⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡 𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میں آپ کو اور کچھ نہیں بتاسکتا میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ پروہت لڑکی کو پھول سنگھاتا ہے جس کی خوشبو سے لڑکی کے ذہن سے نکل جاتا ہے کہ وہ کیا تھی کہاں سے آئی ہے اور کس طرح لائی گئی ہے
وہ پروہت کی لونڈی بن جاتی ہے اور اسے دُنیا کی گندی چیزیں بھی خوب صورت دکھائی دیتی ہیں
پروہت تین راتیں اسے اپنے ساتھ تہہ خانے میں رکھتا ہے
یہ انکشاف ان پانچ سوڈانی حبشیوں میں سے ایک علی بن سفیان کے سامنے بیان کر رہا تھا
جنہیں اس نے خلیفہ کے محافظ دستے میں سے نکالا تھا یہ پانچوں اسی قبیلے میں سے تھے جس قبیلے کے وہ چاروں تھے جنہوں نے اُمِّ عرارہ کو اغوا کیا تھا
اپنے ساتھ لے جا کر علی بن سفیان نے ان پانچوں سے کہا تھا کہ چونکہ وہ اسی قبیلے کے ہیں جو تیسرے سال کے آخر میں جشن مناتا ہے اور وہ چُھٹی پر جا رہے تھے
اس لیے انہیں معلوم ہوگا کہ لڑکی کس طرح اغوا ہوئی ہے
ان پانچوں نے کہا کہ انہیں اغوا کا علم ہی نہیں علی بن سفیان نے انہیں یہ لالچ بھی دیا کہ وہ سچ بتا دیں گے تو انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی پھر بھی وہ لاعلمی کا اظہار کرتے رہے یہ قبیلہ وحشیانہ مزاج اور خون خواری کی وجہ سے مشہور تھا
انہیں سزا کا ذرّہ بھر ڈر نہ تھا
پانچوں بہت دلیری سے انکار کر رہے تھے
آخر علی بن سفیان کو وہ ریقے آزمانے پڑے جو پتھر کو بھی پگھلا دیتے ہیں
پانچوں کو الگ الگ کرکے علی بن سفیان انہیں اس جگہ لے گیا جہاں چیخیں اور آہ و بکا کوئی نہیں سنتا تھا مسلسل اذیت اور تشدد سے کوئی ملزم مرجائے تو کسی کو پروا نہیں ہوتی تھی یہ پانچوں سوڈانی بڑے ہی سخت جان معلوم ہوتے تھے وہ رات بھر اذیت سہتے رہے علی بن سفیان رات بھر جاگتا رہا آخر انہیں اس امتحان میں ڈالا گیا جو آخری حربہ سمجھا جاتا تھا یہ تھا
چکر شکنجہ رہٹ کی طرح چوڑے اور بہت بڑے پہئے پر ملزم کو اُلٹا لُٹا کر ہاتھ رسیوں سے چکر کے ساتھ باندھ دئیے جاتے اور پاؤں ٹخنوں سے رسیاں ڈال کر فرش میں گاڑے ہوئے کیلوں سے کس دئیے جاتے تھے
پہئے کو ذراسا آگے چلایا جاتا تو ملزم کے بازو کندھوں سے اور ٹانگیں کولہوں سے الگ ہونے لگتی تھیں
بعض اوقات ملزم کو کھینچ کر پہئے کو ایک جگہ روک لیا جاتا تھا اذیت کا یہ طریقہ ملزموں کو بے ہوش کر دیتا تھا
سحر کے وقت ایک ادھیڑ عمر حبشی نے علی بن سفیان سے کہا میں سب کچھ جانتا ہوں لیکن دیوتا کے ڈر سے نہیں بتایا دیوتا مجھے بہت بُری موت ماریں گے
کیا اس سے بڑھ کر کوئی بُری موت ہوسکتی ہے
جو میں تمہیں دے رہا ہوں؟
علی بن سفیان نے کہا اگر تمہارے دیوتا سچے ہوتے تو وہ تمہیں اس شکنجے سے نکال نہ لیتے؟
تم اگر مرنے سے ڈرتے ہو تو موت یہاں بھی موجود ہے
تم بات کرو میرے ہاتھ میں ایک ایسا دیوتا ہے جو تمہیں تمہارے دیوتا سے بچالے گا
یہ سوڈانی حبشی کئی بار بے ہوش ہوچکا تھا اسے دیوتا نہیں موت صاف نظر آرہی تھی
علی بن سفیان نے اس کی زبان کھول لی اسے شکنجے سے کھول کر کھلایا اور پلایا اور آرام سے لٹا دیا اس نے اعتراف کیا کہ اُمِّ عرارہ کو اُن کے قبیلے کے چار آدمیوں نے اغوا کیا تھا وہ چاروں چُھٹی پر چلے گئے تھے
انہوں نے اغوا کی رات اور وقت بتا دیا تھا
یہ پانچ حبشی جو علی بن سفیان کے قبضے میں اُس رات پہرے پر تھے اغوا کرنے والوں میں سے دو کو اندر آنا تھا انہیں بڑے دروازے سے داخل کرنے کا انتظام انہوں نے کیا تھا اور انہیں اغوا اور فرار میں پوری مدد دی تھی
اس حبشی نے بتایا کہ اس لڑکی کو دیوتا کی قربان گاہ پر قربان کیا جائے گا ہر تین سال بعد ان کا قبیلہ چار روزہ جشن مناتا ہے لیکن لڑکی اپنے قبیلے کی نہیں ہوتی شرط یہ ہے کہ لڑکی غیر ملکی ہو سفید رنگ کی ہو اونچے درجے کے خاندان کی اور اتنی خوب صورت ہو کہ لوگ دیکھ کر ٹھٹھک جائیں
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تین سال بعد تمہارا قبیلہ باہر سے ایک خوب صورت لڑکی اغوا کرکے لاتاہے
علی بن سفیان نے پوچھا
نہیں یہ غلط ہے سوڈانی حبشی نے جواب دیا تین سال بعد صرف میلہ لگتا ہے لڑکی کی قربانی پانچ میلوں کے بعد یعنی ہر پندرہ سال بعد دی جاتی ہے مشہور یہی ہے کہ ہر تین سال بعد لڑکی قربان کی جاتی ہے
اس نے اپنے باپ کے حوالے سے وہ جگہ بتائی جہاں قربانی دی جاتی تھی پروہت کو وہ دیوتا کا بیٹا کہتا تھا جہاں میلہ لگتا تھا اس سے ڈیڑھ ایک میل جتنی دُور ایک پہاڑی علاقہ تھا جہاں جنگل بھی تھا
یہ علاقہ زیادہ وسیع اور عریض نہیں تھا
اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں دیوتا رہتے ہیں اور ان کی خدمت کے لیے جن اور پریاں بھی رہتی ہیں
لوگ اس لیے یہ باتیں مانتے تھے کہ ہر طرف صحرا اور اس میں جزیرے کی طرح کچھ علاقہ پہاڑی اور سر سبز تھا جو قدرت کا ایک عجوبہ تھا یہ دیوتائوں کا مسکن ہی ہوسکتا تھا اس علاقے میں فرعونوں کے وقتوں کے کھنڈر تھے
وہاں ایک جھیل بھی تھی جس میں چھوٹے مگر مچھ رہتے تھے
قبیلے کا کوئی آدمی سنگین جرم کرے تو اسے پروہت کے حوالے کر دیا جاتا تھا
پروہت اسے زندہ جھیل میں پھینک دیتا جہاں مگر مجھ اسے کھا جاتے تھے
پروہت انہی کھنڈروں میں رہتا تھا وہاں ایک بہت بڑا پتھر کا سر اور منہ تھا جس میں دیوتا رہتا تھا ہر پندرھویں سال کے آخری دنوں میں باہر سے ایک لڑکی اغوا کرکے لائی جاتی جو پروہت کے حوالے کردی جاتی تھی پروہت لڑکی کو ایک پھول سونگھاتا تھا جس کی خوشبو سے لڑکی کے ذہن سے نکل جاتا تھا کہ وہ کیا تھی
کہاں سے آئی تھی اور اسے کون لایا تھا اس پھول میں کوئی نشہ آور بو ڈالی جاتی تھی جس کے اثر سے وہ پروہت کو دیوتا اور اپنا خاوند سمجھ لیتی تھی
اسے وہاں کی گندی چیزیں بھی خوب صورت دکھائی دیتی تھیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لڑکی کی قربانی انہی کھنڈرات میں دی جاتی تھی
لڑکی کو پروہت تہہ خانے میں اپنے ساتھ رکھتا تھا
اس جگہ چار مرد اور چار خوب صورت لڑکیاں رہتی تھیں
ان کے سوا اور کسی کو پہاڑوں کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی لڑکی کو جب قربان گاہ پر لے جایا جاتا تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کی گردن کاٹ دی جائے گی وہ فخر اور خوشی سے مرتی تھی اس کا دھڑ مگر مچھوں کی جھیل میں پھینک دیا جاتا اور بال کاٹ کر قبیلے کے ہر گھر میں تقسیم کر دئیے جاتے تھے
ان بالوں کو مقدس سمجھا جاتا تھا لڑکی کا سر خشک ہونے کے لیے رکھ دیا جاتا تھا جب گوشت ختم ہوکر صرف کھوپڑی رہ جاتی تو اُسے ایک غار میں رکھ دیا جاتا تھا لڑکی کسی کو دکھائی نہیں جاتی تھی
پندرہ سال پورے ہو رہے ہیں
اب کے لڑکی کی قربانی دی جائے گی اس حبشی نے کہا ہم نو آدمی مصر کی فوج میں بھرتی ہوئے تھے
ہمیں چونکہ نڈر اور وحشی سمجھا جاتا ہے
اس لیے ہمیں خلیفہ کے محافظ دستے کے لیے منتخب کر لیا گیا دو مہینے گزرے ہم نے اس لڑکی کو دیکھا ایسی خوب صورت لڑکی ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی
ہم سب نے فیصلہ کر لیا کہ اس لڑکی کو اُٹھالے جائیں گے اور قربانی کے لیے پیش کریں گے ہمارے ایک ساتھی نے جو کل مارا گیا ہے اپنے گاؤں جاکر قبیلے کے بزرگ کو بتا دیا تھا کہ اس بار قربانی کے لیے ہم لڑکی لائیں گے ہم نے لڑکی کو اغوا کر لیا ہے
یہ قصہ صلاح الدین ایوبی کو سنایا گیا تو وہ گہری سوچ میں کھوگیا علی بن سفیان اس کے حکم کا منتظر تھا
سلطان ایوبی نے نقشہ دیکھا اور کہا اگر جگہ یہ ہے تو یہ ہماری عمل داری سے باہر ہے
تم نے شہر کے پرانے لوگوں سے جو معلومات حاصل کی ہیں ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ فرعون تو صدیاں گزریں مرگئے ہیں لیکن فرعونیت ابھی باقی ہے
بحیثیت مسلمان ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اگر دُور نہ پہنچ سکیں تو قریبی پڑوس سے تو کفر اور شرک کا خاتمہ کریں
آج تک معلوم نہیں کتنے والدین کی معصوم بیٹیاں قربان کی جاچکی ہیں اور اس میلے میں کتنی بیٹیاں اغوا ہوکر فروخت ہوجاتی ہیں
ہمیں دیوتاؤں کا تصور ختم کرنا ہے لوگوں کو دیوتاؤں کا تصور دے کر نام نہاد مذہبی پیشوا لڑکیاں اغوا کروا کے بدکاری اور عیاشی کرتے ہیں
میرے مخبروں کی اطلاعوں نے یہ بے ہودہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری فوج کے کئی کمان دار اور مصر کے پیسے والے لوگ اس میلے میں جاتے اور لڑکیاں خریدتے یا چند دنوں کے لیے کرائے پر لاتے ہیں
علی بن سفیان نے کہا کردار کی تباہی کے علاوہ یہ خطرہ بھی ہے کہ سوڈانیوں کی برطرف فوج کے عسکری اس میلے میں زیادہ تعداد میں جاتے ہیں۔ہماری فوج اور ہمارے دوسرے لوگوں کا سوڈانی سابقہ فوجیوں کے ساتھ ملنا جلنا اور جشن منانا ٹھیک نہیں یہ مشترکہ تفریح ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے
علی بن سفیان نے ذراجھجک کر کہا اور لڑکی کو قربان ہونے سے پہلے بچانا اور خلیفہ کے حوالے کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس نے آپ پر اغوا کا جو الزام عائد کیاہے،وہ کتنا بے بنیاد اور لغو ہے
'مجھے اس کی کوئی پروا نہیں علی سلطان ایوبی نے کہا میری توجہ اپنی ذات پر نہیں مجھے کوئی کتنا ہی حقیر کہے میں اسلام کی عظمت کے فروغ اور تحفظ کو نہیں بھول سکتا میری ذات کچھ بھی نہیں اور تم بھی یاد رکھو علی اپنی ذات سے توجہ ہٹا کر سلطنت کے استحکام اور فلاح و بہبود پر مرکوز کردو اسلام کی عظمت کا امین خلیفہ ہوا کرتا تھا
مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلیفہ اپنی ذات میں گم ہوتے گئے اور اپنے نفس کا شکار ہوگئے اب ہماری خلافت اسلام کی بہت بڑی کمزوری بن گئی ہے
صلیبی ہماری اس کمزوری کو استعمال کر رہے ہیں
اگر تم کامیابی سے اپنے فرائض نبھانا چاہتے ہوتو اپنی ذات اور اپنے نفس سے دست بردار ہو جاؤ خلیفہ نے مجھ پر جو الزام عائد کیا ہے اسے میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا ہے میں اوچھے وار کا جواب دے سکتا تھا مگر میرا وار بھی اوچھا ہوتا پھر میں ذاتی سیاست بازی میں اُلجھ جاتا
مگر میرا وار بھی اوچھا ہوتا پھر میں ذاتی سیاست بازی میں اُلجھ جاتا مجھے خطرہ یہی نظر آرہا تھا کہ ملتِ اسلامیہ کسی دور میں جاکر اپنے ہی حکمرانوں کی ذاتی سیاست بازیوں خود پسندی نفس پرستی اور اقتدار کی ہوس کی نذر ہوجائے گی
'گستاخی کی معافی چاہتا ہوں محترم امیر علی بن سفیان نے کہا اگر آپ اس لڑکی کو قربان ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو حکم صادر فرمائیے وقت بہت تھوڑا ہے پرسوں سے میلہ شروع ہو رہا ہے
فوج میں یہ حکم فوراً پہنچا دو کہ اس میلے میں کسی فوجی کو شریک ہونے کی اجازت نہیں سلطان ایوبی نے نائب سالار کو بلا کر کہا خلاف ورزی کرنے والے کو اس کے عہدے اور رتبے سے قطع نظر پچاس کوڑے سر عام لگائے جائیں گے
اس حکم کے بعد سکیم بننے لگی متعلقہ حکام کو سلطان ایوبی نے بلا لیا تھا اس نے سب سے کہا تھا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس طلسم کو توڑنا ہے
یہ جگہ فرعونیت کی آخری نشانی معلوم ہوتی ہے
پہلے فوج کشی زیرِ بحث آئی جو اس وجہ سے خارج از بحث کردی گئی کہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنے اوپر باقاعدہ حملہ سمجھیں گے لڑائی ہوگی جس میں میلہ دیکھنے والے بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں گے اور عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کا خطرہ بھی ہے
یہ حل بھی پیش کیا گیا کہ اس سوڈانی حبشی کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کیا کیونکہ دھوکے کا خطرہ تھا
اس وقت تک سلطان ایوبی کے حکم کے مطابق چھاپہ ماروں اور شب خون مارنے والوں کا ایک دستہ تیار کیا جا چکا تھا اسے مسلسل جنگی مشقوں سے تجربہ کار بنا دیا گیا تھا کہ وہ جانبازوں کا دستہ تھا جنہیں جذبے کے لحاظ سے اس قدر پختہ بنا دیا گیا تھا کہ وہ اس پر فخر محسوس کرنے لگے کہ انہیں جس مہم پر بھیجا جائے گا اس زندہ واپس نہیں آئیں گے
نائب سالار الناصر اور علی بن سفیان کے مشوروں سے یہ طے ہوا کہ صرف بارہ چھاپہ مار اس پہاڑی جگہ کے اندر جائیں گے جہاں پروہت رہتا ہے اور لڑکی قربان کی جاتی ہے حبشی کی دی ہوئی معلومات کے مطابق اس رات میلے میں زیادہ رونق ہوتی ہے کیونکہ وہ میلے کی آخری رات ہوتی ہے قبیلے کے لوگوں کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں ہوتا کہ لڑکی قربان کی جا رہی ہے
جسے معلوم ہوتا ہے وہ یہ نہیں جانتا کہ قربان گاہ کہاں ہے ان معلومات کی روشنی میں یہ طے کیا گیا کہ پانچ سو سپاہی میلہ دیکھنے والوں کے بھیس میں تلواروں وغیر ہ سے مسلح ہو کر اس رات میلے میں موجود ہوں گے ان میں سے دو سو کے پاس تیر کمان ہوں گے اُس زمانے میں ان ہتھیاروں پر پابندی نہیں تھی چھاپہ ماروں کے ذہنوں میں واضح تصور کی صورت میں جگہ نقش کر دی جائے گی وہ براہِ راست حملہ نہیں کریں گے چھاپہ ماروں کی طرح پہاڑی علاقے میں داخل ہوں گے پہرہ داروں کو خاموشی سے ختم کریں گے اور اصل جگہ پہنچ کر اس وقت حملہ کریں گے جب لڑکی قربان گاہ میں لائی جائے گی اس سے قبل حملے کا یہ نقصان ہوسکتا ہے کہ لڑکی کو تہہ خانے میں ہی غائب یا ختم کر دیا جائے گا یہ معلوم ہوگیا تھا کہ قربانی آدھی رات کے وقت پورے چاند میں ہی دی جاتی ہے پانچ سو سپاہیوں کو اس وقت سے پہلے قربان گاہ والی پہاڑیوں کے اِرد گرد پہنچنا تھا چھاپہ ماروں کے لیے گھیرے میں آجانے یا مہم ناکام ہونے کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی کہ وہ فلیتے والا ایک آتشیں تیراوپر کو چلائیں گے اس تیر کا شعلہ دیکھ کر یہ پانچ سو نفری حملہ کردے گی
اسی وقت بارہ جانباز منتخب کر لیے گئے اور اس فوج میں سے جو دو سال پہلے نور الدین زنگی نے سلطان ایوبی کی مدد کے لیے بھیجی تھی پانچ سو ذہین اور بے خوف سپاہی عہدے دار اور کمان دار منتخب کر لیے گئے یہ لوگ عرب سے آئے تھے مصر اور سوڈان کی سیاست بازیوں اور عقائد کا ان پر کچھ اثر نہ تھا وہ صرف اسلام سے آگاہ تھے اور یہی ان کا عقیدہ تھا وہ ہر اس عقیدے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے تھے جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے تھے انہیں بتایا گیا کہ وہ ایک باطل عقیدے کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انہیں اپنے سے زیادہ نفری سے مقابلہ کرنا پڑے اور لڑائی خونریز ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُن کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہ سکے اور بغیر لڑائی کے مہم سر ہوجائے انہیں سکیم سمجھا دی گئی اور ان کے ذہنوں میں پہاڑی علاقے کا اور ان پہاڑویوں کی بلندی جو زیادہ نہیں تھی اور ان میں گھر ی ہوئی قربان گاہ کا تصور بٹھا دیا گیا بارہ جانبازوں کو بھی ان کے ہدف کا تصور دیا گیا انہیں ٹریننگ بڑی سختی سے دی گئی تھی پہاڑیوں پر چڑھنا اور ریگستانوں میں دوڑنا بھوک اور پیاس اونٹ کی طرح برداشت کرنا اُن کے لیے مشکل نہیں تھا
قربانی کی رات کو چھ روز باقی تھے تین دن اور تین راتیں چھاپہ ماروں اور پانچ سو سپاہیوں کو مشق کرائی گئی چوتھے روز چھاپہ ماروں کو اونٹوں پر روانہ کر دیا گیا اونٹوں کی میانہ چال سے ایک دن اور آدھی رات کا سفر تھا شتر بانوں کی حکم دیا گیا تھا کہ چھاپہ ماروں کو پہاڑی علاقے سے دُور جہاں وہ کہیں اُتار کر واپس آجائیں پانچ سو کے دستے کو تماشائیوں کے بھیس میں دو دو چار چار ٹولیوں میں گھوڑوں اور اونٹوں پر روانہ کیا گیا انہیں جانور اپنے ساتھ رکھنے تھے
ان کے ساتھ ان کے کمان دار بھی اسی بھیس میں چلے گئے
میلے کی آخری رات تھی ۔ ۔ ۔پورا چاند اُبھر تا آرہا تھا ۔صحرا کی فضا شیشے کی طرح شفاف تھی میلے میں انسانوں کے ہجوم کا کوئی شمار نہ تھا کہیں نیم برہنہ لڑکیاں رقص کر رہی تھیں اور کہیں گانے والیوں نے مجمع لگا رکھا تھا سب سے زیادہ بھیڑ اس چبوترے کے اِردگرد تھی جہاں لڑکیاں نیلام ہو رہی تھیں ایک لڑکی کو چبوترے پر لایا جاتا گاہک اسے ہر طرف سے دیکھتے اس کا منہ کھول کر دانت دیکھتے بالوں کو اُلٹا پلٹا کر دیکھتے جسم کی سختی اور نرمی محسوس کرتے اور بولی شروع ہوجاتی وہاں جواء بھی تھا، شراب بھی تھی اگر وہاں نہیں تھا تو قانون نہیں تھا پوری آزادی تھی دُور دُور سے آئے ہوئے لوگوں کے خیمے میلے کے اِرد گرد نصب تھے تماشائی مذہب اور اخلاق کی پابندیوں سے آزاد تھے انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان سے تھوڑی ہی دُور جو پہاڑیاں ہیں
ان میں ایک خوب صورت لڑکی کو ذبح کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے اور وہاں ایک انسان دیوتا بنا ہوا ہے
وہ اتنا ہی جانتے تھے کہ ان پہاڑیوں میں گھرا ہوا علاقہ دیوتائوں کا پایۂ تخت ہے جہاں جن اور بھوت پہرہ دیتے ہیں اور کوئی انسان وہاں جانے کی سوچ بھی نہیں سکتا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*