⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 9👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➒⓿】デ۔══━一

سپہ سالار ابوعبیدہ نے حمص میں اپنا ہیڈکوارٹر جس مکان میں بنایا تھا اور ساتھ ہی رہائش رکھی تھی وہ کوئی معمولی اور عام سا مکان نہیں تھا ،یہ علاقہ بلکہ پورا شام کبھی ایرانیوں اور کبھی رومیوں کے قبضے میں رہا ہے۔ دو بادشاہ تھے اس لیے انہوں نے ہر جگہ اپنے لئے محل تعمیر کرا رکھے تھے۔ رومی فوج کے اس افسر کو جس کا نام روتاس تھا اس محل کے ہی ایک کونے والے کمرے میں رکھا گیا ۔
اس کمرے کے اندرونی زیب و زیبائش، پلنگ، اور دیگر فرنیچر وغیرہ شاہانہ تھے کمرے کے باہر ایک پہرے دار کھڑا کردیا گیا تھا، اور روتاس کو کھانا بھی اچھا دیا جانے لگا ،اگر وہ قید خانے میں قید کیا جاتا تو اسے بڑی گندی کوٹھری میں رکھا جاتا اور نہایت گھٹیا کھانا دیا جاتا۔
اگلے روز شارینا اسکے کمرے میں گئی اس نے کمرے کی ہر ایک چیز دیکھی پھر پلنگ اور بستر کو اچھی طرح دیکھا جیسے کمرے کا معائنہ کر رہی ہو۔
اپنے آپ کو قیدی نہ سمجھنا شارینا نے کہا ۔۔۔تم یہاں مہمان ہو کوئی تکلیف تو نہیں؟ میرا خیال ہے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں؟ کیا تم خدا کا شکر ادا نہیں کرو گے کہ تمہیں قید خانے میں نہیں بھیجا گیا.
تمہارے سپہ سالار نے مجھے آزاد کر دینے کا وعدہ کیا تھا روتاس نے کہا۔۔۔ پہرہ کھڑا کردینے کا مطلب ہے کہ میں قیدی ہوں۔
تم فوج کے افسر ہو شارینا نے کہا۔۔۔ اگر تمہارے پاس تمہارے دشمن کا کوئی آدمی تمہاری ہی طرح تمہارے پاس لایا جائے اور وہ ایسے ہی راز اگل دے جیسے تم نے اگلے ہیں تو کیا تم اسے فوراً آزاد کر دو گے کہ وہ اپنی فوج میں جا کر بتائے کہ وہ راز اگل آیا ہے اور اپنی جنگی منصوبے تبدیل کر دو۔
روتاس نے سرجھکا لیا جیسے اسے شارینا کاجواب ٹھیک لگا ہو، میں تمھارے پاس آتی رہوں گی شارینا نے کہا۔۔۔ ہم دونوں رومی ہیں یہ ایسا رشتہ ہے جسے میں نظرانداز نہیں کر سکتی۔
لیکن اب تو تم مسلمان ہو روتاس نے کہا ۔۔۔تم نے عملاً ثابت کردیا ہے کہ مجھے اپنا دشمن سمجھتی ہو کیا یہ بتانا پسند کرو گی کہ تم یہاں پہنچی کیسے تھی؟ اور پھر تم ایک مسلمان کے ساتھ کہا جا رہی تھی کہ میں تمہارے سامنے آگیا.
تمہاری حیرت کو میں سمجھتی ہوں شارینا نے کہا۔۔۔ تم سوچتے ہو گے کہ میں شہنشاہ ہرقل کی بیٹی ایک معمولی سے عرب مسلمان کے ساتھ کیوں چلی آئی یہ شخص جو میرے ساتھ تھا اس کا نام حدید بن مومن خزرج ہے اپنی فوج میں اس کا عہدہ معمولی سا ہے ہمارا جنگی قیدی تھا مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے اسے رہا کیا اور اس کے ساتھ آ گئی
شارینا نے روتاس کو حدید اور اپنے فرار کا واقعہ سنایا لیکن ایسے لہجے اور انداز سے سنایا جیسے اسے اپنا یہ اقدام پوری طرح اچھا نہ لگا ہو ، روتاس نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں خوش ہے یا کوئی کمی محسوس کر رہی ہے؟
میں یہاں اسلام قبول کرنے نہیں آئی تھی شارینا نے جھوٹ بولا، مجھے اپنے باپ کے خلاف بھی کوئی شکایت نہیں تھی شاید میں پیار کی تشنگی محسوس کرتی تھی اور میری عمر ایسی ہے کہ عقل پر جذبات غالب آ جاتے ہیں معلوم نہیں یہ شخص حدید مجھے کیوں اتنا اچھا لگتا ہے جیسے اس کے ہاتھ میں کوئی طلسم ہے جو مجھ پر بڑے ہی خوبصورت آسیب کی طرح طاری ہوجاتا ہے مجھے اسلام سے نہیں حدید سے محبت ہے میں تمہارے دو سپاہیوں کو مار کر تمہیں زندہ یہاں لے نہ آتی تو تم حدید کو مار ڈالتے۔
تمہیں یہاں حدید کو خوش کرنے کے لئے لائی تھی حدید کے سپہ سالار اس پر بہت خوش ہیں، سچ پوچھو تو یہ لوگ مجھے اچھے نہیں لگے میں تو شہزادی تھی اور کہاں اس جنگل میں خیمےمیں پڑی رہتی ہوں اور زمین پر سوتی ہوں یہ لوگ بہت ہی سادہ بلکہ پسماندہ ہیں آج تمہیں یہاں دیکھ کر اور تمہارے پاس بیٹھ کر مجھے دلی تسکین محسوس ہورہی ہے یہ خیال رکھنا کہ مجھے اپنا دشمن نہ سمجھنا۔میں تمہارے لئے جو کچھ بھی کر سکتی تھی کر دیا ہے ۔
تمہیں قید خانے میں نہیں جانے دیا اور یہ کمرہ تمہیں دلوایا ہے۔
اگر مسلمانوں کو شکست ہوگئی اور یہ یہاں سے بھاگ نکلے تو پھر تم کیا کرو گی روتاس نے پوچھا۔
میں تم سے امید رکھوں گی کہ میرے راز کو دل میں دفن کر دو گے شارینا نے کہا ۔۔۔میں اس کوشش میں ہوں کے حدید کو اپنے ساتھ لے جاؤں اور اسے اسلام سے نکال کر اپنے مذہب میں لے لوں، اگر مسلمان یہاں سے پسپا ہوئے تو پھر میں حدید کو ساتھ لے کر واپس آ جاؤں گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز شارینا پھر روتاس کے کمرے میں گئی وہ تو جیسے شارینا ہی کے انتظار میں تھا ،پہلے روز شارینا نے اس پر ایسا تاثر چھوڑ آئی تھی کہ وہ اگلی ملاقات کا انتظار بڑی بے تابی سے کرنے لگا وہ کوئی بوڑھا آدمی نہیں تھا، شارینا کی باتوں سے زیادہ تو وہ اس لڑکی کے حسن و جوانی سے متاثر ہوا تھا شارینا کا وہ مشکور بھی تھا کہ اس نے اسے قید خانے کی کال کوٹھری سے بچا کر اس امیرانہ کمرے میں رکھا تھا اب شارینا اس کے کمرے میں گئی تو پہلے سے زیادہ دلچسپی سے اس سے پوچھا کہ اسے کوئی تکلیف یا بے آرامی تو نہیں ہوئی؟
نہیں روتاس نے کہا۔۔۔ تم نے اگر میرے پاس آنا چھوڑ دیا تو مجھے بہت تکلیف ہو گی،
میں رومی فوج کے حملے کا انتظار کر رہی ہوں شارینا نے کہا۔۔۔ معلوم نہیں ہرقل کس انتظار میں ہے یہ تو بڑا ہی موزوں وقت ہے کہ حمص کو محاصرے میں لے لیا جائے شہر کے اندر فوج بہت ہی تھوڑی ہے یہ لوگ زیادہ دن مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
ہو جائے گا روتاس نے بے پروائی سے کہا۔۔۔ یہ بادشاہوں کے اور جرنیلوں کے معاملات ہیں تم جو تھوڑا سا وقت میرے ساتھ گزارنے آئی ہو اسے میں خاک و خون کی باتیں کرکے بے مزا نہیں کرنا چاہتا، ہرقل جب مناسب سمجھے گا فوج کو پیش قدمی کرنے کا حکم دے دے گا کوئی اور بات کرو۔
شارینا نے محسوس کرلیا کہ روتاس اسے کوئی اور جنگی معاملے کی بات بتانے سے گریز کر رہا ہے ، اس کا انداز ایک تو ٹالنے والا تھا اور دوسرا یہ کہ وہ شارینا جیسی حسین و جمیل لڑکی کے ساتھ شگفتہ اور رومانی باتیں کرنا چاہتا تھا ، شارینا نے اس کے ساتھ ایسی ہی ہلکی پھلکی باتیں شروع کر دیں ، میری ایک ضرورت پوری نہیں ہورہی ہے روتاس نے کہا ۔۔۔میں شراب کے نشے سے ٹوٹا ہوا ہوں تم جانتی ہو کہ ہم لوگ پانی کی طرح شراب پیتے ہیں لیکن یہاں ایک قطرہ دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔
تم شاید نہیں جانتے شارینا کہا ۔۔۔مسلمان شراب نہیں پیتے یہی نہیں کہ یہ شراب نہیں پیتے بلکہ اسے گناہ سمجھتے ہیں اور شراب پینے والے کو سزا دیتے ہیں۔
شارینا بڑی ذہین اور فہم و فراست والی لڑکی تھی روتاس نے شراب کا نام لیا تو شارینا کو یاد آیا کہ اس کی قوم تو اتنی شرابی ہے کہ پانی نہ ملے تو نہ سہی شراب ضرور مل جائے۔ شارینا نے سوچا کہ یہ روتاس کی ایسی کمزوری ہے جسے ہاتھ میں لے لیا جائے تو اس کے اندر سے سارے راز نکالے جاسکتے ہیں ، یہی سوچ کر شارینا نے شراب ہی کی بات چلنے دی اور ایسی باتیں شروع کر دی کہ روتاس شراب کی طلب پہلے سے زیادہ محسوس کرنے لگا اب تو صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ بری طرح نشے سے ٹوٹا ہوا ہے، کچھ کرو شارینا روتاس نے کہا ۔۔۔اس شہر میں عیسائی بھی رہتے ہونگے اور وہ شراب تو ضرور ہی پیتے ہونگے کسی طرح کسی عیسائی یا کسی بھی غیر مسلم کے گھر سے شراب لا دو۔
لا تو دوں شارینا نے کہا۔۔۔ لیکن میں پکڑی گئی تو مجھے یہ لوگ سزا دیں گے میں اپنے آپ کو اس خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔
اب تو روتاس نے شارینا کی منت سماجت شروع کر دی آخر شارینا نے کہا۔۔۔ کہ وہ پوری کوشش کرے گی اور اسے شراب لا دے گی لیکن ہر روز نہیں لا سکے گی اگر لاسکی بھی تو اسے نہیں دے گی کیونکہ پہرے دار ہر وقت دروازے کے باہر موجود رہتا ہے اس نے شراب کی بو سونگھ لی تو سیدھا اندر آئے گا اور دونوں کو شراب خوری کے جرم میں سپہ سالار کے آگے کھڑا کر دے گا پھر سپہ سالار کوڑوں کی سزا دے گا جو شاید ہی کوئی برداشت کر سکتا ہو۔
کچھ وقت روتاس کے ساتھ گزار کر شارینا وہاں سے نکلی اور حدید سے ملی، حدید سے کہا کہ وہ کسی طرح شراب کا انتظام کردیے حدید یہ سمجھا کہ شارینا ایک رومی کو خوش کرنا چاہتی ہے حدید نے اسے بتایا کہ شراب خوری جرم ہے اور اس کی کیا سزا ھے۔
یہ میں یہاں کی عورتوں سے سن چکی ہوں شارینا نے کہا ۔۔۔روتاس سے میں نے ابھی کچھ پوچھنا ہے لیکن وہ ٹال مٹول کررہا ہے اور مجھے شک ہے کہ وہ اور کچھ نہیں بتانا چاہتا آج اس نے شراب مانگی ہے اور وہ بری طرح سے ٹوٹا ہوا ہے میں چاہتی ہوں کہ اسے تھوڑی سی یا جتنی بھی مل جائے پلا کر اسے کچھ اور باتیں معلوم کروں۔
روتاس نے ٹھیک کہا تھا کہ حمص میں عیسائی بھی آباد ہیں بت پرست بھی ہیں اور شاید ایک دو گھر آتش پرستوں کے بھی ہوں، ان لوگوں کے یہاں شراب ہو گی ایک اور بات یاد آ گئی حدید نے کہا ۔۔۔روتاس سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ حمص میں ہرقل کے جاسوس موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہیں تو بتائیے کہ وہ کون ہے، میں شراب کا بندوبست کر لونگا۔
حدید کے لیے یہ کام مشکل نہیں تھا اس نے دو تین غیر مسلم گھروں سے کچھ شراب اکٹھا کر لی اور چھوٹے مشکیزے میں ڈال کر مشکیزا شارینا کے حوالے کر دیا اس کے ساتھ ہی حدید نے شارینا کو بتایا کہ وہ سپہ سالار سے اجازت لے لے گا کہ روتاس سے مزید راز اگلوانے کے لیے اسے شراب پلانا ضروری ھے ،اس کی اجازت دے دی جائے،
حدید نے سپہ سالار سے یہ اجازت بھی لے لی اور طے یہ پایا کے روتاس کو نہ بتایا جائے کہ شراب نوشی کی اجازت لے لی گئی ہے بلکہ اسے اس تاثر میں رکھا جائے کہ اسے چوری چھپے شراب پلائی جارہی ہے پہرے داروں کو بھی کہہ دیا گیا کہ انہیں کمرے سے شراب کی بو آئے تو اسے نظرانداز کردیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز شارینا شراب کا یہ چھوٹا سا مشکیزہ ایک چادر میں لپیٹ کر روتاس کے پاس گئی اور اسے بتایا کہ اس نے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے اور اب وہ بچ بچا کر پی لے۔
روتاس نے شارینا سے مشکیزہ اس طرح لیا جیسے اس سے چھینا ہو، شارینا نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا روتاس نے شراب گلاس میں ڈال کر پینی شروع کردی اور شارینا سے کہا کہ وہ بھی لے، لیکن اس لڑکی نے انکار کردیا
شراب اپنے سامنے دیکھ کر میں بڑی مشکل سے اپنے آپ پر جبر کر رہی ہوں شارینا نے کہا ۔۔۔لیکن میں مجبور ہوں اگر ایک گھونٹ بھی پی کر حدید کے پاس گئی یا کسی کے پاس سے بھی گزری وہ مجھے پکڑ لے گا اور پھر یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ یہ لڑکی کون ہے اور کس کی بیٹی ہے اور یہ کتنی اہم ہے وہ مجھے سپہ سالار کے یہاں پیش کر دیں گے اور سپہ سالار ایسی سزا دے گا جو میں برداشت نہیں کر سکوں گی۔
اس دوران روتاس پیتا ہی چلا گیا اور اب اس نے جو باتیں کیں اس میں ہلکی ہلکی لڑکھڑاہٹ تھی وہ نارمل حالت میں رہا ہی نہیں تھا۔
میں واپس جانا چاہتی ہوں شارینا نے کہا یہاں کی پابندیاں دیکھو کہ شراب بھی نہیں پینے دیتے معلوم نہیں شاہ ہرقل کب حملہ کرے گا، حمص سے مسلمان بھاگے تو میں یہاں ہی رہوں گی تم مجھے بتاتے کیوں نہیں کہ حملے میں اتنی تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟ میں تو سوچتی ہوں کہ مجھے موقع ملے تو میں ہرقل کے پاس پہنچ جاؤں اور اسے کہو کہ یہی وقت ہے حملے کا ، اگر ادھر ادھر سے کمک آ گئی تو پھر رومیوں کے لئے حمص فتح کرنا ممکن نہیں رہے گا۔اس کی کچھ وجوہات ہیں روتاس نے کہا۔۔۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاہ ہرقل بہت ہی محتاط ہوگیا ہے ،وہ خود کتنا ہی جرات اور ہمت والا کیوں نہ ہو لڑنا تو فوج نے ہے ساری فوج پر مسلمانوں کی دہشت طاری ہو گئی ہے۔
وہ تو ہونی ہی تھی شارینا نے کہا ۔۔۔مسلمانوں نے ہرمیدان میں ہماری فوج کو بہت بری شکست دی ہے اور پورے کا پورا ملک فتح کرلیا ہے ادھر ایرانیوں کو اسی طرح مسلمان شکست دیتے دیتے ان کے ملک سے ہی باہر لے گئے ہیں وہ خبریں بھی ہماری فوج تک پہنچتی رہتی ہیں۔
حیرت اور دہشت کی وجہ اور ہے روتاس نے کہا ۔۔۔حیرت اس پر کے مسلمانوں کی تعداد ہمارے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی ہے اور دہشت اس وجہ سے کہ اتنی تھوڑی تعداد میں انہوں نے اتنی بڑی اور طاقتور فوج کو شکست دے دی ہے۔
ہماری فوج میں مسلمانوں کے متعلق عجیب و غریب اور پر اسرار کہانیاں مشہور ہوگئی ہیں ہمارے سپاہی یقین کی حد تک کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے قبضے میں جنات ہیں۔
ہماری فوج نے تو ایرانیوں جیسی طاقتور فوج کو بھی شکست دی ہے شاہ ہرقل زخمی شیر کی طرح آخری حملہ تو ضرور کرے گا ،اور اس نے فوج اور قبائل کا لشکر آگے بھیج بھی دیا ہے لیکن اب وہ قدم اٹھانے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔
جزیرہ کے ان قبائل کا لشکر تو تازہ دم ہے شارینا نے کہا ۔۔۔کیا یہ مدد شاہ ہرقل کے لئے کافی نہیں؟
کافی تو ہے روتاس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ان قبائل کے متعلق شاہ ہرقل اور زیادہ محتاط ہے یہ تو میں بھی کہتا ہوں کہ ان قبائلیوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا شاہ ہرقل نے اپنے جرنیلوں اور ان سے چھوٹے افسروں سے کہہ دیا ہے کہ یہ قبائل اپنے گھروں اپنے بیوی بچوں اور اپنے جان و مال کی حفاظت کے خاطر اکٹھا ہوئے ہیں ان میں کوئی قومی جذبہ نہیں نہ ان کی اپنی کوئی بادشاہی نہیں ہے جس کی خاطر یہ لڑنا چاہیں گے۔
ان قبائل کے سرداروں نے صاف کہا ہے کہ مسلمان ان کے گھر تباہ کر دیں گے اور ان کی لڑکیوں کو اٹھا لے جائیں گے یہ لوگ صرف تحفظ چاہتے ہیں جو اگر انہیں مسلمانوں کی طرف سے مل گیا تو رومیوں کے خلاف ہو جائیں گے۔
پھر ان لوگوں میں ایک خامی اور بھی ہے یہ فرداً فرداً لڑاکے اور شہسوار ہوسکتے ہیں اور ہیں بھی، لیکن فوج کی تنظیم اور ترتیب میں لڑنا کوئی اور ہی بات ہے پہلے تو انہیں یہ سیکھنا ہے کہ فوج کی ترتیب میں کس طرح لڑا جاتا ہے اگر انہیں اسی طرح میدان میں لے آئے تو یہ فوج کی طرح نہیں بلکہ ایک ہجوم کی طرح لڑیں گے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قبائلی دیکھیں گے کہ رومی فوج لڑتی ہے یا بھاگتی ہے، اگر ہماری فوج جم کر نہ لڑی تو سب سے پہلے یہ قبائلی بھاگیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ مسلمانوں سے جا ملیں، اگر آج انہیں معلوم ہو جائے کہ رومیوں کی نسبت مسلمان ان کے ہمدرد ہیں تو یہ رومیوں سے منہ موڑ جائیں گے۔
*روتاس کبھی ہرقل کے محافظ دستے کا کمانڈر ہوا کرتا تھا اور اب وہ جاسوسی کے نظام کا کمانڈر تھا اور اپنے دو آدمیوں کے ساتھ حمص کی طرف دیکھنے آ رہا تھا کہ مسلمانوں کا دفاعی انتظام کیسا ہے، اور کیا قلعے کے باہر بھی کوئی فوج ہے، جاسوسی کے شعبے میں ہونے کی وجہ سے وہ ہرقل کی سطح کی باتیں بھی جانتا تھا لیکن وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکا کہ شارینا اس کے سینے سے راز اگلوا رہی ہے، اس کامیابی میں شارینا کی ذہانت تو کام کر رہی تھی لیکن اصل کام شراب نے دکھایا تھا۔*
*روتاس پیتا اور بہکتا چلا گیا اور جب اس کا دماغ بالکل ہی ماؤف ہو گیا تو شارینا وہاں سے آ گئی اور حدید کو بتایا کہ اس نے کیا کچھ معلوم کیا ہے ،حدید شارینا کو سپہ سالار ابوعبیدہ کے پاس لے گیا اور شارینا نے وہی باتیں پھر دہرا دی۔*
*ابو عبیدہ نے اسی وقت جاسوسی کے نظام کے سربراہ کو بلایا اور اسے بتایا کہ رومیوں کے ہاں کیا ہو رہا ہے اور اس صورتحال سے ہم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔*
*وہ میں بتاتا ہوں سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا۔۔۔ انتہائی عقلمند آدمی بھی جو اپنے آپ کو وہاں مختلف عیسائی قبیلوں کے فرد ظاہر کریں اور بتائیں کہ وہ قبائل کے لشکر میں شامل ہونے آئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے۔*
*فوری طور پر دس بارہ مجاہدین منتخب کرکے تیار کئے گئے انہیں دشمن کے علاقے میں جانے کا اور وہاں کے لوگوں میں گھل مل جانے کا تجربہ خاصا تھا اور انھیں ٹریننگ بھی ایسی ہی دی گئی تھی، ان میں سرفہرست حدید تھا، ان کا کام یہ تھا کہ رومی فوج کے ساتھ جو غیر مسلم قبائل جا ملے ہیں ان میں شامل ہو جائیں اور انہیں رومیوں کے خلاف گمراہ کریں۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*ابو عبیدہ نے اپنے ماتحت سالاروں کو بلایا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک قاصد خالد بن ولید کی طرف دوڑا دیا کہ وہ جس قدر جلدی ہو سکے حمص پہنچ جائیں۔*
*میرے عزیز رفیقوں!،،،، ابو عبیدہ نے اپنے سالاروں سے کہا تم سب نے سن لیا ہے کہ اس رومی فوج کے افسر روتاس نے ہرقل کی فوج اور عیسائی قبائلیوں کے متعلق کیا باتیں بتائی ہیں، اور ہرقل کس تذبذب میں پڑا ہوا ہے لیکن اس سے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ ہمارا دشمن اپنے ہاں کی صورتحال اپنے موافق کرکے حملہ کرے گا،*
*ہم یہی سمجھیں گے کہ کسی بھی وقت حمص محاصرے میں آجائے گا۔*
*اور ہمارے پاس نفری اتنی تھوڑی ہے کہ ہم یہ محاصرہ توڑ نہیں سکیں گے میں نے قبائلیوں میں شامل ہونے کے لیے بڑے ذہین اور اپنے کام میں ماہر مجاہدین کو روانہ کر دیا ہے ۔*
*مدینہ کو بھیجے ہوئے قاصد آدھا راستہ طے کر چکے ہوں گے۔*
*اپنی دفاعی تیاریاں مکمل رکھو، اور خود بھی دعا کرو اور مجاہدین سے کہو وہ بھی اللہ کے حضور دعا کرتے رہیں کہ کمک جلدی پہنچ جائے اور اگر نہ پہنچ سکے تو اللہ ہماری مدد کرے۔*
*سپہ سالار ابوعبیدہ کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ راتوں کو جیسے سوتے بھی نہ ہوں ایسا تو وہ دن اور رات میں دو تین مرتبہ ضرور کرتے کہ قلعے کی دیوار پر جا کھڑے ہوتے اور مدینہ کی طرف دیکھنے لگتے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اتنی جلدی کمک نہیں پہنچ سکتی، دن گزرتے جا رہے تھے اس وقت خالد بن ولید شام کی مفتوحہ شہر قنسرین میں تھے ،حمص کا قاصد ان تک پہنچا اور انہیں بتایا کہ حمص کس طرح خطرے میں آ گیا ہے ۔*
اور سپہ سالار اس وقت کس تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہیں، خالد بن ولید اسی وقت کمان اپنے نائب سالار کے حوالے کرکے حمص کو روانہ ہو گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو اپنے سامنے دیکھا تو انہوں نے دلی سکون محسوس کیا وہ تو اپنے آپ کو تنہا اور کچھ حد تک بے بس سمجھنے لگے تھے، خالد بن ولید بہت ہی تیز رفتاری سے آئے تھے وہ خود بھی آرام کرنے کے قائل نہیں تھے نہ ابوعبیدہ نے کہا کہ ذرا سستالو پھر بات کریں گے۔
ابو عبیدہ نے انہیں بتایا کہ حمص کی طرف کتنا بڑا خطرہ بڑھا چلا آرہا ہے اور حمص میں اس لشکر کے مقابلے میں بہت تھوڑی نفری ہے ،ابوعبیدہ نے اس دوران جو اقدام کئے تھے وہ تفصیل سے خالد بن ولید کو بتائی۔
میں نے جو سوچا ہے وہ یوں ہے ۔۔۔۔ابو عبیدہ نے کہا۔۔۔ انطاکیہ، حماۃ، حلب ،اور قریب کی تمام چھاؤنیوں سے مجاہدین کی آدھی آدھی نفری حمص میں اکٹھی کر لی جائے اور محصور ہو کر لڑا جائے۔
محصور ہو کر نہیں،، ۔۔۔خالد بن ولید نے مشورہ دیا۔۔۔ ہم قلعے سے باہر دشمن کا مقابلہ کریں گے یہ کوئی نیا دشمن نہیں۔ اسے ہم بڑی دور سے دھکیلتے چلے آ رہے ہیں اور شام کی آخری سرحد تک پہنچا چکے ہیں ۔اسکی چالوں کو اور اس کی فوج کو ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں ہم اس میدان میں بھی اسے شکست دے دیں گے۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کا یہ مشورہ قبول نہ کیا ،وہاں حمص کے دو تین سالار بھی موجود تھے انہوں نے اپنے سالار ابوعبیدہ کی اس تجویز سے بھی اختلاف کیا کہ دوسری جگہوں سے مجاہدین کی آدھی آدھی نفری یہاں بلا لی جائے اور انہوں نے خالد بن ولید کے مشورے سے بھی اختلاف کیا۔ وجہ یہ بتائی کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ دشمن کو پہلے پتہ چل جائے کہ حمص کو مضبوط کرنے کے لئے دوسری جگہوں سے نفری اکٹھا کر لی گئی ہے تو دشمن ان میں سے کسی اور جگہ پر حملہ کرکے قبضہ کر سکتا ہے اور اس طرح دوسری بڑی چھاؤنیوں پر بھی ہلا بول کر کامیاب ہو سکتا ہے ،ان سالاروں نے کہا کہ کسی شہر اور قبضے کو کمزور نہ کیا جائے اور صرف مدینہ کی کمک کا ہی انتظار کیا جائے اگر کمک آنے سے پہلے روم میں پہنچ گئے تو پھر انھیں حالت میں لڑیں گے اور اللہ سے دعا کریں گے کہ ہمارے صبر اور استقامت کا اجر عطا فرمائے۔
وہ دین ایمان والے تھے اللہ کے راہ میں باطل کے خلاف وطن سے بے وطن ہوئے اور اپنا اور دشمن کا خون بہا رہے تھے، ان کے دلوں میں ہوس ملک گیری نہیں تھی اور وہ اپنی بادشاہی قائم کرنے کے ارادے سے گھروں سے نہیں نکلے تھے انہوں نے تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیا اور جو نہتے تھے ان کے دل انہوں نے اخلاق سے موہ لئے تھے، جن شہروں کو انہوں نے فتح کیا انہوں نے وہاں کے لوگوں سے جزیہ تو وصول کیا لیکن ہرقل جیسے بادشاہوں نے ان پر جو ظالمانہ محصولات عائد کر رکھے تھے ، وہ اتنے کم کر دیے کہ جس کی جتنی حیثیت اور استطاعت تھی اس سے اسی کے مطابق محصولات وصول کیے جاتے تھے ، وہاں کے غیر مسلم مسلمانوں سے بہت ہی خوش اور مطمئن تھے، اور نظر یوں آتا تھا کہ مشکل کے وقت مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے لیکن اسلام کے سالار ان پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے تھے۔
اسلام کے لیے اولین مجاہدین اللہ سے مدد مانگتے تھے دعائیں کرتے تھے لیکن صرف دعاؤں پر ہی بھروسہ نہیں کرتے تھے وہ قرآن کے اس فرمان سے بڑی اچھی طرح آگاہ تھے کہ تم عملاً جتنی کوشش کرو گے اللہ تمہیں اتنا ہی دے گا ۔
انہوں نے کبھی معجزے کی توقع نہیں رکھی تھی، انہوں نے اپنی جانیں دے کر اسلام کو زندہ رکھا اپنا خون بہا کر شمع رسالت کو بجھنے نہ دیا اور اس طرح اللہ کا پیغام حق دور دور تک پھیلتا چلا گیا۔
ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو واپس قنسرین بھیج دیا تھا کہ وہاں کا دفاع ان کی غیر حاضری میں کمزور نہ ہوجائے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب خالد بن ولید ابو عبیدہ سے رخصت ہوئے تو ان کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے وہ اپنے سالار کو اس مشکل صورتحال میں اکیلا چھوڑنا نہ چاہتے ہوں۔
ابن جراح! ۔۔۔خالد بن ولید نے ابوعبیدہ سے کہا۔۔۔ میری ضرورت پیش آ گئی تو ایسا قاصد بھیجنا جو اڑتا ہوا مجھ تک پہنچے ،اور میں اس سے زیادہ تیز رفتاری سے پہنچوں گا ،خالد بن ولید ابو عبیدہ سے گلے ملے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اللہ حافظ کہہ کر روانہ ہو گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دونوں قاصد مدینہ پہنچ گئے اس وقت وہ اونٹوں پر سوار تھے اور اونٹ دوڑتے آ رہے تھے وہ اکیلے نہیں تھے مدینہ کے کئی آدمی اور لڑکے ان کے ساتھ ساتھ دور سے آ رہے تھے ، یہ تو مدینہ کا معمول بنا ہوا تھا کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور کسی نہ کسی وجہ سے محاذ پر نہیں گئے تھے وہ قاصد کے منتظر رہتے تھے بعض تو شہر سے کچھ آگے چلے جاتے اور جب کوئی قاصد آتا تو اس کے ساتھ ساتھ دوڑ پڑتے اور پوچھتے تھے کیا خبر لائے ہو ،قاصد لوگوں کے جذبات کو سمجھتے تھے اور کم از کم الفاظ میں ان کو خبر سنا دیتے تھے۔
اس وقت مجاہدین اسلام بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہے تھے دونوں دشمن باطل کی بڑی ہی زبردست جنگی قوت سمجھے جاتے تھے، اور یہ غلط نہیں تھا کہ ان کے مقابلے میں کوئی آنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا ۔
ایک آتش پرست ایرانی، اور دوسرے رومی، ان محاذوں سے کسی بھی وقت کوئی بہت ہی بری خبر آ سکتی تھی۔
اور اکثر توقع یہی ہوتی تھی کہ بری خبر آئے گی، لیکن مجاہدین کے ساتھ ضعیف العمر بوڑھوں ، معصوم بچوں، اور معذوروں کی دعائیں تھیں جو محاذوں پر جانے کے قابل نہیں تھے اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعاوں سے ان کی مدد کر رہے تھے۔
مدینہ کی گلیوں میں شور بپا ہوگیاقاصد آئے ہیں دو قاصد آئے ہیں یہ شور و غل امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنی کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ بڑی تیزی سے اٹھے اور قاصدوں کے استقبال کے لیے باہر آگئے، اور اس طرف دوڑ پڑے جدھر سے قاصد آ رہے تھے قاصدوں نے ان کے قریب آ کر اونٹ روکے اور اونٹوں کو بٹھا کر اترنے کے بجائے اونٹوں سے کود آئے۔
اچھی خبر لائے ہو؟ ۔۔۔حضرت عمر نے پوچھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔
خبر بری بھی نہیں۔۔۔ ایک قاصد نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ کمک جلدی پہنچ جائے گی تو خبر اچھی بھی ہو جائے گی۔
یا امیرالمومنین! ۔۔۔دوسرے قاصد نے کہا۔۔۔ ہم کہیں سے پسپا نہیں ہوئے ۔چلیے بیٹھ کر پیغام سناتے ہیں ،گھر میں داخل ہو کر حضرت عمر نے قاصدوں کو بٹھایا اور ان کے لیے پانی اور کھانا وغیرہ منگوایا اور پھر کہا ۔۔۔کہ اب بتاؤ ایک قاصد بولنے لگا اس نے پوری تفصیل سے بتایا کہ حمص کس خطرے میں آ گیا ہے، اور رومی فوج کے ساتھ الجزیرہ کے غیر مسلم قبائل کا لشکر بھی شامل ہو گیا ہے،
خدا کی قسم! ۔۔۔امیرالمومنین نے ساری تفصیلات سن کر کہا مجھے میری ذات سے اشارے مل رہے تھے کہ ایسی صورت پیدا ہو ہی جائے گی میں اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کیوں نہ کروں جس نے مجھے اتنی فہم و فراست عطا کی ہے کہ اس کا دفاعی انتظام پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔
امیرالمومنین نے جس دفاعی انتظام کی طرف اشارہ کیا تھا تاریخ میں اس کا ذکر ایک دو مؤرخ ہی کرتے ہیں تو ہم ان کے نام لے کر حوالے دیتے ہیں لیکن صرف مسلمان مؤرخین نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم یورپی مؤرخوں نے بھی حضرت عمر کی جنگی فہم و فراست کو خراج تحسین پیش کیا ہے، کہ ہر محاذ کے ہر گوشے تک کمک پہنچانے کے انتظامات انہوں نے تیار رکھے ہوئے تھے، سب سے بڑا انتظام یہ تھا کہ انہوں نے بصرہ اور کوفہ کو اس طرح آباد کیا تھا کہ ان دونوں جگہوں کو بہت بڑی چھاونی بنا دیا اور کسی غیر مسلم کو وہاں آباد نہیں ہونے دیا تھا تاکہ دشمن کو خبر نہ ہونے پائے کہ یہاں کیا کچھ موجود ہے۔
اس کے علاوہ سات اور شہر کے جن میں سے ہر شہر میں امیرالمؤمنین نے چار چار ہزار سوار مجاہدین ہنگامی حالت کے لیے رکھے ہوئے تھے ۔
ان کے لئے حکم تھا کے اس طرح ہر وقت کیل کانٹے سے لیس ہوکر تیار رہیں کہ جو نہی کہیں سے کمک طلب کی جائے تو قریبی شہر سے چار ہزار سوار یا اس سے کم فوراً روانہ ہو جائیں اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر وہاں تک پہنچے جہاں ان کی ضرورت ہو۔
امیرالمومنین نے اسی وقت ایک قاصد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑا دیا اور یہ پیغام دیا کہ قعقاع بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر یہ پیغام ملتے ہی حمص بھیج دو اور وہاں ابوعبیدہ سبھی دشمن میں گھرگئے ہیں اور کمک پہنچنے تک نہ جانے وہاں کیسی صورتحال پیدا ہو جائے۔
اس وقت سعد بن ابی وقاص مدائن میں تھے اور زرتشت کے پجاری وہاں سے بھاگ گئے تھے اور اس طرح کسریٰ ایران کو شکست فاش دے دی گئی تھی اور عراق مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔
قعقاع بن عمرو اس وقت کوفہ میں تھے، سعد بن ابی وقاص نے امیرالمومنین کا پیغام ملتے ہی ایک قاصد کوفہ بھیج دیا۔
قعقاع پیغام ملتے ہی چار ہزار سوار لے کر یوں کوفہ سے حمص کو نکلے جس طرح اچانک طوفان اور بگولے اٹھا کرتے ہیں۔
ان کے لیے حکم تھا کہ کم سے کم پڑاؤ کرکے تیز سے تیز حمص پہنچنا ہے۔
اس وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس ان کے مشیر بیٹھے ہوئے تھے۔
اور امیرالمومنین جو کچھ بھی سوچتے ان سے مشورہ لیتے تھے۔
یہ صورت حال امیرالمؤمنین حضرت عمر کے تدبر اور دور اندیشی کی بڑی سخت آزمائش تھی۔ وہ پسپائی اور شکست کا نام بھی نہیں سننا چاہتے تھے۔ یہ تو جذباتی کیفیت تھی۔ حقیقت یہ انہیں نظر آرہی تھی کہ حمص سے پاؤں اکھڑے تو پھر نہ جانے کہاں تک مجاہدین کو پیچھے ہٹنا پڑے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ایران سے فوج نکال کر بھیجی جائے اور کسرا ایران پھر اٹھ کھڑا ہو، اور عراق کے مختلف علاقوں پر پھر قبضہ کرلے۔
میرے بھائیوں! ۔۔۔۔امیرالمومنین نے اپنے مشیروں سے کہا۔۔۔ خدا کی قسم یہ ساری سازش الجزیرہ کے قبائل کی ہے ان میں اکثریت عیسائیوں کی ہے وہ نہیں چاہتے کہ اسلام اس علاقے تک پہنچے انہوں نے ہرقل کو اکسایا اور کم و بیش تیس ہزار کا لشکر اسے دیا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں اور مسلمانوں کو ملک شام سے بے دخل کردیا جائے،،،،،
جہاں تک میں جانتا ہوں ہرقل میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ کہیں بھی ہمارے مجاہدین پر جوابی حملہ کرے گا اس کی اس فوج کی تو کمر ہی ٹوٹ چکی ہے جو شام میں لڑی تھی اس کی فوج کی بیشتر نفری ماری گئی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں تو اتنی زخمی ہے اور اگر کچھ نفری جسمانی لحاظ سے صحیح اور سلامت ہے تو اس میں لڑنے والا جذبہ بجھ چکا ہے ۔
اسے مصر سے جو فوج ملی ہے اس نے ہرقل کے نیم مردہ ارادوں میں کچھ جان ڈال دی ہوگی اور اس برے وقت میں یہ قبائلی اس کے پاس جا پہنچے اور اتنا بڑا لشکر اسے دے کر اس میں پھر غرور اور تکبر پیدا کردیا ہوگا۔
*تم جانتے ہو کہ قبائلیوں کا علاقہ جنگ سے محفوظ رہا ہے ان کی تین بستیوں نے ہمارے مقابلے میں ہمارے دشمن کا ساتھ دیا تھا لیکن دشمن پھر بھی شکست کھا کر پسپا ہوا اور ہم نے ان تینوں بستیوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ ان کی باقی تمام بستیاں محفوظ رہی۔*
*کیا تم کوئی طریقہ سوچ سکتے ہو کہ ان قبائلیوں کو رومیوں سے الگ کیا جائے۔*
*ان کی بستیوں پر یلغار کی جائے ایک مشیر نے کہا ۔۔۔انہوں نے ابھی جنگ کا ذائقہ نہیں چکھا سوائے ان تین بستیوں کے ۔۔۔ان پر آفت نازل ہوگی تو وہ تیس ہزار قبائلی جو بزنطیہ ہرقل کے پاس چلے گئے ہیں بھاگم بھاگ واپس اپنی بستیوں کو جائیں گے۔*
*خدا کی قسم !۔۔۔امیرالمومنین نے کہا ۔۔۔ہماری سوچیں ایک جیسی ہیں اور جب خیالات میں ہم آہنگی ہو تو پھر اس دیوار کو کوئی نہیں توڑ سکتا ان قبائلیوں کی بستیوں پر حملے ہونگے تو وہ واپس آئیں گے ہی لیکن ہرقل ان کا ساتھ نہیں دے گا۔*
*اس صورت میں ابوعبیدہ تھوڑی سی کمک کے ساتھ ہرقل پر چڑھ دوڑے گا اور پھر ہرقل کے لئے یہی راہ نجات رہ جائے گی کہ وہ بحری جہازوں میں فوج کو لاد کر مصر کو روانہ ہوجائے۔*
*یہ بھی یاد رکھو کہ شام اب ہمارا ملک ہے اس ملک کے جو لوگ ہمارے دشمن کے پاس اس نیت سے گئے ہیں کہ وہ ہم پر جوابی حملہ کرے اور یہ لوگ اس کی مدد کریں گے تو یہ بغاوت ہے یہ لوگ باغی ہیں ،غدار ہیں ،اور ان کے دماغوں کو ٹھکانے پر لانا ہمارا حق بھی ہے فرض بھی۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*امیرالمومنین کے پاس پورا ریکارڈ تھا کہ کونسا سالار کہاں ہے اور اس کے پاس کتنے دستے ہیں اور اسے ایک محاذ سے فارغ کرکے کسی دوسرے محاذ کو بھیجا جاسکتا ہے یا نہیں؟*
*بلاذری نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس قسم کی تفصیلات اور اعداد و شمار اپنے ذہن میں محفوظ رکھتے تھے، اور کبھی اس قسم کی باتیں کرنے لگتے تھے جیسے انہیں وہ محاذ سامنے نظر آ رہا ہو، اور امیرالمومنین اس کا آنکھوں دیکھا حال سنا رہے ہوں، یہیں سے کچھ ایسی روایت نے جنم لیا جن میں کچھ حقیقی ہے اور کچھ بنائی گئی تھی۔-*
*ان روایات سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دشمن کی شکست اور اپنی فتح کا اس قدر خیال ہوتا تھا کہ ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی اپنے آپ کو محاذ پر تصور کرتے تھے ،ایک اور تاریخ نویس طبری نے لکھا ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سپہ سالار ابوعبیدہ کے پیغام کے مطابق مختلف احکامات دے رہے تھے اور اقدام کر رہے تھے یوں لگتا تھا جیسے وہ مدینہ میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ محاذوں کے قریب کسی ایسی بلندی پر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں سے انہیں تمام محاذ نظر آ رہے ہوں اور اس کے مطابق احکام دے رہے ہوں۔*
*حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عراق و ایران کے محاذ کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام ایک اور پیغام لکھوایا ۔*
*اس میں انہوں نے یہ حکم دیا کہ سالار سہیل بن عدی اور عبداللہ بن غسان کو چار چار ہزار سوار دے کر الجزیرہ میں ان قبائلی علاقوں میں بھیج دیں جنہوں نے ہرقل کو اپنے تیس ہزار آدمی حمص پر حملہ کرنے کیلئے دیئے ہیں۔*
*ان دونوں سالاروں کے لئے امیر المومنین نے یہ ذمہ داریاں لکھی کہ سہیل بن عدی کو زقہ بھیجا جائے ،اور عبداللہ بن غسان کو نعین کے علاقے میں روانہ کیا جائے ۔*
*دونوں سالار ان قبائل کے بستیوں پر حملہ کریں۔*
*اگر وہ مقابلہ کریں تو لڑیں، اگر ہتھیار ڈال دے تو انہیں جنگی قیدی بنا لیں، اور اگر وہ زیادہ مقابلہ کریں اور ہتھیار نہ ڈالیں تو ان کی بستیوں کو تباہ کردیا جائے۔*
*امیرالمومنین نے یہ بھی لکھوایا کہ جب یہ دونوں سالار ان علاقوں سے جو انہیں دیے گئے ہیں باغیوں کو صاف کردیں تو سہیل بن عدی حران اور عبداللہ بن غسان رہاء چلے جائیں۔*
*حضرت عمر نے مزید حکم یوں لکھوایا کہ سالار ولید بن عتبہ الجزیرہ کے ان غیر مسلم عربوں کے علاقے میں جاکر حملہ کریں جہاں دو قبیلے بنو ربیعہ اور بنو تنوخ رہتے ہیں،،،،*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقل کا اپنا ایک جاسوسی اور مخبری کا نظام تھا جس سے اس کے ذاتی حلقے کے افراد بھی ناواقف تھے ،یہ نظام اتنا خفیہ تھا کہ اس کا اپنا بیٹا قسطنطین بھی اس کے وجود سے آگاہ نہیں تھا۔
دوسرے تیسرے روز ایک مخبر جو فوج کا ہی کوئی عہدیدار ہوتا تھا ہرقل کے پاس جا کر پوری رپورٹ دیتا تھا۔
ایسا ہی ایک جاسوس ہرقل کے ہاں گیا ہرقل کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہوتا اور خواہ وہ سویا ہوا ہی ہوتا اس کا حکم تھا کہ ایسا کوئی آدمی یہ کہے کہ وہ ایک ضروری بات بتانے آیا ہے تو اسے فورا اطلاع دی جائے اگر وہ سویا ہوا ہے تو اسے جگا لیا جائے ۔
یہ جاسوس گیا تو ہرقل نے اسے فورا بلا لیا اور اپنے خاص کمرے میں بیٹھا کر دروازہ بند کر لیا۔
تم جانتے ہو میں کیا معلوم کرنا چاہتا ہوں ہرقل نے کہا۔۔۔ بتاؤ کیا خبر لائے ہو۔
ان قبائلیوں پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ جاسوس نے کہا۔۔۔ ان میں بدلی سی پائی جاتی ہے ان کی لڑکی کا واقعہ ادنیٰ سے ادنیٰ قبائل تک پہنچ گیا ہے۔ ان لوگوں کا ایک رد عمل یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قسطنطین کو وہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور اس کا نام آتا ہے تو ان لوگوں کے چہروں پر خفگی اور ناپسندیدگی کے تاثر آجاتے ہیں۔
تمہاری اپنی رائے کیا ہے۔۔۔ ہرقل نے پوچھا۔۔۔ اگر میں حکم دے دوں کہ حمص کی طرف پیش قدمی کرکے حمص کو محاصرے میں لے لیا جائے اور کوشش یہ کی جائے کہ محاصرہ طول نہ پکڑے تو کیا یہ قبائلی دل و جان سے لڑیں گے۔
انہوں نے ایک شرط اپنے سامنے رکھ لی ہے ۔جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ رومی فوج لڑے گی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے اور اگر وہ فوج جوش اور جذبے سے نہ لڑی تو تمام قبائل کے لوگ یہاں سے چلے جائیں گے۔
شہنشاہ معظم!،،،، اصل بات یہ ہے کہ آپ اس ملک کی خاطر لڑے ہیں لیکن یہ قبائلی صرف اپنا اپنے بیوی بچوں اور اپنے مال و اموال کا تحفظ چاہتے ہیں۔
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی