👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟘 𝟚⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘  𝟚⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے درمیان اللّٰہ کے پانچ سو سپاہی گھوم پھر رہے ہیں اور بارہ انسان دیوتاؤں کے پایۂ تخت کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں
صلاح الدین ایوبی کے بارہ چھاپہ ماروں کو بتایا گیا تھا کہ پہاڑیوں کے اندرونی علاقے میں داخل ہونے کا راستہ کہاں ہے لیکن وہاں سے وہ داخل نہیں ہوسکتے تھے 
کیونکہ وہاں پہرے کا خطرہ تھا انہیں بہت دشوار راستے سے اندر جانا تھا انہیں بتایا گیا تھا کہ پہاڑوں کے اِرد گرد کوئی انسان نہیں ہوگا مگر وہاں انسان موجود تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس حبشی نے علی بن سفیان کو غلط بتایا تھا کہ اس علاقے کے گرد کوئی پہرہ نہیں ہوتا پہاڑیوں کا خطہ ایک میل بھی لمبا نہیں تھا اور اسی قدر چوڑا تھا وہ چونکہ تربیت یافتہ چھاپہ مار تھے اس لیے وہ بکھر کر اور احتیاط سے آگے گئے تھے ایک چھاپہ مار کو اتفاق سے ایک درخت کے قریب ایک متحرک سایہ نظر آیا چھاپہ مار چھپتا اور رینگتا اس کے عقب میں چلا گیا قریب جاکر اس پر جھپٹ پڑا اس کی گردن بازو کے شکنجے میں لے کر خنجر کی نوک اس کے دِل پر رکھ دی گردن ڈھیلی چھوڑ کر اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو اور یہاں کس قسم کا پہرہ ہے؟

وہ حبشی تھا چھاپہ مار عربی بول رہا تھا جو حبشی سمجھ نہیں سکتا تھا اتنے میں ایک اور چھاپہ مار آگیا اس نے بھی خنجر حبشی کے سینے پر رکھ دیا انہوں نے اشاروں سے پوچھا تو حبشی نے اشاروں میں جواب دیا جس سے شک ہوتا تھا کہ یہاں پہرہ موجود ہے اس حبشی کی شہ رگ کاٹ دی گئی اور چھاپہ مار اور زیادہ محتاط ہو کر آگے بڑھے یک لخت جنگل آگیا آگے پہاڑی تھی چاند اوپر اُٹھتا آرہا تھا لیکن درختوں اور پہاڑیوں نے اندھیرا کر رکھا تھا وہ پہاڑی پر ایک دوسرے سے ذرا دُور اوپر چڑھتے گئے 

اندر کے علاقے میں جہاں لڑکی کو پروہت کے حوالے کیا گیا تھا اور ہی سرگرمی تھی پتھر کے چہرے کے سامنے چبوترے پر ایک قالین بچھا ہوا تھا۔ اس پر چوڑے پھل والی تلوار رکھی تھی اس کے قریب ایک چوڑا برتن رکھا تھا اور قالین پر بھول بکھرے ہوئے تھے اس کے قریب آگ جل رہی تھی چبوترے کے چاروں کناروں پر دئیے جلا کر چراغاں کیاگیا تھا
وہاں چار لڑکیاں گھوم پھر رہی تھیں ان کا لباس دودو چوڑے پتے تھے اور باقی جسم برہنہ چار حبشی تھے  جنہوں نے کندھوں سے ٹخنوں تک سفید چادریں لپیٹ رکھی تھی اُمِّ عرارہ تہہ خانے میں پروہت کے ساتھ تھی پروہت اس کے بالوں سے کھیل رہا تھا اور وہ مخمور آواز میں کہہ رہی تھی میں انگوک کی ماں ہوں تم انگوک کے باپ ہو میرے بیٹے مصر اور سوڈان کے بادشاہ بنیں گے میرا خون انہیں پلادو میرے لمبے لمبے سنہری بال ان کے گھروں میں رکھ دو تم مجھ سے دور کیوں ہٹ گئے ہو میرے قریب آؤ پروہت اس کے جسم پر تیل کی طرح کوئی چیز مَلنے لگا 
انگوک غالباً اس قبیلے کا نام تھا ایک عربی لڑکی کو نشے کے خمار نے اس قبیلے کی ماں اور پروہت کی بیوی بنا دیا تھا وہ قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئی تھی پروہت آخری رسوم پوری کر رہا تھا
بارہ چھاپہ مار رات کے کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے پہاڑیوں پر چڑھتے اُترتے اور ٹھوکریں کھاتے آرہے تھے بہت ہی دشوار گزار علاقہ تھا بیشتر جھاڑیاں خاردار تھیں چاند سر پر آگیا تھا انہیں درختوں میں سے روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں ان کرنوں میں انہیں ایک حبشی کھڑا نظر آیا جس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں لمبوتری ڈھال تھی وہ بھی دیوتاؤں کے پایۂ تخت کا پہرہ دار تھا اسے خاموشی سے مارنا ضروری تھا 
وہ ایسی جگہ کھڑا تھا جہاں اس پر عقب سے حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا آمنے سامنے کا مقابلہ موزوں نہیں تھا ایک چھاپہ مار جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گیا دوسرے نے اس کے سامنے ایک پتھر پھینکا جس نے گر کر اور لڑھک کر آواز پیدا کی حبشی بدکا اور اس طرف آیا وہ جوں ہی جھاڑی میں چھپے ہوئے چھاپہ مار کے سامنے آیا اُس کی گردن ایک بازو کے شکنجے میں آگئی اور ایک خنجر اس کے دِل میں اُتر گیا چھاپہ مار کچھ دیر وہاں رُکے اور احتیاط سے آگے چل پڑے ۔

اُمِ عرارہ قربانی کے لیے تیار ہوچکی تھی پروہت نے آخری بار اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کا ہاتھ تھام کر سیڑھیوں کی طرف چل پڑا باہر کے چار حبشی مردوں اور لڑکیوں کو پتھر کے سر اور چہرے کے منہ میں روشنی نظر آئی تو وہ منہ کے سامنے سجدے میں گرگئے پروہت نے اپنی زبان میں ایک اعلان کیا اور منہ سے اُتر آیا اُمِ عرارہ اس کے ساتھ تھی اسے وہ قالین پر لے گیا مرد اور لڑکیاں اس کے اِرد گرد کھڑی ہوگئیں اُمِّ عرارہ نے عربی زبان میں کہا میں انگوک کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے اپنی گردن کٹوا رہی ہوں میں ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کررہی ہوں ۔میری گردن کاٹ دو میرا سر انگوک کے دیوتا کے قدموں میں رکھ دو دیوتا اس سر پر مصر اور سوڈان کا تاج رکھیں گے چاروں آدمی اور لڑکیاں ایک بار پھر سجدے میں گر گئیں پروہت نے اُمِّ عرارہ کو قالین پر دوزانو بٹھا کر اس کا سر آگے جُھکا دیا اور وہ تلوار اُٹھا لی جس کا پھل پورے ہاتھ جتنا چوڑا تھا

ایک چھاپہ مار جو سب سے آگے تھا رُک گیا اس نے سر گوشی کرکے پیچھے آنے والے کو روک لیا پہاڑی کی بلندی سے انہیں چبوترہ اور پتھر کا سر نظر آیا چبوترے پر ایک لڑکی دو زانو بیٹھی تھی ۔جس کا سر جھکا ہوا تھا شفاف چاندنی چراغاں اور بڑی مشعلوں نے سورج کی روشنی کا سماں بنا رکھا تھا لڑکی کے پاس کھڑے آدمی کے ہاتھ میں تلوار تھی دوزانو بیٹھی ہوئی لڑکی برہنہ تھی۔اس کے جسم کا رنگ بتا رہا تھا کہ حبشی قبیلے کی لڑکی نہیں چھاپہ مار دُور تھے اور بلندی پر بھی تھے وہاں سے تیر خطا جانے کا خطرہ تھا مگر وہ جس پہاڑی پر تھے اس کے آگے ڈھلان نہیں تھی بلکہ سیدھی دیوار تھی جس سے اُترنا ناممکن تھا وہ جان گئے کہ لڑکی قربان کی جا رہی ہے اور اسے بچانے کے لیے وقت اتنا تھوڑا ہے کہ وہ اُڑ کر نہ پہنچے تو اسے بچا نہیں سکیں گے انہوں نے چوٹی سے نیچے دیکھا چاندنی میں انہیں ایک جھیل نظر آئی انہیں بتایا گیا تھا کہ وہاں ایک جھیل ہے جس میں مگر مجھ رہتے ہیں
دائیں طرف ڈھلان تھی لیکن وہ بھی تقریباً دیوار کی طرح تھی وہاں جھاڑیاں اور درخت تھے انہیں پکڑ پکڑ کر اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر وہ ڈھلان اُترنے لگے ان میں سے آخری جانباز نے اتفاق سے سامنے دیکھا چاندنی میں سامنے کی چوٹی پر اسے ایک حبشی کھڑا نظر آیا اس کے ایک ہاتھ میں ڈھال تھی اور دوسرے ہاتھ میں برچھی جو اس نے تیر کی طرح پھینکنے کے لیے تان رکھی تھی چھاپہ ماروں پر چاندنی نہیں پڑ رہی تھی حبشی ابھی شک میں تھا آخری چھاپہ مار نے کمان میں تیر ڈالا رات کی خاموشی میں کمان کی آواز سنائی دی تیر حبشی کی شہ رگ میں لگا اور وہ لڑھکتا ہوا نیچے آ رہا چھاپہ مار ڈھلان اُترتے گئے گرنے کاخطرہ ہر قدم پر تھا
پروہت نے تلوار کی دھار اُمِّ عرارہ کی گردن پر رکھی اور اوپر اُٹھائی لڑکیوں اور مردوں نے سجدے سے اُٹھ کر دو زانوں بیٹھتے ہوئے پُر سوز اور دھیمی آواز میں کوئی گانا شروع کر دیا یہ ایک گونج تھی جو اس دُنیا کی نہیں لگتی تھی پہاڑیوں میں گھری ہوئی اس تنگ سی وادی میں ایسا طلسم طاری ہوا جارہا تھا جو باہر کے کسی بھی انسان کو یقین دِلا سکتا تھا کہ یہ انسانوں کی نہیں دیوتاؤں کی سر زمین ہے پروہت تلوار کو اوپر لے گیا اب تو ایک دو سانسوں کی دیر تھی تلوار نیچے کو آنے ہی لگی تھی کہ ایک تیر پروہت کی بغل میں دھنس گیا اس کا تلوار والا ہاتھ ابھی نیچے نہیں گرا تھا کہ تین تیر بیک وقت اس کے پہلو میں اُتر گئے لڑکیوں کی چیخیں سنائی دیں مرد کسی کو آواز دینے لگے تیروں کی ایک اور باڑ آئی جس نے دو مردوں کو گرا دیا لڑکیاں جدھر منہ آیا دوڑ پڑیں اُمِّ عرارہ اس شور و غل اور اپنے ارد گرد تڑپتے ہوئے اور خون میں ڈوبے ہوئے جسموں سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھی تھی
چھاپہ مار بہت تیز دوڑتے آئے چبوترے پر چڑھے اور اُمِّ عرارہ کو ایک نے اُٹھا لیا وہ ابھی تک نشے کی حالت میں باتیں کر رہی تھی ایک جانباز نے اپنا کرتا اُتار کر اسے پہنا دیا اسے لے کر چلے ہی تھے کہ ایک طرف سے بارہ حبشی برچھیاں اور ڈھالیں اُٹھائے دوڑتے آئے چھاپہ مار بکھر گئے ان میں چار کے پاس تیر کمانیں تھیں انہوں نے تیر برسائے ۔باقی چھاپہ مار ایک طرف چھپ گئے اور جب حبشی آگے آئے تو عقب سے ان پر حملہ کر دیا ایک تیر انداز نے کمان میں فلیتے والا تیر نکالا فلیتے کو آگ لگائی اور کمان میں ڈال کر اوپر کو چھوڑ دیا تیر دُور اوپر جا کر رُکا تو اس کا شعلہ جو رفتار کی وجہ سے دب گیا تھا رفتار ختم ہوتے ہی بھڑکا اور نیچے آنے لگا میلے کی رونق ابھی ماند نہیں پڑی تھی تماشایوں میں سے پانچ سو تماشائی میلے سے الگ ہوکر اس پہاڑی خطے کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں دُور فضا میں ایک شعلہ سا نظر آیا جو بھڑک کر نیچے کو جانے لگا وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوئے ان کے کمان دار ساتھ تھے پہلے تو وہ آہستہ آہستہ چلے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ذرا دُور جاکر انہوں نے گھوڑے دوڑا دئیے  تماشائی میلے میں شراب جوئے اور ناچنے گانے والی لڑکیوں اور عصمت فروش عورتوں میں اتنے مگن تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کے دیوتاؤں پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے 
چھاپہ مار نے اس خطرے کی وجہ سے آتشیں تیر چلا دیا تھا کہ حبشیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ،مگر فوج وہاں پہنچی تو وہاں بارہ تیرہ لاشیں حبشیوں کی اور دو لاشیں چھاپہ مار شہیدوں کی پڑی تھیں وہ برچھیوں سے شہید ہوئے تھے کمان داروں نے وہاں کا جائزہ لیا پتھر کے منہ میں گئے اور تہہ خانے میں جا پہنچے وہاں انہیں جو چیزیں ہاتھ لگیں وہ اُٹھالیں اُن میں ایک پھول بھی تھا جو قدرتی نہیں بلکہ کپڑے سے بنایا گیا تھا احکام کے مطابق فوج کو وہیں رہنا تھا لیکن پہاڑیوں میں چھپ کر چھاپہ ماروں نے اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالا اور قاہرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میلے کی رونق ختم ہوگئی تھی بیشتر تماشائی رات شراب پی پی کر ابھی تک مدہوش پڑے تھے دوکان دار جانے کے لیے مال اسباب باندھ رہے تھے لڑکیوں کے بیوپاری بھی جا رہے تھے صحرا میں روانہ ہونے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں میلے کے قریب جو گاؤں تھا وہاں کے لوگ بے تابی سے اس لڑکی کے بالوں کا انتظار کر رہے تھے جسے رات قربان کیا گیا تھا اس قبیلے کے لوگ جو دُور دراز دیہات کے رہنے والے تھے پہاڑی جگہ سے دور کھڑے دیوتاؤں کے مسکن کی طرف دیکھ رہے تھے ان کے بڑے بوڑھے انہیں بتارہے تھے کہ ابھی پروہت آئے گا
وہ دیوتاؤں کی خوشنودی کا پیغام دے گا اور ان میں بال تقسیم کرے گا مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا
دیوتاؤں کے مسکن پر سکوت طاری تھا اس منتظر ہجوم کو معلوم نہ تھا کہ وہاں فوج مقیم ہے اور اب وہاں سے دیوتاؤں کا کوئی پیغام نہیں آئے گا دن گزرتا گیا قبیلے کے جن نوجوانوں نے قربانی کی باتیں سنی تھیں انہیں شک ہونے لگا کہ یہ سب جھوٹ ہے دِن گزر گیا سورج انہی پہاڑیوں کے پیچھے جا کر ڈوب گیا کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ وہاں جاکر دیکھتا کہ پروہت کیوں نہیں آیا
طبیب کو بلا لاؤ سلطان ایوبی نے کہا لڑکی پر نشے کا اثر ہے 
اُمِّ عرارہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی میں انگوک کی ماں ہوں تم کون ہو؟ 
تم دیوتا نہیں ہو میرا شوہر کہاں ہے میرا سر کاٹو اور دیوتا کو دے دو مجھے میرے بیٹوں پر قربان کر دو وہ بولے جا رہی تھی 
مگر اب اس پر غنودگی بھی طاری ہو رہی تھی 
اس کا سر ڈول رہا تھا
طبیب نے آتے ہی اس کی کیفیت دیکھی اور اسے کوئی دوائی دے دی ذرا سی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہوگئیں اسے لٹا دیا گیا اور وہ گہری نیند سوگئی سلطان ایوبی کو تفصیل سے بتایا گیا کہ پہاڑی خطے میں کیا ہوا اور وہاں سے کیا ملا ہے اس نے اپنے نائب سالا الناصر اور بہاؤالدین شداد کو حکم دیا کہ پانچ سوسوار لے جائیں ضروری سامان لے جائیں اور اس بُت کو مسمار کر دیں  مگر اس جگہ کو فوج کے گھیرے میں رکھیں ۔حملے کی صورت میں مقابلہ کریں اگر وہ لوگ دب جائیں اور لڑ نہ سکیں تو انہیں وہ جگہ دکھا کر پیار اور محبت سے سمجھائیں کہ یہ محض ایک فریب تھا

شداد نے اپنی ڈائری میں جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ وہ پانچ سو سواروں کے ساتھ وہاں پہنچا راہنمائی اس فوج کے کمان دار نے کی جو پہلے ہی وہاں موجود تھا سینکڑوں سوڈانی حبشی دُور دُور کھڑے تھے ان میں سے بعض گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے ان کے پاس برچھیاں تلواریں اور کمانیں تھیں ہم نے اپنے تمام تر سواروں کو اس پہاڑی جگہ کے اِرد گرد اس طرح کھڑا کر دیا کہ ان کے منہ باہر کی طرف اور ان کی کمانوں میں تیر تھے اور جن کے پاس کمانیں نہیں تھیں ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں خطرہ خون ریز لڑائی کا تھا میں الناصر کے ساتھ اندر گیا بُت کو دیکھ کر میں نے کہا کہ فرعونوں کی یاد گار ہے حبشیوں کی لاشیں پڑی تھیں ہر جگہ گھوم پھر کر دیکھا دو پہاڑیوں کے درمیان ایک کھنڈر تھا جو فرعونوں کے وقتوں کی خوشنما عمارت تھی دیواروں پر اُس زمانے کی تحریریں تھیں الفاظ لکیروں والی تصویروں کی مانند تھے کوئی شبہہ نہ رہا کہ یہ فرعونوں کی جگہ تھی
دیوار جیسی ایک پہاڑی کے دامن میں جھیل تھی 
جس کے اندر اور باہر دو دو قدم لمبے مگر مچھ تھے جھیل کا پانی پہاڑی کے دامن کو کاٹ کر پہاڑی کے نیچے چلا گیا تھا۔ پانی کے اوپر پہاڑی کی چھت تھی 
جگہ خوف ناک تھی ہمیں دیکھ کر بہت سارے مگر مچھ کنارے پر آگئے اور ہمیں دیکھنے لگے
میں نے سپاہیوں سے کہا حبشیوں کی لاشیں جھیل میں پھینک دو یہ بھوکے ہیں وہ لاشیں گھسیٹ کر لائے اور جھیل میں پھینک دیں مگرمچھوں کی تعداد کا اندازہ نہیں پوری فوج تھی لاشوں کے سر باہر رہے اور یہ سر پانی میں دوڑتے پہاڑی کے اندر چلے گئے پھر پروہت کی لاش آئی اس نے دوسرے انسانوں کو مگر مچھوں کے آگے پھینکا تھا ہم نے اسے بھی جھیل میں پھینک دیا وہ سپاہی چار سوڈانی لڑکیوں کو لائے وہ کہیں چھپی ہوئی اور عریاں تھیں کمر کے ساتھ ایک پتہ آگے اور پیچھے بندھا ہوا تھا میں نے اور الناصر نے منہ پھیر لیے سپاہیوں ںسے کہاکہ انہیں مستور کرو۔ جب ان کے جسم کپڑوں میں چھپ گئے تو دیکھا کہ وہ بہت خوب صورت تھیں روتی تھیں ،ڈرتی تھیں۔ہمارے ترجمان کو انہوں نے وہاں کا حال اپنی زبان میں بیان کیا جو بہت شرم ناک تھا مسلمان کو عورت ذات کا یہ حال برداشت نہیں کرنا چاہیے عورت اپنی ہو کسی اور کی ہو کافر ہو اسلام اسے بیٹی کہتا ہے ان چار لڑکیوں کا بیان ظاہر کرتا تھا کہ وہ فرعونوں کو خدا مانتی ہیں ان کا قبیلہ انسان کو خدا مانتا ہے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی