ رومی کی برچھی ہوا کو کاٹتی آگے نکل گئی۔ ابنِ احدی گھوڑے پر سیدھا ہوا اور اپنے گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا۔ اس کاگھوڑا دوڑا اورفوراً ہی مڑ کر رومی کے پیچھے چلا گیا۔ رومی اپنا گھوڑا موڑ رہا تھا، کہ ابنِ احدی اس تک جا پہنچا اور تلوار سے اس کی برچھی توڑ دی۔ رومی نے گھوڑا موڑ کر تلوار نکال لی لیکن وہ ابنِ احدی پر صرف ایک وار کر سکا۔ جو ابنِ احدی نے بچا لیا اور فوراً ہی اس مسلمان شہسوار کی تلوار رومی سوار کے پہلو میں اتر گئی۔ وہ اس پہلو کی طرف لڑھک گیا۔ اسے گرتا دیکھ کر ایک رومی سوار ابنِ احدی کے مقابلے میں آیا وہ آتا نظر آیا اور تماشائیوں نے اسے گھوڑے سے گرتے دیکھا۔ ایک اور سوار میدان میں آیا۔ ’’رُک جاؤ!‘‘ ہرقل کی گرجدار آواز سنائی دی۔ ’’اِدھر آ شہسوار۔ ‘‘ابنِ احدی نے گھوڑا ہرقل کے سامنے جا روکا۔ ہرقل اونچی جگہ بیٹھا ہوا تھا۔ ’’کیا تجھے بتایا نہیں گیا تھا کہ یہ مقابلے ہیں لڑائی نہیں۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’ تم ان دونوں کو زخمی کر سکتے تھے جان سے نہیں مارنا تھا۔ پھر بھی ہم تمہاری قدر کرتے ہیں۔ کہاں سے آیا ہے تو؟‘‘ ’’مت پوچھ شہنشاہ کہاں سے آیا ہوں۔‘‘ ابنِ احدی نے کہا۔ ’’یہ میرے دشمن نہیں تھے لیکن میرے ہاتھ میں جب تلوار ہوتی ہے اور جب کوئی مجھے مقابلے کیلئے للکارتا ہے تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ شخص مسلمان ہے میں جب اسے قتل کر چکتا ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں تھا۔ میرا دماغ میرے قابو میں نہیں رہتا۔میں عیسائی عرب ہوں شہنشاہ۔ بہت دور سے آیا ہوں۔‘‘ ’’کیا تیرے دل میں مسلمانوں کی اتنی دشنمی ہے کہ تو اندھا ہو جاتا ہے۔‘‘ ہرقل نے پوچھا۔ ’’اس سے بھی زیادہ جتنی شہنشاہ سمجھیں گے۔ ‘‘ابنِِ احدی نے کہا۔’’ کیا شہنشاہ مجھے آگے نہیں بھیجیں گے؟ میں مسلمانوں سے لڑنے آیا ہوں۔‘‘ ’’ہم تجھے آگے بھیجیں گے۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’ تو نے دو شیروں کو مارا ہے اور تو معمولی سے خاندان کا فرد نہیں لگتا۔‘‘’’امین الامت!‘‘ ابنِ احدی نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓسے کہا۔’’ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے سپاہی کی حیثیت میں فوج میں رکھ لیں گے لیکن انہوں نے مجھے ایک سو سپاہیوں کا کماندار بنا دیا۔ اس طرح میری رسائی سالاروں تک ہو گئی۔ میرے دوسرے ساتھی بھی کسی نہ کسی ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے انہیں قیمتی خبریں مل سکتی ہیں۔ ہم سب عیسائی عرب بنے رہے اور آپس میں ملتے رہے۔ کچھ باتیں مجھے انہوں نے بتائی ہیں۔ باقی حالات میں نے خود دیکھے ہیں۔‘‘

’’حمص پر اپنے دستوں کی اطلاع انطاکیہ پہنچی تو میرے ساتھی مجھے ملے۔ ہمیں معلوم تھا کہ تم حمص میں زیادہ دن نہیں رکو گے اور انطاکیہ کی طرف پیشقدمی کرو گے۔ ہم تمہیں حمص میں ہی روکناچاہتے تھے، تمہیں آگے کے خطرے سے خبردار کرنا ضروری تا۔ انطاکیہ کے اردگرد کے علاقے میں اپنے لشکر کی تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘ ابنِ احدی نے آگے کے جو حالات بتائے وہ اس طرح تھے کہ ہرقل نے بہت بڑی فوج تیار کرنے کی مہم ایسے طریقے سے چلائی تھی کہ عیسائیوں کے تمام قبیلے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے اپنے گھوڑوں اونٹوں اور ہتھیاروں کے ساتھ انطاکیہ میں جمع ہو گئے تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان قبیلوں کے علاوہ یورپی ملکوں کے لوگ بھی آگئے تھے۔ روم، یونان، اور آرمینیہ کے رہنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں آئے تھے۔ ان سب کو اس فوج کے ساتھ ملا کر جو پہلے موجود تھی ہرقل کی فوج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہو گئی تھی۔ اتنے بڑے لشکر کو تیس تیس ہزار کے پانچ حصوں میں تقسیم کر دیاگیاتھا۔ ہر حصے کا جو سالار مقرر کیا گیا تھا وہ تجربے کار اور منتخب تھا۔ ان پانچ سالاروں میں سے ایک کا نام ماہان تھا۔جو آرمینیہ کا بادشاہ اور اپنے وقتوں کا مانا ہوا سپہ سالار تھا، دوسرا غسان کا حکمران جبلہ بن الایہم تھا۔ جو اپنی فوج ساتھ لایا تھا اور اسی کاوہ سالار تھا۔ تیسرا روس کا ایک شہزادہ قناطیر تھا۔ چوتھے کا نام گریگری اور پانچویں کا دیرجان تھا ۔ یہ سب عیسائی تھے، اور انہوں نے اسے صلیب اور ہلال کی جنگ بنا دیا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ کے اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ ماہان تھا۔ ہرقل نے اس لشکر کو اپنے بہتر ہتھیاروں سے مسلح کر دیا اور جب یہ تیار ہو کر پانچ حصوں میں تقسیم ہو گیا تو ہرقل نے اتنے بڑے لشکر کو اکٹھا کیا۔ ’’صلیب کے پاسبانو! ‘‘ہرقل نے بلند جگہ کھڑے ہو کر گلا پھاڑ پھاڑ کر کہا۔’’ تم جس جنگ کیلئے اکٹھے ہوئے ہو یہ کسی ملک کو فتح کرنے کیلئے نہیں لڑی جائے گی۔ یہ تمہارے مذہب اور تمہاری عزت کی جنگ ہے۔ ایک نیا مذہب ہمارے مذہب کے خلاف اٹھا ہے ہمارا یہ فرض ہو کہ اس مذہب کو جو دراصل کوئی مذہب نہیں ختم کردیں۔مسلمانوں کی فوج چالیس ہزار سے زیادہ نہیں، تم ان کی ہڈیاں بھی پیس ڈالو گے ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہماری فوج میں مسلمانوں کی دہشت پھیل گئی ہے۔ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ مسلمانوں نے جہاں بھی ہماری فوج پرحملہ کیا ہے چوروں کی طرح کیا ہے اور وہاں ہماری نفری تھوڑی تھی وہ کوئی جن بھوت نہیں تمہاری طرح کے انسان ہیں۔ وہ لٹیرے ہیں جو تمہارے گھروں میں گھس آئے ہیں لیکن وہ صرف تمہارا مال و اموال نہیں لوٹتے وہ تمہارا مذہب اور تمہاری عزت لوٹنے آئے ہیں۔‘‘ مؤرخ واقدی بلاذری اور ہنری سمتھ لکھتے ہیں کہ ہرقل نے پہلے ہی ان لوگوں کوبھڑکا کر اپنے لشکر میں شامل کیا تھا اب انہیں اور زیادہ بھڑکا دیا، ابنِ احدی نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو بتایا کہ ہرقل نے دوسرا اجتماع سالاروں نائب سالاروں اور کمانداروں کا کیا۔ پہلے انہیں بھی بھڑکایا۔ پھر انہیں احکام دیئے، اور ہدایات دیں ان کے مطابق ہر سالار کی پیش قدمی اور اس کے ہدف کا تعین کیا گیا تھا۔ یہ ایک دہشت ناک منصوبہ تھا جو اتنے بڑے لشکر سے آسانی سے کامیاب ہو سکتا تھا۔ ہدف حمص تھا اور دوسرا دمشق۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی تمام تر فوج کو جس کی نفری تقریباً چالیس ہزار تھی گھیرے میں لے کر ختم کرنا تھا۔ ہرقل نے گھیرا ڈالنے کا بڑا اچھا منصوبہ تیار کیا تھا اس کے سالار قناطیر کو اپنے تیس ہزار لشکر کے ساتھ انطاکیہ سے سمندر کے ساتھ ساتھ بیروت تک پہنچنا اور وہاں سے دمشق کی طرف مڑ جانا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ مسلمان آگے سے پسپا ہو کر دمشق کی طرف آئیں تو قناطیر کا لشکر ان پر حملہ کردے۔

جبلہ بن الایہم نے حمص کی طرف جاکر مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکنا اور انہیں ختم کرنا تھا۔ مؤرخوں نے لکھاہے کہ حمص پر حملہ کرنے والے لشکر میں صرف عرب عیسائی تھے جن کی تعداد تیس ہزار تھی۔ ہرقل نے کہا تھا کہ وہ عربوں کے خلاف عربوں کو لڑانا چاہتا ہے۔’’لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے۔‘‘ یہ ہرقل کے تاریخی الفاظ ہیں۔حمص کے علاقے میں ہرقل کے ایک اور سالار دیرجان نے بھی جانا تھا۔ اس نے جبلہ سے الٹی سمت سے پیش قدمی کرنی تھی تاکہ مسلمان کسی طرف سے بھی نہ نکل سکیں۔ سالار گریگری کو ایک اور سمت سے حمص کے علاقے میں پہنچنا اور مسلمانوں پر حملہ کرنا تھا اس طرح صرف حمص اور گردونواح کے علاقے میں مسلمانوں پر حملہ کرنے والی رومی فوج کی تعداد نوے ہزار تھی۔ ماہان جو سالارِ اعلیٰ تھا اسے اپنا تیس ہزار کا لشکر کہیں قریب رکھنا تھا تاکہ جہاں کہیں اس کی ضرورت پڑے وہ پہنچے۔ ’’تجھ پراﷲکی سلامتی ہو ابنِ احدی!‘‘ ابو عبیدہؓ نے ہرقل کا تمام تر منصوبہ سن کر کہا۔’’خدا کی قسم! تو نے اپنا گھر جنت میں بنا لیا ہے۔ اگر تو یہ خبریں لے کر نہ آتا تو خود سوچ کہ ہمارا کیا انجام ہوتا…… ابو سلیمان!…… ‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔’’ کیا تو نے یہ محسوس نہیں کیا کہ ہم اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں؟‘‘خالدؓ جو میدانِ جنگ میں دشمن کے اعصاب پر چھاجایا کرتے تھے، چپ چاپ ابو عبیدہؓ کو دیکھ رہے تھے۔ ’’کیا ہمیں پیچھے نہیں ہٹ جانا چاہیے ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’امین الامت! ‘‘خالدؓنے آہ بھر کر کہا۔’’ پیچھے ہٹنا ایک ضرورت ہے لیکن پیچھے ہٹنا میری فطرت نہیں۔‘‘’’خد اکی قسم ابو سلیمان! جو تو سوچ سکتا ہے وہ شاید میں نہ سوچ سکوں۔ ‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ اس وقت اپنی ذات کو نہ دیکھ۔ اپنے ساتھیوں کو اور ان کے انجام کو دیکھ اور بتا ہم کیا کریں۔‘‘’’ہاں ابنِ عبداﷲ!‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کو دوسرے نام سے پکارتے ہوئے کہا۔’’ میں اس حقیقت کو دیکھ کر بات کروں گا جو ہمارے سامنے ہے، اور یہ طوفان جو آرہا ہے، اسے روکنا ہمارے بس کی بات نہیں لیکن ہمیں اس اﷲکو بھی منہ دکھانا ہے جس کے نام پر ہم یہاں تک اپنا اور اپنے دشمن کا خون بہاتے پہنچے ہیں۔ ہماری جانیں اسی کی امانت ہیں…… پہلا کام یہ کر کہ اپنے تمام سالاروں کو جہاں جہاں وہ ہیں، دستوں سمیت ایک جگہ اکٹھاکرلے۔‘‘’’اور ان جگہوں کا کیا بنے گا جو ہمارے قبضے میں ہیں؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’امین الامت!‘‘ خالدؓنے کہا۔’’ تو یقیناً دشمن کے ارادے کوسمجھتا ہے، وہ فیصلہ کن جنگ لڑنے آرہا ہے، اور ہر طرف سے آرہا ہے…… آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے…… اور تو نے ابن احدی سے سن لیا ہے کہ ہرقل نے ہماری پسپائی کے راستے روکنے کابھی انتظام کر دیا ہے……ابنِ عبداﷲ! ہرقل ہمارے دستوں کو وہیں گھیرے میں لینا چاہتا ہے جہاں جہاں وہ ہیں۔ یہ تو اﷲکا احسانِ عظیم ہے کہ ہمیں پہلے سے ہی اس کے منصوبوں کا علم ہو گیا ہے۔‘‘’’کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کو ہماری شکست منظور نہیں؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔ ’’اﷲہمارے ساتھ ہے امین الامت!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’لیکن اﷲ ان کی مدد نہیں کیا کرتا جو اپنے آپ کو دشمن اور حالات کے رحم و کرم پر پھینک دیتے ہیں ……ہرقل ہمیں بکھرا ہوا رکھناچاہتا ہے۔ تمام سالاروں کو وہ تمام جگہیں چھوڑنی پڑیں گی جو ہمارے قبضے میں ہیں۔ اگر اﷲ نے ہمیں فتح عطا کی تو یہ سب جگہیں ہماری ہوں گی۔

ہمیں کہاں اکٹھے ہونا چاہیے؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔ ’’جہاں صحرا ہمارے عقب میں ہو۔‘‘ خالدؓ نے جواب دیا۔’’ جتنی آسانی اور تیزی سے ہم صحرا میں حرکت کر سکتے ہیں اتنی تیزی سے ان علاقوں میں نہیں کر سکتے جہاں ہم اس وقت موجود ہیں۔ صحرا میں ہمارا دشمن نہیں لڑ سکتا۔ ہم صحرا کو اپنے قریب رکھیں گے تو پیچھے ہٹنے میں سہولت ہو گی، اور جب دشمن ہمارے پیچھے آئے گا تو وہ اپنے علاقے کی سہولتوں سے محروم ہو جائے گا۔‘‘ ’’تیرے سامنے ایسی کون سی جگہ ہے؟‘‘’’جابیہ!‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’ وہاں سے تین راستے نکلتے ہیں اور قریب سے ہی صحرا شروع ہو جاتا ہے۔ دریائے یرموک بھی بالکل قریب ہے۔‘‘مسلمانوں کے بکھرے ہوئے دستوں کے سالارِ اعلیٰ ابوعبیدہؓ تھے لیکن وہ خالدؓ کو اپنی نسبت زیادہ قابل ، تجربہ کار اور جارح سالار سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے خالدؓ کو اپنا مشیرِ خاص بلکہ دستِ راست بناکر ساتھ رکھا ہو اتھا ۔اب ہرقل نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی تھی جس میں انہیں خالدؓ کے مشوروں کی شدید ضرورت تھی۔ خالدؓ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک اور خوفناک صورتِ حال میں بھی نہیں گھبراتے تھے۔ انہوں نے جو مشورے دیئے ، ابو عبیدہؓ نے فوری طور پر ان پر عمل کیا۔ وہ زیادہ سوچنے کا وقت تھا ہی نہیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ہرقل کا لشکر انطاکیہ سے کوچ کر چکا تھا،حمص پر مسلمانوں کے قبضے کا تیسرا مہینہ گزر رہا تھا۔ہرقل کے لشکر کا وہ حصہ جو جبلہ بن الایہم کی زیرِ کمان تھا، جون ۶۳۶ء میں حمص کے قریب پہنچ گیا۔ ہرقل کے جاسوسوں نے اسے اطلاع دی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کی فوج کو شیرز کے مقام پر پڑاؤ ڈالے دیکھا ہے لیکن جبلہ کا لشکر وہاں پہنچا تو وہاں پڑاؤ کے آثا ر تو ملتے تھے لیکن لشکر کا کوئی بھی آدمی وہاں نہیں تھا ۔ جبلہ نے کہا کہ وہ حمص میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اس نے اپنا ہراول دستہ حمص کو روانہ کر دیا۔ دیکھا کہ شہر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں دیواروں پر شہر کے لوگ کھڑے تھے۔ کوئی فوجی نظر نہیں آتا تھا۔ ’’کہاں ہیں مسلمان؟‘‘ ہراول کے سالار نے پوچھا۔’’یہاں کوئی مسلمان نہیں۔‘‘ اسے اوپر سے جواب ملا۔ ’’کیا تم اپنے مذہب کے دشمن کے ساتھ مل گئے ہو؟‘‘رومی ہراول کے سالار نے کہا۔’’کیا دروازے کھلے چھوڑ کر ہمیں دھوکا دینا چاہتے ہو؟‘‘’’اندر آکر دیکھ لو۔‘‘اوپر سے شہریوں نے اسے بتایا۔ ’’اگر تم بھی اس دھوکے میں شریک ہو تو اپنی سزا سوچ لو۔‘‘ ہراول کے سالار نے کہا۔اس نے اپنے دستے کو شہر کے باہر رہنے دیا اور اپنے سالار جبلہ کی طرف قاصد دوڑا دیا کہ یہ دھوکا معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں کوئی فوج نہیں۔ جبلہ کو پیغام ملا تو وہ واہی تباہی بکنے لگا۔’’یہ دھوکا ہے۔‘‘جبلہ غصے سے چلایا۔’’ مسلمانوں نے ہماری فوج کو جہاں بھی شکست دی ہے دھوکے سے دی ہے۔ وہ شہر میں موجود ہیں اور انہوں نے ہمیں پھانسنے کیلئے شہر کے دروازے کھلے چھوڑ رکھے ہیں۔‘‘ جبلہ نے اپنے تیس ہزار کے لشکر کو پیش قدمی کا حکم اس ہدایت کے ساتھ دیا کہ حمص کے دروازوں میں سیلاب کی طرح داخل ہوں اور شہر میں بکھریں نہیں۔ مسلمان لوگوں کے گھروں میں چھپے ہوئے ہوں گے۔ اسے یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ اس کا لشکر شہر میں بکھر گیا تو مسلمان اس کے سپاہیوں کو چن چن کر ماریں گے۔ وہ سیلاب کی ہی مانند شہر میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کو للکارنے لگے کہ وہ باہر آئیں لیکن کوئی مسلمان باہر نہ آیا۔ جبلہ نے خطرہ مول لے کر ہر گھر کی تلاشی کا حکم دیا۔ سپاہی لوگوں کے گھروں پر ٹوٹ پڑے۔ تلاشی کے بہانے انہوں نے گھروں میں لوٹ مار کی اور عورتوں پر دست درازی کی۔ شہری چیختے چلاتے باہر آگئے۔

’’تم سے تو وہ اچھے تھے جو چلے گئے ہیں۔‘‘ ’’تم نے اپنے مذہب کا بھی احترام نہیں کیا۔‘‘’’ہمارے مذہب کا احترام مسلمانوں نے کیا تھا۔‘‘’’وہ ہم سے لیا ہوا جزیہ واپس کر گئے ہیں۔‘‘’’وہی اچھے تھے…… وہی اچھے تھے‘‘’’مسلمان تمہاری طرح لٹیرے نہیں تھے۔‘‘جبلہ بن الایہم شہر کے مردوں اور عورتوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا سنتا رہا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان چلے گئے ہیں۔اس نے جب اپنے ہم مذہب لوگوں کی زبان سے یہ الفاظ سنے کہ مسلمان اچھے تھے اور وہ تمہاری طرح لٹیرے نہیں تھے اور یہ کہ انہوں نے جزیہ واپس کر دیا تھا تو اس نے اپنے لشکر کو اکٹھا کیا۔ ’’شکست تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔‘‘جبلہ نے اپنے لشکرسے کہا۔’’آج پہلی بار مجھے پتا چلا ہے کہ مسلمانوں کی فتح کاباعث کیا ہے اور کیوں ہر قصبے اورشہر کے لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ اہلِ صلیب کا شہر ہے مسلمانوں نے ان کی عزت اور آبرو پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ تم بھی اہلِ صلیب ہو مگر تم نے ان کی آبرو پامال کر دی ہے اور ان کے گھروں سے قیمتی سامان اٹھا لائے ہو۔ تم لڑنے نہیں آئے لوٹ مار کرنے آئے ہو اور کہتے پھرتے ہو کہ مسلمانوں میں کوئی غیبی طاقت ہے۔ تم نے لڑے بغیر یہ شہر لے لیا ہے۔ اگر تمہارا ایمان ہوتا تو تمہیں نہ لوٹ مار کی ہوش رہتی نہ تم کسی عورت کی طرف دیکھتے۔ جو سامان تم نے لوگوں کے گھروں سے اٹھایا ہے وہ یہاں رکھ دو۔‘‘ جزیہ کی واپسی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بلاذری ، ابو سعید، ابنِ ہشام اور طبری نے لکھا ہے کہ خالدؓ کے مشورے پر جب سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے مفتوحہ قصبے اور شہر چھوڑ کر جابیہ کے مقام پر تمام دستوں کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو انہو ں نے حمص کے چند ایک سرکردہ افراد کو بلایااور انہیں بتایا کہ وہ حمص سے جا رہے ہیں۔ پہلے تو ان افراد کو یقین نہ آیا جب یقین آیا تو انہو ں نے افسوس کا اظہار کیا۔ ’’ہم نے پہلی بار عدل و انصاف دیکھا تھا۔‘‘ ایک شہری نے کہا۔’’ ہم نے ظلم جبر اور بے انصافی کا راج دیکھا تھا۔ آپ ہمیں عدل و انصاف و عزت و آبرو سے محروم کر کے پھر ہمیں ظالموں کے حوالے کر کے جا رہے ہیں۔‘‘’’اﷲنے چاہا تو ہم پھر آجائیں گے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’میں نے تمہیں وہ جزیہ واپس دینے کیلئے بلایا ہے جو ہم نے تم سے وصول کیا تھا۔‘‘ ’’نہیں…… ‘‘شہریوں کے نمائندوں نے متفقہ طور پر احتجاج کیا۔’’ ہم اپنا جزیہ واپس نہیں لیں گے۔‘‘’’ یہ جزیہ ہم پر حرام ہو گیا ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔ ’’ہم نے تم سے اس معاہدے پر جزیہ لیا تھا کہ ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے لیکن ہم تمہیں ان لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کے جا رہے ہیں جنہیں تم ظالم و جابر سمجھتے ہو۔ ہم تمہاری حفاظت اور سلامتی کا معاہدہ پورا نہیں کر سکے۔ تم اپنا جزیہ وپس لے جاؤ اور یہ تمام شہریوں کو واپس کر دینا۔‘‘ایک مؤرخ ابو یوسف نے لکھا ہے کہ حمص کے شہری جو پہلے ہی مسلمانوں کے سلوک اور انتظام اور عدل و انصاف سے متاثر تھے جزیہ کی واپسی سے اور زیادہ متاثر ہوئے۔ حد یہ کہ حمص میں جو یہودی مقیم تھے ان کے نمائندے نے ابو عبیدہؓ سے کہا کہ حمص میں اب وہی حکمران داخل ہو سکے گا جو فوجی طاقت کے بل بوتے پر آئے گا۔ ورنہ وہ کسی اور کو اپنے اوپر حاکم تسلیم نہیں کریں گے۔ایک یہودی کے منہ سے مسلمانوں کی حمایت کے الفاظ اس وجہ سے حیران کن ہیں کہ یہودی مسلمانوں کے بد ترین دشمن تھے۔ رومی فوج کا سالار قناطیر ہرقل کے منصوبے کے مطابق دمشق پر حملہ کرنے گیا تو وہاں اسے اسلامی فوج کا کوئی آدمی نظر نہ آیا، مسلمان دمشق سے نکل کر جابیہ چلے گئے تھے۔ ابو عبیدہؓ نے ان تمام سالاروں کو جو مفتوحہ جگہوں کے حاکم مقررہوئے تھے حکم بھیجا تھا کہ وہاں سے کوچ سے پہلے لوگوں کو جزیہ کی رقم واپس کر دی جائے کیونکہ ہم ان کی حفاظت نہیں کر سکے۔ چنانچہ دمشق کے شہریوں کو بھی جزیہ واپس کر دیا گیاتھا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی