⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 2👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➋⓿】デ۔══━一
عمر بن عاص مالدار باپ کے بیٹے تھے اور تجارت بھی وسیع پیمانے کی تھی اس لئے سیروسیاحت کا ذوق و شوق بھی تھا وہ جہاں چاہتے بڑے آرام سے جا سکتے تھے۔
شماس کی پیشکش قبول کرنے میں وہ اس لئے پس و پیش کر رہے تھے کہ وہ احسان کا صلہ نہیں لینا چاہتے تھے۔
ویسے شماس کی پیشکش عمر بن عاص کی خواہش کے عین مطابق تھی۔
انہوں نے اس کی بہت شہرت سنی تھی اور کئی بار انہیں اسکندریہ جانے کا خیال آیا تھا انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ آج کیا واقعہ ہوا ہے اور یہ شخص انہیں کیا صلہ دے رہا ہے۔
اپنے ساتھیوں کی اس جماعت کے وہ سربراہ تھے ۔
ساتھی انھیں روک نہیں سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ شخص کی پیش کش قبول کر لے اور اس کے ساتھ چلے جائیں۔
عمرو بن عاص نے اپنی پسند اور مرضی کا ایک ساتھی اپنے ساتھ تیار کرلیا اور اگلے روز وہ آ گئے جہاں شماس ٹھہرا ہوا تھا۔
اسے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ اسکندریہ جائیں گے انہوں نے روانگی کا دن اور وقت طے کرلیا۔
اس دور میں نہر سوئز نہیں ہوا کرتی تھی اس لیے خشکی کے راستے بھی مصر جایا جاسکتا تھا ۔
اور اسکندریہ تک جانے کے لیے بحری راستہ بھی تھا یہ بتانا ممکن نہیں کہ وہ لوگ کس راستے گئے خشکی یا سمندر کے راستے ، تاریخ نے اتنا ہی لکھا ہے کہ عمرو بن عاص اپنے ایک ساتھی کے ساتھ شماس کے ہمراہی میں اسکندریہ پہنچ گئے۔
بیت المقدس سے اسکندریہ کا فاصلہ پانچ سو کلومیٹر ہے۔
عمرو بن عاص نے جب اسکندریہ شہر کی شان و شوکت اور حسن و جمال دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ انہوں نے بے ساختہ کہا ،شماس میں نے ایسا شہر اور اتنی دولت کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی ۔
جس کی ریل پیل یہاں دیکھ رہا ہوں۔
مورخوں نے ایک واقعہ لکھا ہے جو دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی ۔
وہ یوں ہے کہ انہی دنوں اسکندریہ میں ایک جشن منایا جارہا تھا۔
تاریخ میں یہ پتہ نہیں ملتا کہ کیسا جشن تھا؟ جس میں صرف شہر کے لوگ ہی شامل نہیں تھے بلکہ شاہی خاندان بھی اس میں شامل تھا اور امراء وزراء اور حاکم بھی اس میں شریک تھے۔
شہسواری تیراندازی تیغ زنی اور کشتیوں کے مقابلے بھی ہو رہے تھے لوگوں نے بڑے ہی قیمتی کپڑے پہن رکھے تھے۔
شماس عمرو بن عاص کو بھی اس جشن میں لے گیا ۔
شماس نے عمرو بن عاص کے لیے ریشمی لباس تیار کروا کے انھیں پہنایا تھا ۔
عمرو بن عاص نے دیکھا کہ شاہی افراد اور حکام بالا میں شماس کو خصوصی پذیرائی حاصل تھی۔
اس روز اس جشن کی خاص تقریب منائی جا رہی تھی۔
لوگ ایک دائرے میں اکٹھا ہو گئے تھے۔
شاہی افراد کے لئے آگے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی گئی تھی لوگوں کے ہجوم کے درمیان جو خالی جگہ تھی وہاں ایک آدمی کھڑا تھا ۔
اس کے ہاتھ میں ایک سنہری گیند تھی وہ بار بار گیند کو پوری طاقت سے اوپر کو پھیکتا تھا۔
اور گیند اوپر جا کر زمین پر گرتی تھی۔
شماس نے عمروبن عاص کو بتایا کہ جب کبھی یہ جشن منایا جاتا ہے۔
اس میں یہ تقریب ضرور منعقد ہوتی ہے۔
ایک آدمی آنکھیں بند کرکے گیند اوپر پھیکتا ہے اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کے ایک بازو پر گرے وہ شخص بادشاہ بنے بغیر مر نہیں سکتا ۔
عمرو بن عاص نے دیکھا کہ گیند زیادہ تر زمین پر گرتی تھی۔
اور اگر کسی آدمی پر گری تو اس کے بازو پر نہ گری سر پر یا کندھے یا پیٹ پر گری، شماس چونکہ صاحب حیثیت اور مرتبے والا آدمی تھا، اس لئے اسے آگے بیٹھنے کو جگہ ملی اور وہ عمرو بن عاص کو بھی آگے لے گیا،
گیند پھینکنے والے نے ایک بار پھر گیند اوپر کو پھیکی تو گیند عمرو بن عاص کے دائیں بازو پر آپڑی اور عمرو نے گیند کو وہیں پکڑ لیا ۔
شاہی خاندان کے افراد اٹھ کھڑے ہوئے، وہ اس شخص کو اچھی طرح دیکھنا چاہتے تھے جس کے بازو پر گیند گری تھی۔
شماس نے اٹھ کر اعلان کیا کہ اس شخص کا نام عمرو بن عاص ہے اور یہ مکہ سے یہاں آیاہے ۔
تماشائیوں میں کئی لوگ قہقہہ لگا کر ہنسے اور کسی کی بڑی بلند آواز آئی۔
یہ سب غلط ہے۔۔۔۔ عرب کا یہ بدو ہمارا بادشاہ نہیں ہو سکتا ۔
ہجوم میں سے کئی آوازیں اٹھیں۔
نہیں ۔۔۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ چھوٹا ناٹا سا بدو مصر کا بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے؟
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمرو بن عاص عرب کے عام لوگوں کی طرح دراز قد نہیں تھے ۔
ان کا قد چھوٹا، سر بڑا ،ہاتھ اور پاؤں کچھ زیادہ ہی بڑے تھے، ان کی بھویں گھنی تھیں، اور منہ بھی کچھ زیادہ چوڑا تھا، داڑھی لمبی رکھتے تھے، سینہ تو خاص طور پر چوڑا تھا۔ یہ کسی دلکش آدمی کی تصویر نہیں بنتی لیکن ان کی سیاہ چمکیلی آنکھوں اور چہرے پر بشاشت اور زندہ دلی کا تاثر رہتا تھا۔
غصے والی بات پر بھی انہیں غصہ نہیں آتا تھا ان کا یہ جسم دیکھ کر اسکندریا والوں نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ شخص انکا بادشاہ نہیں ہوسکتا۔
اللہ کے بھید کو کوئی نہیں پا سکتا ،کوئی بھی نہ سمجھ سکا ۔
خود عمروبن عاص بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ اللہ تبارک و تعالی کا ایک اشارہ ہے۔
جو کچھ ہی عرصے بعد عملی شکل میں سامنے آجائے گا ۔
اور آج جو لوگ اور شاہی خاندان کے جو افراد اس عربی بدو کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ انقلاب بھی دیکھیں گے کہ یہی عربی مصر کے بادشاہ کا تخت الٹ دے گا۔
اور فاتح مصر کہلائے گا اور انھیں لوگوں پر اس کا حکم چلے گا۔
گیند کی رسم ادا ہو چکی تھی اور گیند نے ان کے عقیدے کے مطابق فیصلہ دے دیا تھا ۔
لیکن تماشائیوں کا ہجوم اس فیصلے کو منظور نہیں کررہا تھا۔
اس رسم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جس پر گیند گری ہو اسے اسی وقت بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔ بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ آنے والے وقت میں بادشاہ بن سکتا ہے لیکن ہجوم نے ہنگامہ بپا کر رکھا تھا۔
شماس نے عمرو بن عاص کا بازو پکڑا اور انہیں وہاں سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا اور گھر لے گیا دو تین دن اور اسکندریہ کی سیر کروائی اور پھر بوقت رخصت دو ہزار دینار پیش کیے ،جو عمر بن عاص نے کچھ پس و پیش کے بعد لے لیے شماس نے عمرو بن عاص اور ان کے ساتھی کے ساتھ اپنا ایک آدمی روانہ کیا اور اس سے کہا کہ انھیں بیت المقدس چھوڑ کر واپس آجائے۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ عمرو بن عاص مصر سے تو آگئے لیکن مصر اور اسکندریہ ان کے ذہن پر ایسا سوار ہوا کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ مصر میں جاکر آباد ہونا چاہتے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چونکہ یہ باب اس داستان کا تعارفی باب ہے اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن عاص کی شخصیت اور جنگی فہم و فراست کی ایک دو جھلکیاں دیکھ لی جائیں۔
یہ تو بیان ہو چکا کہ عمرو بن عاص نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا ۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کس طرح اعتماد کیا۔
اور انہیں جنگی امور میں اعلی رتبہ دیا تھا ۔
ہم آپ کو اس داستان کے اس دور میں تھوڑی سی دیر کے لیے لے جاتے ہیں جب ابوعبیدہ، خالد بن ولید، شرجیل بن حسنہ، اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم نے شام سے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیے تھے۔
اور رومی پسپائی کی کیفیت میں داخل ہو چکے تھے۔
ہم کسی معرکے کو تفصیل سے بیان نہیں کریں گے، ورنہ اصل داستان دھری رہ جائے گی۔
رومیوں کا مشہور جرنیل تو ہرقل تھا لیکن ان کا ایک انتہائی چالاک عیار اور مکار جرنیل اطربون تھا۔
اس کی عسکری فہم و فراست اور میدان جنگ میں نظروں کی گہرائی کا تو کوئی جواب ہی نہیں تھا۔
وہ ہرقل کا ہم پلہ اور ہم رتبہ تھا ،لیکن اس کے مقابلے میں طفل مکتب لگتا تھا ،تاریخ حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ مسلمان سپہ سالاروں نے اطربون کو کس طرح شکست دے دی تھی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پردہ فرما چکے تھے، خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ،اور اب خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔
عمررضی اللہ عنہ عمرو بن عاص کے جوہر دیکھ چکے تھے۔
اور ان کی خوبیوں سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے۔
عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے، کہ خالد بن ولید خطرہ مول لیا کرتے ہیں، اور شجاعت میں دوسروں کو حیران کر دیتے ہیں، لیکن عمرو بن عاص سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں اور آگ میں بھی کود جاتے ہیں ، جنگی مبصروں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص دشمن کو دھوکہ دینے کی پالیسی پر عمل کرتے تھے۔
اور ان میں شجاعت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔
دوبدو معرکوں میں دشمن تو ان کے سامنے کبھی ٹھہرے ہی نہیں سکتا تھا۔
اور انہوں نے ایسی مثالیں پیش کر کے دکھا دی تھی۔
رومی فوجیں شام سے پسپا ہوئی اور فلسطین میں مختلف مقامات پر پھیل گئی یہ رومیوں کی ایک چال تھی جو انہوں نے مسلمانوں کی قلیل تعداد دیکھ کر چلی تھی۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کا لشکر کسی ایک مقام پر حملہ کرے گا تو یہ تمام بکھری ہوئی فوج اس طرح اکٹھا کر لی جائے گی کہ مسلمان کے اس تھوڑے سے لشکر کو ہر طرف سے گھیر لیا جائے گا۔
عمرو بن عاص کے ذمہ بیت المقدس کی فتح لگادی گئی ان کے مقابل رومیوں کا انتہائی چالاک جرنیل تھا وہ اس وقت اپنی فوج اجنادین کے مقام پر لے جا رہا تھا۔
عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کی نفری اور جسمانی کیفیت دیکھی تو امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کمک بھیجیں دیں کیونکہ مقابلہ اطربون سے ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام ملتے ہی اچھی خاصی کمک بھیج دی (اور تاریخ میں آیا ہے )کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک بڑا دلچسپ جملہ کہا انہوں نے فرمایا ہم نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے ۔
اب دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔
حضرت عمر اچھی طرح جانتے تھے کہ اطربون جنگی کیفیت میں لومڑی جیسی چالاکی اور عیاری کو ایسی خوبی سے استعمال کرتا ہے کہ اپنے دشمن کو چکر دے کر بھگا دیتا ہے۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کچھ ایسے ہی اوصاف عمروبن عاص میں بھی تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امیر المومنین کی بھیجی ہوئی کمک فلسطین عمرو بن عاص کے پاس پہنچ گئی عمرو بن عاص نے یوں نہ کیا کے ساری کمک اپنے پاس رکھ لیتے انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اپنا لشکر تین چار حصوں میں بٹ گیا تھا ۔
اور کسے کمک کی زیادہ ضرورت تھی۔
انہوں نے دو مقامات پر کمک بھیج دیا اور کچھ اپنے ساتھ رکھی۔
لیکن جب آگے بڑھے تو دیکھا کہ اطربون نے اپنی فوج قلعہ بند کر لی ہے۔
اور چاروں طرف گہری خندق کھود رکھی ہے۔ عمرو بن عاص نے دیکھ لیا کہ محاصرہ کیا تو بڑا ہی لمبا ہوجائے گا اور خندق کی وجہ سے یہ قلعہ سر کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت ہی دشوار ضرور ہوگا طریقہ ایک ہی ہے کہ اب ان کو دھوکے میں لایا جائے۔
انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دو ایلچی اطربون کی طرف بھیجے جن کے لئے ہدایت یہ تھی کہ وہ اطربون کے ساتھ صلح کے معاہدے کی بات چیت کریں تو وہ یقینا نہیں مانے گا ،لیکن اصل مقصد یہ ہے کہ قلعے کے اندر اچھی طرح دیکھیں کہ یہ قلعہ کس طرح سر کیا جاسکتا ہے۔
اور رومیوں کے فوج کی نفری کتنی ہے وغیرہ وغیرہ عمرو بن عاص کا مقصد صلح نہیں تھا بلکہ جاسوسی تھا۔
دونوں ایلچی گئے اور بات چیت کر کے واپس آ گئے۔
عمرو بن عاص نے جب ان سے اپنے ذہن کے مطابق پوچھنا شروع کیا کہ انہوں نے کیا فلاں چیز دیکھی تھی؟
یہ بات کی تھی؟
اطربون کے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا ؟
اور تم لوگ دیکھ کر کیا آئے ہو؟
عمرو بن عاص نے دیکھا کہ یہ دو ایلچی نکمے ثابت ہوئے ہیں۔
اور وہاں اطربون سے مرعوب ہو کر آئے ہیں۔ اور انہوں نے جاسوسی پوری طرح کی ہی نہیں۔
عمرو بن عاص نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا کہ وہ خود ایلچی بن کر جائیں گے۔
اور یہ ظاہر ہونے ہی نہیں دیں گے کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے سپہ سالار وہی ہیں ۔
اور ان کا نام عمرو بن عاص ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کو ذرا سا بھی شک ہو گیا تو وہ پکڑ کر قتل کروا دے گا ،یا کال کوٹھری میں پھینک دے گا۔
عمرو بن عاص نے بھیس بدلا اور اپنے سالاروں سے رائے لی اور انکی رائے کے مطابق اپنے بہروپ میں کچھ تبدیلیاں کیں اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔
قلعے کے دروازے پر جاکر انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار نے انہیں ایلچی کے طور پر بھیجا ہے۔
اور اطربون سے بات چیت کرنی ہے ۔
اطربون کو اطلاع ملی تو اس نے انہیں فوراً بلالیا ۔
عمروبن عاص اطربون کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔
اور ایسی اداکاری کی جیسے وہ صرف ایلچی ہیں۔
اور اپنے لشکر میں ان کا کوئی ایسا اونچا رتبہ عہدہ نہیں۔
اطربون نے انہیں اتنی ہی تعظیم دی جتنی ایک ایلچی کو دی جایا کرتی تھی۔
صلح کے مذاکرات شروع ہوئے عمرو بن عاص نے تو یہ سن رکھا تھا کہ اطربون بہت ہی چالاک آدمی ہے۔
لیکن انھیں اندازہ نہ تھا کہ وہ کس حد تک چالاک ہے ۔
اور اس کی نظریں کتنی گہرائی تک پہنچ جایا کرتی ہیں۔
عمرو بن عاص آخر سپہ سالار تھے اور اپنے قبیلے میں بھی انہیں برتری حاصل تھی اور یہ برتری انکا بنیادی جزو تھا۔
انسان شعوری طور پر تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔
لیکن لاشعور پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں ہوتا، شاید باتیں کرتے کرتے عمرو بن عاص کے منہ سے کچھ ایسی بات نکل گئی ہوں گی یا انہوں نے لب و لہجے میں کوئی ایسا تاثر پیدا کر دیا ہو گا کہ اطربون چونکا۔
میری نظروں نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا اطربون نے مسکراتے ہوئے کہا میرا خیال ہے کہ میں کسی ایلچی سے نہیں بلکہ عرب کے سپہ سالار کے ساتھ بات کررہا ہوں ۔
کیا تم عمرو بن عاص نہیں ہو ؟
نہیں عمرو بن عاص نے جواب دیا ۔
اگر میں عمرو بن عاص ہوتا تو اپنے اوپر جھوٹا پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ہمارے سپہ سالار عمرو بن عاص اتنے نڈر اور بے خوف انسان ہیں کہ انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ اطربون ہنس پڑا جیسے وہ عمرو بن عاص کی بات مان گیا ہو اور انہیں ایلچی ہی سمجھ رہا ہو۔
جنگ کے بعد جنگی قیدیوں سے پتہ چلا تھا کہ اطربون نے عمر بن عاص کو صحیح پہچانا تھا۔ اور انہیں دھوکا یہ دیا تھا کہ اسے غلطی لگی ہے اور واقعی ایلچی ہے۔
عمرو بن عاص اس کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور سوچنے لگے کہ یہاں سے کس طرح نکلا جائے۔
انہیں شک اس طرح ہوا کہ مذاکرات کے دوران اطربون کسی بہانے باہر نکلا اور جلدی واپس آ گیا اور مذاکرات شروع کردیئے اس کی اس حرکت سے عمرو بن عاص کو پکا شک ہوگیا کہ ان کی خیر نہیں۔
بعد میں جو اصل بات کھلی تھی وہ یہ تھی کہ اطربون نے باہر جاکر اپنے ایک محافظ سے کہا تھا کہ وہ فلاں جگہ جاکر انتظار کرے اور یہ عربی جو اندر بیٹھا ہے واپس جا رہا ہوں تو پیچھے سے اس کی گردن پر ایسا وار کرے کہ سر تن سے جدا ہو جائے۔
وہ محافظ اس جگہ چلا گیا تھا جو اس کام کے لیے موضوع تھی عمرو بن عاص نے ایک طریقہ سوچ لیا انہوں نے مذاکرات کا رنگ ہی بدل ڈالا اور یوں ظاہر کرنے لگے جیسے وہ رومیوں کی طاقت سے ڈرتے ہیں اور ان کے شرائط مان لیں گے اس رویے کا اثر ان پر خاطر خواہ اثر ہوا۔
اب میں آپ کو اپنی اصل حیثیت بتاتا ہوں عمرو بن عاص نے کہا ۔
میں سپہ سالار عمرو بن عاص کا بھیجا ہوا ایلچی نہیں ہوں۔
بلکہ ہم اپنے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)کے بھیجے ہوئے دس مشیر ہیں اور ہمیں آپ کے ساتھ صلح کی بات چیت کیلئے بھیجا گیا اور ہمارے حکم یہ ہے کہ قابل قبول شرائط مان لیں۔
ہم مدینہ سے سیدھے آپ کے پاس پہنچے ہیں۔
عمروبن عاص کا ان مذکرات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
میں نے آپ کی بات سن لی ہے ۔
میرے باقی نو ساتھی میرے انتظار میں بیٹھے ہیں اگر آپ چاہیں تو میں ان سب کو یہاں لے آؤں گا اور آپ چاہیں تو میں جاکر انہیں بتاؤں گا کہ یہ بات ہوئی ہے ۔
فیصلہ کرکے آپ کو بتا دیں گے مجھے یہی توقع ہے کہ میرے ساتھی آپ کی شرائط مان لیں گے ۔
یہ تو اور زیادہ اچھا ہے اطربون نے کہا بہتر ہے تم انہیں یہی لے آؤ۔
اطربون پھر کسی کام کے بہانے باہر نکلا اور ایک محافظ کو یہ حکم دیا کہ فلاں محافظ فلاں جگہ کھڑا ہوگا اسے کہہ دو کہ تمہیں جو پہلے کام بتایا تھا وہ اب نہیں کرنا اور واپس آ جاؤ۔ عمروبن عاص وہاں سے اٹھے خیروخوبی قلعے سے نکل آئے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔
اطربون شام تک انتظار کرتا رہا۔
یہ عربی سپہ سالار مجھے دھوکا دے کر زندہ نکل گیا ہے ۔
اطربون نے کہا میں نے اس سے بڑھ کر عیار آدمی کبھی نہیں دیکھا۔
اس کے بعد میدان میں بڑی خونریز لڑائی ہوئی جس میں دونوں طرف کا بے پناہ جانی نقصان ہوا اور اطربون اپنی بچی کچھی فوج کو ساتھ لے کر بیت المقدس چلا گیا اور وہاں فوج کو قلعہ بند کر لیا عمرو بن عاص اور ایک دو اور سالاروں نے بیت المقدس کو محاصرے میں لے لیا۔
ایک روز عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی کہ اطربون کا کوئی ایلچی پیغام لایا ہے۔
انہوں نے ایلچی کو فورا بلالیا اور پیغام لے کر پڑھا اطربون نے لکھا تھا۔
تم میرے دوست ہو اور تمہاری قوم نے تمہیں وہی رتبہ دیا ہے جو میری قوم نے مجھے دے رکھا ہے۔
میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تم نے اگر اجنادین ہم سے لے لیا تو اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہنا کہ تم فلسطین کا کوئی اور حصہ فتح کر لو گے ۔
تم فلسطین میں اب کوئی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تمہارے لیے بہتر یہ ہے کہ یہیں سے واپس چلے جاؤ اور اپنے آپ کو تباہی سے بچا لو اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تمہارا انجام انہیں جیسا ہوگا جو بیت المقدس کو فتح کرنے آئے تھے اور پھر زندہ واپس نہ جا سکے۔
عمرو بن عاص نے اطربون کے ایلچی کے ہاتھ اس کے پیغام کا جواب بھیج دیا انہوں نے جواب میں لکھا۔
میں فلسطین کا فاتح ہوں میں تمہیں دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے مشیروں کے ساتھ تبادلہ خیال کرلو ہوسکتا ہے وہ تمہیں تباہی سے بچانے کے لئے کوئی دانشمندانہ مشورہ دے سکے۔
اجنادین اور بیت المقدس کی فتح ایک الگ داستان ہے یہاں ایک دلچسپ بات سامنے آتی ہے جو تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ اطربون نے عمرو بن عاص کا پیغام پڑھا ان کی الفاظ پڑھ کر وہ ہنس پڑا کہ میں فلسطین کا فاتح ہوں۔
ابھی بیت المقدس فتح نہیں ہوا تھا اطربون نے عمرو بن عاص کا یہ پیغام اپنے مصاحبوں اور مشیروں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ عمرو بن عاص بیت المقدس کا فاتح نہیں ہوسکتا ،اس نے ایسے لہجے میں یہ بات کہی کہ سننے والوں کو یہ خیال آیا کہ بیت المقدس ضرور فتح ہوگا ،لیکن فاتح عمر بن عاص نہیں ہونگے، ان میں سے کسی نے اس سے پوچھا کہ اس نے ایسی بات کیوں کہی ہے۔
بیت المقدس کے فاتح کا نام عمر ہے،، ۔
اطربون نے یہ عجیب بات کہی ، توریت میں لکھا ہے کہ بیت المقدس کے فاتح کے نام میں صرف تین حروف ہوں گے یہ تین حروف عمر ہوسکتے ہیں۔
پھر تورات میں عمر کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں جن میں کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں تورات میں صاف لکھا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔
طبری لکھتا ہے کہ اطربون نے یہ بات حتم و یقین کے لہجے میں کہی اور اس کی اس مجلس پر سناٹا طاری ہو گیا ۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اطربون بغیر لڑے بیت المقدس سے اپنی فوج نکال کر مصر کو بھاگ گیا۔
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بات جب فتح مصر پر آتی ہے تو لامحالہ یہ سوال ہوتا ہے کہ اس وقت مصر میں حکومت کس کی تھی اور جب تاریخ یہ جواب دیتی ہے، کہ اس وقت رومی مصر پر قابض تھے اور حکمران ہرقل تھا تو یاد آتا ہے کہ ہرقل تو ملک شام میں تھا اور یہ سارا خطہ اس کی حکمرانی میں تھا پھر ہرقل مصر کس طرح پہنچ گیا؟
شام سے ہر قل اپنی مرضی سے مصر نہیں گیا تھابلکہ اسے مسلمانوں نے شام سے بھگایا تھا ۔
اس وقت دنیا میں دو ہی جنگی طاقتیں تھی ایک آتش پرست ایرانی اور دوسرے رومی بہت مدت پہلے رومیوں نےعیسائیت قبول کر لی تھی یہ دونوں طاقتیں مشرق وسطیٰ میں ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتی تھی کبھی ایرانی شام اور مصر پر قابض ہوجاتے تھے تو کبھی رومی انہیں شکست دے کر ان سے یہ علاقہ چھین لیا کرتے تھے۔
ان دونوں طاقتوں کے کبھی تصور میں بھی نہیں آیا تھا کہ افق اسے ایک تیسری طاقت بھی ابھرے گی جو ان دونوں طاقتوں کو ریزہ ریزہ کرکے بکھیر دے گی عربوں سے تو یہ لوگ کوئی ایسی توقع رکھتے ہی نہیں تھے عربوں کو جاہل اور پسماندہ بدو کہا کرتے تھے۔
لیکن اسی عرب کے ایک غار کی تاریکی سے اللہ کانور پھوٹا جس کی کرنیں بڑی تیزی سے پھیلتی چلی گئیں اور لوگوں کے دل و دماغ کو منور کرتی گئیں۔
اس غار کو غار حرا کہتے ہیں یہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور آپ کو اللہ تبارک وتعالی نے رسالت عطا فرمائی تھی ۔
یہاں سے تیسری جنگی طاقت ابھرنے لگی لیکن ایک فرق کے ساتھ ،اس تیسری طاقت کو صرف جنگی ہتھیاروں پر بھروسہ نہیں تھا بلکہ یہ طاقت عظیم نظریے سے لیس تھی اور اس نظریے میں اللہ کی طاقت شامل تھی، ایرانیوں اور رومیوں کو اپنے بےانداز گھوڑوں اور تیر و تفنگ پر ناز تھا ۔
لیکن جب ان کے بڑے بڑے لشکر مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کے مقابلے میں آئے تو ان کے لیے میدان میں ٹھہرنا محال ہو گیا یہ ایک نظریے اور عقیدے کا کرشمہ تھا جسے آج تک اللہ کا دین کہا جاتا ہے۔
تاریخ آج بھی حیران ہے کہ جن رومیوں نے ایرانیوں جیسی طاقت کو پے در پے شکست دے دی تھی وہ مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں کس طرح پِٹ گئے اور پِٹے بھی ایسے کہ مسلمانوں نے انہیں شام سے بےدخل ہی کر ڈالا اور ان کی فوجوں نے مصر میں جا کر دم لیا۔
تاریخ حیرت کا اظہار بھی کرتی ہے اور اس سوال کا جواب بھی تاریخ کے دامن میں موجود ہے ایک ایک لمحے کی داستان مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے قلم بند کرکے تاریخ کے حوالے کر دی تھی اور وہ آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہے یہ تفصیلات جنگی نوعیت کی ہے مورخوں نے مسلمانوں کی جنگی اہلیت جذبہ اور فن حرب و ضرب کے معجزہ نما کارنامے لکھیں ہیں۔
انہوں نے مسلمان سپہ سالاروں کی جنگی چالوں پر قیادت پر اور لشکروں میں ڈسپلن قائم رکھنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو مؤرخوں نے نظر انداز کیا ہے ،یا وہ اس سے واقف ہی نہیں تھے اس کی صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب مسلمان ابو عبیدہ ،خالد بن ولید، اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم کی قیادت میں رومیوں سے برسرپیکار تھے اور ہر میدان سے رومیوں کے پاؤں اکھڑتے جا رہے تھے اس وقت اس علاقے کا ایک بڑا قلعہ بند شہر بہت شہرت یافتہ تھا یہ تھا قنسرین ۔
اس کی دفاعی پوزیشن بڑی ہی مضبوط تھی یہ ایک الگ داستان ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے قنسرین کو کس طرح فتح کیا تھا۔
یہاں بات ایک شخصیت کی سامنے آتی ہے جس کے حوالے سے ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عظمت واضح کریں گے۔
اس علاقے میں ایک شخص جبلہ بن الیہم غسانی تھوڑے سے علاقے کا بادشاہ بنا ہوا تھا۔
یہ اس کا اپنا قبیلہ تھا جو بنو غسان کے نام سے مشہور تھا وہ رومیوں کا دوست تھا اور جبلہ بن الیہم رومیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے سوا انہیں ہر طرح کی مدد دیتا تھا۔
جبلہ بے پناہ دولت اور خزانوں کا مالک تھا اور موقع پرست بھی تھا وہ رومیوں کا تو دوست تھا لیکن مسلمانوں کو وہ اس طرح دشمن نہیں سمجھتا تھا جس طرح رومی سمجھتے تھے جبلہ بڑے ہی صاف ستھرے ذوق و شوق کا مالک تھا اسے عرب کے شاعروں کے ساتھ دلی محبت تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ تو اسے سب سے زیادہ عزیز تھے اور انکے کلام پر وہ وجد میں آ جایا کرتا تھا ۔
اس کے باوجود وہ رومیوں کا حلیف تھا ۔
جو اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کی چھوٹی سی سلطنت رومیوں میں گھری ہوئی تھی۔
ہرقل جب مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگا تو جبلہ بن الیہم نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ اسلام قبول کرلے اس علاقے میں مجاہدین کے جو لشکر لڑ رہے تھے ان کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے جبلہ بن الیہم نے ان کی طرف اپنا ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اپنے تمام تر قبیلے غسان کے ساتھ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے ۔
ابو عبیدہ کی نگاہ میں یہ ایک بڑی فتح تھی انہوں نے اپنے ان دو تین آدمیوں کو جبلہ کے پاس بھیجا جو غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کے طریقے سے اچھی طرح واقف تھے۔
یہ آدمی وہاں گئے اور جبلہ اپنے پورے قبیلے کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔
ابو عبیدہ نے یہ اطلاع امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بھیجی۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس اطلاع پر اتنا خوش ہوئے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
جبلہ کو سرزمین عرب کی یاد ستا رہی تھی وہ اپنے محبوب شاعروں کے وطن کو دیکھنا چاہتا تھا ۔
اس نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنا ایک ایلچی اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ وہ ان کے حضور حاضری دینا چاہتا ہے۔
اور اس کی خواہش ہے کہ فریضہ حج بھی ادا کرے ۔
حضرت عمر نے اسے اجازت دے دی امیرالمومنین جانتے تھے کہ جبلہ بن الیھم کس پائے کا آدمی ہے اور وہ حج کر کے پکا مسلمان بن جائے گا اس کا پورا قبیلہ مسلمان ہو کر مسلمانوں کا ایک بازو بن گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اطلاع دی گئی کہ جبلہ بن الیھم غسانی آ رہا ہے۔
یہ مدینہ کا واقعہ ہے مدینہ شہر میں تو ہنگامہ برپاہوگیا جبلہ بن الیہم اپنے چند ایک مصاحبوں کے ساتھ نہیں آرہا تھا بلکہ اس کے ساتھ پانچ سو افراد تھے جن میں اکثریت اس کے شاہی خاندان کی تھی اور باقی قبلہ غسان کے سرکردہ افراد تھے اور ان سب کی عورتیں بھی ساتھ تھی ۔
حضرت عمر نے کہا کہ مدینہ کے لوگ باہر نکل کر جبلہ اور اس کے ہمراہیوں کا استقبال کریں ۔
اور اسے پوری تعظیم دیں لوگ پہلے ہی گھروں سے نکل آئے تھے اور عورتیں منڈیروں پر کھڑی ہو کر اس قافلے کو دیکھنے لگیں۔
جبلہ اپنے دو سو سواروں کو خصوصی لباس پہننے کو کہا اس مقصد کیلئے یہ قافلہ مدینہ سے کچھ دور رہ گیا ۔
ان سواروں نے جب لباس پہنا تو دیکھنے والے حیران رہ گئے کیونکہ یہ بڑی ہی قیمتی ریشم کا لباس تھا ہر سوار اپنی اپنی جگہ بادشاہ اور شہزادہ لگتا تھا ۔
ان کے گھوڑوں کے گلوں میں سونے اور چاندی کے ہار ڈالے ہوئے تھے گھوڑوں پر رنگا رنگ ریشمی چادر پڑی ہوئی تھی جبلہ نے اپنے سر پر تاج رکھ لیا اس کا اپنا لباس تو انتہائی قیمتی تھا آخر بادشاہ تھا خواہ اس کی بادشاہی محدود سے علاقے میں تھی یہ قافلہ جب شہر میں داخل ہوا تو شہر کے لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا بعض نے حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں، انہوں نے اتنے قیمتی لباس کبھی نہیں دیکھے تھے۔
وہ اس لئے بھی حیران ہو رہے تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں پھر بھی انہوں نے اپنی شاہانہ انداز نہیں چھوڑے۔
حضرت عمر جبلہ کے استقبال کے لیے باہر نہ آئے جبلہ ان کے ملاقات کے کمرے میں داخل ہوا تب امیرالمومنین نے اٹھ کر اسے گلے لگایا اور جس طرح خود فرش پر بیٹھا کرتے تھے اسی طرح اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا اور اسے مبارک باد دی کہ اس نے اللہ کا سچا دین قبول کرلیا ہے اور اب کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔
جبلہ اپنے پانچ سو ہمراہیوں کے لئے نہایت خوبصورت اور قیمتی خیمے ساتھ لایا تھا۔
امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسے ایک نہایت اچھی جگہ دے دی جہاں اس کے آدمیوں نے ترتیب سے خیمہ گاڑ لئے اور وہاں ایک الگ تھلک بستی آباد ہوگی یہ بستی شہر سے کچھ دور تھی۔
روز حج قریب آرہا تھا ایک روز امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے ساتھ لیا اور حج کیلئے مکہ کو روانہ ہوگئے اس وقت مکہ سلطنت اسلامیہ میں شامل ہو چکا تھا اب صلح حدیبیہ کی پابندیاں ختم ہوگئی تھی ۔
جبلہ حج کے لئے چلا تو اس کے ساتھ چند ایک ہی اپنے آدمی تھے باقی سب کو وہ مدینہ چھوڑ گیا فریضہ حج ادا کرنے کے لئے جبلہ نے جو احرام باندھا تھا وہ اس کے ٹخنوں سے نیچے چلا گیا تھا ۔
خانہ کعبہ کے طواف کے دوران پیچھے آنے والے ایک آدمی کا پاؤں اس کے احرام پر جاپڑا اور احرام کھل گیا۔
اس شخص کی اس حرکت کو وہ اپنی توہین سمجھا اور پیچھے مڑ کر اس آدمی کی ناک پر بڑی زور سے مکا مارا اس آدمی کی ناک سے خون بہنے لگا۔
اس وقت حضرت عمر اس کے ساتھ نہیں تھے انہیں بعد میں اطلاع ملی کہ جبلہ نے یہ حرکت کی ہے ۔
حضرت عمر نے اس آدمی کو بلایا اور اس آدمی نے بھی شکایت کی کہ جبلہ نے اس کی ناک پر مکا مارا ہے جس سے اس کی ناک سے خون بہنے لگا تھا اور وہ طواف مکمل نہیں کر سکا تھا۔
اس شکایت کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حیثیت بالکل ہی بدل گئی وہ اب جبلہ کے میزبان نہ رہے بلکہ وہ خلیفۃالمسلمین بن گئے اور اس کے ساتھ ہی ان پر قاضی کے فرائض بھی آپڑے انہوں نے جبلہ بن الیہم کو طلب کیا جبلہ فوراً پہنچا اس کا انداز شاہانہ تھا اور وہ حضرت عمر کے پہلو میں بیٹھنے لگا ۔
خلیفہ یہ عزاز کسی بڑے ہی اہم مہمان کو دیا کرتے تھے کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا تے جبلہ کو بھی انہوں نے یہی مقام دیا تھا لیکن اب صورت حال کا تقاضا کچھ اور تھا۔
تم یہاں سے اٹھو اور وہاں سامنے بیٹھو حضرت عمر نے جبلہ کو اپنے پہلو سے اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ تم اب میرے مہمان نہیں ملزم ہو۔۔۔ جبلہ بادل نخواستہ اٹھا اور وہاں جا
بیٹھا جہاں حضرت عمر نے بیٹھنے کو کہا ،اس کے چہرے پر غصے کا تاثر آ گیا اور کچھ حیرت بھی۔
جبلہ بن ایھم ،،،،حضرت عمر نے پوچھا کیا تم نے اس شخص کی ناک پر مکہ مارا ہے ۔
ہاں جبلہ نے نڈر ہو کر جواب دیا میں نے اس کی ناک پر مکہ مارا ہے کیونکہ اس نے میرے احرام پر پاؤں رکھ دیا تھا۔
اس شخص کا بیان ہے کہ بھیڑ کی وجہ سے اسکا پاؤں تمہارے احرام پر آگیا تھا ۔۔۔۔
حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔اور طواف کے دوران ایسا ہو ہی جاتا ہے اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس نے دانستہ تمہارے احرام پر پاؤں رکھ دیا تھا تو یہ بتاؤ تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم اسے سزا دو؟
تم نے یہ معلوم کرنے کی زحمت کیوں گوارا نہ کی کہ اس شخص سے پوچھ لیتے کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی ہے؟
یہاں تو میں نے اسے ایک مکا مارا ہے۔۔۔۔
جبلہ نے کہا ۔۔۔۔اگر یہ میرے یہاں ہوتا تو میں اسے ایسی سزا دیتا جو دوسروں کے لئے عبرت ہوتی۔۔۔۔۔
وہاں تمہارا اپنا قانون چلتا ہوگا ۔۔۔۔
حضرت عمر نے کہا تم نے اسلام قبول کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اسلام کے عدل و انصاف کے اوصول بھی قبول کر لیے ہیں اسلام کے قانون کے مطابق تمہیں اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔
میں نے آپ کو امیر المومنین تسلیم کرلیا ہے۔ جبلہ نے ناگواری کے لہجے میں کہا۔
لیکن میں حیران ہوں کہ آپ کیسے امیرالمومنین ہیں کہ چھوٹے بڑے کے فرق کو بھی نہیں پہچانتے میں اپنے خطے کا بادشاہ ہوں اور یہ ایک معمولی سا آدمی ہے کیا یہ میری توہین نہیں کہ آپ نے مجھے ایک معمولی آدمی کے ساتھ بٹھا دیا اور میرے ساتھ ایک ملزم جیسا سلوک ہو رہا ہے۔
اسلام نے تم دونوں کی حیثیت ایک کر دی ہے حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔۔ صرف زہد اورتقوی ہے جو کسی کو کسی پر فضیلت دے سکتا ہے چھوٹے بڑے کے لیے دولت اور بادشاہی کا پیمانہ اسلام میں نہیں چل سکتا ۔
اللہ نے سب کو ایک جیسا پیدا کیا ہے تمہارا ایک جرم یہ ہے کہ تم نے خانہ کعبہ میں بدتمیزی کی اور دوسرا یہ کہ ایک آدمی کو مکا مار کر اس کا خون بہایا جس کی وجہ سے وہ طواف مکمل نہ کر سکا ۔
معلوم ہوتا ہے کہ میں غلط جگہ آ گیا ہوں ۔
جبلہ نے کہا ۔۔۔۔میں تو سمجھتا تھا کہ مسلمان کوئی امیر کبیر لوگ نہیں بلکہ ان میں اکثریت غریبوں کی ہے اس لیے مجھے یہاں زیادہ احترام ملے گا۔
اگر احترام چاہتے ہو تو ایک طریقہ ہے ۔
حضرت عمر نے کہا ۔۔۔۔اس شخص سے معافی مانگ لوں اگر یہ تمہیں معاف کردیتا ہے تو میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا۔
تو کیا اس سے بہتر نہ ہوگا کہ میں عیسائی مذہب میں چلا جاؤں ۔جبلہ نے کہا ۔۔۔عیسائیوں میں تو میرے ساتھ ایسا سلوک کبھی نہ ہو ۔
میں تمہیں اسلام کا یہ قانون بھی بتا دیتا ہوں حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔ کہ اگر تم سزا سے بچنے کے لئے عیسائیت میں چلے جاؤ گے تو میں تمہارے قتل کا حکم دے دوں گا۔
یہ بھی سوچ لے امیرالمومنین۔
جبلہ نے کسی حد تک رعونت سے کہا۔۔۔ اگر آپ میرے ساتھ یہ سلوک روا رکھیں گے تو میری اور میرے اتنے بڑے قبیلے کی دوستی سے محروم ہو جائیں گے میرا قبیلہ اتنا دولت مند ہے کہ زروجواہرات میں کھیلتا ہے ۔
پھر میرا قبیلہ ایک طاقت ہے کیا آپ اپنا اتنا زیادہ نقصان پسند کریں گے؟
ہم صرف اسلام کا نقصان برداشت نہیں کرسکتے۔۔۔۔ حضرت عمر نے کہا۔۔۔ ہم اپنا مال ومتاع اپنے بچے اور اپنی جان اسلام پر قربان کرنے والے لوگ ہیں۔
ہمیں اگر کسی کی دوستی کی ضرورت ہے تو وہ صرف اللہ تبارک وتعالی ہے۔
میں اس معاملے کو اور زیادہ طول نہیں دوں گا اس شخص سے معافی مانگو اگر یہ تمہیں معاف کرتا ہے تو تمہارے لیے کوئی سزا نہیں ورنہ تمہیں سزا لینی پڑے گی۔
جبلہ گہری سوچ میں کھو گیا۔
امیرالمومنین!
آخر اس نے سر اٹھا کر کہا ۔۔۔مجھے صرف آج رات کی مہلت دے دیں میں صبح ہوتے ہی بتا دوں گا کہ میں اس شخص سے معافی مانگوں گا یا سزا بھگتوں گا ۔
حضرت عمر نے اسے سوچنے کی مہلت دے دی اور اسے یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ اپنی قیام گاہ میں چلا جائے اور کل صبح پھر پیش ہو جائے۔
یہ معاملہ اتنا مشہور ہوگیا کہ جب جبلہ باہر نکلا تو حاجیوں کا ایک ہجوم باہر کھڑا تھا ۔
یہ سارا ہجوم انصاف کا مطالبہ کر رہا تھا ۔
آخر ہجوم کو بتایا گیا کہ فیصلہ کل ہوگا۔
اگلے روز کی صبح طلوع ہوئی تو جبلہ نہ آیا اسے نماز پڑھتے بھی نہ دیکھا گیا، سورج طلوع ہوا اور پھر اوپر آنے لگا، تب امیرالمومنین نے حکم دیا کہ جبلہ کو پکڑ کر لایا جائے ۔
کچھ آدمی دوڑے گئے تو دیکھا کہ جبلہ وہاں نہیں تھا خیمے لگے ہوئے تھے لیکن خالی تھے جبلہ اور اس کے ساتھیوں کے گھوڑے غائب تھے ۔
جبلہ بھاگ گیا تھا اس کے پانچ سو سوار اور دیگر افراد مدینہ میں موجود تھے۔
اس کا تعاقب بیکار تھا کیوں کہ ایک رات سے زیادہ وقت گزر گیا تھا ۔
اور جبلہ یقینا بہت دور نکل گیا تھا وہ اپنے ان چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ پہنچا اور اپنے تمام ساتھیوں کو بڑی عجلت سے تیار کروایا اور مدینہ سے بھاگ گیا ۔
مدینہ والوں کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جبلہ کیوں واپس جارہا ہے؟
اور امیرالمؤمنین مکہ میں کیوں رہ گئے ہیں؟
اس وقت ہرقل روم قسطنطنیہ میں تھا جبلہ اس کے پاس گیا اور اس سے معافی مانگی کے اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
اور یہ واقعہ ہوگیا اس لیے وہاں سے بھاگ آیا ہے ۔
ہرقل بہت خوش ہوا کہ اتنا طاقتور قبیلہ پھر اس کا حلیف بن گیا ہے۔ ہرقل نے اسے کچھ اور جاگیر دے دی ۔
یہ تھی اسلام کی وہ قوت جس نے آتش پرست ایرانیوں اور رومیوں کو شکست دی تھی۔
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
https://rebrand.ly/itdgneel

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی